• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین کے دلائل کا جائزہ

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
السلام علیکم
ان روایات کی تحقیق درکار ہے :

(1)روی الامام ابوبکر اسماعیلی قال حدثنا عبد الله بن صالح بن عبد الله أبو محمد صاحب البخاري صدوق ثبت قال : حدثنا إسحاق بن إبراهيم الْمَرْوَزِيُّ ، حدثنا محمد بن جابر السُّحَيْمِىُّ ، عن حماد ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر ، فلم يرفعوا أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة۔

(کتاب المعجم لابی بکر الاسماعیلی ج2ص692،693رقم154،مسند ابی یعلی ص922رقم5037)
(2)۔روی الامام الاعظم ابوحنیفۃ رحمہ اللہ یقول سمعت الشعبی یقول سمعت البراء بن عازب رضی اللہ عنہ یقول کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ لایعود برفعھما حتی یسلم من صلوتہ،

(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ ابی نعیم ص344رقم225وفی نسخۃ ص156طبع الریاض)
(3)۔روی الامام أبو داؤد السجستاني :قال حدثنا محمد بن الصباح البزاز نا شریک عن یزید بن ابی زیاد عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن البراء ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ الی قریب من اذنیہ ثم لایعود،

(سنن ابی داؤد ج1ص116باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ، مسند ابی یعلیٰ ص 400 رقم الحدیث 1692،1691،1690)
(4)۔روی الامام أبو بكر عبدالله بن الزبير الحميدي: قال [حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قال] ثنا الزہری قال اخبرنی سالم بن عبداللہ عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلایرفع ولا بین السجدتین،

(مسند الحمیدی ج2ص277رقم614طبع بیروت،مسند ابی عوانۃ ج1ص334باب بیان افتتاح الصلوۃ)
روی الإمام أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الاسفرائني: قال حدثنا عبداللہ بن ایوب الْمُخَرِّمِيُّ و سَعْدان بن نصر وشعیب بن عمر وفی آخَرِينَ قالوا حدثنا سفیان بن عیینۃ عن الزہری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لایرفعھما وقال بعضھم ولایرفع بین السجدتین،
(مسند ابی عوانۃ ج1ص334 بيان رفع اليدين في افتتاح الصلاة قبل التكبير بحذاء منكبيه وللركوع ولرفع رأسه من الركوع وأنه لا يرفع بين السجدتين، رقم1251، الخلافيات للبيهقي بحوالہ شرح سنن ابن ماجہ لمغلطائی ج5ص1472باب رفع الیدین اذا رکع واذارفع راسہ من الرکوع)
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم
ان روایات کی تحقیق درکار ہے :
(1)روی الامام ابوبکر اسماعیلی قال حدثنا عبد الله بن صالح بن عبد الله أبو محمد صاحب البخاري صدوق ثبت قال : حدثنا إسحاق بن إبراهيم الْمَرْوَزِيُّ ، حدثنا محمد بن جابر السُّحَيْمِىُّ ، عن حماد ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر ، فلم يرفعوا أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة۔
(کتاب المعجم لابی بکر الاسماعیلی ج2ص692،693رقم154،مسند ابی یعلی ص922رقم5037)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس کا جواب ہمارے محترم بھائی شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر نے دیا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صليت مع النبي ﷺ ومع أبي بكر و مع عمر، فلم يرفعوا أيديھم الا عند التكبيرة الأولي في افتتاح الصلاة.
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے صرف نماز کے شروع میں پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کیا۔“
(سنن الدارقطنى:295/1، ح:1120، واللفظ له، مسند ابي يعلى:5039)


تبصرہ:
یہ روایت سخت ترین ”ضعیف“ ہے، کیونکہ

(۱) اس کا راوی محمد بن جابر یمامی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔


حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھو ضعيف عند الجمھور. یہ جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔ (مجمع الزوائد:346/5)


اس کو امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام یحیی بن معین، امام عمرو بن علی الفلاس، امام نسائی، امام جوزجانی، امام دارقطنی وغیرہم رحمہم اللہ نے مجروح و ضعیف کہا ہے۔

امام دارقطنی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
تفرد به محمد بن جابر اليمامي وكان ضعيفا.
”اس کو بیان کرنے میں محمد بن جابر یمامی متفرد ہے اور وہ ضعیف تھا۔“
(سنن الدارقطنى:295/1)


امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ھذا ابن جابر ايش حديثه؟ ھذا حديث منكر، أنكره جدا.
”یہ محمد بن جابر ہے، اس کی حدیث کیا ہے؟ یہ ایک منکر حدیث ہے، میں اسے سخت منکر سمجھتا ہوں۔“
(العلل:144/1)


امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يتابع محمد بن جابر علي ھذا الحديث ولا علي عامة حديثه.
”محمد بن جابر کی نہ اس حدیث میں متابعت کی گئی ہے اور نہ ہی عام احادیث پر۔“
(الضعفاء:42/4)


امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”ضعیف“ کہا ہے۔ (معرفة السنن والآثار للبيھقى:425/2)

حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں:
ھذا حديث لا يصح عن رسول الله ﷺ. ”یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔“(الموضوعات:96/2)


امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وحديثه عن حماد، فيه اضطراب. ”اس کی حدیث حماد بن ابی سلیمان سے مضطرب ہوتی ہے۔“ (الجرح و التعديل:219/7)


یہ روایت بھی اس نے اپنے استاد حماد سے بیان کی ہے، لہذا جرح مفسر ہے۔

تنبیہ:
محمد بن جابر یمامی کہتے ہیں:

سرق أبوحنيفة كتب حماد مني. ”ابوحنیفہ نے مجھ سے حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں چوری کیں۔“ (الجرح و التعديل:450/8)


اب یہاں عجیب الجھن پیدا ہو گئی ہے کہ اگر محمد بن جابر یمامی ”ثقہ“ ہے تو امام صاحب پر چوری کا الزام عائد ہوتا ہے اور اگر امام صاحب کو بچائیں تو اس روایت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے!

(۲) اگر یہ حدیث صحیح ہے تو بعض الناس قنوت وتر اور عیدین میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں؟

(۳) یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ عام ہے، جبکہ رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے ثبوت والی احادیث خاص ہیں، لہذا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا۔ اتنی سی بات بعض لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں!

(۴) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ (السنن الكبري للبيهقي:73/2)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
(3)۔روی الامام أبو داؤد السجستاني :قال حدثنا محمد بن الصباح البزاز نا شریک عن یزید بن ابی زیاد عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن البراء ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ الی قریب من اذنیہ ثم لایعود،
اس کا جواب بھی شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر نے دیا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان رسول الله ﷺ كان اذا افتح الصلاة رفع يديه الي قريب من أذنيه، ثم لا يعود.
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنے کانوں کے قریب تک رفع الیدین کرتے، پھر دوبارہ نہ فرماتے۔“
(سنن ابي داود:749، سنن دارقطني:293/1، مسند ابي يعليٰ:1690)


تبصرہ:
(۱) اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔
حفاظ محدثین کا اس حدیث کے ”ضعف“ پر اجماع و اتفاق ہے، اس کا راوی یزید بن ابی زیاد جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”سیئ الحفظ“ ہے، نیز یہ ”مدلس“ اور ”مختلط“ بھی ہے، تلقین بھی قبول کرتا تھا۔


حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعيف، كبر، فتغير، وصار يتلقن وكان شيعيا.
”یہ ضعیف راوی ہے، بڑی عمر میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور یہ تلقین قبول کرنے لگا تھا، یہ شیعی بھی تھا۔“
(تقريب التھذيب: 7717)

نیز لکھتے ہیں:
والجمھور علي تضعيف حديثه. جمہور محدثین اس کی حدیث کو ضعیف کہتے ہیں۔ (ھدي السارى:459)


بوصیری لکھتے ہیں:
يزيد بن أبي زياد أخرج له مسلم في المتابعات وضعفه الجمھور.
”یزید بن ابی زیاد کی حدیث امام مسلم نے متابعات مین بیان کی ہے، جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔“
(زوائد ابن ماجه:549/2)


امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يخرج منه في الصحيح، ضعيف، يخطئ كثيرا.
”کسی صحیح کتاب میں اس کی کوئی حدیث بیان نہیں کی جائے گی، یہ ضعیف ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔“
(سوالات البرقاني:561)


حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وليس ھو بالمتقن، فلذا لم يحتج به الشيخان.
”وہ پختہ راوی نہیں، اسی لیے شیخین (بخاری و مسلم) نے اس سے حجت نہیں لی۔“
(سير أعلام النبلاء:129/6)


یہ صحیح مسلم کا راوی نہیں ہے، امام مسلم نے اس سے مقروناً روایت لی ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم يكن يزيد بن أبي زياد بالحافظ، ليس بذالك.
”یزید بن ابی زیاد حافظ نہیں تھا، حدیث کی روایت کے قابل نہ تھا۔“
(الجرح و التعديل:265/9)


امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالقوي. ”یہ قوی نہیں تھا۔“ (الجرح و التعديل:265/9)


امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لين، يكتب حديثه، ولا يحتج به.
”کمزور راوی ہے، اس کی حدیث لکھی جائے گی، لیکن اس حجت نہیں لی جائے گی۔“
(الجرح و التعديل:265/9)


امام جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سمعتھم يضعفون حديثه. ”میں نے محدثین کو اس کی حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا۔“ (احوال الرجال:135)


امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالقوي. ”یہ قوی نہیں۔“ (الضعفاء والمتروكين:651)


امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يحتج بحديث يزيد بن أبي زياد. ”یزید بن ابی زیاد کی حدیث سے حجت نہیں لی جائے گی۔“ (تاريخ يحيي بن معين:3144)


امام وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بشئ. ”یہ (حدیث میں) کچھ بھی نہیں۔“ (الضعفاء للعقيلى:380/4،وسنده صحيح)


امام علی بن المدینی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (الضعفاء للعقيلى:480/4،وسنده صحيح)

امام شعبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
كان يزيد بن ابي زياد رفاعا.
”یزید بن ابی زیاد رفاع (موقوف روایات کو مرفوع بنا دینے والا) تھا۔“
(الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:265/9)


امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ارم به. ”اسے پھینک (چھوڑ) دو۔“ (تھذيب التھذيب:288/11)


امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويزيد من شيعة أھل الكوفة، مع ضعفه يكتب حديثه.
”یزید اہل کوفہ کے شیعہ میں سے ہے، ضعف کے ساتھ ساتھ اس کی حدیث لکھی جائے گی۔“
(الكامل:276/7)


لہذٰا امام عجلی (تاريخ العجلي:2019) اور امام ابن سعد (الطبقات الکبرٰی:340/6) کا اس کو ”ثقہ“ کہنا اور امام ابن شاہین کا اسے ”الثقات (1561) “ میں ذکر کرنا جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے۔
نیز اس کی توثیق کے بارے میں احمد بن صالح المصری کا قول ثابت نہیں ہے۔


الحاصل:
یہ حدیث باتفاق محدثین ”ضعیف“ ہے، ”ضعف“ کے ساتھ ساتھ یزید بن ابی زیاد نے اسے بیان بھی اختلاط کے بعد کیا ہے۔

(۲) یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ عام بھی ہے، جبکہ رکوع والے رفع الیدین کی دلیل خاص ہے، لہذٰا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
ھذا خبر عول عليه أھل العراق في نفي رفع اليدين في الصلاة عندالركوع وعند رفع الرأس منه، وليس في الخبر: ثم لم يعد، وھذه الزيادة لقنھا أھل الكوفة يزيد بن أبي زياد في آخر عمره، فتلقن، كما قال سفيان بن عيينه : انه سمعه قديما بمكة يحدث بھذا الحديث باسقاط ھذه اللفظة، ومن لم يكن العلم صناعته لا يذكر له الاحتجاج بما يشبه ھذا من الأخبار الواھية.
”یہ وہ حدیث ہے جس پر اہل عراق نے نماز میں رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی میں اعتماد کیا ہے، حالانکہ حدیث میں
”ثم لم يعد.“ (پھر دوبارہ نہ کیا) کے الفاظ نہیں تھے، یہ زیادت یزید بن ابی زیاد کو اس کی آخری عمر میں اہل کوفہ نے تلقین کی تھی، اس نے اسے قبول کر لیا، جیسا کہ امام سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلے دور میں مکہ میں اسے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا تھا، اس وقت اس نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے تھے، جو آدمی فن حدیث کا اہل نہ ہو، اس کے لیے اس طرح کی ضعیف روایات کو بطور دلیل ذکر کرنا درست نہیں ہے۔“ (المجروحين لابن حبان:100/3)


خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ذكر ترك العود الي الرفع ليس بثابت عن النبي ﷺ، فكان يزيد بن أبي زياد يروي ھذا الحديث قديما ولا يذكره، ثم تغير وساء حفظه فلقنه الكوفيون ذلك، فتلقنه ووصله بمتن الحديث.
(تکبیر تحریمہ میں رفع الیدین کے بعد) دوبارہ رفع الیدین کو چھوڑنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، یزید بن ابی زیاد اس حدیث کو پہلے پہل بیان کرتا تھا، لیکن ان الفاظ کو ذکر نہیں کرتا تھا، پھر اس کا حافظہ خراب ہو گیا تو کوفیوں نے اس کو ان الفاظ کی تلقین کی، اس قبول کر لی اور اسے متن کے ساتھ ملا دیا۔
(المدرج:369/1)


حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
واتفق الحفاظ علي أن قوله : ثم لم يعد، مدرج في الخبر من قول يزيد بن أبي زياد.
”حفاظ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ثم لم يعد کے الفاظ اس حدیث میں مدرج ہیں، یہ یزید بن ابی زیاد کی اپنی بات ہے۔“
(التلخيص الحبير:221/1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
روی الامام الاعظم ابوحنیفۃ رحمہ اللہ یقول سمعت الشعبی یقول سمعت البراء بن عازب رضی اللہ عنہ یقول کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ لایعود برفعھما حتی یسلم من صلوتہ،
(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ ابی نعیم ص344رقم225وفی نسخۃ ص156طبع الریاض)
اس روایت کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ :
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
مسند ابی حنیفہ ،للاصبہانی میں یہ روایت اس طرح ہے :
حدثنا أبو القاسم بن بالويه النيسابوري، ثنا بكر بن محمد بن عبد الله الحبال الرازي، ثنا علي، ثنا علي بن محمد بن روح بن أبي الحرش المصيصي، سمعت أبي يحدث، عن أبيه، روح بن أبي الحرش، سمعت أبا حنيفة، يقول الشعبي يقول: سمعت البراء بن عازب، يقول: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذي منكبيه لا يعود يرفعهما حتى يسلم من صلاته»
” سیدنا براء بن عازب رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر رفع الیدین کیا ، دوبارہ آپ رفع الیدین نہیں کرتے تھے ، حتی کی نماز سے سلام پھیر دیتے ۔
”(مسند ابی حنیفۃ لابی نعیم : ص ١٥٦)
تبصرہ : یہ سند سخت ترین ”ضعیف” ہے ،
امام ابو نعیم عبداللہ بن احمد ؒ جو پانچویں صدی کے محدث ہیں ، ان سے لے کرامام شعبیؒ تک اس کی اسناد کے راوی مجہول ہیں ،کسی کا ترجمہ اسماء الرجال کی کتب میں دستیاب نہیں ؛ سوائے ابو حنیفہ کے ،
اوروہ باجماعِ محدثین ”ضعیف” ہیں ، ان کے حق میں کسی ”ثقہ” امام سے باسند ِ ”صحیح” کوئی ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ، مدعی پر دلیل لازم ہے ۔
جس نے بھی یہ روایت دلیل بنا کر پیش کی ہے اس پر لازم ہے کہ اس کے رواۃ کا تعارف کروائے ،​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
روی الإمام أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الاسفرائني: قال حدثنا عبداللہ بن ایوب الْمُخَرِّمِيُّ و سَعْدان بن نصر وشعیب بن عمر وفی آخَرِينَ قالوا حدثنا سفیان بن عیینۃ عن الزہری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لایرفعھما وقال بعضھم ولایرفع بین السجدتین،
اس کا جواب شیخ غلا مصطفی ظہیر حفظہ اللہ نے دے رکھا ہے ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، اذا افتتح رفع یدیہ حتّی یحاذی بھا منکبیہ ۔۔۔۔ واذا أراد أن یرکع وبعد ما یرفع رأسہ لا یرفعھما ۔
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتے ۔۔۔ اورجب رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔”(صحیح ابی عوانۃ : ٢/٩٠)
تبصرہ : ( 1 )اس حدیث کو عدمِ رفع الیدین کے ثبوت میں وہی پیش کرسکتا ہے جو شرم و حیا سے عاری اور علمی بددیانتی کا مرتکب ہو ، کسی محدث نے اس حدیث کو رفع الیدین نہ کرنے پر پیش نہیں کیا ۔

دراصل لا یرفعھما والے الفاظ کا تعلق اگلے الفاظ بین السّجدتین کے ساتھ تھا ، اصل میں یوں تھا : ولا یرفعھما بین السّجدتین۔ ”اورآپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔”
بعض الناس نے ان الفاظ کے شروع سے ”واؤ” گرا کر اس کا تعلق پچھلی عبارت سے جوڑنے کی جسارت کی ہے ، جبکہ یہ ”واؤ” مسند ابی عوانہ کے دوسرے نسخوں میں موجود ہے ۔
2 ۔ اس روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے یہی روایت ان کے چھ ثقہ شاگرد ولا یرفعھما بین السّجدتین (آپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ) کے الفاظ کے ساتھ روایت کرتے ہیں ۔(صحیح مسلم : ١/١٦٨، ح : ٣٩٠)
3 امام ابو عوانہ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے ولا یرفع بین السّجدتین کے الفاظ روایت کیے ہیں ، جبکہ معنیٰ ایک ہی ہے ، یعنی آپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔
4 امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے : بیان رفع الیدین فی افتتاح الصّلاۃ قبل التّکبیر بحذاء منکبییہ وللرّکوع ولرفع رأسہ من الرّکوع ، وانّہ لا یرفع بین السّجدتین ۔ ”نماز کے شروع میں تکبیر سے پہلے ، رکوع کے لیے اور رکوع سے سر اٹھانے کے لیے رفع الیدین کا بیان اور اس بات کا بیان کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔”

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک محدث رفع الیدین کے ثبوت کا باب قائم کرے اور حدیث وہ لائے جس سے رفع الیدین کی نفی ہو رہی ہو ،
یہ ایسے ہی ہے ، جیسے کوئی سنار اپنی دکان پر گوشت اور سبزی کا بورڈ سجا دے ۔
5 خود امام ابو عوانہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی اور امام ابو داؤد ; کی روایات جن میں رکوع کو جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا ثبوت ہے ، اسی روایت کی طرح ہیں ، لہٰذا یہ حدیث رفع الیدین کے ثبوت پر چوٹی کی دلیل ہے ۔ والحمد اللّٰہ !
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
روی الإمام أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الاسفرائني: قال حدثنا عبداللہ بن ایوب الْمُخَرِّمِيُّ و سَعْدان بن نصر وشعیب بن عمر وفی آخَرِينَ قالوا حدثنا سفیان بن عیینۃ عن الزہری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لایرفعھما وقال بعضھم ولایرفع بین السجدتین،
(مسند ابی عوانۃ ج1ص334 بيان رفع اليدين في افتتاح
اس حدیث میں ہمارے زمانے کے مقلدین نے واضح تحریف کا ارتکاب کیا ہے ،اور علمائے اہل حدیث نے ان کے جرم تحریف کا پردہ فاش کیا ہے ،محترم بھائی @محمدنعیم یونس صاحب نے اس تحریف پر اہل علم کی گرفت کو اسی فورم کے ایک تھریڈ "قرآن و حدیث میں " میں نقل کردیا ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــ
مسند ابی عوانہ میں تحریف

مسند ابی عوانہ میں ''واؤ'' اُڑا کر رفع الیدین کی روایات کو ترک رفع الیدین کی دلیل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں پہلے مسند ابی عوانہ کا عکس ملاحظہ فرمائیں:


امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے: ''افتتاح نماز میں رفع الیدین کا بیان اور رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت (رفع الیدین) اور آپ سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرتے تھے''۔
ــــــــــــــــــــــ
اب ظاہر ہے کہ ان تین مقامات پر رفع الیدین کو ثابت کرنے کے لئے امام ابوعوانہ نے احادیث کو ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح سجدوں کے درمیان آپ رفع الیدین نہ فرماتے تھے۔ امام ابوعوانہ نے اس روایت میں جو اختلافات ہیں ان کو بھی بیان کر دیا ہے جیسے:
رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلاۃ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما و قال بعضھم حذو منکبیہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے دونوں ہاتھوں کو اُٹھاتے یہاں تک کہ انہیں ان (کندھوں) کے برابر تک اُٹھاتے اور بعض نے کہا کہ کندھوں کے برابر تک اٹھاتے ۔
اور پھر سجدوں کے رفع یدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لا یرفعھما اور (سجدوں کے درمیان) دونوں ہاتھوں کو نہ اٹھاتے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں انہی الفاظ کو ذکر کیا گیا ہے۔
یہاں ''لا'' سے پہلے ''واؤ'' موجود ہے جو ہندوستانی ناشرین نے حذف کر دی ہے اور پھر ''لا'' کا تعلق پچھلے جملے کے ساتھ جوڑ دیا اور مطلب یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کو جاتے وقت اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع الیدین نہ کرتے تھے۔ اور یہ اس حدیث میں کھلی تحریف ہے۔ دراصل امام ابوعوانہ فرماتے ہیں:
ولا یرفعھما اور آپ دونوں ہاتھوں کو (سجدوں کے درمیان) نہ اٹھاتے۔
اور بعض نے کہا کہ آپ دونوں سجدوں کے درمیان ہاتھوں کو نہ اُٹھاتے۔ اور دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ امام مسلم نے ولا یرفعھما کے الفاظ ذکر کئے ہیں اور امام احمد بن حنبل اور امام ابوداؤد نے ولا یرفع بین السجدتین کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔ امام موصوف نے دونوں طرح کے الفاظ کو ذکر کر دیا اور پھر ارشاد فرمایا: والمعنی واحد۔ یعنی دونوں عبارتوں کا معنی ایک ہی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام احمد بن حنبل نے بھی جب اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا:
و قال سفیان مرۃ واذا رفع رأسہ و اکثر ما کان یقول و بعد ما یرفع رأسہ من الرکوع
اور امام سفیان نے ایک مرتبہ کہا:
و اذا رفع رأسہ (اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے) سر اُٹھاتے''۔
اور وہ اکثر کہا کرتے تھے:
و بعد ما یرفع رأسہ من الرکوع اور آپ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد (رفع یدین کرتے)۔ سنن ابی داؤد باب رفع الیدین فی الصلاۃ (۷۲۱) مسند احمد مع الموسوعۃ ج۸ ص۱۴۰ (۴۵۴۰)
یعنی محدثین کی ایمانداری ملاحظہ فرمائیں کہ وہ حدیث کے اختلافی تمام طرح کے الفاظ بیان کر دیا کرتے تھے اور کسی بات کو وہ پوشیدہ نہ رکھتے لیکن جب اُچکے اور رہزن قسم کے لوگ محدثین کے روپ میں آئے تو انہوں نے اپنے مسلک کی خاطر احادیث میں ہیرا پھیری شروع کر دی اور احادیث کے کلمات کو بدلنے اور اُلٹنے میں مشغول ہو گئے۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ......۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی تحقیق

چونکہ اس حدیث کو امام ابوعوانہ نے تین راویوں سے بیان کیا ہے لہٰذا یہ تین حدیثوں کے حکم میں ہے۔ اس لئے امام ابو عوانہ نے انتہائی دیانت داری کے ساتھ روایات کے اختلاف کا بھی ذکر فرما دیا ہے۔ کسی نے کہا: ''یحاذی بھما''(منکبیہ) اور کسی نے کہا:
حذو منکبیۃ اسی طرح کسی نے کہا: لا یرفعھما (یعنی بین السجدتین) اور کسی نے کہا: ''لا یرفع بین السجدتین''
لیکن ان سب کا مطلب ایک ہی ہے۔ امام ابوعوانہ نے کہا: ''والمعنی واحد'' یعنی معنی (مطلب) ایک ہی ہے۔
صحیح مسلم میں سفیان بن عیینہ ـ(جو کہ مسند ابی عوانہ کا راوی حدیث ہذا ہے) سے چھ ثقہ ''لا یرفعھما بین السجدتین'' کا لفظ ذکر کرتے ہیں۔
امام احمد وغیرہ ''لا یرفع بین السجدتین'' کا لفظ بیان کرتے ہیں۔
بیہقی میں ہے (سعدان تک سند بالکل صحیح ہے)۔ اس میں ہے:
رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ و اذا اراد ان یرکع و بعد ما یرفع من الرکوع ولا یرفع بین السجدتین (ج۲ ص۲۹)
لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ حدیث اثبات رفع الیدین کی زبردست دلیل ہے۔ اس لئے ''الحافظ الثقۃ الکبیر'' امام ابوعوانہ اس کو باب رفع الیدین فی افتتاح الصلوۃ قبل التکبیر بحذاء منکبیہ و للرکوع و لرفع راسہ من الرکوع و انہ لا یرفع بین السجدتین کے باب میں لائے ہیں۔
بعض نا سمجھ لوگوں نے لا یرفعھما کو پچھلی عبارت سے لگا دیا ہے حالانکہ درج بالا دلائل ان کی واضح تردید کرتے ہیں۔
1-مسند ابی عوانہ کے مطبوہ نسخہ سے عمداً یا سہواً ''واؤ'' گرائی گئی ہے یا گر گئی ہے۔ یہ ''واؤ'' مسند ابی عوانہ کے قلمی نسخوں اور صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔
2- سعدان کی روایت بھی اثبات رفع الیدین کی تائید کرتی ہے۔
3-ابوعوانہ کی تبویب بھی اسی پر شاہد ہے۔
4۔ امام شافعی، امام ابوداؤد اور امام حمیدی کی روایات بھی اثبات رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ کے ساتھ ہیں جن کے بارے میں ابوعوانہ نے ''نحوہ'' ۔۔۔ ''بمثلہ''۔۔۔ اور ''مثلہ'' کہا ہے۔
5 اس حدیث کو ''اہل الرائے والقیاس کے پہلے علماء'' (مثلاً زیلعی وغیرہ) نے عدم رفع الیدین کے حق میں پیش نہیں کیا۔ اس وقت تک یہ روایت بنی ہی نہیں تھی لہٰذا وہ پیش کیسے کرتے؟
معلوم ہوا کہ اس روایت کے ساتھ عدم رفع پر استدلال باطل اور چودھویں صدی کی ''ڈیروی بدعت'' ہے۔
مسند ابی عوانہ قدیم دور میں بھی مشہور و معروف رہی ہے۔ کسی ایک امام نے بھی اس کی محولہ بالا عبارت کو ترک و عدم رفع یدین کے بارے میں پیش نہیں کیا۔ (نور العینین ص۷۱ تا۷۴)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لا یرفعھما سے پہلے ''واؤ'' کا ثبوت

مخطوطہ مسند ابی عوانہ مصورۃ الجامعۃ الاسلامیۃ فی المدینۃ المنورۃ میں ''واؤ'' کا لفظ موجود ہے ملاحظہ فرمائیں:
1- پہلی شہادت
 
Top