• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تشہد میں اشارہ کرنا کیدانی حنفی کے نزدیک حرام ھے ؟؟؟!!!آخر کیوں ؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
«عَن نُمَیْرٍرضی الله عنه قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ الله صلی الله علیه وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَة ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِه»
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کو اپنی داہنی ران پر رکھے ہوئے تھے اور انگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی: کتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :کتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔

اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔

اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔

اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کو شروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔

نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے تو پورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔

تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعد معلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:

انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:
«عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْه فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَه الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّه الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِه الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِه الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِه ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَه فَرَأَیْتُه یُحَرِّکُها یَدْعُو بِها»
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی : کتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔

اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دو عمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:« ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَه»یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے«فَرَأَیْتُه یُحَرِّکُها یَدْعُو بِها»یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ، اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔

واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔

اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کو حرکت دینا) بھی ہے۔

غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کو حرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔

عرض ہے کہ حرکت دینا اشارہ کرنے کے خلاف ہرگز نہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کو چھوڑنا لازم نہیں آتا کیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہو رہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔

معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذا دونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کو حرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔ پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)

اور امام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔

امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔

بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔

عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لااله ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الاالله'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔

بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔

عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کا مذاق اڑانا چھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟

واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کا کام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے «لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ»یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے، دیکھئے: مسندأحمد:ج 2119 رقم 6000۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پرعمل کرنے کی توفیق دے ،آمین۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/6864/0/
یہ کس نے کہا ہے محترم بھائی کہ مضارع جب جملہ حالیہ میں آئے تو ہمیشگی اور تسلسل پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بات تو ایسے ہے جیسے کوئی عربیت کے مزاج سے ناواقف ہو اور صرف الفاظ پڑھ کر یہ بات کرنے کی کوشش کرے۔
دیکھیں میں ایک جملہ کہتا ہوں:
رایت زیدا یقتل اخاہ
یہاں مضارع بھی ہے اور جملہ حالیہ بھی۔ لیکن کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہاں تسلسل اور ہمیشگی بھی ہوگی؟ زید ایک ہی بار قتل کر سکتا ہے بار بار نہیں۔ حالانکہ یہ جملہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی طرح:
رایت عمروا یلطم اجیرہ لطمۃ
اس کا مطلب کیا کوئی یہ نکال سکتا ہے کہ عمرو نے مستقل تھپڑ مارے ہوں گے؟ پھر لطمۃ کا کیا مطلب ہوگا؟ جبکہ جملہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی طرح اگر میں عدالت میں گواہی دیتے وقت کہوں:
رایتہ یکسر سن فلان
میں نے اسے فلاں کا دانت توڑتے ہوئے دیکھا۔ تو دانت تو ایک ہی بار ٹوٹے گا نا۔ اب میرے اس قول سے کتنے دانت ٹوٹنے کا قصاص آئے گا؟
فتدبروا
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ادھر ادھر کی باتیں چھوڑیں ۔پہلے اشھداللہ پر انگلی اٹھنے کی دلیل پیش کریں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
یہ کس نے کہا ہے محترم بھائی کہ مضارع جب جملہ حالیہ میں آئے تو ہمیشگی اور تسلسل پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بات تو ایسے ہے جیسے کوئی عربیت کے مزاج سے ناواقف ہو اور صرف الفاظ پڑھ کر یہ بات کرنے کی کوشش کرے۔
دیکھیں میں ایک جملہ کہتا ہوں:
رایت زیدا یقتل اخاہ
یہاں مضارع بھی ہے اور جملہ حالیہ بھی۔ لیکن کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہاں تسلسل اور ہمیشگی بھی ہوگی؟ زید ایک ہی بار قتل کر سکتا ہے بار بار نہیں۔ حالانکہ یہ جملہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی طرح:
رایت عمروا یلطم اجیرہ لطمۃ
اس کا مطلب کیا کوئی یہ نکال سکتا ہے کہ عمرو نے مستقل تھپڑ مارے ہوں گے؟ پھر لطمۃ کا کیا مطلب ہوگا؟ جبکہ جملہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی طرح اگر میں عدالت میں گواہی دیتے وقت کہوں:
رایتہ یکسر سن فلان
میں نے اسے فلاں کا دانت توڑتے ہوئے دیکھا۔ تو دانت تو ایک ہی بار ٹوٹے گا نا۔ اب میرے اس قول سے کتنے دانت ٹوٹنے کا قصاص آئے گا؟
فتدبروا
محترم جناب اشماریہ صاحب! کیا آپ یہ بیان فرمائیں گے کہ گزشتہ مراسلوں میں پیش کردہ اس حدیث میں ملون الفاظ کو آپ کس طرح فقہ حنفی کے موافق ڈھالیں گے!!
عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم جناب اشماریہ صاحب! کیا آپ یہ بیان فرمائیں گے کہ گزشتہ مراسلوں میں پیش کردہ اس حدیث میں ملون الفاظ کو آپ کس طرح فقہ حنفی کے موافق ڈھالیں گے!!
کیا آپ عربی سے بالکل ناواقف ہیں؟ یحرکہا حال اول ہے اور یدعو بہا حال ثانی ہے۔
اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یدعو بہا کا مطلب یہ ہے کہ درود شریف کے بعد جو دعا ہوتی ہے اس میں انگلی ہلا رہے تھے تو پھر دو سیدھے سے سوال ہیں:
1: آپ کے اور ہمارے سب کے نزدیک تشہد سے سلام تک کے افعال دل میں ادا کیے جاتے ہیں۔ تو پھر صحابی نے یہ کیسے سن لیا کہ دعا کے وقت ہی آپ ﷺ ہلا رہے تھے؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو استدلال میں کہیں غلطی ہوئی ہے۔
2: اگر صحابی نے صرف دعا میں انگلی ہلاتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھا تھا تو پھر آپ حضرات تشہد اور درود شریف میں کیوں ہلاتے ہیں؟ یعنی یہاں بھی استدلال میں غلطی ہے۔

لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یدعو کا ایک معنی دعا کرنا اور دوسرا معنی پکارنا ہے۔ یعنی جب اللہ پاک کی توحید کو پکار رہے تھے لا الہ الا اللہ سے تو اسے ہلا رہے تھے (یعنی ابتدا میں اوپر اور انتہا میں نیچے کی جانب لا رہے تھے۔ یہ مکمل حرکت ہے)۔ اگر میرے اس استدلال میں کوئی سقم ہے تو نشاندہی فرمائیں جیسے میں نے نشاندہی کی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ادھر ادھر کی باتیں چھوڑیں ۔پہلے اشھداللہ پر انگلی اٹھنے کی دلیل پیش کریں
دلائل جب آپ خود ذکر کر رہے ہیں تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کیا آپ عربی سے بالکل ناواقف ہیں؟ یحرکہا حال اول ہے اور یدعو بہا حال ثانی ہے۔
اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یدعو بہا کا مطلب یہ ہے کہ درود شریف کے بعد جو دعا ہوتی ہے اس میں انگلی ہلا رہے تھے تو پھر دو سیدھے سے سوال ہیں:
1: آپ کے اور ہمارے سب کے نزدیک تشہد سے سلام تک کے افعال دل میں ادا کیے جاتے ہیں۔ تو پھر صحابی نے یہ کیسے سن لیا کہ دعا کے وقت ہی آپ ﷺ ہلا رہے تھے؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو استدلال میں کہیں غلطی ہوئی ہے۔
2: اگر صحابی نے صرف دعا میں انگلی ہلاتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھا تھا تو پھر آپ حضرات تشہد اور درود شریف میں کیوں ہلاتے ہیں؟ یعنی یہاں بھی استدلال میں غلطی ہے۔

لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یدعو کا ایک معنی دعا کرنا اور دوسرا معنی پکارنا ہے۔ یعنی جب اللہ پاک کی توحید کو پکار رہے تھے لا الہ الا اللہ سے تو اسے ہلا رہے تھے (یعنی ابتدا میں اوپر اور انتہا میں نیچے کی جانب لا رہے تھے۔ یہ مکمل حرکت ہے)۔ اگر میرے اس استدلال میں کوئی سقم ہے تو نشاندہی فرمائیں جیسے میں نے نشاندہی کی ہے۔
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا
----------------------------------------------------------------------------
(1) نمازکاپہلاتشہد ہویادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دیا جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں:
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
عَن نُمَیْرٍرضی اللہ عنہ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَةِ ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ.
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کواپنی دا ہنی ران پررکھے ہوئے تھے اورانگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی:ـکتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :ـکتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔
اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔
اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کوشروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔
(2) تشہدمیں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعدمعلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:
انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:
عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔
اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوعمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:'' ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے''فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ،اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑاہوہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کوحرکت دینا) بھی ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یدعو کا ایک معنی دعا کرنا اور دوسرا معنی پکارنا ہے۔ یعنی جب اللہ پاک کی توحید کو پکار رہے تھے لا الہ الا اللہ سے تو اسے ہلا رہے تھے (یعنی ابتدا میں اوپر اور انتہا میں نیچے کی جانب لا رہے تھے۔ یہ مکمل حرکت ہے)۔ اگر میرے اس استدلال میں کوئی سقم ہے تو نشاندہی فرمائیں جیسے میں نے نشاندہی کی ہے۔
اس بات کی کوئی ٹھوس دلیل دیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کیا آپ عربی سے بالکل ناواقف ہیں؟ یحرکہا حال اول ہے اور یدعو بہا حال ثانی ہے۔
میرے بھائی! اول تو یہ عربی کے بھرم کسی اور مجلس میں آزمائے گا!
دوم یہ کہ مجھے اتنا بتلا دیں کہ حَرِّکُہَا اور یَدْعُو بِہَا میں ضمیر کس کی جانب لوٹتی ہے!! اور یہ یقیناً أُصْبُعَہُ کی جانب لوٹتی ہے، یعنی کہ حرکت کا تعلق بھی انگلی کے ساتھ ہے اور دعا کاتعلق بھی انگلی کے ساتھ ہے! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو تشہد میں بیٹھتے ہی اسی حرکت والی پوزیشن میں باندھ لیا تھا، حدیث کے الفاظ دیکھیں!
ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے حلقہ نہیں بنایا گیا، اور اسی وقت دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے حلقہ بنایا گیا! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشہد کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں ہاتھ کی پوزیشن اور بائیں ہاتھ کی پوزیشن شروع سے الگ الگ تھی، یعنی بائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ نہیں ، اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ ہے۔
اب آتے ہیں اہل حدیث کا مؤقف اس حدیث کے موافق ہے یا مقلدین حنفیہ کا؟
تو میرے بھائی! اہل حدیث کا مؤقف تو اس کے مطابق ہے کہ وہ شروع تشہد سے اپنی انگلیوں سے حلقہ بناتے ہیں!!
رہی بات احناف کی تو احناف تشہد کے دوران أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه پر حلقہ بناتے ہیں ۔ بعض یہ حلقہ فوراً ختم بھی کردتے ہیں!!
اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یدعو بہا کا مطلب یہ ہے کہ درود شریف کے بعد جو دعا ہوتی ہے اس میں انگلی ہلا رہے تھے تو پھر دو سیدھے سے سوال ہیں:
بھائی جان! ایک بات عرض کروں! آپ نے اگر کی بنیاد پر ہی دو سوال داغ دئیے!!! یہ عجیب طرز عمل ہے!!
نہیں ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ یدعو بها کا مطلب تشہد کے بعد کی دعا ہے!! ہمارا مؤقف اسی تھریڈ میں بیان بھی کیا گیا! مگر نہ جانے کیوں آپ نے اسے نظر انداز کر کے یہ تخیلاتی گھوڑے دوڑا دئے!!ہمارا مؤقف یوں پیش کیا گیا تھا:
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔
اب فرمائیں! کم سے کم تھریڈ کے پہلے مراسلہ کو تو بغور پڑھنا چاہئے تھا ، کہ وہی تو اس تھریڈ کا موضوع ہے!!!
1: آپ کے اور ہمارے سب کے نزدیک تشہد سے سلام تک کے افعال دل میں ادا کیے جاتے ہیں۔ تو پھر صحابی نے یہ کیسے سن لیا کہ دعا کے وقت ہی آپ ﷺ ہلا رہے تھے؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو استدلال میں کہیں غلطی ہوئی ہے۔
آپ کا یہ سوال آپ کے غلط تخیل کی بنیاد پر ہے ، جو آپ نے پہلے بیان کیا!! صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے تمام اذکار کو بھی دعا ہی کہا ہے!! اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں!! لہٰذا، ہمارے استدلال میں یہ غلطی نہیں!!
2: اگر صحابی نے صرف دعا میں انگلی ہلاتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھا تھا تو پھر آپ حضرات تشہد اور درود شریف میں کیوں ہلاتے ہیں؟ یعنی یہاں بھی استدلال میں غلطی ہے۔
اب آپ خود دیکھیں! ایک تخیل قائم کر نے اس طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں!!
نہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تشہد کے بعد کی دعا کو یدعوبها کا مصداق ٹھہرایا ہے اور نہ ہی ہمارا یہ مؤقف ہے!! لہٰذا نہ صحابی رضی اللہ عنہ کے بیان میں کوئی خامی ہے اور نہ ہمارے استدلال میں کوئی غلطی!!
2: لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یدعو کا ایک معنی دعا کرنا اور دوسرا معنی پکارنا ہے۔ یعنی جب اللہ پاک کی توحید کو پکار رہے تھے لا الہ الا اللہ سے تو اسے ہلا رہے تھے (یعنی ابتدا میں اوپر اور انتہا میں نیچے کی جانب لا رہے تھے۔ یہ مکمل حرکت ہے)۔ اگر میرے اس استدلال میں کوئی سقم ہے تو نشاندہی فرمائیں جیسے میں نے نشاندہی کی ہے۔
بھائی جان! جب آپ خود بھی یہ مانتے ہو کہ یدعو کے ایک معنی دعا کرنا اور دوسرا پکارنا ہے، تو صرف یہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ہی اس یدعو بها کا مصداق کیونکر ٹھہرا!!
یعنی يدعو بها کا مصداق تشہد درود اور دعائیں تمام اذکار قرار پاتے ہیں! اور بات یہی صحیح ہے!! اور یہی ہمارا مؤقف ہے!
اب آپ کا مؤقف ہے کہ صرف أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ہی یدعو بها کا مصداق ہے!! اس کا تقید آپ ثابت کر دیں!!
یہ حدیث تو آپ کے مؤقف کے باطل ثابت کرتی ہے!! الا یہ کہ آپ کے پاس اس میں تقید کی کوئی دلیل ہو!!
اور ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں!! فتدبر!!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرے بھائی! اول تو یہ عربی کے بھرم کسی اور مجلس میں آزمائے گا!
دوم یہ کہ مجھے اتنا بتلا دیں کہ حَرِّکُہَا اور یَدْعُو بِہَا میں ضمیر کس کی جانب لوٹتی ہے!! اور یہ یقیناً أُصْبُعَہُ کی جانب لوٹتی ہے، یعنی کہ حرکت کا تعلق بھی انگلی کے ساتھ ہے اور دعا کاتعلق بھی انگلی کے ساتھ ہے! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو تشہد میں بیٹھتے ہی اسی حرکت والی پوزیشن میں باندھ لیا تھا، حدیث کے الفاظ دیکھیں!
ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے حلقہ نہیں بنایا گیا، اور اسی وقت دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے حلقہ بنایا گیا! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشہد کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں ہاتھ کی پوزیشن اور بائیں ہاتھ کی پوزیشن شروع سے الگ الگ تھی، یعنی بائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ نہیں ، اور دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ ہے۔
اب آتے ہیں اہل حدیث کا مؤقف اس حدیث کے موافق ہے یا مقلدین حنفیہ کا؟
تو میرے بھائی! اہل حدیث کا مؤقف تو اس کے مطابق ہے کہ وہ شروع تشہد سے اپنی انگلیوں سے حلقہ بناتے ہیں!!
رہی بات احناف کی تو احناف تشہد کے دوران أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه پر حلقہ بناتے ہیں ۔ بعض یہ حلقہ فوراً ختم بھی کردتے ہیں!!

بھائی جان! ایک بات عرض کروں! آپ نے اگر کی بنیاد پر ہی دو سوال داغ دئیے!!! یہ عجیب طرز عمل ہے!!
نہیں ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ یدعو بها کا مطلب تشہد کے بعد کی دعا ہے!! ہمارا مؤقف اسی تھریڈ میں بیان بھی کیا گیا! مگر نہ جانے کیوں آپ نے اسے نظر انداز کر کے یہ تخیلاتی گھوڑے دوڑا دئے!!ہمارا مؤقف یوں پیش کیا گیا تھا:

اب فرمائیں! کم سے کم تھریڈ کے پہلے مراسلہ کو تو بغور پڑھنا چاہئے تھا ، کہ وہی تو اس تھریڈ کا موضوع ہے!!!

آپ کا یہ سوال آپ کے غلط تخیل کی بنیاد پر ہے ، جو آپ نے پہلے بیان کیا!! صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے تمام اذکار کو بھی دعا ہی کہا ہے!! اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں!! لہٰذا، ہمارے استدلال میں یہ غلطی نہیں!!

اب آپ خود دیکھیں! ایک تخیل قائم کر نے اس طرح کے سوالات جنم لیتے ہیں!!
نہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تشہد کے بعد کی دعا کو یدعوبها کا مصداق ٹھہرایا ہے اور نہ ہی ہمارا یہ مؤقف ہے!! لہٰذا نہ صحابی رضی اللہ عنہ کے بیان میں کوئی خامی ہے اور نہ ہمارے استدلال میں کوئی غلطی!!

بھائی جان! جب آپ خود بھی یہ مانتے ہو کہ یدعو کے ایک معنی دعا کرنا اور دوسرا پکارنا ہے، تو صرف یہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ہی اس یدعو بها کا مصداق کیونکر ٹھہرا!!
یعنی يدعو بها کا مصداق تشہد درود اور دعائیں تمام اذکار قرار پاتے ہیں! اور بات یہی صحیح ہے!! اور یہی ہمارا مؤقف ہے!
اب آپ کا مؤقف ہے کہ صرف أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ہی یدعو بها کا مصداق ہے!! اس کا تقید آپ ثابت کر دیں!!
یہ حدیث تو آپ کے مؤقف کے باطل ثابت کرتی ہے!! الا یہ کہ آپ کے پاس اس میں تقید کی کوئی دلیل ہو!!
اور ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں!! فتدبر!!
جزاک اللہ ابن داود بھائی
آپ کی بات اور استدلال مضبوط ہے۔ پہلا مراسلہ مجھے پڑھے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے اور میرے ذہن میں آپ کا مسلک خلط ہو گیا تھا۔ تشہد پورا دعا ہے اس بات کو تو ظاہر ہے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس حدیث سے جو استدلال آپ نے کیا ہے وہ مضبوط معلوم ہوتا ہے (اگر چہ اس میں ثم ہے جو تراخی پر دلالت کرتا ہے لیکن بات آپ کی درست معلوم ہوتی ہے)۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ مجھے اس مسئلہ میں مکمل تحقیق کرنی چاہیے اور تمام روایات کو دیکھنا چاہیے۔ میں ان شاء اللہ موقع ملنے پر یہ کروں گا اور اگر آپ کا مسلک مضبوط معلوم ہوا تو یہی میرا مسلک بھی ہوگا ان شاء اللہ۔ تب تک میں اس بحث سے دستبردار ہوتا ہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاک اللہ ابن داود بھائی
آپ کی بات اور استدلال مضبوط ہے۔ پہلا مراسلہ مجھے پڑھے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے اور میرے ذہن میں آپ کا مسلک خلط ہو گیا تھا۔ تشہد پورا دعا ہے اس بات کو تو ظاہر ہے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس حدیث سے جو استدلال آپ نے کیا ہے وہ مضبوط معلوم ہوتا ہے (اگر چہ اس میں ثم ہے جو تراخی پر دلالت کرتا ہے لیکن بات آپ کی درست معلوم ہوتی ہے)۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ مجھے اس مسئلہ میں مکمل تحقیق کرنی چاہیے اور تمام روایات کو دیکھنا چاہیے۔ میں ان شاء اللہ موقع ملنے پر یہ کروں گا اور اگر آپ کا مسلک مضبوط معلوم ہوا تو یہی میرا مسلک بھی ہوگا ان شاء اللہ۔ تب تک میں اس بحث سے دستبردار ہوتا ہوں۔
لله درك ۔
 
Top