• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترمذی کی حدیث سے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر استدلال [انتظامیہ]

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
پچیس محدثین جنہوں نے مومل بن اسماعیل کی توثیق کی ہے


(1) امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی:233)
آپ نے کہا:ثقہ۔۔آپ ثقہ ہیں(تاریخ ابن معین ‘روایۃ الدوری:جلد 3 صفحہ 60)
(2) امام المدینی رحمہ اللہ (المتوفی :234)
آپ نے مومل سے روایت لی ہے۔دیکھیں (التاریخ الکبیر للبخاری:1|288)( نیز دیگر کتب رجال)
اور امام المدینی صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں ۔دیکھئے(تھذیب التھذیب لابن حجر:9-114)۔نیز دیکھیں(مقدمہ فتح الباری لابن حجر:ص 435)
(3) امام اسحاق بن راہویہ(المتوفی:238)
آپ نے کہا : ’’ کان ثقۃ‘‘ آپ ثقہ تھے ۔ (المزکیات لابی اسحاق المزکی :ص82 و سندہ حسن )
(4) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی:241)
آپ نے مومل بن اسماعیل سے روایت کیا ہے دیکھئے(مسند احمد ط المیمنیۃ :1|269)
اور امام احمد رحمہ اللہ بھی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:
میرے والد جب کسی انسان سے راضی ہوتے اور وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا تو اس سے روایت کرتے تھے۔(العلل و معرفۃ الرجال لاحمد :1|238)
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا
’’روی عندہ احمد ، وشیو خہ ثقات ‘‘ ان سے امام احمد نے روایت کیا ہے اور امام احمد کے تمام استاد ثقہ ہیں ÷(مجمع الزوائدو منبع الفوائد :1|199)
نیز دیکھئے :(التنکیل بما فی تا نیب الکوثری من الاباطیل:2|659)
جناب ظفر احمد تھانوی حنفی نے کہا:
وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات
’’اسی طرح امام احمد کے تمام اساتذہ ثقہ ہیں ‘‘۔(قواعد فی علوم الحدیث:ص : 218)
(5)امام بخاری رحمہ اللہ(المتوفی :256)
آپ نے صحیح بخاری میں ان سے اشتشہاد کیا ہے۔دیکھئے (صحیح بخاری رقم 270)
امام مزی رحمہ اللہ نے کہا
’’استشھد بہ البخاری‘‘
’’امام بخاری نے ان سے استشہادا روایت لی ہے‘‘(تھذیب الکمال للمزی 29|179)
اور امام بخاری جس سے استشہادا روایت لیں وہ عام طور سے ثقہ ہوتا ہے۔
محمد بن طاہر ابن القیسرانی رحمہ اللہ(المتوفی:507)کہتے ہیں :
’’بل استشھد بہ فی مواضع لیبین انہ ثقہ‘‘
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے ان (حماد بن سلمہ)سے صحیح بخاری میں کئی مقامات پر استشھادا روایت کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ ثقہ ہیں ‘‘
(شروط الائمہ الستتہ:18)
باقی پھر ان شاء اللہ ٹائم ملنے پر۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
طاوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ»

رسول اللہ ﷺ نماز میں اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے اور انہیں اپنے سینہ پہ باندھتے۔

سنن أبی داود: 759, یہ سند مرسل ہے, مگر شواہد کی بناء پر صحیح ہے۔

قبیصہ بن ہلب اپنے والد ہلب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں , انہوں نے کہا :

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ

میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ دائیں اور بائیں (دونوں ) جانب (نماز کے بعد) پھرتے تھے اور میں نے آپ ﷺ کو دیکھ کہ آپ ﷺ اس (ہاتھوں) کو اپنے سینہ پہ رکھتے تھے۔

مسند احمد:21967 , اسکی سند حسن ہے, قبیصہ بن ہلب کو عجلی اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-ahkam-o-msael-773.html
پچھلی حدیث پر بات کر لیں پھر اس پر کرتے ہیں۔ ویسے ان پر میں فورم پر کافی پہلے بات کر بھی چکا ہوں۔

امام ابو حاتمؒ نے لکھا ہے:
صدوق، شديد في السنة، كثير الخطأ یکتب حدیثہ
یہ سچے اور کٹر سنی ہیں،زیادہ غلطی کرنے والے ہیں ان کی حدیث لکھی جائے گی(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم:۳۷۴،۸)
امام ابو حاتم متشددین میں سے ہیں چنانچہ:
امام ذہبیؒ نے کہا :فا نہ متعنت فی الرجالامام ابو حاتم راویوں پر کلام کرنے میں متشدد ہیں (سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۳ ۔۲۶۰)
حافظ ابن حجرؒ نے کہا: و ابو حاتم عندہ عنت ابو حاتم کے یہاں تشدد ہے(مقدمہ فتح الباری لابن حجر:ص ۴۴۱)

یعنی آپ کی بات کا مطلب یہ ہوا کہ چوں کہ امام ابو حاتم متشدد ہیں اس لیے ان کی جرح قبول ہی نہیں ہوگی؟؟؟
علم حدیث میں اگر متشدد عالم کسی پر جرح کرے اور دیگر توثیق کریں تو اس کی جرح قبول نہیں ہوتی لیکن اگر اس کے ساتھ کوئی اور بھی جرح کرے تو جرح مضبوط ہو جاتی ہے (الرفع و التکمیل۔ یہ قاعدہ اور بھی علماء نے ذکر کیا ہے۔ اگر مطلوب ہو تو حوالہ تلاش کر دوں گا ورنہ یہ مشہور قواعد میں سے ہے)۔
آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ان پر جرح اور حضرات کی بھی موجود ہے۔ اور خطاء کی جرح تو امام احمد کی بھی ہے اور دارقطنی کی بھی۔
مروزی کے قول کے بارے میں آپ نے کیا فرمایا ہے، میں اسے نہیں سمجھ سکا۔ میں نے تو امام احمد کی جرح نقل کی ہے اور وہ واضح ہے۔

امام دارقطنیؒ کی جرح بھی انتہائی واضح جرح ہے۔ دارقطنی نے دو باتیں کہی ہیں: صدوق اور کثیر الخطاء۔ اور ان دونوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ ایک شخص صدوق بھی ہو سکتا ہے اور کثیر الخطاء بھی۔
رہ گئی بات ان کی اسناد کو صحیح کہنے کی تو ان کی دونوں باتوں میں تطبیق کا ایک طریقہ وہ ہے جو اوپر مذکور ہے۔ اگر اسی کو درست سمجھ لیا جائے کہ مراد متعدد بار غلطی کرنا ہے تو عرض یہ ہے کہ ہم یہاں ان کی اس روایت کو غلطی والی روایت ہی سمجھیں گے۔ کیوں کہ ان کے علاوہ جنہوں نے وائل بن حجر رض سے روایت کی ہے انہوں نے یا تو سینہ کا ذکر ہی نہیں کیا (جیسے امام احمدؒ) یا پهر ناف كے نیچے كا ذكر كیا ہے (ابن ابی شیبہ (اس روایت پر بندہ کی بحث اسی فورم پر موجود ہے۔ سرچ کرنے پر نہیں مل رہی۔ اگر مطلوب ہو تو ورڈ کی صورت میں مضمون مہیا کیا جا سکتا ہے))۔ اور یہ حضرات ان سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہیں۔
دوسرا تطبیق کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں امام دارقطنی کی رائے تبدیل ہو گئی تھی۔ جیسا کہ علل میں انہوں نے کم از کم دو جگہوں پر ان کی روایت کو وہم قرار دیا ہے۔ اس سے زیادہ میں نے تلاش نہیں کیں۔
وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الدُّنْيَا هُمْ أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الْآخِرَةِ، وَأَهْلُ الْمُنْكَرِ فِي الدُّنْيَا هُمْ أَهْلُ الْمُنْكَرِ فِي الْآخِرَةِ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلُ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛
فَرَوَاهُ مُؤَمَّلٌ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَرَوَاهُ هِشَامُ بْنُ لَاحِقٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَكِلَاهُمَا وَهْمٌ

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم: أن بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمَّا ظَهَرَ فِيهِمِ الْمُنْكَرُ جَعَلَ الرَّجُلُ يَرَى أَخَاهُ وَجَارَهُ عَلَى الْمُنْكَرِ فَيَنْهَاهُ ثُمَّ لَا يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ، الْحَدِيثِ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ مُؤَمَّلٌ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
وَوَهِمَ فِي ذِكْرِ مَسْرُوقٍ.
وَخَالَفَهُ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، وَعَبَّادُ بْنُ مُوسَى، فَرَوَوْهُ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
وَغَيْرُهُمْ يُرْسِلُهُ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَلَا يَذْكُرُ فِيهِ ابْنَ مَسْعُودٍ، وَالْمُرْسَلُ أَصَحُّ مِنَ الْمُتَّصِلِ.

تیسرا طریقہ تطبیق یہ ہے کہ سنن میں دارقطنیؒ سے چوک ہو گئی ہے اور درست بات وہ ہے جو ان سے حاکم نے باقاعدہ سوال کر کے معلوم کی ہے اور جو ابن حجر وغیرہ نے تحریر کی ہے۔
یہ کہنا کہ ضعفاء میں ذکر نہیں کیا، کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ دارقطنی نے عبد اللہ بن المؤمل کی سنن میں تضعیف کی ہے لیکن ضعفاء میں ان کو بھی ذکر نہیں کیا۔

اس سے آگے آپ نے کتاب کے صفحات کاپی کیے ہیں جن کا جواب دینے کے لیے میں اقتباس نہیں لے سکتا۔ اس لیے معذرت۔ یونیکوڈ میں تحریر فرمائیے۔
جزاک اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
پچیس محدثین جنہوں نے مومل بن اسماعیل کی توثیق کی ہے


(1) امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی:233)
آپ نے کہا:ثقہ۔۔آپ ثقہ ہیں(تاریخ ابن معین ‘روایۃ الدوری:جلد 3 صفحہ 60)
(2) امام المدینی رحمہ اللہ (المتوفی :234)
آپ نے مومل سے روایت لی ہے۔دیکھیں (التاریخ الکبیر للبخاری:1|288)( نیز دیگر کتب رجال)
اور امام المدینی صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں ۔دیکھئے(تھذیب التھذیب لابن حجر:9-114)۔نیز دیکھیں(مقدمہ فتح الباری لابن حجر:ص 435)
(3) امام اسحاق بن راہویہ(المتوفی:238)
آپ نے کہا : ’’ کان ثقۃ‘‘ آپ ثقہ تھے ۔ (المزکیات لابی اسحاق المزکی :ص82 و سندہ حسن )
(4) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی:241)
آپ نے مومل بن اسماعیل سے روایت کیا ہے دیکھئے(مسند احمد ط المیمنیۃ :1|269)
اور امام احمد رحمہ اللہ بھی صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:
میرے والد جب کسی انسان سے راضی ہوتے اور وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا تو اس سے روایت کرتے تھے۔(العلل و معرفۃ الرجال لاحمد :1|238)
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا
’’روی عندہ احمد ، وشیو خہ ثقات ‘‘ ان سے امام احمد نے روایت کیا ہے اور امام احمد کے تمام استاد ثقہ ہیں ÷(مجمع الزوائدو منبع الفوائد :1|199)
نیز دیکھئے :(التنکیل بما فی تا نیب الکوثری من الاباطیل:2|659)
جناب ظفر احمد تھانوی حنفی نے کہا:
وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات
’’اسی طرح امام احمد کے تمام اساتذہ ثقہ ہیں ‘‘۔(قواعد فی علوم الحدیث:ص : 218)
(5)امام بخاری رحمہ اللہ(المتوفی :256)
آپ نے صحیح بخاری میں ان سے اشتشہاد کیا ہے۔دیکھئے (صحیح بخاری رقم 270)
امام مزی رحمہ اللہ نے کہا
’’استشھد بہ البخاری‘‘
’’امام بخاری نے ان سے استشہادا روایت لی ہے‘‘(تھذیب الکمال للمزی 29|179)
اور امام بخاری جس سے استشہادا روایت لیں وہ عام طور سے ثقہ ہوتا ہے۔
محمد بن طاہر ابن القیسرانی رحمہ اللہ(المتوفی:507)کہتے ہیں :
’’بل استشھد بہ فی مواضع لیبین انہ ثقہ‘‘
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے ان (حماد بن سلمہ)سے صحیح بخاری میں کئی مقامات پر استشھادا روایت کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ ثقہ ہیں ‘‘
(شروط الائمہ الستتہ:18)
باقی پھر ان شاء اللہ ٹائم ملنے پر۔۔
اس پورے کے جواب میں میں صرف ایک قاعدہ عرض کرتا ہوں کہ "جرح مفسر تعدیل سے راجح ہوتی ہے" اور کثیر الخطاء کی جرح مفسر ہے۔
اور امام احمد نے تو خود صراحتا جرح کی ہے تو بھلا ان کی باتوں سے تعدیل اخذ کرنا کیسے درست ہے؟
 
شمولیت
فروری 19، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
40
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی احادیث کی تحقیقۛ

١۔سنن ابی داود وغیرہ میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والی جو روایت ہےوہ عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔اس شخص پر جرح سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے۔امام نوی نے کہا۔عبدلرحمن بن اسحاق
بالاتفاق ضعیف ہے۔
﴿نصب الرایة للزیلعی الحنفی١۔۳١۴﴾﴿حاشیہ آثار السنن ح۳۳۰﴾مزید جراح کیلیے عینی حنفی کی البنایةفی شرح الہدایہ﴿۲۔۲۰۸﴾وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ١۷،﴿١۔١۰۲﴾میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔
۲۔سیدناانسس رضہ سے منسوب تحت السرة﴿ناف کے نیچے﴾ والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ ً حافظ ابن حجر نے کہاۛمنکرالحدیث ً﴿تقریب التہزیبۛ ۲۳۰۴﴾

۳۔بعض لوگ مصنف ابن انی شیبہ سے ً تحت السرة ٰ والی رویت پیش کرتے ہیں حالانکہ اس کے اصل ﴿عام﴾قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں ً تحت السرة ً کے الفاظ کا اضافہ گھڑلیا تھا۔

انور شا کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں ً پس بے شک میں نے مصنف کے تین﴿قلمی﴾نسخے دیکھے ہیں۔ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ ﴿تحت السرة والی عبارت﴾نہیں ہے﴿ٰفیض الباری۲۔۲٦۷﴾
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی احادیث کی تحقیقۛ

١۔سنن ابی داود وغیرہ میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والی جو روایت ہےوہ عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔اس شخص پر جرح سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے۔امام نوی نے کہا۔عبدلرحمن بن اسحاق
بالاتفاق ضعیف ہے۔
﴿نصب الرایة للزیلعی الحنفی١۔۳١۴﴾﴿حاشیہ آثار السنن ح۳۳۰﴾مزید جراح کیلیے عینی حنفی کی البنایةفی شرح الہدایہ﴿۲۔۲۰۸﴾وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ١۷،﴿١۔١۰۲﴾میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔
۲۔سیدناانسس رضہ سے منسوب تحت السرة﴿ناف کے نیچے﴾ والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ ً حافظ ابن حجر نے کہاۛمنکرالحدیث ً﴿تقریب التہزیبۛ ۲۳۰۴﴾

۳۔بعض لوگ مصنف ابن انی شیبہ سے ً تحت السرة ٰ والی رویت پیش کرتے ہیں حالانکہ اس کے اصل ﴿عام﴾قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں ً تحت السرة ً کے الفاظ کا اضافہ گھڑلیا تھا۔

انور شا کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں ً پس بے شک میں نے مصنف کے تین﴿قلمی﴾نسخے دیکھے ہیں۔ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ ﴿تحت السرة والی عبارت﴾نہیں ہے﴿ٰفیض الباری۲۔۲٦۷﴾
ویسے تو انور شاہ کشمیری صاحب دیوبندی اور بھی بہت کچھ مختلف مقامات پر فرماتے ہیں (ابتسامہ)۔ بہر حال جو نسخے انہوں نے دیکھے قول ان کے بارے میں ہے۔
فی الحال ایسے نسخے دریافت ہو چکے ہیں جو تحقیق کی شرائط کو بھی پوراکرتے ہیں اور ان میں یہ لفظ موجود بھی ہے۔ تفصیل کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ شیخ عوامہ کی تحقیق والی کے ابتدائی صفحات دیکھ لیجیے۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
سوال: کیا آپ لوگوں کو صرف ضعیف احادیث ہی نظر آتی ہیں نیچے کی یہ صحیح حدیث نظر نہیں آتی تقلید کا چشمہ اتار کر دیکھیں کہ شائد
نزر آجائے۔
محترم! آپ کی بات سر آنکھوں پر لیکن ایک چھوٹی سی درخواست ہے کہ آپ بھی ”اندھی تقلید“ بشکل ”اتباع“ سے بھی جان چھڑا لیں اور ’حق جاننے‘ کی تگ و دو کریں ’ حق ثابت‘ کرنے پر ہی سارے قویٰ نہ لگائیں۔

طاوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ»


رسول اللہ ﷺ نماز میں اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے اور انہیں اپنے سینہ پہ باندھتے۔

سنن أبی داود: 759, یہ سند مرسل ہے, مگر شواہد کی بناء پر صحیح ہے۔
یہ حدیث آپ کے اصول کے مطابق کیا ”صحیح“ ہے؟ آپ بھی ضعیف کو ٖضعیف سے رد کرنے کی کوشش میں ہیں۔
محترم! مرسل آپ کے ہاں ضعیف ہے۔ آپ نے لکھا ”شواہد کی بنا پر“ تو محترم اعتماد شواہد پر ہؤا نہ کہ اس پر۔ وہ شواہد پیش کریں جو آپ کی دلیل ہیں۔

قبیصہ بن ہلب اپنے والد ہلب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں , انہوں نے کہا :

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ


میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ دائیں اور بائیں (دونوں ) جانب (نماز کے بعد) پھرتے تھے اور میں نے آپ ﷺ کو دیکھ کہ آپ ﷺ اس (ہاتھوں) کو اپنے سینہ پہ رکھتے تھے۔

مسند احمد:21967 , اسکی سند حسن ہے, قبیصہ بن ہلب کو عجلی اور ابن حبان نے ثقہ کہا ہے۔
محترم! یہ خارج از نماز عمل بتایا گیا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد کہیں بھی ہاتھ رکھا جائے اس کا زیر بحث قضیہ سے تعلق نہیں۔ اگر آپ اس کو نماز میں ثابت کرنا چاہتے ہیں تو بھی صحیح نہیں کہ علماء نے ثبوت فراہم کیا ہے کہ اس میں لفظ ”علیٰ صدرہ“ غیر محفوظ ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جس میں ”عبد الرحمن بن اسحاق“ کو ضعیف کہا گیا ہے وہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہم عصر نہیں بلکہ بعد کا راوی ہے۔ اس سے پہلے کے جتنے راوی ہیں وہ سب ثقہ ہیں۔ چونکہ یہ بات آپ لوگوں کو بھی مسلم ہے کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ’صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے‘ لہٰذا اس حدیث کے مطابق ان کا عمل صحیح حدیث پر عمل ہے۔ ناف کے مضافات میں ہاتھ باندھنا تین مجتہد فقہاء کرام کا عمل ہے اور چوتھے امام مالک بھی اس کے مخالف نہیں کہ ہاتھ ناف کے مضافات میں باندھے جائیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
”اہلِ حدیث“ حضرات کو دعویٰ چونکہ ”قرآن و صحیح حدیث“ ہے لہٰذا چونکہ کسی حدیث کو صحیح یا غلط کہنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ ہاتھ باندھنے کے مقام میں جو احادیث مروی ہیں وہ دونوں فریق کی ضعیف ہی ہیں مگر ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ حنفی، شافعی اور حنبلیوں کے نزدیک ہاتھ باندھنے کی جگہ ناف کے مضافات ہی ہے۔ لہٰذا جس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو وہی صحیح ہے۔
دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اگر امتِ مسلمہ میں کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفاء راشدین کی طرف رجوع کرنے کو کہا ہے۔ خلفاء راشدین میں سے آخری خلیفہ نے ناف ہی کو ہاتھ باندھنے کی جگہ ناف ہی بتائی ہے۔
نماز روزانہ پانچ وقت خیر القرون کا ہر شخص پڑھتا تھا۔ صاحب سنن الترمذی ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ؛
وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ
بعض کو ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے دیکا بعض کو ناف کے نیچے اور ان کے نزدیک یہ سب صحیح ہے۔ ناف ایک مختصر سی جگہ ہے اور مستور ہوتی ہے۔ہاتھ باندھنے سے متعلق جتنی احادیث ہیں وہ ”فعلی“ ہیں۔ راویوں نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے۔ مستور چیز (جو کہ ایک مختصر سا مقام ہو) کے تعین میں کہ ہاتھ اس سے اوپر ہیں یا نیچے کوئی اختلافی بات نہیں۔
 
Top