• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعال نقتبس من نور اسلافنا

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
تعارف
’’تعال نقتبس من نور اسلافنا‘‘


ہم نے اس تنقیدی جائزے کی ابتدا میں عرض کیا تھا کہ ’’شرح شواھد الفراہی‘‘ اور المفردات تالیف (فراہی) کے ساتھ ساتھ مندرجۂ بالا عنوان کے تحت ’’الاعلام‘‘ میں شایع شدہ دو بہت مختصر تحریریں بھی غامدی صاحب کی ہمارے سامنے ہیں۔

عنوان دیکھ کر خیال گزرا تھا کہ یہ موصوف کی اپنی نگارشات ہوں گی۔ جن میں اَسلاف کی کتابوں سے کچھ اِقتباسات ہوں گے لیکن متن پڑھنے سے پتہ چلا کہ یہ دونوں مختصر تحریریں ، مقدمۂ ابن خلدون اور حافظ ابن القیم کی کتاب ’’الفوائد‘‘ کے اقتباسات ہیں، ان میں تعریفاً و تشریحاً غامدی صاحب کے قلم سے ایک لفظ بھی نہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ عنوان ایسا مقرر کرتے کہ جس سے فورا ہی پتہ چل جاتا کہ یہ تحریر یں تمام اقتباسات ہیں۔ نہ کہ آخر میں ایک کونے پر جس کتاب سے اقتباس کیا ہے اس کا نام لکھ دیا جائے۔ پھر یہ کہ ان دونوں تحریروں کے اول و آخر میں علامات اقتباس (’’ ‘‘) بھی نہیں۔ اس کے سبب ایک ایسے قاری کو جو ابن خلدون اور ابن القیم کی تحریروں سے واقفیت نہیں رکھتا یہ دھوکہ ہوسکتاہے کہ یہ عبارت غامدی صاحب کی ہے۔اور معانی و مطالب ان دونوں مصنفین کے ہیں۔ اس قوی احتمال کو روکنے کے لئے بہتر تھا کہ عنوان اس طرح کا ہوتا : ’’اقتباسات من السلف‘‘ یا ’’قطع مقتبستہ من مؤلفات بعض السلف‘‘ ۔ اور جس مصنف سے اقتباس لیا گیا ہے اس کا نام اوپر ہی مذکور ہوتا۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری تھا کہ جس باب یا فصل سے یہ اقتباسات لئے گئے ہیں ان کا نام صفحات کے نمبر کے ساتھ تحریر کر دیا جاتا ۔ یہ تحقیق کے اولین مقتضیات ہیں۔

بہر حال غامدی صاحب کو پڑھنے والوں کے لئے یہ کام ہم کئے دیتے ہیں۔ مقدمۂ ابن خلدون سے مقتبس قطعۂ تحریر یا پیرگراف اس ’’مقدمہ‘‘ کی فصل ’’فی علوم اللسان العربی‘‘ میں ذیلی عنوان علم الادب کے تحت مذکور ہے،مقدمہ ابن خلدون، تحقیق ڈاکٹر علی عبدالوحد وافی، طبعۃ ثانیہ ۱۹۶۷ء لجنۃ البیان العربی، قاھرہ میں غامدی صاحب کی اقتباس کردہ عبارت الجزء الرابع کے صفحہ ۱۳۸۷ پر ہے۔ (دارالفکر، بیروت کے ایڈیشن ۱۹۸۱ء میں یہ صفحہ ۷۶۳ پر ہے، اس ایڈیشن میںیہ مقدمہ تاریخ ابن خلدون کے پہلی جلد کے طور پر چھپا ہے)۔

دوسرا اقتباس آٹھویں صدی ہجری کے مشہور حنبلی فقیہہ حافظ ابن القیم کی کتاب ’’الفوائد‘‘ سے ہے۔ کتاب کا پورا نام نہیں دیا گیا ہے جو یہ ہے: الفوائد المشّوِقۃ الی علوم القرآن و علم البیان (یہ کتاب بہت پہلے قاھرہ میں ۱۹۱۸ء اور ۱۹۲۷ء میں چھپی تھی کسی نئے ایڈیشن کا علم نہیں)۔

پیش کردہ اقتباس کے سلسلے میں ہم کہنیگے کہ یہ تحریر ساڑھے چھ سو سال قبل کی ہے، نہ تویہ عصر حاضر کی شستہ و شگفتہ زبان ہے اور نہ عباسی عہد کی دلکش و دل آویز زبان ۔ ابن خلدون نے کوئی شک نہیں کہ عربی اسلوب تحریر کو مسجع و مقفع عبارات آرائی سے پاک کیا تھا جس کی مذمت خود اس نے اپنے مقدمہ میں کی ہے، ایک حقیقت یہ ہے کہ خود ابن خلدون کا انداز تحریر کہیں کہیں تعقید سے خالی نہیں اور بعض اوقات اس میں رکاکت بھی ہے۔ بیسویں صدی کے جن ادباء و اصحاب قلم محققین نے ابن خلدون پر کام کیا ہے ان میں ایک مشہور و ممتاز شخصیت ڈاکٹر علی عبدالوحدوافی کی ہے جنھوں نے مقدمۂ ابن خلدون پر تحقیق کی ہے اور اس کو چار جلدوں میں تقریباً نصف صدی قبل اپنے تقریباً دو ہزار حواشی اور اپنے طویل علمی و تحقیقی مقدمے (۳۴۶ صفحات) کے ساتھ مرتب کیا تھا۔

انھوں نے اپنے متعدد حواشی میں ابن خلدون کی پیچیدہ عبارات کی تشریح کی ہے، اور ساتھ ہی صاحب مقدمہ کی بعض رکیک عبارات کی نشان دہی بھی کی ہے۔موصوف کا یہ مقدمہ دقت نظر اور احاطۂ تحریر کی انتہائی اعلیٰ مثال ہے۔یہاں اس بات کااشارہ بے محل نہ ہوگا کہ ابن خلدون کا تاریخ میں مقام ایک مؤرخ اور علم الاجتماع [Sociology]کے مخترع اور تہذیب و تمدن کے شارح و ناقد کی حیثیت سے ہے ایک ادیب کی حیثیت سے نہیں۔ زبان کے معاملے میں ان کا یہی کارنامہ کم نہیں کہ انھوں نے اس کو حریری کے مسجع و مقفّی اسلوب سے پاک کیا اور سلیس عربی لکھنے کی طرح ڈالی۔

جہاں غامدی صاحب نے شرح شواہد الفراہی میں ظلّ ، نبت، حریق، غلام، اور شبہ و ریح الشمال جیسے عام فہم عربی الفاظ کی تشریح کی ہے وہاں ابن خلدون کے الفاظ عوارض یستقری، حدّ، کلف کی تشریح نہیں کی جو مذکورہ بالا الفاظ سے زیادہ مشکل ہیں۔

پھر یہ کہ موصوف نے اس اقتباس میں ابن قتیبہ کی مشہور کتاب: ’’ادب الکاتب‘‘ کا نام غلط طور پر ’’ادب الکتاب‘‘ لکھا ہے، پہلے تو میں سمجھا تھا کہ غالباً یہ طباعت کی غلطی ہے۔ لیکن مقدمہ ابن خلدون کے عام غیر تحقیق شدہ ایڈیشن (دارالفکر) سے رجوع کرنے پر پتہ چلا کہ اس میں بھی یہ اسی طرح غلط ’’ادب الکتاب‘‘ چھپا ہوا ہے۔ اور غامدی صاحب نے اس غلطی کو ویسے ہی نقل کردیا ہے۔پہلی بات تو یہ کہ ابن قتیبہ کا صحیح نام اتنا مشہور ہے کہ غامدی صاحب کو مقدمۂ ابن خلدون کے اس تجارتی ایڈیشن پر بھروسہ نہیں کرناچاہیے اور اس کو خود ہی صحیح کردینا چاہیے تھا۔

دوسرے یہ کہ ان کے سامنے اگر ’’مقدمہ‘‘ کا مذکورہ بالا تحقیق شدہ مقدمہ ہوتا تو وہ دیکھتے کہ اس میں اس کتاب کا صحیح نام ادب الکاتب ہی درج ہے۔ کتابوں کے تجارتی ایڈیشنوں میں بیسیوں طباعتی اغلاط ہوتی ہیں لیکن اہل علم اور خاص طور پر محققین کا یہ شیوہ نہیں کہ ان اغلاط کو بعینہ نقل کردیاجائے کئی سال پہلے ہفتہ وار زندگی (لاہور) کے صفحات پر غامدی صاحب ایک انٹر ویو میں اپنے آپ کو ’’محقق‘‘ کے نام سے موصوف کرچکے ہیں)۔ اس اقتباس کی تیسری سطر میں الکلمہ غلط ہے، صحیح الملکۃ ہے۔ یہ طباعتی غلطی موصوف نے ویسے ہی ’’مقدمہ ‘‘ سے نقل کردی۔افسوس ! دوسرا اقتباس جو حافظ ابن القیم کی کتاب: الفوائد المشوقۃ الی علوم القرآن و علم البیان‘‘ سے ہے۔ یہ کتاب ابن القیم کی ایسی مشہور و ممتازاور متداول کتابو ں میں سے نہیں جیسی اعلام الموقعین زاد المعاد، حاوی الارواح ،مدارج السالکین اور کتاب الروح ہیں۔ اس کتاب کا کوئی نسخہ ہمارے سامنے نہیں۔ بہر حال اس اقتباس کا پہلا حصہ تو خود حافظ ابن القیم نے سیرت ابن ہشام سے نقل کیا ہے اور دوسرے حصے میں ان کی اپنی عبارت ہے۔ اور دونوں حصوں میں کوئی ربط نہیں غامدی صاحب نے بھی پہلے حصے (ایک پیرگراف) کی نقل کے بعد نقطے (۔۔۔)لگا کر عبارت رو ک دی ہے۔

البتہ دوسرے حصے میں اپنی عادت کے مطابق موصوف نے یملأ کا املا غلط طور پر ’’یملاء‘‘ لکھا ہے اور یقین غالب ہے کہ اس اقتباس میں اشعار العرب کے بعد جو لفظ ہے وہ مقولات ہوگا مقاولات نہیں جیسا کہ طبع ہوا ہے اگرچہ لغت میں باب مفأعلۃ سے مقاولۃ ہے جس کی جمع مقاولات ہے لیکن اس کے معنی باہم ایک دوسرے کا قول ہے، یعنی مجادلۃ جو یہاں مقصود نہیں معلوم ہوتا۔ عصر حاضر کی عربی میں مقاولہ ٹھیکے (Contract) کے معنی میں مستعمل ہے۔ جو مصر کی مشہور مجمع اللغۃ العربیۃ کا تجویز کردہ ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ اگر غامدی صاحب کو اسلاف کے ادب سے کچھ اقتباس کرکے روشنی حاصل کرناتھی تو جاحظ، ابن قتیبہ المبرد، ابو ا لفرج الاصفہانی اور ابن عبد ربہ و ابو حیان التوحیدی کی علی الترتیب کتابوں البیان والتبیین یا کتاب الحیوان، عیون الأخبار، الکامل، کتاب الاغانی، العقد الفرید اور الامتاع الموانستہ یا البصائر والذخائرہ سے کوئی مثالی و دلآویز اقتباس پیش کرتے۔ جن کتابوں سے موصوف نے اقتباسات پیش کئے ہیں،علی الترتیب وہ آٹھویں اور ساتویں صدی کی تحریریں ہیں، اور عربی زبان کی وہ دلکشی و دل آویزی جوعباسی دور میں تھی باقی نہیں رہی تھی۔ پھر یہ کہ ابن خلدون کی شہرت ان نظریات پر ہے جواس نے تہذیب و تمدن یا علم الاجتماع سے متعلق پیش کئے ہیں جس کو وہ ’’علم العمران‘‘ کہتے ہیں۔ اگر ابن خلدون کی تحریر سے اقتباس مقصود تھا تو ابن خلدون نے اپنے ’’مقدمہ میں اس علم سے متعلق تخلیقی (creative)طور پر جو کچھ لکھا ہے اس سے کوئی اقتباس پیش کرنا چاہیے تھا علم الادب پر تو انھوں نے صرف ڈیڑھ صفحہ لکھا ہے۔

اسی طرح حافظ ابن القیّم الجوزیہ کا میدان فکر و تحقیق اصول فقہ، سیرت نبوی اور روحانیات ہیں ان کی تحریر کا بہترین نمونہ بھی اعلام الموقعین، زادالمعاد، حادی الارواح اور مدارج السالکین میں پایا جاتا ہے۔ کتاب الفوائد ان کی غیر معروف و غیر متداول کتاب ہے۔

سلف صالحین کی تحریروں سے روشنی حاصل کرنا ہی تھا تو حسن البصری، امام شافعی (جن کی زبان حجّت ہے) القشیری،امام غزالی، شیخ عبدالقادر جیلانی اور ابن الجوزی کی نمایندہ تحریروں سے اقتباسات دیے جاسکتے تھے۔ جن کی تحریرات ادب کی اعلیٰ مثالیں بھی ہیں اور ان میں صلاح و خیر کا عنصر بھی وافر ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے مصنف کا نام نہیں ملا۔ غالب گمان یہ ہے کہ مذکورہ تحریر ڈاکٹر رضوان علی ندوی کی ہے۔واللہ اعلم
 
Top