• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعلیم قرآن یا تفسیرقرآن؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تعلیم قرآن یا تفسیرقرآن؟

تعلیم کتاب کیوں اور تفسیر قرآن کیوں نہیں؟ کیاعام فرد کے لئے تفسیر کی ضرورت ہے یا تعلیم کی؟ نیز تفسیر قرآن تو ہوگئی مگر کیا اس سے تعلیم قرآن ہورہی ہے؟ کیاتفسیر کے بعد طالب علم کے لئے قرآن پڑھنا ، اس کے الفاظ کے معنی ومفہوم کو سمجھنا ممکن ہوگیا؟ کیا الفاظ کی معنوی وضاحت کے بعد اسے شرعی مسائل اور اسلامی عقائد سمجھ آگئے؟ تعلیم قرآن کے مقاصد یہی تھے مگر تفسیر میں یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔کیونکہ تفسیرعموماً لوگ دروس میں سنتے ہیں جس میں لفظ کی پہچان یاقراءت کی صحیح ادائیگی کی مشق نہیں کرائی جاتی۔محض ترجمہ اور اس کی وضاحت پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔مگر قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ الفاظ قرآن اور مطالب قرآن طالب علم پر اس طرح واضح ہوں کہ وہ نص کو بخوبی سمجھ جائے۔اور اسے کوئی مشکل یا ابہام نہ رہے۔یہ سادہ ودل نشین اندازتعلیم، قرآن کریم کو طالب علم کی روح میں اتار دے گا جس سے وہ عمر بھر مستفید ہوتا رہے گا۔نیز غلط رجحانات اورمن مانے مفاہیم سے اس کا ذوق سلیم بھی مجروح نہ ہوسکے گا۔ معلم قرآن ربانی ہو تو لوگ بھی اللہ کی مرضی والے بنیں گے ۔ روح صرف اسی منہج سے جاگے گی اور نور ہدایت بھی اسی سے ہی نصیب ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭…یہ سعادت قرآن سے محبت، اسے سیکھنے اور قبول کرنے کی سچی لگن سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ تلاوت ، ترجمہ اور مفہوم سب جانا جاسکتا ہے مگرہمارے اندر کیا تبدیلی آئی؟ ہم کتنا بدلے؟ عقیدہ وعمل درست ہوا؟ ان کا جواب اسی مقصدمیں مضمر ہے۔ اسی لئے تو اسلام نے اس کا سیکھنا ہر مسلمان مرد وعورت کے لئے واجب قرار دیا ہے۔ یہ منہج بہت آسان ہے بس معلم پر منحصر ہے کہ وہ تعلیم قرآن کس طرح دینا چاہتا ہے۔اس سلسلہ میں اس کے لئے اصل راہنما رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات ومنہج ہی ہیں جن سے فیض یاب ہو کر وہ قرآن کی تعلیم دے سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے اسی منہج کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
تَکَفَّلَ اللہُ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِیْہِ، أَنْ لاَّ یَضِلَّ فِی الدُّنْیَا، وَلاَ یَشْقَی فِی الآخِرَۃِ ثُمَّ قَرَأَ ہَذِہِ الآیاتِ{۔۔۔فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾ وَمَنْ أَعْرَ‌ضَ عَن ذِكْرِ‌ي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُ‌هُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَ‌بِّ لِمَ حَشَرْ‌تَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرً‌ا ﴿١٢٥﴾ قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ ﴿١٢٦﴾}۔طہ: ۱۲۳۔۱۲۶)
اللہ تعالی نے کا یہ ذمہ ہے کہ جو بھی قرآن پڑھے اور جوکچھ اس میں ہے اس پر عمل کرتا رہے ، دنیا میں اللہ اسے گمراہ نہ کرے اور آخرت میں وہ رسوا نہ ہو۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں پھراگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آجائے تو جس نے اس کی پیروی کی وہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبختی اس کے قریب پھٹکے گی۔ اور جو میرے اس ذکر سے اعراض کرے گا تو یقیناً ہم اس کی معیشت تنگ کردیں گے اور روز قیامت ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔وہ کہے گا: مولی! مجھے تو نے اندھا کیوں اٹھایا جب کہ میں تو دنیا میں بینا تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئی تھیں تو تو انہیں بھلا بیٹھا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔

یہ بھولنا محض سننے سے ہوتا ہے مگر بار بار پڑھنے اور سیکھنے سے بھولا سبق یاد آجاتا ہے۔سنن ترمذی میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے ۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
أَنَّہَا سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، قُلتُ: فَمَا الْمَخْرَجُ مِنْہَا یَارَسولَ اللہِ؟ قَالَ: کِتَابُ اللہِ، فِیْہِ نَبَأُ ما قَبْلَکُم، وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ، ہُوَ الْفَصْلُ، لَیْسَ بِالْہَزْلِ، مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللہُ، وَمَنِ ابْتَغَی الْہُدَی فِی غَیْرِہِ أَضَلَّہُ اللہُ، وَہُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ، وَہُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ، وَہُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ، وَہُوَ الَّذِیْ لاَ تَزِیْغُ بِہِ اْلأَہْوَائُ، وَلاَ تَلْتَبِسُ بِہِ اْلأَلْسُنُ، وَلا َتَنَْقَضِیْ عَجَائِبُہُ، وَلاَ تَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَائُ، مَنْ قَالَ بِہِ صَدَقَ، وَمَن عَمِلَ بِہِ أُجِِرَ، وَمَنْ حَکَمَ بِہِ عَدَلَ، وَمَنُ دَعَا إِلَیْہِ ہُدِیَ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ عنقریب بہت فتنے ہوں گے۔
میں نے عرض کی: ان سے کیسے بچا جاسکتا ہے، اللہ کے رسول؟ فرمایا: کتاب اللہ کو پیش نظر رکھو۔ اس میں تم سے پہلوں کی اہم خبریں ہیں اور جو بعد میں بیش آنے والا ہے اس کی اطلاعات ہیں۔جو تمہارے درمیان مسائل ہیں ان کے بارے میں بھی اس میں فیصلے ہیں۔ یہ قول فیصل ہے کوئی کھیل مذاق نہیں۔ جو اسے حقیر جان کر چھوڑے گا اللہ تعالی اس کا غرور خاک میں ملا دے گا۔اور جو کسی اور جگہ ہدایت و راہنمائی تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کردے گا۔ یہ قرآن اللہ تعالی کی عطا کردہ مضبوط رسی ہے اسی میں بڑی محکم نصیحتیں ہیں اور یہی صراط مستقیم ہے۔ یہی ہے جس سے خواہشات ٹیڑھی نہیں ہوتیں، اور نہ زبانوں پر کوئی لچک آتی ہے اس کے عجائب نہ ختم ہونے والے ہیں، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے۔ جو اس کے مطابق بولے گا سچ بولے گا اور جو اس کے مطابق عمل کرے گا اسے انعام دیا جائے گا اور جو اس کے مطابق فیصلے کرے گا وہ منصف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ دکھا دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭… یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تمام انسان یکساں قابلیت کے حامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بات یا کلام کو سمجھنا چند لوگوں کے لئے تو آسان ہوتاہے مگر بہتوں کے لئے مشکل۔ اس لئے دانا وعقل مند نیز اچھی شخصیت والے لوگ اسے سیکھ کر عام انسانوں کو اس کی تعلیم دیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرآنَ وَعَلَّمَہُ۔
تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو قرآن سیکھتا اور سکھاتا ہے۔

سیکھنے والے یعنی طالبعلم کو آپﷺ نے اپنے بیان میں پہلے رکھا۔ اس لئے کہ وہ اسے سیکھنے کی بہت سی کوششیں کررہا ہوتا ہے۔استاذ کے پاس اپنا شوق لئے آتا ہے، نیز اسے سمجھنے اور پڑھنے میں اس کی محنت وغیرہ اللہ تعالی کے نزدیک قابل قدر شے ہے ۔معلم کو آپ ﷺ نے بعد میں رکھا۔ کیوں؟اس لئے کہ وہ سیکھ کر خیر پاچکا اب وہ اپنے مقام پر دوسروں کو لانے کا ذریعہ بننا چاہتا ہے۔ نیزطالب علم کی فضیلت پر احادیث زیادہ تر ہیں بہ نسبت معلم کے۔ وجہ یہی ہے کہ سیکھنے والے بھی کم ملتے ہیں۔ انہیں بھی وقت اور کام کی قربانی دینا پڑتی ہے۔تعلیم بعض اوقات بہت مشکل بھی لگتی ہے دل نہیں مانتا۔ نیز قرآنی تعلیم میں دنیاوی فائدہ تو ہے ہی نہیں تو کون اس کے لئے اپنا وقت اور صلاحیت لگائے۔ان حالات میں جوبھیڑ چال سے اجتناب کرکے اور وقتی لہروں سے متأثر ہوئے بغیر اپنا شوق وجذبہ کو تسلسل دے دے کہ میں نے قرآن کریم سیکھنا ہے اور اس کے لئے جو ہوسکا میں کرنے کو تیار ہوں تو وہ معلم کے پاس پڑھنے کے لئے آجائے تو ہماری نظر میں بہترین انسان ہے ۔علماء کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ عام لوگوں کو قرآن مجیدکی تعلیم کتابت ،حفظ اورمفہوم کی وضاحت کے ذریعے سے دیں ،یہی تبیین ہے جو اللہ تعالی سے کیا ہوا عہد ہے :
{ وَإِذَ أَخَذَ اللّہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ ۔۔۔} (آل عمران: ۱۸۷)
اور جب اللہ تعالی نے ان سے پختہ عہد لیا جو کتاب دئے گئے تھے کہ تم ضرور اسے کھول کھول کر بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سبھی تدبر کریں۔ اس کی آیات میں غور وفکر کریں اور جو کچھ اس میں کہا گیا ہے اس سے نصیحت پکڑیں۔یہی غور کرنا ہی اس کا سیکھنا ہے۔ورنہ وہ الفاظ کا مجموعہ ہے اور بے اثر بھی۔ا سی طرح یہ ارشاد بھی:
{أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلٰی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا} (محمد:۲۴)
کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں۔

{ کِتٰبٌ أَنْزَلْنٰہُ إِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آَیٰتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوا الْأَلبَاب}( ص:۲۹)
یہ ایسی عظیم کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے بڑی بابرکت، تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور وفکر کریں اور تاکہ صاحب عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔

عمل سے خالی غور وفکربھی کام کا نہیں۔ یہی دلوں پر تالے پڑنا ہے۔ اسے سمجھ کرہی بھلائی مل سکتی ہے ورنہ محرومی ہے۔نیز انجانی شے سے محبت گہری نہیں ہوتی۔اور بغیر شعور کے اندھی عقیدت بھی مضر ہے۔ سیاسی یا مذہبی کتابیں وقتی جوش توپیدا کردیتی ہیں مگر روح وبدن کا حصہ نہیں بنتیں۔ اس لئے قرآن پاک کو اپنی جز وقتی سیاست یا مخصوص رجحانات کاہدف نہیں بنانا چاہئے بلکہ اسے ہر شخص کی ضرورت ہے سمجھ کر عام کرنا چاہئے۔کیونکہ اس میں اصلاحی پیغام ہے۔بگاڑ ، تفریق اور کھینچاتانی کا نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭…رہی تفسیر تویہ قرآن فہمی کا ایک ذریعہ ہے اور جس میں مفسر عموماً اس مقام پر حاشیہ آرائی کرتا ہے جہاں اسے دل جسپی ہوتی ہے مگر جہاں اس کا دل نہیں چاہتا یا سمجھانے سے وہ قاصر رہتا ہے وہاں بیشتر آیات کی تفسیروہ سابقہ حاشئے کی طرف اشارہ کرکے اس لئے ترک کردیتا ہے کہ یہ تکرار ہے جبکہ قرآن کریم میں جہاں ہر لفظ و آیت تعلیم کی متقاضی ہے وہاں اس کا تکرار اپنا فائدہ و حکمت بھی رکھتاہے۔اس لئے ہم تفسیری طوالت کی بجائے متن فہمی پر اگر توجہ دیں تو قلیل وقت میں یہ تعلیم سینے میں اتارکر مسلمان کو روحانی خوشی پہنچا سکتے ہیں۔خَیْرُ الْکَلاَمِ مَا قَلَّ وَدَلَّ پر عمل کریں تو اس کی تعلیم لوگوں کے لئے مشکل نہیں بلکہ آسان ہوجائے گی۔ورنہ قرآن کریم سے جہالت بدستور رہے گی۔

٭…چنانچہ تعلیم قرآن کے لئے ہر وہ کوشش کرنا فرض ہوگی جس سے قرآن فہمی آسانی ہوجائے۔حفظ وتجوید کے مناہج کے ساتھ جدید ترین وسائل کو اختیار کرنااور طلبہ کے لئے انہیں مہیا کرنا ضروری ہے۔ آڈیو، ویڈیو سسٹم، کارڈز، کتب، جیسے تمام وسائل قرآن کی تعلیم کے لئے استعمال میں لانا دور حاضر کی اشد ضرورت ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭… تعلیم قرآن کے آج الحمد للہ بے شمار حلقے ، ادارے، زاویے، اور معاہد ہیں۔کورسز اور مناہج ہیں۔ تراجم وتفاسیر ہیں۔لیکچرز اور آڈیو ویڈیوز ہیں۔اورماشاء اللہ بہت سے خیرخواہ بھی ہیں۔خواتین میں بھی یہ ذوق جاگ اٹھا ہے۔وہ بھی قرآن کریم کو سیکھنے اور سمجھنے کا سچا جذبہ رکھتی ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ سے زائد پاکستانی مسلمان روزانہ قرآن پاک سے مستفید ہوتے ہیں۔قرآن کریم سیکھنے سمجھنے کی ایسی پیاس ہے جو بجھتے نہیں بجھتی ۔ایک خواہش ہے جو کم نہیں ہوتی۔ہر ایک محسوس کرتا ہے کہ کچھ خلا ہے جو باقی رہ گیا ہے۔ مگرکچھ ایسے بھی ہیں کہ جتنا سیکھا اسے ہی کافی سمجھ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ اور کچھ مزید سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ قرآن کریم کوجتنا بھی سیکھیں یہ علم کو ترقی دیتا اور خود کو سمجھنے کے لئے مزیدتڑپ پیدا کردیتا ہے۔مگر جہاں معلم کی بس ہوجاتی ہے وہاں یہ تڑپ بھی ماند پڑجاتی ہے۔اس محدودیت کی کیا وجہ ہے؟ کیا علماء اس سے سیر ہوگئے ہیں؟

آسان فہم انداز تعلیم قرآن فہمی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے متن کے ہر لفظ کا معنی ، مفہوم اور تقاضا معلوم ہو۔وہ صرف جاری ترجمہ سے ، یا مختلف تھیوریز سے، یا فضائل سے، یا اس کے ظاہر وباطن کے مفاہیم سے، یااس کی صرفی، نحوی تراکیب سے، یا ایک ہی فکر ، موضوع یا مذہب کو ثابت کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ سب مددگار توہوسکتے ہیں مگر قرآن فہمی کی پیاس پھر بھی باقی رہتی ہے۔ اس قرآن فہمی کا یہ مطلب بھی نہیں کہ طالب علم کو عالم بننا پڑے گا۔ نہیں بلکہ اسے عام فہم کتاب بنا کر اور اسے سمجھا کر مطمئن کرنا مقصد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ایک عمدہ مثال:
ہمارے ہاں تفاسیر بھی ایک ہی منہج کو لئے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے مذاہب کو حق ثابت کرنے اور اسلاف کی تفاسیر کو نئی تفسیرمیں جمع وتدوین کرنے کا طریقہ کار ہے۔آج کے دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مختصر اور جامع علمی بات مسلمان کو ایسی سمجھا دی جائے کہ قرآ ن کا لفظ لفظ اس پر کھلتا جائے۔ اس کی سوچ اور فکر کے زاویے کو درست کرتا اور ایمان کو تقویت دیتا جائے۔جو مشکل نہیں مگر ضرورت غور و فکر کی ہے۔ مثلاً ان دو آیات کو دیکھئے اور انداز تعلیم کو دیکھئے ۔ کیا یہ واقعی مشکل ہے؟ کیا طالب علم کو اکتا دینے والی ہے یا اس کی دل چسپی برقرار رکھنے اور مزید کی خواہش ابھارنے والی نہیں ہے؟۔ نیز اس میں کون سی ایسی مشکل بات ہے جو گراں گذرے؟ :

{والفجر} اللہ تعالی نے یہاں پانچ اشیاء کی قسمیں کھائی ہیں۔ان میں پہلی قسم فجر کی ہے۔فجر اس پھٹنے والے نور یا روشنی کو کہتے ہیں جو طلوع شمس کے قریب مشرق کے افق پر رات کے اندھیرے سے نکلتی ہے۔اس روشنی اور طلوع شمس کے درمیان ایک گھنٹہ بتیس منٹ تا ایک گھنٹہ سترہ منٹ کا فرق سال کے مختلف موسموں اور اوقات میں رہتا ہے۔فجر ، دو قسم کی ہوا کرتی ہے۔ فجر صادق اور فجر کاذب۔ اس آیت میں فجر صادق مراد ہے۔ فجر صادق اور فجر کاذب کے مابین فرق تین صورتوں میں ہے۔

۱۔ فجر کاذب آسمان میں مستطیل ہوا کرتی ہے عرضاً نہیں ہوتی بلکہ طول میں ہوتی ہے۔ رہی فجر صادق وہ عرضاً ہوتی ہے اور شمال سے جنوب کی طرف پھیلتی ہے۔

۲۔ فجر صادق کے بعد تاریکی نہیں ہوتی بلکہ روشنی ہی کا اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ سورج نکل آتا ہے۔فجر کاذب میں اس ابتدائی روشنی کے بعد بھی تاریکی باقی رہتی ہے اسی لئے اسے فجر کاذب کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بتدریج مضمحل ہوتی رہتی ہے۔ تاآنکہ ختم ہوجاتی ہے۔

۳۔فجر صادق افق کے ساتھ متصل ہوتی ہے ۔رہی فجر کاذب اس کے اور افق کے درمیان اندھیرا رہتا ہے۔

یہ تین فرق آفاقی ہیں اور حسی ہیں جو لوگ کھلے آسمان تلے رہتے ہیں وہ انہیں جانتے ہیں ۔باقی شہری اس سے ناواقف رہتے ہیں اس لئے کہ یہ روشنیاں ان پر پردے میں رہتی ہیں۔

اللہ تعالی نے فجر کی قسم اس لئے کھائی کہ اس سے دن کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور یہ تاریکی سے فجرمنور کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے۔ اللہ تعالی نے یہ قسم اس لئے کھائی کہ یہ عظیم کام ۔۔رات کے اندھیرے سے دن کی روشنی کو نکالنا۔۔۔سوائے اللہ تعالی کی ذات کے کوئی نہیں کرسکتا۔جیسے ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{قل أرأیتم إن جعل اللہ علیکم اللیل سرمداً إلی یوم القیمۃ من إلہ غیر اللہ یأتیکم بضیاء أفلا تسمعون}
ان سے کہئے! یہ بتاؤ اگر اگر اللہ تعالی قیامت تک تم پر رات کو مسلسل طاری کردے تو اللہ کے سواکون سا ایسا خدا ومعبود ہے جو تم پر دن کی روشنی لے آئے۔ کیا تم قرآن نہیں سنتے۔

اللہ تعالی نے فجر کی قسم اس لئے بھی کھائی ہے کیونکہ بہت سے شرعی احکام اس پر مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے: امساک روزہ۔ یعنی سحری کا ختم کرنا کیونکہ جب فجر طلوع ہوگئی تو روزے دار پر۔۔فرضی یا نفلی روزہ جسے وہ شام تک رکھنا چاہتا ہے ۔۔ اس کھانے پینے سے رک جانا فرض ہے۔دوسرا فجر کی نماز جس کا وقت بھی داخل ہوجاتا ہے ۔ یہ دونوں شریعت کے بڑے اہم حکم ہیں۔ان دونوں میں زیادہ ہم وقت نماز کا ہونا ہے۔یعنی فجر کاوقت ہونے کی وجہ سے ہم پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ فجر کا امساک روزہ سے زیادہ خیال کریں۔کیونکہ اگر بالفرض سحری کے امساک میں ہم نے کوئی خطا کی تو اس کی بنیاد ی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ رات ابھی باقی ہے۔ کیونکہ دونوںمیں اصل رات کا باقی ہونا اور نماز کے وقت کا شروع نہ ہونا ہے۔اس لئے اگر کوئی نماز فجر کو ایک منٹ وقت سے پہلے پڑھ لیتا ہے اس کی نماز نفل تو ہوجائے گی مگر فرض ادا نہیں ہوگا۔اس لئے یہ مسئلہ بھی ہم سب کے لئے قابل غور ہے کہ نماز فجر کا وقت شروع ہونے کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔کیونکہ بہت سے مؤذن قبل از وقت فجر کی اذان دے دیتے ہیں جو غلط ہے اذان قبل از وقت تو مشروع نہیں ہے۔اس لئے کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: إِذَا حَضَرَتِ الصَّلاۃُ فَلْیُؤَذِّنْ لَکُمْ أَحَدُکُمْ ۔ جب نماز کا وقت ہوجائے تو پھر تمہارے لئے کوئی ایک اذان دے۔اس لئے وقت سے قبل جو اذان دے وہ درست نہیں ہوگی بلکہ اس کا اعادہ لازمی ہوگا۔اس لئے وقت فجر کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ایک قول یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس فجر سے مراد لیلۃ القدر کی فجر ہو۔کہ رات بھر عبادت کرتے کرتے فجر کی مبارک ساعتیں آگئیں جو نتیجے کے اعتبار سے بہت ہی عظیم ہے۔اور اسی عشرہ اخیرہ کی باقی راتیں بھی بڑی مبارک ہیں۔

{ولیال عشر} عموماً کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد ذو الحجۃ کے دس دن ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عربی زبان بہت وسیع ہے جس کی وجہ سے رات کا لفظ دن پر اور دن کا لفظ رات پر بھی بول دیا جاتا ہے۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس سے مراد رمضان کے عشرہ اخیرہ کی دس راتیں ہیں۔پہلے قول کے مطابق اگر دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن لیتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی حدیث پاک میں دس دنوں کو بڑی فضیلت والا ارشاد فرمایا ہے۔
مَا مِنْ أَیَّام ٍاَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْہِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ الأَیَّامِ الْعَشْرِ۔
کوئی دن ایسے نہیں جن میں عمل صالح للہ تعالی کو ان دس دونوں کے علاوہ زیادہ محبوب ہو۔
قالوا: وَلَا الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللہِ؟ قاَلَ: وَلاَ الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللہِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَئٍ۔
صحابہ نے عرض کی: اور نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ؟فرمایا: جی ۔ نہ ہی جہاد فی سبیل اللہ سوائے اس مرد حر کے جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان دونوں میں کوئی شے بھی لے کر وہ واپس نہ پلٹ سکا۔ (صحیح بخاری:۹۶۹)

رہے وہ علماء جو کہتے ہیں کہ ان دس راتوں سے مراد رمضان کی عشرہ اخیرہ کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت میں لیالی سے مراد لیالی ہی ہے ایام نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ رمضان کی آخری دس راتیں وہ ہیں جن میں لیلۃ القدر آتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:{خیر من ألف شہر}، اسی طرح: {إنا أنزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ إنا کنا منذرین فیہا یفرق کل أمر حکیم}(الدخان: ۳،۴) ہم ہی نے اسے بڑی مبارک رات میں نازل کیا یقیناً ہم ہی ہیں تنبیہ کرنے والے۔ اس رات میں ہر پختہ امر تفریق کردیا جاتا ہے۔

ان دونوں اقوال میں آخری قول ہی راجح لگتا ہے اگرچہ پہلا قول جمہور کا ہے مگر الفاظ قول جمہور کی تائید نہیں کرتے۔اس لئے قول ثانی ہی قابل قبول ہوسکتا ہے کہ ان دس راتوں سے مراد رمضان کے عشرہ اخیرہ کی راتیں ہیں۔اللہ تعالی نے اس کے شرف اور مقام کی قسم کھائی ہے۔کیونکہ اس میں شب قدر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ مسلمان انہی راتوں میں رمضان کا اختتام کرتے ہیں جو اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور ارکان اسلام میں سے ہے۔اس لئے اللہ تعالی نے ان راتوں کی قسم کھائی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چنداہم ہدایات:
٭… قرآن مجید کی آیات واحکام پر بغیر علم گفتگو کرنا اخلاقی، دینی اور علمی اعتبار سے بہت بڑا جرم ہے۔ایسے لوگ تو خود اپنے خلاف اللہ تعالی کو گواہ بنالیتے ہیں کہ {وأن تقولوا علی اللہ ما لا تعلمون}۔ اللہ کے بارے میں وہ وہ باتیں کہو جن کا تم علم نہیں رکھتے۔ جو چاہا کہہ دیا یہ ایمانی اعتبار سے انتہائی خطرناک حرکت ہے جس کا سوال روز قیامت ہوگاکہ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ اللہ تعالی کی مراد یہی ہے ؟ اپنی رائے، علم، اور شخصیت کو قرآن مجید پر مسلط کرنے سے حتی الامکان بچنا چاہئے۔

٭…اپنے عقیدے اور مسلک یا اپنی سیاست کے اثبات کے لئے آیات قرآنیہ کا ہیر پھیر بھی درست نہیں۔یہ شناعت میں پہلے سے کہیں بڑا جرم ہے کیونکہ ایسا شخص حق کو جانتے بوجھتے اسے اپنے رجحانات کی طرف موڑ رہا ہے۔ہاں اگر ہیر پھیر نہیں تو پھر اس مسلک سے اختلاف کسے ہوسکتا ہے؟مسلکی وسیاسی اختلاف تو ہیں اور رہیں گے مگر اللہ کے کلام کو بیچ میں لاکر ہمیں اسے مختلف فیہ شے نہیں بنانا چاہئے۔یہی قرآن فہمی کا تقاضا ہے اور اس سے محبت بھی۔ اللہ تعالی تبھی سینہ کو قرآن کے نور سے بھرتا ہے اور اس سے مستفید ہونے کی توفیق عطا کرتا ہے۔
{فِیْہِ شِفَائٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْر}ِ۔ سینوں کی بیماریوں کے لئے یہ مکمل شفاء ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭…تلاوت سیکھنے کے بعد کم ازکم اسے زندگی میں ایک بار ترجمہ وتعلیم کے ساتھ کسی عالم سے ضرور پڑھ لیا جائے ۔محض صرفی، نحوی انداز سے چند ایک مقامات کو پڑھنے پر اکتفاء کرنا یا یہ سمجھنا کہ اب سبھی کچھ سمجھ آجائے گا یہ زندگی بھر کے لئے اپنے آپ کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔سی طرح بے سوچے سمجھے قرآن مجید کی تلاوت سے اتنا تعلق تو ثابت ہوتا ہے کہ اس کی تلاوت احترام سے کرلی گئی مگروہ ایک قراءت کی کتاب بن جاتی ہے جو عملی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتی۔

٭…آج کے دور میں اگر اللہ کا ایک بندہ اس تڑپ کے ساتھ خدمت قرآن کا یہ جذبہ و ارادہ لے کراٹھے کہ میں نے ایک لاکھ سنٹر ایسے قائم کرنے ہیں جہاں قرآن مجید کی تعلیم ہو تو اس کے لئے کیا مشکل ہے؟ نیز یہ عمل آخرت کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔ دو قسم کے افراد کی دل چسپی اس میں بہت ضروری ہے:
 
Top