• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تربیت اولاد کے عملی اقدام!

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے یہاں سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ امت زبوں حالی کا شکار ہے۔وجہ تلاشیں تو امت کی نسلیں تباہ ہو رہی ہیں کیونکہ انکی تربیت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔بطور ماں ایک عورت کی ذمہ داری ہے کہ بچے کو نفسیاتی،ذہنی،جسمانی ہر قسم کی تربیت فراہم کرے لیکن ماں یہ کام کیوں نہیں کرتی؟
میرے مشاہدے کے مطابق اول مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ماں کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کہ اللہ عز وجل نے کس عظیم نعمت سے اسے نواز کر کس درجے پر فائز ہونے کا موقع دیا ہے۔دوم یہ کہ ماں کی اپنی ذہنی تربیت نہیں ہوئی۔وہ کسی نہ کسی حوالے سےخود احساس کمتری میں مبتلا رہی ہے۔ اپنے آپ کو میکے یا سسرال اور خصوصا خاوند کی میٹھی میٹھی طعنہ زنی کے باعث اپنے آپ کو اولاد کی عمدہ تربیت کے قابل نہیں سمجھتی۔تیسری چیز یہ کہ اگر درج بالا دونوں مسائل نہ ہوں تو اسے اردو میں تربیت اولاد خصوصا نفسیاتی پرورش کے حوالے سے خاطر خواہ مواد میسر نہیں۔اس دھاگے میں ہم کوشش کریں گے کہ ماؤں کی ان درج بالا مسائل میں رہنمائی کی جائے۔تمام اراکین خصوصابہنوں سے شرکت کی درخواست ہے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
آج کل سوشل میڈیا کا بھوت ہر ایک کے سر پر سوار ہے۔بیک وقت چار نسلیں اسی ٹک ٹک میں مصروف ہیں۔سوشل میڈیا ہرگزمضر نہیں اگر اسے صرف وقت گزاری کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک ماں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تربیت اولاد کے پہلو کو مد نظر رکھ سکتی ہے؟طفلی نامی ف ب صفحہ تربیت اولاد(جسمانی،ذہنی،دینی) میں نہایت عمدہ کام کر رہا ہے۔
https://www.facebook.com/Tiflee.pk/
بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ اس صفحے کو لائک کر کے پہلے دیکھیں(سی فرسٹ) آپشن پر کلک کر دیجیے۔ف ب میں لاگ ان ہونے کے بعد سب سے پہلے طفلی کی پوسٹس آپ میں ضرور بالضرور مثبت کردار ادا کریں گی۔آزمائش شرط ہے۔یاد رہےصرف ماں ہی نہیں،خالہ،پھپھو،نانی اور دادی بھی تربیت اولاد کی مکلف ہیں۔اگر والدہ کا ف ب اکاونٹ نہیں تو ان سطور کو پڑھنے والے والد کو چاہیے کہ وہ اپنی دیگر سوشل میڈیا مباحث سے ذرا سی توجہ بٹا کر اسے لائک کرے اور اپنی اہلیہ کو پڑھائے ۔کیونکہ اولاد کے ہر عمل کی ذمہ دار ماں نہیں،اللہ نے والد کو بھی مکلف ٹھہرایا ہے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
چھ سات ماہ کے بچے کے چہرے پر رونے کے آثار نمودار ہوئے ہی تھےکہ اس کی خالہ نے جھٹ سمارٹ فون پر گانا لگا دیا۔میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ماں بچے کو گود میں لے رہی تھی۔میں قدرے پرسکون ہو گئی۔لیکن ادھر ماں نے گانا بدل کر دوسرا گانا لگا دیا۔میں ششدر رہ گئی۔ایک ماں بھی اپنے بچے کیساتھ یہ زیادتی کر سکتی ہے؟؟
ماں کی اولین ترجیح بچے کو محبت سے بہلانا ہونا چاہیے گا۔وہ اسے پیار کرتی،اپنی آغوش میں لیتی اور اس کی تنگی کی وجہ جانتی۔ہم ہمیشہ ایسا کرنے میں خطا کر جاتے ہیں۔پہلے ہمسائی کی بہو کی بھانجی کی شادی کا احوال کا دریافت کر لیں،سپر مارکیٹ میں لگی سیل کی کہانی سن لیں۔پھر بچے کی طرف متوجہ ہوں گے۔اگر بچہ زیادہ ضد کرے تو اس کی بات سننے کی بجائےدو چار لگانے سے بھی قعطا گریز نہیں کریں گی۔ایسے رویے کا عادی بچہ معاشرے کا صحت مند فرد نہیں بن سکتا۔جسے محبت کی عمر میں محبت ملی نہیں،وہ خاک محبت بانٹے گا۔ماں کی ایک کوتاہی نسل در نسل مسائل پیدا کردیتی ہے۔
دوسری بات کہ اگر بچے کو بہلانا ہی ہے تو کسی اچھی چیز سے بہلائیے۔باعلم،دین سے منسلک ماں کبھی بھی بچے کو بہلانے کے نام پر لغویات نہیں سنائے یا دکھائے گی۔وہ اگر خود مصروف بھی ہے تو تلاوت یا کسی اچھی نظم سے اسے بہلانے کی کوشش کرے گی۔جب ہم ابتدا میں ہی بچے کے دل میں حرام کی محبت ڈال دیں گے تو پھر بڑے ہو کر اسے قرآن پڑھنے یا نماز ادائیگی کے لیے بھیجنا دنیا کا مشکل ترین کام ہو گا۔مجھے یاد ہے کہ ام سارہ نے سارہ کو ابتدا سے ہی قرآن سنایا اور پڑھایا۔حتی کہ اسے چپ کروا کر چیز بھی دینی ہوتی تو پہلے اسے کہتیں کہ وہ تلاوت کرے،پھر اسے انعام میں ٹافی ملے گی۔سب عزیزات حیران ہوتیں کہ اس چار سالہ بچی کو کیسے اتنا حفظ کرواتی ہو؟کتنی محنت؟کیا طریقہ کار ہے؟وہ ہمیشہ بتاتیں کہ کچھ خاص نہیں۔بس یہی معمول ہے لیکن ماننا کسے تھا؟ایک دن ام سارہ پوچھنے لگیں کہ یہ آپ کی چار سالہ بیٹی اتنے ڈھیر گانے کیسے گا لیتی ہے؟"بس وہ خالہ کی شادی پر سنے تھے ناں اس نے۔۔۔۔وہیں سے یاد ہو گئے"ام سارہ نے جوابا بتایا کہ بس یہ سننے سنانے کا ہی تو معاملہ ہے۔
جی ہاں!بچہ ابتدا سے جو سنے گا،ساری زندگی وہی سنائے گا۔اپنے بچے کی اخلاقی و دینی تربیت پر بھرپور توجہ دیجیے۔اسے ہم سے سخت دور جھیلنا ہے۔
 

ام مصعب

مبتدی
شمولیت
جنوری 04، 2017
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
7
خدارا اپنی جان پر نہیں تو بچوں کے معصوم ذہنوں پر رحم کرو!!
گیارہ ماہ کا مصعب لپک لپک کر سفر کے دوران پچھلی سیٹ پر جا رہا تو میرا دل خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ۔۔۔ میرا بچہ کتنا سوشل ہے ہر ایک سے دوستی کر لیتا۔۔۔۔ تھوڑی دیر پیچھے دکھانے کے بعد میں تھک کر اسکی توجہ اگلی سیٹ پر بیٹھے افراد کی طرف کرواتی تو چند لمحات بعد وہ دوبارہ اپنے پرانے ساتھیوں کی طرف لوٹ آنے کے لیے مچلتا۔۔۔پندرہ منٹ یہ کھیل کھیلنے کے بعد میرے دل میں خیال آیا شاید پیچھے اس کے دادا،نانا یا بابا کا ہم شکل کوئی بیٹھا جو یہ اتنا لپک رہا ۔۔۔ میں نے کانی آنکھ سے پیچھے کی طرف دیکھا تو اچھی خاصی عمر کے بھائی موبائیل پر خود سٹیج ڈرامہ دیکھ رہے ہوں یا نہ میرے بیٹے کو مسلسل دکھا رہے تھے اور بیٹے کا لپکنا اس بھائی کی طرف نہیں بلکہ ڈرامہ کی طرف تھا۔۔۔یہ دیکھتے ہی میرے جسم سے جان نکل گئی کہ اب یہ حالات ہو گئے ہیں۔۔۔۔ میں نے اپنے بیٹے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے اور اسے بتایا کہ یہ حرام حرکت ہے اور کوشش کی بلند آواز سے دکھانے والے محترم کو شرم دلائی جائے لیکن لپکنا بھی بدستور قائم رہا اور ڈرامہ بھی مسلسل چلتا رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد مجھے اپنا موبائیل اس میں موجود اناشید اور تلاوت یاد آئی تو میرا سختی کا مرحلہ ختم ہوا
اللہ رب العزت ہمیں اور ہماری اولاد کو نیکی کے راستے پر چلائے

Sent from my HUAWEI TIT-AL00 using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بچے کی مثال ایک چلتے ہوئے کیمرے کی ہے ۔ جو کچھ اس کے سامنے ہوگا ، اسے محفوظ کرلے گا۔
بلکہ بعض دفعہ تو بچہ آئینے کا کام دیتا ہے ، آپ کے پاس بیٹھے بچے کی حرکات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔
خوشبو لگاتے ہوئے پاس بیٹی کھڑی ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ میں کہاں کہاں ہاتھ پھیرتا ہوں ۔ :)
لہذا بچوں کی درست تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کے بڑے مناسب تربیت یافتہ ہوں ۔ ورنہ بڑوں کی الٹی سیدھی حرکات بچوں میں وائرس کی طرح بنا کسی بٹن دبائیں انسٹال ہوجاتی ہیں ۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
بچے رویا ہی کرتے ہیں بلکہ بعض بچے صرف رویا ہی کرتے تھے))ماں کب تک بہلائے؟تھک کر ڈپٹ دیتی ہے۔لیکن بہلانے اور چپ کروانے کے دوران ایک کام یہ کیجیے کہ بچے کو آہستہ آواز سے چپ کروانے کی کوشش کریں۔آہستہ آہستہ از خود بچے کی آواز بھی دھیمی ہونا شروع ہو جائے گی۔بچہ مخاطب سے جو دھاڑ سنتا ہے،خود اس سے دو گنا چیخ چیخ کر روتا ہے۔بچہ جو سہتا ہے،اس سے زیادہ اظہار کر کے ہی تسلی پاتا ہے۔معمول میں بھی آہستہ آواز سے بات کیجیے،بچہ آہستہ بات کرنے کا عادی بن جائے گا۔لازم نہیں کہ ہر بچہ آہستہ آواز میں بات کرنے لگے لیکن فرق بہرحال ضرور پڑتا ہے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
"کمینے۔۔۔اب اٹھ بھی جا!!۔۔۔فجر کی نماز کا وقت نکل رہا ہے"بند دروازے کے پار سے آواز آ رہی تھی۔دل مسوس ہو کر رہ گیا۔"کمینے" نے اٹھنا تھا نہ اٹھا لیکن ایک سوالیہ نشان ضرور چھوڑ گیا کہ کیا نماز کے لیے اٹھانے کا یہ انداز ہوا کرتا ہے؟ایک ماں کا جواں سال بیٹے کو اس طرح بلانا مناسب ہے؟
"کتے۔۔۔بیغیرت!!کیا بولا ہے تو نے؟"ماں سے بوجہ غصہ بولا تک نہیں جا رہا تھا۔"کہاں سے سیکھا ہے یہ لفظ؟آئندہ یہ کمینہ بولے سہی یہ لفظ۔۔۔بتانا مجھے"
یا حیرت!!اس طرز تکلم سے بچہ کیا سیکھے گا۔اپنا لفظ بھول کر ماں کے سنائے الفاظ رٹ کر جب انہیں دہرائے گا تو آپ کیا کہیں یا کریں گی؟بچے کو ڈانٹ میں بھی سخت سست نہ کہیے نہ کوئی حیا باختہ لفظ منہ سے نکالیے۔کراما کاتبین کے رجسٹر کے علاوہ ایک خالی تختی پر بھی کچھ رقم ہو رہا ہے۔خیال رکھیے!!
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
میں نے تین سالہ رملہ کو بتایا کہ یہ اتناااااااا بڑا ڈائناسار ہے اور یہ پلاسٹک ہے۔چھو کر دکھایا کہ یہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔اس کا خوف قدرے کم ہوا لیکن وہ اس کو چھونے پر راضی نہیں تھی۔دو تین منٹ کی بات چیت کے بعد ہم پارک کے اندر میں چلے گئے۔ڈھائی تین ماہ بعد رملہ کی پھوپھو اسے لیے اسی پارک میں گئیں تو وہ خوشی سے چلانے لگی"ڈائنا ساااار۔۔۔ڈائنا سار۔۔یہ ڈائنا سار ہے۔"پھوپھو کو حیرت ہوئی،سمجھیں کہ کہیں تصویر دیکھی ہو گی ورنہ کیسے پہچان ہو گئی؟واپس آ کر مجھ سے ذکر کیا تو ہم دونوں حیران ہوئیں۔
پہلی بات کہ ہم بچوں کو جب بھی کوئی بات بتانا یا سکھلانا چاہتے ہیں،انہیں رٹا لگوانے کی کوشش کرتے ہیں۔"یہ بھالو ہے بھالو۔۔"ضرب سو"آپ نے ہاتھ گندے نہیں کرنے۔۔۔ایسے"ضرب ہزار۔بچے کو نرمی سے مکمل توجہ کے ساتھ دہرائی بات ،ہزار بات کہی بات سے موثر ہے۔
دوسری بات کہ ہم بچوں کو ہمیشہ ایک مخصوص قاعدے سے سال بھر پڑھاتے ہیں۔ا انار،ب بلی۔۔۔اور اس طرح سال میں وہ لگ بھگ سو اشیاء کو جانتا ہے۔ہم مانتے ہیں کہ مشاہدہ بہت اہم ہے۔لیکن ہم چھوٹے بچے کے مشاہدے پر توجہ نہیں دیتے۔قاعدے سے پڑھانے کی بجائے بچے کو دنیا دکھائیے۔ا سے ی تک سبزیاں دکھائیے۔۔۔اسی طرح جانور۔۔۔الف بائی ترتیب اور کس سے کیا بنتا ہے؟ تو وہ بعد میں سیکھ ہی لیں گے۔اشیاء کا براہ راست مشاہدہ جہاں ان کے مشاہدے کو تیز کرتا ہے وہیں ذہن کو بھی وسیع کرتا ہے اور اس کے لیے بچے کو تین سالہ کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
چھ سالہ مسفرہ دھاڑ دھاڑ رو رہی تھی۔بچوں کی عادت ہوتی ہے سونے سے قبل رونے کی۔بلکہ یہ نیند کی علامت سمجھی جاتی ہے۔اس وقت بھی وہ کسی چیز کی خوامخواہ ضد کرکے رو رہی تھی۔ام مسفرہ نے ابو مسفرہ کو بلا بھیجا کہ اسے چپ کروائیں،مجھ سے نہیں سنبھل رہی۔وہ اسے لیکر دوسرے کمرے میں آ گئے۔بھائیوں کی بات چیت میں خلل پڑتا دیکھ کر اس کی چچا زاد بہن ماہا نے مسفرہ کو اٹھا لیا۔اسے اتنی عمر کے بچے کو بہلانے کا تجربہ بالکل بھی نہیں تھا۔لیکن اس وقت اسے بہلانے کی خاطر سے اپنے ساتھ لپٹا کر تھپکتے ہوئے اسے بچوں کی نظمیں سنانے لگی۔ٹوٹ بٹوٹ،چڑیا کے گھر،لکڑی کی کاٹھی۔دو سے تین منٹ کے اندر اندر اس کے رونے کی آواز مدہم ہوتے ہوتے بالکل غائب ہو گئی۔تھپکی کے ساتھ نئی نئی نظمیں سنتے ہوئے،اگلے چند لمحات میں پرسکون نیند سو رہی تھی۔
مسفرہ سو گئی تھی۔اس نے بالآخر سونا ہی تھا۔چاہے اسے کوئی تھپکتا یا نہ تھپکتا۔لوری دیتا یا پٹائی کرتا۔لیکن ماہا کے طرز عمل سے کیا مثبت تبدیلی آئی؟وہ جلد سو گئی۔اسے اونچی آواز میں مستقل طور پر رونے کی سزا نہیں ملی۔اس کی نیند پر سکون تھی،وہ رات ڈر کر نہیں اٹھے گی۔رات سوتے وقت آخری چیز دلچسپ نظمیں تھیں،اسے یاد رہیں گی۔آئندہ بھی وہ ماہا کے پاس سو جایا کرے گی۔تھوڑی سی توجہ سے بچے کو صحت مند ذہن و زندگی دینا بہت بڑی عقلمندی ہے۔ہم مائیں بچوں کو روتا دیکھتی ہیں تو پہلے سنک میں پڑی آخری دو پلیٹیں دھونے کے چکر میں پڑجاتی ہیں۔باجی کے فون پر دو چار "اہم "باتیں رہ جانے کے خوف سے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔لہذا جس پیار کا وہ فوری متلاشی تھا،وہ اسے اس وقت نہیں ملا۔اب وہ اور بگڑ کر ضد کرتا ہے،ماں فارغ ہو کر اسے چپ کرواتی ہے اور پھر ڈپٹ کر اسے سلا دیتی ہے۔مانا کہ بچے کو فورا دیکھنا مشکل کام ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ایک صحت مند شخصیت آپ کے مثبت رویے کی بدولت وجود میں آ سکتی ہے۔سونے سے قبل بچے کو اپنے ساتھ لپٹا کر تلاوت،کہانیاں اور نظمیں خود سنانے کی عادت ڈالیے۔سونے سے قبل بچے کے ساتھ آپ کا آخری رویہ اس کی اچھی یا بری نیند کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
تربیت اولاد میں باپ کی ذمہ داریوں کی بات کی جائے تو باپ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ماں کی عزت کرے۔ناصرف خود اس کی عزت کرے بلکہ اس کی عزت کروائے اور معاشرے میں اسے با عزت بنائے اور اس کا دفاع کرے۔(ہمارے ہاں عجب افراط و تفریط ہے کہ یا تو بیوی کی ہر بات پر اٰمنا و صدقنا یا پھر اسے بلکل ہی اہمیت نہ دینا)
چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ان پر عمل کرنے کی کوشش کیجیے۔
1)چیخنے چلانے اورتُو،تڑاخ سے گریز کریں۔چاہے غلطی بیوی کی ہو،آرام سے بھی حل ہو سکتی ہے۔
2)بیوی کی بات غور سے سنیں اور اگر کوئی نقصان نہیں تو اس کی بات کو بھی وقتا فوقتا ترجیح دیں اور بچوں کو باور کروائیں کہ یہ،آپکی امی کی پسند ہے۔
3)بیوی بیمار ہو تو اپنے کام خود کریں تا کہ آئندہ بچے اس بات کو سمجھیں اور سیکھیں۔
4)بچوں کے سامنے ایسی بات نہ کریں کہ جس سے بیوی ہتک محسوس کرے ۔
بچے والدین کے ذاتی تعلقات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔جس گھر میں والدین آپس میں ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں،اس گھر کے بچے خود بخود دوسروں اور بعد میں اپنے شوہر،بیوی کی عزت کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بروکن فیملیز کے بچے بہت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ بچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں،جن کی آنکھ ماں کی بے عزتی سے کھلتی اور اسی پر بند ہوتی ہے۔چاہے وہ بے عزتی باپ کی طرف سے ہو،دادا،دادی یا پھپھو اور تائی کی طرف سے۔جب بچہ دوسروں کو ماں پر چیختا ہوا دیکھتا ہے تو اس کے دل سے ماں کی عزت آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور اگلے مرحلے میں وہ ماں کی بات نہیں مانتا۔پھر ہم اعتراض کرتے ہیں کہ"ماں کی تربیت کا قصور ہے"یا"پتا نہیں یہ ایسا کیوں کرنے لگا ہے؟"
ہم سب کو یہ تلخ حقیقت قبول کرنا ہو گی کہ ہمارے گھروں میں دیور تک بھابھی کی بے عزتی کیا ہاتھ تک اٹھا جاتا ہے اور پھر ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے فرمانبردار ہوں۔زوجین کو ایک دوسرے کی عزت کرنا ہو گی۔ماں کو حق حاصل ہے کہ وہ میکے میں خاوند کی برائی کرے نہ شوہر کو حق ہے کہ دوستوں میں بیٹھ کر بیوی کا مذاق بنائے یا بنوائے۔اگر زوجین نے ایک دوسرے کو عزت دینا سیکھ لی تو سمجھ لیجیے کہ تربیت کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا۔
 
Top