• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوير کي شرعي حيثيت

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مسئلہ تصوير اور دورِ حاضر

تصوير کي شرعي حيثيت

علامہ عبد الرحمن مدني​
(محدث ميگزين شمارہ:321 ۔۔ مئي، جون 2008 )
مذاکرے کي ايک نشست ميں حافظ عبد الرحمن مدني صاحب نے صدارتي خطاب فرمايا، لہذا انہوں نے تصوير کے بارے ميں مختلف پہلووں پر زيادہ تر تبصرہ ہي کيا اور اس سلسلہ ميں جو سوالات پيدا ہوئے تھے، ان کو نکھارنے کي کوشش کي،
ان کے خطاب کو تحريري شکل ديتے ہوئے ہم نے عنوانات قائم کر کے کوشش کي ہے کہ ايسے نکات واضح ہو جائيں جن کے بارے ميں پہلي تقريروں ميں بہت کچھ کہا جا چکا تھا، لہذا اس تقرير کو تبصرہ ہي سمجھا جائے، علاوہ ازيں جن فني اُصولوں کي وضاحت ضروري تھي ان کا مختصر تعارف قوسين يا حواشي ميں کراديا گيا ہے (مرتب)


احکامِ شرعيہ کي حکمتيں معلوم کرنا فقاہت ہے
دينِ اسلام کے احکامات کي گہري بصيرت و فہم اللہ سبحانہ و تعالي کي ايک عظيم نعمت ہے، اسي ليے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کا فرمان ہے:
(مَن يُّرد اللہ به خيرًا يفقِّهه في الدين)1
''جس کے ساتھ اللہ تعالي خير کا ارادہ کرتے ہيں ، اس کو دين کي گہري سمجھ عطا کر ديتے ہيں ''

نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم سے ايک چيز کي شديدحرمت ثابت ہوجانے کے بعد کسي مسلمان کي يہ جراءت نہيں ہوسکتي کہ وہ يہ کہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے جس چيز پر لعنت کي ہے، ميں اس کو جائز کرتا ہوں ، ليکن نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم جس چيز کو مذموم قرارد يتے اور جس پر لعنت فرماتے ہيں ، اس کے بارے ميں حضور نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ارشادات ہي سے اس بات کو سمجھنا کہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے کن وجوہ کي بنا پر اس شے پر لعنت فرمائي ہے يا کن وجوہ کي بنا پر اسے حرام قرارديا ہے، يہ تودين کي فقاہت ہے، اس ليے ميں اس طرف بالخصوص آپ حضرات کو توجہ دلانا چاہوں گاکہ تصوير ميں اللہ تعالي کي تخليق سے مشابہت کي جو وجہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے خود بيان فرمائي ہے، وہ يہ ہے:
(اشد الناس عذابًا يوم القيامة الذين يضاهون بخلقہ)2
''روزِ قيامت سخت ترين عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کے تخليق سے مشابہت اختيار کرتے ہيں ''

اہل علم نے حرمت تصوير کي عموماًدو حکمتيں بيان کي ہيں :
اللہ کي تخليق سے مشابہت يا تصوير کي پوجا کرنے والے مشرکوں سے مشابہت،کيونکہ تصوير بنانے والوں سے روزِ قيامت مطالبہ کيا جائے گا
(احيوا ما خلقتم)3
''جو تم نے بناياہے، اسے زندہ کرو''

چونکہ شرک کي ابتدا حضرت نوح کي بعثت سے قبل قومِ نوح کے صالحين کي تصويروں سے ہي ہوئي تھي جو ہميشہ کا خطرہ ہے، لہذا زندہ تصويريں شرک کا ذريعہ ہيں جسے بند ہونا چاہيے جيسا کہ عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہيں :
''صارت الاوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد اما ودٌّ فکانت لکلب بدومة الجندَل واما سُواع فکانت لہذيلٍ واما يغوثُ فکانت لمراد ثم لبني غُطَيف بالجُرف عند سبـائٍ واما يعوقُ فکانت لہمدان واما نسرٌ فکانت لِحِمْير لال ذي الکلاع ا?سماء رجال صالحين من قوم نوح فلما هلکوا ا?وح?ي الشيطان إلي قومهم ا?ن ا?نصِبوا إلي مجَالِسهم التي کانوا يجلسون انصابًا وسمُّوها با?َسمائهم ففعلوا فلم تُعبدْ حتي إذا هلك اُولئك وتنسَّخ العلم عُبِدَت''4
''ابن عباسؓ نے فرمايا:نوح کي قوم ميں جو بت پوجے جاتے تھے، ابھي تک وہي عرب لوگوں ميں موجود تھے(جس کي تفصيل يوں ہے) وُدّ 'کلب' قبيلے والوں کا بت تھا جو دومة الجندل ميں آباد ہے اور سُواع 'ہذيل' قبيلے کا تھا اور يغوث'مراد' قبيلے کا بت تھا پھر بني غطيف جو سبا بستي کے نزديک مقام جرف ميں
آباد ہيں کا بت بن گيا اور يعوق 'ہمدان' قبيلے کا بت تھا، اسي طرح نسر'حمير 'قوم کا بت تھاجو ذي الکلاع (بادشاہ) کي اولاد ميں سے ہيں ، يہ سب چند نيک پارسا شخصوں کے نام ہيں جو نوح کي قوم ميں تھے،
جب وہ مر گئے تو شيطان نے ان کي قوم والوں کے دل ميں يہ ڈالا کہ جن مقاموں ميں يہ لوگ بيٹھا کرتے تھے، وہاں ان کے نام کے بت بنا کر کھڑے کر دو (تا کہ ان کي يادگار رہيں )? اُنہوں نے ا يسا ہي کيا( کہ صرف يادگار کے ليے بت رکھے)وہ پوجے نہ جاتے تھے، جب يہ يادگار بنانے والے بھي گذر گئے اور بعد والوں کو يہ شعور نہ رہا کہ ان بتوں کو صرف يادگار کے ليے بنايا تھا توان کو پوجنے لگے ''

پہلي حکمت کے بارے ميں اِجمال ہونے کي بنا پر مغالطہ پيدا ہوتا ہے کہ شايد تخليق الہي سے مشابہت ہي کوئي بڑا جرم ہے، حالانکہ غور فرمائيے کہ تصوير کے علاوہ شريعت ميں کہيں بھي تخليقِ ال?ہي سے مشابہت کو گناہ نہيں قرار ديا گيا بلکہ حضرت عيسي عليہ السلام يہي کام بطورِ معجزہ کرتے رہے، علاج ومعالجہ کے ذريعہ صحت کا حصول بھي تخليق الہي سے مشابہت ہي ہے، ليکن اس کي ممانعت کے بجائے حوصلہ افزائي ہے لہذا حرمت وممانعت ميں اصل نکتہ تخليق ال?ہي سے مشابہت نہيں کيونکہ اللہ کي ہر مخلوق جو اللہ تعالي? کي طرف سے خصوصي تخليق روح کے بعد جيتا جاگتا انسان بنتا ہے، وہ بھي اللہ تعالي? کي قدرتوں کے سامنے بے بس ہي ہوتا ہے ۔ يہي بے بسي ربّ العالمين کا شريک ِکار ہونے کي نفي کرتي ہے ، بلکہ اصل وجہ يہ ہے کہ اسے کسي درجہ ميں بھي خالق کائنات کي طرح معبود ہونے ميں شريک نہيں بنايا جا سکتا لہذا اوّل نکتہ کا مقصود بھي گويا شرک کي ہي مذمت ہے۔ اس طرح حرمت کي دوسري وجہ شرک کا سدباب کرنے کے لئے ہے، حاصل يہ ہے کہ دونوں وجوہ دراصل(1) شرک سے مشابہت اور(2) شرک کا دروازہ بند کرنے پر مشتمل ہيں لہذا اس نکتہ پر دونوں حکمتوں کا اجتماع ہو کر 'امتناعِ شرک' ہي تصوير کي حرمت کي بنيادي وجہ قرار پاتا ہے?

سادہ الفاظ ميں مذکورہ دونوں حکمتيں نتيجتاً ايک ہي ہيں ، کيونکہ جب تصوير شرک کا ذريعہ بن سکتي ہے تو وسيلہ شرک کا حکم ممانعت ِشرک(مقصد ِشرعي) ہي ہوا،اسي بنا پر اسے شرک سے مشابہ قرار ديا گيا ہے لہذا وسيلہ شرک اور تخليق الہي سے مشابہت شرک ہي ہے، اور اسي پر قيامت کے روز نفخ روح کا چيلنج درپيش ہو گا?

صرف بے جان چيزوں کي تصاوير جائز ہيں
بعض متجددين نے يہ الزامي اعتراض کياہے کہ بے جان اشيا کي تصوير يا مجسمہ بنانے ميں بھي اللہ تعالي? سے مشابہت لازم ا?تي ہے، لہ?ذا اس بنا پر بھي بے جان اشيا کي تخليق و تصوير شرعاً حرام ہوني چاہيے جب کہ وہ بالاتفاق جائز ہے?

ليکن يہ الزام درست نہيں ،کيونکہ اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کا ايک اور فرمان اس بات کو نکھارديتا ہے کہ تخليق ال?ہي سے ا?پ? کي ہر شے ميں مشابہت مراد نہيں تھي بلکہ اس سے روح والي اشيا ميں تخليق وتصوير کي مماثلت مراد تھي جيسا کہ حديث ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا يہ ارشاد موجود ہے ، فرمايا:
(من صوَّر صورة في الدنيا کُلِّف يوم القيامة ا?ن ينفخ فيھا الروح وليس بنافخ)5
''دنيا کے اندر کوئي شخص تصوير بنائے تو قيامت کے دن اسے اس بات کي ذمہ داري اُٹھانا ہوگي کہ وہ اس مںق روح پھونکے، حالانکہ وہ يہ کام نہيں کرسکے گا?''

اس کا مطلب يہ ہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے اللہ تعالي? کي جس مشابہت سے منع کيا ہے، وہ عام مشابہت نہيں ہے بلکہ اس سے مراد اللہ تعالي? کي ايسي مخلوقات کي تصويريں بنانا ہيں جن ميں روح پھونک کر اللہ تعالي? نے زندگي پيدا کي ہے? اگر ان چيزوں کے بارے ميں ايسي صورتِ حال پيش ا?ئے کہ ان کي تصوير بنا کر يا ان کے عکس کو فوٹو گرافي کے ذريعہ سے محفوظ رکھنے کي کوشش کي جائے تو يہ بات انتہائي مذمت کے قابل ہے?

واضح رہے کہ بے جان اشيا کي تصوير بنانا جائز ہے جيسا کہ عبد اللہ بن عباس? نے ايک پيشہ ور مصور کو مشورہ دياتھا کہ اگر تجھے تصويريں بناني ہي ہيں تو بے جان اشيا کي تصاوير بنا لے:
عن سعيد بن ا?بي الحسن قال جاء رجل إلي ابن عباس فقال يا ابن عباس إني رجل ا?صوّر هذہ الصور واصنع هذہ الصور فافتني فيها قال اُدن مني فدنا منه حتي وضع يدہ علي را?سه قال: ا?نبئك بما سمعت من رسول ا? يقول: (کل مصور في النار يجعل له بکل صورة صوَّرها نفس تعذبه في جهنم) فإن کنت لابد فاعلاً فاجعل الشجر وما لا نفس له? 6
''سعيد بن ابي الحسن رحمة اللہ عليہ بيان کرتے ہيں کہ ايک شخص حضرت عبد اللہ بن عباس? کے پاس ا?يا اور اپنا مسئلہ پيش کيا کہ ميں ايسي (جاندار) تصويريں بناتا ہوں اور يہ ميرا پيشہ ہے? مجھے اس بارے ميں فتوي? ديجئے تو ابن عباس? نے اسے قريب کر کے اس کے سر پرہاتھ رکھا اور کہا کہ ميں تمہيں اس بات کي خبر ديتا ہوں جو ميں نے خود نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے سني ہے، کہ ا?پ نے فرمايا:ہر تصوير بنانے والا ا?گ ميں جائے گا، اس کي ہر تصوير کو ايک زندہ جان بنا کر اسکے ذريعہ جہنم ميں عذاب ديا جائے گا?اگر تو يہ پيشہ اختيار کرنا چاہتا ہے تو درخت اور بے جان اشيا کي تصويريں بنا?''

چنانچہ يہ کہناکہ تخليق کي مشابہت حرمت ِتصوير کي کوئي خاص وجہ نہيں ہے کيونکہ يہ وجہ بے جان اشيا کي تصوير ميں بھي پائي جا تي ہے جبکہ وہاں حرمت کا حکم موجود نہيں ہے اور جاندار اشياء کو مخصوص کرنا بلا وجہ ہے بلکہ تصوير کي حرمت کي حکمت کچھ اور ہے (مثلاً شرک يا فحاشي وغيرہ) تو ہم کہتے ہيں کہ شرک اور فحاشي تو مطلقاً حرام ہيں خواہ تصوير کي صورت ہو يا کوئي دوسري جب کہ خاص طور پر تصوير کي حرمت بھي ہے جو جاندار کي تصاوير کے بارے ميں ہے، لہ?ذا وہ حکمت اللہ کي تخليق خاص سے مشابہت بھي ہے?
البتہ پہلے يہ وضاحت گزر چکي ہے کہ تخليق ال?ہي کي مشابہت سے مراد بھي فعل تخليق کے بجائے مخلوق کو اللہ کے مشابہ قرار دينا کہ اس کي عبادت کا خطرہ ہے جس کي بنا پر تصوير کو حرام قرار دے کر شرک کے مفسدہ کا دروازہ بند کرديا گيا ہے?

تصوير بنانے اور تصوير رکھنے کے حکم ميں فرق

شرع ميں جہاں تک تصوير کے رکھنے يا نہ رکھنے کا تعلق ہے تو اس ميں بنيادي بات احترام کي ہے، يہ بھي شرک کي حوصلہ افزائي ہے?تصوير بنانے اور تصوير رکھنے کافرق ہے کہ تصوير بنانے کي حرمت تومطلق ہے جب کہ تصوير کا وجودذلت کي بعض صورتوں ميں گوارا ہے? چنانچہ حرمت کے بارے ميں تو ا?پ صلي اللہ عليہ وسلم کے ارشادات بالکل واضح ہيں جن کي حکمت کي فني تشريح تو ميں بعد ميں کروں گا? ان شاء اللہ، البتہ تصوير کے وجود کے بارے ميں کہ جس مقام پر تصوير موجودہو تو اس کے اثرات کيا ہوتے ہيں ؟
ا س کا جواب ا?پ صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک ارشاد ميں يوں ہے?حديث ميں ا?تا ہے:
عن ا?بي هريرة قال: استا?ذن جبريل عليه السلام علي النبي ? فقال: (اُدخل فقال: کيف ا?دخل وفي بيتك ستر في تصاوير فإما ا?ن تقطع رو?سها ا?و تجعل بساطًا يوطا? فـإنا معشر الملائکة لا ندخل بيتًا فيه تصاوير 7
''حضرت ابوہريرہ? سے روايت ہے کہ جبريل عليہ السلام نے ا?پ صلي اللہ عليہ وسلم کے (گھر) پاس ا?نے کي اجازت طلب کي تو ا?پ? نے فرمايا داخل ہو جائيں ?جبريل کہنے لگے: ميں گھر ميں کس طرح داخل ہو سکتا ہوں ؟ يہاں تو پردہ لٹک رہا ہے جس ميں تصويريں بني ہيں يا تو ان کے سر کاٹ ڈاليے اور يا پھر اُنہيں بچھونا بنا ديں تا کہ يہ (تصويريں )روندي جائيں ،کيونکہ ہم فرشتے ايسے گھر ميں جہاں تصويريں ہوں ، داخل نہيں ہوتے?''

تصوير نحوست ہے، اس ليے اس کا احترام نہيں ہونا چاہيے
معلوم ہواکہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے تصوير رکھنے کے سلسلے ميں جو بات فرمائي، وہ مشروط ہے? يعني جس گھر ميں ايسي تصوير ہوجو عزت کي جگہ پر ہو، اس تصوير کي موجودگي ميں رحمت کے فرشتے گھر کے اندر داخل نہيں ہوتے?گويا تصوير ايک نحوست والي چيز ہے، اسي طرح کتے ميں اللہ کي تخليق ہونے کے اعتبار سے نحوست نہيں ہے، البتہ گھر ميں اس کي موجودگي کي نحوست فرمانِ رسول کے مطابق لابدي ہے? چنانچہ فرشتے اس گھر ميں داخل نہيں ہوتے جس ميں کتا موجود ہوحتي?کہ ايک انسان جب جنبي ہوجاتا ہے تو اس وقت اس کے ساتھ بھي نحوست لاحق ہوجاتي ہے،اسي ليے جنبي کي موجودگي ميں بھي رحمت کے فرشتے داخل نہيں ہوتے?

خلاصہ يہ ہے کہ رحمت کے فرشتے اس کمرہ يا گھرميں داخل نہيں ہوتے جس ميں تصوير ياجنبي انسان ياکتا موجود ہو? کيونکہ تصوير کا وجود ہي نحوست ہے، البتہ تصوير کي حد تک يہ نحوست اس وقت ختم ہوجاتي ہے جب اسے ذليل جگہ رکھا جائے گوياذليل ہونے کي صورت ميں تصوير کا وجودگوارا ہوجاتا ہے? ياد رہے کہ تصوير کي يہ حرمت وممانعت فوٹوگرافي والي تصوير کو بھي شامل ہے، او راس سلسلے ميں بعض جديد دانشوروں کا موقف درست نہيں ?

ہاتھ سے تصوير بنانے اور فوٹوگرافي ميں کوئي فرق نہيں !
ہاتھ سے تصوير بنانے اور فوٹو گرافي ميں جن لوگوں نے فرق کيا ہے، کيا واقعتا ان دونوں کے حکم ميں کوئي شرعي فرق ہے يا نہيں ؟

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے فرمانات کے سطحي مفہوم ميں جو اس دور کے تمدن کے مطابق تھا، ہاتھ سے بني ہوئي تصوير اور مجسّمے ہي تھے کيونکہ ا?پ? کے دور ميں لفظ تصوير کا واحد مصداق يہي تھا? کيمرے اور ويڈيو کي تصوير تو بعد کے ادوار کي ايجادات ہيں جو دورِ حاضر کا تمدني ارتقا ہے، لہ?ذا سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ لفظ تصوير سے حکم رباني کا مقصود کيا ہے؟ يا دوسرے الفاظ ميں تصوير کي حرمت والي نصوص کا مفہوم کيا ہے؟ بعض متجددين کا خيال ہے کہ ا?پ? نے تصوير کا جو لفظ ارشاد فرمايا تھا ، اس سے ا?پ? کامقصود اپنے زمانے کي مروجہ تصوير کي مختلف شکليں تھيں جو ہاتھ ہي سے بنائي جاتي تھيں ليکن يہ درست نہيں ?

ميں تمدني ارتقا کے اس مسئلہ کواس ليے طول نہيں دينا چاہتا کہ مولانا محمد رمضان سلفي اور ديگر حضرات نے يہ بات کھول کر بيان کردي ہے کہ يہ بات ہمارے کہنے کي نہيں بلکہ يہ ان سے پوچھو جن کي زبان عربي ہے کہ وہ اس کو' تصوير' کہتے ہيں يا کچھ اور? ميں بھي يہي کہتا ہوں کہ کيا عربي زبان ميں فوٹوگرافي کو' تصوير' نہيں کہتے... ؟(i)

عکس اور تصوير کا فرق
بعض لوگ فوٹوگرافي کو عکس قرار دے کر اس کا جواز نکالنے کي کوشش کرتے ہيں حالانکہ عکس اور تصوير ميں فرق ہے? عکس کے اندراگرچہ پہلي نظر ميں شباہت ايک جيسي معلوم ہوتي ہے،ليکن درحقيقت اعضا دائيں بائيں اُلٹ جاتے ہيں ، جبکہ تصوير ميں داياں باياں اسي طرح رہتا ہے? دوسري بات يہ ہے کہ عکس اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اصل سامنے موجود ہوچنانچہ عکس جب ثبت ہو جاتا ہے تو وہ تصوير بن جاتي ہے?اس بنا پر يہ کہنا کہ تصوير ہاتھ سے بنائي جائے تو وہ حرام ہے اور جو فوٹوگرافي کي صورت ميں کھينچ لي جائے وہ حلال ہے، درست نہيں ہے? ميں واضح کر چکا ہوں کہ تصوير سازي ميں جديد ا?لات کا استعمال تو تمدني ارتقا کا مسئلہ ہے،بلکہ اگر اتني اچھي تصوير بنائي جائے کہ اس کے اندر جسماني کے علاوہ نفسياتي ا?ثاربھي نکھرتے چلے جائيں تويہ انساني ترقي کي مہارت ہے?چنانچہ بعض اوقات اتني اچھي تصوير بنائي جاتي ہے کہ اس کے اندر جذبات کا اظہار بھي ہو جاتا ہے تو يہ سب تمدني ارتقا ? کي قبيل سے ہے،کيونکہ اچھي تصويرسے اسي طرح جذبات کي عکاسي ہوتي ہے جس طرح شاعري سے جذبات کي لفاظي ہوتي ہے?حاصل يہ ہے کہ تمدني ارتقا کے ليے کوئي بھي طريقہ اختيار کيا جائے اس سے تصوير کي شرعي حيثيت پر کوئي فرق نہيں پڑتا?

شرعي نصوص ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے تصوير اور مصور ہر دو کے لئے جو وعيد سنائي ہے اس کا مقصود نتيجتاً ايسانقش ہے جو تصوير کي صورت ميں تيار ہوتا ہے?تصوير کس چيز سے بنتي ہے اورکس طرح بنتي ہے ، اس کي شرع ميں کوئي خاص اہميت نہيں ہے؟اسي طرح جاندار کي ہر طرح کي تصوير حرام ہے خواہ وہ کپڑا، پتھر، لکڑي،سلور يا پلاسٹک پر ہو يا کسي اور ذريعہ سے حاصل ہو،کيونکہ تصويرتو ايک شکل ہے جب وہ کہںم قرار پاجاتي ہے تو وہ تصوير بن جاتي ہے ، البتہ جب وہ اصل کے ساتھ قائم ہوتي ہے تو اسے 'عکس' کہتے ہيں ? چنانچہ پاني ميں ہو تو عکس ہے، ا?ئينہ ميں ہو تو عکس ہے، ليکن اگر کہيں شکل قرار پکڑ جائے تو وہ تصوير ہے? اس بنا پر ہر قسم کي تصوير 'تصوير' ہي ہے اورشرع ميں اس کي حرمت بالکل واضح ہے?

مسئلہ تصوير اور ہماري مداہنت
ہمارے ہاں يہ صورت قابل تشويش ہے کہ يوں تو اکابر علما تصوير کي حرمت کا فتوي? ديتے ہيں ليکن عملاً اس معاملہ ميں مداہنت دکھاتے ہيں جس کا نتيجہ يہ ہے کہ اب عام علما اور عوام بھي حرام وحلال کي تميز کے بغير تصوير کشي کررہے ہيں ?اس کي ايک وجہ تو وہ شبہات ہيں جن کا ميں ذکر کرچکا ہوں ?ان شبہات کا خاطر خواہ جواب سامنے نہ ا?نے پر مسئلہ تصوير کھيل بن گيا ہے بلکہ اب موبائل فونوں اور کيمروں کي کثرت نے تو اس کي کوئي اہميت نہيں رہنے دي?

حرمت ِتصوير کي حکمت
مداہنت کي ايک بڑي وجہ تصوير کشي کے بعض پہلو اور حرمت ِتصوير کي حکمت ميں بعض اختلافات بھي ہيں ?تصوير کشي کے وہ پہلو جن ميں تمدني ارتقا اور عکس وتصوير کا فرق تھا، اس کي تو وضاحت ہو چکي، البتہ حرمت ِتصوير کي حکمت ايک خالص اُصولي مسئلہ ہے?ميں کوشش کروں گا کہ اسے ا?سان صورت ميں پيش کر سکوں ?ابتدا ميں احکامِ شرعيہ کي توجيہ وتعليل کو ہم نے فقاہت قرار ديا تھا ليکن يہ توجيہ وتعليل فني طور پر قياس ميں ہوتي ہے اور سد ذريعہ ميں بھي?

پہلے ہم قياس اور سد ذريعہ کي تعريف کرتے ہيں :
قياس :کتاب وسنت ميں کسي شرعي حکم کي توجيہ کي بنا پر مذکورہ حکم کو ديگر مماثل اشيا پر بھي لاگو کرنا? روزمرہ معاملات ميں اس کي سادہ مثال يہ ہے کہ ايک کمرہ ميں چند کھڑکياں ہيں ،گھر کا مالک خادم سے کہتا ہے کہ کھڑکي بند کردو کيونکہ کمرہ ميں دھوپ ا?رہي ہے، چنانچہ ملازم نے ايک کھڑکي کے ساتھ دوسري کھڑکياں بھي بند کر ديں کيونکہ ان سے بھي دھوپ ا?رہي تھي?گويا قياس ميں حکم لفظ تک محدود نہيں ہوتا بلکہ وجہ معلوم کر کے اس سے مربوط کيا جاتا ہے، اسي ليے اس وجہ کو 'مناط'(کھونٹي)کہتے ہيں کيونکہ وہ حکم اس سے منسلک ہوتا ہے?

سد ِ ذريعہ:لغوي معني: 'وسيلہ ميں رکاوٹ ڈالنا '? اس ميں بھي کسي حکم کي تعميل ميں توجيہ وتعليل پر غور کيا جاتا ہے کہ کيا کوئي نقصان يا شرعي مقاصد تو متاثر نہيں ہو رہے?اگر شرعي طورپر کوئي خرابي لازم ا?تي ہے تو تعميل سے ہاتھ روک ليا جاتا ہے ?اس کي سادہ مثال يوں ہے کہ عموماً تشدد کے خوف سے اسلحہ کي نمائش سے منع کر ديا جاتا ہے، حالانکہ اپني حفاظت کے ليے اسلحہ رکھنا ہر انسان کي ضرورت ہے? ايسے ہي شرعي طور پر سرکاري ملازمين کو رشوت کے خوف سے تحائف وصول کرنے سے ہاتھ روک لينا چاہيے? سد ذريعہ ميں شرعي حکم کا تعلق حکمت سے ہوتا ہے اور وہ حکمت اصل مسئلہ کي بجائے اس کے وسيلے اور ذريعے کي رکاوٹ سے حاصل ہوتي ہے?

دونوں ميں فرق: قياس اور سدذريعہ دونوں کا تعلق اگرچہ شرعي توجيہ وتعليل سے ہے، تاہم چند باتوں ميں فرق ہے ، مثلاً
قياس ميں علت کي بنا پر حکم ميں توسع پيدا ہوتا ہے جبکہ سدذرائع ميں وسعت ِحکم ميں رکاوٹ ڈال کر اسے محدود کيا جاتا ہے ?مثلاً اوپر کي مثالوں ميں قياس کي صورت ايک کھڑکي کے ساتھ دوسري کھڑکيوں کوبھي کھولنا ميں شامل کرليا گيا، جبکہ سدذرائع ميں اسلحہ کي نمائش اور تحائف جيسے جائز معاملات کو بھي محدود کر دياجاتا ہے?

دوسرا فرق يہ ہے کہ قياس مخصوص نصوص کي بنا پر شرعي احکام کا پھيلاو? ہوتاہے جبکہ سدذريعہ کا طريقہ شرع کے عمومي مقاصد کے پيش نظر کيا جاتا ہے?مثلاً عمومي امن وامان کے ليے ہتھيار کي نمائش روک دي جاتي ہے اور عمومي رشوت کا دروازہ بند کرنے کے ليے تحائف کا لين دين بھي رشوت قرار پاتا ہے?

تيسرا فرق يہ ہے کہ قياس ميں علت وحکمت مطرد يعني ہميشہ جاري اور ساري رہتي ہے، مثلاً مسافر کے ليے ہميشہ روزہ ميں رخصت ہے مگر سدذريعہ ميں حکمت اہميت ِمقاصد کے تحت بدلتي رہتي ہے بلکہ بسا اوقات راجح مصلحت کے تحت ناجائز کام بھي جائز ہو جاتے ہيں جيسا کہ حق تلفي اور ظلم کو دفع کرنے کے ليے رشوت دينے کي اجازت ہے?اسي طرح مسلمان قيديوں کو دشمن سے چھڑانے کے ليے فديہ دينا جائز ہو جاتا ہے?اسے فسخ ذريعہ کہتے ہيں ?

سدذريعہ کے ان امتيازات کے پيش نظر ہم کہتے ہيں کہ تصوير کا مسئلہ سدذرائع کے باب سے ہے?يہي وجہ ہے کہ تصوير ميں اکابر علماء فتوي? کے اختلافات کے باوجود مقاصد کي اہميت کي بات بھي کرتے ہيں ?مثلاً شيخ ابن باز رحمة اللہ عليہ ،علامہ الباني رحمة اللہ عليہ اور شيخ محمد صالح فوزان بچوں کو کھيل يا لڑکيوں کي تربيت کے ليے گڑيوں کي اجازت ديتے ہيں ? اسي طرح پاسپورٹ،شناختي کارڈ وغيرہ کي بھي اہميت کے پيش نظر تصوير کي رخصت ديتے ہيں ?ہم يہاں ان سب سے زيادہ راسخ بزرگ شيخ محمد ناصر الدين الباني رحمة اللہ عليہ کي ايک عربي عبارت کا حوالہ ديتے ہيں :
وقبل ا?ن ا?نهي هذہ الکلمة لايفوتني ا?ن ا?لفت النظر إلي ا?ننا وإن کنا نذهب إلي تحريم الصُّور بنوعيه جازمين بذلك فإننا لا نر?ي مانعًا من تصوير ما فيه فائدة متحققة بدون ا?ن يقترن بها ضرر ما، ولا تتيسر هذہ الفائدة بطريق ا?صله مباح،مثل التصوير الذي يحتاج إليه الطبّ وفي الجغرافيا وفي الاستعانة علي اصطياد المجرمين والتحذير منهم ونحو ذلك فإنه جائز بل قد يکون بعضه واجبًا في بعض الا?حيان والدليل علي ذلك حديثان ... الخ 8
''(مسئلہ تصويرپر)اپني گفتگو ختم کرنے سے قبل ميں اس امر کي طرف توجہ مبذول کرانا ضروري سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ہماري رائے تصوير کي حتمي طور پر حرمت کي ہے? تاہم اس بارے ميں ہم کوئي مانع نہيں پاتے کہ اگر تصوير ميں کسي نقصان کے خطرہ کے بغير حقيقي فائدہ موجود ہواور يہ فائدہ کسي جائز طريق سے حاصل نہ سکتا ہو، تو تصوير کي گنجائش ہے? علم طب، جغرافيائي ضرورتيں ، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کي غلط کاريوں سے بچاو? وغيرہ جيسے مقاصد تصوير کشي کا جواز پيدا کرتے ہيں بلکہ بعض خاص صورتوں ميں تصوير کشي واجب بھي ہو جاتي ہے?اس پر درج ذيل دو حديثيں دليل ہيں :
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا (اُمّ المومنين)گڑيوں کے ساتھ کھيلا کرتي تھيں توجناب رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم ان سے کھيلنے والي سہيلياں بلا لاتے تھے? 9

حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا ہي سے طبقات ابن سعد7?66کي ايک دوسري صحيح روايت ہے کہ کھيل کے ليے ان کے پاس گڑياں تھيں اور جب نبي صلي اللہ عليہ وسلم داخل ہوتے تونبي صلي اللہ عليہ وسلم کپڑے سے پردہ کر کے اوٹ ميں ہو جاتے تاکہ عائشہ رضي اللہ عنہا اپنا کھيل جاري رکھيں ?(يہ لفظ ابو عوانہ کے ہيں )

ا?گے حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا کي وہ حديث بھي ا?رہي ہے جس ميں اس بات کا ذکر ہے کہ ان کے پاس گھوڑا بھي تھا جس کے چيتھڑوں کے بنے ہوئے دوپر تھے?حافظ ابن حجر رحمة اللہ عليہ کہتے ہيں : ''اس حديث سے گڑيوں کي تصويريں بنانا تا کہ لڑکياں ان سے کھيليں ، کے جواز کي دليل حاصل کي جاتي ہے اور يہ تصويروں کي ممانعت والے حکم سے الگ ہے? اسي پر قاضي عياض رحمة اللہ عليہ نے اطمينان ظاہر کيا ہے اور جمہور علماء کا يہي موقف نقل کيا ہے کہ جمہور نے لڑکيوں کي لڑکپن ہي سے گھريلو اور اولاد کي تربيت کي غرض سے گڑيوں سے کھيل کي اجازت دي ہے?''

ربيع بنت معوذ بيان کرتي ہيں کہ نبي? نے عاشوراء کي صبح مدينہ منورہ کے اردگرد بستيوں ميں پيغام بھيجا کہ جوکوئي ناشتہ کر چکا ہے وہ تو سارادن بے روزہ رہے ليکن جو نہار منہ ہے وہ روزہ رکھ لے?حضرت ربيع? بيان کرتي ہيں کہ ہم اس دن کے بعد سے ہميشہ خود روزہ رکھتيں اور ہمارے بچے بھي روزہ سے ہوتے اور جب بچوں کو لے کر ہم مسجد ميں جاتيں تو روئي سے ان بچوں کو کھلونے بنا ديتيں ? يہ کھلونے بھي ہمارے ساتھ ہوتے? جب کوئي بچہ کھانا مانگتے مانگتے روپڑتاتو ہم يہ کھلونے دل بہلانے کو اسے دے ديتيں يہاں تک افطاري کا وقت ہو جاتا?''

ايک روايت ميں يہ ہے: بچے جب ہم سے کھانے کو مانگتے تو انہيں مشغول کرنے کے ليے يہ کھلونے دے ديتيں تاکہ وہ بچے بھي روزہ مکمل کر ليں ? 10

ہم نے جن اکابر اہل علم کا ذکر کيا ہے، ان کے نزديک رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے شديد ارشادات کي بنا پر تصوير في نفسہ? حرام ہے ،ليکن بعض اہم ضرورتوں کي بنا پر چند صورتيں اس سے مستثني? ہيں جيسا کہ گڑيوں اور پاسپورٹ وغيرہ کي اہميت کے پيش نظر تصوير کي گنجائش موجود ہے? جبکہ بعض متجددين کے سر پر' فنونِ لطيفہ'کا جنون سوار ہے اور وہ تصوير اور رقص وسرود کو بنيادي طور پر ايک مستحسن اور مطلوب شرعي قرار ديتے ہيں ?اگرچہ حلقہ اشراق نے تصوير کے موضوع پر جو کتابچہ 'اشراق کے خاص نمبر برتصوير' کے بعد شائع کيا ہے، اس ميں سدذريعہ کا نکتہ ذکر کيا ہے ليکن انہوں نے يہ خرابي، خاص علاقے اور خاص دور تک ہي محدود رکھي ہے اور نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ارشادات کو دائمي طور پر تسليم نہيں کيا? 11

جبکہ ہماري رائے اس سے قطعي مختلف ہے، ہم تصوير کي اصلاً حرمت کے قائل ہيں البتہ اس کي و جہ? حرمت سدذريعہ ہي کو قرار ديتے ہيں ،کيونکہ سد ذريعہ بسا اَوقات حرام ہونے کے باوجود اہم مقاصد کے پيش نظر جائز ہو جاتا ہے?ٹيلي ويژن اور اس جيسے ديگر اليکڑانک ميڈيا پر امر بالمعروف ونہي عن المنکر جيسے اعلي? شرعي مقاصد کي تکميل کے لئے ہم احترام کيے بغير تصوير کے استعمال کي اجازت ديتے ہيں ?

سد ذريعہ کا باب مقاصد ِشريعت کي قبيل سے ہے اور قواعد فقہيہ کي صورت ميں انہي مقاصد شريعت کا انضباط ہوتاہے لہ?ذا اسي روحِ شريعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے الضرورات تقدر بقدرہا جيسي پابنديوں کے ساتھ ہم اليکٹرانک ميڈيا کے استعمال کي حوصلہ افزائي کرتے ہيں ?اوراگر ذريعہ غير اہم ہو تو حکم مکروہ ہو گا ?اسي طرح حالات وواقعات کے تناظر ميں ذرائع اور وسائل کي اہميت بھي بدل سکتي ہے?تصوير کي دورِ حاضر ميں يہي صورت ہے? شرعي مقاصد کے ليے اگر ذرائع ابلاغ ميں اليکٹرانک ميڈيا کا کردار ديکھا جائے تو تبليغ اسلام کے لئے تصوير کي ممانعت کے مفاسد اس کے مقابلے ميں کمزور نظر ا?تے ہيں ، اس بنا پرتصوير کو چند شروط کے ساتھ اليکڑانک ميڈيا پر گوارا کر لينے ميں کوئي حرج نہيں ?

بعض لوگ اضطراراً تبليغ اسلام کے لئے تصوير کو جائزقرار ديتے ہيں ، جبکہ اضطرار اور حاجت ہر دو کے حوالے سے ہميں انتہائي رويہ سے بچنا چاہئے? شديد ضرورت تو وہ ہوتي ہے جس کو شرع ميں اضطرار کہا جاتا ہے اور ايک عام حاجت ہوتي ہے جس ميں نفع ونقصان کي مصلحت راجح پيش نظر ہوتي ہے،چنانچہ جہاں نفع ونقصان کا تقابل کياجاتا ہے، اسے اضطرار نہيں کہتے?

جيسا کہ ميں ذکر کرچکا ہوں کہ سد ذريعہ کا تعلق مقاصد ِشريعت سے ہے اور عام طور پر مقاصد ِشريعت قواعد ِفقہيہ سے منضبط کيے جاتے ہيں ?اسلئے ميں قواعد فقہيہ (Legal Maxims) سے مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں ?مثلاً قواعد فقہيہ ہيں : ''الضرورات تبيح المحظورات''، ''الضرورات تقدر بقدرها'' يا ''الحاجات تقدر بقدرها'' وغير ہ? ياد رہے کہ قواعد فقہيہ کبھي بنيادي دليل کے طور پر نہيں ا?تے بلکہ شريعت کا مزاج بتا تے ہيں ? پھر شريعت کي اس روح کا بھي ہميں شرع کي عمومي تعليمات سے ياخود نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتاہے?چنانچہ تصوير کے بارے ميں نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم صريح حرمت بيان فرما رہے ہيں کہ سب سے زيادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گاجو تصاوير بنانے والے ہيں ? علاوہ ازيں اس کے وجود کے بارے ميں شرع اتني حساس ہے کہ اُس مقام پر رحمت کافرشتہ داخل نہيں ہوتا ليکن يہي تصوير اگر پيروں ميں روندي جارہي ہو تو فرشتہ داخل ہو جاتا ہے اور وہي تصوير اگر بچيوں کي تربيت کے ليے حاجت بن جائے تو اس کي بنا پر گھر ميں گڑياں وغيرہ رکھي جا سکتي ہيں اور بچوں کو کھلونے بناکر بھي ديے جا سکتے ہيں ، جيسا کہ نبي کے گھر ميں حضرت عائشہ? کي گھڑيوں ميں پروں والا گھوڑابھي موجود تھا ? سنن ابوداود ميں حديث موجود ہے:
عن عائشة قالت: قدم رسول ا? ? من غزوة تبوك ا?و خيبر وفي سهوتها ستر،فهبَّت ريح فکشفت ناحية الستر عن بنات لعائشة لُعَب فقال: (ما هذا يا عائشة؟) قالت: بناتي! ورا?ي بينهن فرسًا له جناحان من رقاع،فقال: (ما هذا الذي ا?ر?ي وسطهن؟) قالت: فرس،قال:(وما هذا الذي عليه؟)قالت:جناحان،قال:( فرس له جناحان؟)قالت: ا?ما سمعت: ا?ن لسليمان خيلاً لها ا?جنحة؟ قالت: فضحك حتي را?يت نواجذہ?
''امّ المو?منين سيدہ عائشہ ? سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم غزوہ? تبوک يا خيبر سے واپس تشريف الائے تو ميرے طاقچے کے ا?گے پردہ پڑا ہوا تھا? ہوا چلي تو اس نے پردے کي ايک جانب اُٹھا دي، تب سامنے ميرے کھلونے اورگڑياں نظر ا?ئے?ا?پ? نے پوچھا: عائشہ يہ کيا ہے؟ ميں نے کہا: يہ ميري گڑياں ہيں ?ا?پ نے ان ميں کپڑے کا ايک گھوڑا بھي ديکھا جس کے دو پر تھے?ا?پ نے پوچھا:ميں ان کے درميان يہ کيا ديکھ رہا ہوں ؟ ميں نے کہا: يہ گھوڑا ہے?ا?پ نے پوچھا: اور اس کے ا وپر کيا ہے؟ ميں نے کہا: اس کے دو پر ہيں ?ا?پ? نے کہا: کيا گھوڑے کے بھي پر ہوتے ہيں ؟ عائشہ ? نے کہا: ا?پ نے سنا نہيں کہ حضرت سليمان? کے گھوڑے کے پر تھے؟ کہتي ہيں : چنانچہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم اس قدر ہنسے کہ ميں نے ا?پ کي ڈاڑھيں ديکھيں ?''12

کيا تصوير في نفسہ? حرام ہے يا اس کي حرمت خارجي وجوہ پر موقوف ہے؟
اس بنا پر ميں مسئلہ تصوير کو قياسي علت کي بجائے سدذرائع کي حکمت کا ايک مسئلہ سمجھتا ہوں چونکہ سد ِذرائع کے اندر اُصول يہ ہے کہ ديکھا جائے کہ ذريعہ کتنا طاقتور ہے؟يعني شرعي مصلحت کا تقابل کيا جاتا ہے? جہاں تک ممنوع ذرائع ہيں مثلاً شرک اور فحاشي وغيرہ تو يہ بذاتہ حرام ہيں ، تصوير اگر نہ بھي ہو تب بھي حرام ہيں ، البتہ تصوير کي ذاتي حرمت کے بارے نبي کريم? کے واضح ارشادات کي موجودگي ميں يہ شبہ نہيں ہو سکتا کہ تصوير کو اصلاً مباح قرار ديا جائے?(ii)

حديث ِرسول? کے بجائے اپني توجيہ وتعليل پر زيادہ اعتماد کرنے کي بنا پر غامدي صاحب کو شبہ لاحق ہوا ہے کہ وہ کہتے ہيں کہ تصوير في نفسہ? حرام نہيں بلکہ يہ مستحسن اور مطلوب امر ہے کيونکہ اللہ تعالي? جميل ہيں اور جمال سے محبت کرتے ہيں اور انسان فنونِ لطيفہ کي صورت ميں جو بھي لطافت دکھاتاہے تو وہ درحقيقت انسان کي روحاني، اخلاقي اور جمالياتي قوتوں کا اظہار ہوتا ہے اورانسان سے مطلوب يہ ہے کہ وہ اپني ان تمام قوتوں کو فروغ دے?

يہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اللہ تعالي? نے ہميں اپني قوتوں کو بہترين طريقے سے استعمال کرنے کي نہ صرف اجازت دي بلکہ ترغيب بھي دي ہے?البتہ يہ ضرور ملحوظ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالي? نے جو چيزيں منع کي ہيں ، ان کے اندر کوئي نہ کوئي شيطاني دخل ہوسکتا ہے? غامدي صاحب کہتے ہيں کہ تصوير ہو يا رقص وسرود، يہ موسيقي کي طرح فنونِ لطيفہ ميں شامل ہيں جو کسي انسان کي فني مہارت ہے بلکہ موسيقي روح کي غذا ہے?ميں کہتا ہوں کہ کم از کم يہ غور کر ليتے کہ يہ روح کي غذا ہے يا بدروح کي غذا?وہ کہتے ہيں کہ يہ انسان کا ذوق جمال ہے ?ميں کہتا ہوں کہ ذوقِ جمال تو انسان کا يہ ہے کہ وہ ہر وقت عورت صنف ِنازک کو ديکھتا رہے ?کسي عورت نے مرد سے کہا تھا کہ تومجھے کيوں گھور رہا ہے :
کسي کي جو صورت پہ ہوتے ہيں شيدا
آخر وہ رنج واَلم ديکھتے ہيں !
تو مرد نے ا?گے سے دانشورانہ جواب ديا تھا کہ تم مجھے کيوں ملامت کرتي ہو :
نہ تجھ سے غرض ہے نہ صورت پہ تيري
مصور کا ہم تو قلم ديکھتے ہيں

اصل بات يہ ہے کہ اس طرح کي تاويليں کرنے والے تو بڑے ہيں ، گلوکارہ نورجہاں بھي کہتي تھيکہ ہم سے زيادہ نيکي کا کام کون کرتا ہے، ہم توگانے اور اداکاري سے لوگوں کے مردہ دلوں کو زند ہ کرتے ہيں ، ان کے دل لگاتي ہيں ،
اس طرح اگر يہ بات مان لي جائے تو دنيا کے تما م شيطاني کام جائز ہوجائيں گے ، پھر تونام نہاد فطرت کے بعض شيدائيوں کے بقول انسانوں کو ننگا پھرنا چاہيے اور لوگوں کو اپنا ننگا پن دکھانا بھيچاہيے جس کي دليل يہ ہے کہ اس سے دکھي انسانوں کو خوشي ملتي اور ان کاعلاج ہوتا ہے?

غامدي صاحب کے شاگرد جناب محمد رفيع مفتي اپني کتاب 'تصوير کا مسئلہ 'ميں لکھتے ہيں :
''تصوير کے بارے ميں قران کي آيات اور احاديث کي رہنمائي سے يہ بات تو کھل کر سامنےآگئي ہے کہ مذہب کا تصوير پر اعتراض صرف اور صرف کسي ديني يا اخلاقي خرابي ہي کي بنا پر ہے، ورنہ وہ ان چيزوں کے بارے ميں کچھ بھي نہيں کہتا? چنانچہ نقاشي، مصوري، فوٹوگرافي، مجسمہ سازي ميں سے جو چيزبھي کسي ديني يا اخلاقي خرابي کا باعث بنے گي، وہ اس خاص حوالے سے ممنوع قرار پائے گي''13

چنانچہ محمدرفيع مفتي صاحب کے بقول کسي خاص علاقے اور کسي خاص دور ميں يہ مسئلہ صرف اس وقت پيدا ہوسکتا ہے جب مجسمہ سازي شرک کي طرف رغبت کا ذريعہ بننے لگے تو اس وقت تصوير حرام ہوگي، اُنہوں نے تصوير سے پيدا ہونے والے شرک کو کسي خاص علاقے ميں کسي خاص دور کا مسئلہ قرار ديا ہے جو ان کي بنيادي غلطي ہے،

دراصل تصوير کي بقا ہميشہ ہي سے ايک خطرہ رہي ہے، جب پہلے پہل نيک لوگوں کي تصويريں بنائي گئي تھيں توان کو اس وقت قطعاً يہ خيال نہ تھا کہ يہ بعد ميں معبود بنا ليے جائيں گے،معبود بنا نے والے تو بعد ميں آتے ہيں ، آج ذرامحمد علي جناح يا علامہ اقبال کي تصوير کونيچے گرا کر تو ديکھئے يا کسي بڑے سياسي ليڈر ياسرکاري عہدے دارہي کي تصوير کو نيچے گرا ديجئے تو ايک طوفان برپا ہوجائے گا? چنانچہ کسي تصوير کا اِکرام کرنے والے تو بعد ميں ا?تے ہيں ، لہ?ذا تصوير کي حرمت کي وجہ ہميشہ سے موجود ہے۔

ميري نظر ميں شرک اور فحاشي کے علاوہ بھي تصوير کي بعض صورتيں ايسي ہيں جن ميں وہ حرام ہو گي مثلاً ان کا دکھاواہورہا ہوياان کا غيرمعمولي اِکرام ہو، شرک اور فحاشي کے علاوہ تصوير ميں يہ دوچيزيں بھي اگر پائي جائيں تو ايسي تصويريں حرام ہيں ،

ميڈيا کي اہميت
في الوقت ہميں نبي ?کے زمانہ کي طرح خدشہ? شرک اور بچيوں کي تربيت وغيرہ کا تقابلي مسئلہ درپيش ہے? اس دور ميں 'انفارميشن ٹيکنالوجي' (ميڈيا)اپنے مقاصد کو پھيلانے کا بہت بڑے ذريعے بن گئے ہيں ?ا?ج اليکٹرانک ميڈيا تو اتنا تيز جا رہا ہے کہ ہمارا پرنٹ ميڈيا بہت پيچھے رہ گيا ہے? لوگوں پر اس کے اثرات اس قدر بڑھتے جارہے ہيں کہ کل کلاں حديث ِنبوي? کي تدوين اور تحرير کے دلائل پيش کرنے کے بجائے ايسا دکھائي ديتا ہے کہ يہ ثابت کرنا ہوگا کہ يہ مجموعہ حديث کمپيوٹرائزڈ ہے يا نہيں ؟جبکہ تحرير وتدوين ہو يا کمپيوٹرائزيشن يہ توہر زمانے کے ذرائع ابلاغ اور ان کي ترقي يافتہ صورتيں ہيں ? ميں اس بات کي بھرپور حمايت کرتاہوں کہ ہميں اپنے ذرائع ابلاغ کے اندر جديد ٹيکنالوجي کا بھر پور استعمال کرناچاہيے اور ہميں خود چينلز قائم کرنے چاہئيں ? شرع کے حوالے سے بعض علما کي يہ بات کہ دوسروں سے وقت خريدا جائے اور اپنا چينل قائم نہ کيا جائے، مجھے اس کا فرق سمجھ نہيں ا?يا? اسلئے کہ اگر ا?پ اپنا چينل قائم کرنا جائز سمجھتے ہيں تو وقت خريدنے کي کيا ضرورت ہے? بہت ضروري ہے کہ جديد ذرائع جو حصولِ خير کا باعث بن سکتے ہيں ، ان کو قطعاً نہ چھوڑا جائے،بلکہ مزيد مروّجہ ذرائع کو بھي پوري طرح فروغِ اسلام کے لئے استعمال کرنا چاہيے?

قابل احترام تصاوير سے ہرممکنہ احتراز
تصوير کے سلسلے ميں يہ احتياط بھي ضروري ہے کہ تصوير کا اِکرام بھي حرام يا کم ازکم مکروہ امر ضرور ہے? چنانچہ اس احتياط کو ملحوظ رکھنا بھي ضروري ہے کہ احترام والي تصوير کي گنجائش اس سے زيادہ نہيں ہوني چاہئے جتني شرع نے اجازت دي ہے? اگرچہ جديد اليکٹرانک ميڈيا کے حوالہ سے ايک نکتہ يہ بھي قابل غور ہے کہ اس ميں بعض اوقات تصوير ظاہري طور پر موجود نہيں ہوتي لہذا اور وہاں احترام کا سوال بھي پيدا نہيں ہوتا تاہم اگر يہ تصاوير ظاہر ہو جائيں يا عام ظاہري تصاوير وغيرہ موجود ہوں تو اُن کو نماياں جگہ پر رکھنے سے کلي احتراز کرنا چاہئے، جہاں تک شناختي کارڈ ياديگر سرکاري ودفتري نوعيت کي تصويروں کا تعلق ہے تو ايسي تصاوير کو رکھنا ہماري نہيں بلکہ ہمارے قانون کي مجبوري ہے، اس ليے ان تصاويرسے دل ميں نفرت ضرور ہوني چاہيے ۔

يہاں ميں امام ابو حنيفہ رحمة اللہ عليہ کے حوالے سے ايک تنبيہ کي بات ذکر کرتا ہوں ? امام ابو حنيفہ رحمة اللہ عليہ فرماتے ہيں کہ اگر کوئي شخص داڑھي مونڈ کر شيشہ ديکھے اور شيشہ ديکھ کر خوش ہو تو وہ کافر ہوجاتا ہے? داڑھي مونڈ کر شيشہ ديکھنے کے بعد خوشي سے معلوم ہوا کہ اسے اس برائي سے دل ميں بھي نفرت نہيں رہي ، اس ليے کہ نہي عن المنکرکا ا?خري درجہ تو برائي سے نفرت کا ہے اور اگر وہ بھي جاتي رہي توايمان ميں سے کچھ بھي باقي نہ رہا?غرض اگر کوئي خوشي سے تصوير کھنچواتا ہے تو پھر واقعي مذمت کا مستحق ٹھہرتاہے، ليکن اگر يہ تصوير اس ليے کھنچوائي جائے کہ ہم زيادہ سے زيادہ اسلامي مقاصد کے ليے ذرائع ابلاغ سے فائدہ اُٹھا سکيں يااپنا اليکٹرانک چينل قائم کريں اور ذرائع ابلاغ کو زيادہ سے زيادہ استعمال کريں تو يہ جديد ٹيکنالوجي ايک تمدني ارتقا ہونے کے ناطے کوئي ممانعت نہيں ہے ہميں اپنے چينل بھي قائم کرنے چاہئيں اور اُنہيں استعمال بھي کرنا چاہيے ۔

تصوير کي حرمت ہميشہ سے ہے اور تاقيامت برقرار رہے گي!
مذکورہ بالا اہميتوں اوراحتياطوں کے باوصف ميں ا?خر ميں واضح الفاظ ميں کہوں گا کہ تصوير قديم شريعتوں ميں بھي حرام تھي اور ا?ج بھي حرام، البتہ بعض چيزيں بعض درمياني اَدوار ميں محدود مدت کے لئے جائز ہوئيں جبکہ شريعتيں تمام انسانيت کے اعتبار سے ابھي مکمل نہيں تھيں ، جيسا کہ حضرت سليمان ?کے زمانہ ميں مجسّمے جائز تھے اور حضرت يوسف کے زمانے ميں سجدہ? تعظيمي جائز تھا ?ا?دم ?کو سجدہ ? تعظيمي کروايا گياليکن محمد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي شريعت جو کامل واکمل ہے اور جو ہر قسم کے حالات اورہر قسم کے زمانہ کے ليے ايک دائمي شريعت ہے، اس کے احکامات بھي تا قيامت دائمي ہيں ?

کسي خاص نبي کے زمانے ميں اگر کوئي چيزجائز ہو تو اس کا معني يہ نہيں ہے کہ شريعت ِکا ملہ کے اندروہ چيزخود بخود جائز ہوجائے گي? اگر پہلي شريعتوں ميں بعض چيزيں مثلاً سجدہ? تعظيمي جائز تھا يا تصوير جائز تھي اورا?ج اگر غامدي حلقہ اس بنا پرپر تصويرکو جائز قرار ديتا ہے تو يہ استدلال درست نہيں جيسا کہ ا?ج سجدہ تعظيمي بھي جائزنہيں ہو سکتا? هذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب
حوالہ جات
1. صحيح بخاري:71
2. صحيح بخاري:5954
3. صحيح بخاري: 5951
4. صحيح بخاري،کتاب التفسير:4920
5. صحيح بخاري:5963
6. مسند احمد:1?308 وا?صله في البخاري
7. صحيح سنن نسائي:4958
8. بحوالہ حکم التصوير في الإسلام: 66
9. بخاري:10?434،مسلم:7?125، احمد: 6?166 ، 233،244، واللفظ لہ، ابن سعد:8?66
10. بخاري: 4?163، مسلم: 3?152? اصل عبارت صحيح مسلم کي ہے اور کچھ زيادہ باتيں ديگر روايات سے لي ہيں
11. ديکھيں 'تصوير کا مسئلہ' از محمد رفيع مفتي:ص95
12. صحيح سنن ابوداود:4123
13. ص94
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

i. مناہج شريعت اور مناسک ِشريعت ميں فرق ہے!
تمدني ارتقا کے حوالہ سے ايک نکتہ استطرادًا واضح رہنا چاہئے کہ کيا ذرائع اور وسائل کي تبديلي سے شرعي حکم بدل جاتا ہے؟ ظاہر ہے شريعت ِمحمدي دائمي ہے، اگر تصوير پہلے حرام تھي تو اب بھي حرام ہے،البتہ ايک پہلو واضح کرنا ضروري ہے جس کا تعلق مسئلہ نسخ سے ہے کيونکہ مسائل کي ايک قسم ايسي ہے جس کااصل تعلق مناسک ِشريعت يعني حلال وحرام سے ہے اور دوسرے مسائل وہ ہيں جن کا تعلق نفاذِ شريعت (يعني مناہج شريعت)سے ہے?مثال کے طور پرمُتعہ ہنگامي طور پرنبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کے زمانے ميں کئي دفعہ حلال ہوااور کئي دفعہ حرام کيا گيا ليکن آخري بار متعہ کو حرام کر ديا گيا ، اب کوئي شخص حرمت ِمتعہ کي کوئي ہنگامي وجہ تلاش کرے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے اس خاص وجہ سے متعہ کو حرام کيا تھا اور آج متعہ پھر جائز ہوسکتا ہے تو وہ غلطي کرے گا۔
اس ليے کہ مناسک ِشريعت کے اندر جب نسخ ہوجاتا ہے تو پھر وہ دائمي حيثيت رکھتا ہے، البتہ مناہج شريعت ميں نسخ کا وہ معني نہيں ہے جو مناسک ِشريعت ميں ہے جيسا کہ امام ابن تيميہ، سيوطي اور زرکشي رحمہم اللہ نے اس کي اچھي وضاحت کي ہے کہ وہاں اس کا تعلق حالات سے ہوتا ہے کہ حالات کي بنا پر جو طريقہ بھي موزوں ہو، اسے اختيار کيا جاسکتا ہے? اس بنا پر ہر دو مقام (مناہج اور مناسک) ميں نسخ کے معني مختلف ہوتے ہيں ،
مولانا ابو الاعلي مودودي نے يہ فرق ملحوظ نہ رکھنے کي وجہ سے بعض ناگزير حالات ميں متعہ کے جائز ہونے کا فتوي ديا تھا، ليکن آخرکار اُنہوں نے اپنے اس موقف سے رجوع کرليا تھا۔
ii. کتاب وسنت کي خصوصي تعليمات کے ذريعہ جو شے حرام کر دي جائے، وہ اصلاً حرام ہي ہوتي ہے،کيونکہ توجيہ وتعليل بہر صورت ہمارا اجتہاد ہوتا ہے جس ميں غلطي کا امکان بہر حال ہے اور جب صريح نصوص تصوير کي حرمت اور مصورين پر وعيد کي موجود ہيں تو نص کے مقابلہ ميں اجتہاد پر اعتماد مؤمن کا شيوہ نہيں?
 
Last edited:
Top