• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعویذ کی شرعی حیثیت

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تعویز کی شرعی حیثیت


بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر طرح کی تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہی سزاوار ہیں جس نےیہ سب کائناتیں صرف چھ۶دن میں بنائیں اوراس عظیم ذات کوزرہ سی بھی تھکن نہ ہوئی،اے اللہ تیری حمد ہو اتنی جتنے درختوں کے پتے ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے دن اور راتیں ہیں،تیری حمد ہو اتنی جتنے سب کائناتوں میں موجود ذرات ہیں،اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں محمد علیہ السلام پرآپ کی آل رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر۔​

کافی عرصہ سے اس مسئلے پر لکھنے کا پروگرام بنا ہوا تھا کہ یہ جو ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام عام ہوا ہے اس کی اسلام میں کہاں تک اجازت ہے ؟یا کہ یہ کام اسلام کی اساس اور بنیاد کے خلاف ہے، اس سلسلے میں مختلف لوگوں کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی کوئی اس کا تعلق اسلام سے چھوڑتا اور کوئی ہندو ازم کے ساتھ جھوڑتا اور ساتھ ساتھ خود بھی اس کے بارے میں مطالعہ جاری رکھا تو الحمدللہ یہ بات واضح ہوئی کہ تعویذ سازی کا تعلق کسی بھی طور سے اسلام کے ساتھ نہیں جھوڑا جاسکتا کچھ بھائی بہن کو میری یہ بات ناگوار گزری ہوگی مگر اس بات کی حقیقت کو جاننے کے لیے آپ سب سے التماس ہے کہ مضمون کو مکمل پڑھیں اور پھر اس پر اپنی رائے دیں کہ آیا میں صحیح سمجھا ہوں کہ غلط۔
ایک عام بندے کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ آیا وہ کس کی بات کو مانے اور کس کی بات کو رَد کرئے تو اس کا ایک آسان کلیہ یہ ہے کہ آپ ہر کسی کی بات کو سنیں یا پڑھیں مگر بات اس کی مانی جائے جس کے پاس قرآن اور صحیح احادیث کے دلائل ہوں اور جو اپنی عقل پیش کرئے یا کسی اور انسان کی عقل کو پیش کرئے تو اس کی بات اس قابل نہیں کہ وہ مانی جائے کیونکہ دین قرآن اور صحیح حدیث میں ہے نہ کہ کسی کی عقل میں اللہ کے ارشادات ہیں کہ


وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا
اور تمہیں جو کچھ رسول علیہ السلام دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ۔۔۔۔۔الحشر:۷


وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۝ۭاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى Ć۝ۙ
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔النجم:۴
اور نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ

حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہوسکتے۔ وہ کتاب اللہ (قرآن مجید) اور سنت رسول ا اللہ (احادیث) ہیں۔" (موطا)

مشکوۃ شریف:جلد اول:
اس لیے ایک مسلم کے لیے قابلِ قبول بات اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام کی بات ہی ہونی چاہیے، جس معاملے میں اللہ اور اس کا رسول علیہ السلام فیصلہ دے چکے ہوں اس کو چھوڑ کرکسی اور کی بات ہرگز ہرگز نہیں ماننی چاہیےکیونکہ یہی راہِ نجات ہے اس کے علاوہ دوسرے راستے گمراہی کے راستے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام باقائدہ ایک پرفیشنل کام بن چکا ہے اور بعض لوگ اس کے ذریعے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور عام لوگ اس کو دین سمجھ کر بجالا رہے ہیں اور بڑے پیر لوگ اس سے خوب پیسہ کما رہے ہیں، دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کا تعویذ آپ کو مل جائے گا اور دنیا میں کوئی بھی بیماری ہو اس کا تعویذ بنالیا گیا ہوا ہے بیماری جتنی بڑی ہوگی اس کے تعویذ کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
اولاد کو فرمابردار بنانے والا تعویذ۔
اور پھر اولاد کے لیے بھی تعویذ بنایا گیا ہے کہ جس سے والدین اولاد کی بات مانیں گے۔
شوہر کے لیے تعویذ کہ اس کی بیوی اس کی تابیدار رہے۔
اور بیوی کے لیے تعویذ کہ اس کا شوہر اس کا تابیدار بن کر رہے۔
اور شریکوں کے لیے بھی تعویذ موجود ہے جس سے شوہر اور بیوی میں ناراضگی پیدا کی جائے۔
آپ کو کالا یرکان ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اس کا بھی تعویذ آپ کو مل جائے گا۔:::یہ علیحدہ بات ہے جب یرکان بگڑ جاتا ہےتو پھر ڈاکٹر کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں مگر پھر دیر ہوچکی ہوتی ہے:::
اگر کسی کو کینسر ہے تو بھی تعویذ حاضر ہے۔
یعنی دنیا کی کوئی بھی بیماری ہو آپ کو یہ تعویذ ساز اس کا تعویذ ضرور بناکر دیں گیں۔
ایک اور حیران کن بات یہ کہ جب ان لوگوں سے اس کی دلیل مانگی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ یہ قرآن اور صحیح حدیث سے دلیل دیں کہتے ہیں کہ یہ تعویذ فلاں نے استعمال کیا تو اس کا کام بن گیا،فلاں نے فلاں بیماری کے لیے باندھا تو اس کو شفاء مل گئی اگر یہ جھوٹے تعویذ ہیں اور یہ غلط کام ہے تو اس سے شفاء کیوں ملتی ہے؟؟؟
تو یہ ہے ان کی سب سے بڑی دلیل، اب اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو اس طرح اور بھی بہت کچھ جائز ہوجائے گا مثلاً یہ کہ ہندو لوگ بھی یہ تعویذ سازی کا کام کرتے ہیں اور ہندو کو بھی ان تعویذوں سے بہت سے فوائد ملتے ہیں بیماروں کو شفاء ملتی ہے بےروزگاروں کو کام ملتا ہےاسی طرح ان کے ہاں بھی ہر بیماری کے لیے تعویذ بنایا جاتا ہے اور ہر مشکل کام کا تعویذ بنایا جاتا ہے تو اس انوکھی دلیل سے ہندوں کے تعویذ بھی صحیح ثابت ہوتے ہیں تو کیا پھر ایک ہندو کے بنائے تعویذ کو بھی پہنا جاسکتا ہے؟؟؟
اگر نہیں تو کیوں نہیں پہنا جاسکتا؟؟؟
اگر ہاں کہتے ہیں تو ہندوں کے مذہب کو کیوں غلط کہتے ہو؟؟؟
اصل میں جب بھی دین میں کوئی نئی بات داخل کی جائے گی تو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے پھر چاہیے تو یہ ہوتا ہے کہ اس نئی بات کو چھوڑ دیا جائے کہ جس کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا ہے مگر کیا اُلٹ جاتا ہے کہ اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے غلط تاویلات اور جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ مذید بگاڑ پیدا کرتی ہیں، اس لیے اگر بگاڑ ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس بگاڑ کی جڑ کاٹنی چاہیے کہ جس کی وجہ سے ایسا بگاڑ پیدا ہوا تھایعنی اس نئی بات کو جو دین میں داخل کی گئی ہے اس کو ختم کیا جائے تو پھر اصل دین باقی رہے گا اور بگاڑ اور گمراہیاں سب اپنی موت آپ مر جائیں گی ان شاءاللہ۔
اب آتا ہوں موضوع کی طرف اس موضوع پر کافی احادیث مل جاتی ہیں مگر میں نے کوشش کی ہے کہ صحیح احادیث سے ہی دلیل دی جائے اگر کوئی حدیث ضعیف ہو تو آگاہی فرمادیجیے گا، میں نے اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث کا مطالعہ کیا ہے ان میں کہیں بھی تعویذ کو بازو اور ٹانگوں میں یاگلے میں باندھنے کی کوئی دلیل نہیں ملی بےشک تعویذ میں قرآن کی آیات ہی کیوں نہ لکھی گئی ہوں، صرف اس میں ایک چیز کی اجازت دی گئی ہے اور وہ ہے دم،جھاڑپھونک،منتر اور وہ بھی وہی جائز ہیں جن میں کوئی کفر ، شرک اور خلاف شریعت کوئی الفاظ نہ ہوں،
نبی کریم علیہ السلام کے ارشادات ہیں کہ
حضرت عوف ابن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ دم کیا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان منتر وں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان منتروں کوپڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو ان میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔" (مسلم )

مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال غنیمت میں سے تھو ڑا بہت مجھے بھی دئیے جا نے کا حکم صا در فرمایا ۔ نیز (ایک مو قع پر ) میں نے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وہ منتر پڑھ کر سنا یا جو میں دیو انگی کے مریضوں پر پڑھا کر تا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس با رے میں در یا فت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کے بعض حصوں کو مو قو ف کر دینے اور بعض حصوں کو باقی رکھنے کا حکم دیا ۔ اس روایت کو تر مذ ی اور ابو داؤ د نے نقل کیا ہے ۔

مشکوۃ شریف:جلد سوم:باب:جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا توعمر و ابن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑپھونک کرتے تھے ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرمادیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (منتر کوسن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کونفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑپھونک کے ذریعہ اورخواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو ۔" (بخاری ومسلم )

مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایسا کوئی بھی دم جائز ہے جس میں کوئی شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض احادیث میں دم کی بھی ممانعت آئی ہے اور پھر اس کی اجازت کی بھی احادیث موجود ہیں ممکن ہے پہلے اس کی ممانعت تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاں دم کی ممانعت ہے وہ بھی صرف اس لیے ہو کہ اس طرح اللہ پر توکل کم ہوتا ہو بہرحال جو بھی وجہ ہو اب دم کی اجازت ہے اس پر جو احادیث ہیں وہ پیش کردیتا ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پرودگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)


مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے
حضرت مغیرہ ابن شعبہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ تو کل سے بری ہوا ( احمد ترمذی ابن ماجہ )


مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی
حضرت ابوخزامہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر ہم جھاڑپھونک کریں یا دوا دارو کریں اور پرہیز بھی کریں تو کیا یہ تقدیر الہی کو بدل سکتی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ خود اللہ کی تقدیر میں شامل ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

جامع ترمذی:جلد اول:باب:جھاڑ پھونک اور ادویات
ابو النعمان، ابوعوانہ، ابوبشر، ابوالمتوکل، ابوسعید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت سفر کے لئے روانہ ہوئی یہاں تک کہ عرب کے ایک قبیلہ میں پہنچی اور ان لوگوں سے چاہا کہ مہمانی کریں انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کر دیا اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا لوگوں نے ہر طرح کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ تم اگر ان لوگوں کے پاس جاتے جو اترے ہیں تو شاید ان میں کسی کے پاس کچھ ہو چناچہ وہ لوگ آئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہم نے ہر طرح کی تدبیریں کیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا کیا تم میں سے کسی کو کوئی تدبیر معلوم ہے ان میں سے کسی نے کہا ہاں اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں لیکن ہم نے تم لوگوں سے مہمانی طلب کی لیکن تم نے ہماری مہمانی نہیں کی اس لئے اللہ کی قسم میں جھاڑ پھونک نہیں کروں گا جب تک کہ ہمارے لئے اس کا معاوضہ نہ کرو چناچہ انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت کی یعنی اجرت مقرر کی ایک صحابی اٹھ کر گئے اور سورۃ الحمد پڑھ کر پھونکنے لگے اور فورا اچھا ہو گیا گویا کوئی جانور رسی سے کھول دیا گیا ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی اس نے کہا کہ ان کو وہ معاوضہ دے دو جو ان سے طے کیا گیا تھا ان میں سے بعض نے کہا کہ ان بکریوں کو بانٹ لو جنہوں نے منتر پڑھا تھا انہوں نے کہا ایسا نہ کرو جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ پہنچ جائیں اور آپ سے وہ واقعہ بیان کریں جو گزرا پھر دیکھیں کہ آپ کیا حکم، دیتے ہیں وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ ایک منتر ہے پھر فرمایا تم نے ٹھیک کیا تم تقسیم کرلو اور اس میں ایک حصہ میرا بھی لگاؤ اور یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے اور شعبہ نے کہا مجھ سے ابوبشر نے بیان کیا میں نے ابوالمتوکل سے یہ حدیث سنی ہے۔

صحیح بخاری:جلد اول:باب:قبائل عرب کو سورۃ فاتحہ پڑھ کرپھو نکنے کے عوض اجرت دئے جانے کا بیان
عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بی بی ام سلمہ کے مکان میں گئے اور گھر میں ایک لڑکا رو رہا تھا لوگوں نے کہا اس کو نظر لگ گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دم کیوں نہیں کرتے اس کے لئے ۔


موطا امام مالک:جلد اول:باب:نظر کے منتر کا بیان
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑپھونک کے ذریعہ نظر بد ،ڈنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔" (مسلم )


مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑپھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت
اسی طرح اور بھی دم کے متعلق احادیث موجود ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بہتر عمل یہی ہے کہ انسان اللہ پر ہی بھروسہ رکھے مگر اگر کسی کا توکل اللہ پر کم ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایسے منتر سے دم کرواسکتا ہے جو شرک سے پاک ہو مگر گلے میں تعویذ لٹکانے اور ہاتھ یا پاوں میں دم کیا گیا دھاگہ باندھنے یا کڑا اور چھلہ پہننے کی کہیں بھی اجازت نظر نہیں آتی بلکہ اس کی ممانعت ہی ملتی ہے اب وہ احادیث پیش کرتا ہوں جن میں ان عملیات کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا آپ علیہ السلام نے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے اس نے عرض کی کمزوری سے نجات کے لیے پہنا ہے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اسے اتار دو اس لیے کہ یہ تمہیں کمزوری کے علاوہ کچھ نہ دےگا اور اگر اسے پہنے ہوئے مرگیا تو تم کبھی نجات نہ پاؤ گے۔مسند احمد
اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اگر اس کو پہنے ہوئے مرگیا تو کبھی نجات نہ پاو گے، اور آپ نے اوپر ایک حدیث پڑھی ہے کہ جس میں دم کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ دورِ جاہلیت کا تھا اس کے خلافِ شرع الفاظ کو ختم کرکے باقی کو قائم رکھا مگر یہاں آپ دیکھیں کہ اس کی بالکل ہی اجازت نہیں دی گئی ہے اور جس شخص نے وہ چھلہ پہنا تھا وہ مسلم تھا مگر ابھی اس معاملے کو جائز سمجھ کر چھلہ پہنے ہوئے تھا مگر آپ علیہ السلام نے اس کی ممانعت فرمادی اب تاقیامت اس کی ممانعت ہی ہے،چھلہ بھی تعویذ کی طرح ہوتا ہے جو پہناجاتا ہےتعویذ وہ ہوتا ہے کہ جس پر قرآن کی آیات یا کچھ اور لکھ کر گلے میں لٹکایا جاتا ہے اور چھلہ یا کڑا وہ ہوتا ہے جس پر دم کیا جاتا ہے اور پھر اس کو پہنا جاتا ہے اور اس چھلے پر توکل کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ ہم کو شفاء دے گا جبکہ ایسا قرآن و سنت کے سرتاسر خلاف ہے۔


مسند احمد میں ہی ایک اور روایت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تعویز باندھا اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے اور جس نے کوڑی گلے میں لٹکائی اللہ اس کو آرام نہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کیا۔


رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ میرے بعد اے رویفع ہو سکتا ہے کہ تم زیادہ عرصہ زندہ رہو تم لوگوں سے کہہ دینا کہ جس کسی نے ڈاڑھی میں گرھیں ڈال دیں یا گھوڑے کے گلے میں تانت ڈالا یا جس نے استنجاء کیا جانور کی لید یا ہڈی سے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے برَی ہے۔
سنن نسائی:جلد سوم:باب:داڑھی کو موڑ کر چھوٹا کرنا
حضرت ابوبشیر انصاری خبر دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض سفروں میں سے کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نمائندہ بھیجا حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوبکر کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ لوگ اپنی اپنی سونے کی جگہوں پر تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی کسی اونٹ کی گردن میں کوئی تانت کا قلادہ یا ہار نہ ڈالے سوائے اس کے کہ اسے کاٹ دیا جائے امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اس طرح نظر لگنے کی وجہ سے کرتے تھے۔

صحیح مسلم:جلد سوم:باب:اونٹ کی گردن میں تانت کے قلادہ ڈالنے کی کراہت کے بیان میں ۔


حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر ) اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ، اورٹوٹکے شر ک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب ) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑ ھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے ) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ ) توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ! ۔" (ابو داؤد )

مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:ٹوٹکہ کی ممانعت


ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا::دم کیا ہوا دھاگہ:: بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ١٠٦؁
ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔ " (ابو داؤد )

مشکوۃ شریف:جلد چہارم:باب:جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی

ان سب احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ دم درود کیا جاسکتا ہے قرآن کی آیات سے بےشک قرآن میں لوگوں کے لیے شفاء ہے اور یہ شفاء دلوں کی بیماریوں اور جسم کی بیماریوں کے لیے بھی ہے، مگر اس کا طریقہ ہم نے وہی لینا ہے جو نبی علیہ السلام نے ہم کو بتایا ہے اپنے پاس سے کوئی نیا طریقہ نہیں بنانا جو کہ بدعت ہوگی بلکہ تعویذ کا باندھنا انسان کو شرک کا مرتکب بنا دیتا ہے اور جب کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی آیات کا دم کیا جائے نہ کہ قرآن کی آیات کو لکھ کر یا ان آیات کو ہندسوں میں لکھ کر گلے میں باندھا جائے، بلکہ میں آیات کو ہندسوں::علم الاعداد:: میں لکھ کر گلے میں ڈالنے کو دوگنی گمراہی سمجھتا ہوں کیونکہ اس شخص نے قرآن کے الفاظ کو بدلا ہے اور ان آیات کو ایسے طریقے سے لکھا ہے جو کہ جہالت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کو بدلنے کے برابر ہے کہ ہندسوں میں سورت فاتحہ لکھ کر کہا جائے کہ یہ قرآن کی سورت فاتحہ لکھی ہوئی ہے یہ طریقہ جاہل عجمیوں کا ہےجو قرآن و حدیث کے علم سے بےبہرا تھے یا وہ دین اسلام میں اپنی اپنی مرضی کرکے دین کو بدلنا چاہتے تھے جیسا کہ ایسا ہوچکا ہے کہ لوگ ہر ایسی بات کو جو قرآن اور صحیح حدیث کے خلاف بھی کیوں نہ جاتی ہو اسلام سمجھتے ہیں اور اس پر ایسے ہی عمل کیا جاتا ہے جیسے اس کام کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہو۔
اللہ ہم سب کو جدید اور قدیم ہر طرح کی جہالتوں اور گمراہیوں سے بچائے اور قرآن و سنت کا پابند بنائے آمین۔

حوالا
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
میں تو کہا کرتا ہوں کہ وہابی شرک کی تعلیم دیتے ہیں(جملہ الزامی ہے)
post-4503-0-13728700-1447994768.jpg
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میں تو کہا کرتا ہوں کہ وہابی شرک کی تعلیم دیتے ہیں(جملہ الزامی ہے)16433 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جلد کا نمبر سے براؤز کریں > پہلا مجموعہ > پہلی جلد: عقیدہ (1) > عقائد > دم کرنا اور تعویذ وگنڈاکرنا > دم کرنا > اوراد ووظائف ، دعائیں اور قرآنی آیات سے تعویذ لکھنا

( جلد کا نمبر 1، صفحہ 244)

سوال نمبر1: فتوى نمبر:1257

س 1: بعض علماء کرام کالی تختی پر قرآنی آیات لکھتے ہیں اور پھر اس لکھے کو پانی سے دھو کر یہ پانی پی لیتے ہیں، اور اس طرح کرنے سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے علم سے انہیں فائدہ پہنچے، یا آمدنی کے اسباب پیدا ہوجائیں، یا بیماریوں سے عافیت مل جائے، اور یہ چیزیں کاغذ پر لکھتے ہیں اور محفوظ رہنے کے لئے اس کاغذ کو اپنی گردن پر باندھ لیتے ہیں، تو کیا اس طرح تعویذ لکھنا ایک مسلمان کے لئے حلال ہے یا حرام؟

ج 1: حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے قرآن، ذکر واذکار، اور دعاوں سے تعویذ لکھنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ یہ لکھنے چیز شرک نہيں یا کوئی غیرمفہوم عبارت نہيں ہے؛ اس لئے کہ امام مسلم نے اپنی صحيح ميں حضرت عوف بن مالک سے روایت کیا ہے، اس نے كہا ہے کہ:
ہم زمانہ جاہلیت میں تعویذ لکھا کرتے تھے، چنانچہ ہم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ پہلے تم اپنی تعویذ میرے سامنے پیش کرو، جب تک تعويذ ميں شرک نہ ہو تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔


اور بے شک علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر تعویذ مذکورہ بالا طریقے پر لکھی گئی ہے، اور صرف یہ عقیدہ ہے کہ یہ تعویذ ایک ذریعہ ہے، اور اس کے اندر تاثیر کچھـ نہیں ہے، صرف اللہ ہی کے ہاتھـ میں سب کچھـ ہے، تو اس طرح کی تعویذ لکھنا جائز ہے۔ جہاں تک تعویذ کا گردن پر یا انسان کے کسی اور حصے پر لٹکانے کا سوال ہے، تو اگر یہ تعویذ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز ہے، تو یہ حرام ہے، بلکہ یہ شرک ہے، کیونکہ امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت سے عمران بن حصین رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ:


( جلد کا نمبر 1، صفحہ 245)

بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھـ میں پتيل کا ایک چهلا دیکھا، تو آپ نے اس سے کہا کہ: یہ کیا ہے؟ یہ "واھنہ" (بخار) سے ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اس کو نکال كر پھینکو، اس سے تمہیں سوائے زياده کمزوری کے کچھـ حاصل ہونے والا نہیں ہے، اور اگر تم مرجاتے، اور یہ چهلا تمہارے ہاتھـ ہی میں ہوتا، تو کبھی تم فلاح یاب نہیں ہوتے۔
اور حدیث جس کو حضرت عقبہ بن عامر نے آپ صلى الله عليه وسلم سے روایت کیا ہے کہ:
جس نے تعویذ لٹكايا اللہ اس کے لئے کوئی کام مكمل نہیں کرے گا، اور جس نے سمندرى سيپى اپنے گلے میں لٹکائی ہے، اللہ اس کو سكون نہ بخشے گا۔
اور امام کی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ:
جس نے دم يا تعویذ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔
اور حدیث جس کو امام احمد اور ابو داود نے حضرت ابن مسعود رضی الله عنه سے روایت کیا ہے، اس نے كہا ہے کہ: ميں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم كو يہ كہتے ہوئے سنايا کہ:
جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈا اور جادو شرک ہے۔


اور اگر جو چیز لٹکائی گئی ہے، وہ قرآن بھی ہے، تو اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ یہ بھی تین اسباب کی بنا پر ممنوع ہے:

پہلا: تعویذ لٹکانے سے ممانعت کی جو حدیثیں ہیں، وہ عام ہیں، اور ان احادیث کے عام حکم کو کوئی حدیث خاص کرنے والی نہیں ہے۔

دوسرا: ذریعہ کو روک دینا ہے، کیونکہ اس کی اجازت دینے سے لوگ دیگر ان اشیاء کو لٹکانے لگیں گے، جو اس طرح کی نہیں ہیں۔

تيسرا: جو اس طرح کی چیزیں لٹکائی جاتی ہیں، تو اس میں ان چیزوں کی بے حرمتی کا اندیشہ ہے، کیونکہ یہ چیزیں، استنجاء کے وقت، بیت الخلاء میں اور جماع وغیرہ کے وقت انسان کے گلے میں لٹکی ہوئی ہوتی ہیں۔


( جلد کا نمبر 1، صفحہ 246)

اور جہاں تک قرآن کی آیات یا سورتیں تختی یا پلیٹ یا کاغذ پر لکھـ کر اس کو پانی یا زعفران وغیرہ سے دھونے اور برکت یا آمدنی کی زیادتی یا صحت وعافیت کی نیت سے اس دھلے ہوئے پانی کو پینے کا سوال ہے، تو اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے، کہ آپ نے اپنے لئے، یا کسی اور کے لئے اس طرح کیا ہوا ہے، اور نہ آپ نے اپنے صحابہ کو اس کی اجازت دی ہے، اور نہ آپ نے اپنی امت کو اجازت دی ہے، جب کہ بہت سی ایسی چیزیں موجود تھیں، جو اس جیسی تعویذ وغیرہ کی اجازت کے اسباب بن سکتی تھیں، اور نہ صحابہ رضی الله عنهم میں سے مروی صحیح اقوال میں کسی بھی ایک صحابی سے مروی ہے کہ انہوں نے اس طرح کیا ہے، اور نہ کسی کو کرنے کی اجازت دی ہے، لہذا ان مذکورہ وجوہات کی بنا پر اس چیز کو ترک کر دینا ہی بہتر ہے، اور ان جیسی غلط چیزوں کو چھوڑ کر یہ چیزیں اختیار کی جائیں، جو شریعت سے ثابت ہیں، کہ قرآن اور اسماء حسنی پڑھ کر جا سکتا ہے، اور صحیح سند کے ساتھـ مروی نبوی دعائیں اور اذکار وغیرہ جس کے معنی صاف ہے، اور جس میں شرک کا کوئی شبہ نہيں ہے، اور توبہ کی امید سے، رنج وغم کو دور کرنے کے لئے، اور علمِ نافع کی توفیق کے لئے شرعی احکام کے مطابق اللہ کی قربت کی کوشش کی جائے، اس طرح کر لینا کافی ہے، اور جو شخص شرعی احکام کو اپنی زندگی بنالے گا، اللہ تعالی اپنی اس شریعت کے علاوہ ہر چیز سے اس کو بے نیاز کردے گا۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔

علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جب آپ کے کچھ علما نے تعویذ کو جائز قرار دیا تو ایک اہلحدیث حضرت نے لکھا کہ یہ لغزش نہیں تو اور کیا ہے کہموحد ہوتے ہوئے شرک کو شرک نہ سمجھا جائے۔(تعویذ اور دم صفحہ 37)
آگے لکھتے ہیں کہ بندہ انہیں مشرک کہہ کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرتا۔واہ صدقے تمہارے یہ کام کوئی بریلوی کرے تو پکا مشرک مگر گھر سے شرک برامد ہوتو ہم ان کو مشرک نہیں کہتے۔یہ کیسی توحید ہے؟
upload_2016-3-8_23-23-29.png
 
Top