• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترجمہ و تشریح سورت المائدہ. ۔

شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سورۃ المائدہ آیت نمبر تین کی بقیہ تفسیر.
((ما اکل السبع))سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کها جائے اور اس سبب سے وہ مر جائے تو اس جانور کو کهانا حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالا جمع حرام ہے-
اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کها لیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا ہے.
پھر فرماتا ہے مگر ذبح وہ جسے تم ذبح کر لو، یعنی گلا گھونٹا ہوا، لٹهہ مارا ہوا اوپر سے گر پڑا ہوا سینگ اور ٹکر لگا ہوا درندوں کا کهایا ہوا اگر اس حالت میں تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لیے حلال ہو جائیں گے-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سعید بن جبیر، حسن اور سدی رح یہی فرماتے ہیں, حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر تم ان کو اس حالت میں پا لو کہ چھری پھرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پهر آئیں تو بے شک ذبح کر کے کها لو، ابن جریر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کها سکتے ہو -
حضرت طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بهی اس جانور کی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے.
جمہور فقہاء کا یہی مزہب ہے ۔
تینوں اماموں کا بهی یہی قول ہے امام مالک البتہ اس بکری کے بارے میں جسے درندہ پھاڑ ڈالے اور آنتیں نکل آئیں تو فرماتے ہیں کہ ذبح نہ کیا جائے ۔"
بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا-"
رسول اللہ ﷺ ہم کل دشمنوں سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کر لیں-"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کها لو سوائے دانت اور ناخن کے یہ اس لیے کہ ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں ۔
نصب پر جو جانور ذبح کئے جائیں وہ بھی حرام ہیں، مجاہد رح فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے ارد گرد تهیں -
ابن جریر رح فرماتے ہیں یہ تین سو ساٹھ بت تهے جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانوروں کو قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تهے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تهے - ((صحیح بخاری کتاب الحج))
پس اللہ تعالٰی نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا ہے اور ان جانوروں کا کهانا بھی حرام کر دیا -
اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ بهی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک نے اور اس کے رسول ﷺ نے حرام کیا ہے، اور یہی لائق ہے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھاوے چڑھائیں جائیں-
(( ازلام))
سے تقسیم کرنا جو حرام ہے وہ وہ ہے جو جاہلیت کے عرب میں دستور تها کہ انہوں نے تین تیر رکهہ چھوڑے تهے ایک پر لکھا تھا ((افعل)) یعنی کر، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے ۔ تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی نہیں تھا لکھا ہوا.
وہ لوگ بطورِ قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے اگر حکم،"کر" کا تیر نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلتا تو باز آ جاتے اگر خالی تیر نکلا تو نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے، الازلام، جمع ہے زلم کی اور بعض زلم یعنی( ز اور لام پر زبر) کہتے-
استسقام کے معنی ہیں ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کنوئیں پر نصب تھا -
جس کنویں میں خانہ کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تهے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا، جس کام میں کوئی اختلاف پڑ جاتا یہ قریشی یہاں آ کر ان تیروں کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے-
بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مجسمے گڑے ہوئے تھے جن کے ہاتھوں میں تیر تهے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی ((صحیح بخاری کتاب الحج))
صحیح حدیث میں ہے کہ صرافہ بن مالک بن جعشم جب رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈھونڈنے کے لیے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور رسول اللہ ﷺ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح
قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو مرضی کے ن تھا میں نے پهر تیروں کو ملا جلا کر تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا کہ تو انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا، میں نے پهر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کے لیے تیر نکلا تو اب کے بهی یہی تیر نکلا لیکن ہمت کر ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکل کهڑا ہوا-
اس وقت صرافہ مسلمان نہیں تھا یہ رسول اللہ ﷺ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا.
ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے یا تیر اندازی کرے یا کسی بد فالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے-"
حضرت مجاہد رح نے یہ بھی کہا کہ عرب ان تیروں کے ذریعے اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام کیا جاتا ہے○
ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تهے تو تیر استخارہ کے لیے مگر ان سے جوا بهی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے - واللہ اعلم -
اسی صورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ ایمان والو شراب جوا بت اور تیر فال کے نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ان کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے، الخ اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے ۔
اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالٰی سے استخارہ کر لو اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو -مسند احمد-
بخاری و سنن میں مروی ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ ہمیں جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بهی تعلیم فرماتے تھے، رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے تو اسے چاہیے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر دعائے استخارہ کرے.
جاری ہے
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کچھ حلال ہے؟ تو کہہ دے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں اور جن حاصل کرنے والے، شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدها رکها ہو کہ تم انہیں تھوڑا بہت وہ سکھاوٴ جس کی تعلیم اللہ نے تمہیں دے رکهی ہے ۔ پس وہ شکار کو تمہارے لیے پکڑ کر روک رکھیں تم اسے کها لو اور اس پر اللہ کا نام ذکر کر لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے ○
( سورة المائدہ ) ( آیت نمبر 4)
تشریح و تفسیر________
✍شکاری جانوروں کے ذریعے شکار
چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نقصان پہنچانے والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی، پھر ضرورت کی حالت کے احکامات مخصوص کرائے گئے جیسے فرمانِ الٰہی ہے ((و قد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما اضطررتم الیه (سورة انعام))
یعنی تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے تمہارے سامنے آ چکا ہے اور یہ اور بات ہے کہ تم حالات کی بنا پر بے بس اور بے قرار ہو جاو تو اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ حلال چیزوں کے دریافت کرنے والوں سے کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں ۔ سورة اعراف میں رسول اللہ ﷺ کی یہ صفت بیان گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ طیب چیزوں کو حلال کرتے اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں.
مقاتل رح فرماتے ہیں کہ ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے ۔
امام زہری رح سے سوال کیا گیا کہ دوا کے طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے؟ جواب دیا کہ وہ طیبات میں داخل نہیں-
امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں فرمایا وہ طیبات میں داخل نہیں ہے اور تمہارے لیے شکاری جانوروں کے ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے مثلاً سدھے ہوئے کتے اور شکرے وغیرہ کے ذریعے-
یہی مزہب جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین آئمہ کرام رح وغیرہ کا ہے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شکاری سدھے ہوئے کتے، باز، شکرے، چیتے وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے کی تعلیم دیا جا سکتا ہو اور به بہت سے بزرگوں سے یہی مروی ہے (تفسیر ابن جریر)
کہ پھاڑنے والے جانوروں اور ایسے ہی پرندوں میں سے جو بھی تعلیم حاصل کر لے ان کے ذریعے شکار کھیلنا حلال ہے، لیکن حضرت مجاہد رح سے مروی ہے کہ انہوں نے تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے اور دلیل میں ((و ما علمتم من الجوارح مکلبین)) پڑها ہے ۔
سعید بن جبیر رح سے بھی اس طرح روایت کی گئی ہے-
ضحاک اور سدی رح کا بهی یہی قول ہے ابن جریر طبری میں بهی مروی ہے ۔
امام احمد رحمہ اللہ نے سیاہ کتے کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کر لیا ہے، اس لیے کہ ان کے نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے اور پالنا حرام ہے، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں نماز کو تین چیزیں توڑ یا کاٹ دیتی ہیں گدھا، عورت، اور سیاہ کتا-
اس پر حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ سیاہ کتے کی خصوصیت کی وجہ کیا ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ" شیطان" ہے (صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ. باب قدر ما یستر المصلی.ترمذی کتاب الصلوٰۃ. باب ما جاء انه لا یقطع الصلوة.ابن ماجہ، کتاب اقامت الصلوة. ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ. باب ما یقطع الصلوة))
دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا انہیں کتوں سے کیا واسطہ؟ ان کتوں میں سے سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو-(صحیح مسلم : کتاب المساقاتہ.ابو داود کتاب الطہارة. باب الوضوء بسور الکلب.ابن ماجہ کتاب الصید: باب قتل الکلاب الا کلب صیدا)
شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کو جرح کہتے ہیں کسب اور کمائی کو جیسے عرب کہتے ہیں ((فلان جرح اهله خیرا)) یعنی فلاں شخص نے اپنی اہل کے لیے بھلائی حاصل کر لی اور عرب کہتے ہیں ((فلان لا جرح له)) فلاں شخص نے کا کوئی کماو نہیں قرآن مجید میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے فرمان ہے ((و یعلم ما جرحتم بالنہار))
یعنی دن کو جو بھلائی تم حاصل کرتے ہو اور اسے بهی اللہ جانتا ہے اس آیت کریمہ کے اترنے کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ قتل کئے جانے لگے تو لوگوں نے آ کر رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ جس امت کے قتل کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ان سے ہمارے لیے کیا فائدہ حلال ہے؟ رسول اللہ ﷺ خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری.
محمد بن کعب قرظی رح فرماتے ہیں کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے ((مکلبین)) کا لفظ ممکن ہے کہ ((علمتم)) کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے کہ جوارح
یعنی مقتول کا حال ہو-
یعنی جن شکار حاصل کرنے والے جانوروں کو تم نے سدها یا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے پنجوں اور ناخنوں سے شکار کرتے ہوں، اس سے بهی استدلال ہو سکتا ہے
ہو سکتا ہے کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے صدمے سے ہی دبوچ کر مار ڈالے تو وہ حلال نہ ہو گا جیسے تم نے انہیں اس میں سے کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے تمہیں سکها رکها ہے ۔
یعنی جب تم چهوڑو تو جائے جب تم روک لو تو رک جائے اور شکار پکڑ کر تمہارے پاس لئے روک رکهے-
تا کہ تم جاؤ اور اسے لے لو اس نے خود اپنے لئے شکار نہ کیا ہو اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدها ہوا ہو اور اس نے اپنے چھوڑنے والے کے لیے شکار کیا ہو اس نے بهی اس کے چهوڑنے کے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کے لیے حلال ہے گو وہ شکار مر بھی گیا ہو اس پر اجماع ہے ۔
اس آیت کے مسئلہ کے مطابق ہی بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ________جاری ہے
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سورۃ المائدہ پارہ نمبر 6.
آیت نمبر 4.
بقیہ تشریح و تفسیر_____ااا
بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺمیں اللہ کے نام لے کر اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو آپ نے فرمایا جس جانور کو وہ پکڑے رکهے تو اسے کها لے اگرچہ کتے نے اسے مار ہی ڈالا ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ شکار کرنے میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لیے کہ تونے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چهوڑا ہے دوسرے کو بسم اللہ پڑھ کر نہیں چهوڑا میں نے کہا میں نوکدار لکڑی سے شکار کھیلتا ہوں فرمایا اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے زخمی کرے تو کها لے اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہو تو نہ کها کیونکہ وہ لٹهہ مارا ہوا ہے (صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید. صحيح مسلم کتاب الصید : باب الصید بالکلاب المعلمتہ.ترمذی کتاب الصید. ابو داؤد کتاب الصید)
دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جب تو اپنے کتے کو چھوڑے تو اللہ کا نام پڑهہ لیا کر پهر وہ شکار کو تیرے لیے پکڑ رکهے اور تیرے پہنچ جانے پرشکار زندہ مل جائے تو اسے ذبح کر ڈالے اور اگر کتے نے ہی مار ڈالا ہو اور اس میں سے کهایا نہ ہو تو تو اسے بھی کها سکتا ہے اس لئے کہ کتے کا اسے شکار کر لینا ہی اس کا ذبیحہ ہے ((صحیح بخاری کتاب الذبائح. .باب التسمیتہ علی الصید. صحيح مسلم کتاب الصید ) ))
اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اگر اس نے کها لیا ہو تو پھر اسے نہ کها، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس نے کہا اپنے کهانے کے لیے شکار نہ پکڑا ہو؟
یہی دلیل جمہور کی ہے اور حقیقتاً امام شافعی رحمہ اللہ کا مزہب بهی یہی ہے کہ جب کتا شکار کو کها لے تو وہ مطلق حرام ہو جاتا ہے اس میں کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے ۔
ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہی قول بهی ہے کہ مطلقاً حلال ہے ان کے دلائل یہ ہیں ۔
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تو کها سکتا ہے اگرچہ کتے نے تہائی حصہ کها لیا ہو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو تاہم کها سکتے ہیں-
حضرت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں گویا دو تہائی کتا کها گیا ہو پھر بھی تو کها سکتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بهی یہی فرمان ہے.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب بسم اللہ کہہ کر تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چهوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے تیرے لیے پکڑ رکھا ہے تو اسے کها لے کتے نے اس میں سے کهایا ہو یا نہ کهایا ہو یہی مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حضرت حسن بصری رح سے اس میں مختلف قول مروی ہیں زہری ربیعہ اور مالک سے بھی یہی روایت کی گئی ہے، اسی کی طرف امام شافعی رحمہ اللہ اپنے پہلے قول میں گئے ہیں اور نئے قول میں بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے-
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار پر چھوڑے پهر شکار کو اس حالت میں پائے کہ کتے نے اسے کها لیا ہو تو جو باقی ہو اسے کها سکتا ہے ۔
اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر رح نظر ہے اور سعید راوی کا حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے سننا معلوم نہیں ہوا اور دوسرے ثقہ راوی اسے مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قول ہے تو صحیح لیکن اس معنی کی اور مرفوع حدیثیں بهی مروی ہیں ابو داؤد میں ہے حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ رض نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس شکاری کتے سدھائے ہوئے ہیں ان کے شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو جانور وہ تیرے لیے پکڑیں وہ تجهہ پر حلال ہے اس نے کہا ذبح کر سکوں جب بهی اور نہ ذبح کر سکوں تب بھی اور اگرچہ کتے نے کها لیا ہو تو بھی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں گو کها بھی لیا ہو انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے تیر کمان سے جو شکار کروں تو اس کا کیا فتوی ہے؟
فرمایا اسے بھی تو کها سکتا ہے پوچھا اگر وہ زندہ ملے اور میں اسے ذبح کر سکوں تو بهی اور اگر تیر لگتے ہی مر جائے تو بهی؟ فرمایا بلکہ گو وہ تجھے نظر نہ پڑے اور ڈھونڈنے سے مل جائے تو بهی بشرطیکہ اس کسی دوسرے شخص کے تیر کا نشان نہ ہو انہوں نے تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے برتنوں کا استعمال ہمارے لیے کیسا ہے؟ فرمایا تم انہیں دهو ڈالو پهر ان میں کها پی سکتے ہو.
یہ حدیث نسائی میں بهی ہے.
صحيح بخارى شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں وہ نو مسلم ہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا بهی ہے یا نہیں؟
تو کیا ہم اسے کها لیں آپ نے فرمایا تم خود اللہ کا نام لے کر لے لو اور کها لو.
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ چهہ صحابہ کرام
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ کهانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر دو لقمے اس میں سے اٹها لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بسم اللہ کہہ کر لیتا تو یہ کهانا تم سب کو کافی ہو جاتا تم میں سے جب کوئی کهانے بیٹھے تو بسم اللہ پڑھ لیا کرے اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آئے تو کہہ دے.
بسم اللہ اوله و اخره))

یہی حدیث منقطع سند کے ساتھ ابن ماجہ میں بهی ہے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کهانا کها رہے تھے کہ ایک اعرابی لڑکی گرتی پڑتی ہوئی آئی جیسے اسے کوئی دھکے دے رہا ہو اور آتے ہی اس نے لقمہ اٹھانا چاہا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بهی اسی طرح آیا اور پیالے میں ہاتھ ڈالا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ بهی پکڑ لیا اور فرمایا جب کسی کهانے پر بسم اللہ نہ کہی جائے تو شیطان اسے اپنے لیے حلال کر لیتا ہے وہ پہلے تو اس لڑکی کے ساتھ آیا تا کہ ہمارا کهانا کها ئے تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا پھر وہ اس اعرابی کے ساتھ آیا میں نے اس بهی ہاتھ پکڑ لیا اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے. ((مسند ، ابوداؤد، نسائی، مسلم))
مسلم ابو داؤد نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ جب انسان اپنے گهر میں جاتے ہوئے اور کهانا کھاتے ہوئے اللہ کا نام یاد کر لیا کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے اے شیطانوں نہ تو تمہارے لیے رات گزارنے کی جگہ ہے نہ رات کا کهانا کهانے کی جگہ پا لی.
مسند، ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے ہیں اور ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے کهانا سب مل کر کهاو اور بسم اللہ پڑھ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے برکت دی جائے گی _.
و ما توفیقی الا بااللہ _
 
شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
اے ایمان والو جب تم نماز کے لئے اٹهو تو اپنے منہ دهو لیا کرو اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت اور اپنے سروں کا مسح کر لیا کرو اور اپنے پاوں کو ٹخنوں سمیت دهو لیا کرو، اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کر لیا کرو، وہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی ضروری حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو، اسے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیا کرو، اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے کا ہے اور تمہیں اپنی بهر پور نعمت دینے کا ہے تا کہ تم شکر ادا کرتے رہو○
( سورة المائدہ ) ( آیت نمبر 6)
تشریح و تفسیر
طہارت کے چند مسائل اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ حکم وضو اس وقت جب کہ آدمی بے وضو ہو.
ایک جماعت کہتی ہے جب تم کھڑے ہو یعنی نیند سے بیدار ہو دونوں قول قریب قریب ایک ہی مطلب کے ہیں.
اور چند اور حضرات فرماتے ہیں ہیں کہ یہ آیت عام ہے اور اپنے عموم پر ہی ہے لیکن جو بے وضو اس پر وضو کرنے کا حکم وجوبا ہے اور باوضو ہو تو اس پر اتسحبابا .
ایک جماعت کا خیال ہے کہ ابتداء اسلام میں ہر وقت وضو کرنے کا حکم تھا پھر منسوخ ہو گیا -
مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کیا کرتے تھے، فتح مکہ والے دن رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا اور اسی وضو سے کئی نمازیں ادا کیں، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آج آپ نے وہ کام کیا جو آج سے پہلے نہیں کرتے تھے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے بھول کر ایسے نہیں کیا بلکہ جان بوجھ کر قصداً یہ کیا ہے ((صحیح مسلم کتاب الطہارة باب جوازالصلوات کلها بوضوءواحد.
ابو داؤد کتاب الطہارة باب الرجل یصلی الصلوات بوضوءواحد، نسائی کتاب الطہارة باب الوضوء لکل صلاتہ. ترمذی کتاب الطہارة باب ما جاء انه یصلی الصلوات بوضوءواحد. ابن ماجہ کتاب الطہارة. مسند احمد 36/5))
ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑها کرتے تھے ہاں پیشاب کریں یا وضو ٹوٹ جائے تو نیا وضو کر لیا کرتے اور وضو ہی کے بچے پانی سے جرابوں پر مسح کر لیا کرتے.
یہ دیکھ کر حضرت فضیل بن مبشر رح نے سوال کیا کہ کیا آپ اسے اپنی رائے سے کرتے ہیں؟ فرمایا نہیں بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے1️⃣مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرتے دیکھ کر خواہ وضو ٹوٹا ہو یا نہ ہو ان کے صاحبزادے عبیداللہ رح سے سوال ہوتا ہے کہ اس کی کیا سند ہے؟ فرمایا ان سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان سے حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ نے جو فرشتوں کے غسل دئیے ہوئے کے صاحبزادے تهے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس حالت میں وضو باقی ہو تو بهی اور نہ ہو تو بھی، لیکن اس میں قدرے مشقت معلوم ہوئی تو وضو کے حکم کے بدلے مسواک کا حکم رکها گیا ہاں جب وضو ٹوٹے تو نماز کے لیے نیا وضو ضروری ہے اسے سامنے رکھ کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ چونکہ انہیں قوت ہے اس لئے وہ ہر نماز کے وقت وضو کرتے ہیں ۔
آخری دم تک آپکا یہی حال رہا2️⃣رضی اللہ تعالٰی عنہ و عن والدہ-
اس کے ایک راوی حضرت محمد بن اسحاق رح ہیں لیکن چونکہ انہوں نے صراحت کے ساتھ ((حدثنا))کہا ہے اس لیے تدلیس کا خوف بهی جاتا رہا.
ہاں ابن عساکر کی روایت میں یہ لفظ نہیں ہے واللہ اعلم -
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر ہمیشگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مستحب ضرور ہے اور یہی مزہب جمہور کا ہے ۔
((1صحیح تفسیر ابن جریر طبری. ابن ماجہ کتاب الطہارة. شیخ البانی نے اسے صحيح کہا ہے (صحیح ابن ماجہ) حافظ زبیر علی زئی کہتے ہیں کہ اس کے راوی فضیل بن مبشر راوی ہیں اس لیے یہ ضعیف ہے. )((2 . حسن مسند احمد. مستدرک حاکم. تفسیر ابن جریر طبری. ابو داؤد کتاب الطہارة. امام حاکم نے اسے مسلم کی شرط صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے ۔ امام ابن خزیمہ بهی اسے صحیح کہتے ہیں شیخ البانی اسے حسن کہتے ہیں (صحیح ابو داؤد 37))
ابن جریر طبری میں ہے کہ خلفاء رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرتے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ یوم القیامہ ہر نماز کے لیے وضو کرتے اور دلیل میں یہ آیت تلاوت فرما دیتے ایک مرتبہ آپ نے ظہر کی نماز ادا کی پهر لوگوں کے مجمع میں تشریف فرما رہے پھر پانی لایا گیا اور آپ نے منہ دھویا ہاتھ دھوئے پهر سر کا مسح کیا پهر پیر کا.
پھر فرمایا یہ وضو ہے اس کا جو بے وضو نہ ہوا ہو ایک مرتبہ آپ نے خفیف وضو کر کے بهی یہی فرمایا تھاحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔
ابو داود طیالسی میں حضرت سعید بن مسیب
سعید بن مسیب رح کا قول ہے کہ وضو ٹوٹے بغیر وضو کرنا زیادتی ہے ۔
اولا تو یہ قول سندا غریب ہے دوسرا یہ کہ مراد اس شخص سے وہ شخص ہے جو اسے واجب جانتا ہو
اور صرف مستحب سمجھ کر جو ایسا کرے وہ تو عامل بالحدیث ہے ۔
بخاری و سنن وغیرہ میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے ایک انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ سن کر کہا اور آپ لوگ کیا کرتے تھے؟
فرمایا ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھتے تھے جب تک وضو نہ ٹوٹے ((صحیح بخاری کتاب الوضوء. ابو داؤد کتاب الطہارة. ترمذی کتاب الطہارة. ابن ماجہ 509. مسند احمد 132/3))
ابو داؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پاخانے سے نکلے اور کهانا آپ کے سامنے لایا گیا تو ہم نے کہا اگر فرمائیں تو وضو کا پانی حاضر کریں فرمایا وضو کا حکم تو مجھے صرف نماز کے لیے کهڑا ہونے کے وقت ہی کیا گیا ہے امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے کچھ نماز تھوڑا ہی پڑھنی ہے جو میں وضو کروں (صحیح مسلم کتاب الحیض باب جوازاکل المحدث الطعام)
آیت کے ان الفاظ سے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو وضو کر لیا کرو علماء کرام کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ وضو میں نیت واجب ہے، مطلب کلام اللہ شریف کا یہ ہے کہ نماز کے لیے وضو کر لیا کرو، جیسے عرب میں کہا جاتا ہے کہ جب تو امیر کو دیکهے تو کهڑا ہو جا تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ امیر کے لیے کهڑا ہو جا-
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے نیت کی ((صحیح بخاری کتاب بد الوحی. صحيح مسلم کتاب الامارۃ باب قوله صلی اللہ علیہ وسلم انما الاعمال بالنیات))
جاری ہے.
 
Top