• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات--قسط دوم

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات--قسط دوم

حافظ حمزہ مدنی حفظہ اللہ
ماخذ: ماہنامہ رشد: علم قراءت نمبر : حصہ دوم




سوال نمبر20: کیا قراء ات میں ہر ہر حرف کی سندموجود ہے ؟ اور کیا ان کے ثبوت کا ذریعہ قطعی و حتمی ہے؟
جواب: قرآن مجید کی سند ایک ایک آیت کے طور پر یا ایک ایک لفظ کے طور پر یا ایک ایک سورت کے طور پر اس طرح موجود نہیں ہوا کرتی،جس طرح اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور ساری روایات کو ملا کرواقعہ کی تصویر مکمل کی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس سے پہلے ذکر کی جاچکی ہے کہ قرآن مجید ایک نظم میں پرو کر اُمت محمدیہ کو دیا گیاہے، جبکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کو اس شکل میں موصول نہیں ہوئی۔ قرآن مجید کو نظم کے اندر پُرو کر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اُمت کو کرناتھی اور اس تلاوت کو ایک منظم کلام کی صورت دینا ضروری تھا کہ اگر کوئی آدمی آدھ گھنٹہ یاگھنٹہ تلاوت کرنا چاہے تو ایک ترتیب سے پڑھ سکے، جبکہ حدیث میں ایسی کوئی ضرورت موجود نہیں ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے، دوسرا فرق وحی باللفظ اور وحی بالمعنی کا ہے۔

رہا یہ مسئلہ کہ کیا قرآن کے ہر ہر حرف یا ہرہر آیت کی کوئی سند ہے ؟ تو یہ بات پچھلی بات سے واضح ہے کہ اس طرح کرکے قرآن مجید کی سند نہیں ہوا کرتی، لیکن امر واقعہ میں ایک بات موجود ہے کہ کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے علماء کے ہاں دو طریقے معروف ہیں :

۱۔ کسی چیز کو بیان کیا جائے اور اس کی سند پیش کردی جائے، جس سے وہ روایت ثابت ہو۔
۲۔ ایک چیز کو مجموعہ روایات کی روشنی میں دیکھا جائے کہ وہ ثابت ہے یا نہیں ، چاہے کسی ایک روایت یا سند کی رو سے وہ غیر ثابت شدہ ہی کیوں نہ ہو۔

اس بحث کے لیے محدثین کے ہاں تواتر کے اندر ایک بحث موجود ہے، جس کا پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ محدثین قدر مشترک کی بنیاد پر بھی کسی بات کو ثابت کرتے ہیں ، چاہے وہ بات اپنی ذات کے اعتبار سے خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح بسا اوقات ایک روایت اپنی انفرادی روایت کی جہت سے تو ضعیف ہوتی ہے، لیکن اس روایت کا قدر مشترک والا معنی، جب دیگر روایات سے ثابت ہوجاتاہے تو محدثین اس روایت کو ’حسن لغیرہ‘ کہہ کر یااس روایت کو ’سنداً ضعیف و مفہوماً صحیح‘ کہہ کر قبول کرلیتے ہیں ، جیسا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اجتہاد کے حوالے سے معروف روایت، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں قرآن مجید سے فیصلہ کروں گا اور اگر قرآن میں مجھے فیصلہ نہ ملا تو میں سنت سے فیصلہ کروں گا اور اگر سنت میں حل نہ پاؤں گا تو اپنے اجتہاد کے ساتھ دین میں غور کرکے رائے دوں گا… الخ [سنن الترمذي:۱۳۲۷،أبوداود:۳۵۹۲]، کے بارے میں امام ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اگرچہ اپنی سند کے اعتبارسے ثابت نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود چونکہ مسئلہ اجتہاد کے بارے میں دین کے اندر بے شمار دلائل موجود ہیں ، اسی وجہ سے اس حدیث کا خلاصہ دیگر احادیث کی تائید کی وجہ سے ثابت ہے۔ بالکل اسی طرح قرآن مجیدکا ایک ایک حرف اور ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ اس قسم کے تواترسے ثابت ہے۔ جیسے سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘ قراء ات عشرہ کبری کے اَسّی طرق سے ثابت ہے۔ تمام کے تمام طرق میں میں بسم اللہ قدر مشترک کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ یہی حال بعد کی آیات کا ہے۔ الرحمن اور پھر الرحیم اَسّی کے اَسّی طرق میں یوں ہی ثابت ہوا ہے۔ اس طرح سے ایک ایک لفظ، ایک ایک کلمہ کو قدرِمشترک کا تواتر حاصل ہوا ہے اور جن جگہوں پر دو یازائد قراء ات ہیں ،وہاں اسی طرق کو تقسیم کرکے دیکھ لیا جائے۔ اگر دو قراء ات ہیں تو چالیس چالیس کی نسبت سے اسی کوتقسیم کیاجاسکتا ہے اور اگر تین قراء ات ہیں تواَسّی کو۲۶، ۲۶ کی نسبت سے تقریباً تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کاایک ایک حرف اور ایک ایک شوشہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے متواترۃ و ثابت ہے۔

سوال نمبر21: تواتر کی شروط سے کیا مراد ہے اور محدثین اورقراء کے ہاں تواتر میں کیافرق ہے؟ اسی طرح واضح فرمائیے کہ ثبوتِ قرآن کے سلسلہ میں شرطِ تواتر کے حوالے سے قراء اور عام علماء میں کوئی اختلاف ہے؟
جواب: سوال نمبر ۱۸ کے ضمن میں گذر چکا ہے کہ ثبوتِ قراء ات کے لیے کن چیزوں کا ہونا ضروری ہے یا بالفاظ دیگر ثبوتِ قراء ات کا ضابطہ کیا ہے؟اس ضمن میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ تواتر کی تعریف کے ضمن میں آئمہ حدیث و ماہرینِ علم المصطح کے ہاں اِختلاف ہے۔

عام متاخرین اہل علم کے ہاں تواتر چار شروط پر مشتمل مجموعہ کا نام ہے، جوکہ یہ ہیں :

۱۔ مارواہ عَدَدٌ کثیرٌ یا ما رَوَاہُ جماعۃٌ یعنی جسے ایک کثیر تعداد یا بالفاظ دیگر ایک جماعت نقل کرے۔
۲۔ یہ افراد اتنے ہوں کہ اس روایت میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔
۳۔ اس خبر کا ذریعہ حس ہو۔
۴۔ یہ صورت حال جمیع طبقاتِ سند میں موجود رہے ۔

ان چاروں شرائط کو شروطِ تواترکے نام سے بیان کیا جاتاہے۔ ان چاروں شروط کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا خلاصہ یہ سامنے آتا ہے کہ تیسری شرط وصفِ عمومی ہے جوکہ خبر واحد ہو یا متواتر دونوں میں مشترک ہے، جبکہ چوتھی شرط بھی کوئی امتیازی شرط نہیں ،کیونکہ وہ سند کی متعدد کڑیوں میں خصوصی معیارِ ثبوت کے تسلسل کے لیے لگائی گئی ہے۔ اگر سند کی کڑیاں زیادہ نہ ہوتیں تو یہ شرط بھی نہ لگائی جاتی۔ باقی رہیں پہلی دو شرطیں ، تو یہ دونوں بظاہر دو محسوس ہوتی ہیں جبکہ حقیقتاً ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط ہیں یعنی ما رواہ عدد کثیر یستحیل العادۃ تواطئہم علی الکذب یعنی وہ خبر جس کے ناقلین اس قدر ہوں ، کہ روایت وخبر میں جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔ حاصل یہ ہے کہ مذکورہ چاروں شرطوں میں اصل شے علم قطعی کا حصول ہے۔ بعض لوگوں نے اسی وجہ سے شرائطِ تواتر میں ’علم قطعی ‘کومستقلاً پانچویں شرط کے طور پر بھی پیش کیا ہے، جس کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ یہ بات شرط ثانی سے از خود مفہوم ہے۔

واضح رہے کہ تواتر کی مذکورہ تعریف کے قائلین میں سے بھی بعض محتاط اہل علم پہلی شرط کے ضمن میں عددِ کثیر یا ’جماعت‘ کے افراد کی تعیین نہیں کرتے، کیونکہ بسااوقات تھوڑے افراد سے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر خبرو روایت میں علم قطعی حاصل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات بہت سارے افراد بھی مل جائیں ، تو یقین کامل پیدا نہیں ہوپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیقی مذہب یہی ہے کہ متنوع روایات میں جس عدد سے یقین حاصل ہوجائے پس وہی عدد اُس متعین روایت میں معین عدد قرار پائے گا۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام مجموعۂ روایات میں کسی ایک متعین عدد کی تعیین بالعموم کی جاسکے، جیساکہ بعد کے زمانوں میں بعض افراد نے کیا ہے۔

اس تعریف کے بالمقابل محققین اہل علم نے تواتر کی تعریف میں درج بالا تعریفِ تواتر کے خلاصہ یعنی حصولِ علم قطعی کو اصل قرار دیا ہے یعنی ان چار شرطوں کو اصل بنانے کے بجائے ان کے نتیجہ کو اصل بنایا ہے اور کہا ہے کہ ’’ما أفاد القطعی فھو المتواتر‘‘ یعنی جو روایت بھی علم قطعی کافائدہ دے وہ متواتر کہلائے گی، برابر ہے کہ اس میں یہ چار شرطیں پائی جائیں یانہ پائی جائیں ۔ جیساکہ عام طور پر جب یہ چار شرطیں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی علم قطعی حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات جب یہ چار شرطیں نہ پائی جائیں اور روایت خبر واحد کے طریق پر مروی ہو اور صحیح ہو ، اگر وہ کچھ قرائن سے مقرون ہو تو ایسی روایت بھی ماہرین فن حدیث کے ہاں علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ الغرض اِن محققین اہل علم کے مطابق تواتر کی تعریف میں اصل شے ’علم قطعی‘ کا حصول ہے، جبکہ بعد ازاں تدوینِ فن تواتر کی ایک ایسی فنی تعریف سامنے آگئی ہے، جو محققین اہل علم کی طرف سے ذکر کردہ تعریف تواتر کے اعتبار سے کچھ خاص ہے، جبکہ محققین والی تعریفِ تواتر میں عمومیت پائی جاتی ہے، جوکہ چار شروط والی متواتر روایت کو لازما اور خبر واحد کو بعض مخصوص صورتوں میں شامل ہوگی۔

اب آتے ہیں اس بحث کی طرف کہ محدثین اور قراء کے ہاں تعریفِ تواتر میں کوئی فرق ہے؟ اسی طرح یہ کہ قراء اور علماء کے مابین ثبوتِ قرآن کے لیے تواتر کی مشروطیت کے بارے میں کیا اختلاف ہے؟

ہمارا کہنا یہ ہے کہ محدثین اور قراء کے یہاں تعریفِ تواتر میں کوئی فرق نہیں ہے اور اسی طرح ان کے مابین ثبوت قرآن کے لیے تواتر کی شرط لگانے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ۔ جو تعریف محدثین کرام کے ہاں تواتر کی کی جاتی ہے، اس میں چونکہ محدثین کے ہاں خود دو آراء ہیں ، اسی نسبت سے قراء کرام کے ہاں بھی ثبوتِ قرآن کے ضابطہ کے بیان میں تعبیر کااختلاف ہواہے ۔ عملی بات یہ ہے کہ تمام قراء ، جن کا ثبوتِ قرآن کے ضمن میں تواتر کی شرط لگانے کے بارے میں اختلاف ہے، ان کے ہاں ثبوتِ قرآن کے ضمن میں جس بات کے حوالے سے اتفاق ہے، وہ ایسا ’علم قطعی‘ ہے،جسے محققین اہل علم کے ہاں ’تواتر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

محدثین کرام میں تعریفِ تواتر کے حوالے سے موجود اختلاف کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے بعض لوگ یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ قرآن کے ثبوت کے ضمن میں ’شرط تواتر‘ کے بارے میں قراء حضرات عام علماء سے مختلف رائے رکھتے ہیں ،جبکہ امر واقعہ میں ایسا نہیں ہے۔ عام قراء قرآن مجید کے حوالے سے محققین محدثین، جوکہ تواتر کو علم قطعی سے مربوط کرتے ہیں ، کے موقف کے مطابق یہ رائے رکھتے ہیں کہ قرآن مجیدتواتر یعنی علم قطعی سے ثابت ہے یا بالفاظ دیگریوں کہاجاسکتاہے کہ قراء کے ہاں قرآن مجید کے ثبوت کے لیے’علم قطعی ‘کا حصول ضروری ہے، جو اکثر اوقات عام علمائے محدثین کی تعریفِ تواتر کی رو سے ثابت ہوتا ہے اور بسا اَقات الخبر الواحد المحتف بالقرائن کے قبیل سے ہوتا ہے، جبکہ محققین محدثین کے ہاں اس دوسری صورت کو بھی نتیجہ کے اعتبارسے تواتر ہی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ بہرحال آپ تواتر کی دونوں تعریفوں میں کوئی تعریف بھی لے لیں ، ثبوتِ قرآن میں تواتر کی مشروطیت یا عدم مشروطیت کے بارے میں قراء اور علماء کے مابین پایا جانے والا مذکورہ سارا اختلاف لفظی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض معاصر اہل علم،جوکہ ثبوت قرآن کے ضمن میں تواتر کی مشروطیت کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں ، وہ بھی موجودہ قراء ات عشرہ کو ’تواتر حکمی‘ سے ضرور ثابت شدہ مانتے ہیں ۔


المختصر قراء کرام کے ہاں بالعموم یہ بات طے شدہ ہے کہ قرآن مجیدکا ثبوت الخبرالواحد المحتف بالقرائن کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اب آپ ا یسی خبر کو ’خبرمتواتر‘ کہیں یا ’خبرواحد‘ ، بہرحال قراء کے ہاں یہ مسئلہ متعین ہے کہ قرآن مجید کا ثبوت عام آئمہ حدیث کے ہاں طے کردہ چار شروطِ تواتر سے ہونا ضروری نہیں ہے،بلکہ قرآن مجیدکے ثبوت کے لیے ’علم قطعی‘ ضروری ہے۔ اب اس ’علم قطعی‘ کے حوالے سے آپ محققین محدثین کی تعبیر پیش کریں یا عام محدثین کی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس اختلاف کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ سارا اختلاف لفظی ہے، چنانچہ قراء کرام کے ہاں بس ایک بات کا تعین ہے کہ قرآن مجید کے ثبوت میں ’’ قطعی الثبوت‘ ذریعہ چاہیے، برابر ہے کہ وہ محققین کی تعریفِ تواتر کے نام سے سامنے آئے یا عام محدثین کی تعریفِ خبر واحد کا مصداق بن کر آئے۔ اس ضمن میں جو باتیں سامنے آتی ہیں اس سے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ محدثین اور قراء کے ہاں تواتر کی تعریف میں فرق ہے۔ اسی ضمن میں یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قراء کے مابین بھی ثبوت قرآن کے لیے تواتر کو بطور شرط ماننے میں اتفاق نہیں ، حالانکہ یہ سارا اختلاف مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ نہ لینے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ قراء ات بھی اس معاملہ میں الجھے ہیں ۔ امام الفن حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ، جو علم قراء ات و علم حدیث دونوں کے مسلمہ امام ہیں ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ثبوت قراء ات کے لیے تواتر ضروری ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ تواتر کے بجائے اگرقراء ت صحت سند سے ثابت ہوجائے اور وہ لغات عرب و رسم عثمانی کے موافق ہو، نیز اہل فن کے ہاں اسے قبولیت عامہ یعنی تلقّی بالقبول بھی حاصل ہو تو وہ ثابت قرار پائے گی۔ ہم کہتے ہیں کہ دوسری صورت وہی ہے جسے ماہرین علم المصطلح کے بیانات میں الخبر الواحد المحتف بالقرائن کہا جاتا ہے، جس کے بارے میں ان کا اتفاق ہے کہ وہ علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔

مذکورہ بحث کے ضمن میں یہ بات ضرور مد نظر رہنی چاہیے کہ’علم قطعی‘ یا ’تواتر‘ کے حصول کی کچھ صورتیں ایسی ہیں ، جو علم الحدیث میں نہیں پائی جاتیں ،بلکہ صرف علم القراء ت میں موجود ہیں ، جیساکہ ثبوتِ قراء ات میں ’تواترِ طبقہ‘ کا معاملہ ہے، جس کے بارے میں اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ ثبوت میں قوت کے اعتبار سے ایسا تواتر ’تواتر اسنادی‘ سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔

سوال نمبر22: کیاقراء کے ہاں خبر واحد سے قرآن مجید ثابت ہوتا ہے؟
جواب: پیچھے وضاحت ہوچکی ہے کہ بنیادی چیز خبر واحد یا خبر متواتر نہیں ہے، بلکہ بنیادی شئے علم قطعی ہے۔ علم قطعی ہی وہ بنیادی شے ہے جو خبر متواتر کا ماحصل ہے اور اگر خبر واحد بھی علم قطعی کا فائدہ دے جائے تو ایسی روایت کو اگر متاخرین کی اصطلاح کے مطابق ’خبر واحد‘ بھی کہہ لیا جائے تو بھی نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ خبر متواتر کا ماحصل اور خلاصہ بھی ’علم قطعی‘ ہی ہے۔ اگر کوئی ایسی قراء ت، جو کہ خبر واحد سے ثابت ہو، لیکن اس کا ماحصل ’قطعیت‘ ہو تو ایسی روایت اپنے ثبوت میں خبر متواتر کے قریب یااس جیسے مضبوط ذریعہ ہی سے ثابت ہوتی ہے، چنانچہ ہم دونوں تعبیرات کے حوالے سے کوئی تحفظ نہیں رکھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ثبوت تواتر سے ہوا ہے تو ہم اس بات کو بھی غلط نہیں سمجھتے اور اگر کہا جائے کہ نہیں ! بلکہ قرآن کریم کے ثبوت کے لیے روایتی تواتر (تواتر الاسناد) ضروری نہیں بلکہ ’قطعی روایت‘ کافی ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ ہمیں اس قسم کے لفظی اختلاف پر کوئی حساسیت نہیں ۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ محققین محدثین کا تصور تواتر ہو یا عام محدثین کی خبر واحد، جو کہ علم قطعی پرمنتج ہو، دونوں میں اختلاف محض تعبیر کا ہے، جس کا حقیقت پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔

سوال نمبر23: بعض لوگوں کاخیال ہے کہ قراء ات کی اجازت اوّلاً تھی، بعد میں منسوخ یا موقوف کردی گئی؟ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب: بعض منکرین قراء ات، جوکہ ابتدائی دور کے لحاظ سے متنوع قراء ات کو تسلیم کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کو مختلف اندازوں میں پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بعدازاں اس رخصت کو منسوخ کردیا گیا، کیونکہ جس غرض سے ان قراء ات کو پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی وہ غرض پوری چکی تھی، چنانچہ ان قراء ات کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی رائے کے ساتھ منسوخ یا موقوف کردیا۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے ہاں بنیادی طور پریہ ذہنیت پائی جاتی ہے کہ شریعت کے وہ احکام، جو مصالح ومقاصد کے پیش نظر دیے گئے ہیں وہ وقتی ہوتے ہیں ،جنہیں مقاصد کے حصول کے بعد منسوخ یا موقوف کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کے ہاں عام طور احادیث میں مذکور احکامات اسی قبیل سے ہیں ۔

اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ شرع میں ذکر کردہ مصالح سے متعلق اَحکام صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی رعائت اور حالات کے اعتبار سے مشروع کیے گئے تھے، چنانچہ اُس دور کے حالات سے منسلک احکامات بنیادی طور پر شریعت سے خارج ہوتے ہیں ۔ شریعت میں مذکور مصالح،جنہیں اصطلاح اصولیین میں ’مصالح معتبرہ‘ کہتے ہیں ،سے متعلق احکام کے بارے میں ان لوگوں کے ذہن کی بنیاد ی غلطی یہ ہے کہ یہ ان شرعی مصالح کو فقہی واجتہادی مصالح، جنہیں اُصولیوں کی اصطلاح میں ’مصالح مرسلہ‘ کہتے ہیں ، کی طرح سمجھتے ہیں ، حالانکہ اہل سنت کے ہاں شرعی مصلحت دائمی وابدی ، جبکہ فقہی مصلحت وقتی وعارضی ہوتی ہے۔

علمائے اصول کے ہاں ’مصالح مرسلہ‘ کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ تمدن کی تبدیلی سے پیدا شدہ نئے حالات میں فقہاء کرام بسا اوقات شریعت کی کسی نص کے انطباق میں شرعی مقاصد ( شریعت کی بیان کردہ عمومی مصالح) کالحاظ رکھتے ہوئے معاملہ کی نوعیت اور مسئلہ کے ہمہ گیر پہلوؤں کی رعائت میں شریعت میں موجود اس واقعہ سے ملتے جلتے واقعات (نظائر)کے بارے میں وارد شرعی نصوص پر قیاس کرکے اجتہادو استنباط سے کچھ حدود و قیود کا اضافہ یا کمی کردیتے ہیں ۔ تمدن کے نئے تقاضوں سے جو انسانی ضروریات سامنے آتی ہیں ، مجتہد کے لیے شرعی مقاصد اور تعلیمات دین کی روشنی میں ان کی رعائت کرنا شارع کا مطلوب ہے، جسے ’اجتہاد‘ کے مبارک عمل سے پورا کیا جاتا ہے۔ فقہاء کے استنباطات و اجتہادی آراء کا شرعی نصوص واحکام سے بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں ، اسی لیے آپ کی لائی ہوئی شریعت بھی ابدی ہے، جسے منسوخ یا موقوف کرکے اب نئی شریعت قیامت تک نہیں لائی جاسکتی، برابر ہے کہ وہ کسی نئے حکم کے وجود میں لانے کی صورت میں ہو یاشریعت میں پہلے سے موجود کسی حکم کو ختم کرنے کے کی شکل میں ، لہٰذا شریعت میں مذکور مصالح ورخصتیں بھی روزِ اول سے دائمی حیثیت ہی رکھتی ہیں ، جبکہ فقہاء کے ذکر کردہ مصالح کی حیثیت بہرحال یہ نہیں ہے۔

الغرض اجتہاد کے بنیادی مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ شرع کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں اور یہ شرع کے نسخ کا نام نہیں ، بلکہ اس کا کام نئے تمدنی تقاضوں کے لیے شریعت کی توضیح وتشریح کرنا ہے، چنانچہ شرع میں جن مقاصد اور جزوی یا کلی مصالح کو سامنے رکھ شرعی احکام دیے گئے ہیں ، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کے مصالح کا ایک خلاصہ سامنے رکھتے ہوئے ان شرعی احکام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ابدی ہدایت پیش کردی ہے، جس میں قیامت تک تمام زمانوں اور لوگوں کی جمیع ضروریات اور طبعی وتمدنی تقاضوں کا لحاظ کرلیا گیا ہے۔یہ کہنا کہ اللہ علیم وخبیرنے جن مقاصد ومصالح کی رعائت کرکے اپنے علم وحکمت کی روشنی میں جو احکامات پیش کردئیے ہیں ، بعد کے زمانوں کے بعض مصالح کی ان میں رعائت نہیں کی گئی انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس تناظر میں ہمارا کام بس یہی ہے کہ ہم اپنے مخصوص علاقائی اور وقتی تقاضوں کی رعائت میں شرع کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔اس صورت میں جو فقہی واستنباطی راہنمائی سامنے آئی گی وہ بھی علاقائی اور وقتی ہی ہوگی، اسے ابدی اور کلی قرار دینا انتہائی غلط ہوگا۔ عالمگیریت اور ابدیت صرف شرعی احکامات کا خاصہ ہے، فقہی واجتہادی احکام کی یہ صفت نہیں ہے۔ اسی لیے علمائے اصول کے ہاں شرعی مصلحت کو ’حکمت‘ کہا جاتا ہے، جو رب حکیم کی صفتِ علیم وخبیر کی روشن مثال ہوتی ہے، جبکہ انسانی مصلحت کو ’حکمت‘ کے بجائے ا’جتہادی مصلحت‘ کی متوازی اصطلاح سے بیان کیا جاتا ہے۔ شریعت کی اسی عالمگیریت اور جامعیت کو واضح کرنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے معارج الوصول فی بیان أنَّ أصولَ الدِّین وفروعَہ قد بیَّنہ الرّسولﷺ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا مطالعہ اس ضمن میں انتہائی مفید ہوگا۔

مذکورہ تمہید ی باتوں کے بعد اب ہم آتے ہیں سوال کے جواب کی طرف تو میں واضح کرنا چاہوں گا کہ منکرین قراء ات، جن کی اپنی دینی بنیادیں مضبوط نہیں ، انہوں نے فقہی مصلحت کے انداز پر قراء ات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجو قرآن نازل ہوا تھا، وہ تو بنیادی طور پر ایک ہی وجہ یا ایک ہی لہجہ کے ساتھ نازل ہوا تھا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متاخرین فقہاء کی طرح قرآن مجید کے اندر لوگوں کی مشکلات یامصلحت وحکمت کی پیش نظر کچھ چیزوں کی گنجائش اپنی طرف سے دے دی تھی۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر یہ معاملہ ایسے بھی ہو، جیسے ذکر کیا جارہا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی بات قرآن یاسنت میں اپنے اجتہاد کی پیش نظر کہیں تو اہل سنت والجماعۃ کے عقیدے کے مطابق چونکہ اس کے اوپر وحی کی نگرانی ہوتی ہے،چنانچہ وہ چیز نتیجتاً وحی بن جاتی ہے، جیسے کہ کنَّا نعزِل والقرآن ینزل[صحیح مسلم:۱۴۴۰] کی مثال ہے۔ اب صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو عزل نہیں کیا کرتے تھے، لیکن زمانہ نزول وحی میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا عزل کرنا اور قرآن مجید کا نازل ہونا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کااس پرخاموش رہنا یہ خود ایک تقریری حدیث کی بنیاد ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نوع کو اپنی جامع صحیح کے کتاب الاعتصام میں باقاعدہ ایک باب قائم کرکے واضح کیا ہے۔

اس بات کو ایک اور انداز سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے شرعی حکم کے قرار (تقریر) پاجانے کی اصل توجیہہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت کا معنی یہ بنتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اُس بات پر سکوت فرمایا ہے، جس پر آپ خاموش رہے ہیں ، گویاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی تصدیق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرماتے ہیں ، جیساکہ روایات میں موجود ہے کہ بسا اوقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اجتہاد کے حوالے سے جو کمزوری کاپہلو تھا اسے بیان فرمادیا، تو اگر اللہ تعالیٰ کمزوری کو بیان فرمادیں تو ایسی صورت میں وہ چیز شریعت نہیں بنتی، لیکن اگر واضح نہ فرمائیں تو ایسی صورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے وہ شے شریعت قرار پاجاتی ہے، جسے اصطلاحا تقریر کہا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کاکسی چیز پرخاموش رہ جانے سے جو شے ٹھیک قرار پاتی ہے اسے اِصطلاحا ’استصواب‘ کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اُصولیوں کا ایک قاعدہ ہے : ’’السکوت فی مَعْرِضِ البَیَانِ بیانٌ‘‘
’’جب کسی جگہ بیان کی ضرورت ہو اور بیان کرنے والا ضرورتِ بیان ہونے کے باوجود بیان نہ کرے تو عدمِ بیان اس چیز کے شرعی جواز کی دلیل ہوتاہے۔‘‘
چنانچہ جن لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال موجود ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء اتِ قرآنیہ کو وحی کے بجائے اپنے اجتہاد سے جائز کردیاتھا، اگر یہ بات بھی کی جائے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت نتیجتاً وحی بن جاتی ہے۔ البتہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ روایات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراء ات کے اختلاف کو اپنے اجتہاد سے پیش نہیں فرمایا، بلکہ باقاعدہ اللہ تعالیٰ سے ان کے نزول کاتقاضا دعائیں کر کر کے فرمایاتھا، جیسا کہ جبریل اورمیکائیل علیہما السلام کے حوالے سے صحیح روایات میں موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس دونوں تشریف لائے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بار بار تقاضا کرکے اللہ تعالی سے اختلاف قراء ات کو طلب فرماتے رہے، میکائیل مزید تقاضے کا مشورہ دیتے جاتے اور جبریل اللہ تعالیٰ کی طرف سے حروف لے کر آتے جاتے، حتیٰ کہ ہر طلب پر ایک ایک کر کے سات حرف کانزول ہوا ۔[صحیح ابن حبان:۷۳۴] اسی طرح دیگر تمام وہ روایات، جن میں قراء ات کے سلسلہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلاف کا ذکر ہے، ان میں موجود ہے کہ جب وہ اپنا اختلاف لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے توآپ ہر ایک کی قراء ت سننے کے بعدیوں فرمایا: ’’ھکذا أُنزِلَتْ،ہکذا أنزلت‘‘۔[ صحیح البخاري:۵۰۴۱] خصوصا خود حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کے الفاظ ’’أنزِلَ القرآنُ علی سبعۃِ أحرُفٍ‘‘میں غور کیا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ پہلی روایت کے مطابق ایک حرف کاآسمان سے آنا، پھر دوسرے حرف کا آسمان سے اترنا اور پھر تیسرے حرف کاآسمان سے نازل ہونا، حتی کہ معاملہ کا سات حروف تک اسی نوعیت پر پہنچ جانا،اسی طرح دوسری قسم کی روایات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین مختلف اندازوں سے پڑھنے کے بارے میں ہر ایک کے حوالے سے آپ کا یوں تصدیق کرنا:’’ھکذا أنزلت، ہکذا أنزلت‘‘[صحیح البخاري:۵۰۴۱]اور حدیث ’حروفِ سبعہ‘ میں قرآن کا سات حروف کے ہمراہ نازل ہونے کا ذکر ہونا،یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ قراء ات کا یہ تمام اختلاف بنیادی طور پرآسمانوں سے نیچے اترا ہے ، کیونکہ لغت میں نزول کا یہی معنی لکھا ہے کہ شے کا اوپر سے نیچے اترنا۔ ثابت ہوا کہ معاملہ یہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے ان کو جائز قرار دیااور اللہ کے تصویب کے ساتھ ان کوشریعت کامقام ملا۔

الغرض جب یہ مقدمہ متعین ہوگیاتو اس حوالے سے یہ سوال کرنا بنیادی طور پر درست نہیں رہتا کہ قراء ات کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے دی تھی اورجب یہ مشکل ختم ہوگئی تو پھر اس اجازت کو بعد از اں حضرت عثمان نے صحابہ سمیت یا بالفاظ دیگر امت نے ختم (منسوخ یا موقوف) کردیا۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ان قراء ات کی اجازت وحی سے ملی تھی، وحی کا ذریعہ صراحتاً اللہ کی طرف سے نزول کاہو یا وحی کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور اس پر اللہ کی تصویب کے قبیل سے ہو، ہر دو صورت میں اس گنجائش کوختم کرنے کے لیے وحی ہی سے نسخ ثابت کرنا ضروری ہے اور اگر وحی سے اس کانسخ ثابت نہ کیاجاسکے تو کسی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جیسے ہمارے ہاں مصالح مرسلہ اور سد الذرائع کی مباحث چلتی ہیں اور حالات کے تحت اگر پیش نظر وقتی وعارضی مشاکل و مصالح ختم ہوجائیں تو ہم ان اجتہادی آراء کو ختم کردیتے ہیں یا نئے حالات کے مطابق بدل دیتے ہیں ، تو دین و شریعت کی مباحث میں بھی اسی طرح کا معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے الإحکام فی أصول الأحکام اور الفصل فی المِلَل والاھواء والنَّحل میں اس قسم کے عقیدے کو شدید ترین گمراہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے قطعا ایسا نہیں کیا، بلکہ اگر وہ یوں کرتے تو اس عمل سے ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتے۔[الاحکام:۱؍۵۶۵]

اگر اس معاملے کو کسی اصول کے طور پر تسلیم کرلیا جائے تو دین حنیف کے بے شمار وہ احکامات، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کی مشاکل کو سامنے رکھتے ہوئے رخصتوں کے ضمن میں پیش کیے ہیں ، ان کے بارے میں ملحدین کویہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ جب وہ مشاکل ومصالح ختم ہوجائیں یاحالات کا پس منظر بدل جائے تو دین کے اس قسم کے اَحکامات کو اجماعی یا انفرادی اجتہاد سے ختم کیا جاسکتاہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا اللہ کے علم وحکمت کے اوپر صریح اعتراض اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کے واضح انکار کے مترادف ہے۔ منکرین حدیث نے اسی مکروفریب سے قرآن میں خصوصا اور حدیثوں میں عموما وارد شدہ بے شمار جزئی احکامات کا اپنے تئیں انکار یا اجتہاد کے نام پر نسخ کرڈالا ہے، جیسے قتال کا انکار، کتاب وسنت میں وارد شدہ حدود وتعزیرات کا انکار، حجاب کا انکار، اسبالِ ازار کا جواز، ڈارھی کا انکار، تصویر اور بت سازی کا جواز اور دیگر وہ کچھ جس سے پورے دین اسلام کا نقشہ الٹ کر رہ گیا ہے اور ایک نئے سیکولر اور لبرل اسلام کی تصویر سامنے آرہی ہے۔میں اس ضمن میں قرآن مجید میں وارد شدہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد پیش کرنا ہی بیان کے لیے کافی سمجھتا ہوں :
{لٰکِنِ اللّٰہ یَشْہَدُبِمَا أنْزِلَ اِلَیْکَ أنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَالمَلٰئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَوَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَہِیْدًا }[النساء:۱۶۶]
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کسی شے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالی کو کسی ذات، تمام جن وانس حتی کہ تمام فرشتوں تک کی حاجت نہیں ، چہ جائیکہ ایک شے کو اللہ بطور اپنے حکم کے پیش کردیں اور سمجھا جائے کہ اللہ کے حکم کو پوری امت مل کر ختم کرسکتی ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر24: کیاسبعۃ أحرف میں موجود ہر لغت کا صراحتاً نزول ہوا تھا یا اس نزول کی نوعیت میں کچھ تفصیل تھی؟
جواب: جب یہ بات متعین ہوگئی ہے کہ ’حروفِ سبعہ‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا وطلب پر اللہ کی طرف سے امت کے لیے بطور اِجازت نازل کیے گئے تھے، تو اس کے بعد مذکورہ سوال کی اب کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ وحی اور اس کے نزول کا تعلق امورِ غیبیہ سے ہے۔ اب خود وحی یا اس کے نزول کی نوعیت متعدد دینی امور میں عموما اور ’حروف سبعہ‘ کے ضمن میں خصوصا کیا تھی؟ اس قسم کے سوالات کی کوئی دینی ضرورت نہیں ۔ ہمارے لیے محض اتنا کافی ہے کہ وحی کے صورت میں جو دین ہمیں ملا ہے اس میں تعددِ قراء ات کا مسئلہ موجود ہے اور ہم اس پر اپنے عقیدے کی رو سے ایمان بھی لاتے ہیں ، جبکہ اللہ کی فضل وکرم سے ہمیں اس سلسلہ میں قلبی اطمینان بھی حاصل ہے۔

اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ایمان لانے کے لیے وحی کا عقلی طورپر سمجھ آنا ضروری نہیں ، البتہ اضافی اعتبار سے توجیہ کی جاسکتی ہے، لیکن وہ محض انسانی کد وکاوش ہی ہوتی ہے، منزل من اللہ نہیں ۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ حقیقت میں بھی معاملہ یوں ہی ہوگا، جیساکہ توجیہ کرنے والے نے پیش کیا ہے، ضروری نہیں ، الا کہ اس توجیہ کا ذکر نصوص شرعیہ میں ہو۔ ہم بھی ان پہلوؤں کی رعائت کے ساتھ معاملہ کی نوعیت کے بارے میں نصوص کی روشنی میں کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، کیونکہ یہ بحث ایسی ہے جس پر بعد ازاں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ ، امام طحاوی رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا بے شمار اصحاب علم کے ’سبعۃ أحرف‘ سے متعلقہ بعض نظریات کی بنیاد ہے۔ اسی بنا پر باوجود یکہ میں اس مشکل اور دقیق بحث میں داخل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن اس موضوع کو کچھ کھولتے ہیں ۔

جس طرح یہ نظریہ صحیح نہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ کا نزول اللہ کی طرف سے نہیں ہوا، بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے انہیں جاری کردیا تھا، اسی طرح اس بات پر زور دینا کہ’حروفِ سبعہ‘ کے نزول کا معنی یہ ہے کہ ان کا ہر ہر جزء آسمانوں سے باقاعدہ صراحتاً اترا ہے، متعین نہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ تلاوت قرآن کے ضمن میں ’سبعۃ أحرف‘ میں شامل وہ مترادفات، جو کہ عرضۂ اَخیرہ میں بالاتفاق منسوخ کردئیے گئے تھے، کے حوالے سے یہ اصرار کہ یہ باقاعدہ یوں نازل ہوئے کہ جس طرح قرآن مجید تیئس سالہ عرصہ میں آہستہ آہستہ اترا، متعین نہیں ، کیونکہ معاملہ کی نوعیت کے بارے میں اس قسم کی تصریح دین میں کہیں موجود نہیں ۔ دین میں تو صرف یہ بات آئی ہے کہ متعدد اندازوں پر قرآن کو پڑھنے کی اجازت اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے، لیکن نزول کی نوعیت کیا تھی؟ یہ کہیں واضح نہیں ۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ اس بحث کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں ، لیکن اس نوعیت کے بارے میں چونکہ بعض متقدمین اہل علم نے بحث چھیڑ دی ہے، چنانچہ ہم بھی بحث کر رہے ہیں ۔


اللہ کی ہدایت، جو بصورت وحی انبیاء پر اترتی ہے، اس کے کئی ایک طریقے ہیں ، جو محتاج بیان نہیں ، البتہ اس ضمن میں ایک بات متعین ہے کہ رسول کی بات امت کے حق میں اپنی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،کیونکہ رسول کا کام پیغام رسانی ہی کا ہے۔ وحی کے معنی ’خفیہ طریقے سے سریع الہام‘ کے ہیں ۔ اب اس مفہوم میں نزول کی کئی صورتیں داخل ہوسکتی ہیں ۔ وحی کے آنے کی نوعیت صرف یہی نہیں ہوتی کہ فرشتہ آسمانوں سے ہی ایک شے کو باقاعدہ لے کر اترے،بلکہ یہ صورت بھی وحی ہی میں شامل ہے کہ ایک شے آپ کے سامنے یا آپ کے زمانہ میں کی جائے اور اس کا رد نازل نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی’تقریر‘ اور اللہ تعالی کے ’استصواب‘ سے وہ وحی قرار پاجائے۔ اسی طرح وحی کا ایک اسلوب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر درپیش کسی مشکل کے حوالے سے نبی کو اللہ تعالیٰ یہ اِجازت دیدیں کہ وہ اس مشکل کے حوالے سے نصوصِ شرعیہ اور دینی مقاصد و عمومی مصالح کی روشنی میں اجتہاد کرکے کوئی بات بیان کرے اور اللہ کی طرف سے خاموشی وتصویب اسے وحی کی صورت دیدے۔ الغرض {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إنْ ہُوَ إلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی}[النجم:۳،۴] میں صرف وحی کا صراحتاً نزول شامل نہیں ، بلکہ مذکورہ قسم کی وحی کی دیگر صورتیں بھی شامل ہیں ۔


’سبعۃ أحرف‘ کے ثبوت کے حوالے سے مشہور ’حدیث جبریل ومیکائیل‘ سے یہ بات واضح ہے کہ ’حروفِ سبعہ‘ ایک ہی موقع پر مختصر وقت میں اتر آئے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’حروف سبعہ‘ میں شامل مترادفات کو پڑھنے کی اِجازت ایک وقتی مشکل کے تحت دی گئی تھی، جسے بعد ازاں عرضۂ اخیرہ میں مشکل ختم ہونے پر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی روشنی میں منسوخ فرمادیا تھا۔ عصر حاضر میں عام ذہنیت یہی ہے کہ ان کی تعداد احادیث میں وارد شدہ محض چند کلمات مثلا ہلمَّ، تعالِ اور أقبل وغیرہ تک ہی محدود تھی، جبکہ تحقیق کے مطابق یہ کئی ہزاروں پر مشتمل تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بارے میں وحی کی اجازت بھی یوں تھی کہ جن چیزوں کی ادائیگی ابتداء بعض قبائلِ عرب کے لیے عدم استعمال کی وجہ سے مشکل تھی انہیں مخصوص مقامات میں ان کلمات سے ملتے جلتے کلمات یعنی مترادفات سے پڑھنے کی اجازت دیدی گئی ہو۔ ان کے بارے میں نزول کا معنی یہ سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دیدی تھی کہ جہاں کسی لفظ کی ادائیگی میں کسی کے لیے کوئی مشکل ہو، اسے اس کی لغت کے مطابق اس لفظ کے ہم معنی یا قریب المعنی لفظ سے کلمہ بدلنے کی رخصت دے دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آہستہ آہستہ متعدد قبائل سے متعلق وہ لوگ قرآنی لغت سے مانوس گئے تو مترادفات سے پڑھنے کی یہ اجازت بھی منسوخ کردی گئی۔

مترادفات کے بارے میں اس توجیہ کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ مترادفات کے مطابق پڑھنے کی اجازت ایک وقتی مجبوری کے تحت بطورِ تدریج دی گئی تھی ، کیونکہ روایات کے مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ نیز ان کا اختلاف بھی حقیقی اختلاف کے قبیل سے ہوتا ہے، جس کے معانی پر انتہائی باریک قسم کے اثرات پڑتے ہیں ۔ البتہ ’سبعۃ أحرف‘ میں شامل دیگر قسم کے اختلافات کا یا تومعانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، جیسے متنوع لہجوں کا اختلاف(یعنی قراء کی اصطلاح میں قراء ات کا اصولی اختلاف)، یا اثر تو ہوتا ہے لیکن وہ توضیحِ معانی کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے، جیسے اسالیبِ بلاغت کا اختلاف (یعنی قراء کی اصطلاح میں قراء ات کا فرشی اختلاف)۔

مترادفات سے متعلق ہماری اس توجیہ کو یہ بات بھی تقویت دیتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کے زمانہ میں عام معروف اندازے کے بالمقابل ان مترادفات کی تعداد کئی ہزاروں پرمشتمل تھی۔ ان کے حوالے سے متعدد معروف کتب قراء ات، خصوصا کتاب المصاحف از ابن ابی داؤد رحمہ اللہ وغیرہ سے مستشرقین میں سے صرف ایک شخص آرتھرجیفری نے جو ایک انتہائی ناقص اور محدود جائزہ پیش کیا ہے، صرف اس میں ان کی تعداد ۶۰۰۰ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان مترادفات کا حقیقی جائزہ اُن مصاحف کی روشنی میں لیا جانا ممکن ہوتا، جوکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ختم کر دیے تھے تو مترادفات کے قبیل کے یہ اختلافات مذکورہ تعداد سے کئی گنا بڑھ کر ہوتے۔ ان اختلافات کا ایک سرسری جائزہ لینے کے لیے مناسب ہوگا کہ قراء ات نمبر (حصہ اوّل) میں مطبوع ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کے مضمون کا قارئین دوبارہ مطالعہ کر لیں ، جس سے بہ آسانی سے احساس ہوجائے گا کہ صحیح بخاری میں پیش کردہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے مشاہدے کے مطابق بیان کردہ اختلافِ قراء ات سے قطع نظر اس سے قبل مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں منسوخ التلاوۃ کلمات (اور تفسیری کلمات کو بطور قرآن پڑھنے) کے ضمن میں اختلاف قراء ات کا جو معاملہ درپیش تھا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورکبار صحابہ رضی اللہ عنہم خود اس سلسلہ میں انتہائی پریشان تھے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی توجہ دلانا تو صرف ایک سبب بن گیا، ورنہ جمع عثمانی کا اصل پس منظر آذربائجان اور آرمینیہ وغیرہ علاقوں میں موجود اختلاف کے ساتھ ساتھ درحقیقت ’قراء ات شاذہ‘ ،جو کہ منسوخ التلاوۃکلمات اور تفسیری کلمات کا بطور قرآن رائج پذیر ہو جانا جیسے اختلافات پر مشتمل ہوتی ہیں ، کے ضمن میں عرضہ اخیرہ میں منسوخ شدہ وہ اختلافِ قراء ات بھی تھا جو کہ انتہائی پریشان کن نوعیت اختیار کرگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام کو کرنے کا ارادہ کیا تو ابتداء بھی اس کام کی بھرپور تائید کی گئی اور کر چکنے کے بعد بھی ہزاروں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمل کے صحیح ہونے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔

اسی طرح یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اصلا ’سبعۃ أحرف‘ کے موجود اختلافات پر تو صرف اس قدر کام کیا تھاکہ ایک ایسا جامع رسم، جو کہ قبل ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے توقیفی طور پر چلا آرہا تھا اور اسے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یکجا کردیا تھا، پیش کردیا جو کہ اعراب ونقط سے خالی ہونے کی وجہ سے جمیع غیر منسوخ اختلافاتِ قراء ات کو شامل تھا، لیکن ان کا اصل کام، جس وجہ سے انہیں ’جامع القرآن‘ کا لقب ملا وہ یہ تھا کہ وہ غیر مصدقہ مصاحف، جوکہ منسوخ التلاوۃ کلمات کے ایک بڑے ذخیرے پر مشتمل تھے، کو ختم کرنے اور اُمت میں متفقہ متنِ مصحف کو پیش کرنے کا باعث بنے، ورنہ جمع قرآن کے سلسلہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمات بھی معمولی نہ تھیں کہ انہیں جامع القرآن کا لقب نہ ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ مستشرقین نے قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کے لیے اس کے متن کو خصوصا موضوع بحث بنایا ہے اور اس ضمن میں جس شے سے انہوں نے بہت ہی فائدہ اٹھایا ہے وہ اختلاف قراء ات کے ضمن میں مترادفات کا اختلاف ہے، ناکہ لہجات واسالیب بلاغت کے قبیل کا اختلاف، کیونکہ ان دونوں شکلوں کا اختلاف قراء ات تو ہر صورت میں رسمِ عثمانی میں آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت قراء ت کی متفقہ شرط رسم عثمانی کی موافقت ہے اور موجودہ قراء ات عشرہ کے اصولی وفرشی سب قسم کے اختلافات اس شرط پر پورا اترتے ہیں ۔

نوٹ: قراء ات شاذہ مترافات کے قبیل کے منسوخ التلاوۃ کلمات اور تفسیری الفاظ پرمشتمل ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جوکہ ثبوت قرآن وقراء ات متواترہ کی شرائط پر ثابت نہ ہوسکے۔ انہی کی ایک صورت اُن موضوع روایات (قراء ات) پر بھی مشتمل ہے، جو کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کے زمانہ میں منسوخ التلاوۃ وغیرہ کے ضمن میں موجود اختلافِ قرآن سے فائدہ اٹھا کر ملاحدہ اور یہود ونصاری نے داخل کردیں تھیں ، اگرچہ ماہرین فن نے ان کا اصطلاحی نام ’موضوع قراء ات‘ ہی رکھا ہے۔ جمع عثمانی کے اسباب میں یہ سارے اسباب ہی پیش نظر تھے۔

یہاں ہمیں نزول ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں امام طحاوی رحمہ اللہ کی اس رائے کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان کا یہ کہنا کہ ’سبعۃ أحرف‘ میں سے حرف قریش کے علاوہ باقی حروف نازل ہی نہیں ہوئے تھے، بلکہ اجازت کے قبیل سے تھے، یہ تعبیر درست نہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ جب صراحتاً روایات میں موجود ہے کہ قرآن کریم کا نزول ’حروف سبعہ‘ پر ہوا ہے، تو ہم نزول کا کس طرح انکار کرسکتے ہیں ، بلکہ اس طرح تو ایک نیا سوال یہ پیدا ہوگا کہ اگر قرآن کا نزول محض لغت قریش پر ہوا تھا تو عرضہ اخیرہ میں چھ لغات کا منسوخ ہونے کا کیا معنی ہوا۔ نسخ تو منزل من اللہ احکام ہی کی تنسیخ کا نام ہے۔ اس لیے امام طحاوی رحمہ اللہ کے بالمقابل امام ابن جریر رحمہ اللہ سمیت عام اہل علم کی یہ رائے بالکل صحیح ہے کہ قرآن کا نزول سات حروف پر ہوا ہے۔ البتہ اگر امام موصوف کا مقصود یہ ہے کہ ایک حرف قریش اور اس کے ضمن میں قرآن مجید کی تمام الفاظ، آیات اور سورتوں کا تو باقاعدہ نزول ہوا تھا، جبکہ باقی چھ حروف کے نزول کی کیفیت عام نزول سے مختلف تھی، جیساکہ ہم نے تفصیلاً پیش کیا ہے، تو اس بات میں واقعتا کوئی حرج نہیں ۔

باقی رہا یہ سوال کہ کسی مصلحت کے تحت اور فتنہ وفساد کے تدارک کے لیے اسلامی سلطنت کے خلیفہ کو کیا اس بات کا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ دین میں موجود کسی حکم کو وقتی اور عارضی طور پر موقوف کردے؟ تو اس بارے میں اِن شاء اللہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے ’سبعۃ أحرف‘ میں موقف کے ضمن میں بحث ہوگی۔

سوال نمبر25: عرضہ اَخیرہ میں متعدد قراء ات منسوخ ہوئی ہیں یا نہیں ؟ بالفاظ دیگر موجودہ قراء اتاحرفِ سبعہکاکل ہیں یا بعض؟ وضاحت فرمائیے۔
جواب: پیچھے یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ عرضۂ اخیرہ کے وقت متنوع قراء ات میں سے بہت کچھ منسوخ ہوا ہے، اسی حوالے سے ہم بالاختصار اپنی بات کو دوبارہ دھرا دیتے ہیں کہ جب حدیث میں ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کا ذکر آتا ہے تو راجح رائے کے مطابق اس میں ’ احرف سبعہ‘ سے ابتدائی زمانوں میں قرآن مجید کی سات لغات کا اختلاف مراد لیا جاتا تھا۔ قبل ازیں یہ بھی واضح کیا چکا ہے کہ کوئی بھی لغت ہو وہ متعدد لہجات، مترادفات اور اَسالیب بلاغت وغیرہ کو شامل ہوتی ہے۔ تعددِ قراء ات کے ضمن میں موجود تقدیم وتاخیر ، حرکات و سکنات، غیب وخطاب اور حذف وزیادت وغیرہ کے قبیل کے اختلافات بات کو سمجھانے کے لیے متعدد اَسالیب بلاغت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ علمائے قراء ات کی اصطلاح میں اس قسم کے اختلاف کو فرش الکلمات کے نام سے بیان کیا جاتا ہے۔ لہجوں کے اختلاف کی مثالوں کے ضمن میں امالہ وتقلیل، اظہار واِدغام، مدو قصر اور ہمزہ قطعیہ میں تحقیق وتسہیل، نقل وابدال وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ انہیں قراء حضرات فروش کے بالمقابل اُصولی اختلاف کے عنوان سے بیان کرتے ہیں ۔

باقی رہے مترادفات، تو ان کا دائرہ ابتدائی دور میں بے حساب و بے شمار تھا، جس کا اندازہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان کے بارے میں پیچھے گذر چکا ہے کہ ان کے نزول کی نوعیت یہ تھی کہ ابتدائی زمانہ نزولِ قرآن کے دور میں نبی کریم کو آپ کی طلب پر اس چیز کی اِجازت دی گئی تھی کہ اگر کسی فرد کو کوئی لفظ زبان سے اَدا کرنا مشکل محسوس ہو تو آپ اس کو اس سے ملتے جلتے قریب المعنی لفظ سے تلفظ کی اجازت دے سکتے ہیں ، چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے ایک فارسی نژاد شخص کو قرآن کریم کی آیت کریم طَعَامُ الاَثِیْمکو طعام الظَّالم، بعض روایات کے مطابق طعام الظلَاَّم اور بعض روایات کی رو سے طعام الفَاجِر پڑھنے کی اجازت دیدی تھی، کیونکہ وہ بار بار سیکھائے جانے پر طَعَامُ الاَثِیْمِ کو طعام الیتیم ہی پڑھتا تھا اور لفظ ’الاثیم‘ اس کی زبان پر چڑھتا نہیں تھا۔[مقدمہ تفسیر ابن کثیر]

اس طرح کی اجازت کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب مختلف قراء ات میں جو حیرت انگیز فرق نظر آتا ہے اس کا مطالعہ زیر بحث موضوع کو سمجھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ذیل میں صرف سورہ الفاتحہ سے چند مثالیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں کہ وہ کس طرح مختلف قرآنی کلمات کو ملتے جلتے کلمات یعنی مترادفات سے بدل کر پڑھتے تھے۔ اگر دیگر سورتوں کا بھی اس ضمن میں جائزہ پیش کیا جائے تو مترادفات کے ضمن میں معاملہ کی گھمبیر صورتحال کا مکمل جائزہ سامنے آسکتا ہے:
قرآنی کلمہ------- تبدیلی ------------ صحابی
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن-------ملیک یوم الدین ------ابی بن کعب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن-------ملاَّک یوم الدین------ابی بن کعب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ------ - ارشدنا الصراط المستقیم ------- عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم -------- ثبتنا الصراط المستقیم --------ابی بن کعب، علی رضی اللہ عنہم
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ------- دلّنا الصراط المستقیم----------ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
اَہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم ------- اہدنا صراطا مستقیما ----------ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ------- صراط من أنعمت علیہم -------ابن مسعود، عمر، ابن زبیر رضی اللہ عنہم
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِیْن------- وغیر الضالین --------ابی بن کعب، علی، عمر رضی اللہ عنہم

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں روایات میں مذکور ہے کہ وہ سورہ الم نشرح میں وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَک کو وحللنا عنک وزرک اور وحططنا عنک
وزرک
پڑھا کرتے تھے۔ [تفسیر القرطبی]

منسوخ التلاوہ قراء ات میں موجود اس قسم کی قراء ات کی تخریج معروف کتب تفاسیر طبری، قرطبی، ابن کثیر، بیضاوی سے بہ سہولت ممکن ہے۔ مترادفات کے حوالے سے علمائے قراء ات سمیت جمیع اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ عرضۂ اخیرہ میں مترادفات کے قبیل کے تمام اختلافات بالعموم منسوخ ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مصاحف عثمانیہ میں مرادفات کا اختلاف موجود نہیں تھا۔ عرضہ اخیرہ میں مترادفات کا اختلاف منسوخ ہوجانے کے بعد اب ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں جو اختلاف باقی بچا ہے وہ لہجوں اور اَسالیب بلاغت کے اختلافات کی دو نوعیتوں پر مشتمل ہے، یہی وجہ ہے کہ علم قراء ات پر لکھی جانے والی قدیم اور جدید کتب میں اصول وفروش کے نام سے انہی دو قسم کے اختلافات کو پیش کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر یہ معروف ہے کہ اختلاف قراء ات کے ذیل میں موجود مترادفات کا وہ اختلاف ،جوکہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگیا تھا، کوئی زیادہ نہیں تھا، جس کی مثالوں میں عام طور پر قراء حضرات صرف حَتّٰی کو عَتّٰی پڑھنا، ہَلُمَّ کے جگہ پر تعالِ اور أَقْبِلْ وغیرہ بولنا اور بعض اہل عرب کا علامتِ مضارع کو کسرہ دے کر پڑھنا وغیرہ کلمات پیش کرتے ہیں ، جبکہ تحقیق یہ ہے کہ عرضۂ اخیرہ میں باقی رہ جانے والے اختلاف کے بالمقابل وہ قراء ات (مترادفات) جو منسوخ ہوئیں تھیں وہ کئی گنا تھیں ۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے بطور مثال سورۃ الفاتحہ میں جن منسوخ قراء ات کو اوپر ابھی پیش کیا ہے، وہ سورۃ الفاتحہ میں موجود غیر منسوخ قراء ات کے بالمقابل کہیں زیادہ ہیں ۔ مزید برآں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ قراء ات شاذہ تو ایک لفظ میں بسا اوقات دسیوں ہوتی ہیں ، جبکہ قراء ات متواترہ میں لہجات سے قطع نظر دیگر قسم کے اختلافات اس کے مقابلے میں کہیں تھوڑے ہیں ۔ جن حضرات نے اس ضمن میں تفسیر بیضاوی اور ’قراء ات سبعہ وعشرہ‘ سے اُوپر کی مزید غیر متواتر شاذہ چار قراء ات اور آٹھ روایات کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح جن لوگوں نے متنِ قرآن کو محرف ثابت کرنے کے لیے مستشرقین کے کام کا دقت سے جائزہ لیا ہے وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ قراء ات عشرہ میں کوئی ایسا اختلاف شائد ہی موجود ہو جوکہ متنِ قرآن میں تحریف کی دلیل بن سکے۔ مستشرقین نے اس ضمن میں سارا فائدہ اُن اختلافاتِ قراء ات سے اٹھایا ہے، جن کے بارے میں اُمت کا اتفاق ہے کہ یہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگئے تھیں ۔

مستشرقین نے قراء ات شاذہ اور عرضۂ اخیرہ میں منسوخ التلاوہ الفاظ سے کس طرح قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس کی تفصیلات جاننے کے لیے قارئین کے لیے جناب محمد فیروز الدین شاہ کھگہ حفظہ اللہ کی تحقیقی کاوش ’اختلاف قراء ات اور نظریہ تحریف قرآن‘ اور مولانا محمد اسلم صدیق حفظہ اللہ کے تحقیقی مقالہ ’قراء ات شاذہ، شرعی حیثیت اور تفسیر وفقہ میں ان کے اَثرات‘ کے باب پنجم کامطالعہ بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔

مذکورہ حقائق کی روشنی میں علمائے قراء ات کی کتب میں ایک مسئلہ عمومی طور پر زیر بحث آیا ہے کہ موجودہ قراء ات (عشرہ صغری وکبری) ’حروفِ سبعہ‘ کا کل ہیں یا بعض؟ علمائے قراء ات کے ہاں بالعموم اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘ کے کل نہیں ، بلکہ بعض میں سے ماخوذ ہیں ۔ اس تعبیر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر عرضہ اخیرہ میں تھوڑی بہت قراء ات منسوخ ہوئی ہوتیں تو معاملہ کی تعبیر اور طرح سے ہوتی۔ ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں اتارے گئے اختلافِ قراء ات میں سے جو اختلاف بعد ازاں غیر منسوخ طور پر باقی رہ گیا تھا، وہ اصل ’سبعۃ أحرف‘ کا ایک حصہ تھا، کل نہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر26: جب عرضہ اخیرہ میں متعدد قراء ات کے منسوخ ہونے کو علماء تسلیم کرتے ہیں تو یہ بحث اٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ موجودہ قراء اتسبعۃ أحرفکا کل ہیں یا بعض؟
جواب: آپ اپنے سوال کے ضمن میں غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو منسوخ ہوگیا وہ توختم ہوگیا، اس لیے معاملہ کو الجھانے کے بجائے سیدھا سیدھا کہنا چاہیے کہ موجودہ قراء ات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں ، کیونکہ جو ختم ہوگیا ہمیں اسے کالعدم خیال کرتے ہوئے بھول جانا چاہیے اور اب جو باقی ہے اسے بعد کی صورتحال کے مطابق کل ’سبعۃ أحرف‘سے ہی ماخوذ تعبیر کرنا چاہیے۔ یہ بات بظاہر تو ٹھیک ہے، لیکن اس بحث کو اہل علم نے اٹھایا کیوں ہے؟ اس کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ جو اہل علم ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح سبعہ لغات سے کرتے ہیں ، ان کے ہاں عام طور پر ان لغات کا تعلق مترادفاتِ تلاوت سے ہے۔اب ’اختلافِ مترادفات‘ تو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگیا چنانچہ بحث یہ ہے کہ اب جو موجودہ قراء ات ہیں ، کیا یہ تمام صرف ایک ’حرف‘ کا حاصل ہیں یا تمام ’احرف‘ کا۔ اس ضمن میں راجح موقف کیا ہے کہ عرضہ اخیرہ میں چھ حرف منسوخ ہوئے یا تمام حروف میں سے کچھ کچھ منسوخ ہوا؟ اس پر بحث تو ہم بعد میں کریں گے، لیکن یہاں سر دست اتنا بتا دینا کافی ہے کہ یہ سوال مذکورہ پس منظر کے ضمن میں پیدا ہواہے اور اگر یہ پس منظر سامنے نہ ہو تو اس تعبیر میں بھی کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ موجودہ قراء ات عشرہ ’احرف سبعہ‘ ہی میں سے ماخوذ ہیں اورجو چیز منسوخ ہوگئی ہے اب وہ کالعدم ہی ہے۔ اُس کو پہلے شمار میں لاکر پھر اس کے اوپر یہ سوال اٹھانا کہ اب وہ اس’کل‘ میں داخل ہے یا نہیں ؟ ہم کہیں گے کہ جب تک وہ منسوخ نہیں ہوئی تھیں تب تک وہ ’کل‘ میں داخل تھیں اور جب وہ منسوخ ہوگئیں تو اب وہ کل میں سے ایسے نکل گئی ہیں جیسے داخل ہی نہیں تھیں ، چنانچہ ہم عام تعبیر کے اعتبار سے یہ پس منظر چھوڑ دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ موجود قراء ات عشرہ ’سبعۃ أحرف‘ کا کل ہیں ۔

سوال نمبر27:قرآن کریم کی جمع ثالث کی نوعیت کیا تھی اور جمع عثمانی کا پس منظر کیا تھا، نیز بتائیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء ات کے ضمن میں موجود اختلاف کو ختم کیا تھا یانفس قراء ات کو؟
جواب : ہمارا کہنا یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرضہ اخیرہ میں متعدد قراء ات منسوخ ہو جانے والی قراء ات کے ضمن میں موجود اختلاف کو ختم کیا تھا، ناکہ غیر منسوخ قراء اتوں کو بھی۔ جو شخص یہ بات کہتا ہے کہ انہوں نے ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں موجود تمام اختلاف کو ختم کیا تھا وہ سب سے پہلے اس بات کو ثابت کرے۔ اگرہم کہتے ہیں کہ انہوں نے قراء اتیں ختم نہیں کیں تھیں تو ہمیں بھی اس کی دلیل پیش کرنی پڑے گی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع عثمانی کے ضمن میں کیا کام کیا تھا اور کیا نہیں ؟ اس کا تعلق وقوعہ کی خبر سے ہے، جس کا اجتہاد یا رائے زنی سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ حکم لقمان نے فلاں بات فرمائی تھی اور اس بارے میں میرااور آپ کا اختلاف ہوجاتا ہے کہ انہوں نے یہ بات فرمائی تھی یا نہیں ؟ تو اس کا تعین واقعہ کی خبر اور پھر اس کی تحقیق سے ہوگا کہ آیا یہ خبر ثابت بھی ہے یا نہیں ۔ جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور خلافت میں ’سبعۃ أحرف‘ کا منزل من اللہ غیر منسوخ اختلاف بھی ختم کر دیا تھا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک واقعہ کا تعین پیش کر رہے ہیں اور واقعہ کا تعین بغیر خبر کے نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح واقعہ کے بارے میں ہمارا دعویٰ بھی دلیل کا متقاضی ہے۔

ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قرآن اپنے دور میں لکھوا دیاتھا،اسے جمع نبوی کا نام دیا گیا۔ اس بات کو سب مانتے ہیں ، لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ آپ نے قرآن کریم ایک جگہ پر جمع نہیں فرمایا تھا، بلکہ متفرق حالت میں موجود تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ قرآن مجید کے بے شمار قاری، [تقریبا سات سو]شہید ہوگئے۔ ان کے شہید ہونے کی وجہ سے اس ضرورت کا احساس پیداہوا کہ وہ قرآن ،جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں مختلف لوگوں نے لکھا تھا، اسے ایک جگہ پراکٹھا کرلیا جائے، ورنہ یہ نہ ہو کہ لوگ فوت ہوتے جائیں اور وہ جو لکھا ہوا قرآن ہے وہ ضائع نہ ہوجائے، توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قراء توں کو جمع کیا تھا یا قرآن کو جمع کیا تھا یا لکھے ہوئے قرآن کو جمع کیاتھا؟جواب یہ ہے کہ لکھے ہوئے قرآن کو ،جسے رسم الخط کہتے ہیں ، یکجا کیا تھا، ورنہ قرآن کے پڑھنے والے ہزاروں لاکھوں میں تھے، چند سو کے شہید ہوجانے پر کونسی پریشانی لاحق ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لکھا ہوا قرآن ایک جگہ پر جمع کیا تھا۔

شروع شروع میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کام سے بہت گھبرائے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار قائل کرنے پر اللہ تعالی نے ان کا ذہن کھول دیا۔ پھر مناسب آدمی کی تلاش شروع ہوئی جو یہ کام کرے، تو نظر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ پر جا ٹھہری۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی اس کام سے بہت گھبرائے کہ یہ کام میں کیسا کروں ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن کریم کو ایک جگہ جمع نہیں فرمایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا سینہ بھی اس حوالے سے کھول دیا۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے عملاً یہ کام اتنا بوجھ والا محسوس ہوتا تھا کہ اگر مجھے اُحد پہاڑ اٹھا کر رکھ دینے کا حکم دیا جاتا تو وہ اس کام سے زیادہ سہل تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کس چیز کا بوجھ سمجھتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ بوجھ کی نوعیت یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں اس پر آئندہ قرآن کریم کی پرکھ کا معیار طے ہوگا۔

بہرحال یہ کا م کرلیا گیا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ گئے اور پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول ان میں سے ایک گواہی تو اس بات کی تھی یہ مجھے اللہ کے رسول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید پہلے سے موجود لکھے ہوئے قرآن کو متفرق لوگوں سے دودو گواہیوں کے ساتھ اخذ کرکے ایک جگہ جمع کردیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول ان دو گواہیوں کی نوعیت یہ تھی کہ ایک گواہی اس بات کی تھی یہ آئت مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی ہے اور دوسری گواہی اس بات کہ یہ میں خود آپ کی جناب سے براہ راست لکھی ہے۔

ضروری محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کردی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زندگی میں مکمل قرآن جو لکھوا دیا تھا اس کی حکمت کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم چونکہ وحی باللفظ ہے، جس کے الفاظ کی بحفاظت امت کو منتقلی کافی مشکل امر تھا، چنانچہ آپ نے اس کو مکمل لکھوا دیا تاکہ کسی وقت الفاظ قرآن کے ضمن میں پیدا ہونے والے اختلاف کو حل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس لکھے ہوئے قرآن کو معیاربنا کر صحیح وغلط کا تعین کیا جاسکے، جیساکہ اس کی مثال یوں ہے کہ آج کل بھی جب ہم پڑھتے ہوئے بھول جاتے ہیں ، تو قرآن مجید کھول کر درست کا تعین کرلیتے ہیں ۔ الغرض قرآن کو لکھوانے کی دو وجہیں تھیں :

۱۔ قرآن مجید چونکہ وحی باللفظ ہے اور روایت باللفظ میں الفاظ کی تبدیلی کا چونکہ اندیشہ ہوتا ہے اس لیے قرآن کریم کا رسم خود لکھوا دیا، تاکہ قرآن کے الفاظ محفوظ رہ سکیں ۔
۲۔ مابعدادوار میں قرآن یا اس کے لفظوں کے حوالے سے کوئی اختلاف پیداہوجائے تو کوئی ایسا معیار موجود ہو، جو اختلا ف کی صورت میں بطور معیار موجود ہو۔

بہر حال اب بحث کرتے ہیں جمع عثمانی کے بارے میں ۔ سب سے قبل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جو مسئلہ پیدا ہوا اس کو سمجھ لیں ، کیونکہ جب تک بات کا پس منظر معلوم نہ ہو، پتہ چلنا مشکل ہوتا ہے کہ مسئلہ کیا تھا اورپھر اس مسئلہ کا علاج کیا تجویز کیا گیا۔ ضرورت یہ پیش آئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عرصہ دراز سے اختلاف قراء ت کے ضمن میں کچھ مسئلہ درپیش تھے:

۱۔ عرضۂ اخیرہ میں مترادفات کے قبیل کی کافی چیزیں منسوخ ہوگئی تھیں ، لیکن چونکہ جبریل علیہ السلام کے ساتھ اس آخری دور میں اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم موجود ہی نہیں تھے، تو ان چیزوں کی تفصیلات کا علم نہ ہوسکنے کی وجہ سے کئی صحابہ رضی اللہ عنہم ان منسوخ التلاوۃ الفاظ کی تلاوت کرتے، بلکہ انہوں نے اپنے ذاتی مصاحف میں ان کو باقاعدہ طور قرآن لکھ رکھا تھا۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کئی ایسے امور کی تلاوت کر رہے تھے ، جو کہ منسوخ ہوچکے تھے اور مدینہ کے اندر وباہر یہ اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا رہتا تھا کہ کوئی کہتا تھا یہ قرآن ہے اور کوئی کہتا تھا یہ قرآن نہیں ہے۔

۲۔ دوسرا اختلاف یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی ابتدائے کتابت کے دور میں فرمایا تھا:

(لا تکتبوا عنی، ومن کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ) [صحیح مسلم:۵۳۲۶ ]

کہ مجھ سے قرآن کریم کے علاوہ کچھ نہ لکھو، تاکہ وحی باللفظ کا وحی بالمعنی سے اختلاط نہ ہوجائے، چنانچہ جب اختلاط کا اندیشہ ختم ہوگیا تو آپ نے حدیث لکھنے کی اجازت دیدی، جیسا کہ روایات میں موجود ہے۔ اس ضمن میں درپیش مشکل یہ تھی کہ لوگ قرآن کی تبیین کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو بھی قرآن کے ہمراہ لکھ لیتے تھے، جنہیں بعد ازاں قرآن سے الگ نہ لکھنے کی وجہ سے غلطی سے تلاوتِ قرآن میں بطور قراء ات داخل کرلیا جاتا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کسی مصدقہ مصحف کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس قسم کے تفسیری کلمات کا اختلاف بھی زوروں پر پہنچا ہوا تھا۔ لوگوں میں ان تفسیری توضیحات کے ضمن میں شدید اختلاف چل رہا تھا کہ بعض لوگ انہیں قراء ت کا درجہ دے کر باقاعدہ تلاوت کرتے۔

۳۔ قرآن کریم کے ضمن میں موجود اس قسم کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر یہود ونصاری نے بھی سازش کرکے کئی کلمات اور الفاظ کو درمیان میں داخل کردیا تھا۔ عبداللہ بن سبا یہودی سازشی کو کون نہیں جانتا ، ان جیسے لوگوں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی طرف سے کئی کئی چیزیں گھڑ کر قرآن مجید کی قراء ات پر درمیان میں پھیلانا شروع کردیں ۔ ضرورت اس امر کی تھی حکومتی سطح پر حکومتی نگرانی میں کوئی ایسا مصدقہ مصحف تیار کروایا جائے جسے بطور معیار کے لاگو کرکے اس قسم کے اختلافات کا فیصلہ کیا جائے۔

اِدھر یہ معاملے توپہلے ہی چل رہے تھے کہ اُدھر ایک ایسا اہم واقعہ پیش آگیا کہ جو ان تمام اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایک تحریک کا سبب بن گیا۔ ہوا یوں کہ آذربائیجان اور آرمینیہ وغیرہ کے علاقے، جوکہ مدینہ وغیرہ سے کافی دور تھے، کیونکہ قریب کے لوگوں میں یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا، ان علاقوں میں یہ مسئلہ پیدا ہواکہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کے تلامذہ اور اولادیں تھیں ، ان لوگوں کے اندر اپنے اساتذہ اور خاندانوں کی عصبیت کی وجہ سے یہ مسئلہ پیداہوا کہ میرے استاد کا جو اندازِ تلاوت ہے وہ تمہارے استاد سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جس آج بھی مختلف مسالک کے مشائخِ قراء ات کے تلامذہ کے ہاں اس قسم کا احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ میرا استاد زیادہ قابل ہے، حالانکہ ایسانہیں ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی قراء ات میں ترجیح کا اختلاف جب زیادہ شدت اختیار کرگیا تو اس قسم کے مشاہدات بھی سامنے آئے کہ بعضوں نے تمہاری قراء ت غلط، ہماری صحیح ہے۔ دیگر بعضوں نے جوابی رد میں اس دوسری قراء ت کی تغلیط کردی۔

یاد رہے کہ اختلافِ قراء ات کے ضمن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کئی دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین اس قسم کے اختلافات رو نما ہوئے کہ آوازیں بلند ہوگئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا دفعہ اس اختلاف کو دبانے کی کوشش فرمائی، بلکہ بعض اوقات تو انتہائی ناراضگی بھی فرمائی۔ اس حوالے سے سب سے مشہور واقعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں آیا ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں موجود تھے اور ان کے اندر قرآن کریم اور اس کی قراء ات کے ضمن میں اختلاف ہوا اور آوازیں بلند ہوگئیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے نکلے، آپؐ کا چہرہ مبارک غصے سے سُرخ تھا، آپؐ نے فرمایا کہ ’’تم لوگ اختلاف کیوں کررہے ہو، اختلاف نہ کرو‘‘ اور ناراضگی سے فرمایا کہ’’ تم سے پہلے لوگ اختلاف کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے ہیں ‘‘۔ إنما ہلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتاب[صحیح مسلم: ۲۶۶۶]، سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ جو چیز منزل من اللہ ہے، اس کو سرتسلیم خم کرکے مان لو، اس بارے میں خوامخواہ اختلاف نہ کرو۔ عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسی بنیاد پر اہل سنت کا یہ عقیدہ نقل فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرنا کفر ہے۔ متن طحاویہ کی شرح میں امام ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ نے اسی روایت کو پیش کرکے بتایا ہے کہ امام موصوف رحمہ اللہ کی مراد اس سے قراء ات کی قبولیت کا مسئلہ ہے۔


میں کہنا چاہتا ہوں کہ آذربائیجان اور آرمینیہ وغیرہ میں جو اختلاف حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا، انہوں نے چونکہ اس سلسلہ میں ارشادات سن رکھے تھے چنانچہ جب مدینہ واپس تشریف لائے تو پہلا کام یہ کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور وہی لفظ بولے جو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بولے تھے۔ کہنے لگے کہ ’’أدرکْ ھذہ الأمۃ‘‘[ صحیح البخاري: ۴۹۸۷] یعنی اس اُمت کو تھام لیجئے، اگر آپ نے اس اُمت کونہ تھاما تو یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق بھی پچھلی امتوں کی طرح قرآن کو ضائع نہ کربیٹھے ۔

یہ نیا مسئلہ اس اعتبار سے زیادہ حساسیت کا متقاضی تھا کہ قرآن مجید کے بارے میں کھینچ تان جاری تھی، جبکہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں پہلے سے موجود اختلاف میں کھینچ تان کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ ایک طرح سے لا علمی کامعاملہ تھا۔

یہ ہے جمع عثمانی کا وہ پس منظر، جس پر جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو مسائل درپیش تھے وہ مذکورہ چار نوعیتوں کے تھے۔ ایسا کوئی مسئلہ وہاں زیر بحث ہی نہ تھا کہ اختلاف قراء ات کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اختلاف غیر منسوخ طور پر چھوڑ گئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے حوالے سے کوئی مشکل درپیش تھی۔ اختلاف قراء ات سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پریشان تھے اور نہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ، کیونکہ ایسا ہوتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیامطلب ہوتا: (إنما ھلک من کان قبلکم باختلافھم فی الکتاب) [صحیح مسلم: ۲۶۶۶] آپؐ نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں قراء ات کے تنوع پرتشویش کااظہار نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش اس پر ہوئی کہ اس تنوع قراء ات کے انکار کے سلسلہ میں انکار کا جو رویہ تھا،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش ہوئی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو بھی وہی تشویش ہوئی تھی جو اس قسم کے اختلاف پر ہونی چاہیے تھی۔ ایک سے زیادہ روایات میں صراحت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں جب بھی منزل من اللہ قرآن یا اس کی قراء ات کے ضمن میں کوئی اختلاف پیدا ہوا تو آپ نے ہر موقع پر ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ اور ’’فاقرؤا ما تیسَّر کلّھا شافٍ کافٍ‘‘ وغیرہ الفاظ بول کر اس قسم کے اختلاف کا خاتمہ فرمایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی آذربائجان اور آرمینیہ میں منزل من اللہ غیر منسوخ قراء ات میں موجود اختلاف کو ختم کرنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں جمع کرکے کہا تھا:

’’اذکر اللّٰہ رجلا سمع النبی قال ان القرآن انزل علی سبعۃ أحرف کلھا شاف کاف الا قام ، فقاموا حتی لم یحصوا فشھدوا بذلک۔‘‘ [مسند أبو یعلی]
معلوم ہوا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اللہ کی قسم دے کرگواہی طلب کی کہ جس جس نے حدیث ’سبعۃ أحرف‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی ہے تو وہ کھڑا ہوجائے، تو اتنی بڑی تعداد کھڑی ہوگئی کہ اسے شمار کرنا ممکن نہ تھا۔

فرض کریں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو مشکل درپیش ہوئی، اگر یہ مشکل آپ کو درپیش ہوتی تو آپ کیا کرتے؟ میں یہ کہتاہوں کہ ہمارے زمانے میں اس قسم کا اختلاف ہوا ہے۔ سعودی عرب میں بھی ہوا، مصر میں بھی اور پاکستان میں بھی، بلکہ دیگر ممالک میں بھی ایسا اختلاف پیدا ہوا، اگرچہ اس کی نوعیت کچھ مختلف تھی وہ یہ کہ جب سے مطبع خانے آئے اور قرآن کریم کتابت کے بجائے پرنٹنگ پریس سے دھڑا دھڑ چھپنے لگے تو املائی اغلاط کی کثرت ہوگئی، حتی کہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ایسے محقق نسخے تیار کیے جائیں ، جنہیں معیار کا درجہ دے دیا جائے۔ لوگوں نے انفرادی کوششیں بھی کیں اور حکومتی سطح پر بھی کوششیں ہوئی۔ مصر میں ملک فواد الاول نے اور سعودیہ میں شاہ فہد بن عبد العزیز وغیرہ نے اپنی نگرانی میں باقاعدہ اس کام کو کروایا۔ پاکستان میں وسائل کی قلت کی وجہ سے غالبا بھٹو دور میں ایک آرڈیننس جاری کردیا گیا، جس کی رو سے لازم کردیا گیا کہ قرآن کریم کی کوئی طباعت وزارت الاوقاف کی طرف سے مقرر دو پروف ریڈروں کی نظر ثانی کے بغیر نہیں کی جاسکے گی۔
سعودی عرب نے تو اپنے وسائل کی کثرت کے پیش نظر یہ کام بھی بعد ازاں کیا کہ تمام غیر مصدقہ مصاحف کو ضبط کرکے حکومتی سطح پر تیار شدہ تحقیقی مصحف، جس کا نام مصحف مدینہ تھا، کو لازم کردیا ہے۔ حتی کہ سعودیہ میں عمرہ یا حج کے مواقع پر باہر سے کوئی قرآن لانے پر ایک دور تک سخت پابندی بھی رہی ہے۔ آج بھی سعودی عرب میں کوئی نجی ادارہ ذاتی طور پر کوئی قرآن طبع نہیں کرسکتا، جس نے اس سلسلہ میں کوئی ہدیہ دینا ہوتا ہے وہ بھی وزارۃ الأوقاف والشئوون الإسلامیۃکو ہی آکر تعاون دیتا ہے،وزارت اس کے تبرع کو مصحف مدنیہ کی اشاعت میں شامل کرلیتی ہے۔

اسی قسم کا کام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا، جو آج کے زمانہ میں سعودی حکومت نے کیا۔ انہوں نے اس سارے اختلاف کو حل کرنے کے لیے تین قسم کے اقدامات کیے:

۱۔ پہلے مرحلہ پر مدینہ اور اس کے قرب جوار میں مترادفات اور تفسیری کلمات کے بطور قرآن رائج ہونے کے ضمن میں جو اختلاف تھا اس کا حل یہ سوچا گیا حکومتی نگرانی میں ایک مصدقہ نسخہ تیار کروا کر باقی موجود تمام غیر مصدقہ مصاحف کو ضبط کرکے ختم کردیا جائے، تاکہ ضرورت کی تکمیل حکومتی نسخہ سے پوری ہوجائے اور قرآن مجید میں کمی وزیادہ یا الفاظ کی تبدیلی کے ضمن میں جس قسم کے غیر منزل اللہ یا منسوخ شدہ اختلافاتِ تلاوت موجود تھے، جنہیں مستشرقین نے بعد ازاں تحریف قرآن کی بنیاد بنایا تھا، انہیں ختم کیا جا سکے۔

۲۔ مصاحف کے خاتمہ کے لیے چونکہ ضروری تھا کہ حکومتی سطح پر ایک مصدقہ ومحقق نسخہ تیار کرکے پھیلایا جائے۔ اس کے لیے نئے سرے سے کام کرنے کے بجائے پہلے سے موجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کام کو بنیاد بنا لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ روایات سے واضح ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جس طرح مسجد نبوی کے دروازہ پر کھڑا ہو کر دو افراد کی گواہیوں سے قرآن کریم کو یکجا کیا تھا اب کی بار ایسا نہیں ہوا، بلکہ صحف ابی بکر، جوکہ بعد ازاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں آگئے تھے، کو منگوا کربارہ افراد کی ایک کمیٹی ترتیب دی گئی، جس کے ذمہ یہ کام تھا کہ صحفِ ابی بکر کی نئے سرے سے چیکنگ کرکے اسے ایک مکمل مصحف کی صورت دی جائے اور جو کمیاں قبل ازیں رہ گئی تھیں انہیں پورا کر دیا جائے، کیونکہ امت کے لیے ایک ’معیار‘ کو عملی طور پر مہیا کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے قرآن کریم کے بارہ بڑے بڑے ماہرین نے کام شروع کردیا۔ اس ضمن میں صرف ایک مقام پر یہ مشکل درپیش آئی کہ صحف ابی بکر میں امتداد زمانہ کی وجہ کلمہ التابوت کی دوسری تاء مٹ گئی تھی اور معلوم نہ ہو پارہا تھا کہ یہ کلمہ چھوٹی تاء کے ساتھ لکھا جائے یا بڑی تاء سے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر کی گئی تو انہوں نے ایک راہنما ارشاد یہ فرمایا:
( إذا اختلفتم أنتم وزید فاکتبوہ بلغۃ قریش، فإنما نزل بلسانہم) [بخاری:۳۵۰۶]

چنانچہ آپ کے ارشاد کی روشنی میں اس کلمہ کو لغت قریش کے مطابق لکھ دیا گیا۔ قابل نوٹ نکتہ یہ ہے کہ بعد ازاں اس اجتہاد کو اس طرح سے باقاعدہ قطعیت بھی یوں مل گئی کہ اس لفظ کو اس طرح سے لکھنے کی نص حاصل ہوگئی۔ اس طرح سے یہ کہنا اب ممکن ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ مصاحف کا طریقہ کتاب ان کا اپنا ذاتی نہ تھا بلکہ رسول اللہ ہی سے منقول چلا آتا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لغت قریش کے مطابق لکھنے کا حکم دیا تھا، ناکہ لغت قریش کو باقی رکھ کر باقی لغات کو ختم کرنے کی تلقین فرمائی تھی، جیسا کہ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے۔

بہرحال جب یہ تحقیقی نسخہ تیار ہوگیا تو مدینہ میں موجود بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمل پر موافقت کا اظہار کیا، جس کے بعد اس نسخہ کی پانچ، بعض روایات کے مطابق سات اور بعض روایات کے مطابق آٹھ کاپیاں کروا کر حکومتی نسخہ جات کے طور پر نشر کردیا گیا، جبکہ باقی متنازعہ وغیر مصدقہ مصاحف کو ضبط کرکے تلف کردیا گیا۔

یاد رہے کہ ان حکومتی نسخہ جات کو اعراب ونقاط سے خالی رکھا گیا تھا، تاکہ عرضۂ اخیرہ میں ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں باقی رہ جانے والے اختلافات کو یہ جامع رسم شامل ہوسکے۔
۳۔ قرآن کی حفاظت کے بارے میں قرآن کریم میں یوں وارد ہوا ہے کہ بل ہو آیات بیِّنات فی صُدور الَّذین أوتو العلم اور امت محمدیہ کے بارے میں احادیث میں موجود ہے کہ أناجیلہم فی صدورہم [مجمع الزوائد:۸؍۲۷۴]۔ قرآن کریم کو اس طریقہ سے محفوظ رکھنے کی کئی حکمتیں ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تلفظ وادائیگی کی باریکیاں تو چونکہ رسم قرآن اور ضبطِ کلمات میں آہی نہیں سکتیں اسی لیے رسم الخط کو اصل بنانے کے بجائے حفاظ اور قراء کرام کو اصل بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ بات بھی مد نظر رہے کہ مصاحف عثمانیہ کو چونکہ نقاط اور حرکات سے معری رکھا گیا تھا، چنانچہ مصاحف کے ہمراہ ضرورت تھی کہ قراء کرام کو بھی ساتھ بھیجا جائے تاکہ وہ قرآن کریم کی تعلیم دیں اور تعلیم وتعلّم اور تمام قسم کے دیگر اختلافات کے لیے مصحف بطور معیار ان کے ہمراہ ہو، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی طرح کیا۔ مدینہ، مکہ، بصرہ، شام اور کوفہ وغیرہ کی طرف بھیجے مصاحف کے ہمراہ حکومتی سطح پر ماہر قراء کرام کو بھی روانہ کیا گیا۔ لوگوں کے حق میں اصل قاری تھے، جبکہ مصاحف محض جانچ کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس طرح سے قاریوں نے جس انداز میں پڑھایا، بعد ازاں متعلقہ علاقہ میں وہی اندازِ تلاوت رائج ہوا۔

مذکورہ تفصیلی بحث سے واضح ہوگیا کہ جمع عثمانی کی نوعیت کیا تھی اور مصاحف کے ضمن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کام کا پس منظر کیا تھا۔ یاد رہے کہ جمع عثمانی کے بارے میں مذکورہ ساری تفصیل بالعموم فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تفصیلا ذکر کی ہے۔ بہرحال اب ہم آتے ہیں اس بحث کی طرف کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء ات کے ضمن میں موجود اختلاف کو ختم کیا تھا یانفس قراء ات کو؟ اس کا جواب ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے ہاں واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کام بھی کیا تھا اس میں بہرحال دین کی خدمت کا ایک پہلو تھا، یہ ممکن نہیں کہ وہ قرآن کریم کی آیات اور قراء ات کو اپنی طرف سے ختم کرتے رہیں ، جبکہ انہیں اس قسم کاکوئی اختیار حاصل نہ تھا۔ مسلمان کا عقیدہ ہی اس کو صراط مستقیم پر باقی رکھتا ہے، کوئی آدمی جو عقیدہ صحیحہ کا مالک ہو وہ دین وشریعت کے بارے میں اپنے صریح عقائد کے منافی کبھی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کرتا۔ عقیدے میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ شریعت ما أنزل اﷲ کا نام ہے اور جو شے ما أنزل اﷲہے، وہی وحی ہے۔ وحی ہی سے قرآن و سنت کا تعین ہوتاہے۔ وحی میں جس شے کو قرآن قرار دیا گیا، وہ قرآن بنے گی، اور جس شے کو حدیث قرار دیا گیا وہ حدیث بنے گی، اسی طرح وحی میں جس شے کو بطور قرآن ختم کردیا گیا وہ منسوخ ہوجائے گی اور جس شے کو بطور حدیث منسوخ کردیا وہ ختم ہوجائے گی۔ اس کے بارے میں اہل سنت کا اجماع ہے اور یہ اجماع ہر دور میں رہا ہے کہ نسخ صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ہوسکتا ہے، اس لیے علماء کے ہاں یہ اصول طے شدہ ہے:

’’ والإجماع لاینسخ‘‘ یا ’’والإجماع لیس بناسخ‘‘

البتہ علمائے اُصول کے ہاں یہ مسئلہ ضرور موجود ہے کہ کسی شرعی مسئلہ کے بارے میں اجماع صریح نص کے مخالف نظر آئے تو اب چونکہ امت تو غلطی پر اکٹھی ہو نہیں سکتی، اس لیے ضرور کوئی نص موجود ہوگا، جو ہمارے علم میں نہیں آرہا ہوگا اور وہ اس شرعی مسئلہ کا ناسخ ہوگا، لیکن یہ عقیدہ کسی کا نہیں کہ اجماع خود کسی شے کو منسوخ کر سکتا، کیونکہ اجماع لوگوں کے اتفاق کا نام ہے۔ اگر لوگ سارے بھی متفق ہوجائیں تو نہ وحی بنا سکتے ہیں اور نہ وحی مٹا سکتے ہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں ، جو اسے ممکن سمجھتا ہے وہ انتہائی بد عقیدہ شخص ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تفصیلا بحث کی ہے، تفصیل کے شائقین کتاب ’اصول فقہ وابن تیمیہ‘ کی طرف رجوع فرما سکتے ہیں ۔

رشد’ قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں سوال نمبر۱۲ کے ضمن میں تفصیلا یہ بحث گذر چکی ہے کہ اختلاف مخیر، جیسے کفارات یا دیات وغیرہ کے قبیل کی امثلہ میں علمائے امت متفق ہیں کہ دین میں دیئے گئے کسی اختیار کو تاقیامت ختم نہیں کیا جاسکتا اور دلیل یہی پیش کی جاتی ہے کہ امت کو بشمول صحابہ اس بات کا اختیار دیا ہی نہیں گیا، تو جب سب امت مل کر یہ کام نہیں کر سکتی تو اختلافِ قراء ات کے ضمن میں یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت اس کام کو کرلیا؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دعوی ہے کہ اس قسم کی سطحی بات کوئی عالم تو کجا، کوئی صحیح العقیدہ مسلمان بھی نہیں کر سکتا۔ عام طور پر یہ قول مستشرقین نے امام القراء ت والتفسیر ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اس بات کو کہیں ذکر نہیں کیا۔ ایک جلیل القدر عالم اس طرح کی بات کربھی کس طرح سکتا ہے۔ وہ تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ جس طرح خلفائے راشدین کے ہاں سیاسی پہلوسے کچھ خاص اختیارات ہوتے ہیں کہ مصالح وغیرہ کے پیش نظر کسی شے کو وقتی طورپر مو قوف کرسکتے ہیں ، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنا شروع کردیا تھا اور بقول امام ابن قیم رحمہ اللہ مرنے سے قبل اپنا یہ تدبیری وسیاسی حکم واپس لے لیا تھا، اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فتنہ و فساد کے سد باب کیلئے متعدد قراء ات کے معاملہ کو وقتی طورپر موقوف کردیا تھا۔ لوگوں نے خلفائے راشدین کے اس قسم کے واقعات کو بعد ازاں ’اوّلیات‘ کے نام سے پیش کیا ہے۔ اس قسم کے واقعات صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت سے ۳۸ کے قریب بیان کیے جاتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف پر بحث تو بعد میں ہوگی، سردست اتنا ذکر کرنا مقصود ہے کہ اس قسم کی جاہلانہ بات گذشتہ چودہ صدیوں میں کسی مستند عالم کی نسبت سے ثابت نہیں کی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اسی سلسلہ میں الإحکام اور الفصل فی الملل والنحل میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطور دفاع کے زوردار الفاظ میں یہ فرمایا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو منسوخ کردیا تھاوہ بالکل غلط کہتا ہے، اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرتے یا ایسا کرنے کا ارادہ بھی فرماتے تو ایک ساعت کے توقف کے بغیر اسلام سے خارج ہوجاتے۔[الاحکام:۱؍۵۶۵]

امام ابن حزم رحمہ اللہ کے مذکورہ بیان میں سختی کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اس قسم کا غلط عقیدہ رکھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یاصحابہ نے یہ کام کیا، تو وہ پرلے درجہ کا بدعتی ہے۔ اُس کی غلطی کی دو جہتیں ہیں : پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجید محفوظ نہیں ہے، کیونکہ اگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن مجید میں نعوذ باللہ تحریف یا تنسیخ کردیں تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کاکیامعنی ہوگا : ’’لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ‘‘

دوسری وجہ یہ ہے صحابہ کرام کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھناکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اس قسم کا کام کرسکتے ہیں ؟ کسی صحیح العقیدہ مسلمان کے لیے ممکن ہی نہیں ۔ ہمارا تو ان کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ وہ عادل ہیں ، صادق ہیں اور قرآن کریم کے محافظ ومبلغ ہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر28: اِمام ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کے حوالے سے وضاحت فرمائیے کہسبعۃ أحرف کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے اوران سے منسوب یہ رائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو ختم کردیا تھا، کیا صحیح ہے؟
جواب: ’حروفِ سبعہ‘ سے مراد کے ضمن میں سوال نمبر ۱۴، ۱۵ میں گذر چکا ہے کہ اس سلسلہ میں اہل علم کے ہاں دو آراء معروف ہیں ۔ بقول حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد ’سبعہ لغات‘ ہیں ، جبکہ حافظ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد اختلافِ قراء ات کی ’سات وجوہ‘ ہیں ۔ ہمارے مطالعہ کے مطابق دونوں شخصیتوں کی اپنی رائے کو ’جمہور‘ کی طرف منسوب کرنے کی تطبیق یہ ہے کہ جمہور قراء حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی رائے پر ہیں ، جبکہ جمہور علماء حافظ اِبن عبد البر رحمہ اللہ کی رائے کے قائل ہیں ۔

’سبعہ لغات‘ کے قائلین میں سے علماء کی طرف سے نمائندہ شخصیت امام طبری رحمہ اللہ کی ہے، جبکہ’ سبعہ اَوجہ‘ میں قراء کی طرف سے نمایاں حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ہوئے ہیں ۔ قبل ازیں ’سبعۃ أحرف‘کی مراد کے تعین میں دلائل کی روشنی میں ہم نے ترجیح ’سبعہ لغات ‘کے قول کو دی تھی، اگرچہ وہاں ہم نے اِن اہل علم کے ہاں داخلی طور پر موجود اختلاف کو ذکر نہیں کیا تھا کہ جو حضرات ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں ، ان کے ہاں مزید اس سلسلہ میں بھی اختلاف ہے کہ ’لغاتِ سبعہ ‘ سے کیا مراد ہے۔ اس بارے میں ان کی دو آراء ہیں :

۱۔ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ’ لغات سبعہ‘ میں شامل تینوں قسم کے اِختلاف (یعنی لہجات، مترادفات اور اسالیب بلاغت) میں سے اصل شے’ مترادفات‘ کا اختلاف ہے،کیونکہ کسی بھی لغت میں لہجات کا متعدد ہونا اورمختلف اَسالیب سے بات کو مخاطب تک پہنچانا ذیلی طور پر ہی شامل ہوتا ہے، لیکن تعددِ لہجات اور اسالیبِ کلام کی کثرت اس بات کا لازمہ نہیں کہ اس اختلاف کو لغات کے تعدد سے تعبیر کیا جائے، مثلا اردو زبان دنیا میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے، مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اردو بولی میں نمایاں فرق ہے، لیکن بولیوں کے اس تعدد کو عقلی طور پر نفسِ زبان کے تعدد سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، جیسے لکھنؤ اور لاہور کی اردو بولی کا فرق ہے، لیکن کوئی دانش مند یہ نہیں کہے گا کہ بولیوں کی اس دوئی کو اردو لغت کی دوئی سے تعبیر کیا جائے۔ یہی حال کراچی اور بعض دیگر علاقوں میں بولے جانے والے اردو لب ولہجے کا ہے، لیکن اس کے باوجود اردو زبان ایک ہی ہے، جسکے ادباء اور شعراء بھی ایک ہی ہیں ۔ الغرض ان علماء کے ہاں موجودہ قراء ات عشرہ میں پایا جانے والا لہجوں کا اختلاف بنیادی طور پر کئی لغات کا اختلاف نہیں ، بلکہ صرف ایک لغت قریش ہی کا ذیلی اختلاف ہے۔ رہا اسالیبِ بلاغت کا اختلاف، تو اس کے بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک ہی لغت کاایسا طرز تکلم ہوتا ہے، جس میں مخاطب کی رعائت کرتے ہوئے مختلف اَسالیب سے بات کو واضح کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں امام طبری رحمہ اللہ کی رائے کی طرف میلان پیش کرنے والے علماء میں نمایاں نام امام طحاوی رحمہ اللہ ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کا آتا ہے۔

۲۔ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ کے بالمقابل بعض علماء ’سبعۃ أحرف‘ سے جب ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں ، تو لغات میں اصل شے لہجوں کے اختلاف کو سمجھتے ہیں ، جبکہ باقی دو قسموں کے اختلافات کو ذیلی شمار کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے ہاں عرضہ اخیرہ میں مترادفات کا اختلاف ختم ہوجانے کے بعد ’سبعہ لغات‘ کا بنیادی اختلاف چونکہ باقی بچ گیا تھا، اس لیے موجودہ قراء ات عشرہ صرف ایک لغت قریش کے بجائے مزید چھ لغات کو بھی محیط ہیں ۔ ان اہل علم کے ناموں سے تو ہم واقف نہیں ، لیکن عام طور پر امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ ، امام ابو محمد مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ اور امام دانی رحمہ اللہ ، شیخ القراء قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ وغیرہ جب ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں ، تو امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت نہیں کرتے، جس سے محسوس ہوتاہے کہ یہ لوگ غالبا چھ حروف کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ۔

’سبعۃ أحرف‘ بمراد ’سبعہ لغات‘ کے قائلین کے ہاں چونکہ بالعموم یہ بات روز اَوّل سے تقریبا طے چلی آرہی ہے کہ موجودہ قراء ات ایک حرف قریش سے ماخوذ ہیں ، نیز ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین بھی یہ بات جانتے ہیں کہ ’سبعہ لغات ‘ مراد لینے کی صورت میں واضح بات ہے کہ عرضہ اخیرہ میں مترادفات کے منسوخ ہو جانے کے بعد باقی رہ جانے والے اختلاف کو متعدد لغات کے قبیل سے ماننا غیر معقول ہوگا، چنانچہ وہ ابتداء ہی سے اس مشکل سے یوں نکل گئے ہیں کہ انہوں نے ’حروفِ سبعہ‘کی توضیح ’اوجہ سبعہ‘ سے کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں بھی جن حضرات نے حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے پر طعن کیا ہے، وہ یہی کہتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ لہجوں اور اسالیب بلاغت کا باقی رہ جانے والا اختلاف صرف ایک لغت قریش کا حاصل قرار پائے گا اور کتب میں جب ’سبعہ اوجہ‘ کو ’سبعہ لغات‘ کے قول پر ترجیح دی جاتی ہے تو وہ اسی تناظر میں دی جاتی ہے کہ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کی صورت میں لازم آئے گا کہ موجودہ قراء ات صرف ایک حرف قریش کا حاصل ہیں ، رشد ’قراء ات نمبر ۱‘ میں مولانا تقی عثمانی کے مضمون کا سارارجحان اسی طرف ہے ۔

ہم کہتے ہیں کہ قطع نظر اس بحث کے کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے ماننے کی صورت میں چھ حروف کا منسوخ ہونا لازم آتاہے،یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اگر ہم ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لیں تو بھی مذکورہ سوال واحتمال باقی رہتا ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کی بیان کردہ ’سات وجوہ اختلاف‘ ایک حرف قریش کا حاصل ہیں یا مختلف لغات عرب سے ماخوذ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ ، جو ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لینے والے اولین اور نمایاں ترین عالم ہیں ، باوجود اس کے ’سبعۃ أحرف‘ کی مراد کے سلسلہ میں امام ابن جزری رحمہ اللہ نے اصلا ان کی رائے کو اختیار کیا ہے ، لیکن دوسری طرف عملاً جب اس بحث پر آتے ہیں کہ’ سبعہ اَوجہ‘ کا یہ اختلاف سات احرف کا حاصل ہے یا ایک حرف قریش کا؟ تو اپنا میلان اس طرف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک حرف کاحاصل ہے۔ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین کی رائے کا امام طبری رحمہ اللہ کی رائے سے کوئی تعارض نہیں ، کیونکہ انہوں نے قراء ات کے اختلاف کی جو سات اقسام ذکر کی ہیں ، ان کے حوالے سے یہ سوال تو پھر بھی قابل حل رہتا ہے کہ یہ ’سات اوجہ‘ ایک حرف قریش میں موجود لہجات واسالیب بلاغت کے اختلاف کا حاصل ہیں یا ساتوں حروف میں موجود لہجات یا اسالیب بلاغت کا خلاصہ ہیں ؟

مزید برآں موجودہ قراء ات عشرہ کو ایک حرف قریش کا حاصل ماننے والے جہاں یہ دلیل دیتے ہیں کہ تعددِ لغات بنیادی طور پر مترادفات کی کثرت کا نام تھا اور جب عرضہ اخیرہ میں مترادفات منسوخ ہوگئے تو گویا کہ لغات کا اساسی اختلاف بھی ختم ہوگیا، وہیں ان کے کچھ دلائل اس کے علاوہ بھی ہیں ، مثلا
۱۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے:
{ وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ} [إبراھیم:۴]

اب یہاں امام طحاوی رحمہ اللہ اور امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ وغیرہ نے یہ نقل کیا ہے کہ اس آیت میں آپ کی قوم سے مراد قومِ قریش ہے، ورنہ عمومی اعتبار سے تو آپ پورے اقوامِ عالم کی طرف مبعوث ہوئے تھے، چنانچہ یہ بات طے ہوگئی کہ آپ پر اترنے والی کتاب اصلا لغتِ قریش پر اتری تھی، جس کے مزید دلائل یہ بھی ہیں کہ قرآن کہتا ہے:

{فَإنَّمَا یسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ} [الدُّخان:۵۸]
{ فإنَّما یسَّرنَاہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہِ قَوْمًا لُدًّا} [مریم:۹۷]
ان اہل علم کے بقول مذکورہ آیات میں بلسانک کہہ کر جس زبان کو آپ کی زبان کہا گیا ہے، اس کے بارے میں واضح ہے کہ وہ آپ کی مادری زبان قریش ہی تھی۔

۲۔ صحیح بخاری میں موجود روایت سے بھی اس بات کو تقویت اس طرح سے ملتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کی کمیٹی کو یہ ارشاد واضح طور پر فرمایاتھا:
(إذا اختلفتم أنتم وزید فی شیٔ فاکتبوہ بلغۃ قریش، فإنما نزل بلسانہم)[بخاری:۳۵۰۶]
اب یہاں لفظ إنما کے ساتھ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے طریقِ کتابت میں اختلاف کی صورت میں قریشی رسم الخط کو اختیار کرنے کا حکم دیا تھا، جس کی وجہ انہوں نے خود یوں فرمائی کہ قرآن مجید اَصلا انہی کی زبان میں اترا ہے۔ یاد رہے کہ کلمہ إنما کلام عرب میں حصر کا فائدہ دیتا ہے۔

ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی اصل زبان لغت قریش تھی، جس میں بعد ازاں مشقت کے خاتمے کے لیے دیگر لغات میں پڑھنے کی اجازت اگرچہ دیدی گئی تھی، لیکن جب وہ مشقت ختم ہوگئی تو لغات کے اس اختلاف ختم فرما کر اصل لغت قریش کو باقی رکھا گیا، جس میں اب ذیلی طور پر لہجات (اصول) اور اسالیب بلاغت(فروش) کا موجودہ اختلاف شامل ہے۔

عصر حاضر میں عام طور پر ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین امام طبری رحمہ اللہ کے موقف پر ایک بنیادی اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کے بعد جہاں چھ لغات کا نسخ ماننا پڑتا ہے،پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ یہ لوگ جب کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فتنہ وفساد کے خاتمہ کے لیے چھ حروف کو موقوف کردیا تھا، تو اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ حروف کو موقوف کرنے کے باوجود انہوں نے موجودہ قراء توں کے اختلاف کو باقی کیوں رکھا؟ اس کے جواب میں ہم واضح کرتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘کے ضمن میں امام طبری رحمہ اللہ کے ساتھ تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ابتداء اً ’سبعۃ أحرف‘ میں مترادفات کا ایک وسیع اختلاف موجود تھا جسے عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیا گیا، لیکن لہجوں اور اسالیبِ بلاغت کا اختلاف باقی رکھا گیا، چنانچہ اس بات کا تو جواب واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اول تو اپنی طرف سے کوئی کام کیا ہی نہیں تھا، بلکہ عرضہ اخیرہ میں منسُوخ التِّلاوۃ اختلاف کوختم فرما یا تھا جوکہ دور عثمانی میں خصوصافتنہ کی بنیاد بنا ہوا تھا، لیکن جو اختلاف منسوخ نہیں ہوا تھا اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی باقی رکھا تھا۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کو صحیح ماننے کی صورت میں لازم آتا ہے کہ حروف اور قراء ات دو الگ الگ چیزیں ہیں ، جن میں سے حروف تو منسوخ ہوگئے، البتہ قراء ات کا اختلاف باقی ہے، تو اس کے جواب میں حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کی طرف سے ہم کہنا چاہیں گے کہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لینے کی صورت میں بھی حروف اور قراء ات کو الگ الگ ماننا پڑتا ہے، کیونکہ موجودہ قراء ات سبعہ یا عشرہ سے بھی ’سبعۃ أحرف‘کی نسبت توافق کی نہیں ۔ جمیع علمائے قراء ات کے ہاں بھی ’سبعۃ أحرف‘ اورموجودہ سبعہ قراء ات ایک چیز نہیں ، بلکہ ’سبعۃ أحرف‘اساس ہیں اور موجودہ قراء ات سبعہ یا قراء ات عشرہ انہی سے ماخوذ ہیں ۔ مزید برآں جمیع اہل علم کا اتفاق ہے کہ آج ’سبعۃ أحرف‘ کا مصداق دنیا میں موجودہ قراء ات عشرہ ہی ہیں ۔

باقی رہا یہ معاملہ کہ بعض لوگوں کے خیال میں امام ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منزل من اللہ سات حروف کو بارہ ہزار صحابہ کے اتفاق رائے سے منسوخ کردیا تھا، تو اس بارے میں پچھلے سوال کے جواب میں ہم نے وضاحت کردی ہے کہ یہ بات حافظ ابن جریر رحمہ اللہ پر الزام ہے، وہ تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت کے خلیفہ کو سیاسی وتدبیری طور پر جو بعض اختیارات شریعت کی طرف سے دئیے گئے ہیں ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی ضمن میں ’حروف سبعہ‘ کو موقوف کردیا تھا، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت کے آخر میں شرعی صراحت کے باوجود ایک مجلس کی تین طلاقوں کو وقتی مصلحت کے تحت تین شمارکرناشروع کردیا تھا۔ اب خلیفہ راشد کو اس قسم کا اختیار حاصل ہونے کے بارے میں توتمام جلیل القدر آئمہ کے ہاں کو ئی اختلاف نہیں ، بلکہ اس معاملے میں حدیث (علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین) [ابن ماجہ:۴۳] کی روشنی میں تو اب یہی رائے معروف ہوگئی ہے کہ خلفائے راشدین کا جاری کردی سیاسی وتدبیری حکم بھی مثل شریعت کے دائمی وابدی طور پر بطور قانون نافذ کیا جائے گا۔ اسی بنا پر ہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کافیصلہ ہو یا خلفائے راشدین کے بعض دیگر اس قسم کے فیصلے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقتی ضروریات ومصالح ختم ہوجانے کے باوجود ان امور کے عین اسی طرح جاری کرنے پر ہمارے روایتی دینی فکر میں کس طرح اصرار کیا جاتا ہے، مثلا اس سلسلہ میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین شمار کیے جانے کے بارے میں مذاہب اربعہ کی رائے معروف ہے، حالانکہ ہماری رائے ان تمام امور میں مذہب اہل الحدیث کے مطابق یہی ہے کہ جن ضروریات ومصالح کا شریعت نے خود لحاظ کرلیا ہے، دائمی وابدی حیثیت تو صرف انہی کو حاصل ہے، البتہ تمدن کے تحت پیدا ہوجانے والی دیگر وقتی ضروریات ومصالح کے ضمن میں خلفائے راشدین کا اجتہاد ہو یا صحابہ رضی اللہ عنہم وآئمہ مجتہدین کی فقہی رائے، بہرحال وقتی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد اس کا ازخود خاتمہ ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کی کتب میں بہت مفید بحثیں ملتی ہیں ، جن پر ٹھنڈے دل سے ضرور غور ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں ہم پیچھے سوال نمبر۲۳ کے ذیل میں کافی تفصیلی بحث کرچکے ہیں ، مزید بحث کے بجائے اُسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے’سبعۃ أحرف‘ میں سے چھ حروف کے ’موقوف‘ کرنے کے بارے میں حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف پر سردست ہم اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ ہماری تحقیق کے مطابق ان کے بارے میں دیگر علماء کا یہ اعتراض تو بالکل بجاہے کہ ان کا یہ کہنا کہ چھ حروف کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ’موقوف‘ کر دیا تھا اور ’موقوف‘ کردینے کی نوعیت یہ تھی کہ بعد میں اسے’ منسوخ‘ کی مثل دائمی طور پر ختم کردیا تھا، بہرحال صحیح نہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں چھ حروف کے خاتمہ کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کام کی توجیہ منسوخ کے بجائے’موقوف‘ ہی سے کی ہے، لیکن چونکہ وہ عملاً اسے کالمنسوخ ہی شمار کرتے ہیں ، چنانچہ ان کی رائے میں اس پہلوسے موجود سقم کے ضمن میں بعد ازاں ان کی طرف سے یہ رائے پیش کی جانے لگی کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت سے چھ حروف کو منسوخ کہنے کے قائل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں ان کے موقف کے بعض قائلین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ چھ حروف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منسوخ یا موقوف نہیں کیے تھے، بلکہ عرضہ اخیرہ ہی میں منسوخ ہوگئے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے کوئی شے بطور امر سیاسی وتدبیری ’موقوف‘ نہیں کی تھی۔ یہ توجیہ بہرحال پہلی توجیہ سے صحیح ہے۔

مزید برآں یہاں اس امر کی طرف اشارہ کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا کہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ چونکہ صراحتاً چھ حروف کے نسخ کے بجائے عملاً انہیں ’موقوف‘ کردینا مانتے ہیں ، اسی لیے حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ نے یہ رائے بھی پیش کی ہے کہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وقتی طور پر چھ حروف کو ’موقوف‘ کیا تھا، چنانچہ وقتی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد اب خلفائے راشدین کے دیگر سیاسی وتدبیری فیصلوں کی مثل اِن موقوف شدہ حروف کے مطابق تلاوت کی جاسکتی ہے۔البتہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی رائے کو اس حد تک انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ نمازوں میں بہرحال اُن موقوف شدہ حروف کو نہ پڑھا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ساری غلط فہمی معاملہ کی غلط توجیہ سے پیدا ہوئی ہے، اگر معاملہ کی توجیہ ہی صحیح کی جاتی تو نہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف سے مستشرقین کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملتا، نہ امام ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ ان کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے اور نہ ہی بعد ازاں حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ اس قسم کی غیر متوازن رائے پیش فرماتے۔


حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے دلائل میں کتنا وزن ہے؟ اس کا فیصلہ ہم اہل علم پر چھوڑتے ہیں ، لیکن یہاں یہ ضرور ذکر کر دینا چاہتے ہیں کہ جو لوگ اس موقف کو سمجھنے کے بجائے اُس پرسطحی اعتراضات کرتے ہیں ، انہیں اس بات پر لازما غور کرنا چاہیے کہ امام موصوف کا جہاں علمِ تفسیر وغیرہ میں مقام مسلمہ ہے، وہیں علم القراء ات کے باب میں بھی وہ علمائے قراء ات کے ہاں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کی جلالتِ علمی اور باریک نظری کے پیش نظر مسئلہ کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد صورتحال بالکل دوسری سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت میں عام اصحاب علم ان کی رائے سے متاثر بھی ہیں اور ان کی طرف میلان بھی رکھتے ہیں ، حتی کہ بعض محقق ماہرین فن جیسے پاکستان میں پانی پتی سلسلہ کے تمام اساتذہ قراء نے بھی کھل کر یہی رائے اپنائی ہے۔ اس سلسلہ میں شیخ القراء قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کی کتاب کشف النظر اردو ترجمہ النشر الکبیرکے تفصیلی مقدمہ کے صفحہ ۸۸ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ معاملہ ایسے نہیں کہ ان کی رائے ان کی اونچے قد وقامت کی وجہ سے معروف ہوگئی ہو، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اساطینِ علم جیسے امام طحاوی رحمہ اللہ ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ اورکئی دیگر محققین اہل علم، جو کہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہوئے محض دلائل وتحقیق ہی کی روشنی میں آزادانہ فیصلہ صادر کرتے ہیں ، انکی رائے کی تائید فرماتے ہیں ۔ خود حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ، جوکہ فن قراء ت کی نمائندہ شخصیت ہیں ، نے بھی النشر الکبیر میں ’سبعۃ أحرف‘ کی بحث کے ضمن میں واضح اعتراف کیا ہے کہ اکثر اہل علم ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے پر ہیں ۔


حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں سبعۃ أحرف پر تفصیلی بحث فرمائی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے سبعۃ أحرف کی مراد کے تعین میں پانچ زیادہ معروف اقوال کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے قول کو یوں ذکر کیا ہے:
فالأول:وہو قول أکثر أہل العلم، منہم سفیان بن عیینہ، وعبد اﷲ بن وہب،وأبو جعفر ابن جریر،والطحاوی: أن المراد سبعۃ أوجہ من المعانی المتقاربۃ بألفاظ مختلفۃ نحو أقبل وتعال وہلم۔[تفسیر ابن کثیر: ۱؍۶۱]
امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے ذکر کردہ قول سے واضح ہوگیاکہ امام ابن جریر رحمہ اللہ بنیادی طور پر ’سبعۃ أحرف‘ سے جب ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں تو ان کے ہاں اس سے مراد ملتے جلتے معانی سے متعلقہ الفاظ مختلفہ مراد ہوتے ہیں ، جنہیں عام استعمالات میں ’مترادفات‘ کہا گیا ہے اور ’مترادفات‘ کے بارے میں جمیع اہل علم متفق ہیں کہ یہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ کر دئیے گئے تھے، چنانچہ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ سمیت جمہور اہل علم کی اس رائے کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ جب وہ ’سبعۃ أحرف‘سے ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں تو سبعہ لغات سے ان کی مراد ’’المعانی المتقاربۃ بألفاظ مختلفۃ‘‘، جیسے أقبل وتعال وہلم وغیرہ ہو تے ہیں ، چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ’سبعہ لغات‘ میں سے اختلافاتِ مترادفات منسوخ ہوچکے، البتہ ذیلی اختلافات یعنی لہجوں اور اسالیب بلاغت کا اختلاف منسوخ نہیں ہوا، تو سمجھ آتا ہے کہ وہ کیوں کہتے ہیں کہ موجودہ قراء ات عشرہ ( اصول وفروش) کا جمیع اختلاف ایک حرف قریش میں باقی ہے اور مترادفات کے منسوخ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ چھ حروف منسوخ ہوگئے۔

حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے بالمقابل وہ حضرات جو ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لیتے ہیں ، ان کے موقف کی نمائندگی تو رشد ’قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں سوال نمبر ۱۴، ۱۵ میں تفصیلا پیش کردی گئی تھی، البتہ ’سبعۃ أحرف‘ بمراد سبعہ لغات کے قائلین میں سے ان لوگوں کی رائے جوکہ موجودہ قراء ات عشرہ کو جمیع ’سبعۃ أحرف‘ کا حاصل مانتے ہیں ، کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے سات حروف میں سے چھ حروف کے نسخ کی کوئی حتمی دلیل نہیں ، حالانکہ یہ اس قدر اہم معاملہ ہے کہ جس کے لیے روایات میں کہیں نہ کہیں صراحت ضرور ہونی چاہیے تھی، نیز مترادفات کے ضمن میں چھ لغات کی تنسیخ کے قول کی دلیل میں محض تخمینی اندازے پیش کرنا، اہل علم کے معروف طریقوں وضابطوں کے مطابق دعوائے نسخ کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ۔ مزید برآں جب یہ بات پیچھے ذکر کی گئی ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد سات معروف قبائل عرب کی لغات ہیں اور تسلیم کیا گیا ہے کہ ان لغات کے ذیل میں لہجوں اور اسلوب کلام کے اختلافات بھی شامل تھے تو بعد ازاں محض مترادفات کے منسوخ ہونے سے یقینی طور پر یہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ لہجوں کا اختلاف صرف ایک لغت قریش سے ماخوذ ہے؟ جبکہ عملی استقراء بھی اس بات کا مؤید ہے کہ موجودہ قراء ات میں لہجات کا اختلاف صرف ایک لغت قریش سے متعلق نہیں ۔ اس ضمن میں جہاں اہل علم نے تفصیلا بحث کی ہے، وہیں بعض اہل علم نے مستقل تالیفی کاوشیں بھی فرمائی ہیں ۔


عام طور پر مستشرقین نے قرآن کریم کی قراء ات کو بنیاد بنا کر قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے موقف کو مضبوطی دینے کے لیے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو توڑ مروڑ کے پیش کیا ہے۔ جو لوگ انکار قراء ات کی ضمن میں مستشرقین کے غلط نظریات کے زیر اثر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو بطور حوالہ پیش کرکے سمجھتے ہیں کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ چھ حروف کے نسخ کے نام پر موجودہ قراء ات عشرہ کے انکاری ہیں ، انہیں سوچنا چاہئے کہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کو غلط معنوں میں پیش کرکے وہ قرآن کریم کی خدمت کے بجائے اس میں تحریف وتبدیلی کے دعوائے مستشرقین کے مؤید بن رہے ہیں ۔ مستشرقین نے تو اپنے تئیں امام ابن جریر رحمہ اللہ کو اپنا ہم نوا بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس ضمن میں یہ بالکل بھول گئے ہیں کہ وہ تنوع قراء ات کے بہت بڑے حامی ہیں اور انہوں نے اپنی تفسیر میں قراء ات سبعہ وعشرہ کی باقاعدہ حجیت کو تسلیم کیا ہے، بلکہ علم القراء ات پر وہ کئی کتب کے مؤلف ہیں ، جن کی تفصیل شائقین زیر نظر شمارے میں قاری محمد حسین کے قلم سے شائع شدہ تحریر ’’مختلف ازمنہ میں علم القراء ات پر لکھی گئی کتب‘‘ کے ضمن میں دیکھ سکتے ہیں ۔

مستشرقین کا حربہ یہ ہے کہ پہلے تو اس بات کو امام ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کے حوالے سے غلط منوالیتے ہیں کہ چھ حروف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ختم کردئیے تھے، پھراپنی طرف سے یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ اب جو حرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے باقی چھوڑا تھا وہ کونسا تھا؟ اگر جواب دیا جائے کہ لغت قریش! توکہتے ہیں کہ قرآن کے نام پر رائج مطبوعہ مصاحف میں قریشی لغت کے علاوہ کئی دیگر لغات بھی شامل ہیں ، اس لیے کچھ معلوم نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا باقی چھوڑا تھا؟ واضح ہوگیا کہ آج امت کے پاس قرآن کریم کی محقق قراء ت موجود نہیں ۔اسی طرح جب یہ مان لیا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء توں کو ختم کردیا تھا تو یہ بات مستشرقین کے حق میں یوں جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ باقی رہ جانے والی قراء ت کونسی تھی؟ہم جواب میں کہتے ہیں کہ روایت حفص! تو وہ کہتے ہیں کہ روایت حفص تو عالم اسلام کے صرف مشرقی علاقوں میں رائج ہیں ، عالم اسلام کے پورے مغربی بلاک کی قراء ت، روایت حفص سے مختلف ہے اور وہاں تو تین مزید روایات وقراء ات کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس طرح سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ آج امت میں یہ امر طے نہیں کہ کونسی قراء ت قرآن اور کونسی قراء ت قرآن نہیں ہے۔ مشرقی ممالک کے جہلاء مغربی ممالک میں رائج قراء توں کا انکار کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے عوام الناس مشرقی ممالک میں رائج قراء ت کا انکار کرتے ہیں ۔ اس قسم کی باتوں سے خلاصۃً یہ ثابت ہوتاہے کہ قرآن مجید دیگر کتابوں کی طرح محرف ہے۔ اس لیے جو لوگ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کا موقف غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں ،ان کو کوئی بات بھی جرأت سے کرنے سے قبل پہلے سوچ لینا چاہئے کہ انکار قراء ات کے موقف کو اپنا کر کس کے ہاتھ میں دلیل پکڑا رہے ہیں ۔ اسی طرح جہاں عالم اسلام میں مروجہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری کا انکار لازم آئے گا، وہیں ہماری ’روایت حفص‘ بھی ثابت نہیں ہوپائے گی، کیونکہ جس سند سے روایت حفص ثابت ہے، عین اسی سند سے دیگر قراء ات ثابت ہیں ۔
مستشرقین نے قرآن مجید کے بارے میں اس دعوی کے ثبوت کے لیے کہ اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف لغت قریش کو باقی رکھا تھا، دلیل یہ پیش کی ہے کہ انہوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ اور ان کی کمیٹی کو کہا تھا کہ اختلافات قراء ات میں سے صرف لغت قریش کو باقی رکھ کر قرآن لکھنا،حالانکہ یہ بات کہیں موجود نہیں ۔جو بات صحیح روایات میں ہے وہ صرف اتنی ہے کہ انہوں نے طریق کتابت کے سلسلہ میں اختلاف کی صورت میں یہ راہنما اصول اِرشاد فرمایا تھا:
(إذا اختلفتم أنتم وزید فی شیٔ فاکتبوہ بلغۃ قریش،فإنما نزَلَ بلسانہم) [بخاری:۳۵۰۶]
ان الفاظ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے رسم الخط اور کتابت کے ضمن میں یہ ارشاد فرمایا تھا، تلاوت وقراء ت کے ضمن میں نہیں ، ورنہ الفاظ فاقروا بلغۃ قریش کے ہوتے۔ اسی لیے انہوں نے بعد میں اس کی وجہ بھی ذکر کی تھی کہ یہ اس لیے ہے کہ قرآن مجید اَصلا انہی کی زبان میں اترا ہے۔

ماہنامہ رشد ’قراء ات نمبر‘ حصہ سوم میں اِن شاء اللہ ایک مستقل مضمون اس ضمن میں شامل اشاعت ہوگا، جس میں دلائل کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا جائے گا کہ روایت حفص اور عالم اسلام میں رائج دیگرمتداول روایات میں لغت قریش کے علاوہ دیگر لغات بھی بھر پور طور پر شامل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے زیر نظر مضمون کے سوال نمبر۵ تا ۱۰ پریہ تفصیلی بحث موجودہے کہ موجودہ قراء ات میں ’سبعۃ أحرف‘ خلط ملط ہوکر شامل ہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر29: ’سبعۃ أحرفکی تشریح میں آئمہ کے مابین پائے جانے والے شدید اختلاف کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا اس کے ذریعے متنوع قراء ات کا مسئلہمتشابہاتمیں سے معلوم نہیں ہوتا؟
جواب: موجودہ قراء ات عشرہ (عشرہ صغری وکبری)کی حجیت کے حوالے سے ہم نے اپنے جوابات میں بارہا دعوی کیا ہے کہ ان کے قرآن ہونے میں چودہ صدیوں سے کسی جلیل القدر عالم کو اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ اس غرض سے آئندہ رشد کا ’قراء ات نمبر‘ حصہ سوم میں ہم ایک مضمون شائع کریں گے، جس میں تفسیر، حدیث ،فقہ وغیرہ میدانوں سے تعلق رکھنے والے معروف سو اہل علم کی قراء ات کے بارے میں آراء کا خلاصہ پیش کریں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ مسئلہ امت کے ہاں ’ مسلمات‘ میں سے ہے۔ بنیادی مغالطہ کا باعث یہ چیز ہے کہ متنوع قراء ات کا ثبوت حدیث ’سبعۃ أحرف‘پر موقوف ہے، حالانکہ یہ سراسر غیر صحیح بات ہے۔ قراء ات کے ثبوت کی بنیاد اصلا ان اسانید کی صحت وقطعیت پر موقوف ہے، جو کہ متنوع قراء ات کے ضمن میں تواتر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ مزید برآں حدیث ’سبعۃ أحرف‘سے قطع نظر لا تعداد ایسی روایات بھی ہیں جن میں باقاعدہ اَحادیث میں متعدد قراء ات کاذکر موجود ہوا ہے۔

رہی حدیث ’سبعۃ أحرف‘، تو کیا متشابہات میں سے ہے یا نہیں ؟ اس کی بنیاد صرف اس بات کو بنایا جارہا ہے کہ علماء کے مابین اس مسئلہ کی تشریح کے ضمن میں اختلاف ہے، لیکن اہل علم کے ہاں محض اختلاف کا ہونا کسی شے کے متشابہات میں سے ہونے کی بنیاد نہیں بنتا، البتہ اگر کسی عالم کو کسی حدیث یا قرآن کی آیت کا مفہوم شدید الجھ جائے تو اسے وہ متشابہ کہے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۶ میں فرماتے ہیں کہ

{وَمَایَعْلَمُ تَأوِیْلَہٗ إلَّا اﷲ وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ}[آل عمران:۶]
’متشابہات‘ کا معنی اللہ تعالیٰ اور راسخین فی العلم کو معلوم ہوتا ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ عام طور پر امام سیوطی رحمہ اللہ کے حوالے سے دعوی کیاجاتا ہے کہ وہ حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کو متشابہات میں سے کہتے ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی شرح موطا میں جہاں اس حدیث کو اپنے ہاں حل نہ ہونے کی وجہ سے متشابہ کہا ہے، وہیں ساتھ ہی ذکر کیا ہے کہ یہ اسی طرح ہے کہ جس طرح قرآن کریم کی کئی آیات متشابہات میں سے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام سیوطی رحمہ اللہ اور عام اہل علم کے ہاں متشابہ کا کیا معنی ہوتا ہے؟ اس حوالے سے امام سیوطی رحمہ اللہ نے محکم ومتشابہ کے حوالے سے خود بھی الاتقان فی علوم القرآن میں تفصیلا بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب وسنت میں وارد بعض آیات کا مفہوم بعض اہل علم کی نسبت سے غیر واضح ہوتا ہے تو وہ اسے متشابہ کہہ کر دیگر اہل علم کے لیے موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اس کے تشابہ کو حل کردیں ۔ متشابہات کا انکار کسی شرعی نص کے صریح انکار مترادف ہے، اس پر ایمان لانا اور تسلیم کرنا مومن کے لیے فرض ہے۔

ان تمام وضاحتوں سے قطع نظر یہ بات بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح کے ضمن میں وارد جمیع اَقوال میں اختلاف تضاد نہیں اور تمام مختلف اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کو سات متنوع اندازوں میں پڑھنا ثابت ہے، اختلاف صرف اس میں ہے کہ سبعہ اَسالیب کونسے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ ہم ان مختلف اَقوال میں موجود اختلاف کا تو انکار نہیں کرتے لیکن یہ بات پرزور انداز میں کہتے ہیں کہ تمام گروہوں کے اقوال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی ایک سے زائد قراء ات ہیں ، جن کے مطابق قرآن کو پڑھنا صحیح ہے۔اس سلسلہ میں زیادہ پریشان کن اختلاف یہ نظر آتا ہے کہ’سبعۃ أحرف ‘ کا اختلاف عرضہ اخیرہ میں ختم ہوگیا تھا یا آج بھی باقی ہے؟ نیز موجودہ قراء ات ایک حرف قریش کا حاصل ہیں یاجمیع ’سبعۃ أحرف‘ پر مشتمل ہیں ؟ ان دونوں مباحث میں امام ابن جریر رحمہ اللہ کا موقف انفرادیت کا حامل ہے، لیکن اس کے باوجود موجودہ قراء ات سبعہ و عشرہ کی حجیت پرامام ابن جریر رحمہ اللہ سمیت جمیع اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں رشد ’قراء ات نمبر‘حصہ اوّل میں مطبوع مضمون ’’قرآن کے سات حروف‘‘ از مولانامحمد تقی عثمانی کی آخری سطور کو یہاں مکرراً ذکر کردیں ، کیونکہ مولانا نے اپنے مضمون میں امام ابن جریر رحمہ اللہ اور عام اہل علم کے مابین موجود اختلافی مباحث کو ہی موضوعِ بحث بنایا تھا۔ مضمون کے اختتام پر اِس ساری بحث کا نچوڑ وہ ان الفاظ سے پیش فرماتے ہیں :

’’آخر میں ایک بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کردینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی مذکورہ بحث کو پڑھنے والا سرسری طور پر اس شبہ میں مبتلا ہوسکتاہے کہ قرآن کریم جیسی بنیادی کتاب کے بارے میں جو حفاظتِ خداوندی کے تحت آج تک بغیرکسی ادنیٰ تغیر کے محفوظ چلی آرہی ہے مسلمانوں میں اتنازبردست اختلاف آراء کیسے پیدا ہوگیا؟

لیکن ’سبعۃ أحرف‘ کی بحث میں جو اقوال ہم نے پیچھے نقل کئے ہیں اگر ان کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو اس شبہ کا جواب بہ آسانی معلوم ہوجاتا ہے۔ جوشخص بھی اس اختلاف آراء کی حقیقت پر غور کرے گا اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کاہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اوراس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کاکوئی ادنیٰ اثربھی مرتب نہیں ہوتا، کیونکہ اس بات پر دلالت کابلا استثناء اتفاق ہے کہ قرآن کریم جس شکل میں آج ہمارے پاس موجود ہے وہ تواتر کے ساتھ چلا آرہا ہے، ۱س میں کوئی ادنیٰ سا بھی تغیر نہیں ہوا، اور اس بات پر بھی تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت اُن میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے۔ اس بات پر بھی پوری اُمت کااجماع ہے کہ متواتر قراء توں کے علاوہ جو شاذ قراء تیں مروی ہیں ، انہیں قرآن کریم کاجزء قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ ’عرضۂ اخیرہ‘ یا اس سے پہلے جو قراء تیں منسوخ کردی گئیں ، وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب قرآن کا جزء نہیں رہیں ۔ یہ بات بھی سب کے نزدیک ہرشک و شبہ سے بالاتر ہے کہ قرآن کے سات حروف میں جو اختلاف تھا وہ صرف لفظی تھا، مفہوم کے اعتبار سے تمام حروف بالکل متحد تھے، لہٰذا اگر کسی شخص نے قرآن کریم صرف ایک قراء ت یا حرف کے مطابق پڑھا ہو تو اسے قرآنی مضامین حاصل ہوجائیں گے اور قرآن کی ہدایات حاصل کرنے کے لیے اسے کسی دوسرے حرف کو معلوم کرنے کی احتیاج نہیں ہوگی۔اس میں بھی کوئی ادنیٰ اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف تیارکرائے وہ کامل احتیاط، سینکڑوں صحابہ کرامؓ کی گواہی اور پوری اُمت مسلمہ کی تصدیق کے ساتھ تیار ہوئے تھے اور ان میں قرآن کریم ٹھیک اس طرح لکھ دیا گیا تھاجس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا اور اس میں کسی ایک متنفس کوبھی اختلاف نہیں ہوا۔ [حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے مصحف کو باقی رکھنے پرتو مصر رہے، لیکن مصاحف عثمانی کی کسی بات پر انہوں نے ادنیٰ اختلاف نہیں فرمایا۔]
لہٰذا جس اختلاف کاذکر گذشتہ صفحات میں کیا گیا ہے، وہ صرف اتنی بات میں ہے کہ حدیث میں ’سات حروف‘ سے کیامراد تھی؟ اب جتنی متواتر قراء تیں موجود ہیں ، وہ ’سات حروف‘ پر مشتمل ہیں یا صرف ایک حرف پر؟ یہ محض ایک علمی نظریاتی اختلاف ہے، جس سے کوئی علمی فرق واقع نہیں ہوتا، اس لیے اس سے یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ ان اختلافات کی بناء پر قرآن کریم معاذ اللہ مختلف فیہ ہوگیا ہے۔ اس کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے ایک کتاب کے بارے میں ساری دنیا اس بات پر متفق ہو کہ یہ فلاں مصنف کی لکھی ہوئی ہے، اس مصنف کی طرف اس کی نسبت قابل اعتماد ہے اور خود اُس نے اُسے چھاپ کر تصدیق کردی کہ یہ میری لکھی ہوئی کتاب ہے اور اس نسخے کے مطابق قیامت تک اسے شائع کیا جاسکتا ہے، لیکن بعد میں لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ مصنف نے اپنے مسودے میں طباعت سے قبل کوئی لفظی ترمیم کی تھی یا جیسا شروع میں لکھا تھا ویسا ہی شائع کردیا۔ ظاہر ہے کہ محض اتنے سے نظری اختلاف کی بنا پر وہ روشن حقیقت مختلف فیہ نہیں بن جاتی جس پر سب کا اتفاق ہے، یعنی یہ کہ وہ کتاب اُسی مصنف نے اپنی ذمہ داری پر طبع کی ہے، اُسے اپنی طرف منسوب کیاہے اور قیامت تک اپنی طرف منسوب کرکے شائع کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح جب پوری اُمت اس بات پرمتفق ہے کہ قرآن کریم کو مصاحف عثمانی میں ٹھیک اُسی طرح لکھا گیا ہے جس طرح وہ نازل ہوا تھا اور اس کی تمام متواتر قراء تیں صحیح اورمنزل من اللہ ہیں ، تو یہ حقائق اُن نظری اختلافات کی بناء پر مختلف فیہ نہیں بن سکتے، جو ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح میں پیش آئے ہیں ۔‘‘ واﷲ سبحانہ تعالٰی أعلم
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر30: اگر قراء ات قرآنیہ واقعتا ثابت ہیں ، توسبعۃ أحرفکی مراد میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟
جواب: اس سوال کے پہلو میں ایک خاص ذہنیت کی عکاسی ہورہی ہے، جس کی بنیاد پر یہ شبہ پیدا ہوا۔ شایدسائل یااس قسم کا اعتراض کرنے والے لوگوں کے ذہن میں یہ غلط بنیاد موجود ہے کہ قرآن مجید اوراس کی قراء اتِ متنوعہ یا علم القراء ات سے متعلق متعددعلوم رسم وفواصل وغیرہ کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ حدیث سے ان کا ثبوت پیش کیاجانا ضروری ہے۔ اسی طرح دوسرا مغالطہ ذہن میں یہ ہے کہ حجیت قراء ات ’حدیث سبعۃ أحرف‘ کے ثبوت اور اس کے مفہوم کی تعیین پر موقوف ہے، چنانچہ اگر ’سبعۃ أحرف‘ کی حدیث ثابت نہ ہو یا ثابت تو ہو، لیکن اس کا مفہوم میں انتہائی اضطرابی کیفیت ہو تو دین میں مسئلہ متنوع قراء ات مشکوک ٹھہرتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے مقدمات علمی اعتبارسے انتہائی سطحی اور قطعی طو رپر غیر صحیح ہیں ۔

ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے ثبوت کے لیے حدیث یا رواۃ حدیث سے قراء ات کا ثابت ہونا ضروری نہیں ، بلکہ امر واقعہ میں ایسا ہوا ہی نہیں ۔ قرآن مجید کی روایت ہم تک محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے اسی طرح سے پہنچی ہے، جیسے سنت کی روایت کا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ جس طرح حدیث اپنے ثبوت میں قرآن مجید کی محتاج نہیں ہے، عین اسی طرح قرآن مجید اپنے ثبوت میں حدیث کا محتاج نہیں ہے۔ صحابہ کے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے کسی بھی بات کو بطور قرآن یا بطور حدیث ماننے کے لیے جو بات ضروری ہے وہ محض اتنی ہے کہ اس کی روایت جس ذریعہ ہو، وہ محفوظ اور ایسا ہو کہ اس کے اوپر اعتماد کیا جاسکے۔اگرقرآن کریم کی روایت اور اس کے متنوع لہجے محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچے ہیں اور اس پر ہمارا اعتماد واطمینان ہے تو اس کے بعد کوئی معنی نہیں رہتا کہ ہم اس بات کے ثبوت کے لیے کسی بھی حدیث کا حوالہ مانگیں ، مثلاً اگر ہم اس بات کے حوالے سے یہ مقدمہ مان لیں تو ماننا پڑے گا کہ قرآن مجید کی تمام آیات اور سورتوں کو احادیث کی روشنی میں ثابت کیا جائے، حالانکہ مکمل قرآن کریم چھوڑیں ، کوئی ایک چھوٹی سی سورت کو بھی مکمل طور پر حدیث سے ثابت کرنا شائد مشکل ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا بہت سارا حصہ مثلا ۹۹فیصد کو کسی حدیث سے ثابت کرناممکن نہیں ۔ سورہ فاتحہ مکمل کی مکمل ابتداء سے لے کر آخر تک کسی حدیث میں مکمل طور پر نہیں آئی۔ اسی طرح سورۃ بقرہ کی تمام آیات اورسورۃ بقرہ شروع لے کر آخر تک کسی حدیث میں نہیں آئی اور ہم ان آیات اور ان سورتوں کو، جو قرآن مجید میں شامل ہیں ، اہل قرآن یعنی قراء کرام کی نقل پر اعتماد کرکے مانتے ہیں ۔ قرآن مجید کے کسی بھی اختلاف کو، برابر ہے قراء ت عاصم ہو یا دیگر قراء ات، ان کو ان کی اپنی اسانید ورجال کی بنیاد پر مانا جائے گا، ناکہ سنت کی روایات واسانید سے ۔

مزید برآں مذکورہ سوال کے حوالے سے اگر ہم بالفرض تسلیم کر بھی لیں کہ ’سبعۃ أحرف‘کی تشریح میں بہت اختلاف ہے، تو اس کے جواب کے حوالے سے رشد قراء ات نمبر حصہ اول میں ہم بحث کرچکے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح میں کثرت اقوال کا اگر سبب معلوم ہو جائے، تو اس اختلاف سے وحشت نہیں ہوگی۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف بنیادی طور پر مسئلہ اختیارات یا مسئلہ خلط قراء ات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ جو لوگ اس حوالے سے ’اختیارات‘ کے مابعد نوعیت کو سامنے رکھ کر اس معاملے کی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سارا اختلاف ان کے مابین ہے، ورنہ جن کی نظر اختلاف کے اس پس منظر کی طرف ہے، انہیں اس سلسلہ میں کبھی کوئی توحش اور تذبذب نہیں ہوا کہ اختلاف قراء ات سے کیا مراد ہے اور ان کے نزول کا پس منظر کیا ہے۔

اسی لیے قراء ات میں ’سبعۃ أحرف‘ کے مفہوم کے حوالے سے علماء میں جو اختلاف پایا جاتاہے، اس میں یہ چیز قطعی طور پر اچنبھے کا باعث نہیں ہونی چاہئے کہ اس بارے میں ۳۵ یا ۴۰ اقوال موجود ہیں ، اس لیے کہ بعض ائمہ نے وضاحت کی ہے کہ یہ چالیس اقوال چالیس افراد کے نہیں ہیں ، بلکہ یہ بعض افراد کے اس مسئلے کے بارے میں ممکنہ احتمالات کا اظہار ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ایک آدمی سے دس دس احتمالات مروی ہوں ۔ پھر مزید برآں یہ پہلو انتہائی قابل نوٹ ہے کہ تمام لوگ جو ان اقوال کے قائلین ہیں ، ان کے مابین اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ سب تنوعِ قراء ات کے قائل ہیں ۔

مذکورہ سوال کے جواب میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اختلاف اگر چالیس کے بجائے اَسّی ۸۰ اقوال کی صورت میں بھی موجود ہوتا توبھی یہ کہنا ممکن تھا کہ ان اَسّی کے اَسّی اقوال میں قدر مشترک یہ ہے کہ دین میں تعدد قراء ات کا مسئلہ حتمی طور پر موجود ہے اور آج بھی باقی ہے، چنانچہ’ تعدد قراء ات‘ کے سلسلہ میں پچھلی چودہ صدیوں میں گذر جانے والے تمام اہل علم متفق ہیں ، اختلاف صرف ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح کے بارے میں ہے، جس کا ثبوت قراء ات سے تعلق بھی اضافی نوعیت کاہے، کیونکہ ثبوتِ قراء ات حدیث ’سبعۃ أحرف‘پر موقوف نہیں ، بلکہ بے شمار ایسی روایات ہیں جن میں حدیث ’سبعۃ أحرف‘ سے قطع نظر متنوع قراء ات کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں ثبوتِ قراء ات کے لیے محض وہ قطعی الثبوت اسانید ہی کافی ہیں ، جن پر’حجیت قراء ات ‘کا اصلی دار ومدار ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر31:روایت حفص ساری دنیا میں متداول ہے، باقی روایات اس قدر کیوں نہیں پھیلیں ؟ نیز بتائیے کہ کسی شے کی بطورِ دین اُمت میں شہرت اور قبولیت اس شے کے ثبوت وعلمیت کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں ؟
جواب: قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے اتنی بات ہی کافی ہے کہ جن اَسانید کے ذریعے یاجس ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، وہ ذریعہ قطعی ہے۔ اسی طرح اس کے ناقلین کی لا تعداد کثرت اور رواۃ کی عدالت وثقاہت اس قدر معیاری ہے کہ روایت میں جھوٹ کااِمکان بالکل ختم ہوجاتا ہے، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید کا ثبوت روایات کے بجائے اُمت میں اس کی شہرت اور عوام الناس کے تعامل سے ہوتا ہے، جسے وہ اپنے بیانات میں ’تواتر عملی‘ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں ۔ ان کی رائے میں امت کے علماء اس سلسلہ میں کوئی معیار کا درجہ نہیں رکھتے۔ ان کے ہاں اس سلسلہ میں اصل شے سوادِ اعظم کا معیار ہے۔ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی اسانید کے بجائے اپنے حفظ اور اپنی انتشارِ تلاوت کے ذریعہ محفوظ ہوا ہے، چنانچہ دنیا میں روایت حفص کے پھیلنے کی یہی وجہ ہے کہ یہی روایت اس معیار پر پورا اترتی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ بالفرض اس مقدمہ کو صحیح تسلیم کربھی لیا جائے تو بھی یہ لوگ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ عالم اسلام میں دیگر کئی روایات کو بھی شہرت اور عملی قبولیت حاصل ہوئی ہے، لیکن کنویں کے مینڈک کے مصداق وہ یہی چاہتے ہیں کہ اپنے ہاں رائج لہجے ہی کو قرآن قرار دے کر باقی امت کے معاملہ میں تنگ نظری اختیار کرتے ہوئے کہہ دیں کہ قرآن صرف وہی ہے جو ہم پڑھ رہے، جبکہ امت کے باقی کروڑوں لوگ جس شے کو بطور قرآن پڑھ رہے ہیں وہ قرآن کریم نہیں ، بلکہ فتنہ عجم کی باقیات ہیں ۔

اس نظریہ میں کئی قسم کی سطحی اور عامیانہ باتیں موجود ہیں ، مثلا یہ کہنا کہ قرآن کے ثبوت میں اصل معیار اہل علم اور قراء حضرات نہیں ،بلکہ عوام الناس کا جاہلانہ تعامل ہے۔ معلوم نہیں کہ عوام الناس میں کسی شے کا بطور دین رائج ہوجانا دین جاننے وثابت ہونے کا کونسا معیار ہے؟ اس طرح سے تو تمام بدعات وخرافات اور ہماری معاشرتی غلط رسوم ورواج کو بھی دین قرار دینا پڑے گا۔ اگرجواب دیا جائے کہ تعامل یا نام نہاد تواتر عملی سے ہماری مراد اہل علم کا تعامل اور ان کا کسی شے کو بطور دین قبول کرنا ہے، تو اہل علم تو چودہ صدیوں سے بلا کسی ایک عالم کے استثناء کے تنوع قراء ات کے صراحتاً قائل ہیں ۔ پھر جن عوام کالانعام کے تعامل کو یہ نام نہاد دانشور ثبوتِ دین کا معیار قرار دے رہے ہیں ، وہ صرف پاکستان اور ہندوستان کے عوام تو نہیں ہیں ، بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو اس دائرے میں شامل ہونا چاہیے۔ عالم اسلام کے مسلمان تو ہزاروں ، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں روایت حفص کے علاوہ دیگر قراء ات کی بطور قرآن تلاوت کر رہے ہیں ۔ صرف ایک روایت ورش براعظم افریقہ کے جمیع ممالک میں اُن کے اتفاقی تعامل سے بطور قرآن رائج ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تعامل کے سلسلہ میں اگر امت تین چار تعاملوں میں بٹی ہو تو پھر صحیح تعامل کا تعین کیسے ہوگا؟ اس کا جواب ان دانشوروں کے ہاں بھی اگرچہ یہی ہے کہ یہ فیصلہ اہل علم کریں گے، تو اہل علم تو بلا اختلاف پچھلے سینکڑوں سالوں سے یہ فیصلہ سنا رہے ہیں کہ تعدد قراء ات کا مسئلہ دین میں موجود ہے اور آج تک باقی ہے، تو پھر یہ لوگ اس بنیاد پر روایت حفص کے علاوہ دیگر مروجہ قراء ات کیوں نہیں مانتے۔ ہمیں کسی ایک فرد کا نام بتایا جائے،جو متنوع قراء ات کے سلسلہ میں اختلاف رائے رکھتا ہو۔ البتہ اگر تعاملِ امت کے سلسلہ میں فقہاء کرام ومفتیان عظام میں کسی دیگر شرعی مسئلہ کے حوالے سے اختلاف ہوجائے تو پھر ان کے مابین ترجیح قائم کرنے کا طریقہ کتاب وسنت نے یوں واضح فرما دیا ہے:

۱۔ {وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیئٍ فَحُکْمُہٗ إِلَی اللّٰہ} [الشوری:۱۰]
۲۔ { فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ} [النسائ:۵۹]
گویا اس قسم کے اختلاف کا فیصلہ کتاب وسنت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ جس طرف دلیل قوی ہوگی، اسی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ البتہ یاد رہے کہ قراء ات کے ضمن میں تو ایسا اختلاف پیش کرناچونکہ ممکن نہیں ، اس لیے یہ رویہ دیگر اختلافی امور کے بارے میں اختیار کیا جائے ہے۔

بہرحال اس حقیقت کے بیان کے ساتھ کہ امت میں روایت حفص کے علاوہ روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری بھی بطور تعامل کے رائج ہیں اور سب سے زیادہ انتشار روایت حفص اور روایت ورش کو حاصل ہے، جبکہ روایت قالون آٹھ دس ممالک میں اور روایت دوری صومالیہ، سوڈان اور مصر وغیرہ میں رائج ہے، اب ہم بحث کرتے ہیں سوال مذکور کے جواب پر۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ روایت حفص کو زیادہ شہرت کیوں ملی، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں روایت ورش کو بھی تقریبا روایت حفص جتنی شہرت ومقبولیت حاصل ہے۔ ان چار روایات کی عوامی شہرت کے اسباب کیا ہیں اور ان کے بالمقابل باقی سولہ متواتر روایات زیادہ مشہورکیوں نہیں ہوئیں ؟ اس کا جواب تاریخی اتار چڑھاؤ سے متعلق ہے، ورنہ بطور دین تو ’حروف سبعہ‘ اور ان کی جمیع ترمنقولات (قراء ات وروایات) کے مابین کوئی فرق نہیں ۔ جو وجہ بظاہر ان چار روایات کے انتشار کی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی ہجری سے فقہی تقلید کے آغاز کی وجہ سے عالم اسلام نے مختلف فقہوں سے جامد نسبت اختیار کر لی تھی۔ شروع میں بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایسے دسیوں آئمہ تھے جن سے عوامی عقیدت نے تقلید کا روپ دھار لیا تھا، جن میں امام ابو ثور رحمہ اللہ ، امام ابن ابی لیلی رحمہ اللہ ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابرین شامل ہیں ۔ یہی وجہ کہ فقہ مقارن کی معروف کتب مثلا بدایۃ المجتہد وغیرہ میں جب متعدد مسائل میں فقہی مسالک کا ذکر ہوتا ہے تو آئمہ اربعہ کے علاوہ ان دیگر معروف شخصیات کے نام بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ بعد کے زمانوں میں فقہ آئمہ اربعہ کو دیگر آئمہ فقہاء کی آراء پر متعدد اسباب کی بنا پر عوامی قبولیت زیادہ حاصل ہوگئی، جس کی کوئی دینی یا علمی وجہ نہیں تھی۔ مثلا فقہ حنفی اور فقہ مالکی کو اتفاق سے سیاست کے ایوانوں میں پذیرائی حاصل ہوئی کہ خلافت کے مختلف ادوار میں آنے والے خلفاء عموما مذہب حنفی اور مذہب مالکی سے عقیدت رکھتے تھے اور جیسا کہ ضابطہ معروف ہے کہ النَاس علی دین ملوکہم تو اسی وجہ سے گذشتہ صدیوں میں انہی دو فقہوں کو زیادہ انتشار حاصل ہوا، جوکہ آج تک برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محققین اہل علم کے موقف کے مطابق فقہ حنفی یا فقہ مالکی کی علمیت اپنی جگہ، لیکن سواد اعظم میں ان کی مقبولیت کی بنیاد پر دیگر فقہوں پر ان کی قطعا کوئی علمی وتحقیقی برتری نہیں ۔ واضح رہے کہ اگر کسی شے کی علمیت کے لیے اساس اسی قسم کے تاریخی اتار چڑھاؤ ہی کو تسلیم کرلیا جائے تو اکبر کے الحادی ’دینِ الٰہی‘کے جو اثرات برصغیر پاک وہند کے عوامی دھارے میں آج تک نظر آتے ہیں ان سب کو دین ماننا پڑے گا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ کئی صدیوں سے امت میں چارفقہیں زیادہ معروف ہیں ، جن میں فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کا نام سامنے آتا ہے۔ بعض لوگ،جو اوپر ذکر کردہ اس قسم کے حقائق پر نظر نہیں رکھتے، اس بنیاد پر کہ اب امت میں یہی چار فقہیں عوامی طور پر رائج ہیں ، سطحی طور پرکہہ دیتے ہیں کہ کسی مسئلہ میں دعوائے اجماع کے لیے صرف ان چارمذاہب فقہ کے اتفاق کو ہی پیش کرنا کافی ہے، حالانکہ اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ کہنا بھی صحیح ہو گا کہ امت میں عوامی طور پر رائج چار قراء ات میں پیش شدہ اختلافات تو اجماعی ہیں ، جبکہ باقی سولہ روایات میں موجود دیگر اختلافات، جن کا علم صرف اہل علم میں موجود ہے، ان کی کوئی علمی حیثیت نہیں ۔ یاد رہے کہ کسی مسئلہ میں اجماع یا تعامل امت کے تعین کے بارے میں اصل معیاراہل علم کا اتفاق ہے۔ عوام الناس تو دینی نظریات میں اہل علم کے تابع ہوتے ہیں ۔ اس لیے جس طرح یہ دعوی صحیح نہیں کہ مذاہب اربعہ کے اتفاق یا دنیا میں ان کے عملی طور رائج ہونے کا نام تعاملِ امت ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ دنیا میں رائج چار قراء ات ہی صرف تعاملِ امت سے ثابت ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ جس طرح تعاملِ امت چار قراء ات کو تو تسلیم کرتا ہے اسی طرح چونکہ اجماع و تعامل کی اصل اساس علماء کا اتفاق ہے، چنانچہ دیگر سولہ روایات بھی تعامل اُمت سے ثابت ہیں ۔ یہی معاملہ فقہی مذاہب کا بھی سمجھنا چاہیے۔

الغرض فقہی اختلافات کے ضمن میں اجماع یا تعامل امت کے سلسلہ میں اس قسم کی آراء کہ مذاہب اَربعہ کے اتفاق کا نام اجماع ہوتا ہے،سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان چار فقہوں سے کس قدر عقیدت پائی جاتی ہے۔ اسی پس منظر میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ چونکہ آج عالم اسلام کے عام ممالک میں دو فقہیں زیادہ رائج ہیں ، چنانچہ عالم اسلام کے مشرقی علاقوں میں فقہ حنفی کو اور مغربی ممالک میں فقہ مالکی کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسری فقہ کو حاصل نہیں ہوسکا۔ صورتحال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قراء ات میں استاد چونکہ امام عاصم کوفی رحمہ اللہ ہیں ، جن کے شاگرد امام حفص رحمہ اللہ کی روایت مشرقی ممالک میں رائج ہے، اسی لیے عالم اسلام کے مشرقی بلاک میں انہی حفص کی روایت یا بالفاظ دیگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قراء ت زیادہ رائج ہوئی۔ دوسری طرف امام دار الہجرۃ امام مالک مدنی رحمہ اللہ کے تجویدو قراء ات میں استاد امام نافع مدنی رحمہ اللہ ہیں ۔ امام نافع رحمہ اللہ نے جو اندازِ تلاوت آگے نقل کیا ہے، وہ دو روایتوں کے ذریعے امت تک منتقل ہوا ہے: ایک امام ورش رحمہ اللہ کی روایت سے ہم تک پہنچا ہے اور دوسرا امام قالون رحمہ اللہ کی روایت سے۔یہ دونوں حضرات امام مالک رحمہ اللہ کے ساتھیوں میں سے ہیں ، تو بالعموم وہ ممالک جو افریقہ یا مغرب کے ممالک کہلاتے ہیں ، جن میں اندلس، لیبیا، الجزائر اور مراکش وغیرہ شامل ہیں ، ان ملکوں میں چونکہ فقہی طور پر فقہ مالکی کا رواج زیادہ ہے، چنانچہ عموما روایت ورش پڑھی جاتی ہے اور بعض ممالک میں روایت ورش کے ساتھ ساتھ روایت قالون پڑھنے کا بھی اہتمام ہے۔

مزید برآں چونکہ یہ ایک الگ واقعاتی صورتحال ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے مسلمانوں کی بڑی تعداد مشرقی ممالک میں موجود ہے، چنانچہ روایت حفص کو عملاًروایت ورش سے زیادہ قبولیت عامہ حاصل ہوئی، لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں روایت ورش صرف چند علاقوں میں رائج ہے۔ یہ بڑی مغالطہ امیز بات ہے کیونکہ اہل نظر جانتے ہیں کہ عالم اسلام میں فقہ مالکی کو بھی فقہ حنفی کی طرح عروج حاصل ہے اور ان تمام ممالک میں جہاں فقہ مالکی موجود ہے وہاں روایت ورش اور روایت قالون ہی رائج ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ کی امام نافع رحمہ اللہ سے کیسی عقیدت تھی اس کی نوعیت جاننے کے لیے یہ واقعہ سامنے رہنا چاہئے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کسی نے ’بسم اللہ‘ کوجہراً پڑھنے کے بارے میں سوال کیا، تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب تک مدینہ میں یہ موجود ہیں اور ان کا اشارہ امام نافع رحمہ اللہ کی طرف تھا، تب تک قرآن کے مسائل میں میری بجائے ان کی طرف رجوع کیا جائے۔

یہاں بطورِ علم اس بات کو ذکر کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا کہ ’سبعۃ أحرف‘‘ کے ضمن میں جو اختلاف آئمہ قران کی وساطت سے بطریق تواتر امت تک منتقل ہوا ہے، اس میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ آئمہ کی روایات میں باہمی طور پر سب سے زیادہ اختلاف امام ورش رحمہ اللہ اور امام حفص رحمہ اللہ کی روایت میں ہے اور یہی دو روایات عالم اسلام کے سواد اعظم میں رائج ہیں ، چنانچہ اختلاف قراء ات کے سلسلہ میں جو لوگ تشویش محسوس کرتے ہیں انہیں دیگر روایات سے قطع نظر اس پہلو کو بھی ضرور مد نظر رکھ لینا چاہیے۔

سوال نمبر32 : اگرتنوع قراء ات سے مراد لغات یا لہجات کا اختلاف ہو توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں صرف اہل عرب کا خیال رکھا گیا ہے، ناکہ اقوامِ عالم کا، حالانکہ قرآن مجید پوری دنیا کے لیے نازل ہوا ہے ؟
جواب: قرآن مجید اور سنت قیامت تک کے لیے تمام آنے والے افرادا ورتمام قسم کی اقوام کے لیے راہنمائی اور رُشد کا ذریعہ ہے، لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ قرآن مجید کے اندر مخصوص طبقات یا مخصوص اقوام کے لیے کوئی خاص ہدایات موجود نہیں ہیں ۔ اس حوالے سے قرآن چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اس لیے قرآن مجید میں اگر عربی زبان کے حوالے سے کوئی مشکل کا احساس پایا جائے اور اس مشکل کے اعتبار سے کچھ سہولت دے دی جائے، تو اس حوالے سے خاص اہل عرب کے لیے ہی اس مشقت کا ازالہ کیا جائے گا۔

اسی طرح مختلف قراء ات کا نزول چونکہ مختلف عربی لغات اور عربی لہجات کے پیش نظر ہوا ہے اور یہ عربی لہجات اہل عرب کے اندر ہی بنیادی طور پر بولے جاتے تھے، اہل عجم کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اہل عرب کے اندر ہی یہ مشکل تھی کہ ایک لہجے کا پابند اگر دوسرے لہجے والے کو کیا جاتا، تو اس کے لیے اس لہجے کو اختیار کرنا مشکل سمجھا جاتا تھا، چنانچہ اس چیز کی اہل عرب کے لیے گنجائش دے دی گئی۔ اس پہلو سے قرآن مجیداگرچہ قیامت تک کے لوگوں کے لیے رہنمائی کی بنیاد ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن مجید میں عربیت کے ضمن میں جو مشکلیں ہیں اور ان مشکلوں کے حوالے سے جو رخصتیں دی گئی ہیں ، ان کا تعلق صرف اہل عرب سے ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر33: کیاقرآن میں کوئی ایسا اشارہ ہے جس سے اختلاف قراء ات کاعلم حاصل ہوتا ہو؟
جواب: اس سوال کے جواب سے پہلے اس سلسلہ میں اہل علم کے مابین موجود ایک اور اختلاف کی نشاندہی ضروری ہے۔ علماء میں اس مسئلے میں اختلاف موجود ہے کہ احادیث نبویہ بنیادی طور پر قرآن مجید کے کسی نہ کسی آیت کے ذیل ہی میں داخل ہوتی ہیں یا بطور وحی وہ محض استقلالی حیثیت رکھتی ہیں ، جن کا قرآن کی نسبت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس بارے میں اہل علم کے دو قول عرصہ قدیم سے چلتے ہیں :

1۔ عام طور پر جو قول امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے ، وہ یہ ہے کہ بطور وحی تو حدیث کی حیثیت بھی مثل قرآن استقلالی ہے، البتہ دونوں وحیوں کا باہمی تعلق اجمال وبیان کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور جملہ ہے کہ نَزَلَ القرآنُ جُملۃً حَتّٰی بیَّنَہ الرسولُ یعنی قرآن اجمال کے ساتھ اترا اور حدیث اس کی تبیین کے ساتھ اتری۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک تو یہ تھا کہ وحی کی دونوں قسموں کو امت تک پہنچائیں ، لیکن اس کے بعد ان تبیین قرآن کے ضمن میں بنیادی کام قرآن مجید پر اضافہ کرنا نہیں تھا، بلکہ محض قرآن مجیدکی تبیین کرناتھا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد قرآن مجید کی کسی نہ کسی آیت کے ذیل ہی کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توضیحاً ارشاد فرمایا ہے۔

2۔ دوسرے علماء پہلے نظریہ سے اس پہلو سے تو متفق ہیں کہ رسول اللہ کی لائی ہوئی دونوں قسم کی وحی ایک حیثیت رکھتی ہیں ، البتہ ان دونوں وحیوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس کے بارے میں وہ خاموش ہیں ۔ ہماری سمجھ یہ ہے کہ ان اہل علم کی نظراس بات پر ہے کہ وحی بصورت قرآن پہنچے یا بصورت حدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی ابدی ہدایت ہیں ، چنانچہ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ان دونوں وحیوں کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اس قسم کی مباحث سے استخفاف وانکار حدیث کے رستے وا ہوتے ہیں ، چنانچہ احادیث میں موجود کوئی چیز قرآن مجید پر بظاہر اضافہ کررہی ہے یا نہیں ، ہمارے حق میں وہ اللہ کی ابدی اور ایک جیسے ہدایت ہے۔

اب متقدمین میں امام شافعی رحمہ اللہ کی تعبیرکو لیا جائے یا امام شافعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر ائمہ کی تعبیر کو، جو کہ یہ کہتے ہیں کہ ’’ألا إنی أوتیتُ القرآنَ و مثلَہ معہ‘‘ [مسند احمد: ۱۷۲۱۳] کہ میرے لیے قرآن کی مثل ایک مستقل وحی مزید دی گئی ہے، امر واقعہ میں نفس مسئلہ پردونوں سے فرق نہیں پڑتا، لیکن نفس مسئلہ کی حقیقت کے اعتبار سے امام شافعی رحمہ اللہ کی تعبیر چونکہ دیگر اہل علم سے علمی اعتبار سے زیادہ واضح ہے کہ اس میں ایک مزید سوال کا جواب بھی دیا گیاہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم جو کہ وحی کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید سے مستقلاً ہمیں دیا ہے، اس کا بنیادی طور پر قرآن سے تعلق کیاہے؟ اس حوالے سے ہم اگر امام شافعی رحمہ اللہ کے اس موقف کودیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ احادیث میں اختلاف قراء ات کا جو ذکر آیا ہے، وہ قرآن مجید کی کسی نہ کسی اصولی حکم کے تحت پہلے سے قرآن میں موجود تھا، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی روشنی میں سمجھ کر ہمارے سامنے پیش کردیا، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں {یُرِیدُ اﷲُ بِکُمُ الیُسْر} [البقرۃ:۱۸۵] اور {وَمَا جَعَلَ عَلَیکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ} [الحج:۷۸] جیسی آیات کے ضمن میں أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کا کوئی نہ کوئی پیغام موجود ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر34: بعض آئمہ قراء ات پر محدثین کرام نے جرح کی ہے، کیا اس جرح کے باوجود وہ ایک مقدس علم نقل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، جبکہ حدیث کے معاملے میں ان کی شخصیت ثابت نہیں ؟
جواب: یہ سوال بنیادی طور پر ایک مغالطے کی وجہ سے پیداہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ،جو علم الحدیث سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں ،وہ علم الحدیث کی تحقیق میں جب افراط وتفریط کا شکار ہوتے ہیں توبسا اوقات اس فرق کو بھول جاتے ہیں کہ اہل علم نے مختلف علوم کی روایت اور خود ان علوم کے طریقۂ تحقیق میں فرق رکھاہے، مثلاً روایت ’سنت‘ کی بھی ہوتی ہے، اسرائیلیات کی بھی ہوتی ہے، سیرت وتاریخ کی بھی ہوتی ہے، تفسیر کی بھی ہوتی ہے اور اسی طرح قرآن کریم کی بھی۔ ہرایک فن کے حاملین اور ماہرین بھی مختلف ہیں ۔ اگر تفسیر کی تحقیق مقصود ہو تویہ محدثین کے بجائے مفسرین کا موضوعِ بحث ہے اور اس کو اصولِ حدیث کے بجائے فن تفسیر کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔ اگر تفسیر ی روایات صحابہ و تابعین کے اقوال پر مشتمل ہوں یا شانِ نزول سے متعلق روایات ہوں اور ان کی تحقیق کا موضوع زیربحث ہو تواس کو اصولِ تفسیر میں طے شدہ تحقیقِ روایت کے اُصولوں پر پرکھا جائے گا۔ یہ مفسرین کرام اور نصاب تفسیر کا موضوع ہے۔ یہی حال تاریخی روایات کے پرکھنے کا ہے کہ اگر تاریخ کی روایت زیر تحقیق ہو تو یہ مورخین کا موضوع ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ’سنت‘ کے پرکھنے کے حوالے سے جو نصاب محدثین کے ہاں اُصول حدیث کے نام سے مدوّن صورت میں موجود ہے، وہ حدیث کو پرکھنے کا نصاب ہے، لیکن اُصول حدیث حدیث کو پرکھنے کے اصول تو ہیں ، لیکن ان کے ذریعہ سے تفسیر ،تاریخ ،سیرت ، إسرائیلیات یاقرآن مجیدکو پرکھناغیر علمی طریق کار ہے۔ ان موضوعات پر مفصل بحث ان کے اپنے اپنے نصابات میں موجود ہے۔

سردست یہاں قرآن مجید کی روایت کے فرق کے حوالے سے جو سوال کیاگیا ہے، اس کے ضمن میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ قرآن مجید کے طریقۂ روایت کا سنت نبوی کے طریقۂ روایت سے فرق ہے۔ ان دونوں کے طریقہ روایت کا فرق جاننے کے لیے آج کے دور میں محض قرآن مجیدکے طریقۂ حفظ کو ہی اگر دیکھ لیاجائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ دونوں میں ’ضبطِ شے‘ کے معیار کا کس قدر فرق ہے۔ چونکہ حدیث تحمل واداء کے ذریعے وجود میں آتی ہے کہ ایک آدمی بیان کرنے والا ہوتاہے، دوسرا آدمی اس کوسن کر اخذ کرتا ہے اور پھر اس کو آگے بیان کرتا ہے، تو روایت تحمل و اَدا کے طریق سے گزر کر سامنے آتی ہے، جبکہ قرآن مجید کے تحمل واداء، جسے اصطلاح قراء میں تلقِّی وتلاوت کہتے ہیں ، کا طریقہ حدیث سے انتہائی مختلف ہے۔ حدیث میں چونکہ اصل شے مراد ہے اس لیے اس میں روایت بالمعنی کی گنجائش ہے، لیکن قرآن مجید کے الفاظ وحی ہیں ، چنانچہ اس میں روایت بعینہٖ الفاظ کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔ اب دنیا میں روایت باللفظ چونکہ انتہائی مشکل بلکہ ناممکن صورتوں میں سے خیال کی جاتی ہے، چنانچہ مشہور فلسفی وشاعر اقبال کے بقول ان کے بعض فلسفی ساتھیوں نے اسی وجہ سے قرآن کی محفوظ روایت پر شک کیا تھا، لیکن اگر اقبال کے وہ دوست آج کل کے مدرسوں میں شعبہ تحفیظ القرآن اور حلقات تحفیظ کا جائزہ لے لیتے، تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ یہ حفاظت عملی طور پر پچھلی چودہ صدیوں میں کس طرح وجود میں آئی ہے۔

قرآن مجید کے حفظ کا ایک خاص انداز ہے، جس میں ایک آیت کو حفظ کرکے، آگے منتقل کرنے کے لیے استاد اور شاگرد کا جو اسلوب ہوتا ہے، وہ حدیث یا دنیا میں کسی علم کے طریقۂ روایت میں دیکھانا ممکن نہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کو حفظ کرنے کے لیے ایک ایک لفظ کو ایک طالب علم یاد کرنے کے لیے بسا اوقات دو دو گھنٹوں میں بیسیوں دفعہ تکرار کے بعد یاد کرتا ہے۔ اس کے بالمقابل حدیث کے حفظ کا حلقوں کی صورت میں کوئی اہتمام ہے اورنہ حدیث کو بطور الفاظ یاد کرنے کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے، جس طرح کہ قرآن مجید میں اہتمام کے ساتھ ایک معجزانہ صورت میں یہ موجود ہے۔ قرآن کریم کے طریقۂ ضبط کے حفظِ حدیث سے فرق سمجھنے کے لیے اگر غور کیا جائے تو مشاہدہ یہ ہے کہ جن طلبہ کے حافظے کمزور ہیں ، جب وہ قرآن مجید کو یاد کرتے ہیں تو حفظ کرتے وقت ان کو عام ذہین بچوں کے بالمقابل ۵۰ کے بجائے دو دو سو بار ایک آیت کو دہرانا پڑتا ہے اورعام طور پر قرآن کا نقش ان کے ذہن پر جب جاگزیں ہوتا ہے تو وہ نقش اس قدر دیرپا ہوتا ہے کہ تیز حافظے والے بچوں کے ذہن پر اِس کا اثر اس قدر قوی نہیں ہوتا۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو بچے قوی حافظے کی بنا پر جلد حفظ کرلیتے ہیں وہ عموما جلد بھول بھی جاتے ہیں ۔ عام طور پر وہ لوگ جومختلف انسانی قویٰ میں کسی نہ کسی پہلو سے محرومی رکھتے ہوں ، مثلاً نابینا حضرات یاوہ لوگ جو ذہنی طور پر کمزور ہوں ، بلکہ مدارس میں تو آج ایسے بچوں کو ہی حفظ کے لیے بھیجا جاتا ہے، یہ لوگ جب قرآن مجید کو حفظ کرتے ہیں تو ان کو حفظ کرنے میں چھ چھ ، آٹھ آٹھ سال کاعرصہ لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حفظ قرآن میں ان کی طبعی کمزوریاں یوں زائل ہوجاتی ہیں کہ شمار تکرار کی وجہ سے قلوب واذہان پر قرآن کریم کانقش زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔

بس اسی مثال کو اگر سامنے رکھ لیا جائے تو یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ ائمہ قراء میں سے وہ حضرات، جن پرباعتبارحافظہ بعض محدثین نے جرح کی ہے، وہ حدیث میں اپنے حافظے کے کمزور ہونے کے باوجود کس طرح قرآن اور قراء ات قرآنیہ میں قوی ترین حافظہ کے مالک تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے قرآن مجیدکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ ایک ایک امام دن کے چوبیس چوبیس گھنٹوں میں اور زندگی کے پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ سالوں کے دورانیہ میں جس طرح ہزاروں بار قرآن کو دہرا چکا تھااور ان کی ہمہ وقت درس و تدریس میں مشغول تھا اس سے اس کے حافظے کی وہ کمزوری، جو حدیث وغیرہ میں تھی، قرآن مجید کے حفظ اور اس کو آگے منتقل کرنے میں زائل ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ وغیرہ آئمہ جرح وتعدیل نے اس قسم کے تمام آئمہ کے تراجم میں وضاحت کی ہے کہ یہ لوگ حدیث کے میدان میں ضعیف ہونے کے باوجود قرآن کے معاملہ میں ثقاہت اور امامت کے درجہ پر فائز تھے۔ ماہنامہ رشد ’قراء ات نمبر‘ ۳ میں ہم اس موضوع پر ایک مستقل مضمون ہدیہ قارئین کریں گے۔

یاد رہے کہ محدثین کے ہاں فن حدیث میں سییٔ الحفظ راوی کی دو قسمیں ہیں: کچھ رواۃ کا حافظہ پیدائشی طور پر کمزور ہوتا ہے او رکچھ کا مختلف وجوہ کی بنا پر بعد میں ضعیف ہوجاتا ہے۔ پہلے کو سوء الحفظ اصلی اور دوسرے کو سوء الحفظ طاری کہا جاتا ہے۔ اہل علم کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے ضمن میں آئمہ قراء ات میں موجود دونوں قسم کی حافظے کی کمزوری بوجوہ زائل ہوگئی تھی۔ آئمہ قراء ات کے حوالے سے حافظے کی ایسی کمزوری جو پیدائشی وحقیقی ہو اس پر تو اوپر بحث ہوچکی، رہی حافظے کی ایسی کمزوری جو اصلی نہ ہو بلکہ بعد میں مختلف وجوہ سے طاری ہوجائے، تو اہل علم کے ہاں اس کی بعض صورتیں یہ بھی ہیں کہ بسا اوقات کسی شخص کا ایک علم سے اعتناء اور تعلق اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ دیگر امور سے دلچسپی بالکل کھو بیٹھتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا حافظہ صحیح ہونے کے باوجود دیگر اُمور میں کام نہیں کرتا، جیسے ایک شخص جو ہر وقت قرآن اور اس کی قراء ات کے علوم میں مشغول رہے، بسا اوقات غالب یا اقبال کے شاعرانہ ذوق سے عدم دلچسپی کی بنا پر اسے اردو کا نہ کوئی شعر سمجھ آتا ہے اور نہ دماغ میں ٹکتا ہے۔ اس ضمن میں ان اہل علم اور مجتہدین کی مثال بھی قرین قیاس ہے جو ہر وقت دین میں غور وفکر کے عادی ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے حفظِ حدیث اور دیگر دنیاوی امور میں ان کا حافظہ متاثر ہوجاتا ہے، حالانکہ ان کا حافظہ عمومی طور پر کمزور نہیں ہوتا۔ آئمہ قراء ات میں سے جن بعض حضرات کی باعتبار حافظہتضعیف کی گئی ہے، ان کے بارے میں واضح رہے کہ بسا اوقات اِس جرح کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اصل ہی کے اعتبار سے ضعیف حافظہ کے مالک ہوتے ہیں یا بعض اوقات قرآن اور علوم قرآن سے سدا بہار تعلق کی وجہ سے دیگر علوم میں ان کا حافظ متاثر ہوجاتا ہے۔ بہرحال صورت جو بھی ہو ان کا وہ حافظ قرآن کریم کے ضمن میں مقبول بلکہ اعلی درجہ کا ہوتا ہے، برخلاف حدیث ودیگر دنیاوی امور کے، وہ اس میں عام طور پر بات کو بھول جاتے ہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
سوال نمبر35 رسم عثمانی کو صحتِ قراء ۃ کی ایک لازمی شرط قرار دیاجاتاہے، لیکن مصاحف عثمانیہ باہمی طور خود مختلف ہیں کہ ان میں بعض مقام پر کچھ کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں ؟ اس پر کچھ تبصرہ کردیجیے۔
جواب: پہلے تو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ رسم عثمانی کی جو نسبت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی ہے وہ بنیادی طور پر مجازا ہے، ورنہ درحقیقت قرآن مجید کا رسم، جسے صحتِ قراء ات کے لیے ایک لازمی شرط قرار دیا گیا ہے، یہ بنیادی طور پر وہ طریقۂ کتابت ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خود املاء کروایا تھا۔ اس کے بعد وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس متعدد صورتوں میں موجود رہا۔ یہی وجہ کہ علم الرسم کی جمیع کتب میں رسم عثمانی کی تعریف میں ماہرین فن نے بالاتفاق وضاحت کی ہے کہ عثمانی رسم الخط کے معنی یہ ہیں کہ قرآنی کلمات کوحذف وزیادت اور وصل وقطع کی پابندی کے ساتھ اس شکل پر لکھنا جس پر دور عثمانی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوچکا ہے اور جو تواتر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض وجوہات کی بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کتابت اور رسم الخط کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ایک جگہ اکٹھا کردیا اور حکومتی حفاظت میں لے لیا، تاکہ وہ طرز کتابت،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں لکھوا کر محفوظ کروا چکے تھے،غیرمحفوظ ہو کرضائع نہ جائے۔پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کے حوالے سے اختلافات ظہور پذیر ہوئے توان اختلافات کو حل کرنے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اُمت کے اندر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھوائے اس رسم کو، جسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یکجا کرلیا تھا، حضرت حفصہrسے منگوایا اورایک متحقیقی کمیٹی بناکردوبارہ نظرثانی کروا کر لوگوں کے لیے ایک ’معیار‘ کے طور پر قانونی طور پر نافذ کردیا، تاکہ آج کے بعد قرآن کے حوالے سے جو بھی اختلاف رونما ہو، اُس کو اِس ’معیاری رسم الخط‘ پر پیش کرکے دیکھ لیاجائے، اگر یہ رسم اس کو قبول کرے تو اس کوبطور قرآن قبول کرلیاجائے، ورنہ رد کردیا جائے۔

یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے مختلف حفاظ کے درمیان آج قرآن مجیدکی کسی آیت یا کلمے کے بارے میں جب اختلاف پیدا ہوجاتا ہے تو قرآن مجید کو کھول کر اس کی کتابت سے فیصلہ کرلیاجاتا ہے کہ قرآن مجید میں وہ چیز موجود ہے یا نہیں ۔ اگر موجود ہو تو اس کو بطور قرآن قبول کرلیاجاتاہے، ورنہ نہیں ۔ عین یہی تدبیر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے عہد سلطنت میں قرآن مجید کے ضمن میں پیدہ شدہ فتنہ واختلاف کو ختم کرنے کے لیے کی تھی۔ اسی وجہ سے بعد ازاں زمانوں میں ہمیشہ کے لیے یہ ضابطہ طے کردیا گیا کہ قیامت تک اگر کبھی قرآن کے سلسلہ میں اختلاف پیدا ہو تو اختلافات کو حل کرنے کے لیے اورکسی بھی شے کو بطور قرآن قبول کرنے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ مصاحف سے موافقت ضروری ہے۔ باقی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو رسم الخط پیش فرمایاتھا،اس کے بارے میں واضح کیا جاچکا ہے کہ وہ رسم انہوں نے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ فرمایا تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو اپنی طرف سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کو املاء کروا دیا تھا، جس کے دو مقاصد تھے:

1۔ قرآن مجید کی جو روایت الفاظ کی صورت میں بعد ازاں کی جائے تو چونکہ یہ ایک مشکل کام تھا، چنانچہ اس کی حفاظت کے لیے قرآن مجید کو لکھوا دیا گیا، تاکہ کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے لفظی اختلاف کی صورت میں کتابت کے اس ’معیار‘ سے مدد لی جاسکے۔

2۔ امت میں قرآن اور اس کے نقش کے بارے میں کسی وقت بھی پیدا ہونے والے اختلاف کا قبل ازیں ایسا اہتمام کرلیا جائے کہ اس اختلاف کے حل کے لیے خارج میں پہلے سے ایک ایسا معین ’معیار‘ موجود ہو، جو صحیح وغلط کے مابین امتیاز کا کام دے۔

اب ہم آتے ہیں سوال مذکورکے جواب کی طرف کہ کیارسم عثمانی میں اختلاف موجود ہے؟ اس حوالے سے ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ رسم، چونکہ قرآن مجید کی روایت اور قراء ات یا نفس قرآن کی حفاظت کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں املاء کروا دیا تھا، تو اب چونکہ قرآن مجید میں متعدد لہجوں اور اسلوبِ بلاغت کا بھی اختلاف روزِ اَوّل سے موجود تھا، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو رسم صحابہ کو لکھوایا تھا، اس رسم میں بعض ایسے کلمات،جو متعدد قراء ات کو اپنے اندر سمو نہیں سکتے تھے، مثلاً حذف وزیادت وغیرہ کے قبیل کے بعض اختلافات، کو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اندازوں سے لکھوا دیا تھا۔

بعدازاں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے اس ’معیار‘ کو پیش فرمایاتو اس معیار کو پیش کرتے ہوئے جو مصاحف مختلف شہروں کی طرف روانہ فرمائے، ان کے اندر بھی مختلف فیہ کلمات،جو تقریباً پچاس یاساٹھ کے قریب ہیں ، کو پھیلا دیا، مثلاً وہ مصحف جو مکہ مکرمہ کی طرف روانہ فرمایا تھا، اس میں سورۃ توبہ کے اندر ’’تجری تحتھا الانھار‘‘ میں ’’تحتھا‘‘ سے قبل ’مِنْ‘ کا اضافہ کردیا۔اس طرح مصحف شام اور مصحف مدینہ کے اندر ’’ووصّٰی‘‘کو ’’وأوصی‘‘ لکھوا دیاگیا، تاکہ دونوں قراء ات رسم الخط سے نکل سکیں ۔ المختصر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کے بجائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ کتابت اور اس میں موجود اختلافات کوہی برقرار رکھتے ہوئے مختلف مصاحف میں منقولہ اختلاف کو اُسی طرح لکھوایا تھا، جس طرح صحفِ ابی بکر میں موجود تھا۔ واضح رہے کہ متنوع قراء ات کی مثل رسم الخط کا یہ سارا اختلاف بھی توقیفی اور ثابت عن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔

رسم عثمانی توقیفی ہے یا اجتہادی؟ اس سلسلہ میں ایک مضمون تورشد ’قراء ات نمبر‘ حصہ اوّل میں قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ کے قلم سے شائع کیا جا چکا ہے اور دوسرا زیر نظر شمارے میں حافظ سمیع اللہ فراز حفظہ اللہ کے رشحات قلم سے شامل اشاعت ہے، جب کہ عثمانی مصاحف میں رسم الخط کے ضمن میں چند ایک اختلافات موجود تھے، اس پر تفصیلا بحث پچھلے شمارہ میں شائع شدہ قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ کے مضمون کے ذیل میں دیکھی جاسکتی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top