• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعلیم قرآن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۱… تفسیر صحابہ کا علم بھی اس لئے ضروری ہے تاکہ بعض اہم مسائل پر رائے زنی سے بچا جائے۔ ایسے مسائل پر ان کی اجماعی رائے حدیث مرفوع اور حجت کی حیثیت رکھتی ہے۔قرآن وحدیث میں بے شمار دلائل ایسے ملتے ہیں جن میں انہی کی اتباع کا کہا گیا ہے۔کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بلاواسطہ شاگرد ہیں اور نور نبوت سے ان کے سینے مستنیر ہوئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۲… اصول فقہ کا علم بھی تعلیم قرآن کا ایک اساسی علم ہے۔ تاکہ معلم استنباط احکام میں استدلال کی وجوہات سے واقف ہو۔امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے تعلیم قرآن سے متعلق کچھ اہم اصولی قاعدے اپنی کتاب بدائع الفوائد میں ذکر کئے جن سے واقفیت معلم قرآن کی علمی صلاحیت کو دوبالا کردے گی۔جس پر مزید حاشیہ آرائی شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب القواعد الحِسان میں کی ہے۔ مثلاً:

منفی یا مثبت کلام میں نکرہ کا عام ہونا: مثلاًنکرہ اگر نفی کے سیاق میں ہو تو وہ عام کا فائدہ دیتا ہے۔جیسے:
{۔۔۔وَلَا یَظْلِمُ رَبِّکَ أحَداً} ، { فَلَا تَعْلَمْ نَفْسٌ مَا أخْفِی لَہُمْ مِنْ ُقَّرٌۃَ ْأُعْیُنٌ۔۔}

…استفہام میں بھی اگر نکرہ ہو تو عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ جیسے:
{۔۔۔ہَلْ تَعَلُم لَہُ سَمِیًّا}

…یا شرط میں نکرہ ہو۔ جیسے:
{۔۔فَإِما تَرَین مِنَ الْبَشَرٍ أحَدَا ۔} { وَإنْ أحَدَ مِنَ الْمُشْرِکْیَن استجارک ۔}

…اور نہی میں نکرہ ہو جیسے:
{۔۔ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ أَحَدٌ۔۔}

…اسی طرح اگر نکرہ سیاق اثبات ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ مثلاً
{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَتْ}
اسی طرح جب اس کی طرف مضاف ہو تو بھی جیسے:
{وَجَائَ تْ کُلُّ نَفْسٍ}۔

…مقتضی عام ہونے پر نکرہ بھی عام ہوتا ہے۔ جیسے:
{ وَنَفْسٍ وَ مَا سَوّٰہَا}۔

مفرد اور جمع کا عام ہونا:
مفرد اسم، الف لا م سے مزین ہو تو وہ بھی عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ مثلاً:
{ إنّ الإنْسَانَ لَفِی خُسَرٍ}۔اور {وسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ}

…مفرد عام ہو اور مضاف ہو مثلاً :
{ وَہَذَا کِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ}۔
اس سے مراد وہ تمام کتب ہیں جن میں ان کے اعمال درج ہیں۔

… جمع اگر الف لام سے آراستہ ہو تو اس کا عام ہونا جیسے:
{وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ} یا { وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّیْنَ مِیْثَاقَہُمْ} یا یہ ارشاد
{ إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ }۔


…اسی طرح جمع مضاف ہو تو وہ بھی عموم کا فائدہ دیتی ہے جیسے:
{کُلٌّ آمَنَ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ}۔

…ایسے حروف شرط جو اسماء ہیں وہ بھی عموم کا فائدہ دیتے ہیں۔جیسے:
{ ومن یعمل من الصلحت وہو مؤمن۔۔} یا{ أینما تکونوا یدرککم الموت }، یا{ وإذا جائک الذین یؤمنون بآیاتنا۔۔} یہ عموم اس صورت میں ہوگا جب جب جواب کا مطالبہ ہو۔ لیکن اگر ماضی کی خبر ہو تو پھر عموم ضروری نہیں جیسے: { وإذا رأوا تجارۃ أو لہوا۔۔} یا {إذا جائک المنافقون قالوا ۔۔} اور اگر خبر مستقبل کی ہو تو اس کی اکثر باتیں عموم کی ہوا کرتی ہیں جیسے: { وإذا کالوہم أو وزنوہم یخسرون} یا {وإذا رأیتہم تعجبک أجسامہم}۔

امر مطلق ہو تو وجوب کا معنی ہوگا اس کی مخالفت مذموم ہے۔ نافرمانی کی صورت میں جلد یا بدیر اس کی سزا بھی مقرر کی جائے گی۔ امر کا وجوب کبھی صریح الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ جیسے ایجاب یا فرض اور کتب کے الفاظ ہوں۔ یا لفظ علی ہو یاحَقٌ عَلَی الْعِبَاد اور عَلََی الْمُؤْمِنِیْنَ۔ وغیرہ کے الفاظ ہوں۔

…اسی طرح نہی سے تحریم ثابت ہوتی ہے جو اس کا مرتکب ہو یا اس کی مخالفت کرے وہ بھی مذموم ہے۔ ایسی صورت میں اس کا مرتکب سزا کا مستوجب ہوگا۔ اس کے صریح الفاظ سے بھی، مثلاً حرام ہے یا پابندی ہے یا کسی فعل کے بجالانے پر وعید کے الفاظ ہوں۔ یا فاعل کی مذمت ہو، یا کسی فعل کے کرنے پرکفارہ بتایا گیاہو، یا لفظ لایحل ہو، یا فعل کو فساد بتایا گیا ہو، یایہ کہا گیا ہو کہ شیطان نے اس عمل کو خوبصورت بنادیا ہے یا اللہ تعالی اسے پسند نہیں فرماتا یا اللہ تعالی اسے اپنے بندوں میں دیکھ کر خوش نہیں ہوتا۔یا اللہ تعالی ایسے بندے کو کبھی پاک نہیں کرے گا اس سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کی طرف دیکھے گا۔

…مباح کے قاعدے بھی قرآن کریم میں موجود ہیں جیسے تخییر کی اجازت، تنبیہ کے بعد حکم، کوئی گناہ نہیں ، کوئی حرج نہیں یا کوئی مؤاخذہ نہیں کے الفاظ، اور یہ بتانا کہ اس نے معاف کردیا ہے یا زمانہ وحی میں کسی فعل کو برقرار رکھنا، یا کسی شے کو کسی نے حرام کیا تو اسے ناپسند کرنا یا یہ اطلاع دینا کہ اللہ نے اسے ہمارے لئے پیدا کیا ہے۔اسی طرح اور بے شمار قاعدے واصول بھی مذکور ہیں جو ہر طالب قرآن کے لئے اور بالخصوص مفسر کے لئے بہت ضروری ہیں۔بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں ان اصولوں کا خوب استعمال کیا ہے جن میں:
ابوبکر الجصاص (م: ۳۷۰ھ) کی تفسیر أحکام القرآن، فخر الدین رازی (م: ۶۰۶ھ)کی تفسیر مفاتیح الغیب، قاضی ناصر الدین بیضاوی(م: ۷۹۱ھ) کی تفسیرأنوار التنزیل وأسرار التأویل اور جلال الدین سیوطی (م:۹۱۱ھ) کی تفسیر الدُّرُّ المَنْثُور یا امام شوکانی(م: ۱۲۵۰ھ) کی تفسیر فَتْحُ القدیر ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۳…تعلیم قرآن میں سلف صالحین کے منہج اور طریقہ کا رکا معلم پابند رہے۔ اصول دین سے ایسا واقف ہو کہ آیات کی تفسیر سے صحیح عقیدہ کا ادراک کرسکے۔توحید، اسما ء وصفات، رسالت اور رسول کی اتباع، ختم نبوت سے اس کا تعلق، تقدیر کے خیر وشر ہونے پر ، خروج دجال اور نزول مسیح ،عذاب قبر ،یا بعث بعد الموت جیسے عقائد پر اسلاف میں بالخصوص صحابہ کرام کے عقائد کو خوب اجاگر کرے۔ ورنہ اس میدان میں بہت سے پھسل کر دنیا وآخرت میں خسران مبین کے مستحق بن چکے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۴…جس کا عقیدہ بگڑا ہوا ہو وہ پھر اپنی رائے وسوچ پر ہی اعتقاد رکھتا ہے پھر الفاظ قرآن کو اپنی رائے پر دے مارتا ہے اور ایسا مفہوم کو بیان کرتا ہے جو سلف صالحین ۔۔جو صحابہ وتابعین ہیں۔۔ میں کسی سے ثابت نہیں ہوتا۔ آیات جو اس کے باطل مذہب کو رگیدتی ہیں ان کی تفسیر کرتے وقت وہ ان کی ایسی تاویل کرتا ہے کہ انہیں اپنی رائے یا سوچ کے مطابق بنالیتا ہے۔ایسا شخص جب حق کا طالب نہیں تو اس سے حق کیسے لیا جاسکتا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۵…معلم،تعلیم قرآن دیتے وقت اپنے آپ کو یہی سجھائے کہ میں تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کلام کا صرف مترجم ہوں اور جو اللہ تعالی نے اپنے کلام میں چاہا ہے اس کا گواہ ہوں۔ اس شہادت کو وہ بہت بھاری ذمہ داری سمجھے اورہمیشہ اس بات سے ڈرتا رہے کہ قرآن کریم سے متعلق کوئی بات بغیر علم کے نہ کہہ دے اور نہ اپنے رجحانات کی تائید کے لئے تعلیم کا رخ موڑدے۔ ورنہ وہ وہیں جاگرے گا جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے اور روز قیامت ذلیل ورسوا بھی ہوگا۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ} (الأعراف:۳۳)
کہہ دیجئے میرے رب نے تو تمام ظاہری اور مخفی فحش کو حرام قرار دیا ہے نیز گناہ اور بغاوت ناحق کوبھی ، اور یہ بھی کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک بناؤ جس کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نہیں اتاری، اور یہ بھی کہ تم اللہ تعالی پر وہ وہ باتیں کہو جسے تم جانتے نہ ہو۔

اسی طرح یہ ارشاد بھی اس کے پیش نظر رہے:
{وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَرَی الَّذِیْنَ کَذَبُواْ عَلَی اللَّہِ وُجُوہُہُم مُّسْوَدَّۃٌ أَلَیْْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَکَبِّرِیْنَں} ( الزمر:۶۰ )
اور روز قیامت تم اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھوگے کہ ان کے چہروں پر کلونس چھائی ہوئی ہے۔ کیا ایسے متکبروں کا بسیرا جہنم نہیں ہوگا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۶۔ مشکل قرآن یعنی وہ مقامات یا عبارات جہاں قرآن مجید کی مراد سمجھنا اور سمجھاناضروری ہوان کا بھی علم رکھتا ہو۔اگر وہ حافظ قرآن ہو تو ان ملتے جلتے مقامات کو بیان کرنے میں بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ جیسے{ ریب المنون} کا جو معنی ہے کیا وہی ہے جو ان الفاظ کا ہے یا اس سے مراد کچھ اور ہے؟ اسی طرح{ والبحر المسجور} میں سَجْرٌ کیا ہے؟ ان معانی کا عقدہ تب ہی بہتر طور پر کھل سکتا ہے اگر عصری علوم سے معلم آراستہ ہو۔اور طلبہ میں ان الفاظ کی حقیقت تک ڈدبنے اور معانی کو معلوم کرنے کا شوق تدبر ابھار دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۷۔تعلیم قرآن کے دوران طلبہ اگر محسوس کریں کہ قرآن کریم میں تضاد ہے یا معلم خود دیکھتا ہے کہ اس کی دو آیات کا مفہوم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔اسی طرح ایک ہی واقعہ میں لفظی اختلاف ہے۔ جیسے واقعہ تخلیق آدم میں مٹی کے لئے کہیں تراب، اور کہیں طین، کہیں صلصال، تو کہیں فخار کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اسے تَعَارُض(Contradition) کہتے ہیں۔اس کے علم سے بھی آراستہ ہونا معلم کے لئے بہت ضروری ہے۔اور یہ ثابت کرنا ہے کہ کلام اللہ تضاد نہیں۔اور طلبہ کے ذہن میں یہ بات ایمانی اعتبار سے اور علمی اعتبار سے گاڑنی ہے کہ اولاً ہمارا ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی کے مقدس کلام میں کہیں کوئی تعارض نہیں ۔ اور اس بظاہر اختلاف کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنے قرآنی علم کو بڑھانا چاہئے۔ کیونکہ اختلاف محسوس ہونے کی ایک بڑی وجہ آیات قرآنیہ میں غور وفکر کی عدم صلاحیت ، کجی، کم علمی یا سوء فہمی بھی ہوسکتی ہے۔ تعارض کا یہ واہمہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا شیطان احادیث میں تضاد تلاش کرواتا ہے۔ علماء نے اخبار واحکام کے بارے میں ہمیشہ یہ دو اصول پیش نظر رکھنے کا کہا ہے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پہلا اصول:
اخبار میں تعارض نہیں ہوتا: قرآن کریم میں بیان شدہ امم ماضیہ کی خبروں میں کوئی تعارض نہیں ہوتا۔ مثلاً ھبوط آدم اورسبت کے واقعے میں یا قوم عاد وثمود کے واقعات بلا تعارض ہیں۔ تعارض ہوا تو یقیناً ایک واقعہ پھر جھوٹ ہوگا جو کلام اللہ میں نا ممکن ہے۔اللہ تعالی فرماتے ہیں: {وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا} (النساء:۸۷) اللہ سے بڑھ کر بات میں اور کون سچا ہوسکتا ہے؟ یا {وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً} (النساء:۱۲۲)اللہ سے بڑھ کر بات میں اور کون سچا ہوسکتا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا اصول:
احکام میں تعارض نہیں ہوتا:اسی طرح قرآن مجید میں احکام وشرائع کے بارے میں دو مختلف باتیں نہیں ہوسکتیں ۔گو ان احکام کا نزول تدریجی ہوا مگر پھر بھی ان میں باہمی ٹکراؤ نہیں۔

رہاظاہری تعارض تو اسے سمجھنے اور اسے ختم کرنے کے لئے علماء نے یہ اصول بیان فرمائے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أ۔ دو آیات میں جب تعارض محسوس ہو تو انہی آیات کے سیاق وسباق(Context) کو پڑھئے اور سمجھئے۔ ان کے مابین جمع وتطبیق یا ترجیح کی کوئی صورت نکل آئے گی ورنہ توقف کیجئے اور کسی ماہر عالم قرآن سے رجوع کیجئے۔

ب۔ دونوں متعارض آیات کے نزول کی تاریخ معلوم کیجئے اس طرح بعد والا حکم ناسخ ہو گا اور پہلا منسوخ۔ قرآن کریم میں نسخ کا اصول بھی یہی ہے۔اس لئے جب نسخ ثابت ہوجائے تو پہلا حکم باقی نہیں رہے گا اور نہ ہی پہلا حکم آخری حکم کے معارض ہوگا۔

علماء نے ان مثالوں کا تذکر ہ کیا ہے جو تعارض کا شائبہ دیتی ہیں اورپھر ان کے مابین جمع کی صورت بھی نکالی ہے۔مثلاًقرآن مجید کے بارے میں ہے: { ہدی للمتقین} یہ متقین کے لئے کتاب ہدایت ہے۔ مگر ایک اور مقام پر یوں فرمادیا :

{ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاس۔۔۔} (البقرۃ : ۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔یہ سب لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے۔

پہلی آیت میں ہدایت، متقین کے ساتھ مخصوص ہے اور دوسری میں عام۔ کیوں؟ اس بظاہر تعارض کو یوں حل کیا گیا کہ پہلی آیت میں ہدایت سے مستفید ہونے کی توفیق کا ہونا ہے جو اللہ تعالی متقین کو نوازتا ہے۔یہ پیاسے ہوتے ہیں کنویں پہ چل کے آتے ہیں اور دوسری آیت میں کتاب کی ہدایت سے مراد عام لوگوں کو راہ دکھانے کے ہیں کہ اگر انہیں طلب ہے تو کنویں پہ چل کے آئیں ورنہ کنواں ان کے پاس نہیں آئے گا۔

اسی طرح اس سے ملتی جلتی یہ دو آیات بھی ہیں جن میں رسو ل اللہ ﷺ کو فرمایا:
{ اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُج وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ} (القصص:۵۶)
بے شک آپ لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے۔

اور یہ قول بھی:
{وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ }(الشوری:۵۲)
اور بلاشبہ آپ ہی لوگوں کو سیدھا راستہ دکھا رہے ہیں۔

یہاں پہلی آیت میں ہدایت، سے مراد توفیق دینا ہے جو اللہ تعالی کے اختیار میں ہے اور دوسری میں ہدایت سے مراد راہنمائی کرنا یا سیدھی راہ دکھانا ہے جس سے آپ ﷺ عہدہ برآ ہورہے ہیں۔

٭…اسی طرح یہ مثال:
{ شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لآَ اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَلاوَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ۔۔۔} (آل عمران : ۱۸) اللہ تعالی گواہی دیتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے واہل علم بھی۔

نیز یہ ارشاد بھی:
{ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلاَّ اللّٰہُ۔۔۔} (آل عمران :۶۲ ) ’’ کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے۔

اس کے برعکس یہ ارشاد:
{ فلا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ} (الشعراء : ۲۱۳) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا کر مت پکارنا۔

پھر یہ ارشاد:
{وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ وَلٰکِنْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ لَّمَّا جَآئَ اَمْرُ رَبِّکَطوَمَا زَادُوْہُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ} (ہود :۱۰۱) جب تمہارے رب کا حکم آیا تواللہ تعالی کو چھوڑ کر ان کے وہ معبود کچھ کام نہ آسکے جنہیں وہ پکارا کرتے تھے۔جنہوں نے سوائے تباہی کے انہیں کچھ نہ نوازا۔

پہلی دونوں آیات میں اللہ تعالی کے سوا دیگر کے الہ ہونے کی نفی ہے اور آخری دو آیتوں میں غیر کے الہ ہونے کا اثبات ہے۔ کیوں؟ اس کا جواب ان دونوں قسم کی آیات کو جمع کرنے سے مل جاتا ہے وہ اس طرح کہ جو الوہیت اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے وہ الوہیت حق ہے اور جودوسروں کے لئے ثابت کی گئی ہے وہ باطل الوہیت ہے ۔ اللہ تعالی خود ارشاد فرماتے ہیں:
{ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ وَاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ }(الحج : ۶۲ ) یہ اس لئے کہ اللہ تعالی ہی حق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ پھی کہ اللہ تعالی ہی بلند وبرتر اور بڑا ہے۔

مزید مثالوں کا بیان اسباب نزول میں آرہا ہے۔اس موضوع پر بہترین کتاب علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کی ہے جس کا نام دَفعْ ُإِیْہَامِ الاِضْطِرَابِ عَنْ آیِ الْکِتَابِ ہے۔
 
Top