• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تطہیر الاعتقاد عن درن الالحاد کا اردو ترجمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔آئینہ توحید۔

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
توحید عبادت کے بغیر توحید ربوبیت بے سود ہے

جب یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ مشرک لوگ جو اللہ کا اقرار کرتے ہیں تو وہ ان کے لیے سودمند نہیں کیونکہ وہ اللہ کی عبادت میں شرک کرتے ہیں اور ان کی یہ عبادت اللہ کے ہاں ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔
وہ ان کی عبادت یوں کرتے ہیں کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بت وغیرہ ان کو نفع ونقصان پہنچانے پر قادر ہیں اوران کے ذریعے ان کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہےاوریہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں،بنابریں ان کے لیے قربانیاں کرتے ہیں،ان کے آثار کے گرد طواف کرتے ہیں،وہاں پر نذریں پوری کرتے ہیں،ان کی خدمت میں دست بستہ عاجزی اور انکسار سے کھڑے ہوتے ہیں اور انکو سجدہ کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی ربوبیت اور خالقیت کا اقرار کرتے اور کہتے ہیں اللہ ہمارا خالق اور پردردگار ہےلیکن جب انہوں نے اس کی عبادت میں شرک کیا تو اللہ نے ان کو مشرک قرار دیا اور ان کا ربوبیت اور خالقیت کا اقرار کسی کام نہ آیا کیونکہ ان کا یہ فعل اس اقرار کے منافی ہے،بنابریں صرف توحید ربوبیت کا اقرار کرنااس کے لیے کافی اور سود مند نہ ہوا۔
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ جو شخص توحید ربوبیت کا قائل ہےاسے عبادت میں بھی اللہ کو منفرد تسلیم کرنا چاہیے۔اگر اس کا اقرار نہیں کرے گاتو اس کا پہلا اقرار بے سود ہوگا۔یہ لوگ جب عذاب الہی میں گرفتار ہوں گےتو خود اقرار کریں گے:

((تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍۙ۔۔ اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ))(الشعرآء:۹۷۔۹۸)
’’(وہ اپنے معبودوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے)بخدا!جب ہم نے تم کو رب العالمین کی ذات کے برابر تصور کیا تو اس وقت ہم واضح گمراہی میں تھے‘‘
حالانکہ وہ ان کو تمام وجوہ سے اللہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے نہ ان کو رازق مانتے تھےاورنہ ان کو خالق تصور کرتے تھےلیکن جہنم کے گڑھے میں گرنے کے بعد ان کو معلوم ہوگاکہ ہم توحید عبادت میں شرک کی ملاوٹ کے باعث جہنم کا ایندھن بن گئے اور اس کی وجہ سے اللہ نے ان سےایسا سلوک کیا جیسا کہ بتوں کو خدا کے برابر سمجھنے والے کے ساتھ کیا۔چنانچہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
((وَ مَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ))(یوسف:۱۰۶)
’’ان میں سے اکثر لوگ جو اللہ کا اقرار کرتے ہیں (یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا اور زمین و آسمان کا خالق بھی وہی ہے،اس کے باوجود)مشرک ہیں(کیونکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں)‘‘
بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت میں ریاکاری کو بھی شرک سے تعبیر فرمایا ،حالانکہ ریاکار اللہ کا بندہ ہےکسی اور کا نہیں،مگر اس نے اپنی عبادت کے ذریعےلوگوں کے دلوں میں اپنا مرتبہ حاصل کرنا چاہا ہے۔بنابریں اس کی عبادت درجہ قبولیت حاصل نہیں کر سکتی اور اسے شرک سے تعبیر کیا ہے۔
جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکور ہے،کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ:
’’اَنَا اَغْنَی الشرکاءِ عن الشرک من عمل عملا اشرک فیہ معی غیری ترکتہ و شرکہ‘‘
’’میں کسی شریک کا محتاج نہیں،جس شخص نے ایسا عمل کیاکہ اس میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا تو میں اس کی اوراس کے شرکیہ عمل کی پرواہ نہیں کرتا(یعنی اس کا عمل قبول نہیں کرتا)‘‘
اللہ تعالیٰ نے عبدالحارث نام رکھنے کو شرک سے تعبیر فرمایا،چنانچہ ارشاد ہوا:
((فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِيْمَاۤ اٰتٰىهُمَا))(الاعراف:۱۹۰)
’’کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حوا کو لڑکا عطا کیا تو انہوں نےاس میں شرک کیا(یعنی لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا)‘‘

چنانچہ امام احمد اور ترمذی رحمہا اللہ نےحضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سےبیان کیا ہے،رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایاکہ حضرت حوا کا کوئی بیٹا زندہ نہیں رہتا تھا،تو شیطا ن اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جب تک اس کا نام عبدالحارث نہیں اس وقت تک تمہارا کوئی بچہ زندہ نہیں رہے گا،چنانچہ انہوں نے شیطان کی بات مان لی اور بچے کا نام عبدالحارث رکھا،یہ شیطانی امر تھاجسے انہوں نے مان لیا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نام رکھنے کو شرک سے تعبیر فرمایا کیونکہ ابلیس کا نام حارث ہےاور عبدالحارث کا معنی شیطان کا بندہ ہوا‘‘
یہ واقعہ ’’در منثور‘‘وغیرہ کتب میں مذکور ہے۔
غیر اللہ کو نفع و نقصان پر قادر سمجھنا شرک ہے


اس تمام بحث سے آپ کو معلوم ہو گیا ہوگاکہ جو شخص کسی درخت،پتھر،قبر،فرشتہ اور جن وغیرہ زندہ یا مردہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہےکہ وہ اس کو نفع پہنچانے پر قادر ہےاور اس کا نقصان بھی کر سکتا ہے،وہ اسے اللہ کے قریب کرتا ہےیا اسکے ہاں اس کی کسی دینوی حاجت کی سفارش کرتا ہے اورصرف اس کی سفارش سے اللہ کام کرتا ہےاوروہ اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنتے ہیں تو ایسا آدمی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہےاور اس کا یہ عقیدہ مشرکانہ ہےجیسے مشرک لوگ بتوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح جو شخص کسی مردہ یا زندہ کے لیےاپنے مال یا اولاد کی نذر مانتا ہےیا اس سے ایسی چیز طلب کرتا ہےجو غیر اللہ سے طلب کرنا جائز نہیں،جیسے کسی بیماری کی صحت کے لیے،یا کسی غائب کے حاضر ہونے کے متعلق یا کسی مطلب برابری کی خاطر،تو یہ سراسر شرک ہے۔بتوں کی پوجا کرنے والے اسی شرک میں مبتلا تھے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
قبر پر قربانی کا حکم

کسی میت پر مال کی نذر ماننا اور قبر پر قربانی کرنا،اس سے وسیلہ پکڑنا اوراس سے ھاجت روائی کا سوال کرنا،یہ سب وہی کام ہیں جو دور جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے۔انہوں نے ان کا نام’’وثن‘‘ اور’’صنم‘‘رکھا ہوا تھا۔لیکن آج اہل قبور ان کو ولی تصور کرتے ہیں اوران کی قبروں کو مزارات سے تعبیر کرتے ہیں۔
حالانہ نام تبدیل کرنے سے کسی شے کی ماہیت اورحقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس کے لغوی،عقلی اور شرعی معانی میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔کیونکہ جو شخص شرب پیتا ہےاور اسے پانی سے تعبیر کرتا ہےتو وہ حقیقتا شراب ہی پیتا ہےاور اس کا عذاب شراب خور سے کم نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہےکہ اس کے عذاب میں اضافہ ہو کیونکہ اس نے نام تبدیل کرکے دھوکہ،فریب اورجھوٹ سے کام لیا ہے۔
کسی شے کا نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی​
احادیث میں مذکور ہےکہ ایک ایسی قوم آئے گی جو شرب پئیں گے اور اس کا نام تبدیل کر دیں گے۔چنانچہ آج فاسقوں کا ایک گروہ ایسا ہےجو شراب کا عادی ہےلیکن اسے نبیذ کے نام سے تعبیر کرتا ہے۔
سب سے پہلا شخص،جس نے سامعین کوخوش کرنے کے لیےایسا نام تبدیل کیا،جو اللہ کی ناراضگی کا موجب ہوا،شیطان تھا،اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا:
((يٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا يَبْلٰى))(طہٰ:۱۲۰)
’’اےآدم،آؤ میں تمہیں ایک ایسا درخت بتاؤں جس کا پھل کھانے سے دائمی اور ابدی زندگی ملتی ہےاورایسا ملک ملتا ہےجسے کبھی زوال نہیں آئے گا‘‘
تو اس نے اس درخت کا نام جس کے پاس آنے سے اللہ نے روکا تھا،’’شجرۃ الخلد‘‘رکھا تاکہ اس کی طبیعت کواس نام کےساتھ،جو اس نے اختراع کیا تھا،مائل کرسکے اوراس کو دھوکہ اور فریب دینےاوراس کے دل میں تحریک پیدا کرنے کے لیےاس نے اسے ایجاد کیاجیسےاس کے دیگر بھائی جو بھنگی اور پوستی ہیں،بھنگ کو فرحت و سرور کا گھونٹ کہتے ہیں،جیسے جوروجفا کے خوگرجو لوگوں کے مال پر ظلم وزیادتی سے قبضہ کر تے ہیں،اس کانام ادب رکھتے ہیں۔وہ ظلم کو ادب سے تعبیر کرتے ہیں۔جیسے بعض لوگ مقبوضہ مال کو نفع سے تعبیر کرتے ہیں،بعض اسے کمیشن کہتے ہیں اور بعض اسے ناپنے اور تولنے کا ادب کہتے ہیں،لیکن یہ تمام اموراللہ کے نزدیک ظلم وزیادتی ہیں۔جیسا کہ کتاب وسنت سے معمولی سا واقفیت رکھنے والامسلمان جانتا ہےکہ یہ تمام باتیں ابلیس نےان کو سکھلائی ہیں،جس نے ’’شجرہ ممنوعہ‘‘کو شجرۃ الخلد‘‘سے تعبیر کیا تھا۔
مزار،وثن اور صنم کا دوسرا نام ہے


اسی طرح کسی کی قبر کو مشہدیا مزار کہنے اورقبر کے مردے کو ولی تصور کرنےسے اسے صنم اور وثن کے حکم سے خارج نہیں کیا جا سکتاکیونکہ وہ ان کے ساتھاایسا ہی معاملہ کرتے ہیں جیسا کہ مشرک لوگ بتوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔وہ ان کے گرد یوں طواف کرتے ہیں،جیسے حاجی لوگ بیت اللہ کے گردطواف کرتے ہیں اوراسے یوں بوسہ دیتے ہیں جیسے وہ ارکانِ بیت اللہ کو بوسہ دیتے ہیں اور میت کو ایسے کلمات سے مخاطب کرتے ہیں جو کفریہ ہوتے ہیں،مثلا:وہ کہتے ہیں کہ’’یہ کام کرنا تیرے اور اللہ کے ذمے ہے‘‘جب کسی مصیبت کے بھنورمیں پھنس جاتے ہیں تو ان کا نام لے کرپکارتے ہیں اورہر ملک کے لوگوں کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا آدمی ہوتا ہےجسے وہ پکارتے ہیں۔چنانچہ اہل عراق اور اہل ہند شیخ عبدالقادر جیلانی کو پکارتے ہیں اور اہل تہامہ کے لیےہر شہر میں ایک ایک میت ہےجسے وہ پکارتے ہیں۔وہ’’بازیلعی‘‘اوریا ابن العجیل وغیرہ کے نعرے لگاتے ہیں۔اہل مکہ اور اہل طائف ابن عباس کو پکارتے تھے۔اہل مصر’’یارفاعی‘‘اور’’یابدوی‘‘کا نعرہ لگاتے تھے۔اہل جبال’’یااباطیر‘‘اور اہل یمن’’یا ابن علوان‘‘کا نعرہ لگاتے تھے۔
چنانچہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی ایسامردہ ہوتا ہےجسے وہ پکارتے،اس سے فریاد رسی کی درخواست کرتے اور اس سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کی تکلیف کو رفع کریں گےاور انہیں راحت و سکون پہنچائیں گے۔ان لوگوں کے کام بعینہ ان مشرکوں جیسے ہیں جو وہ بتوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
مزارات پر اللہ کے نام کی قربانی


اگر کوئی یہ کہے کہ میں نےاسے اللہ کے لیے قربانی دی ہے اور اس پر اسی کانام لیا ہےتو آپ ان سے دریافت کیجیے کہ اگر تم نے اللہ کے نام پر قربانی دی ہےتو پھر تم نے اپنی قربانی باب مشہد کے پاس لے جاکراور وہاں پر ذبح کرنے کو افضل سمجھ کر قربانی کیوں کی؟کیا اس سے تمہارا مدعا اس کی تعظیم کرنا تھا؟اگر اس کا جواب اثبات میں ہےتو تمہاری یہ قربانی غیراللہ کے نام پر ہوگئی بلکہ تم نے غیراللہ کو،اللہ کا شریک بنادیا۔اگر آپ کا ارادہ اس کی تعظیم کرنا نہیں ہےتو کیا آپ باب مشہد کوگندگی اور نجاست سے آلودہ کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہاں پر لوگ جمع ہونگےاور ان سے گندگی اور نجاست پھیلی گی۔آپ خود جانتے ہیں کہ آپ کا یہ ارادہ ہر گز نہیں بلکہ آپ کی مراد تو پہلے معانی ہیں۔پھر اسی طرح ان کا اس کو پکارنا بھی ہےیہ ایسے امور ہیں جن کے شرک ہونے میں ذرہ بھر شائبہ نہیں۔

فاسقوں کے متعلق دستگیری کا عقیدہ


کچھ لوگ بعض زندہ فاسق وفاجرلوگوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مصائب وشدائد کے موقعہ پروہ ان کی دستگیری کرتے ہیں۔چنانچہ امن وسکون کا زمانہ ہو،یا کرب وبلا کا دور،وہ ان فاسقوں وفاجروں کو پکارتے رہتے ہیں۔حالانکہ وہ افعال شنیعہ اورامور قبیحہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔جہاں اللہ نےان کو حاضر ہونے کاحکم فرمایا ہےوہاں حاضر نہیں ہوتے۔جمعہ اور نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے۔وہ کسی بیمار کی عیادت کرتے ہیں نہ کسی کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں۔اکل حلال کی کبھی تلاش نہیں کرتے۔وہ اپنے آپ کو متوکل کہتے ہیں اور علم غیب کا دعوی کرتے ہیں۔ابلیس ان کے پاس اپنی ایک جماعت بھیجتا ہےجو ان کے دلوں پر پوری طرح چھا جاتے ہیں۔وہ ان کے نعروں کی تصدیق کرتے ہیں اور وہ ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کو رب العالمین کے شریک ٹھہراتے ہیں۔افسوس ان کی عقل کہاں گئی،ان کی شریعت کہاں گئی کہ ان کو اتنا بھی علم نہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ پکارتے ہیں وہ ان کی مثل بندے ہیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
اگر آپ یہ سوال کریں کہ کیا یہ لوگ جو اولیاء کی قبوراور فاسق لوگوں کے متعلق ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔کیا یہ ایسے مشرک ہیں جیسے بتوں کے متعلق عقیدہ رکھنے والے تھے؟
جواب
تو میں کہتا ہوں ہاں۔کیونکہ ان لوگوں نے بھی ایسے کام کیے جو ان لوگوں نےکیے اور یہ امور شرکیہ میں ان کے برابر ہو گئے۔بلکہ ایسا فاسد عقیدہ رکھنے اور ان کے مطیع ہونےاور عبادت کرنے میں ان سے بھی چند قدم آگے نکل گئے،تو ان میں کوئی فرق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:
اگر آپ یہ کہیں کہ اہل قبور کہتے ہیں کہ ہم اللہ کا کوئی شریک نہیں بناتے،ہم تو اولیاء کی قبروں پر جا کر اللہ کی بارگاہ میں دعا اور التجا کرتے ہیں اور اسے شرک سے تعبیر کرنا ناروا ہے؟
جواب:
تو میں کہتا ہوں،وہ منہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔یہ ان کی سراسرجہالت ہے۔درحقیقت انہیں شرک کے مفہوم سے آگاہی نہیں۔کیونکہ اولیاء کی قبورپر جاکر ان کی تعظیم کرنا،وہاں پر دعائیں کرنااور قربانیاں کرنا شرک ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’یعنی اللہ کے لیے قربانی کرواوراس کے ماسواکسی کی قربانی مت کرو‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًاۙ))(الجن:۱۸)
’’تم اللہ کا کسی کو شریک مت ٹھہراو‘‘

اللہ تعالیٰ نےریاکاری کو بھی شرک سے تعبیر فرمایا ہےتو پھر جس کے متعلق ہم نے ذکر کیا ہےاس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہےاور جو کچھ یہ لوگ اپنے اولیاء کی خاطر کرتے ہیں وہی کام مشرک کیا کرتے تھےجس کی وجہ سےان پر مشرک ہونے کی مہر ثبت ہوگئی۔ان کا یہ کہنا کہ ہم اللہ کا کسی کو شریک نہیں بناتے۔اس کی کچھ وقعت نہیں،کیونکہ ان کا فعل ان کے قول کی تکذیب کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:
اگر کوئی یہ کہےکہ وہ تو جاہل ہیں اور ان کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اپنے اس کام کی وجہ سے مشرک ہیں؟
جواب:
تو میں کہتا ہوں فقہاء نےکتب فقہ’’باب الروۃ‘‘میں ذکر کیا ہےکہ جو شخص کلمہ کفر کہتا ہےوہ کافر ہو جاتا ہےخواہ اس کے معانی اوراس کا مفہوم اس کے پیش نظر نہ ہواوریہ اس امر پر دلالت کرتا ہےکہ وہ اسلام کی حقیقت اورتوحید سے آگاہ نہیں۔تو اس صورت میں حقیقتاً کافر ہوئےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی عبادت کو فرض قرار دیا ہےاورحکم دیا ہےکہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو اس کو شریک نہ ٹھہرائیں اور عبادت اللہ کے لیے خالص کریں،
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ))(البینۃ:۵)
’’ان کو تو یہی حکم ملا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں اور یہ عبادت اسی کے لیے خالص ہو،اس میں کسی کو شریک نہ کریں‘‘

جو شخص اللہ تعالیٰ کو رات دن اعلانیہ طور پر اور پوشیدہ طور پر اس سے ڈرتا ہوااوراسکی رحمت کی امید کرتا ہواپکارتا ہے،پھر اس کے ساتھ کسی اور کو بھی پکارتا ہےتووہ اللہ کی عبادت میں شرک کرتا ہےکیونکہ دعا بھی عبادت ہے۔اللہ نے اسے عبادت سے تعبیر کیا ہے۔جیسا کہ فرمایا:

((ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ))(المومن:۶۰)
’’تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا‘‘
اس کے بعد فرمایا:
((اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَؒ))
’’جو لوگ میری عبادت سے انکار کرتے ہیں،وہ عنقریب ذلیل ورسوا ہو کر جہنم میں داخل ہونگے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:
اگر آپ یہ کہیں کہ ایسی صورت میں ان مشرکوں کے خلاف جہاد واجب ہےاوران سے ایسا سلوک کرنا چاہیےجیسا کہ نبی کریمﷺنے مشرکوں کے ساتھ کیا تھا۔
جواب:
میں کہتا ہوں۔اہل علم کی ایک جماعت کا یہی نظریہ ہےوہ یہ کہتے ہیں،سب سے پہلے ان کو توحید کی دعوت دی جائےاوراس بات کی وضاحت کی جائےکہ جن کے متعلق وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مصائب وشدائد کے موقعہ پر وہ ان کے کام آئیں گے اور ان کی دستگیری کریں گے،وہ اللہ کے ہاں ان کےکسی کام نہیں آئیں گےاور وہ ان کی مانند عاجز اوربے اختیار ہیں۔ان کے متعلق یہ اعتقادد رکھناکہ وہ ان کے کام آئیں گے۔شرک ہے۔ایمان کی تکمیل اس وقت ہو گی جب انسان اس قسم کے شرک سے باز آئے اور توبہ کرے اور جو نبی کریمﷺلائے ہیں اس کی پیروی کرے اور اعتقادی اور عملی طور پر ایک اللہ کا اقرار کرے،یہ کام علماء کی ذمہ داری ہےکہ وہ لوگوں کو بتلائیں کہ یہ اعتقادجس کی وجہ سے لوگ قبروں پر جا کر قربانیاں دیتے،منتیں مانگتے اور طواف کرتےہیں ،یہ وہی شرک ہےجو بتوں کے پجاری بتوں کے متعلق عقیدہ رکھتے تھے۔جب علماء اور ائمہ بادشاہوں کے سامنے اس کی وضاحت کریں تو ان پر یہ فرض عائد ہوتا ہےکہ وہ دوردراز علاقوں میں ایسے داعی بھجیں جو خالص توحید کی دعوت دیں۔توجوشخص ان کی دعوت پرتوحید کا اقرار کرے،اس کی جان ومال اور اولادکی حفاظت مسلمانوں پر واجب ہوگی لیکن اگر وہ شرک پر اصرار کرےتو اللہ نے اس کی ہر وہ چیز مسلمانوں کے لیے مباح قرار دی ہےجیسا کہ رسول اللہﷺنےمشرکوں کی اشیاء مباح قرار دی تھیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
اگر کوئی یہ سوال کرےکہ استغاثہ حدیثوں سے ثابت ہےکیونکہ یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہےکہ قیامت کے روزلوگ ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گےتاکہ ان کی سفارش کریں،لیکن وہ اس سے انکار کریں گے،پھر لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گےلیکن یکےبعد دیگرے سب سفارش سے انکار کر دیں گے،سب سے آخر میں لوگ حضرت محمدﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوکرعرض کریں گےتویہ اس امر کی دلیل ہےکہ غیراللہ سے استغاثہ جائز ہے۔
جواب:
یہ دھوکہ اور فریب ہے۔کیونکہ اللہ کی مخلوق سے ایسا استغاثہ جس پر وہ قادر ہےکوئی انکار نہیں کرتا،اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کے قصہ میں جو اسرائیلی اور قبطی کے ساتھ پیش آیا،فرمایا:
((فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهٖ عَلَى الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّهٖ))(القصص:۱۵)
’’جو حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کاآدمی تھا۔اس نے حضرت موسی علیہ السلام سے مدد طلب کی تاکہ اس کا دشمن زیر ہوجائے‘‘

یہاں تو بات صرف اہل قبر سے استغاثہ کی ہے یعنی لوگ اپنے فوت شدگان سےایسےامور کاا مطالبہ کرتے ہیں جن کے کرنے پر وہ قادر نہیں،جن پر صرف اللہ تعالیٰ کا کنڑول ہےاوریہ اسی کی مشیت میں ہیں جیسے کسی مریض کو صحت عنایت کرنا وغیرہ۔اس سے زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہےکہ قبر پرست اور ان کے ہم خیال اپنی اولاد میں ان فوت شدگان کے لیے حصہ مقرر کرتے ہیں۔اگر وہ زندہ رہے اوربعض تو ماں کے پیٹ میں ہی بچے کو خرید لیتے ہیں تاکہ وہ زندہ رہے اور ایسےایسے برے کام کرتے ہیں جن کو دیکھ کر مشرک بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
مجھے کسی آدمی نےخبر دی،جو اہل قبور کے نذرانے وصول کرنے پر متعین تھاکہ کوئی آدمی کچھ سیم وزر لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگایہ فلاں صاحب کی منت ہے اوراس کی نذر ہے۔اس سے اس کی مرادقبر میں جو مدفون تھا،کہنے لگا یہ میری بیٹی کا نصف حق مہر ہےکیونکہ میں نے اس کا نکاح کردیا ہے اورباقی نصف حق مہر کسی اورآدمی کا دے دیا ہےاوراس کی مراد کوئی اورقبرمیں مدفون آدمی تھا،یہ مالی نذر ہے۔
اس کا ایک حصہ صاحب قبر کے لیےاس نے وقف کیا ہوا تھا،جیسا کہ کھیتی میں سے کچھ حصہ مشرک لوگ مقرر کرتے ہیں۔اس کو وہ نذرانہ کہتے ہیں۔چنانچہ اہل یمن اوربعض اورلوگ یہ شرکیہ امور کرتے ہیں۔یہ وہی شے ہےجو بتوں کے پجاری بتوں کےنام پر کرتے تھے اور یہ اللہ کے اس فرمان میں داخل ہے۔
((وَ يَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ))(النحل:۵۶)
’’جو ہم نے لوگوں کو رزق دیا،اس میں ایسے لوگوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں،جن کو وہ جانتے بھی نہیں‘‘

ہاں البتہ قیامت کے روزلوگوں کا انبیاء سے درخواست کرنا کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ بندوں کے حساب و کتاب کا معاملہ وہ جلد ختم کرےتاکہ انہیں موقف کے ہول سے رہائی حاصل ہو،اس کے جائز ہونے کے متعلق کوئی شبہ نہیں۔یعنی اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے لیے بعض کا بعض کو پکارنا جائز ہے
بلکہ رسول اللہﷺحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایاجب وہ عمرہ کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے:
’’لَا تَنْسَنَا یَا اَخیْ فِی دعائکَ‘‘
اے میرے بھائی:اپنے لیے جب دعا کرو تو مجھے بھی یاد رکھنا‘‘

اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہےکہ مومنوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اور وہ یوں کہ:
((رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ))(الحشر:۱۰)
’’ہمارے پروردگار!ہمیں بخشش اور ہمارے ان بھائیوں کو بخشش جو ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گزر گئے ہیں‘‘

حضرت ام سلیم ؓ نے نبی کریمﷺکی خدمت اقدس میں عرض کی کہ اپنے خادم انس رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا فرمائیے۔

جب رسول اللہﷺاس جہان فانی میں تشریف فرماتھےتو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کرنے کی درخواست کرتےتھے۔اس کے جواز میں کوئی شائبہ نہیں۔ہاں البتہ قابل اعتراض اورمشکوک بات یہ ہےکہ قبر پرست مردوں سے طلب کرتے ہیں یازندہ لوگوں سے ایسی درخواستیں کرتے ہیں جن کو اپنے نفع و نقصان کا کوئی اختیار نہیں جو زندگی اور موت کے معاملے میں بے بس ہیں،جو مریض کا مرض دور کرنے سے قاصر ہیں،جو بھاگے ہوئے غلام کو واپس لانے کی ہمت نہیں رکھتے،جو حمل کی حفاظت کرنے،کھیتی کو سرسبز وشاداب کرنے ،مویشیوں کے تھنوں میں وافر دودھ پیدا کرنے اور کسی کو نظر بد لگنے سے محفوظ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ ان تمام امور پر اللہ تعالیٰ کا تصرف ہےاوراس کے سوا ان پر کوئی قادر نہیں۔
ایسے ہی لوگوں سےخطاب کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ نَصْرَكُمْ وَ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ))(الاعراف:۱۹۷)
’’اللہ تعالیٰ کے سواجن کو تم پکارتے ہو،وہ تمہاری مدد کرنے سے عاجز ہیں،وہ تواپنی مدد بھی نہیں کر سکتے‘‘

اسی مقام پر فرمایا:
((اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ))(الاعراف:۱۹۴)
’’اللہ کو چھوڑ کر جن کو تم پکارتے ہو،وہ تم جیسے بندے ہیں(وہ تمہاری مدد کیسے کرسکتے ہیں؟)‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
توایک بےجان سے کیونکرطلب کیا جاسکتا ہے،یاایسے جاندار سے،جس سے غیرذی روح اچھا ہے،کیونکہ وہ کسی بات کا مکلف نہیں،کیسے کچھ طلب کرناجائز ہوسکتا ہے؟یہی تووہ کام ہیں جو مشرک لوگ کیا کرتے تھےجن کا اللہ نے اپنی مقدس کتاب میں ذکر فرمایا ہے:
((وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىِٕنَا۠)) (الانعام:۱۳۶)
’’مشرک لوگوں نے اللہ کی پیدا کردہ کھیتی اورمویشیوں میں سےکچھ اللہ کا حصہ مقرر کیا ہواتھا،اورکچھ ان لوگوں کے لیےجوانہوں نے اللہ کے شریک بنائے ہوئے تھے اور وہ کہتے تھےکہ یہ تواللہ کا حصہ ہے اوریہ ہمارے شرکاء کا ہے‘‘
نیز فرمایا:
((وَ يَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ تَاللّٰهِ لَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ))(النحل:۵۶)
’’ہمارے دیے ہوئے رزق میں سےمشرک لوگ ان لوگوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں جن کو وہ جانتے ہی نہیں۔بخدا قیامت کے روزتم سے اس کی بازپرس ہوگی جو تم نے جھوٹ سے کام لیا‘‘

یہ قبر پرست اورزندہ جاہل لوگوں کے متعلق حسن عقیدت کا اظہار کرنے والے اوران کی گمراہی کو درست تصور کرنے والے بعینہ مشرکوں کی راہ پر چل پڑے۔ان لوگوں نے ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھا جو اللہ کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں اور ان کے لیے اپنے مال میں سے ایک حصہ مقررکیا اوراپنے گھروں سے ان کی قبروں کی زیارت کی غرض سے نکلے اور قبروں کے گرد طواف کیا،قبروں کے پاس عاجزی اور انکساری سے قیام کیا،سختی اور مصیبت کے موقعہ پر ان کو پکارا اوران کا قرب حاصل کرنے کےلیےان کے نام کی قربانی دی۔یہ تمام عبادت کی اقسام ہیں جو میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں۔مجھے اس بات کا علم نہیں آیا کہ ان کو کوئی سجدہ بھی کرتا ہے یا نہیں(آج کل تو یہ بیماری عام ہے،ہر پکی قبر کے سامنے مشرک لوگ اپنی جبین رگڑتے ہیں اور اسے بزرگوں کی تعظیم متصور کرتے ہیں۔مترجم)لیکن ایسا کرنا اس سے کوئی بعید امر نہیں بلکہ مجھے ایک آدمی نے بتلایا،جو قابل اعتماد تھا،کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو باب مشہد کی دہلیز پر گرا ہوا ایک ولی کو سجدہ کر رہا تھا،وہ اسے اسکی تعظیم اور ادب تصور کرتا تھا۔نیز یہ لوگ ان کے نام لے کر قسمیں کھاتے ہیں۔
بلکہ جب کوئی شخص،جس سے قسم لینا مقصود ہو،اللہ کا نام لے کر قسمیں کھائےتو اسے قبول نہیں کرتے،لیکن اگر کسی ولی یا بزرگ کے نام کی قسم اٹھائے تو اسے فورا قبول کر لیتے ہیں اور اسکی تصدیق کرتے ہیں۔بتوں کے پجاری بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۠))(الزمر:۴۵)
’’جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے جب ان کے سامنے اللہ وحدہ لاشریک ذکر کیا جاتا ہےتو ان کے دل تنگ ہوتے ہیں(یعنی ناک بھوں چڑھاتے ہیں)اورجب اللہ کے ماسوا اور لوگوں کا ذکر ہوتا ہےتو وہ خوشی سےپھولے نہیں سماتے‘‘
ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے:
مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللَّہِ اَوْلِیَصْمُتُ
’’جو شخص قسم اٹھانا چاہےتو اللہ کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے‘‘

نبی کریمﷺنےایک آدمی کو لات کی قسم کھاتے ہوئے سنا،آپﷺنے اسے ارشاد فرمایا:
’لا الہ الا اللہ‘‘پڑھو۔
یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہےکہ وہ لات کی قسم کھانے کی وجہ سےمرتد ہو گیاتھا۔اسی لیےآپﷺنے اسےاپنے ایمان کی تجدید کا حکم فرمایا،کیونکہ وہ کلمہ توحید سے کفر کر چکاتھا
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
اگرآپ کہیں کہ وہ کفار کے برابر نہیں کیونکہ ان لوگوں نے’’لا الہ الا اللہ‘‘پڑھا ہےاوررسول اللہﷺکا فرمان ہےکہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہےجب تک وہ’’لا الہ الا اللہ‘‘نہیں پڑھتے جب یہ کلمہ پڑھ لیں تو ان کے جان ومال محفوظ ہو گئے،ہاں البتہ اسلام کا اگر کوئی حق ہےتو اس کی سزا دی جائے گی۔اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو نبی کریمﷺنے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا،تو نے اسے’’لا الہ الا اللہ‘‘پڑھنے کے بعد کیوں قتل کیا‘‘۔۔یہ لوگ نماز پڑھتے ہیں،روزہ رکھتے ہیں،زکوۃ دیتے ہیں اور حج کرتے ہیں لیکن مشرک ایسا کوئی کام نہیں کرتے ،
جواب:
میں کہتا ہوں کہ نبی کریمﷺنے’’الا بحقھا‘‘فرمایا ہے۔حق سے مراد اللہ تعالیٰ کو الوہیت اور عبودیت میں ایک تسلیم کرنا ہےلیکن اہل قبور عبادت میں اللہ کو واحد تسلیم نہیں کرتےبلکہ اس کے ساتھ اورلوگوں کی عبادت کرتے ہیں۔بدیں وجہ کلمہ شہادت کا انہیں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کلمہ شہادت اس شخص کو فائدہ دے گاجواس کے معانی کے مطابق عمل کرے گا۔یہود کے لیے بھی کلمہ سود مند نہ ہوا کیونکہ انہوں نے بعض انبیاء کو ماننے سے انکار کردیا۔اسی طرح جس نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول اللہﷺکے ماسواکسی اورکو رسول تسلیم کیاتو اسے بھی کلمہ شہادت فائدہ نہیں دے گا۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ بنو حنیفہ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘کا اقرار کرتے تھےاورنماز پڑھتے تھےلیکن انہوں نے مسیلمہ کو نبی تسلیم کیاتو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے جنگ کی اور ان کو قید کیا،تو اس آدمی کا کیا حال ہو،جو کسی ولی کو الوہیت میں خاص کرتا ہے اور مشکل امور میں اسے پکارتا ہے۔
یہ دیکھ حضرت علی رضی اللہ عنہ نےعبداللہ بن سبا کے ساتھیوں کوآگ میں جلادیا حالانکہ وہ زبان سے’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘پڑھتے تھے،لیکن انہوں نے حضرت علی رضی اللہ کی شان میں مبالغہ امیزی سے کام لیا اور ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھا جیسا اہل قبور اوران جیسے دیگرلوگوں کا عقیدہ تھا۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ نےان کے لیے ایسی سزا تجویز کی جو ان سے پہلے کسی نافرمان کو نہیں دی گئی،انہوں نے ان لیے گڑھے کھدوائے،پھر ان میں آگ جلائی جب آگ خوب روشن ہوئی تو ان کو گڑھوں میں پھینک دیا اور فرمایا:
’’میں نے جب برائی کو دیکھا تو اس کے مٹانے کے لیےآگ روشن کی اور اپنے غلام قنبر کو بلا کرحکم دیا کہ ان کو اس آگ میں پھینک دے۔
ایک اور شاعر کہتا ہے:
مجھے موت خواہ کہیں آجاتی کوئی پرواہ نہیں تھی لیکن ان گڑھوں میں نہ آتی،جن انہوں نے گڑھوں میں آگ روشن کی تو مجھے موت کا یقین ہو گیا‘‘
یہ واقعہ فتح الباری،دیگر کتب حدیث اورسیرت میں مذکور ہے
اورامت مسلمہ کا اس پر اجماع ہو چکا ہےکہ جو شخص نبی کریمﷺکی بعثت کا منکر ہےوہ کافر ہےاور واجب القتل ہے۔خواہ زبان سے’’لا الہ الا اللہ‘‘پڑھتا ہو،تو جو شخص اللہ کاشریک ٹھہراتا ہے،اس کے متعلق آپ کیا رائے قائم کریں۔
یہ حکم بعثت اور رسالت کے منکر کا ہے،توجو شخص اللہ کی عبادت میں اور اسکی الوہیت میں کسی کو اس کا شریک بناتا ہے،اس کا کیا حال ہوگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
اگر آپ یہ کہیں کہ رسول اللہﷺنے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا ایک آدمی کو قتل کرنا برا محسوس فرمایا کیونکہ اس نے’’لا الہ الا اللہ‘‘کی شہادت دی تھی جیسا کہ حدیث اور سیرت کی کتب میں مذکور ہے۔
جواب:
میں کہتا ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کافر’’لا الہ الا اللہ‘‘پڑھ لے ،اس کی جان ومال مسلمان پر حرام ہوگئی حتی کہ اس کی زبان سےایسی بات سرزد نہ ہوجو اس قول کے خلاف ہو۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نےاس قصہ کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی:
((يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا))(النساء:94)
تو اللہ تعالیٰ نےاس آیت میں حکم فرمایا ہےکہ جو کلمہ توحید پڑھتا ہےاس کی تحقیق کرو،اگر وہ کلمہ پر پختہ نہ رہےتوصرف کلمہ پڑھنے سےاس کے جان ومال محفوظ نہیں ہوں گے۔اسی طرح جو شخص توحید کا اظہار کرتا ہے،اس کے جان ومال کا نقصان کرنے سے رکنا ضروری ہےحتی کہ یہ بات واضح ہو جائےکہ وہ کلمہ کے معانی کی مخالفت کرتا ہے۔جب یہ بات واضح ہوجائےتو یہ کلمہ اس کے کسی کام نہیں آئے گا۔
اسی لیے یہود اور خوارج کو یہ کلمہ سود مند نہ ہوا،حالانکہ وہ ایسی عبادت کرتے تھےکہ ان کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی عبادت کو حقیر تصور کرتے تھےبلکہ رسول اللہﷺنے ان کے قتل کرنے کاحکم فرمایا:
((لئن اد رکتمھم لا قتلنھم قتل عاد))
’’آگر ایسے لوگ میرے زمانے میں ہوئےتو ان کو قوم عاد کی طرح قتل کردوں گا‘‘

یہ اس لیے فرمایا کہ انہوں نے شریعت کے بعض احکام کی خلاف ورزی کی اورآسمان کے نیچے سب سے برے مقتول وہ تھے۔جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہےتو معلوم ہوا کہ مجرد کلمہ توحید وشرک کےثبوت سے مانع نہیں کیونکہ بعض اوقات مشرک ایسا کام کرتا ہےجو اس کلمہ کے خلاف ہوتے ہیں یعنی غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔
سوال:
آگرآپ یہ کہیں کہ جو اہل قبور اوردیگر ایسے لوگ جو زندہ،فاسق،فاجر اور جاہل ہیں،ان کے متعلق حسن عقیدت رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے،ہم تو صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں،ہم ان کی خاطر نماز پڑھتے ہیں،روزہ رکھتے ہیں اور نہ حج کرتے ہیں ہم یہ تمام امور اللہ کے لیے کرتے ہیں؟؟
جواب:
تو میں کہتا ہوں،یہ عبادت کے مفہوم سے عدم واقفیت اورجہالت ہےکیونکہ میں نے جو ذکر کیا ہے،یہ اس پر منحصر نہیں بلکہ اس کی جڑ ،بنیاد اور اعتقاد ہےاوروہ ان کے دل میں قائم ہےبلکہ اس کو عقیدہ کہتے ہیں۔وہ اس کے لیے ایسے کام کرتے ہیں جو آپ نے کبھی سنے تک نہیں،جو اعتقاد سے متفرع ہوتے ہیں۔مثلا ان کا قبروں کے پاس جاکر دعا کرنا اور صاحب قبر کو پکارنا اور اس کا وسیلہ پکڑنا اور ان سے استعانت اور استغاثہ وغیرہ کی درخواست کرنا،ان کے نام کا حلف اورنذرماننا وغیرہ۔علماء نے ذکر کیا ہےکہ جو شخص اپنے لباس میں کفار کی مشابہت اختیار کرتا ہےتووہ کافر ہوجاتا ہے اورجو کلمہ کفر بولتا ہےوہ بھی کافر ہوجاتا ہےتو اس شخص کا کیا حال ہوگا،جو اعتقاداً،عملا اورقولاًکفا رکی مشابہت اختیار کرتا ہے؟؟
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
آگر کوئی یہ سوال کرےکہ قبروں کے پاس نذریں پوری کرنے اور قربانیاں کرنے کے متعلق شریعت کا حکم ہے؟
جواب:
ہر صاحب خرداس بات سے آگاہ ہےکہ انسان کواپنا مال بہت عزیز ہوتا ہے۔وہ اسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہےخواہ کسی غلط اور ناجائز ذریعے سےکیوں نہ ہو۔وہ حصول سیم وزر کی خاطر زمین کا چپہ چپہ چھان مارتا ہےتو کوئی شخص اس وقت تک اپنامال خرچ نہیں کرتا جب تک اسے اس امر کا یقین نہ ہوجائےکہ اس سےاسے نفع حاصل ہوگایا اس سے کسی نقصان کی تلافی ہوگی۔تو قبر کی نذر ماننے والااپنے مال کو قبر پر اس لیے خرچ کرتا ہےتاکہ اس کا کوئی نقصان نہ ہویااسے کچھ نفع حاصل ہواوریہ اعتقاد غلط ہے۔اگر نذر ماننے والے کویہ علم ہو کہ جس اعتقاد سے وہ خرچ کر رہا ہےوہ غلط ہے تو وہ ایک درہم بھی خرچ نہ کرےکیونکہ مال ودولت انسان کو بہت عزیز ہوتا ہے،
جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَ لَا يَسْـَٔلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ۔اِنْ يَّسْـَٔلْكُمُوْهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوْا وَ يُخْرِجْ اَضْغَانَكُمْ))(محمد:)
’’اللہ تم سے تمہارا مال نہیں مانگتااگر وہ تم سے مانگے اور اصرار کرےتوتم بخل سے کام لوگے،اس صورت میں تمہاری بدنیتی اور بخل کو وہ ظاہر کردے گا‘‘
تو جو شخص ایسی نذرمانتا ہے،اسے یہ بتلانا ضروری ہےکہ تم اپنے مال کو ضائع مت کرواس کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگااورنہ اس سے کوئی مصیبت دور ہوگی،چنانچہ رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے:

((ان النذرلا یغنی من القدر شیئا وانما یستخرج من البخل))(مشکوۃ المصابیح،بحوالہ بخاری و مسلم)
’’نذر ماننےسے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا،سوائے اس کے کہ اس طریقے سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے‘‘

ایسی نذر کو رد کرنا واجب ہے۔اسے وصول کرنا حرام ہےکیونکہ اس نے نذر ماننے والے کا مال ناجائز طریقے سے کھا یا،اس نے کسی شے کے عوض سےاس سے حاصل نہیں کیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ))(النساء:۲۹)
’’تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز اور باطل طریقے سے مت کھاؤ‘‘

نیز اسی طرح اس نے ناذر کو شرک پر پختہ کیا اور اس کے گندے عقیدے پر قائم رہنے پر اسکی مدد کی اور اس پر راضی ہوا اور شرک کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ))(النساء:۴۸)
اللہ تعالیٰ مشرک کو ہر گز نہیں بخشے گااورباقی گنہگاروں کو جس کو چاہے گا معاف کردے گا‘‘

قبر پر نذر وصول کرنے والاکاہن کی مٹھائی اور بدعورت کی کمائی کی طرح حرام کھاتا ہے۔علاوہ ازیں یہ ناذر کو دھوکہ دینا ہےاوراسے یقین دلانا ہےکہ ولی اور بزرگ نفع ونقصان پر قادر ہوتا ہے۔
میت پر نذر ونیاز وصول کرنے سے زیادہ براکام اور کونسا ہو سکتا ہےاوراس سے بڑا فریب اور دھوکہ اور کیا ہو سکتا ہےاوربرائی کو نیکی میں تبدیل کرنے کی اس سے زیادہ تعجب انگیز سازش اور کون سی ہو سکتی ہے؟اصنام اور اوثان یعنی بتوں کی نذریں ایسا ہی طریقہ پر ہوا کرتی تھیں۔نذر ماننے والا یہ سمجھتا تھا کہ یہ صنم نفع ونقصان پہنچانے پر قادر ہے۔اس لیے اس کے نام پراپنے مال سے قربانیاں دیا کرتے تھےزمین میں پیداوارمیں ان کا حصہ مقررکرتے تھےاوربتوں کے مجاوروں کے پاس ان کا حصہ لے کرآتے تھےاوروہ ان سے وصول کرتے تھےاوران کے ذہین میں اس بات کو پختہ کرتے تھےکہ ان کا یہ عقیدہ حق وصداقت پر مبنی ہے۔اسی طرح بعض آدمی اپنی قربانیاں لاتےاوربتوں کے پاس ذبح کرتے تھے۔یہی وہ برائیاں تھیں جن کو ختم کرنےاور مٹانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
آگر کوئی یہ کہےکہ بسا اوقات نذر دینے والااورمال خرچ کرنے والااس سے نفع حاصل کرتا ہےیااس کی کوئی تکلیف دور ہو جاتی ہے؟
جواب:
میں کہتا ہوں بتوں کا بھی یہی حال تھابلکہ بتوں سےان کو اس سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا تھا،بعض بتوں کے پیٹ سے آواز آتی تھی اور انسان کے مخفی راز کی وہ خبر دیتے تھے۔اگر یہ دلیل قبروں کی حقانیت ہو سکتی ہےتویہ بتوں کی حقانیت کی دلیل بالااولیٰ ہو سکتی ہے۔درحقیقت یہ اسلام کی محل کی بنیادیں اکھیڑنے اور بتوں کے نجس پودوں کی آبیاری کے مترادف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ابلیس اور اس کے ہمنوا جن وانسان اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اللہ نے ابلیس کو یہ طاقت دے رکھی ہےکہ وہ انسان کے بدن میں داخل ہوکراس کے دل میں وسوسہ پیدا کرے اور اپنی سونڈ اس کے دل کو لقمہ بنائے،اسی طرح وہ بتوں کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے کانوں میں آوازیں ڈالتے ہیں۔یہ سب کچھ قبر پرستوں کے عقائد کو مزید پختہ اور محکم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔اللہ نے ان کو اجازت دے رکھی ہےکہ وہ اپنا آلاو لشکر لے کربنی آدم پر چڑھائی کریں اور اسے گمراہی کے گڑھے میں پھینکیں اور ان کے مال واولاد میں حصہ داربنیں۔
حدیث شریف میں آیا ہے:
کہ شیطان اللہ کی کچھ باتیں چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہےپھر وہ ان باتوں کو کاہنوں کے کانوں میں ڈال دیتا ہےپھریہ لوگ غیب کی خبریں دینے لگتے ہیں اور شیطان نے جو کچھ انہیں بتلایا ہوتا ہےاس کی بھی خبر دیتے ہیں۔اس میں اپنی طرف سےکافی جھوٹی باتیں ملا کرلوگوں کو بتلاتے ہیں پھر جنوں کے شیطان انسانوں کے شیطان کے پاس آتے ہیں جو قبروں پر مجاور بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ اور فلاں ولی نے فلاں کام کیا۔یہ لوگوں کو اس کی تعظیم اور عبادت کی رغبت دیتے ہیں اور اس کی مخالفت اور نافرمانی سے ڈراتے ہیں۔عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شہروں کے حاکم اور ملکوں کے بادشاہوں کو انہوں نے عزت دی ہوتی ہے۔وہ نذریں وصول کرنے کے لیےاپنے کارندے مقرر کرتےہیں۔بعض اوقات ایسے آدمی کومقرر کرتے ہیں جن کے متعلق لوگوں کو حسن ظن ہوتا ہے،جیسے کوئی عالم،وعظ و نصیحت کرنے والا،مفتی ،شیخ یا صوفی ہوتو ایسی صورت میں ان کا فریب اورکامیاب رہتا ہےاوراس دجل وفریب سےابلیس کا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔

سوال:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کام تو عام شہروں میں ہوتا ہے،پہاڑوں اور جنگلوں میں ہوتا ہے،مشرق و مغرب،شمال وجنوب میں ہوتا ہےبلکہ اسلامی ممالک میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں پر پختہ قبریں اور مزارنہ ہوں اورزندہ لوگ ان کے متعلق حسن عقیدت نہ رکھتے ہوں اور ان کی تعظیم نہ کرتے ہوں،لوگ ان کی نذریں مانتے ہیں،ان کا نام لے کر پکارتے ہیں،ان کی قسمیں کھاتے ہیں،ان کی قبروں کے گرد طواف کرتے ہیں،وہاں پر چراغ روشن کرتے ہیں،قبر کو خوشبو لگاتے ہیں اوراس پر غلاف پہناتے ہیں۔وہاں پر جس طرح کی عبادت ممکن ہوتی ہے،کرتے ہیں ان کی تعظیم،خشوع وخضوع اوران کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اوران کے سامنے اپنی حاجات اور ضرورتیں پیش کرتے ہیں،بلکہ مسلمانوں کی مسجدوں میں بھی ان کی قبریں ہوتی ہیں یا ان کے قریب ہوتی ہیں یا وہاں پر کوئی مزار ہوتا ہےکہ نمازی نماز کے اوقات میں قبروں پر جاتے ہیں اور وہاں پر ایسے مشرکانہ کام کرتے ہیں جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے،کسی عاقل کی عقل یہ بات باور نہیں کرسکتی کہ ایک برا کام دنیان کے طول وعرض میں پھیل جائےلیکن علمائے اسلام جن کا عوام میں اچھا خاصا اثرو رسوخ ہے ان کے لبوں پر مہرخاموشی ثبت رہےاوروہ اس برائی کو روکنے میں خاموش رہیں؟
جواب:
میں کہتا ہوں کہ اگر آپ انصاف کے طالب ہیں اور اسلاف کی پیروی کرنا چاہتےاوریہ بات سمجھتے ہیں کہ حق وہی ہےجس پر دلیل قائم ہونہ کہ وہ جس پر عوام نسل در نسل متفق رہے ہوں توآپ جان لیں کہ وہ امور جن کا ہم نے انکار کیا ہےاورجس منار کو ہم گرانا چاہتے ہیں یہ عام لوگوں کے افعال ہیں جن کا اسلام اپنے آباواجداد کی تقلید پر مبنی ہےجوبلادلیل ہے اور وہ اچھے برے کی تمیز کے بغیر ان کی پیروی کرتے ہیں،ان میں ایک پیدا ہوتا ہےوہ اپنے گاؤں اور شہر کے لوگوں کو دیکھتا ہےجواسے بچپن میں یہ تلقین کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو پکارےجن کے متعلق ان کا حسن اعتقاد ہےاوروہ ان کو دیکھتا ہےکہ وہ اس کی نذریں مانتے ہیں،اس کی تعظیم کرتے ہیں،اس کی قبر کی طرف سفر کرتے ہیں،اس کی قبر کی مٹی اپنے جسم پر ملتے ہیں،اس کی قبر کا طواف کرتے ہیں ۔پھر جب وہ جوان ہوتا ہےتواس کے دل میں اس کی عظمت راسخ ہوجاتی ہےاورجن لوگوں کی وہ تعظیم کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک سب سے بڑا ہوتا ہے۔چھوٹا بچہ اسی حالت میں پرورش پاتا ہےاوربوڑھا اسی عقیدےپر فوت ہوجاتا ہےلیکن اسے کوئی برا تصور نہیں کرتا۔
بلکہ آپ دیکھیں گےکہ صاحب علم،جو اپنے علم وفضل کا دعوی کرتا ہےاور قضا،فتوی اور مسند تدریس پر فائز ہےیا گورنری یا تعلیم کے عہدے پر مامور ہےیا حکومت کی باگ دوڑ اسی کے ہاتھ میں ہےجس کی لوگ تعظیم کرتے ہیں اور عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،قبروں پر نذریں اور چڑھاوئےوصول کرتا ہےاوروہاں پر جو قربانیاں دی جاتی ہیں،انھیں کھاتا ہے اور اسے دین اسلام کا حصہ تصور کرتا ہےاورسمجھتا ہےکہ دین کی حقیقت یہی ہے۔حالانکہ جو شخص کتاب وسنت کا علم رکھتا ہےاورصحابہ کے اثر سے واقف ہےاس پر یہ بات مخفی نہیں کہ کسی عالم کا کسی برائی سے سکوت یااس کا کرنا اس برائی کے جواز کی دلیل ہر گز نہیں۔

ہم آپ کے لیے ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ چونگی وصول کرنےکے متعلق سب کو علم ہےکہ یہ کام حرام ہےاس کے باوجود شہروں اور قصبوں میں یہ برائی عام ہوچکی ہےاورلوگ اس سے مانوس ہوچکے ہیں۔اب اسے کوئی برا تصور نہیں کرتا،مکہ معظمہ جوروئے زمیں پر سب مقامات سےافضل ہے۔وہاں پر بھی چونگی وصول کرنے والے بیٹھے ہوتے ہیں جو زائرین حرم سے چونگی وصول کرتے ہیں اور بلد الحرام میں بھی یہ برا کام ہوتا ہے۔حالانکہ وہاں کے باشندوں میں سے کئی جید عالم اور فاضل ہوتے ہیں اور حکام بھی ہوتے ہیں لیکن وہ اس برائی سے نہیں روکتے بلکہ اس معاملہ میں سکوت اور خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔وہ اس کے خلاف کسی قسم کافتوی دینا پسند نہیں کرتے،کیاان کا سکوت اس امر کی دلیل ہوگئی کہ یہ کام جائز ہے؟جسے معمولی سی سمجھ بوجھ ہو گی وہ ایسا ہر گز نہیں کہے گا۔
ہم آپ کے لیے ایک اور مثال بیان کرتے ہیں۔بیت الحرام روئے زمین پر تمام ٹکڑوں سے افضل ہے۔تمام علماء کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے،کسی نے جو جاہل اور گمراہ تھا،بیت الحرام میں چار مصلے بنا دیے ،اس قدر خرابی پیدا ہوئی کہ بس اللہ ہی جانتا ہے۔
مسلمانوں کی عبادت کے لیے خانہ کعبہ کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا(سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے عہد حکومت سے پہلے مذاہب اربعہ کے چار مصلے تھے اور چار امام تھے اور ہر نماز کے لیے یکے بعد دیگرے چار جماعتیں ہواکرتی تھیں،ایک شافعیوں کا امام تھا،دوسرا مالکیوں کا اور تیسرا احناف کا اور چوتھا حنابلہ کا امام تھا)اورایک دین میں مختلف مذاہب معرض وجود میں آئے اور مسلمان مختلف مذاہب میں بٹ گئے۔اس بری رسم سے شیطان بہت خوش ہوا اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگالیکن اس موقعہ پر تمام مسلماناں عالم نے خاموشی اختیار کر لی اور اس برائی کے خلاف کسی نے آواز نہ اٹھائی۔دنیا کے ہر خطے سے علماء و فضلاء نے یہ ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا مگر کسی نے اس کو برا کہنے کی جرت نہ کی،کیا ان کی خاموشی اور سکوت اس کے جواز کی دلیل بن سکتا ہےَجس کو معمولی سا علم ہوگا وہ ایسی بات کو ہر گز تسلیم نہیں کرے گا،اسی طرح ان افعال پر جو اہل قبور کرتے ہیں،ان کا سکوت جواز کی دلیل نہیں ہو سکتا۔
 
Top