• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تطہیر الاعتقاد عن درن الالحاد کا اردو ترجمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔آئینہ توحید۔

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
اگرآپ یہ کہیں کہ اس سے یہ لازم آتا ہےکہ تمام امت گمراہی پر متفق ہوگئی کیونکہ وہ اسے برا کہنے پر خاموش رہے؟
جواب:
اجماع کی حقیقت یہ ہےکہ نبی کریمﷺکے عہد مسعود کے بعد امت محمدیہﷺکے مجتہدوں کا کسی مسئلہ میں متفق ہونا ہے اور مذاہب کے فقہاء ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کو محال تصور کرتے ہیں۔اگرچہ ان کی یہ بات غلط اور باطل ہے اور ایسی بات وہی کہتا ہے جو حقائق سے بے خبر ہوتا ہے،تاہم ان کے خیال کے مطابق ائمہ اربعہ کے زمانے کے بعد کبھی اجماع نہیں ہوگا۔بنا بریں یہ اعتراض وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ بدعت اور قبروں کا فتنہ ائمہ اربعہ کے زمانے میں نہیں تھا۔جیسا کہ عنقریب ہم ثابت کریں گے کیونکہ اب اجماع کو وقوع امر محال ہے،امت محمدیہ آب زمین کے گوشہ گوشہ پھیلی ہوئی ہے اور عَلم اسلام چار دانگ عالم میں لہرا رہا ہے،اب محقق علماء کا کوئی انحصار نہیں اور کوئی شخص ان کے حالات سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔جو شخص زمین کے تمام روئے زمین پر پھیل جانے کے بعد اور مسلمانوں میں کثرت علماء ہونے کے بعد اجماع کا دعوی کرتا ہےتو اس کا دعوی جھوٹا اور باطل ہے۔جیسا کہ ائمہ محققین نے ذکر کیا ہے۔
پھر اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیں کہ انہوں نے اس برائی کا علم ہو نے کے باوجود روکا نہیں بلکہ خاموشی سے کام لیا ہےتو ان کا یہ سکوت اس کے جواز کی دلیل نہیں ہو سکتا کیونکہ شریعت کے قاعدے سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ برائی کو روکنے کے تین طریقے ہیں:
1:انکار بالید:یعنی برائی کا ہاتھ سے روکا جائے،یہ اس طرح ہےکہ برائی کو ہاتھ سے مٹایا جائے۔
2:انکار باللسان:جب ہاتھ سے برائی روکنےکی ہمت نہ ہوتو زبان سے برائی کو روکنے کی کوشش کرے۔
3:انکار بالقلب:جب ہاتھ اور زبان سے برائی کو روکنے کی ہمت نہ ہو تو دل میں ہی اسے برا سمجھے کیونکہ ایک کی نفی دوسرے کی نفی کو مستلزم نہیں۔

اس کی مثال کچھ یوں ہےجیسے کوئی چونگی والے کے پاس سے گزرتا ہےوہ غریبوں کا مال ظلم سے لیتا ہےیہ عالم اس کو ہاتھ وزبان سے روکنے کی ہمت نہیں رکھتا کیونکہ ایسی صورت میں نافرمان لوگ اس کا مذاق اڑائیں گے۔اس صورت میں برائی روکنے کے دو طریقے ختم ہوگئےیعنی ہاتھ اور زبان سے برائی روکنے کی پابندی ختم ہو گئی اب صرف ایک صورت باقی رہ گئی یعنی دل سے اس برائی کو برا تصور کرنا اوریہ ضعیف الایمان ہونے کی نشانی ہےتو ایسا عالم جس کے سامنے ظالم وجابر لوگ برائی کرتے ہوں اور وہ اس کا رد کرنے سے خاموش رہےتو اس کے متعلق یہ حسن ظن ہونا چاہیے کہ ہاتھ وزبان سے برائی کو روکنا اس کے لیے مشکل ہےلیکن دل سے وہ اسے برا سمجھتا ہےمسلمان کے متعلق حسن ظن ہونا چاہیےکیونکہ جب تک ممکن ہو ان کے لیے تاویل کرنا واجب اورضروری ہے۔تو جو لوگ حرم شریف میں داخل ہوتے تھے اور ان شیطانی تعمیرات کو دیکھتے تھے،جنہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کر پارہ پارہ کردیا،مسلمانوں کی نمازوں کو الگ الگ کردیا،تو وہ ان کی برائی کا اظہار کرنے سے قاصر تھےوہ صرف دل سے برا سمجھتے تھےجیسے کوئی شخص قبر پرستوں کے پاس سے گزرتا ہےتو وہاں برائی روکنے کی ہمت نہیں رکھتا اور اسے معذور تصور کیا جاتا ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ائمہ کے متعلق جو یہ استدلال پکڑتے ہیں کہ یہ امور واقع ہوئے ہیں کہیں کسی نے انکار نہیں کیا اور نہ اس سے روکا گیا تو گویا کہ اس پر اجماع ہوگیا یہ غلط اور بے بنیاد ہے۔

غلط ہونے کی دلیل یہ ہےکہ جو وہ استدلال پکڑتے ہیں کہ کسی نے اس کا انکار نہیں کیا،یہ رجماً بالغیب ہےکیونکہ انسان دل سے ایک کام کو برا سمجھتا ہے لیکن ہاتھ وزبان سے اس کا انکار مشکل ہوتا ہے۔آپ اپنے زمانے میں دیکھیں کہ کتنے ایسے امور واقع ہوئے ہیں،جن کو ہاتھ اور زبان سے روکنے کی آپ سکت نہیں رکھتے حالانکہ دل سے آپ اس کو برا سمجھتے ہیں۔جب کوئی جاہل کسی عالم کو دیکھتا ہےکہ وہ اس برائی کے انکار سے خاموش ہےیہ سمجھتا ہےکہ یہ کام جائز ہےحالانکہ ایک عالم شخص بسا اوقات دل میں خاموشی سے اس کی ملامت کرتا ہے اور اس کا غم کرتا ہے۔تو کسی کے سکوت سےایک عالم اور عارف شخص استدلال نہیں پکڑتا،اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ فلاں آدمی نے ایسا کیا اور باقی خاموش رہےتو اجماع ہوگیا یہ استدلال بھی بودا ہے اور نا قابل التفات ہے،اس کی دو وجوہات ہیں:
1:یہ دعوی کے باقی لوگوں کا سکوت اختیار کرنا کسی کے فعل کو پختہ کرتا ہےغلط ہےکیونکہ سکوت کسی امر کے پختہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔
2:ان کا یہ کہنا کہ اجماع ہوچکا ہےکیونکہ اجماع امت محمدیہ کے اتفاق کا نام ہےاور کسی آدمی کا سکوت اختیار کرنا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اس کے موافق ہےیا مخالف نہیں،حتی کہ اپنی زبان سے وہ خود وضاحت کرےکسی بادشاہ کے پاس لوگوں نے اس کے کسی گورنر کی یا عامل کی بہت تعریف کی لیکن ایک شخص خاموش رہا بادشاہ نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں بولتے؟اس نے جواب دیا میں کیسے بولوں میں ان کے مخالف ہوں اگر بات کروں گا تو ان کے خلاف ہی کروں گااس لیے میں خاموش ہوں تو ہر سکوت سے رضا مندی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ان برائیوں کی بنیاد ان لوگوں نے رکھی جو نیزوں اور تلواروں سے لیس تھے اور بندگان خدا کے جان ومال ان کے رحم وکرم پر تھے،ان کی آبرو اور انکی عزت و حرمت کا معاملہ بھی ان کے حکم کے ماتحت تھا،اندریں حالات فرد واحد اس کو روکنے کی ہمت کیسے کر سکتا ہے؟


تو یہ مزارات اورمشاہد جو شرک و الحاد کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں اور اسلام کی محل کو منہدم کرنے اورانکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا سبب ہیں،ان کو تعمیر کرنے والے اکثر بادشاہ،روسا اور گورنر تھےوہ ان کے رشتے دار،قرابت دار ہونے کی وجہ سےایسا کرتے تھےیا وہ ایسا شخص ہوتا تھاجس کے متعلق وہ حسن ظن رکھتےکہ یہ کوئی عالم،فاضل یا کوئی صوفی فقیر ہوگا یا کوئی اور بڑا آدمی ہوگاچنانچہ ان کی جان پہچان والے ان کی قبروں اور مزارات کی غرض سے آتے تھےلیکن ان کی زیارت یوں کرتے تھےجیسے عام مردوں کی قبروں کی زیارت کی جاتی ہےیعنی وہاں جا کر ان کا توسل حاصل نہیں کرتے اور ان کو پکاررتے تھےبلکہ ان کے لیے دعائے استغفار کرتے تھے۔پھر اس قبر کے مردے کو جاننے والے فوت ہو گئےیا ان میں سے اکثر دارِ دنیا سے رخصت ہو کر دار ملک عدم کی طرف چلے گئے تو ان کے بعد میں آنے والے لوگ جب اس قبر کے پاس آتے اور وہاں پر گنبد دیکھا،قبر کے در پر چراغ روشنی کرتے ہوئےدکھائی دیے،قیمتی کپڑے کا خلاف اس پر نظر آیا،اس پر رنگا رنگ کے پردے دکھائی دیے،چاروں طرف سےخوشبوؤں کی مہک سےدماغ معطر ہواتو انہوں نے یہ سمجھاکہ یہ کوئی بزرگ ہستی ہےجو نفع ونقصان پر قادر ہےوہاں پر انہوں نے مجاوروں کو دیکھاجو اس میت کے متعلق یہ جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں کہ اس نے یوں کیا اور یوں کیا،فلاں شخص مصیبت میں گرفتا رتھا،اس کے پاس آکر منت ماننے سےاس کی مصیبت رفع ہوگی اور فلاں شخص کو بڑا نفع پہنچا،حتی کہ ہر باطل بات ہی کو ذہین نشین کراتے ہیں،یہی وجہ ہےکہ:
احادیث میں مذکور ہےجو شخص قبروں پر چراغ جلاتا ہےیا ان پر کتبہ لگاتا ہےیا ان پر کوئی تعمیر کرتا ہےتو اس پر اللہ کی لعنت ہواس سلسلہ میں کافی احادیث مذکور ہیں۔ان امور سے فی نفسہ ممانعت ہے،علاوہ ازیں یہ ایک بہت بڑی خرابی کا ذریعہ ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ رسولﷺکی قبر مبارک پر ایک بہت بڑا گنبد ہےاور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی،اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
در حقیقت یہ حقیقت حال سے ناواقفیت کی دلیل ہےکیونکہ اس گنبد کونبی کریمﷺنے بنوایا نہ آپﷺکے صحابہ،تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی نے بنایا اور نہ کسی عالم یا امام نے اسے بنانے کا فتوی دیا بلکہ یہ گنبد متاخرین بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے 678ہجری میں بنایا۔جس کا نام قلاؤن صالحی تھا۔جسے ملک منصور بھی کہتے ہیں۔اس کا ذکر’’التحقیق النصرۃ بتخصیص معالم دارالہجرۃ‘‘میں موجود ہے،یہ امور جو حکومت کرتی ہےوہ شریعت کی دلیل نہیں بن سکتےکیونکہ متاخرین کا وہ کام جو سلف کی پیروی میں نہ ہو شریعت میں دلیل نہیں بن سکتا یہ آخری بات ہےجو ہم نے ذکر کی ہےجس کی بنا پر لوگ خواہشات کی پیروی کرنے لگے اور آزمائش میں مبتلا ہو گئے اور علماء برائی سے روکنے سے خاموش ہوگئے جو ان کے ذمے واجب تھی اور جس عوام الناس کا رجحان ہوا اسی طرف علماء مائل ہوگئے اور نیکی کو گناہ اور گناہ کو نیکی تصور کرنے لگےاور خاص لوگوں میں سے کوئی انہیں روکنے کی جسارت نہ کر سکا،تو یہ بات ہےجس کی وجہ سے لوگوں کے اعتقادت میں خرابی پیداہوگئی۔
سوال:
بعض اوقات زندوں اور مردوں کے ساتھ کچھ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو لوگوں کو عجیب وغریب کرشمے دکھاتے ہیں۔لوگ انہیں مجذوب کہتے ہیں،جو امور یہ کرتے ہیں،شریعت میں ان کا کیا حکم ہے؟
جواب:
جو لوگ مجذوب کے نام سے مشہور ہیں اور اللہ جل جلالہ کا لفظ اپنی زبان سے نکالتے ہیں،سب شیطان لعین کے ساتھی اوربہت دھوکے باز ہیں،انہوں نے مکروہ وفریب کا لباس اوڑھا ہوا ہےکیونکہ مطلق لفظ اللہ اللہ کوئی کلام نہیں اور نہ اللہ کی توحید ہے
بلکہ اس لفظ کا مذاق اور استہزاء ہےکیونکہ اسے عربی زبان سے خارج کر دیتے ہیں اوراسے بے معنی بنا دیتے ہیں اگر کوئی بڑا آدمی زید کے نام سے موسوم ہو اور لوگ اسے زید زید کہیں تو اس میں اس کی تعظیم اور توقیر نہیں بلکہ یہ تو سراسر اس کی توہین ہےخصوصا جب اس لفظ میں تحریف کرتے ہیں(یعنی لفظ اللہ کے دو حصے کرتے ہیں جیسے الَّا ہو‘‘وہ اسے ذکر الہی شمار کرتے ہیں حالانکہ ایسا ذکر اللہ کے نبیﷺسے ہرگز ثابت نہیں)

پھر غور کیجیے کیا اللہ کا لفظ انفرادی طور پر قرآن پاک اور حدیث شریف میں کہیں مذکور ہےکہ اللہ اللہ پڑھا جائے،کتاب وسنت میں جس ذکر کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس سے مراد اللہ کی تسبیح و تہلیل ہے۔رسول اللہﷺسے کچھ اذکار اور دعائیں منقول ہیں،آپﷺکے صحابہ اورآپ کے آل مطہرات بھی دعائیں کیا کرتے تھےلیکن وہ دعائیں اور اذکار ان فقیروں کی ہاؤ ہو اور شوروغل اور اونچی آواز سے مختلف تھے۔ان کی دعائیں وہ ہوتی تھیں جن کا اللہ نے ذکر کیا ہےاورجو رسول اللہﷺنے خود پڑھ کر امت کو بتلائی ہیں،ان لوگوں نے مسنون دعاؤں کوترک کرکےغیرمسنون دعاؤں کو رائج کیا اور لوگوں کو دوردراز کی گمراہی میں پھینک دیا،پھر بعض اوقات اللہ کے نام کے ساتھ مرودں کے نام بھی ملاتے ہیں۔مثلا ابن علوان،احمد بن حسین،شیخ عبدالقادر وغیرہ کاذکر کرتے ہیں۔بلکہ ان کی انتہاء ہوچکی ہیں جو اہل قبور کی طرف بھاگتے ہیں اور اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔
اللہ نے اپنے رسول اللہﷺکو اور اہل بیت نبوی ودیگر صحابہ کرام کو ان جاہل گمراہ لوگوں سے بچایا کہ وہ جاہل اور گمراہ لوگ اپنے منہ سے ان کا نام لیں تو یہ لوگ شرک وکفر اور جہالت کو یکجا اکٹھا کرتے ہیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سوال:
اگر آپ یہ سوال کریں کہ بعض اوقات یہ لوگ اللہ جل جلالہ کا لفظ بولتے ہیں اور جاہل،باطل پرست لوگ ان کے کئی خوارق بیان کرتے ہیں،مثلا وہ اپنے آپ کو نیزے مارتے ہیں،سانپ،بچھو اورگرگٹ وغیرہ ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں،آپ کو اپنے منہ میں ڈالتے ہیں اور ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں وغیرہ۔
جواب:
یہ سب شیطانی امور ہیں،آپ کو دھوکہ دیا گیا ہےاگر آپ اسے مرودں کی کرامتیں شمار کرتے ہیں یا زندہ لوگوں کی نیکی تصور کرتے ہیں تو یہ آپ کو غلطی لگی ہےکیونکہ جب آپ نے اس گمراہ شخص کواس کا نام لے کر پکارا ہےاوراس کا اللہ کا حکم اور مخلوق میں شریک کیا ہے،توآپ کو یہ دھوکہ دیا گیا ہےکہ آپ ان مردوں کو اللہ کا شریک سمجھتے ہیں؟اگرآپ ایسا سمجھتے ہیں تو آپ نے بہت براکام کیا اور ان مُردوں کو بھی مشرک بنادیا اور ان کو معاذاللہ دائرہ اسلام سے خارج کردیااوردین سےباہر پھینک دیاکیونکہ آپ نے ان کواللہ کے شریک بنا دیا اور اس پر راضی اور خوش ہیں۔
آپ نے یہ تصور کیا کہ یہ کرامتیں ان گمراہ اور مجذوبوں کے تابع ہیں جو خود ضلالت اورذلت کے سمندر میں غرق ہیں،جو اللہ کو بھول کر بھی سجدہ نہیں کرتے،جب اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ساتھ اور لوگوں کو بھی یاد کرتے اور پکارتے ہیں،اگرآپ ایسا تصور کرتے ہیں تو آپ نے مشرکوں،کافروں اور مجذوب لوگوں کے لیے کرامتیں ثابت کر دیں۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے اصول اور قواعد وضوابط کو ملیا میٹ کردیا اور دین مبین اور شرع متین کو مٹانے کی کوشش کی۔
جب ان دونوں امورکے بطلان کا آپ کو علم ہو گیاتوآپ جان لیں کہ یہ تمام شیطانی افعال اور ابلیس کے کام ہیں،شیطان اپنے گمراہ بھائیوں کی مدد کرتے رہتے ہیں،یہ دونوں فریق ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،حدیث شریف میں ذکر ہےکہ شیطان اور جن بعض اوقات سانپوں اور اژدھوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں،یہ امر قطعی طور پر وقوع پذیر ہےتو یہی وہ سانپ ہیں جن کو لوگ ان مجذبوں کے ہاتھ میں دیکھتے ہیں۔

بعض اوقات ان میں جادو کا بھی اثر ہوتا ہےاس کی کئی اقسام ہیں،اس کا سیکھنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ کفر کرنا اور اللہ کی قابل احترام اشیاء کی بے حرمتی کرنااس کا سب سے بڑا دروازہ ہے۔مجذبوں سے ایسے امور کا سرزد ہوناآپ کو حیرت میں نہ ڈال دےاورآپ کو دھوکہ نہ ہوجائے۔ان امور کولوگ خوارق کہتے ہیں۔کیونکہ ان امور میں جادو کا اثربہت جلدی ہوتا ہے،اسی طرح وہ لوگ جو انسان کی آنکھوں پراثر ڈالتے ہیں،چنانچہ فرعون کے جادوگروں نے میدان سانپوں سے بھر دیا تھا حتی کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے دل میں خوفزدہ ہوئےتو اللہ نے بتلایا یہ سحر عظیم ہےاورسب جادو کی کاروائی ہے۔
جادو کے ذریعےاس سے بھی بڑے بڑے امور کاظہور ہوتا ہے،چنانچہ ابن بطوطہ وغیرہ مورخین جو ہندوستان میں آئے تھے،بیان کیا ہےکہ انہوں نے وہاں ایسی قوم دیکھی جو جلتی آگ میں کپڑوں سمیت کود پڑتے تھے،جب باہر نکلتے تو بدن کو تو کجاان کے کپڑوں کو بھی آگ نہ جلاتی تھی۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہےکہ ایک آدمی نےکسی انسان کو دیکھاجو بادشاہ کے پاس اپنے دونوں بیٹے لے کر گیاوہاں جا کر بادشاہ کے سامنے ان دونوں کو تلوار سے ٹکڑے کردیا۔پھر ان کو مختلف اطراف میں پھینک دیاحتی کے اس کے پاس ان میں ایک ٹکڑا بھی باقی نہ رہا،پھر وہ رونے لگا اور آہ وبکا کرنے لگا پھر تھوڑی دیر کے بعد حاضرین کیا دیکھتے ہیں کہ ایک ایک ٹکڑا آتا ہےاوروہ آکر دوسرے ٹکڑے سے مل جاتا ہےحتی کے وہ دونوں لڑکے مکمل انسان بن کر زندہ ہو گئے۔
یہ واقعہ انہوں نے اپنے سفر نامے میں ذکر کیا ہےانہوں نے تواسے بہت طویل لکھا ہےلیکن میں نے اسے مختصر بیان کیا ہےمیں نے 1136ہجری میں مکہ مکرمہ میں اس کا مطالعہ کیا تھا،مدینہ میں احناف کے مفتی علامہ سید محمد بن اسعد نے مجھے یہ واقعہ تحریر کرایا۔
ابوالفرج اصفہانی کی کتاب امالی میں سند کے ساتھ ایک واقعہ مذکور ہےکہ ایک جادوگر ولید بن عقبہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا،وہ اسے اپنے کرشمے دکھلایا رہا تھا،وہ گائے کے پیٹ میں داخل ہوجاتا اور پھر باہر نکل آتا تھا،حضرت جندب نے جب اسے دیکھا تو انہیں اس کی یہ حرکت بڑی ناگوار گزری،وہ سیدھے گھر گئےوہاں سے تلوار کے کر سیدھے جادوگر کے پاس آئے،وہ گائے کے اندر داخل ہو چکا تھاحضرت جندب رضی اللہ عنہ نےیہ آیت پڑھی:
اَفَتَاتُوْنَ السحر واَنْتُمْ تُبْصِرُون))(الانبیاء:۳)
’’تم جادو کاکام کرتے ہوحالانکہ تم اسے دیکھتے ہوکہ غلط کام ہے‘‘

پھر گائے کے درمیان میں تلوار ماری اور اسے کاٹ دیا اور جادوگر کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیے،لوگ یہ معاملہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئے،ولید نے ان کو قید کردیا اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع دی،جیل کا سپرنٹنڈنٹ ایک عیسائی تھا،جب رات ہوئی تو اس نے حضرت جندب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھےاورجب دن ہوا انہیں دیکھا کہ وہ روزہ رکھے ہوئے تھے،یہ ماجرا دیکھ کر عیسائی کہنے لگا،خدا کی قسم یہ ان میں سے سب سے براآدمی ہے؟جس کا یہ حال ہےکہ رات کو قیام کرتا ہے اوردن کو روزہ رکھتا ہے،نہیں یہ سچے لوگ ہیں۔ان کا مذہب برحق ہے،پھر اس نے جیل کی نگرانی پر کسی اور کو مقرر کیا اور خود کوفہ میں گیا اور وہاں جا کر پوچھنے لگا کہ اس شہر میں سب سے زیادہ نیک اور افضل آدمی کونسا ہے؟لوگوں نے اشعث بن قیس کا نام لیا تو یہ ان کے ہاں مہمان بن کر چلا گیا جب رات ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ سو رہا ہے اور جب صبح ہوئی تو اسے دیکھا کہ وہ ناشتہ کرہا ہے اور روزہ نہیں رکھا وہ وہاں سے چل دیا پھر بازار میں لوگوں سے پوچھا یہاں پر سب سے افضل اورپرہیز گارآدمی کون سا ہے؟لوگوں نے جریر بن عبداللہ کا نام لیا،وہ ان کے پاس پہنچ گیا ،رات کا وقت تھا جب وہاں پہنچا تو وہ سوئے ہوئے تھےپھر جب صبح ہوئی تو انہوں نے ناشتہ منگوایا،وہ قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ میرا رب بھی وہی ہےجو جندب کا رب ہےاورمیرا دین بھی وہی ہےجو جندب کا دین ہےیہ کہہ کر اسلام لے آیا۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن کبری میں اس واقعہ کو بیان کیا ہےلیکن کچھ اختلاف کے ساتھ ہے۔انہوں نے اس کی سند اسود تک بیان کی ہےکہ ولید بن عقبہ عراق کا گورنر تھااس کے سامنے ایک جادوگر جادو کا کھیل دکھلا رہا تھاوہ کسی آدمی کا سر کاٹ کر پھینک دیتا تھاپھر رونے لگتا اور چیختا۔پھراس کا سر واپس آکرجسم سے مل جاتااوروہ انسان بالکل ٹھیک ہوجاتا۔لوگ اس کا تماشہ دیکھ کر عش عش کر اٹھےاوراسے داد دینے لگےکہ یہ مردے کو کیسے زندہ کر لیتا ہے،کسی نیک آدمی نے یہ کاروائی دیکھی تو اسے بری محسوس ہوئی،جب اگلا دن ہوا تو وہ تلوار سونت کر وہاں چلا گیا،وہاں پر اسی طرح جادوگراپنا کرتب اور کرشمہ دکھلا رہا تھا،اس نے تلوار میان سے نکالی اور اس کے سر پر ماری اور کہنے لگا اگر یہ سچا ہےتو اپنی جان کو زندہ کرے،ولید نے جیل کے سپرنٹنڈیٹ کا حکم دیاکہ اسے قید کرےچنانچہ اسے جیل میں بند کردیا گیا۔
سب سے تعجب انگیز وہ واقعہ ہےجو امام بیہقی نےسند کے ساتھ بیان کیا ہےجو بہت طویل واقعہ ہےاس میں یہ ذکر ہے کہ ایک عورت نے ہاروت اور ماروت(دوفرشتوں)سے جادو کا علم سیکھا۔چنانچہ وہ گندم کے دانے لے کر زمین پر پھینک دیتی اوران کو کہتی تم زمین سےاگ آؤ۔چنانچہ وہ اگ آتےپھر کہتی کہ ان پر بالیں بن جائیں چنانچہ ان پر بالیں بن جاتی،پھر کہتی کہ یہ بالیں خشک ہو جائیں چنانچہ ایسا ہی ہو جاتا،پھر کہتی اس کا آٹا بن جائےتو وہ آٹا بن جاتا پھر کہتی کہ اس کی روٹی پک جائےتو روٹی پک جاتی،وہ جو بات کہتی وہ پوری ہو جاتی۔
شیطانی حالات کا کوئی انحصار اور احاطہ نہیں ہو سکتا،ایک مسلمان کے لیے یہی کافی ہےدجال جو شیطانی حالات پیش کرے گاتو مسلمان کو اس موقع پر کتاب وسنت کی پیروی کا حکم اور شیطان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے،ہم جو ذکر کرنا چاہتے تھے کردیا۔
الحمد للہ اولاًوآخر وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآلہ وصحبہ و سلم۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
الحمد للہ علی کل حال
میرے مالک کا کروڑ ہا شکر ہے جس کی توفیق سے میں اس کتاب کی کمپوزنگ کو مکمل کرسکا،۔۔۔اے میرے اللہ!میری اس معمولی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔آمین۔۔۔۔اے میرے اللہ!میں نے یہ کام خالصتا تیری رضا کے لیےکیا ہے’’رب العالمین‘‘میرے اس کام کو شرف قبولیت بخش دے۔آمین
اے میرے اللہ!توحید پر مبنی اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں تاکہ ان گم راہ افراد کو ’’تیری پہچان‘‘حاصل ہو جائے۔
اس کتاب کو ’’ورڈ‘‘ اور پی ڈی ایف میں ھاصل کیجیے۔
https://www.box.com/s/dghizxn4n56nds6gcl20

کلیم بھائی،اس کتاب کو بھی یونی کوڈ کتب کی فہرست میں شامل کر لیں۔۔۔۔جزاک اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
عکرمہ بھائی، اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت میں اس کی بہترین جزا عطا فرمائیں۔ آمین۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
الحمد للہ علی کل حال
میرے مالک کا کروڑ ہا شکر ہے جس کی توفیق سے میں اس کتاب کی کمپوزنگ کو مکمل کرسکا،۔۔۔اے میرے اللہ!میری اس معمولی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔آمین۔۔۔۔اے میرے اللہ!میں نے یہ کام خالصتا تیری رضا کے لیےکیا ہے’’رب العالمین‘‘میرے اس کام کو شرف قبولیت بخش دے۔آمین
اے میرے اللہ!توحید پر مبنی اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں تاکہ ان گم راہ افراد کو ’’تیری پہچان‘‘حاصل ہو جائے۔
اس کتاب کو ’’ورڈ‘‘ اور پی ڈی ایف میں ھاصل کیجیے۔
https://www.box.com/s/dghizxn4n56nds6gcl20

کلیم بھائی،اس کتاب کو بھی یونی کوڈ کتب کی فہرست میں شامل کر لیں۔۔۔۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو قبول کرے اور آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
میرے بھائی یہ کتاب میں نے الموحدین ویب سائٹ پر بھی دیکھی ہے جس کو انہوں نے اس نام سے شائع کیا ہے یہ کتاب ان پیج اور پی ڈی ایف فارمیٹ میں ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
لادین معاشرے میں عقیدہ توحید کی پہچان مصنف:محمد بن اسماعیل بن صلاح الامیر الصنعانی حفظہ اللہ۔ مترجم:ابو جنید حفظہ اللہ
کتاب کا لنک :
پی ڈی ایف

ان پیج
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
Top