• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف علم القراء ات… اَہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
گویا اس قسم کے اختلاف کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ جس طرف دلیل قوی ہوگی، اسی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ البتہ یاد رہے کہ قراء ات کے ضمن میں تو ایسا اختلاف پیش کرناچونکہ ممکن نہیں، اس لیے یہ رویہ دیگر اختلافی امور کے بارے میں اختیار کیا جائے ہے۔
بہرحال اس حقیقت کے بیان کے ساتھ کہ امت میں روایت حفص کے علاوہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری بھی بطور تعامل کے رائج ہیں اور سب سے زیادہ انتشار روایت حفص اور روایت ورش کو حاصل ہے، جبکہ روایت قالون آٹھ دس ممالک میں اور روایت دوری صومالیہ، سوڈان اور مصر وغیرہ میں رائج ہے، اب ہم بحث کرتے ہیں سوال مذکور کے جواب پر۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ روایت حفص کو زیادہ شہرت کیوں ملی، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں روایت ورش کو بھی تقریبا روایت حفص جتنی شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ ان چار روایات کی عوامی شہرت کے اسباب کیا ہیں اور ان کے بالمقابل باقی سولہ متواتر روایات زیادہ مشہورکیوں نہیں ہوئیں؟ اس کا جواب تاریخی اتار چڑھاؤ سے متعلق ہے، ورنہ بطور دین تو ’حروف سبعہ‘ اور ان کی جمیع ترمنقولات (قراء ات وروایات) کے مابین کوئی فرق نہیں۔ جو وجہ بظاہر ان چار روایات کے انتشار کی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی ہجری سے فقہی تقلید کے آغاز کی وجہ سے عالم اسلام نے مختلف فقہوں سے جامد نسبت اختیار کر لی تھی۔ شروع میں بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے دسیوں آئمہ تھے جن سے عوامی عقیدت نے تقلید کا روپ دھار لیا تھا، جن میں امام ابو ثوررحمہ اللہ، امام ابن ابی لیلی رحمہ اللہ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابرین شامل ہیں۔ یہی وجہ کہ فقہ مقارن کی معروف کتب مثلا بدایۃ المجتہد وغیرہ میں جب متعدد مسائل میں فقہی مسالک کا ذکر ہوتا ہے تو آئمہ اربعہ کے علاوہ ان دیگر معروف شخصیات کے نام بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تاریخ بتاتی ہے کہ بعد کے زمانوں میں فقہ آئمہ اربعہ کو دیگر آئمہ فقہاء کی آراء پر متعدد اسباب کی بنا پر عوامی قبولیت زیادہ حاصل ہوگئی، جس کی کوئی دینی یا علمی وجہ نہیں تھی۔ مثلا فقہ حنفی اور فقہ مالکی کو اتفاق سے سیاست کے ایوانوں میں پذیرائی حاصل ہوئی کہ خلافت کے مختلف ادوار میں آنے والے خلفاء عموما مذہب حنفی اور مذہب مالکی سے عقیدت رکھتے تھے اور جیسا کہ ضابطہ معروف ہے کہ النَاس علی دین ملوک ہم تو اسی وجہ سے گذشتہ صدیوں میں انہی دو فقہوں کو زیادہ انتشار حاصل ہوا، جوکہ آج تک برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محققین اہل علم کے موقف کے مطابق فقہ حنفی یا فقہ مالکی کی علمیت اپنی جگہ، لیکن سواد اعظم میں ان کی مقبولیت کی بنیاد پر دیگر فقہوں پر ان کی قطعا کوئی علمی وتحقیقی برتری نہیں۔ واضح رہے کہ اگر کسی شے کی علمیت کے لیے اساس اسی قسم کے تاریخی اتار چڑھاؤ ہی کو تسلیم کرلیا جائے تو اکبر کے الحادی ’دین ِالٰہی‘کے جو اثرات برصغیر پاک وہند کے عوامی دھارے میں آج تک نظر آتے ہیں ان سب کو دین ماننا پڑے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب صورتحال یہ ہے کہ کئی صدیوں سے امت میں چارفقہیں زیادہ معروف ہیں، جن میں فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کا نام سامنے آتا ہے۔ بعض لوگ،جو اوپر ذکر کردہ اس قسم کے حقائق پر نظر نہیں رکھتے، اس بنیاد پر کہ اب امت میں یہی چار فقہیں عوامی طور پر رائج ہیں، سطحی طور پرکہہ دیتے ہیں کہ کسی مسئلہ میں دعوائے اجماع کے لیے صرف ان چارمذاہب فقہ کے اتفاق کو ہی پیش کرنا کافی ہے، حالانکہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ کہنا بھی صحیح ہو گا کہ امت میں عوامی طور پر رائج چار قراء ات میں پیش شدہ اختلافات تو اجماعی ہیں، جبکہ باقی سولہ روایات میں موجود دیگر اختلافات، جن کا علم صرف اہل علم میں موجود ہے، ان کی کوئی علمی حیثیت نہیں۔ یاد رہے کہ کسی مسئلہ میں اجماع یا تعامل امت کے تعین کے بارے میں اصل معیاراہل علم کا اتفاق ہے۔ عوام الناس تو دینی نظریات میں اہل علم کے تابع ہوتے ہیں۔ اس لیے جس طرح یہ دعوی صحیح نہیں کہ مذاہب اربعہ کے اتفاق یا دنیا میں ان کے عملی طور رائج ہونے کا نام تعامل ِامت ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ دنیا میں رائج چار قراء ات ہی صرف تعامل ِامت سے ثابت ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جس طرح تعامل ِامت چار قراء ات کو تو تسلیم کرتا ہے اسی طرح چونکہ اجماع و تعامل کی اصل اساس علماء کا اتفاق ہے، چنانچہ دیگر سولہ روایات بھی تعامل اُمت سے ثابت ہیں۔ یہی معاملہ فقہی مذاہب کا بھی سمجھنا چاہیے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الغرض فقہی اختلافات کے ضمن میں اجماع یا تعامل امت کے سلسلہ میں اس قسم کی آراء کہ مذاہب اَربعہ کے اتفاق کا نام اجماع ہوتا ہے،سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان چار فقہوں سے کس قدر عقیدت پائی جاتی ہے۔ اسی پس منظر میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ چونکہ آج عالم اسلام کے عام ممالک میں دو فقہیں زیادہ رائج ہیں، چنانچہ عالم اسلام کے مشرقی علاقوں میں فقہ حنفی کو اور مغربی ممالک میں فقہ مالکی کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسری فقہ کو حاصل نہیں ہوسکا۔ صورتحال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قراء ات میں استاد چونکہ امام عاصم کوفی رحمہ اللہ ہیں، جن کے شاگرد امام حفص رحمہ اللہ کی روایت مشرقی ممالک میں رائج ہے، اسی لیے عالم اسلام کے مشرقی بلاک میں انہی حفص کی روایت یا بالفاظ دیگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قراء ت زیادہ رائج ہوئی۔ دوسری طرف امام دار الہجرۃ امام مالک مدنی رحمہ اللہ کے تجویدو قراء ات میں استاد امام نافع مدنی رحمہ اللہ ہیں۔ امام نافع رحمہ اللہ نے جو انداز ِ تلاوت آگے نقل کیا ہے، وہ دو روایتوں کے ذریعے امت تک منتقل ہوا ہے: ایک امام ورش رحمہ اللہ کی روایت سے ہم تک پہنچا ہے اور دوسرا امام قالون رحمہ اللہ کی روایت سے۔یہ دونوں حضرات امام مالک رحمہ اللہ کے ساتھیوں میں سے ہیں، تو بالعموم وہ ممالک جو افریقہ یا مغرب کے ممالک کہلاتے ہیں، جن میں اندلس، لیبیا، الجزائر اور مراکش وغیرہ شامل ہیں، ان ملکوں میں چونکہ فقہی طور پر فقہ مالکی کا رواج زیادہ ہے، چنانچہ عموما روایت ورش پڑھی جاتی ہے اور بعض ممالک میں روایت ورش کے ساتھ ساتھ روایت قالون پڑھنے کا بھی اہتمام ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مزید برآں چونکہ یہ ایک الگ واقعاتی صورتحال ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرقی ممالک میں موجود ہے، چنانچہ روایت حفص کو عملاًروایت ورش سے زیادہ قبولیت عامہ حاصل ہوئی، لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں روایت ورش صرف چند علاقوں میں رائج ہے۔ یہ بڑی مغالطہ امیز بات ہے کیونکہ اہل نظر جانتے ہیں کہ عالم اسلام میں فقہ مالکی کو بھی فقہ حنفی کی طرح عروج حاصل ہے اور ان تمام ممالک میں جہاں فقہ مالکی موجود ہے وہاں روایت ورش اور روایت قالون ہی رائج ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ کی امام نافع رحمہ اللہ سے کیسی عقیدت تھی اس کی نوعیت جاننے کے لیے یہ واقعہ سامنے رہنا چاہئے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کسی نے ’بسم اللہ‘ کوجہراً پڑھنے کے بارے میں سوال کیا، تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب تک مدینہ میں یہ موجود ہیں اور ان کا اشارہ امام نافع رحمہ اللہ کی طرف تھا، تب تک قرآن کے مسائل میں میری بجائے ان کی طرف رجوع کیا جائے۔
یہاں بطورِ علم اس بات کو ذکر کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا کہ ’سبعۃ أحرف‘‘ کے ضمن میں جو اختلاف آئمہ قران کی وساطت سے بطریق تواتر امت تک منتقل ہوا ہے، اس میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ آئمہ کی روایات میں باہمی طور پر سب سے زیادہ اختلاف امام ورش رحمہ اللہ اور امام حفص رحمہ اللہ کی روایت میں ہے اور یہی دو روایات عالم اسلام کے سواد اعظم میں رائج ہیں، چنانچہ اختلاف قراء ات کے سلسلہ میں جو لوگ تشویش محسوس کرتے ہیں انہیں دیگر روایات سے قطع نظر اس پہلو کو بھی ضرور مد نظر رکھ لینا چاہیے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٣٢ : اگرتنوع قراء ات سے مراد لغات یا لہجات کا اختلاف ہو توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں صرف اہل عرب کا خیال رکھا گیا ہے، ناکہ اقوام ِعالم کا، حالانکہ قرآن مجید پوری دنیا کے لیے نازل ہوا ہے ؟
جواب: قرآن مجید اور سنت قیامت تک کے لیے تمام آنے والے افرادا ورتمام قسم کی اقوام کے لیے راہنمائی اور رُشد کا ذریعہ ہے، لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ قرآن مجید کے اندر مخصوص طبقات یا مخصوص اقوام کے لیے کوئی خاص ہدایات موجود نہیں ہیں۔ اس حوالے سے قرآن چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اس لیے قرآن مجید میں اگر عربی زبان کے حوالے سے کوئی مشکل کا احساس پایا جائے اور اس مشکل کے اعتبار سے کچھ سہولت دے دی جائے، تو اس حوالے سے خاص اہل عرب کے لیے ہی اس مشقت کا ازالہ کیا جائے گا۔
اسی طرح مختلف قراء ات کا نزول چونکہ مختلف عربی لغات اور عربی لہجات کے پیش نظر ہوا ہے اور یہ عربی لہجات اہل عرب کے اندر ہی بنیادی طور پر بولے جاتے تھے، اہل عجم کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اہل عرب کے اندر ہی یہ مشکل تھی کہ ایک لہجے کا پابند اگر دوسرے لہجے والے کو کیا جاتا، تو اس کے لیے اس لہجے کو اختیار کرنا مشکل سمجھا جاتا تھا، چنانچہ اس چیز کی اہل عرب کے لیے گنجائش دے دی گئی۔ اس پہلو سے قرآن مجیداگرچہ قیامت تک کے لوگوں کے لیے رہنمائی کی بنیاد ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن مجید میں عربیت کے ضمن میں جو مشکلیں ہیں اور ان مشکلوں کے حوالے سے جو رخصتیں دی گئی ہیں، ان کا تعلق صرف اہل عرب سے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٣٣: کیاقرآن میں کوئی ایسا اشارہ ہے جس سے اختلاف قراء ات کاعلم حاصل ہوتا ہو؟
جواب: اس سوال کے جواب سے پہلے اس سلسلہ میں اہل علم کے مابین موجود ایک اور اختلاف کی نشاندہی ضروری ہے۔ علماء میں اس مسئلے میں اختلاف موجود ہے کہ احادیث نبویہ بنیادی طور پر قرآن مجید کے کسی نہ کسی آیت کے ذیل ہی میں داخل ہوتی ہیں یا بطور وحی وہ محض استقلالی حیثیت رکھتی ہیں، جن کا قرآن کی نسبت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بارے میں اہل علم کے دو قول عرصہ قدیم سے چلتے ہیں:
(١) عام طور پر جو قول امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے ، وہ یہ ہے کہ بطور وحی تو حدیث کی حیثیت بھی مثل قرآن استقلالی ہے، البتہ دونوں وحیوں کا باہمی تعلق اجمال وبیان کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور جملہ ہے کہ نَزَلَ القرآنُ جُملۃً حَتّٰی بیَّنَہ الرسولُ یعنی قرآن اجمال کے ساتھ اترا اور حدیث اس کی تبیین کے ساتھ اتری۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول اللہ کے رسولﷺکا ایک تو یہ تھا کہ وحی کی دونوں قسموں کو امت تک پہنچائیں، لیکن اس کے بعد ان تبیین قرآن کے ضمن میں بنیادی کام قرآن مجید پر اضافہ کرنا نہیں تھا، بلکہ محض قرآن مجیدکی تبیین کرناتھا،چنانچہ آپﷺ کا ہر ارشاد قرآن مجید کی کسی نہ کسی آیت کے ذیل ہی کے حوالے سے آپﷺنے توضیحا ارشاد فرمایا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) دوسرے علماء پہلے نظریہ سے اس پہلو سے تو متفق ہیں کہ رسول اللہ کی لائی ہوئی دونوں قسم کی وحی ایک حیثیت رکھتی ہیں، البتہ ان دونوں وحیوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔ ہماری سمجھ یہ ہے کہ ان اہل علم کی نظراس بات پر ہے کہ وحی بصورت قرآن پہنچے یا بصورت حدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی ابدی ہدایت ہیں، چنانچہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ان دونوں وحیوں کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اس قسم کی مباحث سے استخفاف وانکار حدیث کے رستے وا ہوتے ہیں، چنانچہ احادیث میں موجود کوئی چیز قرآن مجید پر بظاہر اضافہ کررہی ہے یا نہیں، ہمارے حق میں وہ اللہ کی ابدی اور ایک جیسے ہدایت ہے۔
اب متقدمین میں امام شافعی رحمہ اللہ کی تعبیرکو لیا جائے یا امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر ائمہ کی تعبیر کو، جو کہ یہ کہتے ہیں کہ ’’ألا إنی أوتیتُ القرآنَ و مثلَہ معہ‘‘ (مسند احمد: ۱۷۲۱۳) کہ میرے لیے قرآن کی مثل ایک مستقل وحی مزید دی گئی ہے، امر واقعہ میں نفس مسئلہ پردونوں سے فرق نہیں پڑتا، لیکن نفس مسئلہ کی حقیقت کے اعتبار سے امام شافعی رحمہ اللہ کی تعبیر چونکہ دیگر اہل علم سے علمی اعتبار سے زیادہ واضح ہے کہ اس میں ایک مزید سوال کا جواب بھی دیا گیاہے کہ محمدرسول اللہﷺ کا وہ حکم جو کہ وحی کی بنیاد پر آپؐ نے قرآن مجید سے مستقلاً ہمیں دیا ہے، اس کا بنیادی طور پر قرآن سے تعلق کیاہے؟ اس حوالے سے ہم اگر امام شافعی رحمہ اللہ کے اس موقف کودیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ احادیث میں اختلاف قراء ات کا جو ذکر آیا ہے، وہ قرآن مجید کی کسی نہ کسی اصولی حکم کے تحت پہلے سے قرآن میں موجود تھا، جسے نبی کریمﷺ نے وحی کی روشنی میں سمجھ کر ہمارے سامنے پیش کردیا، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں’’یُرِیدُ اﷲُ بِکُمُ الیُسْر‘‘ (البقرۃ:۱۸۵) اور ’’وَمَا جَعَلَ عَلَیکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ‘‘ (الحج:۷۸) جیسی آیات کے ضمن میں أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کا کوئی نہ کوئی پیغام موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر٣٤: بعض آئمہ قراء ات پر محدثین کرام نے جرح کی ہے، کیا اس جرح کے باوجود وہ ایک مقدس علم نقل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، جبکہ حدیث کے معاملے میں ان کی شخصیت ثابت نہیں؟
جواب: یہ سوال بنیادی طور پر ایک مغالطے کی وجہ سے پیداہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ،جو علم الحدیث سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں،وہ علم الحدیث کی تحقیق میں جب افراط وتفریط کا شکار ہوتے ہیں توبسا اوقات اس فرق کو بھول جاتے ہیں کہ اہل علم نے مختلف علوم کی روایت اور خود ان علوم کے طریقۂ تحقیق میں فرق رکھاہے، مثلاً روایت ’سنت‘ کی بھی ہوتی ہے، اسرائیلیات کی بھی ہوتی ہے، سیرت وتاریخ کی بھی ہوتی ہے، تفسیر کی بھی ہوتی ہے اور اسی طرح قرآن کریم کی بھی۔ ہرایک فن کے حاملین اور ماہرین بھی مختلف ہیں۔ اگر تفسیر کی تحقیق مقصود ہو تویہ محدثین کے بجائے مفسرین کا موضوع ِبحث ہے اور اس کو اصول ِحدیث کے بجائے فن تفسیر کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ اگر تفسیر ی روایات صحابہ و تابعین کے اقوال پر مشتمل ہوں یا شانِ نزول سے متعلق روایات ہوں اور ان کی تحقیق کا موضوع زیربحث ہو تواس کو اصولِ تفسیر میں طے شدہ تحقیق ِروایت کے اُصولوں پر پرکھا جائے گا۔ یہ مفسرین کرام اور نصاب تفسیر کا موضوع ہے۔ یہی حال تاریخی روایات کے پرکھنے کا ہے کہ اگر تاریخ کی روایت زیر تحقیق ہو تو یہ مورخین کا موضوع ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ’سنت‘ کے پرکھنے کے حوالے سے جو نصاب محدثین کے ہاں اُصول حدیث کے نام سے مدوّن صورت میں موجود ہے، وہ حدیث کو پرکھنے کا نصاب ہے، لیکن اُصول حدیث حدیث کو پرکھنے کے اصول تو ہیں، لیکن ان کے ذریعہ سے تفسیر ،تاریخ ،سیرت ، إسرائیلیات یاقرآن مجیدکو پرکھناغیر علمی طریق کار ہے۔ ان موضوعات پر مفصل بحث ان کے اپنے اپنے نصابات میں موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سردست یہاں قرآن مجید کی روایت کے فرق کے حوالے سے جو سوال کیاگیا ہے، اس کے ضمن میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ قرآن مجید کے طریقۂ روایت کا سنت نبوی کے طریقۂ روایت سے فرق ہے۔ ان دونوں کے طریقہ روایت کا فرق جاننے کے لیے آج کے دور میں محض قرآن مجیدکے طریقۂ حفظ کو ہی اگر دیکھ لیاجائے تو اندازہ ہوجائے کا دونوں میں ’ضبط ِشے‘ کے معیار کا کس قدر فرق ہے۔ چونکہ حدیث تحمل واداء کے ذریعے وجود میں آتی ہے کہ ایک آدمی بیان کرنے والا ہوتاہے، دوسرا آدمی اس کوسن کر اخذ کرتا ہے اور پھر اس کو آگے بیان کرتا ہے، تو روایت تحمل و اَدا کے طریق سے گزر کر سامنے آتی ہے، جبکہ قرآن مجید کے تحمل واداء، جسے اصطلاح قراء میں تلقِّی وتلاوت کہتے ہیں، کا طریقہ حدیث سے انتہائی مختلف ہے۔ حدیث میں چونکہ اصل شے مراد ہے اس لیے اس میں روایت بالمعنی کی گنجائش ہے، لیکن قرآن مجید کے الفاظ وحی ہیں، چنانچہ اس میں روایت بعینہٖ الفاظ کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔ اب دنیا میں روایت باللفظ چونکہ انتہائی مشکل بلکہ ناممکن صورتوں میں سے خیال کی جاتی ہے، چنانچہ مشہور فلسفی وشاعر اقبال کے بقول ان کے بعض فلسفی ساتھیوں نے اسی وجہ سے قرآن کی محفوظ روایت پر شک کیا تھا، لیکن اگر اقبال کے وہ دوست آج کل کے مدرسوں میں شعبہ تحفیظ القرآن اور حلقات تحفیظ کا جائزہ لے لیتے، تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ حفاظت عملی طور پر پچھلی چودہ صدیوں میں کس طرح وجود میں آئی ہے۔
 
Top