• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعلیم حدیث : منہج اور وسائل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعلیم حدیث : منہج اور وسائل

دور نبوی میں تعلیم حدیث کا منہج :
٭… عرب امی قوم تھے اور پڑھنے لکھنے سے ناآشنا۔ رسول اللہ ﷺ بحیثیت معلم، اُمت کی تربیت کے لئے چار کورسز متعارف کرائے۔

تلاوت آیات:
افراد امت پرتلاوت آیات ہو۔ کہ کلام اللہ کی تلاوت کیسے کی جائے تاکہ اس کا حق ادا ہو۔

تزکیۂ فرد:
اپنے طریقے سے ان کاتزکیۂ نفس کریں۔باطنی طہارت یعنی بغض وحسد اور نفاق سے پاک کردیں۔

تعلیم کتاب:
تعلیم کتاب بھی ان کو آپ ﷺ ہی دیں۔معلم بن کر کتاب اللہ سکھا دیں۔

تعلیم حکمت :
اور تعلیم حکمت بھی۔حکیم ودانا بن کر اپنی دانائی وحکمت کی باتیں لوگوں کو سکھا دیں۔

یوں بہترین استاد اور بہترین منہج نے اعلی اخلاق اوربہترین کردار کی علمی شخضیات معاشرے کو دینا شروع کردیں۔

٭…آغاز :
اس کورس کا آغاز غار حراء میں نزول وحی کے لفظ اقرأ سے ہوا۔آپ ﷺ نے غار حراء چھوڑدی۔ کیونکہ اس وحی کا شعار تعلیم وتعلم تھا جو غاروں، کھوہوں یا خوبصورت ہالوں کے مراقبہ میں بیٹھ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس مشن کے احیاء اور اس کی تکمیل کے لئے ایسی سرگرمی چاہئے تھی جو پلٹ کر کبھی غار میں نہ جانے دیتی یا کسی قسم کی گوشہ نشینی اختیار نہ کرنے دیتی۔

٭…قصۂ ابتداء وحی میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی باور کرادیا کہ اب علم وجہالت کے مابین معرکہ شروع ہوگا۔ پہلی وحی میں قراء ت، تعلیم وتعلم اور قلم وقرطاس کی نصیحت تھی اس لئے آپ ﷺ نے امی قوم میں اسے پھیلانے کا بیڑہ اٹھایا اور سکھانے اور پڑھانے کا کام شروع کردیا۔امت کو جاہل رکھنا یا اپنے اردگرد جاہلوں کو اکٹھا کرنا آپﷺ کا منشور نہیں تھا۔تیئس سالہ نبوی جدوجہد نے یہ بھی ثابت کردیا کہ آپ ﷺ کا اپنایا ہوا طریقہ ومنہج دینی، دنیاوی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی کامیاب رہا۔یہی طریقہ ٔنبوی ہی اصلاح احوال کا میزان ہے اور شریعت ِالٰہیہ کا مصدر ِاصلی بھی۔

٭…مکہ مکرمہ میں باوجود جاہلی مخالفت کے آپ ﷺ ایک چلتا پھرتا متحرک ادارہ بن گئے۔دار ارقم مثالی درس گاہ بن گیا۔ اور مجالسِ حرم، زائرین ِ حرم سے ملاقاتوں کا ذریعہ بن گئیں۔ سالانہ میلے بھی جزیرۃ العرب میں آواز حق پہنچانے میں معاون ثابت ہوئے۔موسم حج نے آپ ﷺ کاشہرہ اور سچا پیغام بھی آفاق میں پہنچا دیا۔ ہر مقام پر تعلیم وتعلم اور ابلاغ کی بات شروع ہوگئی۔ ضمیر جھنجھوڑے، سوچ بدلی اورصحیح علم کے حصول کا جذبہ روحوں میں تازہ کر دیا۔اپنے رب کی وحدانیت ویکتائی کو تسلیم کرایا اور مخلوق کی مختلف بے بس خدائی شکلوں اور بے اختیاری کو بھی منوایا۔

٭… کچھ طلبہ جب اس علم سے مالا مال ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں تعلیم دینے کے لئے نہ صرف مقرر کیا بلکہ انہیں دوسرے علاقوں میں بھیجا۔خباب بن الأرت رضی اللہ عنہ، سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو قراء ت قرآن سکھانے پر مامور ہوئے۔ مصعب بن عمیر تعلیم دین ۔۔قرآن وحدیث۔۔کے لئے بطور خاص یثرب بھیجے گئے۔ اس علمی اور تعلیمی تحریک نے چھوٹے بڑے کو شعور ِحیات بخشا ا ور مقصد ِحیات بھی۔ جس سے انتخاب اور عمل میں خود بخود نکھار آگیا۔ آپﷺ سے یہ بھی فرمایا گیا : دعاکیا کیجئے:{ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا}۔ میرے مولی! میرا علم بڑھا۔

٭…مدینہ منورہ آپ ﷺ کی آمد کے بعد مرکز علمی کی حیثیت اختیار کرگیا۔انصار نے مہاجرین کے دوش بدوش اپنے علمی سفر کو طے کرنا شروع کیا۔مدینہ آتے ہی زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یہود کی زبان سیکھو۔مسجد ِ نبوی تعلیم حدیث کا ایک ممتاز مرکز بن گئی۔ آپ ﷺ کے وقتاً فوقتاً دئے گئے لیکچرز وخطبات، قرآنی آیات کی وضاحت، سوالوں کے جواب، معاشی، معاشرتی اور سیاسی صورت حال کی اصلاح پر آپ ﷺ کے ارشادات انہی محافل کی رونق تھے۔وفود آتے، دیہاتی وشہری ملتے، مسافر و قیدی آتے اور علم کے موتی سمیٹ جاتے۔بدویوں کا اکھڑ انداز ِ سوال اور جواباً آپ ﷺ کی حلیم وبردبار طبیعت ان کے دلوں کو موہ لیتی جس سے وہ مطمئن ہوکر آپ ﷺ کی اطاعت کی ٹھان لیتے۔

٭…اپنی نگرانی میں صفہ ہوسٹل بھی بنایا جس میں نئے طلبہ کا قیام ہوتا اور طعام کا انتظام بھی۔ان کی اخلاقی ودینی تربیت میں جناب رسالت مآب ﷺ جہاں بنیادی کام کررہے تھے وہاں آپ ﷺ کے تربیت یافتہ سینئر طلبہ بھی نئے آنے والوں کو مرحبا کہتے، ان کی بہتر تربیت میں رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ بٹاتے، ان سے مذاکرہ کرتے اور چھوٹے بڑے عمل کی نگرانی کرتے اور اصلاح بھی کرتے جاتے۔

٭… اس عرصہ میں آپ ﷺ نے وحی وخطوط کی کتابت کے لئے چالیس سے زائد کاتب بھی منتخب کر لئے۔

٭… علم سیکھنے اور سکھانے پر آپ ﷺ نے صحابہ کرام کوابھارا۔ اس کاوش میں نکھار کے لئے جبریلؑ امین بھی انسانی صورت میں تشریف لائے اورآدابِ مجلس ِعلم، اس کاانعقاد، صحیح علم اور اس کا صحیح استاد سے حصول جیسے طریقے سکھاگئے۔اس طرح تیئس سال کے عرصہ میں سرزمین حجاز میں جہالت کی جگہ روشنی نے لے لی ۔آپ ﷺ نے علم وعلماء کے شرف اور بلند مرتبے سے آگاہ فرمایا۔طلبہ کے اجر ِ عظیم پر ابھارا اور ان کا خیال رکھنے اوران سے بھلائی کرنے کی تاکید فرمائی۔

٭…آپ ﷺ کے طریقۂ تعلیم میں تدریجی پہلو بھی غالب رہا تاکہ اکتا ہٹ ہو نہ جلد از جلدسیکھنے کی ہوس ۔اثنائے تعلیم عموماً ہمدردی وشفقت کے جذبات ، ناگزیر حالات میں بھی آپ ﷺ پر حاوی رہے۔

٭… آپ ﷺ نے علم سکھانے کے متنوع انداز اپنائے ۔ اسلوب بدلا، نت نئے موضوعات چھیڑے ۔ عمل کیا اور کرکے دکھایا۔ طلابِ علم کے مختلف رجحانات اور ذوق کا بھرپور اندازہ لگایا اور ان کا پورا خیال کیا۔ تعلیم وتعلم میں تیسیر وتحقیق کا میدان بھی کھلا چھوڑا اور شدت وسختی سے گریز کیا۔طلبہ کی سرپرستی کی۔ تعلیمِ سنت کوہر ایک کے لئے لازمی کردیا۔

٭… قرآن کریم میں بنیادی تعلیم ، عقیدہ ٔتوحید اپنانے اور اسوہ ٔرسول کی اطاعت کرنے کی ہے۔شرک اور خرافات کی نفی اورآباء واکابرکی اندھی عقیدت ومحبت کا ا نکارہے۔ اخلاقِ فاضلہ سے مزین باعمل اورباکردار شخصیت کا احیاء ہے۔ جس کا بہترین نمونہ رسول معظم ﷺ کی ذات ہے۔صحابہ کرام نے صدق دل سے ایمان بالرسالہ کا اقرار کرکے مدرسۂ رسول میں آکر اور قیام کرکے دنیا وآخرت کی سعادتیں سمیٹیں اور خود کو اس رنگ میں رنگنے کی بھر پور کوشش کی جو شاید ہی ان کے بعد کسی کو نصیب ہوئی ہو۔علم سیکھنے کی نصیحت اور اس کے ابلاغ پر ان الفاظ میں مزید زور…ولَوْ آیَۃٌ اور… فَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ نیز نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ، جیسی دعائیں ، یہ سب اسی منہج کو پختہ تر کرنے کی فکر وتلقین ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعلیم حدیث برائے خواتین:
خواتین کے لئے بھی علم کی مجالس برپاہوتیں ۔ آپ ﷺ ان کے الگ حلقہ میں تشریف لے جاکر براہ راست انہیں علم سے مالا مال فرماتے۔ان کے سوالوں کے جواب عنایت فرماتے۔ حصول علم کے لئے آپ ﷺنے نہ صرف خواتین کو ابھارا بلکہ انہیں نصیحت فرماتے کہ وہ اپنی سہیلیوں اور جوان بچیوں کو بھی ساتھ لے چلیں۔مسجد بھی اس کا مرکز ہوتی اور عیدگاہ وخانہ ٔنبوی بھی۔ ذاتی مسائل ہوں یا عائلی۔خطبات جمعہ وعیدین اور مختلف مواقع پر دئے گئے لیکچرز میں خواتین باقاعدہ شریک ہوتیں۔ مسائل کے حل کے لئے بسا اوقات خواتین آپ ﷺ کے گھر بھی آحاضر ہوتیں اور آپ ﷺ سے براہ راست علم سیکھ کر فیض یاب ہوتیں۔انصار خواتین کے شوقِ علم نے اسلام کا مستقبل تابناک بنا دیا۔اس لئے کہ علم سیکھنے میں وہ حیا کو آڑ نہ بناتیں۔خانہ ٔنبوی بھی کتاب وحکمت کی دولت ِ علم سے مالا مال ہو رہا تھا۔ آپ ﷺ ازواج مطہرات کومخصوص مسائل اور دیگر حقائق سے آگاہ فرماتے۔ مزاح میں بھی تعلیم فرمادیا کرتے اور بعض اہم مواقع پران سے مشورہ بھی فرماتے۔

٭…امہات المؤمنین اور دیگر مسلم خواتین نے اشاعت ِ حدیث میں جو اپنا بے مثال کردار ادا کیا وہ ہماری تاریخ کا ایک زریں باب ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اگر امہات المؤمنین میں صرف سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما کے علمی ، فقہی اور حدیثی مسائل کو اکٹھا کیا جائے تو ہر ایک کی ایک مکمل جلد مرتب ہوجائے۔اس لئے کہ آدھا دین تو انہی سے روایت شدہ ہے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ کے صحابہ کرام پر استدراکات کا موضوع الگ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نشری ذ رائع :
تعلیم حدیث کے لئے آپ ﷺ نے موجود وسائل کا بھی بھرپوراستعمال فرمایا جو مختلف مقامات و اوقات میں افراد وگروہوں سے ملاقاتوں اورمجالس تعلیم وارشاد پر مبنی تھے۔ مثلاً:
٭…واقعات وحوادث جوصحابہ کرام کو پیش آتے وہ فوراً آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ ﷺ کو آگاہ کرتے اور آگاہی چاہتے۔ آپﷺ بھی نئے حوادث وواقعات سے صحابہ کرام کو ہمہ وقت آگاہ رکھتے۔بچے اور جوان بھی مستفید ہوتے۔یہ سلسلہ سفر وحضر میں بھی جاری رہتا۔

٭ …آپ ﷺ کی اپنی ذاتی سرگرمیاں بھی لمحہ بہ لمحہ انتشار حدیث کا سبب تھیں۔پبلک میں اسلام کا مزاج اور اس کا نیا نظام روشناس کرانا جان جوکھوں کا کام تھا ۔آپ ﷺ نے یہ سب کچھ بغیر کسی تکلف اور تصنع کے کردکھایاجس نے نووارد اور اجنبی سبھی میں شوق ودل چسپی پیدا کردی۔ دل کو بھاتی تعلیمِ رسول نے ہر ایک کے ذہن کو بدلنا شروع کیااور حدیث ِرسول پر عمل باعث ِافتخار سرمایہ بن گیا۔صحابۂ رسول نے ذاتی مصروفیات ترک کرکے حدیث کو نہ صرف آپ ﷺ کی محفل میں آکر سنا اوریاد کیا بلکہ اسے ہر لمحہ و ہر جگہ قول وعمل سے بھی عام کیا۔صلح حدیبیہ کے بعد بالخصوص اور فتح مکہ کے بعد بالعموم نشرواشاعت ِحدیث کے دروازے ہر ایک کے لئے کھل گئے جس نے معاشرے پر گہرے اثرات ڈالے۔یہودی وعیسائی حضرات کو سچائی اپنانے کا درس دیا اور تحریف وتبدیلی کی روِش سے باز رہنے اور حق کو اپنانے کی نصیحت بھی کی۔

٭…آپ ﷺنے قاصدوں کو خط دے کر مختلف علاقوں میں روانہ فرمایا۔ گورنرز مقرر کئے انہیں شرعی اور قانونی مسائل سمجھائے ، لکھ کر دئے اور لکھ کر بھیجے بھی۔ اور انہی کی نشر واشاعت کی تاکید فرمائی۔حج کرنے کے مراحل ہوں یا کوئی فوجی مہم ہو ان کے بارے میں واضح ہدایات دیں۔ آپ ﷺ نے اپنی اصلاحی تعلیمات میں ایک لمحہ یا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ واضح اعلان فرماتے کہ عدالتی فیصلہ کررہا ہوں جو مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ اور کِتَابُ اللّٰہِ کے عین مطابق ہے جب کہ ہوتا وہ آپ ﷺ کی حدیث کے مطابق تھا۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ بھی یہی مقرر فرمایا کہ مسلمانوں کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ وفود کی آمدپر انہیں مرحبا کہتے اور تعلیم دے کر جب رخصت فرماتے تو تاکید کرتے: أَخْبِرُوْہُنَّ مَنْ وَرَائَکُمْ۔جو تمہارے علاقوں والے ہیں انہیں بھی اس سے آگاہ کرو۔فتح مکہ اورحجۃ الوداع ، جیسے عظیم مواقع پر لوگوں کے جم غفیر کو بھی آپ ﷺ نے اپنے خلق عظیم کی تعلیم دی ، دلوں کو موہا اور تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو مناسک حج سکھائے اور سمجھائے پھر انہیں یہی مشن دے کر رخصت کیا۔یہی وہ وسائل تھے جو اشاعت سنت کا سبب بنے اورجنہیں آپ ﷺ نے استعمال کیا۔نتیجۃًاس ایمانی غذا سے ایک نمایاں اسلامی کلچرظہور پذیر ہو گیا۔

٭…غیرمسلم بھی آپ ﷺ کے اس طریقۂ تعلیم سے مستفید ہوکر اسلام قبول کرتے۔

٭…ان تیئس سالہ سرگرمیوں کا اور آپ ﷺ کی تعلیمات کا احاطہ کرنا تو بہت مشکل ہے مگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے قول وعمل سے مستقبل کے انسانوں کو وہ سب کچھ عطا کردیا جن کی انہیں ضرورت تھی۔ علماء حدیث نے ان تعلیمات کے ابلاغ میں بھی بہت احتیاط کی اور سیرت نگاروں نے بھی کوئی گوشۂ زندگی ترک نہیں کیا۔ بغور دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہوگا جوآپ ﷺ کی سیرت کا رہ گیا ہو۔ سنت کا جوقابل قدر ذخیرہ اس وقت ہمارے پاس محفوظ ہے یہی انسانی سیرت سازی اور معاشرتی بھلائی کے لئے کافی ہے۔ مسلمانوں کی حدیث ِرسول کے ساتھ والہانہ محبت کی یہ ایک مثال ہے جو انہوں نے اگلی نسل کو منتقل کرکے پیش کی۔ اس کی مزید تفاصیل جاننا ہوں تو ہم کتب سیرت واحادیث کی فہارس سے مفیدمعلومات اکٹھی کرسکتے ہیں۔

٭…جس رسول نے الٰہی تعلیمات کو اپنی تمام تر سرگرمیوں میں اورہر موقع ومحل پراپنے قول وعمل کے ذریعے دن رات عام کیا ہواور حاضر لوگوں کے اطمینان قلب کے لئے ہر ممکنہ سوال کا جواب دیا ہوجس سے لوگوں کے حالت دل اور کیفیت عمل میں انقلاب آگیا ہو اور اس کے پیروکاروں کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت اور رضی اللہ عنہم کا خطاب بھی ملا ہو۔کیا وہ یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی یہ تعلیمات مستقبل کی نسلوں کے لئے بھی نجات کا ذریعہ بنیں؟ یقیناً آپ ﷺ یہی چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اور آپ ﷺ نے اگلی نسلوں کو مستفید ہونے کے لئے یہ تین ہدایات دیں۔

۱…سنو اورعمل کرو :
صحابۂ رسول، علم نبوی کے قدردان تھے۔آپ ﷺ کی صحبت کی تاثیر نے انہیں آپ ﷺکا صحابی بنادیا۔سنتے تو مکمل گوش بر آواز ہوتے۔دیکھتے تو اپنی بصیرت کو جگاتے۔اور سب کچھ اپنی روح میں سمو لیتے۔رسول محترم کاہر قول ان کے دل پر گہرا نقش ثبت کرجاتا۔ آپ ﷺ کاہر عمل ان کے لئے قابل رشک ہوگیا۔ ہر لفظ ، اس کا فہم اور اس کے موقع ومناسبت کو انہوں نے ضبط کیا۔ انہیں یقین تھا کہ آپ رسول اللہ ﷺ ہیں۔وہ آپ ﷺ کی شاگردی پر نازاں تھے۔ان کا ایمان تھا کہ آپﷺ جسد وروح سمیت وحی پر عامل ہیں اس لئے انہوں نے آپ ﷺ کی اقتداء کو باعث نجات جانا۔انہیں احساس تھا کہ آپ ہی سیدولد آدم ہیں اس لئے سیرت رسول کا کوئی گوشۂ حیات ان سے پوشیدہ نہ رہا۔

٭… آپ پر ان کا ایمان، اللہ کی محبت کے بعد ہر شے سے زیادہ محبوب تھااس لئے آپ ﷺ سے بھرپور مستفید ہونے کے لئے انہوں نے اپنی ہرحیثیت کوختم کردیا تھا ۔ عقیدت ومحبت نے انہیں جوش وہوش کی حد تک آپ ﷺ کی ہر ادا کا شیدائی بنادیا تھا۔قرآن نے اس جوش اور اخلاص پر مزید کنٹرول کیا اور ویسا ہی انہیں بنا کے رکھا جیسا کہ اسے مطلوب تھا۔ وہ سوال کرتے تو جواب میں اخلاص، عمل اور جذبوں کی اٹھان پاتے۔

٭ … وہ حدیث کے محب بن گئے۔ وہ آپ ﷺ کی مجالس میں شرکت کے لئے مسابقت کرتے۔ اطاعت واتباع رسول کی مسلسل تاکید نے انہیں الرٹ کردیا تھا کہ کوئی عمل آپ ﷺ کی اطاعت کے بغیر نہ ہونے پائے۔ ان کا قوی ایمان انہیں انگیخت کرتا ۔ محبت رسول ہی انہیں آپ ﷺ کی محافل میں کھینچ لاتی۔ مقامی منافقین سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا کیونکہ انہیں حدیث سے کوئی دل چسپی ہی نہیں تھی وہ تو ویسے ہی غصے میں جلے بھنے رہتے تھے۔ صحابہ باہم معاہدہ کرتے کہ ایک دن تم رسول اللہﷺ کے محضر میں گذارو اور جو کچھ دیکھو، سنو وہ مجھے بتاؤ ۔یہی کام اگلے دن میں خود کروں گا اور تمہیں بتاؤں گا۔اسے تناوب کہتے ہیں۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِّیْ مِنَ الأَنْصَارِ فِی بَنِی أُمَیَّۃَ بْنِ زَیْدٍ، وَہِیَ مِنْ عَوَالِی الْمَدِیْنَۃِ، وَکُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُوْلَ عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ، یَنْزِلُ یَوْمًا وَأَنْزِلُ یَوْمًا، فإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُہُ بِخَبَرِ ذَلِکَ الْیَومش مِنَ الْوَحْیِ وَغَیْرِہِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِکَ۔ فَنَزَلَ صَاحِبِی الأَنْصَارِیِّ یَوْمَ نََوْبَتِہِ، فَضَرَبَ بَابِیْ ضَرْباً شَدِیداً فَقَالَ:۔۔ مدینہ کے بالائی علاقے بنو امیہ بن زید کے محلہ میں ،میں اور میرا ہمسایہ انصاری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے باری مقرر کرتے ۔ ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں۔ جس روز میں آتا تو اسے وحی وغیرہ کی خبرلا سناتا اور جس دن وہ آتا تو وہ بھی ایسا کرتا۔ ایک روز میرا یہی ساتھی اپنی باری پہ تھا کہ واپس آکریکایک اس نے میرا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا۔ اس نے کہا:۔۔ (صحیح بخاری: ۸۹)

٭…یہی نسخہ آپ ﷺ نے امت کو دیا۔ دنیوی اور اخروی کامیابی اور نجات اسی میں ہی مضمر ہے کہ آپ ﷺ کی ہر ادا اور ہر قول کو بغور سنا جائے اور پھر اس پر عمل کیا جائے۔ کیا ایسا کرنے سے واقعی ہم کامیاب ہوسکیں گے؟ جس کا جواب یقیناً ہاں میں ہے اور ایسی مثال صحابہ کرام کی ہے جنہوں نے رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات اپنا کرپسماندگی ، غربت، افلاس اور جہالت کو ترقی، فتوحات اور علم کی روشنی سے بدل دیا۔امت آج بھی انہی تعلیمات کی پیاسی ہے جس پر عمل انہیں تہذیبی، اقتصادی اور فوجی اعتبار سے دنیا کی بہترین قوم بناسکتا ہے۔

٭…خلافت راشدہ ہو یا بنو امیہ کی خلافت اوران کا اندلس میں آٹھ سو سالہ اقتداریا بنو عباس کا دور خلافت ہو۔یا ترکوں کی عثمانی خلافت ہو جن کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا یا سرزمین ہند پر مسلم اقلیت کا ہزار سالہ اقتدار یہ ان تعلیمات کے چند نمونے ہیں۔آج بھی مسلم امہ کو ذرا قیادت ملنے کی دیر ہے اقتدار کا ڈنکا دوبارہ بجایا جاسکتا ہے۔ بس سنو اور اس پر عمل کرو کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2…کتابت حدیث ۔

٭… آپ ﷺ نے اپنی احادیث خود لکھوائیں۔دنیا کی ہر نابغۂ روزگار شخصیت کے حالات زندگی کی معلومات کو سرمایۂ افتخار سمجھا جاتا ہے۔ اس شخصیت کی ذاتی زندگی کے نمایاں پہلو، اس دور کا معاشرہ اورتاریخی وعملی کام ،یہ سب علمی دل چسپی سے خالی نہیں۔قوم اپنے ان ہیروز کو جان کر اپنے ماضی پر فخر کرتی ہے۔آپ ﷺایک ہیرو نہیں بلکہ رسول اللہ تھے ۔ آپﷺکی سیرت، آپ ﷺ کے اعمال ، اخلاق اور کردار ، زندگی میں کئے گئے اہم کام سب مسلمان کے لئے سرمایہ حیات و نجاتِ آخرت کا سبب ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا تھا کہ ایسی شخصیت کے ایک لاکھ سے زائد شاگرد جن میں مردو خواتین شامل ہوں وہ اس کے کسی عمل کو دیکھ کر یا کسی قول کو سن کراسے حرز جان نہ بنائیں اوردوسروں کو نہ بتائیں۔ آپ ﷺ کے زریں اقوال کو ضبط کرنے کا شعور وادراک صحابہ کرام کو حفظ کے ساتھ ساتھ کتابت حدیث کی طرف لے گیا تاکہ آپ ﷺ کے اقوال واعمال اور سیرت کو ضبط میں لا کر آنے والی نسلوں کو اس قائد، راہنما اور رسول نبی امی کی صحیح معلومات پہنچا دی جائیں۔

٭… پہلی قومیں روایات سے نہیں بلکہ کتاب اللہ کو پس پشت ڈالنے یا اس کی معنوی ولفظی تحریف کی وجہ سے تباہ ہوئیں۔آپ ﷺ نے اپنے ضبط اقوال کی تاکید فرمائی۔مدینہ منورہ آتے ہی ارد گرد کے قبائل اور بالخصوص یہود یثرب سے آپ ﷺ کے معاہدات اور مواثیق محض روایت ہے یا واقعی ان میں حکمرانوں کے لئے کچھ اسباق ہیں اورغیر مسلم ہمسایہ قوموں کے ساتھ تعلقات کی ابتداء اور نوعیت کیا ہونی چاہئے ،کا درس ہے ۔اپنے نامزد گورنرز کو تحریری ہدایات دینا جن میں امورِ حکومت چلانے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کے راہنما اصول ہوں کیا یہ محض وقتی تھیں؟ پڑھے لکھے نوجوانوں کا آپ ﷺ کی دل میں اترتی اور کردار کو بدلتی اور سنوارتی باتوں کو ضبط تحریر میں لانے کی خواہش کیالایعنی تھی کہ جس کا شکار قریشی دانشور اور مدبر انسان کا نوجوان بیٹا ہوا۔ وہ تو اپنی آرزو کو یوں پوری کرتا ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
کُنْتُ أَکْتُبُ کُلَّ شَیئٍ أَسْمَعُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ا أُرِیْدُ حِفْظَہُ، فَنَہَتْنِیْ قُرَیْشٌ، وَقَالُوا: أَتَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ تَسْمَعُہُ وَرَسُولُ اللّٰہِ ا بَشَرٌ یَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا؟ فَأَمْسَکْتُ عَنِ الْکِتَابِ، فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ا فَأَوْمَأَ بِأصْبَعِہِ إِلٰی فِیْہِ، فَقَالَ: أُکْتُبْ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ، مَا یَخْرُجُ مِنْہُ إِلاَّ حَقٌّ۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا لکھ لیا کرتا تھا تاکہ میں اسے حفظ کرلوں۔ مجھے قریش نے یہ کہہ کر روک دیا: کہ تم نبی ا سے سنی ہر بات لکھ لیتے ہو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر ہیں۔ غصے اور خوشی میں بھی بولتے ہیں؟ میں نے لکھنا بند کردیا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر بھی کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ مبارک کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عبد اللہ: لکھو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلا کرتا۔مسند احمد: ۶۵۱۰، ابوداؤد: ۳۶۴۶۔ والحدیث صحیح۔

جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے عرض کی۔إنَّکَ تُدَا عِبُنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: إِنِّی لاَ أَقُولُ إلاَّ حَقًّا (مسنداحمد) اللہ کے رسول آپ بھی ہم سے مزاح فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جی ہاں! مگر میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہا کرتا۔

٭… یہ تفسیر آپ ﷺ نے آیت {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوْحٰی} کی روشنی میں ارشاد فرمائی۔کیونکہ زبان مبارک سے جو کچھ نکلتا وہ نطق ہوتا اور یہ نطق یا تو قرآن کریم کا تھا یا پھر حدیث رسول تھی۔ صحابہ رسول نے سمجھ لیا کہ رضا وغضب میں آپ ﷺ کی اتباع کے بارے میں ہمارا فرق کرنا درست نہیں ۔اس لئے اس بیان کی لاعلمی کی وجہ سے کچھ صحابہ عدم کتابت کے قائل رہے مگر حدیث رسول روایت ضرور کرتے رہے۔جبکہ اکثریت کتابت کی قائل رہی ۔ بعض صحابہ منع حدیث کے حکم کو عارضی سمجھے مگر حفظ حدیث اور روایت حدیث سے کوئی باز نہیں رہا۔ امام مجاہدؒ فرماتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو ؓکے پاس ایک صحیفہ دیکھااور اس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے: یہ صحیفہ صادقہ ہے جس میں وہ احادیث ہیں جو میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے سنیںجبکہ میرے اور آپ کے درمیان کوئی تیسرا نہ تھا۔(تاویل مختلف الحدیث)۔ اسی صحیفہ کی یہ حدیث جسے امام احمدؒ نے اپنی مسند میں بھی روایت کیا ہے:

ابوقابیل نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے دریافت کیا کہ قسطنطینیہ پہلے فتح ہوگا یا روم؟ عبد اللہ نے اپنا بند صندوق منگوایا جسے کھول کر ایک کتاب نکالی۔ پھر اس میں سے پڑھ کر بتایا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور احادیث لکھ رہے تھے تو آپ ﷺ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ قسطنطینیہ پہلے فتح ہوگا یا روم؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہرقل کا شہر سب سے پہلے فتح ہوگا۔ مراد یہی قسطنطینیہ۔(مسند احمد ۲؍۱۷۶، سنن الدارمی ۱؍ ۱۲۶، صحیح)

اس صحیفہ میں ہزار احادیث ہیں جو اب مسند احمد میں مکمل موجود ہے۔اس صحیفے کی مشہور روایت عمرو بن شعیب بن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی سند سے ہے محدثین نے اس روایت پر اعتماد کرکے اسے اپنی کتب میں جگہ دی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…آپ ﷺکے عہد میں حدیث۔۔ جس میں احکام وسیر اور عقائد وسنن شامل ہیں۔۔ جمع ہونا شروع ہوگئی تھی۔ جس طریقے سے قرآن کو دو عہدوں میں جمع کیا گیا اسی طریقے سے حدیث رسول کو صحابہ وتابعین کے عہد میںجمع کیا گیا۔ جن صحابہ نے قرآن کی آیات وسور کو یاد کرکے، دوسروں سے پوچھ کر، سن کر اور خوب تلاش کرکے اسے لکھا اور جمع کیا ، انہی صحابہ نے حدیث کو یاد کیا، دوسروں سے پوچھا اور خوب تلاش کرکے اسے بھی لکھا اور جمع کیا۔ صحاح ستہ میں اکثر احادیث وہی ہیں جو پہلی صدی میں لکھی گئیں۔کچھ ایسی بھی ہیں جن کی سند میں آپ ﷺ اور جمع کرنے والے کے درمیان صرف ایک صحابی واسطہ ہے۔جیسے صحیفہ ہمام بن منبہ جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ(م: ۵۸ھ) سے نقل کیا گیا ہے۔ اس میں ۱۳۸احادیث ہیں جو صحیحین میں اور مسند احمد بن حنبل میں زبانی روایت ہوکر آچکی ہیں۔

٭… جو لوگ قرآن کی نص اور قراء ت روایت کرتے ہیں وہ اگر درست ہے تو انہی کی روایتِ حدیث بھی درست ہونی چاہئے۔ ان کے حافظہ پرتو جناب رسالت مآب ﷺ کو بھی اعتماد ہے۔ہمیں کیوں نہیں؟ آپ ﷺ فرماتے ہیں: اکتبوا لأبی شاہ ابوشاہ کو یہ خطبہ لکھ دو۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ رسول خطبہ فتح مکہ کے موقع پر قلم ودوات لئے نہیں کھڑے تھے اور نہ ہی کوئی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔

٭… سنن نسائی (ص: ۷۲۷)میں ہے :
أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَتَبَ إِلٰی أَہْلِ الْیَمَنِ کِتَابًا فِیْہِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّیَاتُ وَبَعَثَ بِہِ عَمْرَو بْنَ حَزْمٍ۔آپ ﷺ نے اہل یمن کے لئے ایک ضخیم کتاب لکھی جس میں فرائض، سنن اور دیات کی تفصیل تھے اور اسے آپ ﷺ نے عمرو بن حزم(گورنر یمن) کو بھیجا۔

صحابہ کرام اس صحیفہ کو مستند جانتے اور وقت ضرورت اس کی طرف رجوع کرتے تھے(سنن البیہقی ۸؍۹۳)۔امام ابن القیم رحمہ اللہ اس تحریر کے بارے میں فرماتے ہیں:
ہُوَ کِتَابٌ عَظِیْمٌ، فِیْہِ أَنْوَاعٌ کَثِیْرَۃٌ مِنَ الْفِقْہِ مِنَ الزَّکَاۃِ وَالدِّیَاتِ، وَالْاَحْکَامِ، وَذِکْرِ الْکَبَائِرِ وَالطَّلاَقِ وَالْعِتَاقِ، وَأَحْکَامِ الصَّلٰوۃِ، وَمَسِّ الصُّحُفِ وَغَیْرِ ذَلِکَ۔ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: لاَ شَکَّ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَتَبَہُ۔یہ ایک عظیم کتاب ہے جس میں فقہی مسائل کی کثرت تھی۔ جیسے زکاۃ، دیات ، کبائر، احکام، طلاق، عتاق، نماز، قرآن کو چھونے اور بہت سے مسئلے تھے۔اور امام احمد فرماتے ہیں بلاشبہ آپ ﷺ نے ہی یہ کتاب لکھوائی تھی۔

٭…سنن اور مسند میں ہے:
قَاَل عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُکَیْمٍ أَتَانَا کِتَابُ النَّبِیِّ ﷺ أَنْ لاَ تَنْتَفِعُوْا مِنَ الْمَیْتَۃِ بِإِہَابٍ۔ عبد اللہ بن عکیم کہتے ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺ کا ایک خط آیا جس میں یہ لکھا تھا: مردار کے کچے چمڑے سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤ۔

٭…صحیح مسلم(ح: ۱۹۹۰) میں ہے:
کَتَبَ إِلٰی أَہْلِ جُرَشٍ یَنْہَاہُمْ عَنْ خَلِیْطِ التَّمْرِ وَالزَّبِیْبِ۔ آپ ﷺ نے اہل جرش کو لکھا کہ وہ کھجور اور کشمش ملا کر مت بھگویا کریں۔

٭…سنن نسائی (۵۵۵۷) میں یہی حکم ہجر والوں کے لئے بھی لکھا ہوا ہے:
کَتَبَ إِلٰی أَہْلِ ہَجَرٍ أَنْ لَّاتَخْلِطُوا الزَّبِیْبَ وَالتَّمْرَ جَمِیْعاً۔ اہل ہجر کو لکھا: کشمش اورکھجور دونوں کو ملا کر نہ بھگویا کریں۔

٭…کس قدر جھوٹ اور جہالت ہے کہ احادیث آپ ﷺ کی وفات کے ڈھائی سو سال بعد لکھی گئیں۔بلکہ یہ بھی غلط ہے کہ احادیثِ رسول نوے یا سوبرس تک زبانی روایت ہوتی رہیں۔سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ جو (۱۰۱ھ) میں فوت ہوئے ہیں ان کے حکم سے تدوین حدیث کا کام جب شروع ہوا تو صحیفۂ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہیں کے خاندان سے ملا جس میں صدقات اور زکاۃ کے احکامات درج تھے ۔ امام مالک رحمہ اللہ کا کہنا ہے: میں نے یہ صحیفہ خود پڑھا ہے۔(موطأ امام مالک: ۱۰۹)۔اس لئے یہ بھی کہنے میں ہمیں کوئی باک نہیں کہ عہد نبوی میں احادیث کا سرمایہ ضبط تحریر میں آنا شروع ہوگیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باقاعدہ احادیث کی تدوین کیوں نہ ہو سکی؟ اس کے درج ذیل اسباب تھے:

۱۔صحابہ و تابعین کی معمولی تعداد اس خیال پر کتابتِ حدیث سے محترز رہی کہ کہیں یہ ہمارے حفظ کو متاثر نہ کر دے یا یہ مقدس مکتوبِ علم کسی نا اہل کے پاس نہ چلا جائے۔

۲۔ ابتداء میں صحابہ کرام کی ایک جماعت واقعتاً کتابت ِحدیث کو ناپسند کرتی رہی مگرجب احساس ہوا کہ پیغامبری کا حق اس سے بھی ادا ہوتا ہے تو بعد میں انہوں نے رجوع کرلیا جو ان کی پسندیدگی کا اظہار تھا ان میں سیدنا ابوہریرہ ؓ، ابن عباسؓ اور ابوسعید خدریؓ وغیرہ پیش پیش تھے۔

۳۔ بہت سے صحابہ وتابعین کرام کتابت ِحدیث کو معیوب نہیں سمجھتے تھے بلکہ خود انہوں نے احادیث لکھیں اور اپنے تلامذہ کو بھی لکھنے کا حکم دیتے۔ اس طرح یہ سلسلہ ،کتب کی تصنیفات تک جا پہنچا۔

۵۔پہلے تین خلفاء کا ذہن تو اسی طرف ہی لگا رہاآخر کار عہد عثمانی میں کتابت قرآن کا کام تکمیل کو پہنچا۔ رہے جناب سیدنا علیؓ اپنی خلافت کے دوران وہ اختلافات کو حل کرنے میں مصروف رہے اور ان کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ مزید بڑھ گیا۔ اس لئے قدرتی طور پر کتابت حدیث کا جما ہوا خیال کسی کو نہ آیا۔

۶۔دور نبوت سیاسی اعتبار سے ممتاز ہے۔ اس دور میں دو سیاسی اہداف ایسے تھے جن پر رسول محترم ﷺ نے بہت وقت اور محنت صرف کی اور جس کے تسلسل نے تدوین علم حدیث کی راہ ہموار کی۔

أ۔ اسلامی حکومت کا مدینہ منورہ میں قیام:
جب آپ ﷺ صحابہ سمیت مدینہ منورہ ہجرت کرگئے توآپ ﷺ کو حکومت کے قیام اور مخالفین سے نبرد آزما ہونے کے لئے بہت سا وقت اور طاقتور فوج کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں قرآن وحدیث کی تدوین کی چنداں ضرورت نہ تھی اس لئے کہ آپ ﷺ اہل ایمان کے درمیان تھے اور وحی سے مسائل حل ہورہے تھے۔

ب۔ جہاد میں مصروفیت اور دین اسلام کی اشاعت:
یہ جہاد اصل میں قرآن پر عمل کرنے اور آپ کے احکامات اور ارشادات کو روبہ عمل لانے کا نام تھا۔ جن گروہوں سے آپ ﷺ اور مسلمانوں نے جہاد کیا وہ درج ذیل تھے:

مشرک:
جن کے سرغنہ مکہ کے قریش تھے جنہوں نے بارہا مسلمانوں کی طاقت کو توڑنے کی سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح یہ سر نہ اٹھا سکیں۔ وہ کئی بار آپ ﷺ پر یلغار کرنے مدینہ آئے۔جس کے لئے مسلمانوں کو بڑا مال اور قیمتی جانیں قربان کرنا پڑیں یکے بعد دیگرے معرکے بدر واحد اور خندق ہوئے ۔

یہود:
اہل اسلام کے انتہائی خطرناک دشمن جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما بھی دیا:{ لتجدن أشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیہود والذین أشرکوا۔۔}۔ان کے اور اہل ایمان کے درمیان متعدد معرکے ہوئے جن کا سبب ان کی خائن ، غدار اور عہد کو توڑنے والی فطرت تھی۔ان سے اہم ترین معرکہ غزوہ بنو قریظہ تھا۔

نصاری:
آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری زمانہ میں ان سے معرکہ آرائی شروع ہوئی۔جوآئے دن نیارخ اختیار کرتی اور بڑھتی گئی۔ اور یہ روم کی سپرپاورز سے ٹکر تھی۔ اہل اسلام کی ان سے مڈبھیڑ ہوئی اس وقت رومی عیسائی تھے۔ ان لڑائیوں میں مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے مجاہد بن کراس کے کلمہ کو سربلند کرکے اسلام کی طاقت کو منوایا جس کے دور رس اثرات تھے۔ نفوس مسلمین میں یہ جذبہ اجاگر ہوا کہ وہ اب دشمنوں کے آنگن میں گھس کر بھی اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔

ج۔ آپ ﷺ کے عہد میں ہی بڑی اہم سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں :
فتح مکہ:
جس کے سبب بے شمار عرب حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: { إذا جاء نصراللہ والفتح ورأیت الناس یدخلون فی دین اللہ أفواجا}۔

ان سیاسی تبدیلیوں کے علاوہ دیگر دو اہم وجوہات نے بھی تدوین حدیث میں تاخیر کرائی:

۱۔ صحابہ کرام کی قوت حافظہ جس نے کتابت کی ضرورت محسوس نہ کرائی۔
۲۔ صحابہ کرام اور شرعی مصدر کے درمیان کسی واسطہ کا نہ ہونا یعنی رسول اللہ ﷺ کا وجود مسعود۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان اسباب کے باوجود صحابہ کرام نے کتابت کو کلی طور پر ترک نہیں کیا بلکہ ان میں بعض کی تدوین اور کتابت حدیث میں اپنی انفرادی کوششیں ضرور تھیں اور رہیں جیسا کہ صحابہ کرام کے حالات سے معلوم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے یہ سبب بھی بتایا ہے کہ انہیں اولاً توقوی حافظے کی وجہ سے اس کی ضرورت نہیں تھی دوم یہ کہ وہ فن کتابت سے آشنا نہیں تھے۔

د۔خلفاء راشدین کا عہد:
اس عہد میں بے شمار نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

حروب ردہ:
آپ ﷺ کی وفات کے بعدبڑے خطرناک حالات نفاق کی صورت میں ابھرے اور مدینہ کے اردگرد متعدد قبائل نے ارتداد کا اعلان کردیا ۔ کچھ زکوۃ دینے سے انکاری ہوگئے اور نمازجمعہ کے لئے صرف مکہ ومدینہ باقی رہ گئے۔ لوگ جب سمجھانے سے دین میں واپس پلٹے تو جواثا نام کی پہلی بستی تھی جس میں جمعہ کی ابتداء ہوئی۔

جیش اسامہؓ رومیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھا مگر رسول اکرم ﷺ فوت ہوگئے ۔ کچھ نے مشورہ دیا کہ اب جیش کی روانگی روک دی جائے۔سیدنا ابوبکر ؓ نے اس رائے کو قبول نہ کیا بلکہ پختہ عزم سے یہ بات کہی کہ نہیں لشکر جائے گا تاکہ مرتد ومنکرین زکوۃ یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان اب کمزور ہوگئے ہیں یا ان کی تعداد اب گنی چنی باقی رہ گئی ہے۔اس لئے یہ لشکر جس علاقے سے بھی گذرا اس کا مرعوب کن منظرہر عرب بستی کے بڑوں کو یہ کہنے پر مجبور کرتا گیا:

اگر مسلمانوں کے پاس طاقت نہ ہوتی یا عددی قوت کم ہوتی تو وہ کبھی بھی اپنے لشکر کو روانہ نہ کرتے۔ ۔

سیدنا ابوبکر ؓ نے اس موقع پر اپنا یہ ارشاد فرمایا جو بعد میں مشہور ہوگیا: وَاللّٰہِ لاَ أُحِلُّ عُقْدَۃً عَقَدَہَا الرَّسُولُ ﷺ وَلَو أَنَّ الطَّیْرَ تَخْطَفُنَا وَالسِّبَاعُ مِنْ حَوْلِ الْمَدِیْنَہِ، وَلَوْ أَنَّ الْکِلاَبَ جَرَتْ بِأَرْجُلِ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ لَأَجْہِزَنَّ جَیْشَ أُسَامَۃَ۔ بخدا میں اس بندھ کو نہیں کھول سکتا جسے رسول محترم نے باندھا خواہ پرندے ہمیں نوچ لیں اور درندے ہمیں مدینہ کے اردگرد سے آکر پھاڑ دیں۔ اور اگر کتے بھی امہات المؤمنین کے پاؤں پر دوڑنے لگیں میں لشکر اسامہ کو بھیج کے رہوں گا۔(البدایۃ والنہایۃ ۶؍۳۰۸)

اس اسلامی تحریک نے ابھی تیئیس سال ہی گذارے تھے کہ جہاں اس نے کامیابی کی انتہاؤں کو چھؤا وہاں اسے یہ دن بھی دیکھنا پڑے کہ لوگ رسول محترم کے بعد مرتد ہوناشروع ہوئے!!! مگر یہ تو خس کم جہاں پاک والا معاملہ تھا۔ اس لئے یہ فلسفہ کہ قوموں کے عروج کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں غلط ہے اصل بات یہ ہے کہ مقصد سے لگن اور اس پر ایمان کتنا پختہ ہے؟ یہی جذبہ اگر تازہ رہے تو قوم زندہ رہتی ہے ورنہ صدیاں نہیں بلکہ چند مہینوں اور سالوں میں قومیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر نیست ونابود ہوجاتی ہیں۔اس لئے صحابہ کرام کو بھی اسلام قبول کئے ابھی عرصہ گذرا نہ تھا وہ تو اللہ تعالیٰ کے ڈر سے شرارت اور بدی سے باز رہے مگر ان کے مابین غلط فہمی پیدا کرنے اور انہیں آپس میں لڑوانے میں شیطانی اور ابلیسی قوتوں نے جو چالیں چلیں انہیں بھی انہی صحابہ کرام نے ہی ختم کیا۔ وفات نبوی کے بعد اسلام اب نئے سرے سے اپنے آپ کو متعارف کرارہا تھا۔رسول اللہ ﷺ نے فرض نبھایا اب امت کے ان مقدس نفوس پر اس کی ذمہ داری آگئی تھی کہ وہ بھی اس کی اشاعت میں اپنی صلاحیتوں اور قربانیوں کا حصہ ڈالیں چنانچہ صحابہ کرام نے اپنا حصہ ایمانی جوش وجذبہ سے ڈال دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ نے اس دین کی حفاظت ایک بار پھر جناب صدیق اکبر ؓ کے پختہ عزم سے کی اور صحابہ کرام نے ان کی اس رائے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ دل وجان سے اسے مانا۔

فتوحات کی کثرت اور اسلامی حکومت کا پھیلاؤ: سیدنا ابوبکر ؓ کے عہد کے بعد اسلامی سلطنت کی حدود مشرق ومغرب کی طرف پھیل گئیں اور مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو شکست سے دو چار کرکے اپنی سیاسی، عسکر اوراقتصادی قوت کو مزید طاقتور بنایا۔ اسی زمانہ کی عظیم ترین فتوحات میں بیت المقدس کی فتح تھی۔

فتنوں کا آغاز اور تفرقہ کے بیج: یہ فتنے شہادت فاروق اعظم کے فوراً بعد ہی شروع ہوگئے۔جو رسول محترم کی پیشین گوئی کے عین مطابق تھے۔صحیح بخاری میں (۷۰۹۶) اور صحیح مسلم میں (۲۳۱) دروازہ ٹوٹنے اور کبھی نہ بند ہونے کا اشارہ شہادت فاروق اعظم اور فتنوں کے کھل جانے ہی کا تو ہے۔ شہادت ذوالنورَین بھی فتنہ تھی اور بہت سے فتنے بعد میں بھی اٹھے جن میں سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین لڑائی بھی تھی۔اسی عرصہ میں فرقہ واریت کی بنیادیں پڑچکی تھیں جیسے رافضہ، خوارج اور قدریہ کے فتنے۔ جو دراصل اہل اسلام میں دشمنوں کی دسیسہ کاری تھی جو سب غیر مسلم تھے۔ بدعت رافضہ کی بنیاد عبد اللہ بن سبأ یہودی نے رکھی جو اپنے تئیں اسلام کا نام لیتا۔

نوٹ:
رافضہ:
یہ غالی شیعہ تھے جو سیدنا علیؓ اور اہل بیت کے بارے میں غلو کا شکار ہوئے۔ سوائے چند صحابہ کے باقی کی انہوں نے تکفیر کی۔ ان کا نام رافضہ اس لئے پڑا کہ انہوں نے سیدنا زید بن علی بن الحسین سے مطالبہ کیا کہ وہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ سے برائت کا اظہار کریں انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ جس پر ان حضرات نے ان کا انکار کردیا۔سیدنا زید نے انہیں فرمایا: رفضتمونی؟ تم نے میرا انکار کردیا۔ اس وجہ سے انہیں رافضہ کہا گیا۔یہ امامیہ بھی کہلاتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ امامت سیدنا علیؓ، رسول اللہ ﷺ سے نصاً ثابت ہے ورنہ وہ اس سے پہلے خشبیہ کہلاتے تھے۔(مقالات الاسلامیین از اشعری ۱؍۸۸، اور الملل والنحل از شہرستانی ۱؍۱۶۲) ۔

خوارج:
سیدنا علی ؓ کے خلاف ہوگئے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق سیدنا علیؓ حکمین کے فیصلہ پر راضی ہوگئے تھے اس لئے انہوں نے سیدنا عثمان وعلی اور معاویہ رضی اللہ عنہم اور جو بھی اس فیصلہ پر راضی ہوا سبھی کی تکفیر کرڈالی۔وہ کہا کرتے: مرتکب کبیرہ کافر ہے اور مخلد فی النار۔ ان کے مشہور فرقوں میں ازارقہ اور اباضیہ ہیں۔ (مقالات الإسلامیین ۱؍۱۶۷)

قدریہ:
یہ وہ قدری ہیں جو کہا کرتے کہ دنیاکا ہرمعاملہ جب ہوجاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوتا ہے ورنہ اسے پہلے معلوم نہیں ہوتا۔اسی طرح کوئی اچھا کرے یا برا۔ تقدیر کوئی چیز نہیں۔ایسے قدریہ کی تکفیر پر ائمہ سلف کا اجماع تھا۔ایسے خیالات کی ابتداء سوسن نامی عراقی مجوسی نے کی اس سے معبد الجہنی نے یہ بدخیالی لی اور پھر غیلان دمشقی کے ذریعے پھیلی۔ یہ مذہب وقت کے ساتھ اپنی موت آپ مرگیا۔(شفاء العلیل از ابن القیم:۶۱)

ان فرقوں کے ہیروز اور صحابہ رسول کے درمیان بہت سا مکالمہ ہوا جن میں ایک دوسرے کے دلائل معلوم ومعروف ہیں۔کتب السنۃ میں بہت سی صحیح اسانید سے سیدنا ابن عباس اور خوارج کے مابین مکالمہ کی تفاصیل ملتی ہیں۔اور سیدنا ابن عمرؓ ، جابر، ابوہریرہ، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم کی قدریہ کے بارے میں تنبیہات بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷۔ پہلی صدی ہجری تک یہ سب کوششیں انفرادی سطح تک کی تھیں۔ ورنہ سیدنا عمر ؓ کو بعض صحابہ کرام نے احادیث لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ وہ برابر ایک ماہ تک استخارہ کرتے رہے مگر ان کی رائے نہ بن سکی۔ وجہ یہی تھی کہ ابھی قرآن مجید کو اولیت دی جائے۔ اور مصحف میں منتقل ہوجائے۔

۸۔شاید اس عہد میں تدوین حدیث کا خیال اس لئے بھی نہ آسکا کہ ابھی ضرورت نہیں تھی صحابہ کرام حیات تھے حدیث یقینی طور پر انفرادی کتابت، عمل اور روایت کی وجہ سے موجود ومتداول تھی۔ اسے وہ تابعین کو روایت کرتے۔ ہاں جب یہ محسوس ہوا کہ علماء کی تعداد اٹھتی جارہی ہے اور کہیں حدیث کا علم ہی ختم نہ ہوجائے جو علماء کی وفات کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے تو پھر اس کی تدوین کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔

۹۔یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کچھ مسلمان اسے معیوب سمجھتے ہیں کہ خلفاء کی سرپرستی میں یہ کام کیوں ہوا؟ پھر اس کا جو جواب ہونا چاہئے اس پر بھی معترض ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کفر اگر حکومتی سرپرستی میں پھیلایا جاسکتا ہے تو قرآن یا حدیث کو باضابطہ طور پر کمیٹی کی سربراہی میں جمع کرانے میں کیا قباحت ہے؟ ہمارے قلم ان کے خلاف کیوں چلتے ہیں اور کفر کے خلاف کیوں سوکھتے ہیں۔ ہماری ایسی حالت کیوں ہے کہ اگر اللہ کے نیک بندے اس کام کو سرانجام دیں توہمیں اپنے پہلو پہ ہاتھ رکھنا پڑتا ہے کیوں؟ کیا عمر ثانی کی ذات ، شخصیت ، خلافت، اصول حکمرانی یا دیانت داری پر کسی کو کوئی شک ہے؟ ہمیں یہ تکلیف کیوں نہیں ہوتی کہ یہ سب کچھ کفر کا پروپیگنڈہ ہے جس نے ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں اجاڑا۔ اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ بنایا اور جس سے ہم اتنے متاثر ہیں کہ اپنے اس نیک خلیفہ کے اس نیک کام کو بھی معیوب سمجھ بیٹھے ہیں۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیدنا ابوسعیدؓ خدری کی روایت اور اس پر واویلا:

٭…منکرین حدیث حدیث لکھنے اور لکھانے کے متواتر عمل کے خلاف ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے سیدنا ابو سعید خدری کی روایت پیش کرکے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا حدیث آپ ﷺ کے زمانے میں لکھی گئی تھی کیونکہ آپ ﷺ نے منع فرمادیا تھا؟ اس کے جواب میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ سارے ذخیرہ ٔحدیث میں سے صرف ایک ہی حدیث پر آپ کا اتنا شور کیوں؟ احادیث کے انکار کے بعد اس حدیث کو ماننا چہ معنی دارد؟ اس ذخیرہ میں تو یہ بھی ہے کہ احادیث آپ ﷺ کے حکم پر لکھی گئیں۔ یہ بھی احادیث ہیں کہ بعض صحابہ نے آپ ﷺ سے لکھنے کی اجازت مانگی تھی۔ اور بعض میں تو یہ تک ہے کہ ان کی تحریر کردہ احادیث سن کر آپ ﷺ نے تصویب فرمائی تھی۔مان لیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا مگر کیا روایت حدیث سے بھی آپ ﷺ نے روکا تھا؟ کیا یہ علمی دیانت ہے کہ آدھی حدیث لے لی جائے اور آدھی ترک کردی جائے؟ آخر یہ کون سا اصول ہے؟ حیرت کی بات ہے منکرہوکر اس حدیث کو اپنی مقصد برآری کے لئے حجت بنایا جائے؟ بلکہ ایسے لوگ قرآن کریم پر غور کرکے یہ جواب ڈھونڈیں کہ قرآن کی نزولی ترتیب کیوں موجودہ ترتیب کے خلاف ہے؟

٭… امام بخاری رحمہ اللہ اور بعض دیگر محدثین اس حدیث کو مرفوع حدیث ہی نہیں مانتے وہ اسے معلول قرار دے کر ابو سعید خدریؓ کا قول قرار دیتے ہیں۔غیرمرفوع ہونے کی وجہ سے انہوں نے اسے روایت ہی نہیں کیا۔حدیث قرطاس کے یہ الفاظ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ آپ کے لئے خوب حجت بن گئے اگرچہ بوجۂ تنازع آپﷺ اسے لکھا نہ سکے مگر آپ ﷺ نے یہ وصیت زبانی فرمادی: تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمَرَیْنِ۔۔۔ مگر کیا یہ کتابت حدیث کا جواز تو نہیں؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث ، ابو سعیدؓ کی حدیث کی ناسخ ہو۔اس لئے پہلا حکم منسوخ ہو گا۔ کتابت کا حکم چونکہ بعد کا ہے اس لئے پہلا حکم منسوخ سمجھا جائے گا۔امام ابن قتیبہؒ اور شیخ احمد شاکرؒ دونوں اس سے یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ سنت، سنت کو منسوخ کردیتی ہے۔

آپ ﷺ نے خود کتابت حدیث سے منع فرمایا:
سیدنا ابو سعید خدریؓ کی روایت یہ ہے:
لَا تَکْتُبُوْا عَنِّیْ غَیْرَ الْقُرْآنِ، فَمَنْ کَتَبَ عَنِّیْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ وَحَدِّثُوا عَنِّیْ وَلَا حَرَجَ۔ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔کوئی بھی قرآن کے علاوہ اور کچھ نہ لکھے جس نے بھی مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ لکھا ہو تو اسے مٹادے اور مجھ سے حدیث بیان کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جو مجھ پر جھوٹ باندھے گا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے۔(صحیح مسلم ح: ۳۰۰۴)

آپ ﷺ نے کتابت قرآن کی اجازت دی اور کتابت حدیث سے منع فرمایا مگر روایت حدیث سے نہیں روکا بلکہ اجازت مرحمت فرمائی۔۔نیز مسنداحمد میں یہی صحابی فرماتے ہیں: ہم جو کچھ بھی سنتے( خواہ وہ قرآن ہوتا یا حدیث) اسے لکھ لیتے۔دیگر علماء اس حدیث میں علت کے قائل نہیں۔ اس لئے صحیح مسلم کی اس حدیث کو انہوں نے درست تسلیم کیا۔ امام بیہقیؒ، امام ابن الصلاحؒ اور دیگر ائمہ حدیث ایک وجہ یہ لکھتے ہیں:
لَعَلَّ النَّہْیَ عَنْ ذَلِکَ کَانَ حِیْنَ یَخَافُ اِلْتِبَاسَہُ بِالْقُرآنِ، وَالإِذْنُ فِیْہِ حِیْنَ أَمِنَ ذَلِکَ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ۔شاید حدیث لکھنے سے منع کرنے کی بات آپ ﷺ کی تب تھی جب قرآن کے ساتھ اس کے التباس کا ڈر تھا اور لکھنے کی اجازت اس وقت دی جب یہ خوف جاتا رہا۔باقی اللہ اعلم۔(المدخل:۴۱۰، مقدمہ ابن الصلاح: ۱۶۰)

یعنی جب وحی قرآن کا نزول شروع ہوا تو اس وقت آپ ﷺ نے احتیاطاً ساری جدو جہد کتابت قرآن پر مرکوز کرنے کا حکم دیا تھا اور زبانی طور پر روایت حدیث سے منع نہیں فرمایا مگر جب قرآن کریم کی کتابت اور اس کی نزاکت کو بخوبی سمجھ لیا گیا اور قرآن وحدیث کے مابین تمیزہونا شروع ہوگئی تو آپ ﷺ نے نہ صرف حدیث لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی بلکہ خود انہیں لکھوایا بھی۔اگر حدیث لکھنا ہی منع ہوتا تو پھر آپ ﷺ خود اسے کیوں لکھواتے یا لکھنے کا حکم کیوں دیتے اور صحابہ کیوں لکھتے پھر لکھ کر آپ ﷺ کو کیوں سناتے؟
 
Top