• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تشہد میں بازو کا مقام

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

تشہد میں بازو کا مقام

مؤرخہ21-06-1437ھ بمطابق31-03-2016

محمد رفیق طاہر

تشہد میں بازو کا مقام نماز دین اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے لیکن اس کے باوجود جس قدرغفلت و کوتاہی اہل اسلام نماز کے بارہ میں برتتے ہیں ، ارکان اسلام میں سے کسی دوسرے رکن کے بارہ میں شاید نہ برتتے ہوں۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«لو صلیت فی مائۃ مسجد ما رأیت أھل مسجد واحد یقیمون الصلاۃ علی ما جاء عن النبی ﷺ وعن أصحابہ رحمۃ اللہ علیھم۔ فاتقوا اللہ، انظروا في صلاتکم وصلاۃ من یصلي معکم»

’’اگر میں سو مسجدوں میں بھی نماز ادا کروں تو ایک بھی مسجد کے سارے نمازی اس انداز میں نماز ادا نہیں کرتے جس طرح کہ نبی کریم ﷺ اورآپ کے صحابہ رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی نمازوں اور اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کی نمازوں کو دیکھو اور اصلاح کرو۔‘‘

[رسالۃ "الصلاۃ" لأحمد بن حنبل، ص: 40، مندرجہ مجموعہ رسائل في الصلاۃ، طبع: الرئاسۃ العامۃ لإدارات البحوث العلمیۃ والإفتاء والدعوۃ والإرشاد، الریاض: 1413 ھــ]

یہ حال امام احمد بن حنبل اپنے دور کے نمازیوں کا بیان فرمارہے ہیں اور آج کا حال تو بہت ہی خراب ہے۔ ہمارے ہاں نماز کے بارہ میں سن سنا کر اور ایک دوسرے کو دیکھ کر عمل کرنے کا رواج ہے۔ جس کے نتیجے میں غیر شعوری طور پر ہم نماز کے کچھ ارکان کو خلاف سنت ادا کربیٹھتے ہیں ۔ منجملہ ان باتوں کے ایک مسئلہ دوران تشہد بازوؤں کا بھی ہے۔ عام طور پر درمیانے تشہد میں تو دونوں بازوؤں کو رانوں سے جدا کرکے رکھا جاتا ہے، جبکہ آخری تشہد میں کچھ لوگ اپنا دائیاں بازو اور کہنی کو دائیں ران پر رکھ لیتے ہیں اور اکثر تو آخری تشہد میں بھی اپنی کہنی ران سے ہٹاکر ہی رکھتے ہیں۔

حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے بلا امتیازتشہد اولیٰ و آخرۃ میں دونوں بازوؤں کو دونوں رانوں پر رکھنا ثابت ہے، اور اس کا خلاف ثابت نہیں ہے۔ ذیل میں دلائل اور ان کا تجزیہ پیش کرتے ہیں:

قائلین کے دلائل:

1۔«عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ، فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ ذِرَاعَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ يَدْعُو بِهَا»

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں بیٹھے تو آپ نے اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور اپنی دونوں ذراع کو اپنی رانوں پر رکھا اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا ، آپ اس کے ساتھ دعا کرتے تھے۔

[سنن النسائي، كتاب السهو، باب موضع الذراعين، (1264)]

ذراع لغت عربی میں کلائی سے کہنی تک کے حصہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ حدیث بازوؤں کو رانوں پر رکھنے کے لیے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اس کے تمام تر رواۃ ثقات اور سند متصل ہے، جس کی صحت پر امت کا اتفاق ہے۔

2۔ «عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى، وَيُلْقِمُ كَفَّهُ الْيُسْرَى رُكْبَتَهُ»

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ جب دعا کے لیے بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور شہادت والی انگلی سے اشارہ فرماتے اور اپنے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھتے اور بائیں ہتھیلی سے بائیں گھٹنے کو لقمہ بناتے۔‘‘

[صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب صفة الجلوس في الصلاة ، وكيفية وضع اليدين على الفخذين، (579)]

عربی زبان میں لفظ ’’ید‘‘ (ہاتھ) مکمل بازو پر بھی بولا جاتا ہے اور صرف ہتھیلی پر بھی۔ یہاں پر ’’ید‘‘ سے مراد بازو (ذراع) ہے کیونکہ ’’کف‘‘ (ہتھیلی) کی جگہ علیحدہ اور ’’ید‘‘ کی جگہ رکھنے کی علیحدہ ذکر کی گئی ہے۔ فافھم

3۔ «أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي؟ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَوَصَفَ، قَالَ: «ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا»، مُخْتَصَرٌ»

وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز دیکھتا ہوں کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں تو میں نے آپ کو دیکھا۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کی اور فرمایا : ’’پھر آپ بیٹھ گئے اور اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بایاں ہاتھ اپنی ران اور گھٹنے پر رکھا اور اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھا پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں اور حلقہ بنایا۔ پھر اپنی (شہادت والی) انگلی کو اٹھایا تو میں نے دیکھا ،آپ اس کو حرکت دیتے تھے اور دعا فرماتے تھے۔‘‘ امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث لمبی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔

[سنن النسائي، كتاب السهو، باب قبض الثنتين من أصابع اليد اليمنى وعقد الوسطى، (1268)، وکتاب الافتتاح، باب موضع الیمین من الشمال في الصلاۃ، (889) مسند أحمد، (18850)، قال الألباني: ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ إرواء الغلیل: 2/68، (352)]

اس حدیث میں دائیں کہنی کی حد (کنارے) کو دائیں ران کے ساتھ لگانے کی نص صریح موجود ہے۔

4۔ «عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ:.... فَلَمَّا قَعَدَ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ حَدَّ مِرْفَقِهِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى .... الحدیث»

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: ..... پس جب آپ بیٹھے ، آپﷺ نے اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھا اور اپنی کہنی کی طرف (کنارے) کو اپنی دائیں ران پر رکھا ....

الحدیث [مسند أحمد، (18850)]

5۔ «عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ :.... ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَحَدُّ مِرْفَقِهِ الْأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى .... الحدیث»

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے....پھر آپ ﷺ بیٹھے ، پس آپﷺ نے اپنے بائیں پاؤں کو پھیلایا اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا اور آپ کی دائیں کہنی کا کنارہ آپ کی دائیں ران پر تھا ...

الحدیث [سنن النسائي، کتاب السھو، باب موضع المرفقین، (1265)، سنن أبي داؤد، کتاب الصلاۃ، باب رفع الیدین في الصلاۃ، (726)، وباب کیف الجلوس في التشھد، (957)]

دلیل نمبر ۱، ۳، ۴، ۵ درحقیقت ایک صحابی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک ہی روایت ہے، جس کو مختلف الفاظ کے ساتھ روایت بالمعنی کی گیا ہے۔ صرف الفاظ کا اختلاف ہے، معنی ایک ہی ہے جو کہ اہل علم پر واضح ہے۔ مانعین کے دلائل اور ان کا تجزیہ: میرے ناقص علم کے مطابق جو لوگ نماز کے کسی بھی قعدہ یا جلسہ میں بازوؤں کو رانوں سے جدا رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل موجود ہی نہیں ہے۔ صرف وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے وہ الفاظ جن کو راقم نے دلیل نمبر ۵ کے طور پر پیش کیا ہے ، ان الفاظ کی عبارت پڑھنے اور سمجھنے میں غلطی کھا جاتے ہیں۔

«حَدُّ مِرۡفَقَہ الۡاَیۡمَن» کو «حَدَّ مِرۡفَقَہ الأیمن» پڑھ جاتے ہیں ، یعنی لفظ ’’حد‘‘ کو اسم کی بجائے ماضی کا صیغہ بنا ڈالتے ہیں، جیساکہ علامہ وحید الزماں نے سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کے تراجم میں کیا ہے۔ جب اس کو فعل ماضی مان لیا جائے تو اس کا معنی یوں بن جاتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر اٹھا کر (دور کرکے) رکھا اور یہ معنی بھی اس وقت بنتا ہے جب علیٰ کو بھی عن کے معنی میں مانا جائے، وگرنہ نہیں۔ اور ’’علیٰ‘‘ کو ’’عن‘‘ کے معنی میں استعمال کرنا شاذ ہے۔

حقیقتاً عبارت کے شروع میں لفظ ’جعل‘ یا ’وضع‘ تھا جس کو بشر بن مفضل نے روایت بالمعنی کرتے ہوئے حذف کر کے لفظ ’حد‘ کو مبتداً مرفوع پڑھا ہے ، لہٰذا اس میں کوئی فرق نہیں آیا، معنی وہی رہا جو ’جعل‘ یا ’وضع‘ کے الفاظ ذکر کرکے عاصم بن کلیب کے دیگر شاگردوں مثلاً زائدہ، زہیر بن معاویہ اور عبدالواحد وغیرہ نے بیان کیاتھا۔ تاہم اگر کوئی شخص اس عبارت میں لفظ ’حد‘ کو فعل ماضی ہی بنانے پر مصر رہے تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ پھر یہ روایت شاذ بن جائےگی ، کیونکہ علم اصول حدیث کا ادنی سا طالب علم بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب کوئی ثقہ راوی اپنے اوثق یا ثقات کی مخالفت کرے گا تو ثقہ کی روایت شاذ اور ثقات یا اوثق کی روایت محفوظ ہوجائے گی۔

اور یہاں پر بھی مخالفت والا ہی معاملہ بن جائے گا کہ عاصم بن کلیب کے تمام شاگرد کہنی کو ملانا ثابت کرتے ہیں جبکہ بشر بن مفضل اس کو ہٹانا ذکر کرتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے یہ ثقات کی مخالفت ہے اور روایت شاذ قرار پائے گی، اور معرض استدلال سے غائب ہوجائے گی۔

جبکہ اس حدیث کو محدثین میں سے کسی نے بھی شاذ قرار نہیں دیا کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ اس کی عبارت کیا ہے اور اس کامفہوم کیا ہے،اور مخالفت بنتی ہی نہیں ہے۔ فتأمل۔

اسکے علاوہ ایک اور دلیل بھی پیش کی جاتی ہے لیکن وہ بسند صحیح ثابت نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

«وَيَتَحَامَلُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى فَخْذِهِ الْيُسْرَى»

اور نبی ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ران پر وزن ڈالتے۔

[سنن أبي داود, كتاب الصلاة, تفريع أبواب الركوع والسجود, باب الإشارة في التشهد (989)]

لیکن یہ روایت ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں بائیں ہاتھ سے بائیں ران پہ وزن ڈالنے کا ذکر ہے , جبکہ وزن ڈالنے والے سبھی بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے پہ وزن ڈال رہے ہوتے ہیں!!!۔ گویا یہ روایت اپنے ضعف کے باوجود انکے عمل کا ساتھ نہیں دیتی۔ فتدبر!

یہ تو ایک نقلی دلیل دی جاتی تھی جو کہ دلیل مانعین کے لیے نہیں ہے بلکہ قائلین کے لیے ہی بنتی ہے اور دوسری دلیل عقلی ہے جو دی جاتی ہے کہ جب بندہ اپنے بائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں گھٹنے کو پکڑےگا تو لامحالہ اس کا بازو ران سے اُٹھ جائے گا۔

لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص اپنے بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو پکڑے اور اپنے کندھوں کو ڈھیلا چھوڑدے اور کمر کو بھی ڈھیلا کر دے تو نماز کے آخری تشہد میں تورک کی حالت میں بھی بائیاں بازو مکمل طور پر ران پر لگ جاتا ہے۔ ابتداءً شاید یہ کام چند لوگوں کو مشکل نظر آئے لیکن جب اس کو سنت نبوی ﷺ سمجھ کر عمل کی کوشش کی جائے گی تو عادت بن جائے گی۔

؂ طبیعت میں کچھ قلق آئے گا چند روز
پھر بہلتی بہلتی بہل جائے گی

اور اگر کوئی شخص اپنے بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو لقمہ بناکر ذراع کو ران پر رکھنے سے قاصر ہوتو وہ اپنا ہاتھ ذرا پیچھے ران پر ہی رکھ لے ، کیونکہ صحیح مسلم میں یہ طریقہ بھی رسول اللہﷺ سے منقول ہے، جسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاہے کہ:

«وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى»

’’اور آپﷺ نے اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں را ن رکھا۔‘‘

[صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب صفۃ الجلوس وکیفیۃ وضع الیدین علی الفخذین، (580)]

اور لقمہ بناتے ہوئے بھی ہتھیلی کا کچھ حصہ ران پر اور کچھ گھٹنے پر ہوگا جیسا کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی حدیث سے واضح ہے۔

«وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى»

’’اور آپ ﷺ نے اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا۔‘‘

[سنن النسائي، کتاب الافتتاح، باب مواضع الیمین من الشمال، (889)]

اور پھر لفظ ’’وضع‘‘ اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ذراع ران کے ساتھ چِپکی ہوئی ہو۔ بلکہ ’’وضع‘‘ تو کلائی کو صرف ران پر رکھنے کا متقاضی ہے خوا وہ ران کے ساتھ لگ جائے اور خواہ نہ لگے‘ لیکن ہو ران پر رکھی گئی‘ نہ کہ ران سے اوپر اٹھائی گئی ! یاد رہے کہ دونوں ہاتھوں اور بازوؤں کی یہ کیفیت نماز کے تمام تر قعدوں میں یکساں ہے خواہ وہ بین السجدتین ہو یا تشہد اولیٰ ہو یا تشہد ثانیہ کیونکہ ان کے درمیان فرق ثابت نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ تعالی أعلم
ابو عبد الرحمن محمد رفیق الطاہر


1428/07/28 ھــ

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-931.html
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص اپنے بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو پکڑے اور اپنے کندھوں کو ڈھیلا چھوڑدے اور کمر کو بھی ڈھیلا کر دے تو نماز کے آخری تشہد میں تورک کی حالت میں بھی بائیاں بازو مکمل طور پر ران پر لگ جاتا ہے۔ ابتداءً شاید یہ کام چند لوگوں کو مشکل نظر آئے لیکن جب اس کو سنت نبوی ﷺ سمجھ کر عمل کی کوشش کی جائے گی تو عادت بن جائے گی۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @رفیق طاھر صاحب ریڈ کلر میں بائیاں لکھا ہوا ہے کیا یہ صحیح ہے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی تشہد میں دونوں کہنی ران پر رکھی جائے گی یا صرف دائیں ہاتھ کی کہنی ران پر رکھی جائے گی -
 
Top