• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترمذی کی حدیث سے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر استدلال [انتظامیہ]

شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
محترم البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف حدیث والا حصہ نہیں لکھا بلکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سمیت لکھ کر اس مجموعہ پر ”حسن صحیح“ لکھا۔
سنن الترمذي

باب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلاَةِ
باب : نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ "، قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، وابْنِ عَبَّاسٍ، وابْنِ مَسْعُودٍ، وسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ، وَاسْمُ هُلْبٍ:‏‏‏‏ يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ.
ہلب طائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہلب رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں وائل بن حجر، غطیف بن حارث، ابن عباس، ابن مسعود اور سہیل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ۱؎، اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة (۸۰۹) ، ( تحفة الأشراف : ۱۱۷۳۵) ، مسند احمد (۵/۲۲۶، ۲۲۷) (حسن صحیح)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (809)
عبدالرحمان بھٹی کی یہ بات کہ شیخ البانی نے پورے مجموعہ کو حسن صحیح کہا جھوٹ ہے۔شیخ نے کہا قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (809)ابن ما جہ کی حدیث میں جو الفاظ ہیں اسے حسن صحیح کہا ہے۔جس کے راوی ہلب رضی اللہ عنہ ہیں۔اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔یہ الفاظ حدیث کا حصہ نہیں۔
قال:‏‏‏‏ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يؤمنا فياخذ شماله بيمينه یہ الفاظ حدیث کے ہیں باٖٖقی نہیں۔جس کی وضاحت ابن ماجہ کی حدیث سے ہوتی
ہے۔ اور وہ یہ ہے۔
حدثنا عثمان بن ابي شيبة حدثنا ابو الاحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن ابيه قال:‏‏‏‏"كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤمنا فياخذ شماله بيمينه".
سنن ابن ماجه
ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تو اپنا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے پکڑے رہتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اس حدیث کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «رأیت رسول اللہ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل» (یزید بن قنافہ ہُلب الطائی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سلام پھیرتے وقت) دیکھا کہ آپ (پہلے) دائیں جانب مڑتے اور پھر بائیں جانب، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے، امام احمد بن حنبل کے استاذ یحییٰ بن سعید نے ہلب رضی الله عنہ کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے اوپر باندھ کر کی)۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے (مسند احمد ۵/۲۲۶)
اس بات سے یہ بات واضح ہوتی کہ ترمذی کی حدیث کہ صرف یہ الفاظ حسن صحیح ہیں يؤمنا فياخذ شماله بيمينه
جس کی تائد میں میں نے ابن ماجہ اور مسند احمد کی صحیح حدیث کے الفاظ پیش کیے۔
رہی بات (اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔)ان الفاظ کی تو یہ کام عبد الرحمن بھٹی صاحب کا کام ہے کہ وہ ایسی صحیح احادیث پیش کریں جس میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کا زکر ہو۔
 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
: ابوداؤد:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن محبوب حدثنا حفص بن غياث عن عبد الرحمن بن إسحق عن زياد بن زيد عن أبي جحيفة أن عليا رضي الله عنه قال من السنة وضع الكف على الكف في الصلاة تحت السرة

بے شک علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔

4 : ابوداؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا محمد بن قدامة يعني ابن أعين عن أبي بدر عن أبي طالوت عبد السلام عن ابن جرير الضبي عن أبيه قال رأيت عليا رضي الله عنه يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة

علی رضی الله تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے ناف کے اوپر گٹ سے پکڑے ہوئے تھے۔
قال أبو داود وروي عن سعيد بن جبير فوق السرة قال أبو مجلز تحت السرة وروي عن أبي هريرة وليس بالقوي
ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سعيد بن جبيرناف کے اوپر روایت کرتے ہیں اور أبو مجلز ناف کے نیچے (یہاں بھی سینہ کا ذکر تک نہیں)۔
جواب:
حدثنا مسدد حدثنا عبد الواحد بن زياد عن عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي عن سيار ابي الحكم عن ابي وائل قال:‏‏‏‏ قال ابو هريرة:‏‏‏‏ " اخذ الاكف على الاكف في الصلاة تحت السرة " قال ابو داود:‏‏‏‏ سمعت احمد بن حنبل يضعف عبد الرحمن بن إسحاق الكوفي.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِيِّ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏"أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُضَعِّفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ إِسْحَاقَ الْكُوفِيَّ.
ابووائل کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا (سنت ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو سنا، وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق کوفی کو ضعیف قرار دے رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۹۴) (ضعیف) (اس سند میں بھی عبدالرحمن بن اسحاق ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ".
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۱۰) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن اسحاق واسطی متروک ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ يَعْنِي ابْنَ أَعْيَنَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي طَالُوتَ عَبْدِ السَّلَامِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جَرِيرٍ الضَّبِّيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُمْسِكُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ عَلَى الرُّسْغِ فَوْقَ السُّرَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ فَوْقَ السُّرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو مِجْلَزٍ:‏‏‏‏ تَحْتَ السُّرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ.
جریر ضبیی کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا پہنچا (گٹا) پکڑے ہوئے ناف کے اوپر رکھے ہوئے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سعید بن جبیر سے «فوق السرة» (ناف کے اوپر) مروی ہے اور ابومجلز نے «تحت السرة» (ناف کے نیچے) کہا ہے اور یہ بات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے لیکن یہ قوی نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۳۰) (ضعیف) (اس کے راوی جریر ضبّی لین الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْكُوفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ "أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُضَعِّفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ إِسْحَاقَ الْكُوفِيَّ.
ابووائل کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ناف کے نیچے رکھنا (سنت ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو سنا، وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق کوفی کو ضعیف قرار دے رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۹۴) (ضعیف) (اس سند میں بھی عبدالرحمن بن اسحاق ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَوْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ".
طاؤس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے، پھر ان کو اپنے سینے پر باندھ لیتے، اور آپ نماز میں ہوتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۸۲۹) (صحیح) (دو صحابہ وائل اور ہلب رضی اللہ عنہما کی صحیح مرفوع روایات سے تقویت پاکر یہ مرسل حدیث بھی صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
سوال: کیا آپ لوگوں کو صرف ضعیف احادیث ہی نظر آتی ہیں نیچے کی یہ صحیح حدیث نظر نہیں آتی تقلید کا چشمہ اتار کر دیکھیں کہ شائد
نزر آجائے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
@محمد کاشف بھائی۔ آپ کی صرف پہلی صحیح ابن خزیمہ والی حدیث ہی آپ کے دعوی پر صریح ہے لیکن اس میں مومل بن اسماعیل ضعیف ہیں۔
حضرت علی رض کی تفسیر کی روایت کی سند کی تحقیق پیش فرمائیں گے؟
@اشماریہ بھائی اسے بھی پڑھئے
قال الشيخ أحمد شاکر رحمه الله في تعليقه علي المسند:
مؤمل هو ابن اسماعيل أبو عبدالرحمن ذکرنا في 97 أنه ثقة وقد وثقه ابن معين وغيره، وقال الآجري: ((سألت أباداؤد عنه؟ فعظمه ورفع من شأنه، إلا أنه يهم في بعض الشيء)) وقد تکلم فيه بعضهم بغير حجة، وقد نقل الحافظ في التهذيب أن البخاري قال فيه: ((منکرالحديث))، وما أدري أين قال هذا؟ فإنه لم يذکره في الضعفاء، وترجم له في الکبير 4/ 2/ 49 وفي الصغير 227 فلم يذکر فيه جرحا. والظاهر عندي أن مؤلف التهذيب حين رجع إلي التاريخ الکبير انتقل نظره إلي الترجمة التي بعده، وهي ترجمة ((مؤمل بن سعيد الرحبي))، فهو الذي قال فيه البخاري ذلک!!
(تعليق علي المسند للامام أحمد: ج 2 ص 554 رقم 2173)
اور یہ علی رضی اللہ عنہ والی حدیث کی سند بھی نیچے ہے
12063434_10207205825557732_1616034359805604722_n.jpg
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
معذرت چاہتا ہوں۔ کتاب پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ آپ کا جو استدلال ہے وہ یونیکوڈ میں تحریر فرما دیا کیجیے۔

@اشماریہ بھائی اسے بھی پڑھئے
قال الشيخ أحمد شاکر رحمه الله في تعليقه علي المسند:
مؤمل هو ابن اسماعيل أبو عبدالرحمن ذکرنا في 97 أنه ثقة وقد وثقه ابن معين وغيره، وقال الآجري: ((سألت أباداؤد عنه؟ فعظمه ورفع من شأنه، إلا أنه يهم في بعض الشيء)) وقد تکلم فيه بعضهم بغير حجة، وقد نقل الحافظ في التهذيب أن البخاري قال فيه: ((منکرالحديث))، وما أدري أين قال هذا؟ فإنه لم يذکره في الضعفاء، وترجم له في الکبير 4/ 2/ 49 وفي الصغير 227 فلم يذکر فيه جرحا. والظاهر عندي أن مؤلف التهذيب حين رجع إلي التاريخ الکبير انتقل نظره إلي الترجمة التي بعده، وهي ترجمة ((مؤمل بن سعيد الرحبي))، فهو الذي قال فيه البخاري ذلک!!
(تعليق علي المسند للامام أحمد: ج 2 ص 554 رقم 2173)
اور یہ علی رضی اللہ عنہ والی حدیث کی سند بھی نیچے ہے
16300 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
قال أبو بكر بن أبي خيثمة ، عن يحيى بن معين: ثقة.
وقال عثمان بن سعيد الدارمي : قلت ليحيى بن معين: أي شيء حال مؤمل في سفيان؟ فقال: هو ثقة. قلت: هو أحب إليك أو عبيد الله؟ فلم يفضل أحدا على الآخر
وقال أبو حاتم : صدوق، شديد في السنة، كثير الخطأ .
وقال البخاري: منكر الحديث.
وقال أبو عبيد الأجري : سألت أبا داود عن مؤمل بن إسماعيل، فعظمه ورفع من شأنه إلا أنه يهم في الشئ.
وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات".
وقال غيره: دفن كتبه فكان يحدث من حفظه، فكثر خطؤه.
تہذیب الکمال للمزی
29۔178 ط الرسالہ


وقال المروذي: قلت (يعنى لأبي عبد الله) : يحيى بن يمان، ومؤمل إذا اختلفا؟ قال: دع ذا، كأنه لين أمرهما، ثم قال: مؤمل كان يخطئ. «سؤالاته»
موسوعۃ اقوال الامام احمد
۳۔ ۴۱۸ ط عالم الكتب


قال الحاكم: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ مؤمل بن إسماعيل؟ قال صدوق كثير الخطأ.
• وقال الدَّارَقُطْنِيّ: ثقة، كثير الخطأ. «تهذيب التهذيب»
موسوعۃ اقوال الدارقطنی
۲۔۶۷۴ ط عالم الكتب


ولخص محمد بن نصر المروزي حاله فقال: «إذا انفرد بحديث وجب أن يتوقف فيه ويتثبت، لأنه كان سيئ الحفظ كثير الغلط» .
فحده أن لا يحتج به إلا فيما توبع فيه، وفيما ليس من مظان الخطأ.
التنكیل للمعلمی
۲۔۷۲۲ ط المكتب الاسلامی

كیا ان كا سینہ پر ہاتھ باندھنے میں کوئی متابع ہے؟

یہ ان کی توثیق اور جرح ہے جو میں نے نقل کر دی ہے۔ آپ خود دیکھ لیجیے۔ شیخ احمد شاکرؒ سے اس میں شاید غلطی ہوئی ہے۔
احکام القرآن کی روایت کی سند بھی انہی سے شروع ہوتی ہے۔ ویسے اگر ان کی ثقاہت ثابت ہو جائے تو ایک اور زبردست مسئلے میں شرح معانی الآثار میں ان کی روایات احناف کی دلیل بنیں گی۔

علی رض والی سند اور اس کی تحقیق مجھے نہیں ملی۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
معذرت چاہتا ہوں۔ کتاب پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ آپ کا جو استدلال ہے وہ یونیکوڈ میں تحریر فرما دیا کیجیے۔


قال أبو بكر بن أبي خيثمة ، عن يحيى بن معين: ثقة.
وقال عثمان بن سعيد الدارمي : قلت ليحيى بن معين: أي شيء حال مؤمل في سفيان؟ فقال: هو ثقة. قلت: هو أحب إليك أو عبيد الله؟ فلم يفضل أحدا على الآخر
وقال أبو حاتم : صدوق، شديد في السنة، كثير الخطأ .
وقال البخاري: منكر الحديث.
وقال أبو عبيد الأجري : سألت أبا داود عن مؤمل بن إسماعيل، فعظمه ورفع من شأنه إلا أنه يهم في الشئ.
وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات".
وقال غيره: دفن كتبه فكان يحدث من حفظه، فكثر خطؤه.
تہذیب الکمال للمزی
29۔178 ط الرسالہ


وقال المروذي: قلت (يعنى لأبي عبد الله) : يحيى بن يمان، ومؤمل إذا اختلفا؟ قال: دع ذا، كأنه لين أمرهما، ثم قال: مؤمل كان يخطئ. «سؤالاته»
موسوعۃ اقوال الامام احمد
۳۔ ۴۱۸ ط عالم الكتب


قال الحاكم: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ مؤمل بن إسماعيل؟ قال صدوق كثير الخطأ.
• وقال الدَّارَقُطْنِيّ: ثقة، كثير الخطأ. «تهذيب التهذيب»
موسوعۃ اقوال الدارقطنی
۲۔۶۷۴ ط عالم الكتب


ولخص محمد بن نصر المروزي حاله فقال: «إذا انفرد بحديث وجب أن يتوقف فيه ويتثبت، لأنه كان سيئ الحفظ كثير الغلط» .
فحده أن لا يحتج به إلا فيما توبع فيه، وفيما ليس من مظان الخطأ.
التنكیل للمعلمی
۲۔۷۲۲ ط المكتب الاسلامی

كیا ان كا سینہ پر ہاتھ باندھنے میں کوئی متابع ہے؟

یہ ان کی توثیق اور جرح ہے جو میں نے نقل کر دی ہے۔ آپ خود دیکھ لیجیے۔ شیخ احمد شاکرؒ سے اس میں شاید غلطی ہوئی ہے۔
احکام القرآن کی روایت کی سند بھی انہی سے شروع ہوتی ہے۔ ویسے اگر ان کی ثقاہت ثابت ہو جائے تو ایک اور زبردست مسئلے میں شرح معانی الآثار میں ان کی روایات احناف کی دلیل بنیں گی۔

علی رض والی سند اور اس کی تحقیق مجھے نہیں ملی۔
آپ کی دی گئی ہر دلیل کا جواب اس کتاب میں موجود ہے جس نے آپ نے پڑھنا گوارا نہیں کیا۔اس میں ۲۵ محدثین سے اس راوی کا ثقہ ہونا ثابت کیا گیا ہے جس میں امام احمد ؒ اور امام بخاریؒ سب شامل ہیں۔جب دوسرے کے دئے گئے جواب کو پڑھنا ہی نہیں چاہتے تو پھر اتنی بحث کس لئے کررہے ہیں!بہرحال یہ ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے کوئی ضخیم کتاب نہیں کہ آپ اسے پڑھ نہ سکیں۔اسے پڑھئے آپ کی دی گئی ہر دلیل کا جواب اس میں موجود ہے الحمدللہ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
طاوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ»

رسول اللہ ﷺ نماز میں اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے اور انہیں اپنے سینہ پہ باندھتے۔

سنن أبی داود: 759, یہ سند مرسل ہے, مگر شواہد کی بناء پر صحیح ہے۔

قبیصہ بن ہلب اپنے والد ہلب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں , انہوں نے کہا :

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ

میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ دائیں اور بائیں (دونوں ) جانب (نماز کے بعد) پھرتے تھے اور میں نے آپ ﷺ کو دیکھ کہ آپ ﷺ اس (ہاتھوں) کو اپنے سینہ پہ رکھتے تھے۔

مسند احمد:21967 , اسکی سند حسن ہے, قبیصہ بن ہلب کو عجلی اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-ahkam-o-msael-773.html
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
وقال أبو حاتم : صدوق، شديد في السنة، كثير الخطأ
امام ابو حاتمؒ نے لکھا ہے:
صدوق، شديد في السنة، كثير الخطأ یکتب حدیثہ
یہ سچے اور کٹر سنی ہیں،زیادہ غلطی کرنے والے ہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم:۳۷۴،۸)
امام ابو حاتم متشددین میں سے ہیں چنانچہ:
امام ذہبیؒ نے کہا :فا نہ متعنت فی الرجالامام ابو حاتم راویوں پر کلام کرنے میں متشدد ہیں (سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۳ ۔۲۶۰)
حافظ ابن حجرؒ نے کہا: و ابو حاتم عندہ عنت ابو حاتم کے یہاں تشدد ہے(مقدمہ فتح الباری لابن حجر:ص ۴۴۱)
وقال البخاري: منكر الحديث.
وقال أبو عبيد الأجري : سألت أبا داود عن مؤمل بن إسماعيل، فعظمه ورفع من شأنه إلا أنه يهم في الشئ.
وذكره ابن حبان في كتاب "الثقات".
وقال غيره: دفن كتبه فكان يحدث من حفظه، فكثر خطؤه.
تہذیب الکمال للمزی
وقال المروذي: قلت (يعنى لأبي عبد الله) : يحيى بن يمان، ومؤمل إذا اختلفا؟ قال: دع ذا، كأنه لين أمرهما، ثم قال: مؤمل كان يخطئ. «سؤالاته»
موسوعۃ اقوال الامام احمد
۳۔ ۴۱۸ ط عالم الكتب
29۔178 ط الرسالہ
momal2.jpg

قال الحاكم: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ مؤمل بن إسماعيل؟ قال صدوق كثير الخطأ.
• وقال الدَّارَقُطْنِيّ: ثقة، كثير الخطأ. «تهذيب التهذيب»
موسوعۃ اقوال الدارقطنی
۲۔۶۷۴ ط عالم الكتب
momal3.jpg


momal.jpg
momal1.jpg


 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
میں نے اوپر صرف وہ پیجز لگائے ہیں جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے ان اقوال کی وضاحت بھی وہاں موجود ہے۔
میں ٹائم ملنے پر وہ ۲۵ محدثین بھی نقل کر دونگا جنہوں نے ثقہ کہا ہے اور احادیث بھی لی ہیں۔ان شاء اللہ۔
 
Top