• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک دعوت موجب ہلاکت ہے

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
ترک دعوت موجب ہلاکت ہے

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب

اسلام اللہ کا پیارا دین ہے ، یہ پیارا دین خوبصورت باتوں ، حسین تعلیمات ، پاکیزہ عقائد اور عمدہ فکروخیال پرمشتمل ہے ، دراصل اسی دین میں تمام دنیا والوں کے لئے امن وراحت اور سکون واطمینان ہے ۔ جس کو بھی زندگی کا اور جینے کا سلیقہ چاہئے وہ اسلام کے سایہ تلے آجائے پھر اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لے گی اور وہ خوشگوار زندگی گزار سکے گا۔
ایک سوال ذہن میں ابھر کر سامنے آتا ہے کہ جب اسلام کے دامن میں امن ہے تو پھر مسلمان آج کیوں پریشان حال ہیں؟جس کے لئے عروج وارتقا مقدر تھی وہ مظلوم قوم بن کر کیوں رہ گئی ہے ؟ہرطرف مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہو رہا ہے ؟ آج اللہ ہم سے کیوں ناراض ہے اور وہ کیوں ہمیں آزمائش میں مبتلا کردیا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم صرف دعوی میں مسلمان رہ گئے ہیں ، عملا تعلیما ت محمدی سے کوسوں دور ہیں ۔ اللہ نے ہمیں سب سے پیارا دین دیا، ہم نے اس دین کی نہ حفاظت کی، نہ اسے صحیح سے سمجھا اور نہ دین پر صحیح سے عمل کرنے کی کوشش کی یعنی ہم نے اپنے دین کی مدد نہیں کی جس کی وجہ سے اللہ کی مدد ہم سے دور ہوگئی ۔ اللہ نے ہمیں امت محمدیہ میں سے بنایا ہے اور امت کے ہرفرد کی ذمہ کی داری ہے کہ وہ دین اسلام کا علم حاصل کرے ، اس پر عمل کرے اور دوسروں کو اس کی تبلیغ بھی کرے ، اگر تبلیغ کے راستے میں مشکلات پیش آئیں تو صبر کا دامن تھامے ۔ سورہ عصر کا خلاصہ یہی باتیں ہیں اور انہیں باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے بعد ہم دنیا وآخرت میں نجات پانے والے ہیں ورنہ نہیں ۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو دعوت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(آل عمران:104)
ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چائیے جو بھلائی کی طرف بُلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور بُرے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔
اور دوسری جگہ اللہ کا ارشاد گرامی ہے:ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ(النحل:125)
ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے ۔
دعوت وتبلیغ حسب استطاعت اور بقدر علم ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
بَلِّغُوا عَنِّي ولو آيَةً، وَحَدِّثُوا عن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.(صحيح البخاري:3461)
ترجمہ: میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، ان میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
اللہ تعالی نے آخری نبی بھیج کر انبیاء کی آمد کا سلسلہ منقطع فرمادیا، اب قیامت تک محض آخری نبی محمد ﷺ کا پیغام ہی دنیا والوں کے لئے راہ نجات ہے۔ اس پیغام کو دنیا کے ہر فرد تک اور دنیا کے کونے کونے سے پہنچانا ہرمسلمان کا فریضہ ہے۔یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں تک صحیح دعوت نہ پہنچنے کی وجہ سے اسلام اجنبی ہوتا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کے لئے ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا برابر بھی تردد نہیں کہ اس امت کے اکثر افراد نے اصل دعوت کا فریضہ چھوڑ رکھا ہے جس کی وجہ سے تباہی ہماری مقدر بن گئی ہے ۔ ایسے موقع سے اللہ کی تباہی نیک وبد سب کو شامل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن وحدیث کے چند دلائل دیکھتے ہیں جن میں ترک دعوت پہ تباہی وبربادی کا ذکر ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
لُعِنَ الَّذينَ كَفَرُوا مِنْ بَني إِسْرائيلَ عَلى لسان دَاودَ وعيسى بن مَرْيَمَ ذلكَ بِما عَصَوْا وكَانُوا يَعْتَدونَ.كَانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنْكَر فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلونَ(المائدة: 78- 79)
ترجمہ: بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد علیہ السلام اورعیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وہ بہت برا تھا ۔
جو منکر سے لوگوں کو نہیں روکتے وہ لعنت کے مستحق ہوتے ہیں اور منکر والے تو عذاب سے دوچار ہوتے ہی ہیں اور بچتے وہی ہیں جو نیکی کرتے ہیں، برائی سے رکتےہیں اور لوگوں کو بھی نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔اللہ کا فرمان ہے:
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا به أَنجَيْنَا الَّذينَ يَنْهَوْنَ عَن السُّوء وَأَخَذْنَا الَّذينَ ظَلَمُوا بعَذَاب بَئيس بمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ(الأعراف:165)
ترجمہ:سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے ۔
ایک جگہ اللہ نے صراحت سے ذکر کیا ہے کہ پہلےزمانوں میں فساد اور منکر سے روکنے والے کم تھے اورہم نے سب کو ہلاک کردیا اور ان میں سے چند اچھے لوگوں کو بچا لیا جو لوگوں کو فساد فی الارض اور شر سے منع کیاکرتے تھے چنانچہ فرمان الہی ہے :
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ
ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ(هود:116)
ترجمہ: پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خیر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑ گئے جس میں انہیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے۔
اب چند احادیث ذکر کرتا ہوں جن میں ترک دعوت پہ ہلاکت خیزی کا ذکر ہے ۔ سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا:
ما من رجلٍ يكونُ في قومٍ يعملُ فيهم بالمعاصي يقدِرون على أن يُغيِّروا عليه فلا يُغيِّروا إلَّا أصابهم اللهُ بعذابٍ من قبلِ أن يموتوا(صحيح أبي داود:4339)
ترجمہ: جو کوئی ایسی قوم میں ہو کہ ان میں اللہ کی نافرمانیاں کی جا رہی ہوں اور وہ لوگ ان کی اصلاح اور ان کے بدلنے پر قادر ہوں ، اس کے باوجود وہ ان کی اصلاح نہ کریں اور انہیں نہ بدلیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کے مرنے سے پہلے عذاب دے گا ۔
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
يا أيُّها النَّاسُ إنَّكُم تَقرؤونَ هذِهِ الآيةَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ، وإنِّي سَمِعْتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يَقولُ: إنَّ النَّاسَ إذا رأوا ظالمًا، فلم يأخُذوا على يَديهِ أوشَكَ أن يعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقابٍ منهُ(صحيح الترمذي:3057)
ترجمہ:: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} اور میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا بھی ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں پھر بھی اس کے ہاتھ پکڑ نہ لیں (اسے ظلم کرنے سے روک نہ دیں) تو قریب ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آ جائے (اور وہ ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے) ۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
والَّذي نَفسي بيدِهِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنهوُنَّ عنِ المنكرِ أو ليوشِكَنَّ اللَّهُ أن يبعثَ عليكُم عقابًا منهُ ثمَّ تَدعونَهُ فلا يَستجيبُ لَكُم(صحيح الترمذي:2169)
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم بھلائی کا حکم دو اوربرائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرواورتمہاری دعاء قبول نہ کی جائے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
مَثَلُ القائِمِ علَى حُدُودِ اللَّهِ والواقِعِ فيها، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا علَى سَفِينَةٍ، فأصابَ بَعْضُهُمْ أعْلاها وبَعْضُهُمْ أسْفَلَها، فَكانَ الَّذِينَ في أسْفَلِها إذا اسْتَقَوْا مِنَ الماءِ مَرُّوا علَى مَن فَوْقَهُمْ، فقالوا: لو أنَّا خَرَقْنا في نَصِيبِنا خَرْقًا ولَمْ نُؤْذِ مَن فَوْقَنا، فإنْ يَتْرُكُوهُمْ وما أرادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وإنْ أخَذُوا علَى أيْدِيهِمْ نَجَوْا، ونَجَوْا جَمِيعًا.(صحيح البخاري:2493)
ترجمہ: اللہ کی حدود پر قائم رہنے والےاور اس میں گھس جانے والے(یعنی خلاف کرنے والے)کی مثالایسے لوگوں کی سی ہے جنھوں نے ایک کشتی کے ذریعہ قرعہ تقسیم کرلیا۔ بعض لوگوں کے حصے میں اوپر والا طبقہ آیا جبکہ کچھ لوگوں نے نچلا حصہ لے لیا۔ اب نچلے حصے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے۔ انھوں نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے ہی میں سوراخ کرلیں تواچھا ہوگا۔ اس طریقے سے ہم اوپر والوں کے لیے اذیت کاباعث نہیں ہوں گے۔ اب اگر اوپر والے نیچے والون کو ان کے ارادے کے مطابق چھوڑ دیں تو سب ہلاک ہوجائیں گے اوراگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں گے اور دوسرے بھی محفوظ رہیں گے۔
ان آیات واحادیث سے جو بات صاف صاف سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اکثرمسلمانوں نے دعوتی فریضہ چھوڑ رکھا ہے جس کے نتیجے آج وہ قسم قسم کے دنیاوی عذاب میں مبتلا ہیں ، دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ دعوت دینے والوں کی بھی کچھ کمی نہیں ہے ، بڑے پیمانے پر اور بڑے بڑے اجلاس منعقد ہورہے ہیں ، بسا اوقات ایک ایک پروگرام کی فہرست میں سو سو مقررین ومقالہ نگار کے اسمائے گرامی ہوتے ہیں ، ان افراد کی کوششوں میں صرف ایک ایک فائدہ تلاش کیا جائے تو سماج کے لئے اس پروگرام سے سو فائدے بنتے ہیں مگر حقیقت میں سماج کو ان جیسے پروگراموں سے آج کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ دنیا کی ان ساری دعوتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں لگتا ہے کہ دعوت کا کام نہیں ہورہاہے یا اگر کچھ دعوتی کام ہورہا ہے تو اس میں بہت ساری خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ آئیے ڈھونڈتے ہیں کمیاں کہاں ہیں ؟
٭ ایک بڑی خامیاں تو یہ ہے کہ مسلمانو ں کی ایک بڑی تعداد جامعات ومدارس سے فارغ ہوتی ہے اور کثیر تعداد میں دین کا علم رکھنے والے علم حاصل کرنے کے بعد دوسرا میدان اختیار کرلیتے ہیں اور سرے سے تبلیغ ہی نہیں کرتے ۔
٭ دوسری خامی یہ ہے کہ جب اہل علم نے دین کی تبلیغ میں کوتاہی کی، لوگوں تک دین پہنچانے میں سستی سے کام لیا تو ان کی جگہ جاہلوں نے لے لی، یہی وجہ ہے کہ آج کم علم والے مفتی و عالم بنے امت کو گمراہی کی طرف لے جارہے ہیں ۔
٭ جو لوگ فرقہ پرستی کی دعوت دے رہے ہیں وہ لوگوں سے حق چھپاتے ہیں او ر باطل کی دعوت دیتے ہیں ، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین کے نصوص کو توڑمروڑ کر اپنے مسلک پر منطبق کرتے ہیں اور لوگوں سے حق چھپاکر اپنے خود ساختہ اقوال کی طرف بلاتے ہیں۔
٭ ایک خامی تو یہ ہے کہ امت کے پڑھے لکھے افراد دعوت میں اصل چیز کی دعوت سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں ،انبیاء کی اصل دعوت "توحید " کی نشر واشاعت اور "شرک" کی بیخ کنی تھی جس سے آج کے اکثر علماء کترارہے ہیں الا ماشاء اللہ۔
٭ آج علم تجارت بن گیا، وقت اور عالم کے قدر کے حساب سے تقریر کا پیسہ متعین کیا جاتا ہے ،ایسے میں دعوت کہاں ہوگی ، وہ توتجارت بن گئی اور جب دعوت تجارت بن جائے تو امت کو کیا خود کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
٭ دعوت کا دائر ہ بالکل محدود ہوکر رہ گیا ہے، دین تو مسلمانوں کے پاس ہے ہی ، علماء کے لئے تبلیغ کا اصل میدان غیروں پر اسلام پیش کرنا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس میدان میں عصری تعلیم یافتہ کچھ ڈاکٹروانجینئر تو کام کررہے ہیں مگر انبیاء کے اصل وارثین نظر نہیں آتے ۔
٭ دعوت کا دائرہ اس معنی میں بھی تنگ ہوگیا ہے کہ مسلمان مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہر فرقہ والا صرف اپنے دائرے میں دعوت دے کر مگن ہے اور سمجھ رہا ہے کہ ہم دعوت کا بڑا کام کررہے ہیں جبکہ نہ ہی غیرمسلموں تک پہنچ رہےہیں اور نہ ہی اپنے سوا دوسرے مسلمانوں کے پاس جاپاتے ہیں ۔
٭ جو چند دعاۃ پائے جاتے ہیں ،ان میں اکثر اپنے نفس کی دعوت سے بالکل غافل ہیں ، سمجھتے ہیں کہ قرآن وحدیث کو دوسروں پر پیش کردینا ہی دعوت ہے، ہمارے لئے ان باتوں کا عمل میں لانا کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہ بات خود سے کہتے نہیں ہیں مگر عملا ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے ۔ ایسے دعاۃ کی تقریر میں اثر کہاں سے پیدا ہوگا؟۔
٭ دعوت میں ایک پہلو امر کا ہے اور دوسرا پہلو نہی کا یعنی جس طرح ہم پر بھلی باتوں کا حکم دینا واجب ہے اسی طرح بری باتوں سے روکنا بھی واجب ہے ۔ آج اچھی اچھی باتوں کی بڑی تبلیغ ہوتی ہے مگر منکرات پہ کوئی کسی کو ٹوکنے والا نہیں ہے۔
٭ بعض دعاۃ نافرمانوں کو تبلیغ نہیں کرتے، یہ سوچتے ہیں کہ تبلیغ سے ان کو کیا فائدہ ہوگا ، یہ بڑی بھول ہےجس کا ارتکاب پہلے بنی اسرائیل بھی کرچکی ہے۔ برائی کرنے والوں کو جب صالحین نصیحت کرتے تو کچھ لوگ کہتے کہ ان پر عذاب تو آنا ہی انہیں نصیحت کرکے کیا فائدہ ؟
ان باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت ہم مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے، اس کی ادائیگی میں امانتداری کا ثبوت دیں ، دین کی اتنی ہی دعوت دیں جتنی معلومات یقین وبرہان کے ساتھ ہےنیز دعوت کے میدان میں صادر ہونے والی مذکورہ بالا خامیاں اپنے درمیان سے دور کریں تبھی ہماری دعوت کامیاب اور ہمارا یہ عمل نجات کا باعث بن سکتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص وللہیت کے ساتھ دعوت دینے کی توفیق دے ۔ آمین
 
Top