• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٠) :نبی اکرمﷺ کے ارشاد ( اقروا کما عُلِّمتم )(ابن حبان:۷۴۳) کا مطلب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا حکم یہ تھا کہ ہر صحابی اسی طرح پڑھے جس طرح اس کا استاد پڑھائے، تو قراء ات اختیارات کیسے ہوئیں؟
جواب: نبی کریمﷺ کے ارشاد اقرؤا کما عُلِّمتم(ابن حبان:۷۴۳) کا جب تک پس منظرسامنے نہ رہے، تب تک اس کی تفسیر اور وضاحت کے اندر اختلاف ہوتا رہے گا۔ جو بات ہم اس فرمان سے سمجھتے ہیں وہ یہ بات ہے کہ رسول اللہﷺ کے اس ارشاد ِ مبارک کا ایک پس منظر ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متعدد روایات میں صحابہ کے مابین مختلف قراء ات کی قبولیت کے سلسلہ میں جو اختلاف سامنے آیا تو اس سلسلہ میں آپﷺ نے دیگر ارشادات کے ہمراہ جو ایک اُصولی راہنما ارشاد فرمایا وہ یہ تھاکہ ہر آدمی بجائے اس کے کہ اس بحث میں پڑے کہ کون سی قراء ۃ زیادہ بہترہے اور کون سی کم بہتر ہے یا کونسی قراء ت صحیح ہے اور کون سی غلط ، وہ اس بحث میں پڑنے کے بجائے اپنے استاد سے جس طرح پڑھا ہے اسی کے مطابق تلاوت کرتا رہے۔چنانچہ اقروا کما عُلِّمتم(ابن حبان:۷۴۳) سے بنیادی طور اللہ کے رسولﷺ کی مراد یہ تھی کہ لوگ ایک دوسرے کے انداز ِ تلاوت میں پڑنے کے بجائے اپنے اساتذہ سے اَخذ شدہ اسلوب کے مطابق پڑھیں۔ اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعدازاں علم قراء ات کے آئمہ کبار نے اپنے بے شمار اساتذہ سے جو کچھ پڑھا اسی کے پابندی کرتے ہوئے اپنے انداز تلاوت ترتیب دئیے۔ مثلاً امام نافع رحمہ اللہ کے قراء ات میں ستر اساتذہ تھے اور امام نافع نے اقرء وا کما عُلِّمتم (ابن حبان:۷۴۳) کی رعایت کرتے ہوئے اپنے ستر کے ستر اَساتذہ سے جو کچھ پڑھا، اسی میں سے تمام کو لیتے ہوئے اپنا ایک اندازِ تلاوت متعین کیا اور وہ اس انداز کے مطابق ہی اپنے تلامذہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ ان کا جو انداز تلاوت تھا اس میں کسی بھی جگہ اپنے اساتذہ اور مشائخ سے حاصل کردہ قراء ات سے انحراف نہیں تھا، ماسوائے اس کے تمام کو ملا کر ایک نیا اختیار وجود میں آیا۔
مزید برآں واضح رہے کہ قرآنِ مجید کے حوالے سے یہ سوال جو کیاگیا ہے کہ اگر قراء ات میں عملاً خلط ہوا ہے تو کیا قرآن مجید اپنی اصلی شکل میں موجود ہے؟ تو اس کا جواب ہماری پیچھے گزری گفتگو کی روشنی میں یہ ہے کہ قرآن مجید رسول اللہﷺ پر اُترا تھا اور آپ نے اپنے صحابہ تک اسے پہنچایا، صحابہ نے اپنے شاگردوں اور پھر ان کے تلامذہ نے اسے آگے پہنچایا۔ قرآن مجید توحتمی طور پر اس ساری روایت کے اندر موجود ہے۔ البتہ ہمارے علم کی حد تک یہ بات متعین کرنا مشکل ہے کہ نزول کے وقت قرآن کریم کے جو سات اسلوب سبعہ احرف کی صورت میں موجود تھے، بدون اختلاط وہ اپنی اصلی صورت میں کہاں ہیں؟ لیکن چونکہ ان سات اندازوں کی بعینہٖ حفاظت مقصود بھی نہ تھی، کیونکہ تمام حروف ِسبعہ محفوظ صورت میں قراء ات میں موجود ہیں اور شرعی سہولت کے موافق آپ جس طرح آسانی خیال کریں پڑھ لیں، بھی موجود ہے، چنانچہ ان حروف ِسبعہ کو تو محفوظ کیاگیا ہے لیکن ان کی داخلی تعیین کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ جس طرح رسول اللہ پر نازل شدہ سبعہ اسالیب قراء ات کا علم نہیں، اسی طرح بعد ازاں صحابہ وتابعین اور آئمہ عشرہ کے اساتذہ تبع تابعین کے ترتیبات تلاوت کو بھی متعین کرنا شائد بہت مشکل ہو، کیونکہ جب تک امت میں نئے اختیارات کا سلسلہ جاری رہا ، تب تک ہرنئے آنے والے نے اپنا نئے انداز کو جب ترتیب دیا تو پچھلے کو محفوظ نہیں کیا۔ البتہ جب ان اَئمہ عشرہ کے اختیارات کو اُمت نے قبول کرلیا اور پھرمتاخرین میں ان کا متفقہ تعامل جاری ہوگیا، تو اب صرف ان ائمہ عشرہ کے اختیارات کی تعیین ممکن ہے۔ بہرحال ہم خلاصۃً کہہ سکتے ہیں کہ منزل من اللہ قرآن مجید کے تمام اسالیب توبنیادی طور پر ان موجودہ قراء ات عشرہ میں مکمل طور پرمحفوظ ہیں اور کوئی ایک حرف یا حصہ بھی حذف یا آگے پیچھے نہیں ہوا ،البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ سبعہ احرف کا ہر ہر حرف مفصل اور متعین طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١١): تحریرات کیا ہیں؟ قراء اتِ عشرہ سے ان کی مناسبت کیا ہے؟ نیز فن قراء ات میں ان کا مقام کیا ہے؟
جواب:قراء ات عشرہ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ یہ قراء ات آئمہ عشرہ کے اختیارات ہیں، جو بارہ صدیوں سے اُمت میں بطورِتلاوت متفقہ طور رائج ہیں، نیز بطورِ تلاوت ان کو قبولیت عامہ حاصل ہوجانے کے سبب بعد ازیں نئے اختیارات کا سلسلہ انتہائی محدود ہوگیا۔یہ قراء ات بعد کے زمانوں میں پچھلے ایک ہزار سالوں سے بدون اختلاط روایت کے ذریعے منتقل ہورہی ہیں۔ علم تحریرات اس چیز کا نام ہے کہ آئمہ عشرہ کی نسبت سے جو چیزیں آج قراء ات کی کتابوں میں بیان کی جاتی ہیں، ان کے متعلق یہ نکھار اور وضاحت کی جائے کہ روایات میں کہاں کہاں اختلاطِ طرق ہوگیا ہے، چنانچہ تحریرات کے ضمن میں تقریبا تمام محررین اس بات پر متفق ہیں کہ تحریرات بنیادی طور پر روایات و طرق میں ترکیب واختلاط کے نکھار کا نام ہے۔ خلطِ قراء ات کے حوالے سے بعض اہل علم نے یہاں یہ بحث پیدا کی ہے کہ اگر تحریرات بنیادی طور پر قراء ات ِآئمہ میں اختلاط کے حوالے سے نکھارکے اوپربحث کرتی ہیں تو پھر اس کو کوئی علم قرار دینا قطعی طور پر صحیح نہیں ہونا چاہیے،کیونکہ دین میں خلط قراء ات کی صراحۃً اجازت ہے۔ ہماری رائے میں اس حوالے سے دو نوںرویوں میں افراط وتفریط موجودہے۔
وہ اہل علم جو اختیارات ِقراء کے ضمن میں خلط ِقراء ات کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس کی روشنی میں نئے اختیارات بنانے کی گنجائش دیتے ہیں، ان کی نظر میں علم تحریرات میں بنیادی طور پر خلط قراء ات سے منع کرنا محل نظر ہواہے اور انہوں نے کہا کہ اس پہلو سے علم تحریرات کا موضوع بالکل غیر صحیح ہے،کیونکہ تاقیامت نیا اختیار بنانا اور مختلف قراء توں کو ملا جلا کر پڑھنا جائز ہے۔ان لوگوں کے بقول علم تحریرات کو ایک مقام دینا تو کجا، تحریرات بذات خود اختیارات ہی کے قبیل کی ایک چیز ہے۔ ان لوگوں کے دعوے کے مطابق مدارس میں قراء ات کے سلسلہ میں جو معروف کتابیں یعنی شاطبیہ ، درہ اور طیبہ وغیرہ کو بغیر تحریرات کے پڑھاناچاہئے۔ اس کے بالمقابل وہ حضرات، جن کے ہاں اختیارات قراء کی بحث سے قطع نظر مسئلہ خلط ِقراء ۃ کے سلسلہ میں شدت پسندانہ موقف پایا جاتاہے، وہ علم تحریرات کے بارے میں شدید رائے رکھتے ہیں۔ ہماری رائے میں مسئلہ خلط ِقراء ات کی وضاحت مثبت طور پر ہونا ضروری ہے۔ خلط قراء ات کے مسئلہ کی دو جہتیں ہیں۔ ایک جہت کا تعلق مسئلہ اختیارات سے ہے اور دوسری جہت کا تعلق مسئلہ علم تحریرات سے ہے۔ مسئلہ اختیارات کی حد تک تو خلط قراء ات میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ جب تک خلط قراء ات کی گنجائش نہیں دی جائے گی تب تک نئے اختیار کی اجازت دی ہی نہیں جاسکتی،چنانچہ اگر کوئی آدمی نئے اختیارات بنانے کے حوالے سے مختلف قراء توں کو خلط کرکے ایک نیااختیار ترتیب دیتا ہے تو اس میں کسی قسم کے حرج کی بات نہیں ہے، البتہ اس بارے میں ہم نے پیچھے اپنا رجحان یہ پیش کیا تھاکہ نیا اختیار بنانے کی عوام الناس کے لیے تو قطعا کوئی گنجائش نہیں، جبکہ اہل فن کے لیے بھی نئے اختیار کی ہم حوصلہ افزائی نہیں کرتے، لیکن خلط کے جواز میں بلا شک وشبہ کوئی کلام نہیں۔ رہا علم تحریرات کے اندر خلط قراء ات کا مسئلہ، تو یہاں خلط انتہائی غیر مناسب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم تحریرات کا اختیارات قراء کی بحث سے کوئی تعلق نہیں،کیونکہ قراء عشر کے بعد بالعموم اختیارات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ اب لوگ انہی قراء عشر کی مرویات کو بالاتفاق نقل کررہے ہیں۔ علم تحریرات بنیادی طور پر ان قراء عشرہ کی مرویات میں طرق کے نکھار کا نام ہے، چنانچہ اگر کوئی آدمی ان قراء عشر کی قراء ات وروایات کا التزام کرکے پڑھ رہاہے،مثلاً وہ روایت ورش یا روایت حفص یا روایت قالون کا التزام کرتاہے اورکہتا ہے کہ میں امام حفص رحمہ اللہ کی روایت پڑھوں گا، اب اگر وہ امام حفص رحمہ اللہ کی روایت میں کسی ایسی شے کو داخل کرکے پڑھے جو ان سے ثابت نہ ہو تو یہ کذب فی الروایہ کی وجہ سے ناجائز ہے۔اس مسئلے میں اگر زیادہ بے احتیاطی ہو تو اس کو اہل علم انتہائی معیوب قرار دیتے ہیں،لیکن اگر یہ زیادہ اساسی چیزوں پرمبنی نہ ہو، بلکہ تفصیلات میں جاکر ذیلی چیزوں میں جاکر اختلاط کیا جائے اہل فن کے ہاں یہ چیز بھی بہرحال عیب کی بات ہے کہ وہ ایک مسئلے کے اندر بغیر تحقیق کے کوئی روایت پڑھیں، البتہ عوام الناس یا مبتدی طلبہ کے لیے اس کی گنجائش ہے۔خلاصہ ہم دوبارہ ذکر کیے دیتے ہیں کہ مسئلہ اختیارات کے ضمن میں تو عوام الناس کے لیے نیا اختیار بنانے یا خلط قراء ات کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، البتہ اہل علم کے لیے نیا اختیار بنانا جائز ہے اور اس پہلو سے خلط کرنے کی کوئی قباحت نہیں ہے۔ رہا مسئلہ علم تحریرات کا تو اس بارے میں خلط قراء ات کی وضاحت یہ ہے کہ اَئمہ عشرہ کی روایات یا ان کے ذیلی طرق کے حوالے سے ہم کوئی چیز اگر پڑھنا چاہیں تو بغیر اختلاط کے پڑھنا اہل علم اور محققین کے لیے ایک زیور کے مانند ہے اور ان کا اُن لوگوں سے جو اس علم کے اندر تحقیقی مقام نہیں رکھتے سے امتیاز ہونا چاہیے ، جبکہ جو لوگ اس فن میں مبتدی ہیں ان کے لیے بہرحال یہ چیز عیب دار نہیں ہے۔ ماہنامہ’ رشد‘ کے زیر نظر شمارے میں اس موضوع پر ایک مستقل مضمون بعنوان ’مسئلہ خلط قراء ات اور علم تحریرات کا فنی مقام‘ شامل اشاعت ہے، تفصیل کے شائقین اس طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٢): کیا کلام الٰہی میں اختلاف ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں توقراء ات ِ قرآنیہ میں اختلاف کیوں ہے؟
جواب: قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرَا‘‘(النساء:۸۲)اس اختلاف سے مراد تضاد کا اختلاف ہے، جو منزل من اللہ میں ہو نہیں سکتا اور جو اختلاف منزل من اللہ ہوتا ہے وہ تو وحی پرمبنی ہوتاہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ فقہ واُصول فقہ میں محکوم فیہ کے تعین کے اعتبار سے واجب کی اقسام یعنی واجب معین اور واجب مخیر کے تحت دی جانے والی تمام امثلہ اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ واجب مخیریا واجب غیر معین کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف سے مکلف کو دو دو ، تین تین اختیارات دیئے گئے ہوتے ہیں، مثلاً کہا جاتاہے کہ قسم کے کفارہ میں تین چیزوں میں سے کوئی کرلی جائے تو اس کا اختیار ہے۔ اب اس قسم کا اختلاف تو اللہ تعالی نے خود دین میں رکھا ہے، چنانچہ یہ اختلاف وہ والا اختلاف نہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرَا‘‘(النساء:۸۲)بلکہ اسے تواختلاف کہنا ہی نہیں چاہیے،کیونکہ اس اختلاف کو تواللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے وحی کی صورت میں اتارا ہے اور ایسا اختیار تو شارع عام طور پر سہولت کے لیے دیتا ہے۔
اس آیت سے مراد وہ اختلاف ہے جوکہ ایک عاقل آدمی کی کلام میں تضاد کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے، رہا ایک متکلم اگر اپنی بات کو مختلف اَسالیب اور الفاظ کے متعدد چناؤ کے ساتھ ذکر کرتا ہے اور ان تمام اَسالیب والفاظ میں اختلاف محض لفظی ہے تو اسے عقلاء قطعا اختلاف نہیں کہتے۔ ایسا اختلاف کلام کرنے والوں کی زبانوں میں عام ہے۔ علم الروایہ میں عام طور پر اس قسم کی روایت بالمعنی شمار ہوتی ہے، جس کے الفاظ میں تھوڑا بہت اختلاف فطری طور موجود ہوتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی مبارک کلام میں متعدد مقامات پر الفاظ کے فرق کے ساتھ کلام کی ہے، لیکن تمام اَسالیب والفاظ کے اختلاف باوجود معنی میں کوئی فرق نہیں، جیسے قصہ موسی۔
اللہ تعالیٰ کی کلام یعنی قرآن اور قراء ات قرآنیہ میں اختلاف تضاد ممکن نہیں اور یہی اس کلام کی حقانیت کی اعلیٰ دلیل ہے۔البتہ انسانوں کے کلام میں بسا اوقات تضاد ہوتا ہے، جسے انسان اپنی کمزوری کے باعث محسوس نہیں کرپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب منزل من اللہ حروف وقراء ات میں لوگوں نے بحث ومباحث اور اختلاف کیا تو امام بخاری کی عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق آپ ﷺ سخت ناراض ہوئے اور غصے سے آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا،
آپ نے فرمایا: ( فإنما ہلک من کان قبلکم بالاختلاف ) (مسند احمد:۱؍۴۰۱) ’’یعنی اختلاف مت کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی اختلاف کی وجہ سے تباہ ہوئے۔‘‘
صحابہ میں قراء توں کے ضمن میں جو اختلاف ہوا وہ ایسا تھا کہ جس کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے پچھلی قوموں کی تباہی کی بنیادیوں بیان فرمائی:’’أفَتُؤمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ‘‘(البقرہ:۸۵) کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نازل کرتے تو بنی اسرائیل ان کے ماننے میں اختلاف کربیٹھتے۔ایسا اختلاف گناہ کبیرہ ہے،بلکہ اگر شعور کے ساتھ ہو توکفر ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے اسی لیے قراء توں کی قبولیت کے سلسلہ میں فرمایا:(فإن المُرَائَ فیہ القرآن کفر)(مسند احمد:۴؍۲۰۴،۲۰۵) یعنی اگر تم ایسا اختلاف کرو گے تو یہ کفر اکبر ہے ۔ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مَنْ کَفَرَ بِحَرْفٍ منہ فَقَدْ کَفَرَ بِہٖ کُلَّہٗ(تفسیر الطبری:۱؍۵۴) یعنی جس نے حروف سبعہ میں اختلاف کرتے ہوئے ایک بھی حرف کا انکار کیا اس نے تمام کا انکار کیا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں جب لوگوں میں قراء ات قرآنیہ میں اس قسم کا اختلاف ظہور پذیر ہوا توحضرت عثمان نے اسی اختلاف کو ختم کرنے کے لیے مصاحف حکومتی نگرانی میں لکھواکر مختلف علاقوںمیں بھجوائے تاکہ اختلاف ِمنزل کا درست تعین ہوسکے اور لوگوں میں مذکورہ قبیل کے اختلاف کا خاتمہ ہوسکے، چنانچہ عثمانی مصاحف سبعہ احروف کے تمام اختلاف کو شامل تھے اور ان مصاحف کے سامنے آنے کے بعد امت میں بالاتفاق قرآن یا قراء ات قرآنیہ کے ثابت ہونے کے ضابطہ میں طے ہوگیا کہ جو اختلاف ِقراء ات رسم عثمانی کے مطابق نہ ہو وہ غیر نازل شدہ ہے، جس سے احتراز واجب ہے۔الغرض قراء ات قرآنیہ کا اختلاف تیسیر کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے اتارا۔اسی فقہی اصطلاح میں واجب مخیرکی طرح اختلاف مخیر بھی کہا جاسکتا ہے۔
واجب مخیر یااختلاف مخیرکے قبیل کے احکام کے بارے میں بعض لوگوں نے ایک بڑی عجیب بات اٹھائی ہوئی ہے کہ اللہ کی طرف سے جو چیز بطور سہولت نازل ہوئی ہے ان میں اصل حکم ایک ہی ہوتا ہے، باقی رخصت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصل قرآن کریم ایک ہی تھا باقی چھ اسالیب تلاوت کی اجازت در اصل بطور رخصت دی گئی تھی، چونکہ یہ رخصت تھی اس لیے اب مشکل باقی نہیں رہی چنانچہ یہ رخصت بھی ختم ہوگئی۔
یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے، مثلا پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث سبعہ احرف میں صراحت ہے کہ(أنزل القرآن)یعنی قرآن مجید میں یہ ساتوں اَسالیب منزل من اللہ ہیں۔ اسی طرح صحابہ میں قراء توں کے ضمن میں پیش آنے والے اختلافات کو آپ نے ہکذا أنزلت،ہکذا أنزلت (بخاری:۴۹۹۲)کے الفاظ ارشاد فرماکر اسے نازل شدہ بھی قرار دیا اور بطور دین قبول کرلیا۔ دوسری بات یہ کہ اب چونکہ مشکل ختم ہوگئی ہے، چنانچہ اب چھ رخصتوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ختم کردیا یا ہمیں ختم کردینا چاہیے۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رخصت بطورِ قرآن اتری ہے ،اس کو قیامت تک کوئی ختم نہیں کرسکتا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو ختم نہ کرے۔ اس بات کی دلیل کے لیے واجب مخیرکو بطور مثال سمجھ لیں کہ اگر قسم کے کفارہ میں تین باتوں کی رخصت اللہ کی طرف سے دی گئی ہے تو اگر ساری اُمت بالاتفاق کہے کہ اب ہمیں دو رخصتوں کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہم قرآن وحدیث سے دو کو ختم کردیتے ہیں یا دین سے نکال دیتے ہیں، تو کیا خیا ل ہے کہ اس کی کوئی گنجائش ہے؟ تو جب اس کی گنجائش نہیں ہے تو سات حروف جو اللہ کی طرف سے اترے ہیں،اگر یہ اختلاف منزل من اللہ ہے اور’’وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ‘‘(النساء:۸۲) کے قبیل سے نہیں ہے تو پھر اس اختلاف میں سے تو ایک لفظ ختم کرنا اُمت کے کسی آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ پوری امت بھی اس رخصت کو ختم نہیں کرسکتی،جو دین نے باقی رکھی ہے ۔ نسخ تو اللہ کے رسول بھی خود نہیں کرسکتے بلکہ جو شریعت بھیجنے والا ہے اسی کی طرف سے آپ نسخ کا حکم لاتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی‘‘(النجم:۳) اگر رسول اللہﷺ ایک چیز کانسخ نہیں کرسکتے تو سارے صحابہؓ بھی مل کر کیسے کر سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہمیں سمجھانے کے لیے اللہ تعالی نے انتہائی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے رسول کی زبان سے کھلوایا:’’وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الاَقَاوِیْلَ، لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ، فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ‘‘(الحاقہ:۴۴)
مزید برآں یاد رہے کہ نسخ کے بارے میں علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد نسخ نہیں ہوسکتا، کیونکہ نسخ کا تعلق وحی سے ہے اور آپ کے اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد وحی کا انقطاع ہوچکا ہے۔ کتب اُصول میں صراحت ہے کہ والاجماع لیس بناسخ یعنی ساری اُمت بھی مل جائے تو کسی شرعی حکم کا نسخ نہیں کرسکتی۔ البتہ کسی حدیث کے مفہوم کے خلاف اجماع اُمت اگر ثابت ہو جائے تو اُصولیوں کے ہاں اس کی توجیہ یوں کی جاتی ہے کہ اجماع کسی ناسخ نص کی موجودگی کا قرینہ ہوتا ہے،جو بظاہر ہمارے سامنے نہیں ہوتی، لیکن اجماع خود ناسخ بہرحال کبھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان یا صحابہ کرام کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ رکھنا کہ منزل من اللہ اختلاف قراء ات قرآنیہ کو انہوں نے ختم کردیا تھا، انتہائی بد عقیدتی پر مبنی ہے، بلکہ اس پہلو سے تو یہ نظریہ کفر پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی حفاظت قرآن کے مدعی ہیں اور ان کی صفت ’شہید‘ اور صفت ’المومن‘ کے باوجود ہمارے یہ کرم فرما ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کو علم بھی نہ ہوسکا۔ یاد رہنا چاہیے کہ یہی الزام تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں نے ان پر لگا کر ان کو شہید کیا تھا۔
المختصر اختلاف ِقراء ات سے مراد تنوع اور کااختلاف ہے، تضاد کا نہیں ہے اور اگر کہیں نصوص شرعیہ بشمول قراء ات قرآنیہ میں آپ کو اختلاف تضاد محسوس ہو تو بشرط ِصحت ایسا اختلاف ہمارے نقص ِفہم کی وجہ سے ہوگا، کیونکہ دین میں حدیث، قرآن یا قراء ات قرآنیہ کا باہمی اختلاف تضاد کا ہو ہی نہیں سکتا۔ دلیل اس کی ہے: ’’ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفا کَثِیْرَا‘‘(النساء:۸۲) چنانچہ ایسی صورت میں ہمارا انکار کرنا یا قبولیت میں پس وپیش کرنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس قسم کے اختلاف سے رسول اللہ نے اُمت کو ڈرایا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٣): کیا نبی کریمﷺ کی تعلیم میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے کہ مختلف لوگوں کو آپ نے مختلف طرح سے ایک چیز بتائی ہو؟
جواب:نبی کریم ﷺکی تعلیمات خود اپنی ذات کی طرف سے کبھی بھی مختلف نہیں ہوتیں۔ آسمان سے جیسے آپﷺ کو وحی کی جائے گی ویسے ہی آپﷺ نے بتاناہے۔ آپ رسول ہیں، آپ کاکام اپنی طرف سے اِضافہ کرنانہیں ہے، بلکہ آپﷺ کو جو بتایاجاتاہے وہی کام آپ نے آگے کرناہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی ‘‘(النجم:۳) اگر آسمان سے ایک چیز میں رخصت اترے اور آپ کو کہا جائے کہ آپ کی اُمت کے لیے اس کو سات طرح پڑھنا جائز ہے تو رسول اللہﷺ اپنی اُمت کو سات چیزیں پہنچانے کے پابند ہیں، نہ کہ ہر بات ہر آدمی کوپہنچانے کے پابند ہیں۔ یہ نکتہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آپﷺ نے ہر حکم ہر آدمی کو نہیں پہنچایا، بلکہ صورتِ حال یہ درپیش رہی کہ جس کو جومسئلہ درپیش ہوا اس کو بتا دیا۔بعض لوگوں کو کئی اہم چیزوں کا علم نہیں ہوسکا، حتیٰ کہ آپﷺ کی وفات ہوگئی تو لوگوں کو بعد اَزاں کئی احکامات کا علم ہوا۔ آپ کی ذمہ داری قرآن کے الفاظ میں یوں تھی: ’’یٰاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ‘‘(المائدہ:۶۷) آپﷺ نے اپنا حق ِرسالت اَدا فرما دیا۔آپ کی تعلیمات میں اگر اللہ کی طرف سے کوئی اختلاف (اختلاف سے مراد اختلاف مخیر ہے) کی گنجائش تھی تو آپﷺ نے اس کی گنجائش بھی لوگوں تک پہنچائی ہے۔ چنانچہ قراء ات قرآنیہ کی گنجائش میں اگر آپﷺ نے ایک صحابی کو ایک انداز، دوسرے کو دوسرا، تیسرے کو تیسرا اور چوتھے کو چوتھا انداز سیکھایا تو اس میں حرج کی کیا بات ہے؟
یہاں تو افضل و غیر اَفضل کی بحث بھی نہیں ہے۔قراء توں کے اختلاف کے ضمن فرمایا: ( کلھن شافٍ کافٍ ) (نسائی:۹۴۱) یعنی جو مرضی پڑھ لو ، بطورِ قرآن کفایت کرجائے گا۔ الغرض آپ نے مختلف لوگوں کو مختلف اندازوں سے پڑھایا۔ اگر آپ تمام کوایک طرح پڑھاتے تب قراء توں کا اختلاف اُمت تک منتقل نہ ہوپاتا اور اگر ساروں کو سارے اندازوں سے پڑھاتے تو حرج واقع ہوتا۔ البتہ آپ نے جس طرح بھی پڑھایا دیگرلوگوں کے لیے بمصداق (فاقرء وا ما تیسَّر ) اِجازت موجود تھی کہ وہ منزل من اللہ اَسالیب میں سے کسی طرح بھی پڑھ سکتے ہیں۔ الغرض یہ سارے پہنچانے کے مختلف انداز ہیں اور آپ نے حق ِرسالت اَدا فرما دیا۔ دین کے آگے منتقل کرنے اور پہنچانے میں آپﷺ نے کون سا انداز اختیارکرنا ہے اس میں آپ اللہ کی طرف سے مکلف نہیں تھے کہ آپ نے کس کو کیا سکھانا اور کسی دوسرے کو کیا۔ آپ نے بس پہنچا دیا، کیونکہ اصل کام آپ کا پہنچانا تھا۔ باقی رہا معاملہ یہ کہ عمر اور ہشام بن حکیم دونوں قریشی تھے اور دونوں کو دو مختلف انداز کیوں سکھائے، جبکہ نزول قراء ات کابنیادی مقصد قبائل کے لہجے کے مطابق گنجائش دینا تھا تو اس میں کوئی حکمت ہوسکتی ہے، لیکن اگر کوئی حکمت نہ بھی ہو تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں۔ آپﷺ کاکام صرف پہنچاناہے جو آپ نے بدرجۂ اتم پورا کیا ہے۔
ا س قسم کے اعتراضات کے کئی جواب ہو سکتے ہیں مثلااس اشکال کی وضاحت بعض لوگوں نے یوں بھی کی ہے کہ سبعہ اَحرف یعنی سبعہ لغات کے ضمن میں مرادفاتِ لغات، جیسے حَتّٰی وَعَتّٰی، متنوع لہجات جیسے امالہ، ابدال، تسہیل وغیرہ اور بلاغت کے متعدد اَسالیب ووجوہ، جیسے اختلافاتِ غیب وخطاب وغیرہ تمام شامل ہیں اور روایت میں الفاظ یوں ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام سورۃ الفرقان کو’’حروفٍ کثیرۃ‘‘ میں پڑھ رہے تھے تواس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ متعدد حروف پرمشتمل ان کی تلاوت سبعہ احرف میں موجود بلاغت کے متعدد اسالیب کے اختلاف پر مشتمل ہو کہ آپﷺ نے کچھ وجوہ ہشام رضی اللہ عنہ کوسکھا دی ہوں اورکچھ عمررضی اللہ عنہ کو سکھادی ہوں، چنانچہ کوئی تعارض باقی نہ رہا۔ وہ حضرات جو قراء ات قرآنیہ کے داخلی اختلافات کی متنوع نوعیتوں سے واقف نہیں ہیں انہیں اس بات کو سمجھنے کے لیے سورۃ الفرقان میں موجود ’فرشی اختلافات‘کا مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے اس اختلاف کی نوعیت سمجھنا ممکن ہوسکے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٤): سبعہ اَحرف سے کیا مراد ہے؟ نیز بتائیں کہ دین تو واضح ہے تویہ مسئلہ اس قدر معرکۃ الاراء کیوں ہے؟
جواب :اللہ کے رسولﷺ جب دُنیا سے تشریف لے گئے تو اس سے قبل دین وہدایت سے متعلقہ ہر بات کی مکمل وضاحت پیش فرما کر ہی گئے۔اور اللہ تعالیٰ نے جس دین کو آپﷺ کے ذریعے صحابہy کے لیے بھیجا اس کی کیفیت قرآن کے الفاظ میں یہ تھی: ’’کِتَابٌ أحْکِمَتْ اٰیٰتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ‘‘ (ھود:۱) یعنی اللہ نے جو دستور اتارا اس کی صفت یہ ہے کہ وہ بالکل دوٹوک ہے ، ثم فصلت کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف دو ٹوک ہی نہیں ہے، بلکہ مفصل بھی ہے۔ دو ٹوک کا مطلب ہے: Clearcut اور مفصل کا مطلب ہے کہ اس میں وضاحت کا کوئی پہلو باقی نہیں رہا۔نیز ’من لدن حکیم خبیر‘ میں غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مِنْ نہیں فرمایا، بلکہ من لدن کہا۔ لدُن میں من کی بہ نسبت اختصاص کا مفہوم پایاجاتاہے ۔
اس دین میں ایسا دو ٹوک بیان اورتفصیلی وضاحت اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ تھا کہ اپنے بندوں کو جس چیز کامکلف کرنا چاہتے ہیں وہ بندوں تک ایسی نوعیت اور کیفیت کے ساتھ پہنچے کہ اتمام حجت ہو جائے۔ ’’لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اﷲِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ‘‘(النساء:۱۶۵) تو حجت رسول کے بجائے اللہ تعالیٰ کی لوگوں پر قائم ہونی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذمہ داری کو بہت خوب پیش فرمایا کہ رسول کوجو شریعت بطورِ دین دے کر بھیجی وہ أحکمت ٰایٰتہ ثم فصِّلت سے متصف ہے۔ پھر کلام میں مزید زور دیتے ہوئے اپنی ذات کی ذمہ داری کے پہلو کے بیان کے لیے فرمایا: من لَّدن حکیمٍ خبیرٍ کہ اس شریعت میں اَحکام وتفصیل میں کمال اس لیے ہے کہ جس خالق کی طرف سے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے اسے بھیجا گیا ہے وہ خالق اپنی صفت خبیر کی وجہ سے مخلوق کے شخصی، طبعی، نفسیاتی ہر قسم کے تقاضوں سے روزِ ازل سے بھی واقف ہے اور اپنی صفت حکیم کی وجہ سے حالات کی تبدیلی کے اعتبار سے بھی بات کس طرح بیان کی جانی چاہیے کہ مخاطب کو بات سمجھ آئے سے بھی باخبر ہے۔ ہربندے کے طبیعت وعادت کے الجھاؤ اللہ تعالیٰ کے سامنے تھے اور اس الجھاؤ کا اللہ نے اپنا دین بھیجنے سے پہلے ہی اپنے علم کے اعتبارسے لحاظ کرلیا۔ اور یہ سارا کام کیوں تھا، اس کے حوالے سے فرمایا:ألا تعبدوا إلا اﷲ،کیونکہ اگر یہ دین ان صفات سے متصف نہ ہوتا تو پھر اِتمام حجت نہ ہوتی۔ اگر یہ دین واضح نہ ہوتا تو مقصد توعبادت کروانا ہے، جس بات پر بندگی بجا لانے کا تقاضا ہے اگروہ واضح ہی نہ ہو، تو اللہ کی حجت کیسے قائم ہوگی۔
اس تناظر میں اب ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف )(بخاری:۴۹۹۲) کا مفہوم سمجھتے ہیں۔رسول اللہ کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری تھی کہ جب اس بات کو اپنے رسولؐ کی زبان سے اپنی مخلوق تک پہنچایا تواس کا مفہوم بھی واضح کرے۔ صحابہ میں اس حدیث کا مفہوم اتنا واضح تھا کہ کبھی یہ اشکال پیدا نہیں ہوا کہ سبعہ احرف کا مفہوم کیا ہے، حتیٰ کہ آپ روایات دیکھ لیں کہ صحابہ کا حروف وقراء ات کے ضمن میں باہمی اختلاف ہوا اور وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس تصفیہ نزاع کے لیے آئے تو آپؐ نے فرمایا: (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)(بخاری:۴۹۹۲) آپﷺ نے تلاوت کے اس اختلاف کی بابت( ہکذا أنزلت،ہکذا أنزلت ) (بخاری:۴۹۹۲) فرما کر اس سب کو ’سبعہ احرف‘ میں شامل کردیا اور صحابہ کو سمجھ آگیا کہ سبعہ احرف سے مراد قراء توں اور تلاوت کے متعدد اَسالیب کا اختلاف ہے اور یہ منزل من اللہ ہے۔اس قسم کی تمام روایات میں ایک شے بالکل قطعی ہے کہ سبعہ اَحرف میں زیر بحث اختلاف کا تعلق اداء وتلاوت سے ہے، ناکہ معانی ومفاہیم دین سے متعلق اور صحابہ کو اس بارے میں کوئی اِشکال نہیں تھا۔آج ہم بھی جب حدیثیں پڑھتے ہیں تو کبھی دل میں اشکال پیدا نہیں ہوتا کہ ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)(بخاری:۴۹۹۲)کا مفہوم قراء توں کے اختلاف کے علاوہ کچھ اور ہے۔ ان روایتوں کے سیاق وسباق اور پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں معانی قرآن اور بیانِ دین سے قطع نظر تلاوتِ قرآن کے ضمن میں یہ اختلافات سامنے آئے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ صحابہ کو وضاحت فرماتے کہ ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ) (بخاری:۲۹۹۴)تو ساتھ ہی یہ فرماتے: ( کلّھن شافٍ کافٍ، فاقرء وا ما تیسَّر )(نسائی:۹۴۱)۔ فاقرؤا کا مطلب ہے کہ پیچھے بحث قراء ات کے اختلاف کی چل رہی تھی اور اس ضمن میں آپ کا قرآن کو سبعہ اَحرف پر نازل ہونے کی اطلاع دینے کا تعلق بھی قراء ات کا بیان ہی تھا۔
در اصل سبعہ احرف کے الفاظ مختلف النوع مسائل کے ضمن میں مختلف اَحادیث سے وارد ہوئے ہیں، جن میں سے بعض روایات میں سبعہ أحرف کے ذکر کے بعد سات قسم کے معانی کا بھی ذکر ہے، لیکن ان روایات کا کوئی تعلق قراء توں کے ضمن میں وارد شدہ سبعہ اَحرف سے نہیں۔ سبعہ اَحرف بمراد سبعہ معانی کے اعتبار سے بعض لوگوں نے سبعہ اَحرف کا مفہوم بیان کیا ہے، لیکن جب بعض متاخرین نے سبعہ احرف کی تشریحات کو اکٹھا کیا تو تمام اَنواع کی اَحادیث میں وارد شدہ سبعہ احرف کی جمیع تشریحات کو ایک مسئلہ کے ضمن میں پیش کردیا، جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سبعہ اَحرف کی تفسیر میں علماء کے مابین بہت اختلاف ہے، حالانکہ امر واقعہ میں ایسا نہیں۔اس لیے سبعہ احرف سے متعلقہ احادیث کی تشریح سے قبل اس بات کو ضرور جان لینا چاہیے کہ سبعہ اَحرف کے ضمن میں وارد شدہ روایات پانچ مختلف النوع مسائل سے متعلق ہیں، جن کو پانی پتی سلسلہ کے مایہ ناز قاری وعالم شیخ القراء مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ نے علیحدہ علیحدہ نکھار کر اپنی تصانیف میں بیان کردیا ہے، چنانچہ جن سبعہ اَحرف کا تعلق سبعہ معانی سے ہے، وہ ان سبعہ احرف سے الگ ہیں جن کا تعلق اختلافِ قراء ات سے ہے۔ وہ احادیث علیحدہ ہیں اور یہ علیحدہ ہیں۔ پھر واضح رہے کہ سبعہ احرف بمراد سبعہ معانی سے متعلق روایات استنادی اعتبار سے پایۂ ثبوت کو بھی نہیں پہنچتیں،اس لیے قراء کرام یا محدثین عظام کو کبھی بھی سبعہ اَحرف بمعنی قراء ات کو سمجھنے میں اشکال نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی کتابوں میںجب بھی سبعہ احرف کے ابواب قائم کیے تو سبعہ احرف بمراد سبعہ قراء ات جیسی احادیث ہی لے کر آئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ مسئلہ الجھاؤ کاباعث کیوں بنا؟
سبعہ اَحرف موجودہ قراء ات کے اندر موجود ہیں تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ قراء ات میں کہاں موجود ہیں؟ اس موضوع پر پیچھے مفصل بحث ہوچکی ہے کہ آپ کے ارشاد: ( فاقرؤا ماتیسر ) کے مطابق اور ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کا اسی اجازت کی روشنی میں قرآن کریم کو ’’حروف کثیرۃ‘‘ پر پڑھنا کی روشنی میں بعد ازاں سبعہ احرف آپس میں خلط ملط ہو کر اب نئے سینکڑوں اندازِ تلاوتوں (sets) میں ڈھلگئے ہیں، البتہ یہ تمام سیٹ منزل من اللہ سات اَسالیب ِتلاوت سے باہر نہیں اور اب سبعہ احرف کو صرف انہی اَسالیب میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اختلاف اس میں نہیں ہے کہ حروف کی تفسیر قراء ات سے کی جائے یا معانی سے، بلکہ اہل علم کے ہاں سبعہ اَحرف میں صرف سات اَسالیب کے تعین میں اختلاف ہے کہ وہ سبعہ اَسالیب کون کون سے ہیں؟
سبعہ اَحرف جب مروجہ قراء ات میں ڈھلے ہیں تو اب سینکڑوں سیٹ بن گئے ہیں، اب جو مابعد اختلاط موجود قراء توں کو سامنے رکھ کر سبعہ احرف کی تشریح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں اس کا مفہوم سمجھنے وسمجھانے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ سینکڑوں ترتیبات تلاوت میں موجود بنیادی سبعہ احرف کے سات اَسالیب سے قطع نظر غور ہو رہا ہے کہ سبعہ احرف کون کون سے ہیں، حالانکہ مشکل یہ ہے کہ بہرحال مروجہ قراء ات قرآنیہ متواترہ سات اَسالیب سے زیادہ ہیں۔ متاخرین میں یہ اختلاف بہت ہی پھیلا ہے۔ اس سلسلہ میں امام الفن ابن جزری رحمہ اللہ کا ایک معروف قول یوں ہے کہ میں تیس سال اس حدیث میں غور کرتارہا، حتی کہ ان اَحادیث کا ایک معنی مجھ پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا۔ امام جزری رحمہ اللہ، جو قراء حضرات کے مسلمہ امام ہیں، ان کے اس قسم کے انداز سے یہ عام طور پربہت ہی الجھی کہ حدیث سبعہ احرف اتنی ’مشکل‘ ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ تیس سال کے عرصہ کے بعد ایک مناسب توجیہ سمجھ جان پائے۔ ہماری رائے میں امام ابن جزری رحمہ اللہ سمیت عام اہل فن کی طرف سے دی گئی وضاحت در اصل بنیادی سبعہ احرف کے بجائے ان قراء توں کے تناظر میں سبعہ احرف کی تشریح ہے، جوخیرالقرون ہی میں خلط ملط ہوکر سینکڑوں قراء اتوں میں ڈھل گئیں تھیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سبعہ احرف کی تعریف میں یہ الجھاؤ دین وشریعت کا نہیں ہے، بلکہ یہ الجھاؤ سبعہ احرف کوخلط ملط کرنے سے پیدا ہوا ہے۔
امام ابن جزری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تیس سال تک میرے غورکے نتیجہ جو معنی مجھ پر منکشف ہوا وہ یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد اختلافِ قراء ات کی سات وجوہ ہیں۔ ان کے مطابق مروّجہ قراء ات کے مجموعہ اختلاف میں غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ تمام قراء ات سات وجوہ اختلافات سے باہر نہیں۔ پھر انہوں نے اپنے تیس سال کے حاصل استقراء کو پیش کرتے لغات ولہجات کو ایک حرف اورچھ قسم کے مزید اختلافات کو چھ حروف قرار دیا ہے۔ امام ابن جزری رحمہ اللہ کی طرح جو لوگ سبعہ احرف سے مراد سبعہ اوجہ لیتے ہیں، ان میں سے بعض لوگوں کا حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی سات وجوہ قراء ات سے اگرچہ تعبیر کا کچھ فرق ہے، لیکن اس معمولی اختلاف سے قطع نظر اپنے موقف کے اعتبار سے یہ تمام لوگ ایک ہی تشریح پر متفق ہیں۔
دیگر کئی اہل علم کو اس تشریح سے اتفاق نہیں، لیکن ان کا یہ اختلاف تضاد کا نہیں،بلکہ محض تعبیر بیان کاہے، کیونکہ موجودہ قراء ات عشرہ کے بارے میں سارے ہی اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف کا مصداق یہ قراء تیں ہیں، اختلاف صرف سبعہ اَحرف کے تعین میں ہے۔جبکہ ابن جزریؒ اور دیگر اہل علم کی خدمات اپنی جگہ پر، لیکن یہ سارے لوگ سبعہ احرف کے حوالے سے بعد میں جو کہانی بنی ہے اس کو دیکھ رہے ہیں، حالانکہ سبعہ احرف کی تشریح کا یہ الجھاؤ تو پیدا ہی بعد میں ہوا اور اگر شروع میں خلط قراء ات ہوا ہی نہ ہوتا تو یہ الجھاؤ یا سوال بھی کبھی نہ ہوتاکہ سبعہ احرف سے مراد کیا ہے؟ اب بھی اگر اس الجھاؤ کو ختم کرنا ہے، تو بالکل ابتداء میں چلے جائیں،حل مل جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں اس سلسلہ میں کبھی الجھاؤ پیدانہیں ہوا کہ سبعہ احرف کی تعیین کی جائے۔
اب ہم سبعہ احرف کی تعیین اَساس سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جو رائے ہم بیان کریں گے وہ بھی غیر معروف نہیں اور اس کے قائلین کو اہل علم واہل فن کے ہاں نمایاں ترین مقام حاصل ہے، بلکہ اس رائے کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کے قائلین مثلاً ابو محمد مکی ابن طالب القیسی، امام ابو عمرو دانی، امام طبری رحمہم اللہ وغیرہ بالعموم ابتدائی دور کے لوگ ہیں۔البتہ پہلے قول کی طرح ان لوگوں کی آراء میں بھی ذیلی طور پر معمولی اختلاف ہے، لیکن بالعموم یہ تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف سے مراد سبعہ لغات ہیں۔ہماری رائے میں بھی یہ توجیہ ورائے ہی قوی ہے۔ اس کے دلائل ہم ذیل میں ذکر کیے دیتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) اقوام عالم کی تمام زبانوں کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ہر تیس میل کے بعد زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ اسی طرح عربوں میں بے شمار قبائل تھے اور ان میں لہجوں کا فرق موجود تھا۔ ان قبائل کے اعتبار سے ان کے لہجے ایک نہیں تھے تو اللہ کے رسولؐ نے اللہ تعالی سے فریاد کی کہ ( إن أمَّتی لا تطیق ذلک ) (مسلم:۸۲۱)یعنی میری امت ایک لہجے وحرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ سبعہ وجوہ کے قائلین کے متعین کردہ لہجات ولغات کے ایک حرف کے ماسوا باقی چھ حروف ، مثلا حذف و زیارت، تقدیم وتاخیر، غیب وخطاب، تذکیر وتانیث، حرکات وسکنات وغیرہ کے اختلاف میں تو ایسی کوئی مشکل نہیں کہ ان کو پڑھنے میں اہل عرب کو کئی مشکل ہوتی۔عربوں کو سَارِعُوْا کو وَسَارِعُوْا اور فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ کو وَیُقْتَلُوْنَ فَیَقْتُلُوْنَ یا یَعْلَمُوْنَ کو تَعْلَمُوْنَ وغیرہ پڑھنے میں کونسی دشواری ہوسکتی ہے، جس کے لیے رسول اللہﷺ، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرکر کے حروف وقراء ات کے اختلاف کو مانگ رہے ہیں۔ اُمت اس چیز کی کسی طرح طاقت نہیں رکھتی کہ ایک حرف کو مؤخر اوردوسرے کو مقدم کرکے پڑھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری امت میں بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ ہیں،یہ تمام لوگ اپنی متعدد مشکلات کے باعث ایک حرف یعنی ایک لہجہ پر توقرآن کو پڑھ نہیں سکتے، حالانکہ یہ لوگ مذکورہ قسموں کے اختلاف کو توبغیر کسی دشواری کے پڑھ سکتے تھے۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ لغتوں اور لہجوں کا تھا۔ اصل میں مشکل یہ تھی جیسے دیہاتی شہر آتے ہیں تو اردو والا لہجہ بڑی مشکل سے اختیار کرناممکن ہوتا ہے، اسی طرح اردو دان طبقہ کے لیے انگریزی سٹائل میں انگریزی بولنا بہت محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور پھر لہجے کے اسلوب کو اگر ۱۰۰ فیصدلحونِ عرب کے مطابق ادا کرنا بھی شرط ہو تو یہ اور بھی مشکل ہے۔ سات حرفوں کے نازل ہونے کی اصل وجہ یہی تھی کہ بچے اس لیے نہیں پڑھ سکتے کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں۔ماں کی گود سے جو انہوں نے لہجہ سیکھا ہے وہ لہجہ ان کے لیے آسان ہے۔ بوڑھے اس لیے نہیں کہ وہ ساری زندگی گزار چکے ہیں،اب وہ کیسے صحیح کریں۔عورتیں اس لیے نہیں کہ عورتوں نے گھروں میں رہنا ہے، انہیں اس سارے معاملہ کے لیے وقت درکار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: (إنَّ أمَّتی لا تطیق ذلک) (مسلم:۸۲۱) واضح ہوا کہ جس بنیادی وجہ سے سبعہ احرف اترے، اس کا اصل تعلق لغات یا لہجات سے ہے۔
(٢) سبعہ احرف کی جو تشریح سبعہ اوجہ والے لوگ کرتے ہیں اس پر بنیادی اعتراض یہلازم آتا ہے کہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق ہر ہر حرف اختلاف ِقراء ات کے ایک ایک جوڑے پر مشتمل ہے اور کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں جس کو اگر پڑھا جائے تو تلاوت قرآن کا ایک انداز مکمل ہو۔ یعنی اس تعبیر میں مخصوص کلمات کو متعدد طرح پڑھنے کا تذکرہ تو ہے لیکن کوئی ایک حرف بھی تلاوت ِقرآن کا مکمل سیٹ نہیں بن سکتا،بلکہ ہم تو کہیں گے کہ تمام حروف بھی ملا لیے جائیں تو بھی قرآن کی تلاوت کا ایک مکمل انداز سامنے نہیں آتا۔ مثلاًہم سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں تو کسی ایک حرف یا تمام حروف کو بھی ملا لیں تو ان میں سورۃ الفاتحہ کے مختلف فیہ مقامات کا ذکر تو آجاتا ہے، لیکن سورۃ کے متفق فیہ کلمات کا تذکرہ ہی نہیں آتا۔ جب ہم اس بات کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ قرآن مجیدکا نزول تومکہ میں ہوا اور عام شہرت کے مطابق اس وقت قرآن لغت قریش کے مطابق تھا، جبکہ قراء توں کا اختلاف مدینہ میں اترا ہے، کیونکہ حدیث جبریل ومیکائیل اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا ان سے مکالمہ بنی غفار کے تالاب کے پاس ہوا تھا اور بنی غفار مدینہ میں بسنے والے ایک قبیلہ کا نام ہے۔اسی طرح قراء توں کے ضمن میں صحابہ میں جو اختلاف ہوا وہ مسجد میں ہوا تھا، جبکہ مسجدیںمکہ میں نہیں تھیں۔ مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام تیرہ سال قرآن کریم پڑھتے رہے، تو وہ قرآن کے کسی نہ کسی حرف کی تلاوت توتھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حروف کی تفسیر سبعہ اوجہ سے کی جائے تو امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے مطابق کوئی ایک حرف بھی لے لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مکہ میں ابتدائے نزولِ قرآن ہی سے صحابہ متعدد قراء توں میں پڑھتے تھے۔ مکہ میں قرآن کریم کے پڑھنے کا انداز کوئی ایک حرف لے لیں تو وہ یاتو تقدیم وتاخیر کا حرف بنتا ہے یا حذف واثبات کا حرف بنتا ہے یا تبدیلی حرکات کا حرف بنتا ہے یا متعدد لہجوں کا حرف بنتا ہے، قرآن کریم کا کوئی ایک سیٹ بہرحال نہیں بنتا۔ مکہ میں قرآن کریم تو اس طرح سے پڑھا جاتا تھا کہ جب قرآن پڑھیں تو وہ قرآن کی پوری سورت بننی چاہئے، مثلاً سورۃ الفرقان مکی ہے تو مکہ میں سورۃ الفرقان پڑھی جاتی تھی تو اس وقت یہ ایک حرف پر پڑھی جاتی تھی۔ وہ ایک حرف کون سا تھا؟ اگر آپ ان سات میں سے کوئی ایک حرف لے لیں تو سورۃ الفرقان نہیں بنتی، کیونکہ سات حرفوں میں سے کوئی حرف پورے قرآن کے اعتبار سے حرف کی تشریح نہیں ہے۔ اس ضمن میں حدیث سبعہ احرف میں وارد الفاظ ( کلّہن شاف کاف)(نسائی:۹۴۱)بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ ان سے مقصود یہ ہے کہ حروف سبعہ میں سے ہر حرف تلاوت ِقرآن سے کفائت کرتا ہے۔ جب ہم حروف کی تفسیر ایک مکمل سیٹ کے اعتبار سے نہیں کرتے تواعتراض پیدا ہوتا ہے کہ( کلہن شاف کاف ) (نسائی:۹۴۱)کا معنی کیا ہوگا؟ بات کو سمجھانے کے لیے عملی اعتبار سے کچھ مزید وضاحت کرتا ہوں کہ مثلا اگر سبعہ اوجہ والا قول سبعہ احر ف کی تشریح مانیں تومکہ میں تو بہرحال ایک حرف پر قرآن پڑھا جاتا تھا۔ اب اگر آپ وہ حرف غیب وخطاب والا لے لیں تو یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ یعلمون،تعلمون دونوں مکہ کے اندر نہیں تھے، مکہ میں تو صرف ایک تھا۔ اسی طرح اگر آپ حرکات وسکنات کے اختلاف کا حرف لے لیں تو یَکْذِبون، یُکَذِّبُون دونوں میں سے کوئی ایک مکہ میں مقروء تھی دوسری نہیں۔اسی طرح اگر آپ متعدد لہجات والا ایک حرف مراد لہجات لیتے ہیں، تو لہجات میں تسہیل و تحقیق ، امالہ و عدم امالہ، ادغام واظہار وغیرہ لہجات شامل ہیں۔اب مکہ میں پڑھے جانے والے قرآن میں یہ سارے لہجات قطعی طور پر مقروء نہیں تھے۔
سبعہ احرف بمراد سبعہ دراصل سبعہ احرف کی تشریح نہیں بلکہ پورے قرآن کے اندر استقصاء واستقراء کے بعد اضافی طور پر متنوع اختلافات کی ایک توجیہہ ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ حروفِ سبعہ سے اصل مراد لغات ولہجات کا اختلاف تھا، جن میں ضمنی طور پر لغات ہی کے قبیل سے بلاغت سے متعلق بعض دیگر اختلافات بھی آگئے تھے اور مکہ میں جس حرف کے مطابق قریشی ودیگر قرآن کی تلاوت کرتے تھے وہ لغت قریش تھا، ناکہ سبعہ اوجہ میں سے کوئی وجۂ اختلاف۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) اہل علم جانتے ہیں کہ ابتداء قرآن کریم میں اختلاف قراء ت موجود نہیں تھا بلکہ بعد ازاں آپ 1 کی دعاؤں سے نازل کیا گیا۔ اس سلسلہ میں معروف روایت حدیث جبریل ومکائیل ہے کہ وہ دونوں آپﷺکے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس تشریف لائے۔ حضرت میکائیل نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کی آسانی کے لیے ایک حرف سے زائد پر قرآن کریم کو پڑھنے کی دعا کیجیے۔ تو اللہ کے رسولؐ نے باقاعدہ دعا کرکے ان حروف کو لیا۔اب دوسرا حرف آیا،پھر تیسرا آیا اور چوتھا آیا، پھر پانچواں، پھر چھٹا اور پھر ساتواں حرف آیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سات حروف جو ایک ایک کرکے اترے ہیں، یہ ایک ایک مکمل قرآن کے حروف تھے یا سات حروف ان شکلوں پر اتر ے، جو سبعہ اوجہ کے قائلین بیان کرتے ہیں۔ اگر یہاں مراد یہ سات اوجہ والی تفسیر لی جائے توغیر مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث جبریل ومکائیل تقاضا کرتی ہے کہ ہر ایک حرف آسمانوں سے منفصل نازل ہوا ہے۔منفصل کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعا پر پہلے ایک حرف پر پوراقرآن اترا، پھر دوسرا اترا، پھر تیسرا اترا۔ یہ نہیں ہوا کہ پہلی باردعا کی: ( إن أمتی لاتطیق ذلک) (مسلم:۸۲۱) توحذف و زیادت کا حرف اتر آیا۔ آپ نے پھر کہاکہ امت ابھی بھی طاقت نہیں رکھتی تو اس کے بعد تقدیم و تاخیر کا حرف اتر آیا، مزیدکہا کہ طاقت نہیں رکھتی توحرکات کے اختلاف کا حرف اتر آیا۔ اگرروایات کو دیکھیں تو وہ بیان کرتیں ہیں کہ سبعہ احرف کا ہر حرف مکمل قرآن کی تلاوت کا ایک کامل سیٹ ہے اور ہر ایک حرف دوسرے سے منفصل حالت میں اترا ہے اور آپ کی بار بار دعا کے نتیجہ میں ایک ایک کرکے حروف کی بالآخر سات تک پہنچ گئی تو آپ نے مزید دعا نہیں کی۔ یہ سات انداز تلاوت قرآن مجید کے سات مستقل اسلوب ِتلاوت تھے، یہ نہیں کہ تمام کو ملا کر ایک انداز ِتلاوت بنتا تھا یا تمام کو ملاکر دو انداز ِ تلاوت بنتے تھے وغیرہ۔ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق بنیادی حرج ہی یہ واقع ہوتا ہے کہ جب تک تمام وجوہ سبعہ کو ملایا نہ جائے، قرآن کا ایک مکمل سیٹ بھی نہیں بن پاتا۔ قراء ات عشرہ متواترہ کی بیس کی بیس روایات ہوں یا ان کے ذیلی اسی طرق، ان تمام اوجہ کو یک مشت ملائے بغیر کوئی ایک کامل حرف بھی تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے سبعہ احرف سے سبعہ اوجہ کو مراد لیا ہے انہوں نے دراصل اختلاط کے بعد وجود میں آنے والی روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے مجموعہ روایات کے اختلاف کااستقراء کرتے ہوئے سات قسم کی وجوہ قراء ات کی توجیہ کی، جبکہ قبل از اختلاط نازل ہونے والے سبعہ اَحرف میں سے ہر ایک حرف تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ تھا۔
لوگ جب ہم سے سوال کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ سبعہ احرف کہاں ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ وہ موجودہ قراء ات عشرہ متواترہ میں ہیں۔دوبارہ سوال ہوتاہے کہ قراء ات تو سات سے زیادہ ہیں تو سبعہ احرف قراء ات میں کیسے ہیں؟ ہم کہتے ہیں کہ وہ تو خلط ملط حالت میں قراء ات میں موجود ہیں، ایک ایک منفصل حالت میں موجود نہیں اور اب وہ سات حروف سات نہیں رہے، بلکہ خلط ملط ہوکر کئی بن گئے ہیں اور وہ خلط ملط ہونے سے قبل سات تھے اور وہ آسمانوں سے اسی طرح منفصلاً کامل قرآن کی صورت میں اترے تھے کہ ان میں سے ایک حرف مکہ میں پڑھا جاتا رہا، جبکہ باقی مزید چھ حروف مدینہ میں آکر نازل ہوئے۔
(٤) سبعہ احرف بمراد سبعہ لغات یا سبعہ لہجات کی تفسیر سبعہ اَحرف کے شان نزول سے ثابت ہے، جبکہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ استقرائی تشریح ہے۔اُصول تفسیرپڑھنے پڑھانے والے جانتے ہیں کہ شان نزول سے آیت کی تشریح تفسیر کا ایک مسلمہ اُسلوب ہے۔ اسی بنیاد پر سلف کے ہاں تفسیر صحابہ تفسیر بالماثور میں داخل ہوتی ہے، کیونکہ شان نزول اگرچہ حدیث نہیں ہوتا، لیکن نزول قرآن کا عرف ہوتا ہے جو فہم قرآن یا فہم حدیث میں انتہائی مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے مقدمہ اصول تفسیر میں واضح کیا ہے کہ علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ جب کسی آیت کی تشریح میں دو مختلف باتوں کا امکان ہو تو شان نزول کے ذریعے جو معنی متعین ہوگا اسے بہرحال ترجیح ہوگی۔امام صاحب aنے مثال پیش کی ہے کہ اگر کسی جگہ قسم کے بارے میں کوئی اختلاف ہوجائے اور قسم کی نوعیت کا تعین نہ ہورہا ہو کہ قسم کھانے والے نے کس نوعیت سے قسم کھائی ہے اور قاضی کے سامنے اس کا فیصلہ چلا جائے تو قاضی اس نوعیت کا فیصلہ اس سے کرے گا کہ قسم کھانے کی تحریک کس وجہ سے واقع ہوئی تھی اور جس وجہ سے قسم کھانے کی تحریک واقع ہوگی اس تناظر میں قسم کی نوعیت کا تعین کیا جائے گا اور اس کی روشنی میں قاضی فیصلہ کرے گا۔ سبعہ احرف یا قراء توں کے شان نزول کے سلسلہ میں اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ نزول ِسبعہ احرف کا سبب مختلف قبائل ِعرب کے بولنے کے متنوع اَسالیب کا فرق بنا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ سبعہ احرف کی تشریح میں موجود مختلف اقوال سبعہ احرف کی مراد کے سلسلہ میں معنوی احتمالات کے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ جس تشریح کو شان نزول کی تائید حاصل ہے اسے ہی بہرحال ترجیح ہونی چاہیے۔
اہل علم نے قبائل عرب میں سے ان بڑے قبائل کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی ہے ، جن کی رعائت رکھتے ہوئے سات لغات اتریں ۔ اسی طرح موجودہ قراء ات عشرہ میں موجود لہجوں سے متعلق اختلافات ، جنہیں اہل فن اختلاف قراء ات کے اصولی اختلافات کا نام دیتے ہیں،کے بارے میں محنت کی ہے کہ واضح کریں کہ کونسا کونسا اختلاف کس کس قبیلہ کی لغت سے تعلق رکھتا تھا ۔
المختصر سبعہ احرف کامصداق موجودہ قراء ات عشرہ ہیں، کیونکہ سبعہ احرف انہی قراء ات و روایات میں ڈھل کر ہم تک پہنچے ہیں۔ امام ابو محمد مکی رحمہ اللہ اور امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول عام فہم اور سمجھنے کے اعتبار سے زیادہ سہل ہے اور اس میں الحمد للہ بے جاتکلف بھی نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا سبعہ احرف میں صرف لہجات سے متعلق اختلاف ہی ہے؟

عام اہل فن کی طرف سے سبعہ احرف بمعنی سبعہ لغات پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ موجودہ قراء ات عشرہ میں لہجات کے علاوہ اور بھی کئی نوعیتوں کے اختلافات ہیں۔ سبعہ اوجہ کے قائلین کے ہاں بھی ان دیگر اختلافات کوچھ حروف کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، جبکہ لہجات ان کے صرف ایک حرف میں شامل ہیں۔
اس اشکال کا بڑاسادہ جواب یہ ہے کہ نزول قراء ات کا اصل سبب تو عربی زبان میں لہجوں کا اختلاف تھا، لیکن دین وشریعت میں یہ اُسلوب عام ہے کہ ایک مشکل لوگوں کو در پیش ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب اس کے حل کے لیے وحی بھیجتے ہیں تو اس مشکل کے ضمن میں بعض ایسی دیگر مشاکل بھی حل کردیتے ہیں جو لوگوں نے مانگی نہیں ہوتی اور اللہ کا اپنے بندوں سے یہ معاملہ احسان، فضل وکرم اور محبت کے قبیل سے ہوتا ہے۔
اس بارے میں تو سب متفق ہیں کہ نزول سبعہ احرف کا اصل پس منظر تولہجات کی مشکل تھی، لیکن جب لہجات اترے تو اس کے ضمن میں اللہ نے فہم قرآن کے سلسلہ میں کچھ تفسیری مشکلات کو بھی حل کردیا۔ اب لہجات کے علاوہ جو دیگر اختلافات ہیں وہ در اصل بلاغت کے متعدد اَسالیب ہیں اوریہ بات طے ہے کہ متعدد اَسالیب میں بات کو سمجھایا جائے تو مخاطب کو بات بہتر سمجھ آتی ہے۔ تو ہماری رائے کے مطابق (امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے استقراء میں لہجات کے علاوہ پیش کردہ ) دیگرچھ نوعیتوں کے اختلافات سات لہجات کے ضمن میں متفرق طور پر شامل ہیں۔ بعض اہل فن نے ان چھ نوعیتوں کو بھی جب بلاغت کے متعدد اسالیب کے تناظر میں جمع کیا تو عملاً انہیں چھ کے بجائے سات قرار دیا ہے اوریہ ہم بات جانتے ہیں کہ ہر لغت لہجہ، مترادف کلمات اور متعدد اسالیب بلاغت کو شامل ہوتی ہے ، چنانچہ ہم نے سبعہ احرف کی تشریح میں بار بار لہجات یا لغات کے الفاظ اکٹھے بولے ہیں،کیونکہ ہماری رائے میں سبعہ احرف سے بنیادی طور پر لہجات مراد ہیں، البتہ ان کے ضمن میں لغات کے قبیل سے بلاغت کے متعدد اسالیب کا اختلاف بھی شامل ہے۔ اس لیے سبعہ احرف کی تشریح یا تو صرف لغات سے کرنی چاہیے اور لغات میں لہجات، مرادفات اور اسالیب بلاغت سب شامل ہوں گے یا لغات ولہجات کو باہمی مترادف کے طور پر بولنا چاہیے۔ رہے مرادفات جیسے حتّٰی، عتّٰی وغیرہ تو ان کے بارے میں اہل علم متفق ہیں کہ عرضۂ اخیرہ میں یہ سب منسوخ ہوگئے تھے۔ اس پس منظر میں سبعہ احرف کی تشریح جب ہم کرتے ہیں تو یوں کرتے ہیں: یُرَادُ بہم سبعۃُ لہجاتٍ من لغاتِ العرب وسبعۃُ أوجہٍ من أسالیبِ البلاغۃ۔ شیخ القراء مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ نے اپنی گرانقدر تصنیف’دفاع قراء ات‘‘ کے صفحہ ۱۱۰ پر ہمارے مذکورہ موقف کے موافق رائے پیش فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ علم قراء ات کے اصولی اختلافات سات معروف قبائل عرب کے لہجات سے ماخوذ ہیں، جبکہ وہ مخصوص کلمات جن میں بطور قاعدہ اختلاف نہیں یعنی قراء ات کے فرشی اختلافات، وہ سات متعدد اسالیب بلاغت سے ماخوذ ہیں۔ پھر قاری صاحب نے ان سات اسالیب بلاغت کی مکمل وضاحت بھی پیش فرمائی ہے۔
ایک بات بالکل واضح ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں ساتوں حروف بمعنی سبعہ اوجہ امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں بھی مسلم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجوں کو ایک حرف میں اور دانی رحمہ اللہ وغیرہ سات حرف مانتے ہیں، پھر جزری رحمہ اللہ وغیرہ اَسالیب بلاغہ سے متعلق اختلافات ِقراء ات کو چھ حروف کے طور پر اوردانی رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجات کے ذیل میں شامل مانتے ہیں۔ سبعہ اَحرف کے اندر اللہ کی طرف سے لہجات کااختلاف بھی اترا تھا اور اسالیب ِبلاغت کا بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ بعض لہجات کو ایک حرف، باقی اختلافات کو چھ حروف بناتے ہیں اوربعض دیگر قراء ات کو سات لغات یا لہجات قرار دے کر اس کے ضمن میں اسالیب بلاغت کو بھی شامل کرتے ہیں۔ اختلاف صرف اتنا ہے کہ تعبیر ہم کون سی کریں۔
ہماری رائے میں امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے حدیثوں کے زیادہ قریب ہیں، نیز متقدمین بالعموم اس رائے پر ہیں، کیونکہ یہ مسئلہ کی اساس کے اعتبار سے زیادہ قرین از قیاس ہے۔ یہ سارا مسئلہ خلط قراء ات کی وجہ سے اصل میں الجھاؤ کا باعث بنا ہے اور جب یہ اختلاط نہیں ہوا تھا تو اس وقت یہ الجھاؤبھی نہیں تھا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٥) : سبعہ احرف سے معین عدد مراد ہے یا کثرت؟ نیز اس سلسلہ میں کثرت اقوال بہت تشویشناک ہے۔
جواب: شریعت میں جب کسی جگہ پر کوئی عدد بول کر شارع کوئی حکم بیان کرے تو اُصولیوں کا موقف یہ ہے کہ اس عدد سے مراد پھر قطعی طور پر وہی متعین عدد مراد ہوگا، جیسے دین کہتا ہے کہ غیر شادی شدہ اگر زناکرے تو’’ فاجلدوا کل واحد منھا مائۃ جلدۃ…‘‘(النور:۲) تو یہاں مائۃسے مراد سو سے کم یا زیادہ کوڑے نہیں بلکہ مائۃ کی دلالت سو کے عدد پر قطعی ہے۔ یہ لفظ اِصطلاحی طور پر’خاص ہے اور خاص کی دلالت اپنے مفہوم پر بالاتفاق اصولیین قطعی ہوتی ہے۔ اسی طرح اُصولیوں کے ہاں کسی لفظ سے مجازی معنی مراد لینے کے لیے دلیل صارف ضروری ہے،جو تقاضا کرے کہ یہاں لفظ سے حقیقی معنی مراد لینے کے بجائے مجازی معنی مراد لیے جائیں اور چونکہ یہاں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں، اس لیے( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ) (بخاری:۴۹۹۲)سے مراد سات کا عدد ہی ہے۔ سات سے مراد ستریاکثرت کسی صورت میں مرادنہیں ہوسکتا،بلکہ دلیل یعنی حدیث ِجبریل ومکائیل تو اس کے خلاف صراحۃً دلالت کر رہی ہے کہ اس میں واضح طور پر موجود ہے کہ ایک ایک کرکے عد دسات تک جا پہنچا اور پھر آپ نے مزید کا تقاضا نہیں کیا۔
یہ مسئلہ اچھا خاصا معرکۃ الاراء بنا ہواہے، لیکن محمد رسول اللہﷺ جس دین کے ہمراہ تشریف لائے ، آپ کا کام صرف دین پہنچانا نہیں تھا، بلکہ آپ کا کام بمصداق قرآن: ’’وَأنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ‘‘(النحل:۴۴) دین کی تبیین بھی تھا اور رسول اللہ ﷺ اس ذمہ داری کو مکمل اداء فرما کر گئے۔ آپ نے دنیا سے رحلت فرماکر جانے سے قبل فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم ان دونوں پر تمسُّک کرلو توکبھی گمراہ نہیں ہوسکتے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ واضح نہیں ہیں تو کسی طور پربھی اس کے ساتھ تمسّک کا معنی متعین نہیں ہوتا۔اب مسئلہ صرف اِتنا ہے کہ بسا اوقات تبدیلی حالات کے اندربعض ایسے اِشکالات پیدا ہو جاتے ہیں جو دین کے اشکالات نہیں ہوتے، بلکہ ہمارے اپنے کچھ فقہی یا تشریحی مسائل ہوتے ہیں۔ بعد ازاں کچھ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس کی وجہ سے اِبہام پیدا ہوجاتاہے۔ اسی طرح ’ سبعہ اَحرف‘ کے سلسلے میں کچھ ابہام پیداہوئے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ’’فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّر مِنَ الْقُرآن‘‘ (المزمل:۲۰) کے تحت مختلف قراء ات کو آپس میں ملا جلاکر پڑھنے کی دین میں جو اجازت دی گئی تھی اورجس کے مطابق صحابہ اور تابعین نے پڑھناشروع کیا توہم جانتے ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں قرآن مجید کے انداز نئے ترتیبات تلاوت اور سیٹ تشکیل پاگئے۔ اب سبعہ احرف کی تشریح کا جو مسئلہ پیداہوا ہے تو اس بارے میں اگرچہ اس بارے میں امام زرکشی رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ نے ۳۵ ،۴۰ کے قریب اقوال نقل کئے ہیں، لیکن اَقوال کی کثرت سے ہمیں پریشان نہیں ہوناچاہئے، کیونکہ اَقوال کی کثرت کی بنیاد پر اگر قرآن کی کسی آئت یا کسی حدیث میں تشکیک پیدا ہوجائے تو سبعہ احرف کی تشریح میں وارد اَقوال سے زیادہ اقوال بعض مقامات پر ملتے ہیں، مثلاً اگر ہم تفاسیر دیکھیں تو ایک ایک آیت کی تفسیر میں بسااوقات ۷۰،۷۰ تفاسیر موجود ہیں۔ اسی طرح معروف مسئلہ کہ جمعہ کے اندر ایک گھڑی آتی ہے جس میں جو بھی دعا کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے،اس کے بارے میں امام ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں علماء کے چالیس قول نقل کئے ہیں کہ یہ گھڑی کون سی ہے۔ اب چالیس اَ قوال سے یہ بات تولازم نہیں آئے گی کہ اس حدیث کے اندر شکوک پیداہوجائیں۔ عام طور پر علماء کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے عام اسلوب یہی ہے کہ دلائل کے اعتبار سے کسی بھی قول کو ترجیح دی جاتی ہے۔یہاں جب ہم اَقوال کا جائزہ لیتے ہیں تو اَقوال کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔کچھ اقوال ایسے ہیں جو سبعہ احرف سے مراد معانی کی سات اَقسام مراد لیتے ہیں اورکچھ اقوال ایسے ہیں جو سبعہ احرف سے مراد پڑھنے کے اسالیب کی سات قسمیں مراد لیتے ہیں۔ جو لوگ سبعہ احرف سے مراد معانی کی سات اقسام لیتے ہیں،ان کے سامنے کچھ ایسی روایات موجود ہیں جن میں اللہ کے رسولؐ کے حوالے سے ذکرملتا ہے کہ سبعہ احرف کا مفہوم آپ نے امر، نہی وغیرہ بیان کی ہیں، لیکن اوّل تو یہ روایات ضعیف ہیں، لیکن اگر یہ ثابت ہوں بھی تو، جیساکہ علماء نے لکھا ہے کہ، اس کا محل اور ہے ۔ بہرحال سبعہ احرف بمعنی سبعہ معانی سے متعلق تمام اقوال کا کوئی تعلق سبعہ احرف بمعنی سبعہ اسالیب قراء ات سے نہیں۔ اب جوباقی اَقوال رہ گئے ہیں، انمیں غور کریں توباقی اقوال بنیادی طور پر دو بنیادی قولوں میں شامل ہیں، جن کے بارے میں مکمل تجزیہ پیش ذکر کیا جاچکا ہے، لیکن ایک بات ضرور قابل توجہ ہے کہ جتنے بھی اقوال سبعہ احرف بمعنی سبعہ اَسالیب قراء ات کے سلسلہ میں مروی ہیں، اگرچہ ذیلی طور پر ان میں کافی اراء ہیں لیکن سب کاایک بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے پڑھنے میں متنوع اسالیب موجود ہیں۔ ساروں کا ایک بات پر اتفاق ہے قرآن مجید کے پڑھنے کاایک اسلوب نہیں ہے۔ اس کو اصولیوں کی اصطلاح میں اجماع ِمرکب کہتے ہیں اور اجماع ِمرکب کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ اس سے انحراف جائز نہیں۔ خاص طور پرکثرتِ اقوال کی بنا پر اس حدیث کو متشابہات کہنا تو بالکل صحیح نہیں۔
دوسری بات بڑی اہم یہ بھی سامنے رہنی چاہئے کہ یہ جو ۴۰ قول پیش کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں عام ذہنیت یہی ہے کہ یہ چالیس افراد کے چالیس اقوال ہیں، لیکن جب امام سیوطی رحمہ اللہ کی الاتقان وغیرہ کو کھولتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ اقوال کئی افراد کی نسبت سے بیان نہیں کئے، بلکہ یہ اقوال صرف چند افراد کے غور وفکر کے احتمالات ہیں۔اس کی وضاحت حافظ محمد زبیرحفظہ اللہ کے جاوید غامدی کے قراء ات سے متعلقہ نظریات کے رد پر لکھے گئے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ایک آدمی کے مختلف اقوال بطورِ احتمالات پیش کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پارہا اور اگر وہ کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو ایک ہی قول پیش کرتا ہے۔
کسی آیت یا حدیث کا مفہوم متعین کرنا دراصل فقہاء ومفسرین کا میدان ہے، قراء بھی اس سلسلہ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں، لیکن جن کا یہ میدان ہے کہ وہ سبعہ احرف کا مفہوم لہجوں ولغتوں سے متعین کرتے ہیں۔
مفسرین کا یہ ضابطہ ہے کہ تعبیر کے اختلاف کو اختلاف ِتنوع پر محمول کیا جائے گا۔ اگر ہم سبعہ احرف کی تشریح کے ضمن میں موجود اختلاف کو بھی اختلاف تضاد محمول کرنا شروع کردیں گے، تو پھرخیر القرون کی تفاسیر میں بھی ایسے ایسے اختلافات سامنے آئیں گے، جنہیں تنوع کا اختلاف کہہ سکنا ممکن نہ رہے گاـ۔اسی طرح امام جزری رحمہ اللہ کا قول ہو یا امام دانی رحمہ اللہ کا، ہر ایک میں اختلافِ تضاد نہیں ہے، فقط تعبیر کا اختلاف ہے، کیونکہ سبعہ احرف کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ موجودہ قراء ات میں موجود ہیں، نیز مروجہ قراء ات کے جمیع اختلافات کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ سبعہ احرف کے اختلاف سے باہر نہیں ہیں۔
 
Top