• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٦): اگر قراء ا ت احادیث کی طرح آئمہ کی مرویات کا نام ہے، تو حدیث کی طرح اس کی اَسانید کیوں نہیں؟
جواب: یہ بات غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی ہے کہ قرآن اور اسی کی قراء ات بدون سند سینہ بہ سینہ اُمت میں منتقل ہورہی ہیں۔یہ مغالطہ ہمارے ہاں سکالرز حضرات کے ہاں عام ہے کہ قرآن خبر کے طریقہ سے اُمت میں منتقل نہیں ہوا۔ فرقہ فراہیہ نے تو اسی غلط بنیاد پر ایک نیا فلسفہ گھڑ لیا ہے کہ حدیثیں چونکہ خبر کے ذریعے سے اُمت تک منتقل ہوئیں چنانچہ وہ مجموعہ رطب ویابس ہیں، اسی لیے وہ سنت وحدیث میں یوں فرق کرتے ہیں کہ سنت تو دین کی وہ روایت ہے جو اسانید سے قطع نظر مثل قرآن کے اُمت کے اتفاقی تعامل (نام نہاد تواتر عملی)سے ہمیں موصول ہوئی، جبکہ حدیث مجموعہ اخبار ہے۔ بہرحال یہ جہالت پر مبنی مغالطہ امیز بات ہے۔ اگر اس کی بنیاد یہ چیز بنی ہے کہ قرآن مجید کے حوالے سے عام طور پر اسانید عوام الناس یا عام اہل علم میں معروف نہیں، تو اس طرح تو کئی احادیث اور کتب احادیث کی سندیں اہل فن کے علاوہ لوگوں میں معروف نہیں ہیں، مثلاً مشکوٰۃ المصابیح اور بلوغ المرام کے اندر حدیثوں کی اسانید موجود نہیں ہیں، تو کسی چیز کی سند ذکر نہ کرنے کا قطعی معنی یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے سند ہے نہیں۔مختلف وجوہات کی بنیاد پر بسا اوقات اسانید نقل نہیں کی جاتیں۔ مثلاً بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں مؤلفین نے جو اسانید بیان ہیں کیں تو اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کتابوں کو بطورِ روایت کے وہ نقل نہیں کر رہے ۔جب مقصود روایت ہوگا تو بتانا پڑے گا کہ میں نے یہ روایت کہاں سے لی ہے اور اسے بالآخر رسول اللہﷺتک ثابت کرنا پڑے گا۔ عام طور پر صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ یا دیگر کتب ِحدیث کو مؤلفین نے بطورِ روایت نقل کیا ہے اوراسی لیے ان میں اسانید کا بھی ذکر ہے۔ البتہ جب روایت مقصود نہ ہو توسند کا ذکر ضروری نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں موجود معلق روایات ہیں۔ معلق راویتیں امام بخاری رحمہ اللہ نے عام طور پر ترجمۃ الباب میں ذکر کی ہیں۔ مقصود ان سے راویت نہیں،بلکہ استدلال ہے۔جب مقصود استدلال ہو، جیسے میں اور آپ بحث کررہے ہیں اورمیں نے حدیث سبعہ احرف کوکئی دفعہ ذکرکیا ہے لیکن سند، حتی کہ راوی تک کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس سے ہماری بحث پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ جب میں راویت کروں گا، تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس روایت کا استناد کیاہے اور اس کی اسنادی حیثیت کیاہے؟اسی طرح مشکوٰۃ اور بلوغ المرام کا معاملہ ہے۔ بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ اورخطیب تبریزی رحمہ اللہ نے حدیثیں بطورِ روایت نقل نہیں کیں،بلکہ انہوں نے ان مجموعوں کو صرف مطالعہ حدیث کے لیے تیار کیا ہے۔
بالکل اسی طرح قرآن مجید کا بھی معاملہ ہے۔ جب قرآن مجید کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس سند سے یہ قراء ات وروایات ہم تک پہنچیں اور ان کی سند کیا ہے تو ہم اپنے پاس موجود رسول اللہﷺتک متصل اسانید ذکر کردیتے ہیں اور ان میں موجود رجال کے لیے معرفۃ القرّآء الکِباراز امام ذہبی رحمہ اللہ اورطبقات القرائاز امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کو پیش کرتے ہیں، لیکن اگر قرآن مجید سے مقصود راویت نہ ہو ،بلکہ بطورِ عبادت تلاوت کی غرض سے اس کو پڑھا جائے تو اَسانید کے ذکر کی ضرورت نہیں۔عام طور پرجس طرح مساجد میں قرآن کریم پڑے ہوتے ہیں اور لوگ اَذانوں ونمازوں کے وقفہ میں قرآن اٹھا کرپڑھنا شروع کردیتے ہیں تواس وقت ان کا مقصود روایت نہیں ہوتا، چنانچہ تلاوت کی غرض سے کروڑوں کی تعداد میں جو قرآن عموما مطبوع ہیں ان کے شروع یاآخر میں بطورِ خاص سند کا اہتمام نہیں ہوتا، البتہ بعض علمی وتحقیقی سطح کے مطبوع قرآنوں کے آخر میں متعلقہ روایت کی صاحب روایت سے اللہ کے رسولﷺ تک سند موجود ہوتی ہے، لیکن صاحب روایت امام کے بعد سے لے کر عصر حاضر تک اسانید کا اہتمام عام قرآنوں کے بجائے اہل فن کے پاس موجود ہیں۔ عوام الناس جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود روایت نہیں،بلکہ تلاوت ہوتی ہے اور روایت کے سلسلہ میں وہ اہل فن ہی پر اعتماد کرتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کو راویت کے طور پر محفوظ انداز میں نقل کردیا ہے، ہمیں ان پر اعتماد ہے اور ہمیں ان کی راویت سے کوئی غرض نہیں ہے ہم کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ قرآن کی محفوظ روایت متعین کردیں تاکہ ہم اسے پڑھ سکیں۔جن لوگوں کو اس کی راویت میں کوئی شک ہے تو ان سے بحث کی جاسکتی ہے اور ان کو روایات واسانید دیکھائی جاسکتی ہیں۔
قرآن مجیدمیں بھی حدیثوں کی طرح اَسانید کا اہتمام اہل فن میں شروع سے رہا ہے، لیکن جس طرح حدیث کی کتابیں جب مدون ہوگئیں تو اہل علم جانتے ہیں کہ اس کے بعد اَسانید کے اہتمام کی کوئی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور بعض حضرات جنہوں علمی روایت کے طور پر اگر سند کا اہتمام کیا بھی ہے تواس کی بنیاد پرحدیث پر حکم لگانے کا معاملہ بہرحال موقوف ہوچکا ہے، بالکل اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں النشرالکبیروغیرہ کے منظر عام پر آنے کے بعد قراء ات کی اسانید کامعاملہ سمیٹ دیاگیا۔اہل فن کے ہاں امام ابن جزری رحمہ اللہ کو اسی اعتبار سے خاتمۃ المحقّقین بھی کہا جاتاہے کہ انہوں نے اسانید کے حوالے سے پوری جانچ پڑتال کرکے النشر کو ترتیب دے دیا۔اب النشر میں جو کچھ ہے اس سے باہر قرآن کریم کی کوئی قراء ت موجود نہیں اور جو کچھ نشر میں موجود ہے اس کی عمومی صحت پر اہل فن کا اتفاق ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کے النشر الکبیرکی تصنیف کے بعد قرآء ات قرآنیہ کی تدوین کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ہی سے اسانید کے ساتھ روایت کے معاملہ کو اضافی سمجھ لیا گیا۔ اب اہل فن کے ہاں قراء ات کی تلاوت یا علم قراء ات میں کسی کتاب کی تصنیف سے قبل سندوں کو پیش کرنے کا التزامی اہتمام موجود نہیں، بعض کبار مشائخ ،جن میں آج بھی روایت واجازت کا اہتمام موجود ہے، وہ بہرحال اپنی تصانیف کے آغاز میں اپنی اسانید ِ قراء ات ذکر کردیتے ہیں، لیکن عام اساتذہ وطلبہ، جو مدارس میں قراء ت سبعہ و عشرہ پڑھتے پڑھاتے ہیں، ان میں کتنے لوگوں کے ہاں قراء ات کی سندیں موجود ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کتنے لوگ بخاری شریف پڑھتے پڑھاتے ہیں لیکن وہ سندوں کا اہتمام نہیں کرتے۔ قراء ات کی طرح احادیث کے علماء میں سے بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جو اسانید کا بطورِ تبرک اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں علم قراء ات کی درس وتدریس کے سینکڑوں موجود ہیں ۔ ان تمام مدارس سے ہزاروں لوگ بطور علم اور بطور روایت ان قراء ات کو پڑھ رہے ہیں ، لیکن ان میں سے بہت ہی تھوڑے لوگوں کے پاس اَسانید موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں تدوین علم کے بعد اب اَسانید کے اہتمام کا معاملہ اضافی ہوچکا ہے۔ اب سندوں کے اہتمام کی اُسی طرح ضرورت نہیںسمجھی جاتی جس طرح صحیحین اور دیگر مجموعہ ہائے حدیث کی ترتیب و تدوین کے بعد سندوں کا اہتمام ختم ہوگیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٧): کیاقرآن مجید کے ایک ایک حرف ، ایک ایک آیت اور ایک ایک سورت کی سند موجود ہے یا مکمل قرآن کی سند ہوتی ہے کہ شروع میں ایک سند ذکر کی جائے اور پھرمکمل قرآن ذکر کردیا جائے؟
جواب: حدیث نبوی اجزاء کی صورت میں اُمت کو ملی ہے اور صحابہ کو بھی اجزاء کی صورت میں ہی موصول ہوئی۔ اگرچہ قرآن بھی حدیث کی طرح ابتداء ً تیئس سالہ عرصہ میں آہستہ آہستہ مختلف واقعات کے تناظر میں اجزاء کی صورت میں اترتا رہا، لیکن اس کا معاملہ حدیث سے دو طرح سے فرق رہا:
(١) پہلا فرق تو یہ ہے کہ جب قرآن کی کوئی آیت اترتی تو آپ اس کے بارے میں فرمادیتے کہ اس کو فلاں سورۃ اور فلاں مقام پررکھا جائے اوراس طرح سے متفرق طور پر نازل ہونے والی آیات ایک نظام میں پروئی جاتیں۔ اُمت کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ آج قرآن کی آیات وسورتوں کی جو ترتیب ہے ، جسے آج کل کی اصطلاح میں نظم بھی کہتے ہیں، وہ توقیفی ہے۔نظم قرآن کی اسی توقیفی حیثیت کے پیش نظر لوگوں نے اس کی بنیاد پرقرآن کی تفسیریں لکھی ہیں۔ حدیث میں چونکہ نظم کا مسئلہ ہی نہیں اس لیے وہاں نظم کی بنیاد پر استدلال ہی نہیں ہوتا۔
(٢) دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی کی کلام کے الفاظ ہونے کی ناطے متعبّد بالتلاوۃ ہے، جبکہ حدیث چونکہ مراد الٰہی ہے چنانچہ اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ اب چونکہ قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے اس لیے قرآن اجزاء کے بجائے بالاخر ایک مسلسل کلام میں ڈھل کر امت کو منتقل ہوا۔ حتی کہ عرضۂ اخیرہ میں قرآن کریم کی سور کی بھی ایک حتمی ترتیب متعین کردی گئی۔ امام ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباري میں ذکر فرمایا ہے کہ جو بات قرآن کی آیات وسورتوں کی ترتیب پاجانے کے بعد دلائل کی روشنی میں اہل علم کے ہاں طے ہے وہ یہ ہے کہ اب قرآن کو موجودہ ترتیب سے ہٹ کر پڑھنا سور کی حد تک تو راجح قول کے مطابق جائز ہے، البتہ آیات کے معاملہ میں تمام اہل علم کے بالاجماع حرام ہے۔
اس پس منظر میں اب ہم مذکورہ سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ سائل کے ذہن میں یہ شبہ موجود ہے کہ جیسے حدیث میں ایک ایک چیز کی سند موجود ہے، اسی طرح ایک ایک آیت کی سند ہونی چاہئے یا قرآن مجید کے ایک ایک کلمے کی سند ہونی چاہئے، جب کہ یہ ذہنیت سطحی غورو فکر اور قرآن و حدیث کی روایت کے باہمی فرق سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔اس سلسلہ میں پیچھے جوبات ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق آج جب ہم حدیث کو پڑھتے ہیں تومختلف محدثین کی دی گئی ترتیب کے مطابق پڑھتے ہیں اور وہ ترتیب محدثین نے نظم کلام کے لحاظ سے ترتیب نہیں دی، بلکہ متعدد دینی موضوعات کی اہمیت وغیرہ کو مد نظر رکھ دی ہے۔
اہل قراء ات کے ہاں شروع سے اُسلوب رہا ہے کہ اگر وہ کسی استاد سے مکمل قرآن کو پڑھنے کے بجائے چند سورتوں تک پڑھتے ہیں تو اِجازہ قراء ات میں استاد صراحت کرتا ہے کہ فلاں طالب علم نے مجھ سے فلاں روایت یا تمام قراء ات میں مثلا سورۃ الفاتحہ سے سورۃ آل عمران کے آخر تک پڑھا اور جب طالب علم مکمل قرآن استاد سے پڑھے تو وہ مکمل قرآن کا ذکر کرکے اِجازت مرحمت کرتا ہے۔ عام طور پر اہل قراء ات میں قرآن کریم کو آیۃ آیۃ یا کلمہ کلمہ کرکے پڑھانے کا رواج ہی نہیں۔ مشرقی ممالک میں روایت حفص اور مغربی ممالک میں رائج روایت ورش وغیرہ کے سلسلہ میں اَساتذہ کا اُسلوب یہ ہے کہ وہ مکمل قرآن سنے بغیر طالب علم کو روایت آگے نقل کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیتے، البتہ تدریس قراء ات کے سلسلہ میں بعض اہل فن میں تساہل پایا جاتا ہے کہ وہ قراء ات کی اجازت عموما چند پارے اور مخصوص سورتیں سن کر دے دیتے ہیں کہ طلبہ میں طبعی کسولت بڑھ گئی ہے، جبکہ کبار مشائخ کی عادت آج بھی یہ نہیں کہ وہ طالبعلم کو بغیر مکمل قرآن سنے قراء ات عشرہ یا قراء ات سبعہ یا کسی مخصوص روایت کی اجازت ِ روایت دیں۔ تحریک کلیہ القرآن الکریم اور اس سے منسلک اداروں کا بالعموم معمول بھی یہی ہے کہ وہ مکمل قرآن سنے بغیر طالب علم کو اجازت یا سند عطا نہیں کرتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٨): اہل فن کے ہاں ثبوت ِقراء ات کا ضابطہ کیا ہے؟ کیا قراء ات قرآنیہ متواترۃً ثابت ہیں؟
جواب: سب سے قبل یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ قراء ات قرآنیہ کا ثبوت صرف قطعی ذریعہ سے ہوا ہے، جبکہ حدیث قطعی ذریعہ سے بھی ثابت ہوتی ہے اور ظنی ذریعے سے بھی۔ قطعی ذریعہ کا مطلب یہ ہے کہ روایت اتنے محفوظ طریقے سے ہو کہ اس میں غلطی کا اِمکان ختم ہوجائے اور مزید تحقیق کی ضرورت باقی نہ رہے، جبکہ ظنی ذریعے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بات بطورِ خبر پہنچتی ہے تو چونکہ جملہ خبریہ میں سچ و جھوٹ دونوں پہلو کا اِمکان ہوتا ہے، اس لیے ہم تحقیق کرکے کسی ایک پہلو کو متعین کرتے ہیں۔ ظنی ذریعے سے ثابت خبر کی تحقیق کے اصول ’ علم مصطلح الحدیث‘ میں ذکر کیے جاتے ہیں۔ خبر متواتر کے بارے میں تمام اہل علم متفق ہیں کہ اس سے علم قطعی کا حصول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خبر متواتر اُصول حدیث کا موضوع نہیں ہے۔ قرآن کے بارے میں ایک بات شروع ہی سے ذہن نشین کرلیں کہ اہل علم میں اس بات میں معمولی سا بھی اختلاف نہیں کہ قرآن مجید کا ثبوت ظنی ذریعہ سے نہیں ہوتا، صرف قطعی ذریعہ سے ہوتا ہے۔
مسئلہ زیر بحث پر بات کرنے سے قبل ایک اُصولی بات ابتداء ہی سے ذہن نشین کرلیں کہ جب دوسری صدی ہجری میں فلسفہ یونان کے عربی میں ترجمہ ہونے کے بعد دینیات کے باب میں فلسفیانہ نظریات کی امیزش ہوئی تو اہل سنت و اہل بدعت کے دو بنیادی مکاتب فکر وجود میں آگئے۔ جیسے جیسے زمانہ آگے آتا گیا، اس فلسفیانہ ذہن کی کارستانی میں اضافہ ہی ہوا۔ اس ضمن میں بدعتوں فرقوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حدیث تھی اور حدیث چونکہ بالعموم منقول ہی آحاد کے طریق سے ہے، چنانچہ اہل سنت کے بالمقابل انہوں نے قبول ِخبر واحد (بالفاظ دیگر حدیث نبوی) کے سلسلہ میںتشکیک کا رویہ اختیار کیا، جبکہ ان کے بالمقابل اہل سنت ومحدثین کرام نے بھرپور مزاحمت کا سامنا کیا۔ اسی کشاکشی میں معتزلہ سے متاثر ہوتے ہوئے بعض اہل سنت میں بھی قبول حدیث کے بارے میںیہ انتہائی غلط نظریہ پیدا ہوگیا کہ ثبوت ِروایت میں اصل بحث تواتر یا آحاد کی ہے، جبکہ قبول ورد حدیث کے ضمن میں فن حدیث میں طے کردہ معیارات یعنی راوی کا کردار ( عدالت) ، روایت کے معاملہ میں راوی کی مطلوبہ صلاحیت (ضبط) اور اتصال سند وغیرہ تحقیق روایت میں ’اضافی‘ مقام رکھتے ہیں۔ حالانکہ معاملہ اس کے سراسر برعکس ہے۔ دین وشرع میں کسی جگہ یہ بات موجود نہیں،بلکہ ثبوت ِ روایت کے معاملہ میں ہر جگہ متعین طور پر معیار راوی کی عدالت وضبط اور اتصال سند وغیرہ ہی کو بتایا گیاہے اورکثرت ِروایت یا روایت میں ثبوت کی قطعیت وغیرہ مباحث حدیث میں اضافی طور پر قوت پیدا کرتی ہیں۔ خبر مقبول و خبر مردود کا یہ معیار ہرگز نہیں کہ روایت آنے کے بعد فن حدیث کے اصولوں کو تو ایک رکھ دیا جائے اور تواتر وآحاد یا قطعیت وظنیت کی مباحث کو اصل بنالیا جائے۔ یہ بدعتی طرز فکر ہے، جس کا اہل فن میں سے پچھلے ایک ہزار سالہ تاریخ میں کوئی چھوٹا یا بڑا محدث قائل نہیں۔ عصر حاضر میں کئی اہل علم نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، جن میں سے میں دو اہل علم کی کتب کا بطور خاص تذکرہ کروں گا کہ اس سلسلہ میں انہیں ضرور دیکھا جائے۔ پہلی کتاب تو ایم فل یا پی ایچ ڈی سطح کا ایک مقالہ ہے،جو مدینہ یونیورسٹی میں لکھا گیااور مطبوع ہے، اس کا نام ہے:المنہج المقترح فی علم المصطلح، جبکہ دوسری کاوش معروف عالم دین مولانا ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ نے فرمائی ہے اور انہوں نے نور الانوار شرح المنار از ملا جیون رحمہ اللہ کی دوسری وچوتھی جلد کے حاشیہ وتعلیق میں تفصیلاً اس موضوع پر بحث کی ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس تمہید کے بعد اب ہم آتے ہیں نفس مسئلہ کی طرف تو واضح رہے کہ علمائے اُصول کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید بطریق تواتر منقول ہے۔ہماری رائے میں بھی قراء ات کا ثبوت تواترسے ہوا ہے، البتہ تواتر کے مفہوم کے بارے میں اہل فن کا اختلاف ہے کہ تواتر کی تعریف کیا ہے؟ اس بارے میں اگر پہلے اہل فن میں موجود اس اختلاف کو حل نہ کیا جائے تو ہم یہ بات طے نہیں کرسکتے کہ قرآن مجید کس تعریف ِتواتر سے ثابت ہے۔ اس سلسلہ میں علماء کے دو اقوال ہیں:
(١) عام اُصولیوں کے ہاں تواتر کی یوں ہے:
ما رواہ عددٌ کثیرٌ یستحیل العادۃ تواطئَہم علی الکَذِب۔ اس تعریف کی روسے متواتر حدیث ایسی روایت کو کہتے ہیں جسے اتنا بڑا جم غفیر نقل کرے کہ جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔
(٢) دوسرا قول یہ ہے کہ ما أفاد القطعی فھو متواتر یعنی وہ خبرجو علم قطعی کے ذریعے سے ہم تک پہنچتی ہے، اس کو متواتر کہتے ہیں۔یہ متقدمین محدثین کا موقف ہے، جبکہ کتب مدون نہیں ہوئیں تھیں۔ اس دور میں جبکہ ابھی اِصطلاح سازی کا تصور سامنے نہیں آیا تھا، اس وقت کے علماء دو ہی چیزوں سے واقف تھے کہ روایت دو قسم کے ذریعوں سے ثابت ہوتی ہے: قطعی ذریعہ، ظنی ذریعہ۔جب علوم تدوین پاگئے تو بعد از تدوین فن حدیث بھی بعض اہل علم میں یہ رجحان پایا جاتا رہا کہ تواتر کی تعریف میں اصل چیز ’قطعیت‘ ہے، ناکہ کافی سارے رواۃ کی روایت۔ متقدمین اہل علم کے اس تصور کی توضیح اور وضاحت پر فن حدیث کی قدیم وجدید کتب میں بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ ابھی پیچھے جن دوکتب کا میں حوالہ دے چکا ہوں، اس ضمن میں ان میں انتہائی مفید بحثیں موجود ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی کتب میں اس موضوع بہت ہی خوب بحث کی ہے کہ تواترکی تعریف میں متاخر محدثین میں معتزلہ اور ان سے متاثر بعض فقہاء کی وجہ سے فلسفیانہ رنگ آگیا ہے، جس کے مصداق کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اسی طرح امام مصطلح الحدیث، حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ اور تمام شارحین ِمقدمہ نے بھی متواتر حدیث کی عام تعریف، جس کا تعلق تواتر اسنادی سے ہے، پر خوب ہی کلام فرمائی ہے کہ مروجہ تعریف ِ تواتر میں محدثین کے بجائے بعض متاخرین اصولیوں نے رنگ امیزی کی ہے، کیونکہ جو تعریف عام طور پر ’تواتر الاسناد‘ کی ذکر کی جاتی ہے اس کا مصداق تلاش کرنا امر واقعہ میں انتہائی مشکل، بلکہ ناممکن ہے۔ اس تعریف کے مطابق اگرانتہائی تلاش کیا جائے توزیادہ سے زیادہ تواتر الاسناد کا مصداق صرف ایک حدیث: (من کذب علیَّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار) (بخاری:۱۰۷)شائد بن سکے۔ مقدمہ ابن صلاح کے شارحین مثلا حافظ عراقی رحمہ اللہ وغیرہ نے وضاحت کی ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ اور عام محدثین امام حاکم، حافظ ابن عبد البر، امام سیوطی رحمہم اللہ وغیرہ جس تواتر کو مانتے ہیں وہ اسنادی یا بالفاظ دیگر عددی تواتر نہیں،بلکہ تواترالاشتراک ہے۔ ایسا تواتر مختلف ’اخبار آحاد‘کے مجموعہ میں الفاظ یا معانی کے اعتبار سے موجود قدر مشترک سے حاصل ہوتا ہے، چنانچہ تواتر الاسناد تو اولا محدثین کی کوئی مسلمہ اصطلاح ہی نہیں اور جس اصطلاح کو محدثین کرام کے تواتر کے نام سے بیان کیا جاتا ہے وہ در اصل اخبار آحاد میں قدر مشترک سے حاصل شدہ علم قطعی ہے۔ثابت ہوا کہ محدثین کے ہاں خبر متواتر میں اصل چیز عددی یا اسنادی تواتر نہیں بلکہ تواتر الاشتراک ہے، جو روایت وخبر کے پہلوسے درحقیقت خبر واحد اور نتیجہ کے اعتبار سے ایسی روایت ہوتی ہے جس میں موجود شے علم قطعی سے ثابت ہوتی ہے ۔
ان تمام باتوں کے ساتھ اگر مزید یہ غور بھی کرلیا جائے کہ تواتر الاسناد کے حوالے سے محدثین میں مزید یہ بھی اختلاف ہے کہ روایت میں کتنے عدد افراد ہوں توجھوٹ کا احتمال محال قرار پاتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی عام محدثین کے بالمقابل محققین کا موقف یہ ہے کہ تواتر الاسناد میں بھی اصل چیز عدد نہیں، بلکہ وہ قطعیت ہے جو درحقیقت روح ِ تواتر ہے اور وہ قطعیت زیادہ کے بجائے چند افراد سے بھی حاصل ہوسکتا ہے، جیساکہ اس موضوع پر صاحب ِسبل السلام امیر صنعانی رحمہ اللہ نے توضیح الافکار میں اور حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع فتاوی کی اٹھارویں جلد میں انتہائی مفید بحث فرمائی ہے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ تواتر صرف عددی اکثریت سے حاصل ہوتا ہے وہ غلطی پر ہیں، تواتر (یعنی روایت میں قطعیت) بسا اوقات راویوں کی کثرت سے اور بسا اوقات راویوں میں پائے جانے والی صفات عدل وضبط میں کثرت سے حاصل ہوتا ہے یعنی بسا اوقات راوی ایک ہی ہوتا ہے، لیکن وہ کئی آدمیوں کی مثل قوت رکھتا ہے، جیسے امام بخاریaہیں۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ کی بات کے مدلول میں چار یا اس سے زائد رواۃ کی کثرت بھی شامل ہے،جسے عموما تواتر الاسنادکہتے ہیں، اور چار سے کم رواۃ میں پائے جانے والی صفات کی قوت بھی شامل ہے،جسے اصطلاح محدثین میں خبر واحد محتف بالقرائن کہتے ہیں۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جھوٹ کااحتمال تین یا اس سے کم رواۃ میں ختم ہوجاتا ہے تو محدثین کے بالاتفاق ایسی شے بھی علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ اس مثال میں ہم صحیح بخاری کےسلسلۃ الذھب کو پیش کرسکتے ہیں۔ سلسلۃ الذھب سے مراد سونے کی وہ سند ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ،اپنے استاد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اوروہ نقل کریں امام شافعی رحمہ اللہ سے اور وہ نقل کریں اپنے استاد امام مالک رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کریں نافع رحمہ اللہ یا سالم رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کریں ابن عمررضی اللہ عنہ سے۔ اس سند میں موجود تمام افراد کو امیرالمومنین فی الحدیث کا لقب حاصل ہے اور ہر ہر آدمی اپنی ثقاہت میں متعدد ثقہ راویوں کے برابر قوت رکھتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ باتوں سے معلوم ہوا کہ محدثین کے ہاں خبر واحد کی بھی دوقسمیں ہیں:
(١) ایک خبر واحد وہ ہے جو علم نظری و ظنی کا فائدہ دیتی ہے، یعنی ایسا علم جس میں تحقیق ونظر کی ضرورت ہوتی ہے اور تحقیق کے بعد اس میں بھی سچ وجھوٹ میں سے ایک پہلو قطع ہوجاتا ہے۔
(٢) دوسری خبر واحد وہ ہے جو صحت سند سے ثابت ہو اور متواتر خبر کی طرح علم قطعی کا فائدہ دیتی ہو۔ ایسی خبر کو محدثین کرام کی اصطلاح میں الخبر الواحد المحتف بالقرائن کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں امام ابن حجررحمہ اللہ نے شرح نخبۃ اور النکت علی ابن الصلاح وغیرہ میں وضاحتاً لکھا ہے کہ اہل الحدیث کے ہاں ایسی خبر متواتر حدیث کی طرح علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے یا بالفاظ دیگرایسی خبر سے جوعلم حاصل ہوتا ہے، اسے متاخرین کی اِصطلاحات میں اگرچہ تواتر تو قرار نہیں دیا جاتا،کیونکہ تواتر اسنادی کے لیے کم از کم چار افراد کا ہر طبقے میں پایا جانا ضروری ہے،لیکن اس کے باوجود یہ قسم تواتر کی طرح ہے، کیونکہ قرائن اسے ایسی قوت بخش دیتے ہیں کہ یہ قطعیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔اہل الحدیث کے ہاں یہ قرائن کافی قسم کے ہوتے ہیں، جن کی تفصیل کتب مصطلح میں موجود ہے۔ ان میں سے ایک قرینہ، جسے تقریبا تمام فقہی مکاتب فکر کے ہاں مقبولیت حاصل ہے، یہ ہے کہ ایسی صحیح روایت، جس کی صحت پر جمیع اہل فن کا اتفاق ہوجائے ، جسے اِصطلاحات میں تلقی بالقبول کہتے ہیں، تو یہ اتفاق اسے قطعیت کے مقام پر فائز کردیتا ہے۔ صحیحین کو دیگر کئی قرائن کے ساتھ صرف اسی ایک قرینہ نے اُمت کے ہاں قطعیت کے مقام پر فائز کردیا ہے۔ عام طور پر علمائے احناف خبر واحد کی بنا پر واجب اور فرض میں، حرام اور مکروہ تحریمی میں اور تخصیصِ عام اور تقییدِ اطلاق وغیرہ کی مباحث میں جمہور سے مختلف ہیں اور اس کی وجہ وہ یہی قرار دیتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہوتی ہے ، جبکہ خبر متواتر علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے، لیکن علمائے احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ اور علامہ کشمیری رحمہ اللہ وغیرہ صحیحین کے قطعی الثبوت ہونے کے قائل ہیں۔
الغرض قراء ات کے ثبوت میں چار قسم کا تواتر پایا جاتا ہے، جس کی تفصیل ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:
(١) خبرمتواترکی قسم تواتر الاسناد کی تعریف کے اعتبار سے اگر قراء ات کو دیکھا جائے تو قراء ات میں آئمہ عشرہ کے بعد سے عصر حاضر تک تواترالاسناد پایا جاتا ہے، البتہ آئمہ عشرہ سے قبل چونکہ ہر دم اختلاط ہورہا تھا چنانچہ تواتر الاسناد وہاں معدوم ہے۔
(٢)آئمہ قراء ات کے ہاں ثبوت ِقراء ات کا عام ضابطہ یہ ہے کہ جو قراء ت صحت ِسند سے ثابت ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک مصحف کے رسم کے موافق ہو، نیز لغات عرب کے خلاف نہ ہو تو اسے الخبر الواحد المحتف بالقرائن کے قبیل سے قرار دے کر قطعیت کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا۔
امام ابن جزری رحمہ اللہ نے ان تین شرطوں پر ایک بات کا مزید اضافہ بھی فرمایا ہے کہ متعدد قرائن کے ساتھ ثابت شدہ اس قسم کی قراء ات پر اہل فن کا تلقّی بالقبول بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اس بات کو دیگر اہل علم نے بھی قبول کیا ہے۔ ثبوت قرآن کے اس ضابطہ میں حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ اس اضافے کو میں بہت اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ یہی وہ ضابطہ ہے جس کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو قطعیت کے مرحلہ تک پہنچا دیا، کیونکہ صحیحین پر اہل فن یعنی محدثین کے اور قراء ات قرآنیہ پر اہل فن یعنی قراء کرام کے اتفاق کا معنی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی تمام تر تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ مرویات قطعی الثبوت ہیں۔ یہاں ہم جاہلوں کے اتفاق کی بات نہیں کررہے، بلکہ ان لوگوں کی بات کررہے ہیں،جو بغیر تحقیق کیے اتفاق نہیں کرتے،بلکہ مکمل جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی اتفاق کرتے ہیں۔صحیحین پرماہرین فن کے اتفاق کے بعد ہی انہیں ما جاوز القنطرۃ کے مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ اگر اسی قسم کا اتفاق موجودہ قراء ت عشرہ کو حاصل ہو تو اہل فن انہیں قراء ات میں شمار کرتے ہیں ورنہ نہیں، بلکہ صحیحین کی صحت پر تو بعض لوگوں نے علمی اختلافات بھی کیے ہیں، لیکن موجودہ قراء ات قرآنیہ عشرہ متواترہ کے ثبوت میں پچھلی بارہ صدیوں میں کسی ایک عالم نے بھی انکار نہیں کیا، بلکہ علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ کے بقول تو کلمہ طیبہ پڑھنے والے کسی عامی نے آج تک معمولی شبہ کا اظہار نہیں کیا۔
(٣) ثبوت قراء ات کے سلسلہ میں ایک تیسرا تواتر وہ ہے جوکہ حدیث میں عام طور پر نہیں پایا جاتا۔ اسی لیے عام اہل الحدیث اس سے واقف بھی نہیں۔ اسے اہل قراء ات کی اصطلاحات میں ’تواتر طبقہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن کریم متعبّد بالتلاوۃ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خواص میں پڑھا پڑھایا جاتا رہا،چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ کے رسولﷺ نے قرآن پڑھایا تو صحابہ میں سے ہر شخص کا قرآن سے تعلق رہا، یہی حال تابعین و تبع تابعین میں رہا، حتیٰ کہ آج تک امت میں سے ہر آدمی قرآن کو پڑھتا ہے، جبکہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ عام لوگوں کا علم حدیث سے صرف اتنا تعلق رہا کہ اہل علم سے مسائل پوچھتے رہے اور حدیث کے باقی علم کو اہل الحدیث کے سپرد کرکے اپنے دنیاوی مشغول ہو رہے۔ اس اعتبار سے اگر جائزہ لیا جائے تو قرآن کریم صحابہ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر آج تک ہردور میں پڑھا جارہا ہے اور مختلف ممالک میں ہمیشہ سے مختلف قراء ات رائج رہی ہیں، چنانچہ وہ لوگ جو مدارس میں قراء اتِ قرآنیہ کے محافظین ہیں اگر وہ ہر دور میں ہزاروں میں رہے ہیں تو معاشرہ میں انہی قراء ات کو پڑھنے والے عوام الناس ہر زمانہ میں لاکھوں، کروڑوں رہے ہیں۔ اب مثلا مدارس میں روایت ِحفص سینکڑوں لوگ اَسانید سے اَخذ کر کے آگے نقل کررہے ہیں، جبکہ صرف پاکستانی معاشرہ میں سولہ کروڑ عوام بھی اسی روایت پر بلا اختلاف اتفاقی تعامل سے عمل پیرا ہے۔ یہ مدارس میں پڑھائی جانے والی روایت حفص کا انتہائی قوی قرینہ ہے۔ اسے اہل قراء ات ’تواتر طبقہ‘ کے نام سے بیان کرتے ہیں، جس کا حدیث میں سرے سے وجود نہیں۔یہ کتنا مضبوط قرینہ ہے کہ اس کی بنیاد پر خبرواحد کو وہی تقویت مل جاتی ہے، جو تلقّی بالقبول کے ذریعے سے قراء ت کو ملی ہے۔ آج اگر اُمت میں ساری قراء تیں متداول نہیں ہیں، توبھی اس قسم کے تواتر کا بڑا فائدہ ہے کیونکہ قراء عشر تک تو اہل فن کے ہاں بھی تواتر اسنادی موجود ہے، معاملہ اس کے بعد کا ہے اور قراء عشر کے دور میں تمام سبعہ احرف عوام وخواص میں متداول تھے، چنانچہ آئمہ عشر تا رسول اللہ 1 تواتر طبقہ موجود ہے۔
(٤)یہاں ثبوتِ قراء ات کا ایک چوتھا ذریعہ بھی ہے جو تواتر کی ایک مخصوص قسم ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کا ایک ایک کلمہ، ایک ایک آیت اور ایک ایک سورت کو بھی تواتر حاصل ہے، لیکن یہ تواتر سندو عدد والا تواتر نہیں بلکہ وہ تواتر ہے جسے محدثین ’ تواتر‘ کے مطلق نام کے مصداق کے طور پر پہنچانتے وبیان کرتے ہیں۔ تواتر اسنادی کے بارے میں تو پیچھے واضح ہوچکا ہے کہ محدثین اس کے انکاری ہیں،انہوں نے زیادہ سے زیادہ اس کی اگر کوئی مثال تسلیم کی بھی ہے تو وہ صرف ایک حدیث (من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار) (بخاری:۱۰۷) ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث بھی تواتر ِاسنادی کی تعریف پر پوری نہیں اترتی، کیونکہ دیگر روایات کی طرح اس روایت کے بھی ہر طبقہ میں کثرت ِعدد موجود نہیں، بلکہ متعدد اَخبار آحاد میں اس حدیث کے مذکورہ الفاظ مشترک طور پر وارد ہوئے ہیں، چنانچہ تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت ان مشترکہ الفاظ کے اتفاق کے ساتھ درجہ یقین کو پہنچتی ہے۔ اس وضاحت کی رو سے یہ روایت بھی تواتر اسنادی کے بجائے تواتر اشتراکی ہی ہے۔ بعض لوگوں نے مکمل روایت میں الفاظ کے اشتراک کی بناپر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر لفظی اور روایات میں معنوی قدر اشترک کی بنا پر حاصل ہونے والے تواتر کو یہ لوگ تواتر معنوی کا نام دیتے ہیں۔ بعض لوگوں نے مذکورہ تصور کی بنا پر اخبار احاد کی رو سے ثابت ہونے والی پانچ دیگر روایات کو بھی متواتر لفظی قرار دیا ہے، جن میں ایک روایت أنزل القرآن علی سبعہ أحرف (بخاری:۴۹۹۲) بھی ہے۔ ان روایات کی تفصیل کے لیے الوجیز فی أصول الفقہ از ڈاکٹر عبد الکریم زیدان کے اردو ترجمہ جامع الاصول از ڈاکٹر احمد حسن رحمہ اللہ میں بحث سنت کا مطالعہ فرمائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح متعدد طرق میں مشترکہ طور پر (إنما الأعمال بالنیات )(بخاری:۱)کے الفاظ موجود ہیں، اگرچہ یہ روایت اپنی اصل کے اعتبار سے خبر غریب ہے، اسی اشتراکِ الفاظ کی بنا پر بعض حضرات نے اس روایت کو بھی (من کذب علیَّ متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار )(بخاری:۱۰۷)کی طرح متواتر لفظی بتایا ہے اور بعض لوگ اس روایت کو متواتر معنوی شمار کرتے ہیں کیونکہ اس روایت میں وارد’ نیت‘ کا مضمون متعدد روایات میں آیا ہے، جن میں الفاظ کے اختلاف سے قطع نظر نیت کی فرضیت مشترک ہے۔بعض محدثین تواتر اشتراکی کو تواتر معنوی بھی کہتے ہیں، لیکن صحیح یہی ہے کہ قدرِمشترک کا معاملہ کسی مضمون میں بھی ہوسکتا ہے اور متعدد روایات میں ثابت الفاظ میں بھی۔اس تناظر میں اگر ہم قراء ات عشرہ متواترہ صغری وکبری کا جائزہ لیں تو یہ تمام قراء ات قرآنیہ تواتر الاشتراک فی الالفاظ اور تواتر الاشتراک فی الآیات کے اعتبار سے متواتر ہیں۔ مثال سے بات یوں سمجھیں کہ قرآن کے کسی لفظ کو بھی اہل قراء ات کے ہاں چھ سے زائداندازوں سے نہیں پڑھا گیا، جب کہ قراء ات قرآنیہ متواترہ اَسی طرق کے ساتھ مروی ہیں، گویا قرآن کریم آج امت کے پاس سبعہ احرف سمیت اَسی اسانید کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی مجموعہ قراء ت اگر اسی طرق سے ثابت ہیں تو ۹۵ فیصد متفق علیہ کلمات اسی روایات میں مشترک الفاظ کے اتفاق کے ساتھ متواتر لفظی کے طور پر ثابت ہوئے۔ اور جن کلمات میں دو دو قراء ات ہیں وہ اندازا چالیس چالیس اسانید میں موجود مشترک الفاظ کے اتفاق سے متواتر لفظی بنے۔ علی ہذا القیاس جو کلمہ چھ اندازوں سے پڑھا گیا تو وہ تقریبا تیرہ تیرہ اَخبار آحاد میں موجود مشترک الفاظ کی بنا پر متواتر لفظی میں شامل ہوئے۔ یاد رہے کہ چھ اندازوں سے جن کلمات کو پڑھا گیا ہے وہ صرف ایک دو ہیں، جنہیں پانچ طرح سے پڑھا گیا ہے وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں، چار طرح سے پڑھے جانے والے کلمات مزید کچھ زیادہ ہیں۔ اکثر کلمات میں دو یا تین طرح ہی سے پڑھنے کا اختلاف مروی ہے۔ الغرض اس اعتبار سے دیکھیں تو مروجہ قراء ت قرآنیہ عشرہ متواترہ میں موجود تمام آیات، کلمات اور سور متواترۃً ثابت ہیں اور محدثین کے ہاں تواتر سے بالعموم تواتر الاشتراک ہی مراد ہوتا ہے، چنانچہ محدثین کے معیار تواتر پر قرآن بہرحال ثابت ہے۔
المختصر قرآن کریم کے ثبوت میں پانچ طرح کے تواتر اورقطعیت کے ذرائع موجودہیں:
(١) تواتر اسنادی: قرآن مجید کے ثبوت میں اسنادی تواتر موجود ہے، البتہ آئمہ عشرہ تک ہے۔اگرچہ اس سے آگے تواتر اسنادی و تواتر عددی موجودنہیں، کیونکہ آئمہ عشر سے قبل اختلاط روایات کا دور دورہ تھا۔
(٢) تواتر ِطبقہ : اس قسم کا تواتر آئمہ عشرہ سے قبل تو تمام قراء ات کو حاصل رہا، البتہ عصر حاضر میں یہ تواتر صرف متداول چار قراء ات وروایات کو حاصل ہے۔ نیز تواتر کی یہ قسم صرف قرآن کریم کے ساتھ خاص ہے۔
(٣) تلقِّی بالقُبول:اس اعتبار سے قرآن مجید قطعی الثبوت طریقہ سے ثابت ہے، جسے بعض لوگ تواتر سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔قراء ات ِعشرہ متواترہ کو جمیع فنون کے ماہرین نے ہر دور میں بالاتفاق قبولیت سے نوازا ہے۔ پوری دنیا کے جمیع مدارس اور جمیع اہل علم جو قرآن یا قراء ات قرآنیہ کو نقل کرنے والے ہیں وہ تمام اس بات پر متفق ہیں کہ مروّجہ قراء ات عشرہ قرآن ہیں۔
(٤) الخبر الواحد المحتف بالقرائن المفید للعلم القطعی: چوتھی بات جو ہم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ایک قراء ت صحت ِسند سے ثابت ہو اور اس میں رسم عثمانی کی موافقت اور لغات عرب کی مطابقت کی شروط بھی پائی جائیں تو ایسی روایت خبر واحد مقرون بالقرائن کے قبیل سے ہوکر علم قطعی کا فائدہ دے گی۔
(٥) تواتر الاشتراک:تواتر اِسنادی کا تصور چونکہ آئمہ محدثین کے ہاں صرف خیالی تصور ہے، جس کی مثال محدثین کے بقول عملاً موجود نہیں اور یہ تصور ِ تواتر بقول حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ بعض متاخر اُصولیوں کی طرف سے پیش کردہ ہے، جسے صرف خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اصولیوں سے متاثر ہوکر فن حدیث میں پیش کردیا، چنانچہ علم مصطلح الحدیث میں تواتر کے جس تصور سے محدثین مانوس ہیں وہ تواتر الاشتراک ہی ہے۔ تواتر اس تصور کی رو سے جمیع قراء ات قرآنیہ حتمی طور پر متواترۃ ثابت ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال نمبر(١٩): اگر قراء ا ت منزل من اللہ ہیں، تو پھر ان کی نسبت رجال کی طرف کیوں ہے؟
جواب : اس سے پہلے اس حوالے سے ایک سوال گذر چکا ہے کہ قراء ت سات نازل ہوئیں تو سات سے دس یا بیس قراء ا ت کیسے بن گئیں؟ ہم نے وہاں یوں جواب دیا تھاکہ اس شبہ کی بنیادی وجہ اس بنیادی مسئلے سے ناآشنائی ہے کہ قراء ات کی تعریف کیا ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں ضرور یاد رہنی چاہئیں:
(١) موجودہ قراء اتِ عشرہ حروف سبعہ میں باہمی تداخل کے سبب وجود میں آنے والے اَئمہ فن کے اختیارات ہیں، جنہیں انہی اصحاب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، جنہوں نے وہ انداز ِتلاوت اپنے لیے اختیار ومتعین کیا ہو۔ اس نسبت سے قراء ات کی نسبت قبل ازیں صحابہ کی طرف بھی ہوتی رہی، پھر تابعین اور تبع تابعین کی طرف بھی رہی، تا آنکہ ان آئمہ عشرہ اور ان کے تلامذہ کا زمانہ آگیا تو انہوں نے اپنے لیے جو ترتیبات تلاوت (sets) اِختیار کیے ان کی نسبت انہی آئمہ مختارین کی طرف کی گئی۔ اب چونکہ بارہ صدیوں سے اُمت انہی اَئمہ کے اختیارات پر متفق ہے چنانچہ ان کے مختار اسالیب تلاوت ان کی طرف منسوب ہیں۔
(٢)دوسری بات یہ ہے کہ ان قراء ات میں موجود اتفاقی واختلافی کلمات چونکہ ان آئمہ عشرہ کی روایات کے ذریعے ہم تک پہنچ رہے ہیں اس لیے مثل حدیث کے ان کی نسبت صاحب روایات ہی کی طرف کی جاتی ہے۔ اہل فن کے ہاں بنیادی طور پر قراء ات روایات ِقرآن کو کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے قراء ات قرآنیہ عشرہ کو قراء ات متواترہ کہا جاتاہے اور یہ بات معلوم ہے کہ تواتر خبر کی قسم ہے،چنانچہ قراء ات عشرہ متواترہ کا مطلب ہے قراء ات عشرہ متواترہ یا راویات عشرہ متواترہ ہے۔
اس پس منظر میں زیر بحث سوال کا جواب یہ سامنے آتا ہے کہ ’سبعہ احرف‘کی نسبت تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے جو قرآن اترا وہ ’سبعہ احرف‘ پرمشتمل تھا، لیکن بعداَزاں جب رجال نے ان احرف کو آپس میں خلط ملط کرکے اپنے نئے انداز تلاوت اختیار کرلیے تو اب ان اختیار کردہ ترتیبات تلاوت کی نسبت انہی رجال کی طرف ہونے لگی۔اسی طرح جب قراء عشرہ کا زمانہ آیا تو لوگوں نے ان کے اختیارات کو اپنالیا اور پھر انہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اب گذشتہ کئی صدیوں سے انہی دس قراء ات کو (بدونِ خلط)بطورِ روایت اُمت میں منتقل کیا جارہا ہے۔اب جس طرح جو حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی نسبت سے بیان ہو اسے بخاری کی حدیث اور جو حدیث امام مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہو اسے مسلم کی حدیث کہا جاتا ہے، عین اسی طرح موجودہ قراء ات قرآنیہ بھی جن آئمہ کی نسبت سے اُمت میں رائج ہیں ان قراء ات کی نسبت بھی ان اَئمہ کی طرف کی جائے گی۔یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک قراء ت اختیار تو سیدنا نافع رحمہ اللہ کا ہو یا ان کے شاگر امام ورش رحمہ اللہ کا ہو، لیکن اس کی نسبت ان کی بجائے محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف کی جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو یہ کذب بیانی ہوگا۔
المختصر جان لینا چاہیے کہ اہل فن کے ہاں سبعہ قراء ات سے مراد سات مشہور اَئمہ کی قراء ات ہیں اور قراء ات عشرہ سے مراد دس مشہور اَئمہ کی قراء ات ہیں،جبکہ حدیث میں وارد سبعہ احرف،جنہیں عرف عام میں سبعہ قراء ات بھی کہہ دیا جاتا ہے، وہ ان سبعہ قراء ات سے مختلف ہیں جو سبعہ قراء کی قراء ات ہیں۔ سبعہ اَحرف والی سبعہ قراء ات کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف، جب کہ مروّجہ سبعہ قراء ات کی نسبت سات معروف اَئمہ کی طرف ہے۔
(جاری ہے)
 
Last edited by a moderator:
Top