• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف علم القراء ات… اَہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہی وجہ ہے کہ عام طور پر امام سیوطی رحمہ اللہ کے حوالے سے دعوی کیاجاتا ہے کہ وہ حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کو متشابہات میں سے کہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی شرح موطا میں جہاں اس حدیث کو اپنے ہاں حل نہ ہونے کی وجہ سے متشابہ کہا ہے، وہیں ساتھ ہی ذکر کیا ہے کہ یہ اسی طرح ہے کہ جس طرح قرآن کریم کی کئی آیات متشابہات میں سے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام سیوطی رحمہ اللہ اور عام اہل علم کے ہاں متشابہ کا کیا معنی ہوتا ہے؟ اس حوالے سے امام سیوطی رحمہ اللہ نے محکم ومتشابہ کے حوالے سے خود بھی الاتقان فی علوم القرآن میں تفصیلا بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب وسنت میں وارد بعض آیات کا مفہوم بعض اہل علم کی نسبت سے غیر واضح ہوتا ہے تو وہ اسے متشابہ کہہ کر دیگر اہل علم کے لیے موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس کے تشابہ کو حل کردیں۔ متشابہات کا انکار کسی شرعی نص کے صریح انکار مترادف ہے، اس پر ایمان لانا اور تسلیم کرنا مومن کے لیے فرض ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان تمام وضاحتوں سے قطع نظر یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح کے ضمن میں وارد جمیع اَقوال میں اختلاف تضاد نہیں اور تمام مختلف اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کو سات متنوع اندازوں میں پڑھنا ثابت ہے، اختلاف صرف اس میں ہے کہ سبعہ اَسالیب کونسے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ہم ان مختلف اَقوال میں موجود اختلاف کا تو انکار نہیں کرتے لیکن یہ بات پرزور انداز میں کہتے ہیں کہ تمام گروہوں کے اقوال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی ایک سے زائد قراء ات ہیں، جن کے مطابق قرآن کو پڑھنا صحیح ہے۔اس سلسلہ میں زیادہ پریشان کن اختلاف یہ نظر آتا ہے کہ’سبعۃ أحرف ‘ کا اختلاف عرضہ اخیرہ میں ختم ہوگیا تھا یا آج بھی باقی ہے؟ نیز موجودہ قراء ات ایک حرف قریش کا حاصل ہیں یاجمیع ’سبعۃ أحرف‘ پر مشتمل ہیں؟ ان دونوں مباحث میں امام ابن جریررحمہ اللہ کا موقف انفرادیت کا حامل ہے، لیکن اس کے باوجود موجودہ قراء ات سبعہ و عشرہ کی حجیت پرامام ابن جریررحمہ اللہ سمیت جمیع اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں رشد ’قراء ات نمبر‘حصہ اوّل میں مطبوع مضمون ’’قرآن کے سات حروف‘‘ از مولانامحمد تقی عثمانی﷾کی آخری سطور کو یہاںمکرراً ذکر کردیں، کیونکہ مولانا نے اپنے مضمون میں امام ابن جریررحمہ اللہ اور عام اہل علم کے مابین موجود اختلافی مباحث کو ہی موضوع ِبحث بنایا تھا۔ مضمون کے اختتام پر اِس ساری بحث کا نچوڑ وہ ان الفاظ سے پیش فرماتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’آخر میں ایک بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کردینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی مذکورہ بحث کو پڑھنے والا سرسری طور پر اس شبہ میں مبتلا ہوسکتاہے کہ قرآن کریم جیسی بنیادی کتاب کے بارے میں جو حفاظت ِ خداوندی کے تحت آج تک بغیرکسی ادنیٰ تغیر کے محفوظ چلی آرہی ہے مسلمانوں میں اتنازبردست اختلاف آراء کیسے پیدا ہوگیا؟
لیکن ’سبعۃ أحرف‘ کی بحث میں جو اقوال ہم نے پیچھے نقل کئے ہیں اگر ان کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو اس شبہ کا جواب بہ آسانی معلوم ہوجاتا ہے۔ جوشخص بھی اس اختلاف آراء کی حقیقت پر غور کرے گا اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کاہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اوراس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کاکوئی ادنیٰ اثربھی مرتب نہیں ہوتا، کیونکہ اس بات پر دلالت کابلا استثناء اتفاق ہے کہ قرآن کریم جس شکل میں آج ہمارے پاس موجود ہے وہ تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے، ۱س میں کوئی ادنیٰ سا بھی تغیر نہیں ہوا، اور اس بات پر بھی تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اُن میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے۔ اس بات پر بھی پوری اُمت کااجماع ہے کہ متواتر قراء توں کے علاوہ جو شاذ قراء تیں مروی ہیں، انہیں قرآن کریم کاجزء قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ ’عرضۂ اخیرہ‘ یا اس سے پہلے جو قراء تیں منسوخ کردی گئیں، وہ خود آنحضرتﷺکے ارشاد کے بموجب قرآن کا جزء نہیں رہیں۔ یہ بات بھی سب کے نزدیک ہرشک و شبہ سے بالاتر ہے کہ قرآن کے سات حروف میں جو اختلاف تھا وہ صرف لفظی تھا، مفہوم کے اعتبار سے تمام حروف بالکل متحد تھے، لہٰذا اگر کسی شخص نے قرآن کریم صرف ایک قراء ت یا حرف کے مطابق پڑھا ہو تو اسے قرآنی مضامین حاصل ہوجائیں گے اور قرآن کی ہدایات حاصل کرنے کے لیے اسے کسی دوسرے حرف کو معلوم کرنے کی احتیاج نہیں ہوگی۔اس میں بھی کوئی ادنیٰ اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عثمان﷜نے جو مصاحف تیارکرائے وہ کامل احتیاط، سینکڑوں صحابہ کرامؓ کی گواہی اور پوری اُمت مسلمہ کی تصدیق کے ساتھ تیار ہوئے تھے اور ان میں قرآن کریم ٹھیک اس طرح لکھ دیا گیا تھاجس طرح وہ رسول اللہﷺپرنازل ہوا اور اس میں کسی ایک متنفس کوبھی اختلاف نہیں ہوا۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ اپنے مصحف کو باقی رکھنے پرتو مصر رہے، لیکن مصاحف عثمانی کی کسی بات پر انہوں نے ادنیٰ اختلاف نہیں فرمایا۔)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لہٰذا جس اختلاف کاذکر گذشتہ صفحات میں کیا گیا ہے، وہ صرف اتنی بات میں ہے کہ حدیث میں’سات حروف‘ سے کیامراد تھی؟ اب جتنی متواتر قراء تیں موجود ہیں، وہ ’سات حروف‘ پر مشتمل ہیں یا صرف ایک حرف پر؟ یہ محض ایک علمی نظریاتی اختلاف ہے، جس سے کوئی علمی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے اس سے یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ ان اختلافات کی بناء پر قرآن کریم معاذ اللہ مختلف فیہ ہوگیا ہے۔ اس کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے ایک کتاب کے بارے میں ساری دنیا اس بات پر متفق ہو کہ یہ فلاں مصنف کی لکھی ہوئی ہے، اس مصنف کی طرف اس کی نسبت قابل اعتماد ہے اور خود اُس نے اُسے چھاپ کر تصدیق کردی کہ یہ میری لکھی ہوئی کتاب ہے اور اس نسخے کے مطابق قیامت تک اسے شائع کیا جاسکتا ہے، لیکن بعد میں لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ مصنف نے اپنے مسودے میں طباعت سے قبل کوئی لفظی ترمیم کی تھی یا جیسا شروع میں لکھا تھا ویسا ہی شائع کردیا۔ ظاہر ہے کہ محض اتنے سے نظری اختلاف کی بنا پر وہ روشن حقیقت مختلف فیہ نہیں بن جاتی جس پر سب کا اتفاق ہے، یعنی یہ کہ وہ کتاب اُسی مصنف نے اپنی ذمہ داری پر طبع کی ہے، اُسے اپنی طرف منسوب کیاہے اور قیامت تک اپنی طرف منسوب کرکے شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح جب پوری اُمت اس بات پرمتفق ہے کہ قرآن کریم کو مصاحف عثمانی میں ٹھیک اُسی طرح لکھا گیا ہے جس طرح وہ نازل ہوا تھا اور اس کی تمام متواتر قراء تیں صحیح اورمنزل من اللہ ہیں، تو یہ حقائق اُن نظری اختلافات کی بناء پر مختلف فیہ نہیں بن سکتے، جو ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح میں پیش آئے ہیں۔‘‘ واﷲ سبحانہ تعالٰی أعلم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٣٠: اگر قراء ات قرآنیہ واقعتا ثابت ہیں، تو ’سبعۃ أحرف‘کی مراد میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟
جواب: اس سوال کے پہلو میں ایک خاص ذہنیت کی عکاسی ہورہی ہے، جس کی بنیاد پر یہ شبہ پیدا ہوا۔ شایدسائل یااس قسم کا اعتراض کرنے والے لوگوں کے ذہن میں یہ غلط بنیاد موجود ہے کہ قرآن مجید اوراس کی قراء ات ِمتنوعہ یا علم القراء ات سے متعلق متعددعلوم رسم وفواصل وغیرہ کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ حدیث سے ان کا ثبوت پیش کیاجانا ضروری ہے۔ اسی طرح دوسرا مغالطہ ذہن میں یہ ہے کہ حجیت قراء ات ’حدیث سبعۃ أحرف‘ کے ثبوت اور اس کے مفہوم کی تعیین پر موقوف ہے، چنانچہ اگر ’سبعۃ أحرف‘ کی حدیث ثابت نہ ہو یا ثابت تو ہو، لیکن اس کا مفہوم میں انتہائی اضطرابی کیفیت ہو تو دین میں مسئلہ متنوع قراء ات مشکوک ٹھہرتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے مقدمات علمی اعتبارسے انتہائی سطحی اور قطعی طو رپر غیر صحیح ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے ثبوت کے لیے حدیث یا رواۃ حدیث سے قراء ات کا ثابت ہونا ضروری نہیں، بلکہ امر واقعہ میں ایسا ہوا ہی نہیں۔ قرآن مجید کی روایت ہم تک محمدرسول اللہﷺکے واسطے سے اسی طرح سے پہنچی ہے، جیسے سنت کی روایت کا ثبوت آپﷺسے ہوا۔ جس طرح حدیث اپنے ثبوت میں قرآن مجید کی محتاج نہیں ہے، عین اسی طرح قرآن مجید اپنے ثبوت میں حدیث کا محتاج نہیں ہے۔ صحابہ کے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے کسی بھی بات کو بطور قرآن یا بطور حدیث ماننے کے لیے جو بات ضروری ہے وہ محض اتنی ہے کہ اس کی روایت جس ذریعہ ہو، وہ محفوظ اور ایسا ہو کہ اس کے اوپر اعتماد کیا جاسکے۔اگرقرآن کریم کی روایت اور اس کے متنوع لہجے محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں اور اس پر ہمارا اعتماد واطمینان ہے تو اس کے بعد کوئی معنی نہیں رہتا کہ ہم اس بات کے ثبوت کے لیے کسی بھی حدیث کا حوالہ مانگیں، مثلاً اگر ہم اس بات کے حوالے سے یہ مقدمہ مان لیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن مجید کی تمام آیات اور سورتوں کو احادیث کی روشنی میں ثابت کیا جائے، حالانکہ مکمل قرآن کریم چھوڑیں، کوئی ایک چھوٹی سی سورت کو بھی مکمل طور پر حدیث سے ثابت کرنا شائد مشکل ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا بہت سارا حصہ مثلا ۹۹فیصد کو کسی حدیث سے ثابت کرناممکن نہیں۔ سورہ فاتحہ مکمل کی مکمل ابتداء سے لے کر آخر تک کسی حدیث میں مکمل طور پر نہیں آئی۔ اسی طرح سورۃ بقرہ کی تمام آیات اورسورۃ بقرہ شروع لے کر آخر تک کسی حدیث میں نہیں آئی اور ہم ان آیات اور ان سورتوں کو، جو قرآن مجید میں شامل ہیں، اہل قرآن یعنی قراء کرام کی نقل پر اعتماد کرکے مانتے ہیں۔ قرآن مجید کے کسی بھی اختلاف کو، برابر ہے قراء ت عاصم ہو یا دیگر قراء ات، ان کو ان کی اپنی اسانید ورجال کی بنیاد پر مانا جائے گا، ناکہ سنت کی روایات واسانید سے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مزید برآں مذکورہ سوال کے حوالے سے اگر ہم بالفرض تسلیم کر بھی لیں کہ ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں بہت اختلاف ہے، تو اس کے جواب کے حوالے سے رشد قراء ات نمبر حصہ اول میں ہم بحث کرچکے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح میں کثرت اقوال کا اگر سبب معلوم ہو جائے، تو اس اختلاف سے وحشت نہیں ہوگی۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف بنیادی طور پر مسئلہ اختیارات یا مسئلہ خلط قراء ات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ جو لوگ اس حوالے سے ’اختیارات‘ کے مابعد نوعیت کو سامنے رکھ کر اس معاملے کی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سارا اختلاف ان کے مابین ہے، ورنہ جن کی نظر اختلاف کے اس پس منظر کی طرف ہے، انہیں اس سلسلہ میں کبھی کوئی توحش اور تذبذب نہیں ہوا کہ اختلاف قراء ات سے کیا مراد ہے اور ان کے نزول کا پس منظر کیا ہے۔
اسی لیے قراء ات میں ’سبعۃ أحرف‘ کے مفہوم کے حوالے سے علماء میں جو اختلاف پایا جاتاہے، اس میں یہ چیز قطعی طور پر اچنبھے کا باعث نہیں ہونی چاہئے کہ اس بارے میں ۳۵ یا ۴۰ اقوال موجود ہیں، اس لیے کہ بعض ائمہ نے وضاحت کی ہے کہ یہ چالیس اقوال چالیس افراد کے نہیں ہیں، بلکہ یہ بعض افراد کے اس مسئلے کے بارے میں ممکنہ احتمالات کا اظہار ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ایک آدمی سے دس دس احتمالات مروی ہوں۔ پھر مزید برآں یہ پہلو انتہائی قابل نوٹ ہے کہ تمام لوگ جو ان اقوال کے قائلین ہیں، ان کے مابین اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ سب تنوعِ قراء ات کے قائل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ سوال کے جواب میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اختلاف اگر چالیس کے بجائے اَسّی ۸۰ اقوال کی صورت میں بھی موجود ہوتا توبھی یہ کہنا ممکن تھا کہ ان اَسّی کے اَسّی اقوال میں قدر مشترک یہ ہے کہ دین میں تعدد قراء ات کا مسئلہ حتمی طور پر موجود ہے اور آج بھی باقی ہے، چنانچہ’ تعدد قراء ات‘ کے سلسلہ میں پچھلی چودہ صدیوں میں گذر جانے والے تمام اہل علم متفق ہیں، اختلاف صرف ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح کے بارے میں ہے، جس کا ثبوت قراء ات سے تعلق بھی اضافی نوعیت کاہے، کیونکہ ثبوت ِقراء ات حدیث ’سبعۃ أحرف‘پر موقوف نہیں، بلکہ بے شمار ایسی روایات ہیں جن میں حدیث ’سبعۃ أحرف‘ سے قطع نظر متنوع قراء ات کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں ثبوتِ قراء ات کے لیے محض وہ قطعی الثبوت اسانید ہی کافی ہیں، جن پر’حجیت قراء ات ‘کا اصلی دار ومدار ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٣١:روایت حفص ساری دنیا میں متداول ہے، باقی روایات اس قدر کیوں نہیں پھیلیں؟ نیز بتائیے کہ کسی شے کی بطورِ دین اُمت میں شہرت اور قبولیت اس شے کے ثبوت وعلمیت کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں؟
جواب: قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے اتنی بات ہی کافی ہے کہ جن اَسانید کے ذریعے یاجس ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، وہ ذریعہ قطعی ہے۔ اسی طرح اس کے ناقلین کی لا تعداد کثرت اور رواۃ کی عدالت وثقاہت اس قدر معیاری ہے کہ روایت میں جھوٹ کااِمکان بالکل ختم ہوجاتا ہے، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید کا ثبوت روایات کے بجائے اُمت میں اس کی شہرت اور عوام الناس کے تعامل سے ہوتا ہے، جسے وہ اپنے بیانات میں ’تواتر عملی‘ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں امت کے علماء اس سلسلہ میں کوئی معیار کا درجہ نہیں رکھتے۔ ان کے ہاں اس سلسلہ میں اصل شے سوادِ اعظم کا معیار ہے۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی اسانید کے بجائے اپنے حفظ اور اپنی انتشارِ تلاوت کے ذریعہ محفوظ ہوا ہے، چنانچہ دنیا میں روایت حفص کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ یہی روایت اس معیار پر پورا اترتی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ بالفرض اس مقدمہ کو صحیح تسلیم کربھی لیا جائے تو بھی یہ لوگ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ عالم اسلام میں دیگر کئی روایات کو بھی شہرت اور عملی قبولیت حاصل ہوئی ہے، لیکن کنویں کے مینڈک کے مصداق وہ یہی چاہتے ہیں کہ اپنے ہاں رائج لہجے ہی کو قرآن قرار دے کر باقی امت کے معاملہ میں تنگ نظری اختیار کرتے ہوئے کہہ دیں کہ قرآن صرف وہی ہے جو ہم پڑھ رہے، جبکہ امت کے باقی کروڑوں لوگ جس شے کو بطور قرآن پڑھ رہے ہیں وہ قرآن کریم نہیں، بلکہ فتنہ عجم کی باقیات ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس نظریہ میں کئی قسم کی سطحی اور عامیانہ باتیں موجود ہیں، مثلا یہ کہنا کہ قرآن کے ثبوت میں اصل معیار اہل علم اور قراء حضرات نہیں،بلکہ عوام الناس کا جاہلانہ تعامل ہے۔ معلوم نہیں کہ عوام الناس میں کسی شے کا بطور دین رائج ہوجانا دین جاننے وثابت ہونے کا کونسا معیار ہے؟ اس طرح سے تو تمام بدعات وخرافات اور ہماری معاشرتی غلط رسوم ورواج کو بھی دین قرار دینا پڑے گا۔ اگرجواب دیا جائے کہ تعامل یا نام نہاد تواتر عملی سے ہماری مراد اہل علم کا تعامل اور ان کا کسی شے کو بطور دین قبول کرنا ہے، تو اہل علم تو چودہ صدیوں سے بلا کسی ایک عالم کے استثناء کے تنوع قراء ات کے صراحتاً قائل ہیں۔ پھر جن عوام کالانعام کے تعامل کو یہ نام نہاد دانشور ثبوت ِدین کا معیار قرار دے رہے ہیں، وہ صرف پاکستان اور ہندوستان کے عوام تو نہیں ہیں، بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو اس دائرے میں شامل ہونا چاہیے۔ عالم اسلام کے مسلمان تو ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں روایت حفص کے علاوہ دیگر قراء ات کی بطور قرآن تلاوت کر رہے ہیں۔ صرف ایک روایت ورش براعظم افریقہ کے جمیع ممالک میں اُن کے اتفاقی تعامل سے بطور قرآن رائج ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تعامل کے سلسلہ میں اگر امت تین چار تعاملوں میں بٹی ہو تو پھر صحیح تعامل کا تعین کیسے ہوگا؟ اس کا جواب ان دانشوروں کے ہاں بھی اگرچہ یہی ہے کہ یہ فیصلہ اہل علم کریں گے، تو اہل علم تو بلا اختلاف پچھلے سینکڑوں سالوں سے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں کہ تعدد قراء ات کا مسئلہ دین میں موجود ہے اور آج تک باقی ہے، تو پھر یہ لوگ اس بنیاد پر روایت حفص کے علاوہ دیگر مروجہ قراء ات کیوں نہیں مانتے۔ ہمیں کسی ایک فرد کا نام بتایا جائے،جو متنوع قراء ات کے سلسلہ میں اختلاف رائے رکھتا ہو۔ البتہ اگر تعامل ِ امت کے سلسلہ میں فقہاء کرام ومفتیان عظام میں کسی دیگر شرعی مسئلہ کے حوالے سے اختلاف ہوجائے تو پھر ان کے مابین ترجیح قائم کرنے کا طریقہ کتاب وسنت نے یوں واضح فرما دیا ہے:
(١) ’’وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیئٍ فَحُکْمُہٗ إِلَی اللّٰہ‘‘ (الشوری:۱۰)
(٢) ’’ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ‘‘ (النساء:۵۹)
 
Top