• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترمذی کی حدیث سے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر استدلال [انتظامیہ]

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
حدیث اور فقہ شافعی کے۔
محترم! میں نے جو دلیل میں امام مسلم کی صحیح کے باب کے حوالہ سے سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل لی ہے اس میں کوئی فرق نہ پڑا کہ عنوان باندھنے والا محدث ہی ہے۔ بلکہ اس سے تو اور زیادہ تقویت ملتی ہے کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف محدث ہیں بلکہ فقہ کے بھی امام ہیں۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ ہاتھ ناف کے محاذات میں ہی باندھنا ثابت سنت ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرما رہے ہیں۔ ان دو جلیل القدر اشخاص کی گواہی اس مسئلہ میں شرعآ کافی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم! میں نے جو دلیل میں امام مسلم کی صحیح کے باب کے حوالہ سے سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل لی ہے اس میں کوئی فرق نہ پڑا کہ عنوان باندھنے والا محدث ہی ہے۔ بلکہ اس سے تو اور زیادہ تقویت ملتی ہے کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف محدث ہیں بلکہ فقہ کے بھی امام ہیں۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ ہاتھ ناف کے محاذات میں ہی باندھنا ثابت سنت ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرما رہے ہیں۔ ان دو جلیل القدر اشخاص کی گواہی اس مسئلہ میں شرعآ کافی ہے۔
بھائی جان۔
امام نوویؒ نے معاملات کے باب میں تصریہ وغیرہ کی احادیث پر جو ابواب باندھے ہیں وہ احناف کے موقف کے سراسر خلاف ہیں۔ تو کیا وہاں بھی یہی کہیں گے؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
امام نوویؒ نے معاملات کے باب میں تصریہ وغیرہ کی احادیث پر جو ابواب باندھے ہیں وہ احناف کے موقف کے سراسر خلاف ہیں۔ تو کیا وہاں بھی یہی کہیں گے؟
محترم! اصل دلیل امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا مشاہدہ ہے جو کہ انہوں نے اپنی سنن الترمذی میں بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے کا مقام ناف ہے۔ امام مسلم کے باب کو تائیداً پیش کیا ہے۔ ایک محدث مشاہدہ پیش کررہا اور دوسرا اس کی تائید تو یہ قابلِ قبول ہوتی ہے۔ جو آپ نے لکھا ہے وہ ہے محدث کا فہم اس میں ہم ابو حنیفہ کے فہم کو دوسروں کے فہم پر فوقیت دیں گے الا یہ کہ کسی دوسرے مجتہد فقیہ کی بات صریحاً ثابت ہو۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم! اصل دلیل امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا مشاہدہ ہے جو کہ انہوں نے اپنی سنن الترمذی میں بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے کا مقام ناف ہے۔ امام مسلم کے باب کو تائیداً پیش کیا ہے۔ ایک محدث مشاہدہ پیش کررہا اور دوسرا اس کی تائید تو یہ قابلِ قبول ہوتی ہے۔ جو آپ نے لکھا ہے وہ ہے محدث کا فہم اس میں ہم ابو حنیفہ کے فہم کو دوسروں کے فہم پر فوقیت دیں گے الا یہ کہ کسی دوسرے مجتہد فقیہ کی بات صریحاً ثابت ہو۔
محترم بھائی۔ یہ کہاں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ امام ترمذیؒ کا اپنا مشاہدہ ہے؟ علل ترمذی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی جو یہ مذاہب بیان فرماتے ہیں وہ اپنے مشاہدہ سے نہیں اپنی اسانید سے بیان فرماتے ہیں۔
اور نوویؒ نے ترمذیؒ کے مشاہدہ پر باب قائم نہیں کیا جس کی آپ اس سے تائید کرنا چاہیں بلکہ روایت پر باب قائم کیا ہے۔ اور یہ ان کا فہم حدیث ہے۔
ذرا انہی کا دوسرا باب دیکھیے:
باب تحريم تلقي الجلب
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا ابن أبي زائدة، ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا يحيى يعني ابن سعيد، ح وحدثنا ابن نمير، حدثنا أبي، كلهم عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن تتلقى السلع حتى تبلغ الأسواق»، وهذا لفظ ابن نمير، وقال الآخران: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن التلقي
وحدثني محمد بن حاتم، وإسحاق بن منصور، جميعا عن ابن مهدي، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل حديث ابن نمير، عن عبيد الله
وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن مبارك، عن التيمي، عن أبي عثمان، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، «أنه نهى عن تلقي البيوع»

کیا علماء احناف کے نزدیک تلقی جلب مطلقا حرام ہے؟ یہ مسئلہ اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو ان سے پوچھئے گا۔


یہ یاد رہے کہ میں خود حنفی ہوں اور میری رائے میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ضعیف ترین مسلک ہے۔ لیکن اس کے الگ دلائل ہیں۔ اس کے لیے اس قسم کے دلائل سے مدد حاصل کرنا میں درست نہیں سمجھتا۔ امام نوویؒ کا ترجمۃ الباب ان کی رائے اور فقہ شافعی کی ترجمانی سمجھا جا سکتا ہے اور اس سے دلائل صحیحہ کی موجودگی میں فہم پر تائید حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اسے ان الفاظ میں لکھنا کہ:
اس طرح صحیح مسلم میں بھی محدث نے وضاحت سے لکھا ؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ

تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــــــــــــــــــــــــــ
یہ درست نہیں۔ آپ کے الفاظ سے اولا تو یہ لگتا ہے کہ امام مسلم کے اپنے الفاظ ہیں۔
پھر آپ نے انہیں نوویؒ کے الفاظ مان کر یہ کہا کہ
محترم! میں نے جو دلیل میں امام مسلم کی صحیح کے باب کے حوالہ سے سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل لی ہے اس میں کوئی فرق نہ پڑا کہ عنوان باندھنے والا محدث ہی ہے۔ بلکہ اس سے تو اور زیادہ تقویت ملتی ہے کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف محدث ہیں بلکہ فقہ کے بھی امام ہیں۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرما رہے ہیں کہ ہاتھ ناف کے محاذات میں ہی باندھنا ثابت سنت ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرما رہے ہیں۔ ان دو جلیل القدر اشخاص کی گواہی اس مسئلہ میں شرعآ کافی ہے۔
حالانکہ امام مسلمؒ اور علامہ نوویؒ میں بہت فرق ہے۔ امام مسلم تیسری صدی ہجری کے عالیشان محدث ہیں جبکہ امام نووی ساتویں صدی ہجری کے۔ امام مسلم اپنی سند سے روایت کرتے ہیں اور نووی اپنی سند سے روایت کر ہی نہیں سکتے (کیوں کہ ان کے زمانے تک اپنی سند کی روایات کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا)۔ امام مسلم کا طرز محدثین کا ہے جب کہ امام نوویؒ محدث سے زیادہ فقیہ ہیں۔
میں یہ مانتا ہوں کہ نوویؒ کی رائے علم اصول حدیث میں بہت قابل احترام ہوتی ہے۔ لیکن جو بات آپ ثابت کر رہے ہیں اس کا تعلق فقہ الحدیث سے ہے۔ اس میں ان کی رائے ایک رائے ہے۔ تائیداً چاہیں تو دوسرے دلائل کے بعد پیش کردیں۔ لیکن کوئی اگر ان کی رائے تسلیم نہیں کرتا اور اس کے پاس اپنے دلائل ہیں تو وہ آزاد ہے۔

اور یہ قانون اگر احناف کے لیے ہے تو اہل حدیث کے لیے بھی ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
نوویؒ نے ترمذیؒ کے مشاہدہ پر باب قائم نہیں کیا جس کی آپ اس سے تائید کرنا چاہیں بلکہ روایت پر باب قائم کیا ہے۔ اور یہ ان کا فہم حدیث ہے۔
محترم! میں نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا خود اپنا قول جو سنن الترمذی میں ہے اس کی تائید میں امام مسلم رحمۃ الل علیہ کی صحیح مسلم کے باب کی عبارت بطور تائید لکھی۔ آپ نے کہا کہ صحیح مسلم کے ابواب ان کے باندھے ہوئے نہیں بلکہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں۔ اسی سلسلہ میں میں نے کہا کہ اگر یہ باب امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باندھا ہے تو اس سے بھی ایک محدث کی تائید دوسرے محدث سے ہوئی۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنا مشاہدہ نہیں بلکہ فہم حدیث سے لکھ رہے ہیں تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے فہم پر اعتماد نہیں کیا بلکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے مشاہدہ پر اعتماد کیا ہے اور محدث کے مشاہدہ پر اعتماد نہ ہوگا تو پھر کس پر اعتماد کیا جائے گا۔

میں یہ مانتا ہوں کہ نوویؒ کی رائے علم اصول حدیث میں بہت قابل احترام ہوتی ہے۔ لیکن جو بات آپ ثابت کر رہے ہیں اس کا تعلق فقہ الحدیث سے ہے۔ اس میں ان کی رائے ایک رائے ہے۔ تائیداً چاہیں تو دوسرے دلائل کے بعد پیش کردیں۔ لیکن کوئی اگر ان کی رائے تسلیم نہیں کرتا اور اس کے پاس اپنے دلائل ہیں تو وہ آزاد ہے۔
محترم ایسا ہی کیا ہے۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
امام ترمزیؒ کا استدلال تعامل سے ہے زیر بحث حدیث سے نہیں ۔
اسی طرح امام نوویؒ کا بھی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم! میں نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا خود اپنا قول جو سنن الترمذی میں ہے اس کی تائید میں امام مسلم رحمۃ الل علیہ کی صحیح مسلم کے باب کی عبارت بطور تائید لکھی۔ آپ نے کہا کہ صحیح مسلم کے ابواب ان کے باندھے ہوئے نہیں بلکہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں۔ اسی سلسلہ میں میں نے کہا کہ اگر یہ باب امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے باندھا ہے تو اس سے بھی ایک محدث کی تائید دوسرے محدث سے ہوئی۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنا مشاہدہ نہیں بلکہ فہم حدیث سے لکھ رہے ہیں تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے فہم پر اعتماد نہیں کیا بلکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے مشاہدہ پر اعتماد کیا ہے اور محدث کے مشاہدہ پر اعتماد نہ ہوگا تو پھر کس پر اعتماد کیا جائے گا۔


محترم ایسا ہی کیا ہے۔
دوبارہ ملاحظہ فرمائیے:
محترم بھائی۔ یہ کہاں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ امام ترمذیؒ کا اپنا مشاہدہ ہے؟ علل ترمذی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی جو یہ مذاہب بیان فرماتے ہیں وہ اپنے مشاہدہ سے نہیں اپنی اسانید سے بیان فرماتے ہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
دوبارہ ملاحظہ فرمائیے:
سنن الترمذي - (ج 1 / ص 426)
وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ
 
Top