٭…یہ سعادت قرآن سے محبت، اسے سیکھنے اور قبول کرنے کی سچی لگن سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ تلاوت ، ترجمہ اور مفہوم سب جانا جاسکتا ہے مگرہمارے اندر کیا تبدیلی آئی؟ ہم کتنا بدلے؟ عقیدہ وعمل درست ہوا؟ ان کا جواب اسی مقصدمیں مضمر ہے۔ اسی لئے تو اسلام نے اس کا سیکھنا ہر مسلمان مرد وعورت کے لئے واجب قرار دیا ہے۔ یہ منہج بہت آسان ہے بس معلم پر منحصر ہے کہ وہ تعلیم قرآن کس طرح دینا چاہتا ہے۔اس سلسلہ میں اس کے لئے اصل راہنما رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات ومنہج ہی ہیں جن سے فیض یاب ہو کر وہ قرآن کی تعلیم دے سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے اسی منہج کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
تَکَفَّلَ اللہُ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِیْہِ، أَنْ لاَّ یَضِلَّ فِی الدُّنْیَا، وَلاَ یَشْقَی فِی الآخِرَۃِ ثُمَّ قَرَأَ ہَذِہِ الآیاتِ{۔۔۔فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿١٢٥﴾ قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ ﴿١٢٦﴾}۔طہ: ۱۲۳۔۱۲۶)
اللہ تعالی نے کا یہ ذمہ ہے کہ جو بھی قرآن پڑھے اور جوکچھ اس میں ہے اس پر عمل کرتا رہے ، دنیا میں اللہ اسے گمراہ نہ کرے اور آخرت میں وہ رسوا نہ ہو۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں پھراگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آجائے تو جس نے اس کی پیروی کی وہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبختی اس کے قریب پھٹکے گی۔ اور جو میرے اس ذکر سے اعراض کرے گا تو یقیناً ہم اس کی معیشت تنگ کردیں گے اور روز قیامت ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔وہ کہے گا: مولی! مجھے تو نے اندھا کیوں اٹھایا جب کہ میں تو دنیا میں بینا تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئی تھیں تو تو انہیں بھلا بیٹھا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔
یہ بھولنا محض سننے سے ہوتا ہے مگر بار بار پڑھنے اور سیکھنے سے بھولا سبق یاد آجاتا ہے۔سنن ترمذی میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے ۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
أَنَّہَا سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، قُلتُ: فَمَا الْمَخْرَجُ مِنْہَا یَارَسولَ اللہِ؟ قَالَ: کِتَابُ اللہِ، فِیْہِ نَبَأُ ما قَبْلَکُم، وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ، ہُوَ الْفَصْلُ، لَیْسَ بِالْہَزْلِ، مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللہُ، وَمَنِ ابْتَغَی الْہُدَی فِی غَیْرِہِ أَضَلَّہُ اللہُ، وَہُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ، وَہُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ، وَہُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ، وَہُوَ الَّذِیْ لاَ تَزِیْغُ بِہِ اْلأَہْوَائُ، وَلاَ تَلْتَبِسُ بِہِ اْلأَلْسُنُ، وَلا َتَنَْقَضِیْ عَجَائِبُہُ، وَلاَ تَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَائُ، مَنْ قَالَ بِہِ صَدَقَ، وَمَن عَمِلَ بِہِ أُجِِرَ، وَمَنْ حَکَمَ بِہِ عَدَلَ، وَمَنُ دَعَا إِلَیْہِ ہُدِیَ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ عنقریب بہت فتنے ہوں گے۔
میں نے عرض کی: ان سے کیسے بچا جاسکتا ہے، اللہ کے رسول؟ فرمایا: کتاب اللہ کو پیش نظر رکھو۔ اس میں تم سے پہلوں کی اہم خبریں ہیں اور جو بعد میں بیش آنے والا ہے اس کی اطلاعات ہیں۔جو تمہارے درمیان مسائل ہیں ان کے بارے میں بھی اس میں فیصلے ہیں۔ یہ قول فیصل ہے کوئی کھیل مذاق نہیں۔ جو اسے حقیر جان کر چھوڑے گا اللہ تعالی اس کا غرور خاک میں ملا دے گا۔اور جو کسی اور جگہ ہدایت و راہنمائی تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کردے گا۔ یہ قرآن اللہ تعالی کی عطا کردہ مضبوط رسی ہے اسی میں بڑی محکم نصیحتیں ہیں اور یہی صراط مستقیم ہے۔ یہی ہے جس سے خواہشات ٹیڑھی نہیں ہوتیں، اور نہ زبانوں پر کوئی لچک آتی ہے اس کے عجائب نہ ختم ہونے والے ہیں، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے۔ جو اس کے مطابق بولے گا سچ بولے گا اور جو اس کے مطابق عمل کرے گا اسے انعام دیا جائے گا اور جو اس کے مطابق فیصلے کرے گا وہ منصف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ دکھا دیا جائے گا۔