• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف قرآن کریم

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
 الفرقان:
فرقان کا کیا معنی ہے ؟ اس کی وضاحت کے لئے یہ آیت پڑھنے کے قابل ہے۔
{اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَان}
اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر، اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتاری جو دن حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن تھا۔
اس آیت میں جنگ کو یوم الفرقان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ جنگ ِ بدر نے حق و باطل اور کفر و اسلام کے درمیان صحیح فیصلہ کردیا تھا۔ مومن کون ہے اور منافق کون؟ یوم فرقان نے بتادیا۔قرآن کوفرقان کہنے کا بھی یہی مطلب ہے: حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب۔ فرقان مصدر ہے۔عربی زبان میں مصدر فُعْلاَن، اکثر اسم فاعل کے معنی دیتا ہے۔ جس سے یہ لفظ بھی مشتق ہیں:
{فَالْفَارِقَاتِ فَرْقاً} (المرسلات)
قسم ہے۔ان چیزوں کی جو حق و باطل میں فیصلہ کرنے والی ہیں۔
اس آیت میں فارق کے معنی: دلائل وبراہین کے ساتھ فیصلہ کن یا ممتاز کردینے والی کتاب۔

{یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إنْ تتقوا اللہَ یجْعل لکم فرقاناً}
ایمان والو! اگر اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے فرقان بنا دے گا۔

یہاں بھی فرقان، فارق کے معنی میں ہے جو اسم فاعل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانو! اگر اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں قوتِ فیصلہ یا قوت ممیّزہ عطا کرے گا۔ اسی معنی میں فرقان کا لفظ قرآن مجید میں متعدد جگہ مستعمل بھی ہوا ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے:

{تَبَارَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہِ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا}
بہت با برکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کی تا کہ وہ جہان والوں کے لیے تنبیہ کرنے والا ہو۔

{وَأَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالإنْجِیْلَ¢ مِنْ قَبْلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَأَنْزَلَ الْفُرْقَان۔۔۔}(آل عمران: ۳۔۴)
اور تورات اور انجیل کو اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا اور فرقان اتارا۔

یہی وجہ ہے کہ فرقان کا لفظ صرف تورات او رقرآن کے لئے استعمال ہوا ہے کیونکہ بنو اسرائیل کے لئے تورات میں قانون تھے۔ اور قرآن میں اس امت کے لئے۔ باقی صحیفے صرف روحانی او راخلاقی احکام پر مشتمل تھے۔ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنا قانون کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے فرقان کا لفظ انہی صحائف کو دیا گیا جو قانون پر مشتمل تھے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ فرقان نام اس لئے ہے کہ قرآن ، فرق فرق سے یعنی الگ الگ نازل ہوا ہے۔اس کا فرقہ یا فرق سے کوئی تعلق نہیں۔ جو ٹکڑے یا حصے کو کہتے ہیں اور جسے یہود تورات کے مختلف اوراق کے لیے استعمال کیا کرتے۔ قرآن مجید نے فرقہ کا لفظ ٹکڑے یا حصہ کے معنی میں استعمال کر دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مصحف:
عرب دنیا میں قرآن کریم کو مصحف کہا جاتا ہے۔ اس کی دو وجہیں بتائی جاتی ہیں:

پہلی وجہ:
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے قرآن کریم کی تدوین کے بعد لوگوں سے فرمایا اس کے لیے کوئی مناسب نام تلاش کرو۔ چنانچہ کسی نے کہاکہ اس کا نام سفر رکھا جائے جو یہود کی مذہبی کتاب کا نام تھا۔یہودی اور عیسائی آج بھی تورات کے اجزاء کو أسفار کہتے ہیں۔ مگر یہ رائے ناپسند کی گئی۔

دوسری وجہ:
ہجرت حبشہ کرنے والے صحابہؓ میں سیدنا ابن مسعودؓ یا سالم مولی ابی حذیفہؓ نے یہ رائے دی کہ اہل حبشہ اپنی مذہبی کتاب کو مصحف کہتے ہیں۔ یہ نام رکھ لیا جائے۔ بقول بعض یہ رائے بہت پسند کی گئی اور قرآن مجید کو مصحف کہا جانے لگا۔

مگر یہ دونوں واقعات درست نہیں۔ اس لئے کہ یہود کی مشابہت سے صحابہ بچے اور حبشہ کے عیسائیوں کی تقلید کر ڈالی؟

علماء کہتے ہیں کہ یہ خالص عربی لفظ ہے۔ عربی زبان میں صحیفہ چند اوراق کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جو کتاب کی شکل میں جمع کر دیا جائے ۔(لسان العرب ۱۲؍۸۸) اور مصحف اسم مفعول ہے۔یہ نام یوں متعارف ہوا کہ قرآن مجید عہدِ رسالت میں تحریری طور پر اجزاء اور اوراق میں تھا۔ خلافت صدیقی میں اسے جب یکجا کیا گیا تو واقعہ کے اعتبار سے اس کا نام مصحف ہی زیادہ موزوں تھا۔ آپﷺ کے عہد میں یہ نام اس لئے نہیں رکھا گیا کہ ابھی تو وہ نازل ہورہا تھا اس لئے نہ مصحف تھا، نہ مرتب تھا اور نہ ہی مرتب ہو سکتا تھا۔ وحی بھی جاری تھی اس لئے مصحف نام خلاف واقعہ ہوتا۔ ہاں قرآن اس وقت صحف (اوراق) میں ضرور تھا۔اس لئے قرآن نے اپنے آپ کو صحف کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔
{کَلَّا إنَّہا تَذْکِرَۃ¢ً فَمَن شَائَ ذَکَرَہُ¢ فِيْ صُحُفِِ مُّکَرَّمَۃٍ¢ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃ¢} (عبس : ۱۱۔۱۴)
ہرگز نہیں! یہ نصیحت ہے جو چاہے یاد رکھے یہ نصیحت۔ ایسے صحف میں ہے، جو بزرگ، بلند اور پاک ہیں۔

اس لئے فقہی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیع مصحف کہنا جائز ہے مگر بیع قرآن کہنا ناجائز۔کیونکہ مصحف ایک بشری عمل ہے اور اس کی کارکردگی ہے جس سے کوئی اگر رزق کماتا ہے تو یہ کسب حلال ہے۔مگر قرآن نہیں۔اسی طرح قرآن عثمان، قرآن علی یا قرآن أُبیَ کہنا بھی درست نہیں ۔ہاں مصحف عثمان ، مصحف علی یا مصحف أُبی کہا جاسکتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
 الکتاب:
قرآن کا یہ چوتھا نام ہے جو اس لئے ہے کہ قرآن کریم صرف زبانی کلام نہیں بلکہ الفاظ وحروف کا لکھا ہوامجموعہ بھی ہے ۔ لوح محفوظ میں بھی مکتوب ہے۔اسی لئے لفظ قرآن میں تلاوت کا مفہوم ملتا ہے اور لفظ کتاب میں قلم سے لکھے ہوئے کا۔ دونوں اعتبار سے یہ نام اسم بامسمی ہے۔ قرآن کی حفاظت بھی انہی دونوں طریقوں سے ہوئی کہ یہ سینوں میں بھی محفوظ ہوااور سفینوں میں بھی ۔ اگر حافظ نہ ہوں تو لکھا ہوا مل جائے گا اور اگر لکھا ہوا نہ ملے تو حفاظ سے اس کا دفاع ہوگا۔اسی معنی میں فرمایا:
{ذَلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}
یہ کتاب ہے جس میں کو ئی شک نہیں۔ متقیوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔

مزیدصفاتی نام:
قرآن مجید کے کچھ اوروصفی نام بھی ہیں جو جابجا اللہ تعالی نے ذکر کئے ہیں ۔جن میں:
ذکر:
قرآن کا ایک وصفی نام ہے۔ جس کا لغوی معنی: ذکر کرنا یابھولی ہوئی چیز کو یاد کرناہے۔قرآن مجید انسان کو زندگی کا بھولا ہو اسبق یاد دلاتا ہے۔ اس لئے یہ ذکر ہے۔اسے بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اس لئے یہ ذکر ہے کیونکہ یہ ایک بار پڑھنے سے یاد نہیں رہتا بلکہ بہت بڑی بھول کا سبب بن سکتا ہے۔نیزگذشتہ اقوام کے انجام کی روشنی میں خیر خواہی اور حکمت پر مبنی نصائح ہیں تاکہ اللہ عزوجل کی رضا اور غضب کا فرق ملحوظ رہے۔
{وَہَذَا ذِکْرٌ مُّبَارَکٌ أنْزَلْنَاہُ أفَأنْتُمْ لَہُ مُنْکِرُوْن}(الانبیاء :۵۰)
اور یہ مبار ک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا۔ کیا تم اس کے منکر بنتے ہو؟

ذکر بمعنی شرف کے بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہے وَإِنَّۂ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم قریش کے لئے باعث شرف بھی ہے۔یہی شرف ہی بہت ہے کہ جس نے اسے مانا اس کا ذکر خیر اس میں ہوگیا اور جس نے مان کر نہ دیا اس کا ذکر شربھی کردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تنزیل:
قرآن کریم کا ایک نام تنزیل بھی ہے جو بتدریج نازل ہونے کو کہتے ہیں۔ اس لئے علماء تفسیر قرآن کی بجائے تنزیل کالفظ زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
{وَإنَّہُ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ}(الشعراء :۱۹۲)
او ر بے شک یہ سب جہانوں کے پرور دگار کا نازل کردہ ہے۔

حدیث:
قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ نے لفظ حدیث استعمال کیا ہے اس لئے کہ اللہ تعالی کی ہم انسانوں سے خیر خواہی پر مبنی گفتگو ہے۔جس میں عقائد کی درستگی اور عمل صحیح کی اٹھاں کی دعوت ہے۔
{اللّٰہُ نَزَّلَ أحْسَنَ الْحَدِیْثِ} (الزمر:۲۳)
اللہ نے بہترین بات اتاری۔

اسے ھدی و بشریٰ بھی کہا گیا ہے۔مراد یہ کہ جو اسے کتاب ہدایت سمجھے وہ اپنی مراد پاکر خوشخبری کا مستحق بنتا ہے ورنہ بدبختی کا۔
{طٰسٓ تِلْکَ آیَاتُ الْقُرْآنِ َوکِتَابٍ مُبِیْنٍ ہُدًی وَ بُشْرَیٰ لِلْمُؤمِنِیْنَ}(النمل :۱۔۲)
طٰس، یہ قرآن مجید کی اور کتاب مبین کی آیات ہیں۔ مومنوں کے لئے باعث ہدایت و خوشخبری ہیں۔

نور:
اس مقدس کتاب کا ایک یہ وصف بھی ہے۔ کتاب منیر بھی اسے فرمایاجو تاریکی میں چراغ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح بصارت کو بصیرت کی نعمت بھی یہ کتاب عطا کرتی ہے۔ ارشادِ باری ہے۔
{وأنزلناإلَیْکُمْ نُوْرًا مُبِیْنًا}(النساء : ۱۷۴)
اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
موعظۃ:
اس صفت سے یوں لگتا ہے جیسے قرآن مجید ہمارے حالات سے بخوبی واقف ہے اور حالات و واقعات کو جس پیرائے میں بیان کرتا ہے وہ ہم پر ہی منطبق ہوتے ہیں۔ یوں اس کی نصیحت دل پر اثر کرتی ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
{یَأیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَائٌ لِّمَافِي الصَّدْوْرِوَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤمِنِیْنَ}(یونس:۵۷)
لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آچکی ہے اور سینوں میں جو تکالیف اوربیماریاں ہیں ان کیلئے شفا بھی اور اہل ایمان کے لئے رحمت بھی۔

موعظۃ یہ بھی کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کے حصول کیلئے توازن بہت ضروری ہے ورنہ انسان بالکل صوفی و تارک الدنیا بن جائے یا بالکل دنیادار ۔ شفاء بھی ہے کہ دل میں بسے آبائی، معاشرتی اور رسمی خیالات وخرافات کو جڑ سے اکھاڑ کر اچھے اور درست عقائد اور اعمال کی طرف قرآن راہنمائی کرتا ہے اورجو ضرررساں ہیں ان سے بچاتا ہے۔

مجید:
بڑی شان والا، وہ اس طرح کہ یہ ساتویں آسمان کے اوپرموجود لوح محفوظ سے آسمان دنیا میں اترا، پھر جبریل امین علیہ السلام اسے لے کر دنیا کے سب سے بڑے ہادی وراہنما کے قلب اطہر پر ، رمضان المبارک کی شب قدر میں ، دنیا کے مرکز مکہ مکرمہ میں ، اس خوش قسمت امت کی راہنمائی کے لئے اتارنے کا آغاز کرگئے۔اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:
{بَلْ ہُوٌَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ }(البروج:۲۱)
نہیں! بلکہ وہ قرآن ہے بڑی شان والا۔

اللہ تعالی نے اسے روح بھی کہا جس سے واقعی قلبی وروحانی حیات ملتی ہے:
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاطمَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ۔۔۔۔۔} (الشوری: ۵۲)
اسی طرح ہم نے آپ ﷺ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا، آپ ﷺ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا؟

اسی طرح قرآن مجید کو کتاب مبارک بابرکت کتاب، الکتاب المبین واضح وظاہر کرنے والی کتاب ، الکتاب الحکیم دانائی والی محکم کتاب جو حاکم بھی ہے اور کتاب عزیز پیاری کتاب بھی کہا گیا ہے۔ دیگر صفات مثلاً بیان، العلم، القصص، الحق، وغیرہ۔بھی ہیں جو کم و بیش ایک سو چالیس مقامات میں بیان ہوئی ہیں۔

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 
Last edited:
Top