• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قیام پاکستان کا تعلیمی مقصداورمقصدیت کا قتل! لمحہ فکریہ تحریر(ظفر اقبال ظفر)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
قیام پاکستان کا تعلیمی مقصداورمقصدیت کا قتل لمحہ فکریہ!
یہ امر لا ریب ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم شروع دن ہی غیر تسلی بخش ہماری قومی اور ملکی امگنوں‘امیدوں اور تمناؤں سے کسی صورت مماثلت نہیں رکھتا ۔ ماضی تا حال مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں نے اس ملک کے نظام تعلیم میں بہتری کی غرض سے جو کوششیں کیں سب ہدف تنقید اور جدید تقاضوں سے بعید تر ثابت ہوئی ہیں۔پاکستان میں رہتے ہوئے جب ہم تعلیم کے عصری تقاضوں کی بات کرتے ہیں تو بظاہر ہم آپنی ’’مثالیت پسندی ‘‘ کا کھل کر مظاہر ہ کر ہرےہوتے ہیں۔اس وقت ہم زمین پر کھڑے آسمان کو چھونے اور بادلوں کے سینے کو چاک کر کے فضاؤں اور ہواؤں پر کنٹرول کرنے کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ہم وادی کے نشیت میں کھڑے ہوئے پہاڑ کی بلندی کو چھو لینے اور سمند کی ساحل پہ کھڑے سمندر کی گہرائیوں سےجواہرات کےحصول کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ عصر حاضر ایک وسیع اصطلاح ہے جو پوری کائنات کو محیط ہے ۔اگر ہم جدید تعلیمی تقاضوں اور قیام پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنا ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمارا تعلیمی معیار کیا ہونا چاہیے ؟ہمیں ان لوگوں کے تعلیمی معیار کو اپنانا ہو گا جنہوں نے سمندورں میں اتر کر زیورات تلاش کیے ‘ جنہوں نے فضاؤں پر اڑنا سیکھا ‘ جنہوں نے مریخ اور چاند کی طرف کامیاب سفر کیے ‘ جنہوں نے توانائی کے شعبہ میں سورج اور چاند وستاروں کی شعاؤں کو کنٹرول کر کے توانائی کے بحران کو کم کیا ‘جنہوں نے بحری سفر کو ممکن بنایا اور انٹر نیٹ اور موبائل فون کی ایجاد سے دنیا میں قربتیں قائم کیں اور لوگوں میں باہم فاصلوں کو ختم کر دیا ۔یا پھر ان لوگوں کے معیار تعلیم کو اپنانا ہو گا دو معجزوں کے انتظار میں وقت ضائع کرتے ہوئے جنگل اور خانہ بدوشی کی زندگی میں ترقی کا راز تلاش کرتے ہیں ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تعلیمی تقاضوں اور مقصدیت کو کم تر یا پھر غیر اہم سمجھتے ہوئے ہمیشہ نظر انداز کردیتے ہیں ۔تعلیم کے قومی معیارات تو دیسی قرار دیکر دیس نکالا دینے کی ہما وقت کوشش جاری رکھتے ہیں ۔ہم مقصدیت کا گھلا گھونٹ کر بین الاقوامی معیار ے تعلیم کا پٹا گلے میں ڈال کر اغیار سے تعلیمی بہتری کےلیے جھولی پھیلانے کو ترقی خیال کرتے ہیں ۔
قیام پاکستان سے اب تک پونی صدی گزرنے کو ہے اور ہم ابھی تک عدم استحکام‘ انتشار ‘بے روز گاری ‘دہشت گردی ‘ دھرنے ‘ احتجاجات بد امنی ‘ خانہ جنگی ‘تکفیریت جیسے فتنوں کی دلدل میں آئے روز گرتے چلے جا رہے ہیں ۔ہمیں معلوم ہے کہ سیاسی عدم استحکام معاشرتی عدم استحکام کا سبب ہے ۔یہ حقیقت ہے کے قوموں کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت نظمو ضبط ‘ امن و سلامتی ‘ عدل و انصاف کی ہوتی ہے مگر سیاسی عدم استحکام کا سب سے بڑا حملہ تعلیمی عمل پر پڑھتا ہے ۔آج کچھ یوں محسوس ہوتا ہے جیسا کہ ہم مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں جو روز بروز گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں ۔ایسے حالات میں ہماری نظریں صرف اور صرف ایک قوت کی طرف ہوتی ہیں وہ ہے تعلیم و تعلم کی قوت اوراسی طرح تعلیمی ادراے ‘نصاب تعلیم ‘ ظام تعلیم ‘استاد ‘طالب علم ‘معاشرے کی بہتری اور ترقی کے لیےریڑ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں پھر اس قوت کو فراموش کرنے سے قوموں کا دیوالیہ نکل جاتاہے ۔یہ اجزاء تعلیم جتنے مضبوط ہونگے وہ قوم اور ملک انتی زیادہ ترقی‘ امن و سلامتی ‘ خوشحالی کا ضامن ہو گا ۔ ان تمام اجزاء تعلیم میں سے سب سے زیادہ اہم جزء ’’استاد‘‘ ہوتاہے جو نوجوانوں کی ذہن سازی اور تربیت کرتا ہے طلبا کو ان کے مقصد سے آگاہ کرتا اور انہیں درپیش چیلنجز سے خبردار کرتا ہے ۔
مقصد حیات اور مقصد تعلیم متعین ہو جانے کے بعد سب سے اہم ذمہ داری طلبا کی ذہن سازی کی ہے ان کے اندر فکرو فہم‘غقل و خرد کا استعمال ‘ تحقیق و تنقید کا ملکہ ‘ قومی اور ملکی امیدوں اور آرزوں سے ہماوقت باخبر رہنا‘حق و باطل ‘صحیح اور غلط کی پہچان ‘انسان کا مقصد حیات ‘قیام پاکستان کا مقصد ‘تعلیم کے حصول کا بنیادی مقصد کہ ہم تعلیم کی لیے حاصل کرتے ہیں اپنے حقوق وفرائض کا ادراک ‘تعلیم حاصل کرتے کے بعد ہم نے کرنا کیا ہے ‘ملک و قوم کی طرف سے ہم پر کیا ذمہ درایاں عائد ہوتی ہیں ۔
آج معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور تعلیمی ترقی میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی جذبہ غیر فطری کو پروان کچھ اس طریقے چڑھایا جا رہا کہ تعلیمی ترقی اور معیاری تعلیم کی بہتری کے لیے صرف اور صرف انگریزی نصاب و نظام تعلیم کو ترقی اور تنزلی کا ضامن سمجھا جاتا ہے جو ادارہ انگریزی تعلیم کو اپنے ادارے میں جتنا مضبوط کرتا ہے اتنا ہی وہ خیال کرتا ہے کہ ہم بہتری اور ترقی کی طرف جا رہے ہیں ۔
حقیقت میں وہ غیر مسلموں سے داد وصول کرنے کے چکر میں ہماری نوجوان نسل کے مستقبل کا قتل کرنے اور اغیار کو خوش کرنے کے لیےکوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اس لیے وہ نعرہ لگاتے اور اپنے اس غیر فطری مقاصد جو اس ملک سے وفادری کی بجائے انگریز اور اغیار کے غلام تیار کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ان کے تعلیمی ادراے سے نکلنے والے طلبا مغربی فکرو فلسفہ کے حامل ‘ مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر ‘مغربی نظام زندگب اور معاشرت سے مرعوبیت اوران کو اپنا آئیڈیل بنانے میں ہی اپنی ترقی اور خوشحالی تصور کریں گے ۔
انگلش میڈیم اسکولز‘ اکیڈمیزوغیرہ کے منتظمین یہ نعرہ لگاتے نظر آئیں گے کہ:
٭ ہمارے اسکول کا نصاب جرمنی ‘ فرانس ‘ اٹلی ‘ برطانیہ ‘ امریکہ‘ انگلینڈ‘ کنیڈا کے نصاب تعلیم کا بنیادی حصہ ہے ۔
٭ ہمارے اسکول کے نصاب تعلیم کو مرتب کرنے والے برطانیہ ‘ جرمنی ‘ فرانس ‘ امریکہ کی یونیورسٹیز سے پڑھ کر آنے والے ماہرین تعلیم ہیں ۔
٭ ہمارے ادارے میں کوئی انگریزی زبان کےعلاوہ باتھ نہیں کرتا ۔
٭ہمارے اسکول میں داخل ہوتے ہی آپ محسوس کریں گے کہ آپ امریکہ کے کسی بڑے اسکول میں داخل ہو گے ہیں ۔
٭ہمارے ادارے میں ٹیچرز کے لیےشرط ہے کہ روز تازی چھیو کر کے آیا جائے ۔
٭ہمارے ادارے میں لیڈیز ٹیچر ز کے بغیر پردہ طلبا کے سامنے جینز کی پینٹ پہن کر لیکچر کے لیے کھڑا ہونا ضروری ہے ۔
٭ہمارے تعلیمی ادارے میں موسیقی اور رقص کی طلبا کوخصوصی تربیت دی جاتی ہے ۔
٭ہمارے ادارے میں ناچ گانے پر طلبا کو خصوصی مہارت دی جاتی ہے ۔
٭ہمارا نظام تعلیم پریپ سے ایم۔اے تک مکمل انگریزی زبان میں وضع کیا گیا ہے وغیرہ۔
آپ بتائیں! ان مٹھی بھر مراعات یافتہ ‘ عصری اور آفاقی تعلیم کی منزلیں عبور کرنے والے ‘وطنیت پرستی ‘ قوم پرستی ‘ اغیار کی چاکری ‘غیر مسلموں کی کاسا لیسی‘ننھے طلبا کی ذہن سازی اغیار کی وفادری کی صورت میں کرنے ‘ملکی غداری پر اکسانے ‘مغربی سوچ و فکر کے حامل ‘غیر مسلموں کے فکر و فلسفہ کو عام کرنے اور لاکھوں لوگوں کا تعلیم قتل کرنے والوں کویہ حق کس نے دیا ہے ؟
اس کی بنیادی وجہ شاید ہمارے طلبا و ماہرین تعلیم کااحساس کمتری ہے جس کی وجہ سے آج کا طالب علم حقیقت میں سمجھنے لگا ہے کہ مشرق کی نجات فقط مغربی نظام و معیار تعلیم کو اپنانے میں ہے۔وہ پاکستان میں عزت اور رزق کے حصول کا واحد ذریعہ انگریزی بولنے اور سمجھنے میں ہے ۔ شاید ہمارے نو جوانوں کو دوہرےاور غیر معیاری تعلیمی نظام میں اپنی شناخت کے کھو جانے کا ڈر ہے۔
قیا م پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز کا ہر شعبہ اصلاح کی ضرورت بدرجہ اتم محسوس کرنا ہے ۔موجودہ چیلنجز اور بحرانوں سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی ڈھانچے کی سمت کو درست کرنے کی ضرورت ہے جس کی بدولت نئی نسل کو عدل وانصاف ‘ محب وطن اور ترقی کی راہ پر گامزن کردے۔
اس ضمن میں طبقاتی نظام تعلیم سے مکمل نجات حاصل کر کے یکسا نظام تعلیم وضع کرنےکی ضرورت ہے یہ تقاضا برقرار رہتا ہے کہ قیام پاکستان کے مقاصد و عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی امگنوں کے مطابق پائیدار اور جامع تعلیمی حکمت عملی وضع کی جائے ۔اگر ہم قرار داد مقاصد ‘نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کا باغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ قیام پاکستان ‘ تعلیم کے حصول کے بنیادی مقاصد کیاہوتے ہیں ۔
ذیل میں ہم ان میں چند مقاصد ذکر کرتے ہیں ۔
٭باعمل اور صاحب کرادر مسلمان پیدا کرنا ۔
٭خوف خدا اور ایثار و ہمدردی کے جذبہ سے سرشار مسلمان کی تیاری ۔
٭محب وطن اور انسانیت سے محبت کرنے والا مسلمان تیار کرنا ۔
٭با صلاحیت ‘ہنر مند ‘ ایمان دار ‘امن پسند ‘امت مسلمہ کے لیے دردرکھنے والا ‘محدثین کی سی صفات حمیدہ کےحامل افراد تیار کرنا۔ آئیے ! ہم جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقتًا ہمارا نظام تعلیم اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے کہ نہیں ؟
تاریخ پاکستان ‘تقسیم پاکستان اور مقاصد تعلیم کی طرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ عصر حاضر کے نظام تعلیم سے نکلنےوالا طالب علم خود غرض ‘مفاد پرست ‘دولت کا رسیا‘انسانی خدمت اور فلاح وبہبود سے عاری‘خائن‘ منشیات کا عادی ‘مغربی کلچر کا دلدادہ‘امن و سلامتی کی بیخ کنی کرنے والا‘نا امید ‘ مایوس ‘مغربی فکرو فلسفہ سےمرعوب‘ مذہب دشمن ‘ بد کردار‘قانون شکن‘ غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں می ملوث اور ذمہ داری سے سبکدوش‘مادہ پرست‘سرمایہ دارنہ سوچ کا حامل ‘لبرل‘سیکولر ذہنیت کا حامل ہوتاہے جس کے ذمہ دار تعلیمی ادراے‘استاد‘ماہرین تعلیم‘حکومت وقت ‘طلبا خود ہیں ۔
ذیل میں ہم چند مثالوں سے مزید بات واضع کرنے کی کوشش کریں گے جس سے مقصدیت کےقتل کو سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔
٭مذہبی تعلیم اور مقصدیت کا قتل:
مذہبی نظام تعلیم جس نے ہمیں لوگوں کی اصلاح اور تربیت کے لیے عالم باعمل اور انبیاء کے وارث پیدا کرنا تھے اس مذہبی نظام تعلیم نے فرقہ ورایت ‘ جود‘ تقلید شخصی‘مسلکی و فقہی اختلافات کو ہوا دینے والے‘مذہبی منافرت اور مقصد زندگی سے نا بلد‘مشرک‘
ا ورفرقہ پرست علماء سوء کی بڑی تعداد مہیاں کی جنہوں نے ملکی و قومی سلامتی پر سودے بازی سے کسی صورت کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
٭ہمارا عدالتی نظام اور مقصدیت کا قتل :
عدالتوں کا کام لوگوں کو لیے انصاف مہیاں کرنا اور حق پر مبنی فیصلے کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے عدالتی نظام کا اگر سرسری سا جائزہ لیا جائے تو دھوکہ ‘فریب‘جھوٹ‘ لوگوں کی حق تلفی‘انصاف کا قتل ہمارے عدالتی نظام کا طرہ امتیاز ہے ۔
٭اقلیتوں کا تحفظ اور مقصدیت کا قتل:
اسلام حربی کافر کے علاوہ باقی تمام اقلیتوں کے تحفظ کا مکمل نظام پیش کرتا ہے مگر ہمارا نظام تعلیم اس قسم کے نصاب تعلیم سے مکمل طور پر خالی ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں پر مسلمانوں کی طرف سے حملے ‘اذیتیں دیے جانا ‘ اقلیتوں کی حق تلفی ‘اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ ‘اقلیتوں کا قتل ‘ مذہبی منافرت پر مبنی نصاب تعلیم کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
٭معاشی تعلیم اور مقصدیت کا قتل:
اسلام کا معاشی نظام زکوۃ‘ صدقات ‘ خیرات ‘ لوگوں کی فلاح وبہبود اور بیواؤں‘ یتیموں کی پرورش وغیرہ پر مبنی ہے مگر اس وطن عزیز کا معاشی نظام ٹیکس‘چوری ‘ڈاکہ ‘ جوا‘سود خوری وغیرہ پرمبنی مقصدیت سے عاری ہے ۔
٭نظام تعلیم اور مقصدیت کا قتل:
وہ نظام تعلیم جس نے معاشرے کی اصلاح ‘ قومی وقار ‘ ملکی سلامتی کے حاملین پیدا کرنے تھے اس نظام تعلیم نے ہمیں خود غرض ‘مادہ پرست‘جواری ‘انسانیت سے عاری اور سود خوری کے حاملین پیدا کیے ۔
٭فلاح انسانیت اور مقصدیت کا قتل:
فلاح انسانیت مسلمان کا بہت بڑا فرض ہے اسلام احترام انسانیت اور فلاح انسانیت کا سب سے بڑا اور حقیقی علمبردار ہے مگر ہمارے نظام تعلیم سے نکلنے والا انسانیت کا قاتل‘معصوموں کی جانوں اور عزتوں سے کھیلنے والا‘خود غرض‘ دکھی انسانیت کی مدد کے جذبے سے عاری افراد معاشرے کی تباہی کےلیے دیے ۔
٭ خصوصی افراد کی تعلیم و تربیت اور مقصدیت کا قتل :
اسلام احترام انسانیت اور ایک دوسرے سے ہمدردی ‘ محبت ‘ اخوت‘ صلح رحمی اور دکھی انسانیت کی مدد ایک مسلمان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے مگر ہمارے معاشرے اور نظام تعلیم نے خصوصی افراد کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لیے کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے خصوصی افراد(آنکھ‘ زبان ‘ کان‘ہاتھ یا پاؤں سے معذور کو معاشرے کے ظلم وستم اور لوگوں کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا جس کی وجہ سے معاشرے نے انہیں انسان ماننے سے انکار کرتے ہوئے انسانی ہمدردی اور شفقت و محبت کی بجائے ظلم و بربریت ‘ نا انصافی ‘جائیداد سے محرومی ‘ تعلیم وتربیت سے محرومی ‘ دیکھ بال اور گداگری جیسے قبیح فعل کی نظر کر دیا جوکہ سڑکوں ‘چوک و چوراہوں‘مساجد اور یتیم خانوں میں حکومتی ارکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو دن رات معاشرے کی نا انصافیوںاور ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں ۔
٭نظام تفریح اور مقصدیت کا قتل:
اسلام عالمگیر مذہب ہےجو زندگی کے جملہ پہلوؤں اور انسانی جسم کی تعمیر و ترقی کے لیے اسلامی حدود قیود میں رہتے ہوئے تمام مواقع فراہم کرتا ہے مگرہمارے نظام تعلیم کے حامل لوگ جب کسی سیر و تفریح کے لیے کہیں جاتے ہیں جو مقصدیت سے عاری یہ حضرات جس قسم کے غیر اخلاقی افعال ‘شراب و کباب کی محافل ‘ نشے کی حالت میں جو طوفان بدتمیزی کھڑا کرتے ہیں کہ اللہ میری توبہ جس سے انسانیت شرما کر رہ جاتی ہے ۔
٭مزدوروں کی تعلیم و تربیت اور مقصدیت کا قتل :
اسلام جو مزدور کی مزدوری پسینہ خوشک ہونے سے پہلے ‘مزدور سے ہمدردی سے پیش آنے ‘مزدور کی اصلاح کی ذمہ داریاور تعلیم و تربیت کی تلقین کرتا ہے مگر آج کا پاکستانی مسلمان مزودر کے حقوق اور مزدوری کا غاصب‘ مزدور کی کمزوری اور ضرورت سے آنکھیں بند کر کے اس کے ساتھ ظلم و جبر‘مزدور جس میں ملازمین کا طبقہ بھی آ جاتا ہے کسی جانور سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں اس کا ذمہ نظام تعلیم ہے جس نے مزدور سے ہمدردی اور شفقت و محبت اور اس کی تعلیم و تربیت کی کوئی انتظام نہیں کیا ۔
٭عسکری نظام اور مقصدیت کا قتل :
ہمارا عسکری نظام اور غیر مسلموں کے عسکری نظام کئی وجوہات کی بنیاد پر یکسر مختلف حیثیت کا حامل ہے ۔اسلام اور مسلمانوں کا عسکری نظام جس میں احترام انسانیت‘تحفظ انسانیت‘حربی کفار کے علاوہ باقی کفار کے جان و مال آبرو کا محافظ ہے جبکہ غیر مسلم کا عسکری نظام‘ تشدد‘ نفرت‘ ظلم وستم‘بے جا انسانیت کے قتل ‘جانوروں اورعام مسلمانوں کے خون بہانے کو اپنے طاقت و قوت قرار دیتا ہے اور آج مسلمان بھی انہیں روایات کا حامل ناجائز اسلحہ ‘اسلحہ اور وردی کے روعب سے اپنی ہی عزتوں پر حملے ‘اقلیتوں کا قتل اور غیر حربی کفارکے قتل عام پر مبنی ہے ۔
٭قیدیوں کی تعلیم و تربیت اور مقصدیت کا قتل :
اسلام سراسر خیر خواہی اور ہمدردی ‘ اصلاح و تربیت کا دین ہے مگر ہمارے نظام تعلیم نے قیدیوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے لیے آج تک کو ئی انتظام نہیں کیا ۔اسی وجہ سے ایک دفعہ کسی جرم کو ئی قیدی ہو جاتا ہے تو رہائی کے بعد وہ اس سے بڑے جرم کا ارتکاب کرگزرتا ہے ۔ اگر اس کی قید کو دوران اصلاح کی کوشش کی جاتی اور اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جاتا تو یہ بات بعید نہیں تھی کہ وہ رہائی کے بعد معاشرے کے لیے اچھا کردار ادا کرتا ۔
میڈیکل نظام تعلیم اور مقصدیت کا قتل :
میڈیکل کا شعبہ بہت بڑا مقصد جس میں میریضوں کی عیادت‘ دیکھ بھال ‘اصلاح ‘ تعاون‘دکھی انسانیت کی مدد‘ خدمت خلق وغیرہ ہے مگر ہمارا میڈیکل کا نظام تعلیم ‘ خود غرضی ‘لا پر واہی ‘ مفاد پرستی ‘ لوٹ ماراور خدمت کے جھوٹے دعوے کرتے ہوئے مریضوں سے غیر اخلاقی رویہ ‘سہولیات کی عدم فرہمی ‘سرکاری ہسپتال میں مریضوں کے اپریشن کی بجائے اپنے پرائویٹ کلینک کی طرف آنے پہ مجبور کرتے ہیں ۔
٭ میڈیا تعلیم و تربیت اور مقصدیت کا قتل:
میڈیا کا شعبہ بھی بہت بڑا مقصد رکھتا ہے جو کہ لوگوں تک صحیح خبریں پہنچا کر بر وقت ان کو حالات و واقعات سے آگاہ کرنا ہے تحقیق اور ثبوت سے بات کرتا جیسا کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کےلیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کردے ۔‘‘
مگر ہمارا میڈیا تربیت سے عاری ‘بے بنیا د خبریں شائع کرنے والا‘تہمت ‘غیبت اور الزام تراشی کا عادی ہو چکا ہے جس کو سوائے انتشار پھیلانے ‘ امن تباہ کرنے ‘فتنے کھڑے کرنے اور ملکی سلامتی کو داؤں پہ لگانے کے علاوہ شاید اور کوئی کام نہیں ۔
٭اساتذہ کا کردار اور مقصدیت کا قتل :
استاد اور ٹیچنگ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے استاد ہی ہے جو اپنے اخلاق و کردار اور عمل سے لوگوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتاہے جس قوم کے اساتذہ اپنے شعبےاور ذمہ داری سے مخلص اور ایمان دار ہو اس قوم کی ترقی شاید دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے اور جس قوم کے اساتذہ اپنے شعبے اور منصب سے مخلص نہ ہو تو اس قوم کی تباہی و بربادی کو کوئی نہیں روک سکتا ۔بد قسمتی سے ہمارے اساتذہ خود غرض ‘غیر ذمہ دار ‘غیر تربیت یافتہ اور ایمان داری کی صفات سے عاری قوم کو تباہی کی طرف لے جار ہے ہیں ۔
٭ تجارت ومعاشیات کانظام اور مقصدیت کا قتل:
تجارت کا مقصد حلال روزی کا حصول اور نظام زکوۃ کا قیا م ‘ایمانداری سے خریدو فروخت کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے ملک کے تاجر تجارتی اصولوں نے نا واقف ‘ناپ تول میں کمی ‘ دھوکہ دہی ‘ملاوت وغیرہ کی نظرہو کر اپنے اصلی مقصد سے ہٹ چکا ہے جس کی وجہ سے اللہ کی نصرت اور مدد برکت کی صورت میں ختم ہو چکی ہے اور بے برکتی کا جن سرچڑھ کر بولنے لگا ہے ۔
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
گو کہ کچھ معاملات میں مبالغہ آرائی ہے لیکن مجموعی طور پر اچھی فکر ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
البتہ لکھنے والا ان مسائل کے حل میں بھی کچھ کلمات لکھ دیتا تو زیادہ بہتر ہو جاتا المیے بیان کرنا تو عام ہے اصل بات حل بیان کرنا ہے
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
سرمضمون کافی طویل ہو گیا تھاضرور لکھیں گے۔۔۔۔ ان شاء اللہ
 
Top