• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَعَدَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ‌ نَارَ‌ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّـهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ﴿٦٨﴾
اللہ تعالٰی ان منافق مردوں، عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہی انہیں کافی ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور ان ہی کے لئے دائمی عذاب ہے۔
كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ‌ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿٦٩﴾
مثل ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے (١) تم سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال اولاد والے تھے پس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا (٢) جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح مذاقانہ بحث کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی (٣) ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوگئے یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں۔
٦٩۔١ یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔
٦٩۔٢ خلاق کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہوگئے۔
٦٩۔ ٣ یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے۔ یا دوسرا مفہوم ہے دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کروگے۔ بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا، اور کون؟ (صحیح بخاری)۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (باعا بباع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔ (٤) اولٰئک سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات وعادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر ونامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال واولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَ‌اهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ۚ أَتَتْهُمْ رُ‌سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿٧٠﴾
کیا انہیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں، قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور اہل مؤتفکات (الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والے) کی (١) ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیلیں لے کر پہنچے (٢) اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا۔
٧٠۔١ یہاں ان چھ قوموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جن کا مسکن ملک شام رہا ہے۔ یہ بلاد عرب کے قریب ہے اور ان کی کچھ باتیں انہوں نے شاید آباواجداد سے سنی بھی ہوں قوم، نوح، جو طوفان میں غرق کر دی گئی۔ قوم عاد جو قوت اور طاقت میں ممتاز ہونے کے باوجود، باد تند سے ہلاک کر دی گئی۔ قوم ثمود جسے آسمانی چیخ سے ہلاک کیا گیا قوم ابراہیم، جس کے بادشاہ نمرود بن کنعان بن کوش کو مچھر سے مروا دیا گیا۔ اصحاب مدین (حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم) جنہیں چیخ زلزلہ اور بادلوں کے سائے کے عذاب سے ہلاک کر دیا گیا اور اہل مؤ تفکات سے مراد قوم لوط ہے جن کی بستی کا نام 'سدوم' تھا اشفاک کے معنی ہیں انقلاب الٹ پلٹ دینا۔ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے۔ دوسرے ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے پھینکا گیا جس سے پوری بستی اوپر نیچے ہوگئی اس اعتبار سے انہیں اصحاب مؤتفکات کہا جاتا ہے۔
٧٠۔٢ ان سب قوموں کے پاس، ان کے پیغمبر، جو ان ہی کی قوم ایک فرد ہوتا تھا آئے۔ لیکن انہوں نے ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ تکذیب اور عناد کا راستہ اختیار کیا، جس کا نتیجہ بالآخر عذاب الیم کی شکل میں نکلا۔
(۳) یعنی یہ عذاب ان کے ظلم پر استمرار اور دوام کا نتیجہ ہے یوں ہی بلاوجہ عذاب الہٰی کا شکار نہیں ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ سَيَرْ‌حَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾
مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں (١) وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں (٢) نمازوں کی پابندی بجا لاتے ہیں زکٰو ۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں (٣) یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالٰی بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔
٧١۔ منافقین کی صفات مذمومہ کے مقابلے مومنین کی صفات محمودہ کا ذکر ہو رہا ہے پہلی صفت وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون و غم خوار ہیں جس طرح حدیث میں ہے (المؤمن للمؤمن کالبنیان، یشد بعضہ بعضا) (صحیح بخاری) مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کی مضبوطی کا ذریعہ ہے دوسری حدیث میں فرمایا:(مثل المؤمنین فی توادھم وتراحمھم کمثل الجسد الواحد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالحمی والسھر) (صحیح مسلم) مومنوں کی مثال، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تپ کا شکار ہو جاتا ہے اور بیدار رہتا ہے۔
٧١۔٢ یہ ایل ایمان کی دوسری خاص صفت ہے معروف وہ ہے جسے شریعت نے معروف (یعنی نیکی اور بھلائی) اور منکر وہ ہے جسے شریعت نے منکر (یعنی برا) قرار دیا ہے۔ نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا یا برا کہیں۔
٧١۔ ٣ نماز، حقوق اللہ میں نمایاں ترین عبادت ہے اور زکٰو ۃ۔ حقوق العباد کے لحاظ سے، امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کا بطور خاص تذکرہ کر کے فرما دیا گیا کہ وہ ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِ‌ضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ‌ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٧٢﴾
ان ایماندار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والے ہیں اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات (١) کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے (٢) یہی زبردست کامیابی ہے۔
٧٢۔١ جو موتی اور یاقوت تیار کئے گئے ہوں گے۔ عدن کے کئی معنی کئے گئے ہیں۔ ایک معنی ہمیشگی کے ہیں۔
٧٢۔٢ حدیث میں بھی آتا ہے کہ جنت کی تمام نعمتوں کے بعد اہل جنت کو سب سے بڑی نعمت رضائے الٰہی کی صورت میں ملے گی (صحیح بخاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ‌ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿٧٣﴾
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، (١) اور ان پر سخت ہو جاؤ (٢) ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بدترین جگہ ہے۔
٧٣۔١ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، کافروں کے ساتھ منافقین سے بھی جہاد کرنے کا حکم ہے، اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اگر منافقین کا نفاق اور ان کی سازشیں بےنقاب ہوجائیں تو ان سے بھی اس طرح جہاد کیا جائے، جس طرح کافروں سے کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ و نصیحت کی جائے۔ یا وہ اخلاقی جرائم کارتکاب کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائیں تیسری رائے یہ ہے کہ جہاد کا حکم کفار سے متعلق ہے اور سختی کرنے کا منافقین سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں ان آراء میں آپس میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ حالات و ظروف کے مطابق ان میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرناجائز ہے
٧٣۔٢ سختی اور قوت سے دشمنوں کے خلاف اقدام ہے۔ محض زبان کی سختی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کے ہی خلاف ہے، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کر سکتے تھے نہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کا حکم آپ کو مل سکتا تھا۔
٧٣۔٣ جہاد اور سختی کے حکم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
يَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ‌ وَكَفَرُ‌وا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرً‌ا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ‌ ﴿٧٤﴾
یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا، حالانکہ یقیناً کفر کا کلمہ ان کی زبان سے نکل چکا ہے اور یہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے (١) اور انہوں نے اس کام کا قصد بھی کیا جو پورا نہ کر سکے (٢) یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دولتمند کر دیا (٣) اگر یہ بھی توبہ کرلیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ موڑے رہیں تو اللہ تعالٰی انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین بھر میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ کھڑا ہوگا۔
٧٤۔١ مفسرین نے اس کی تفسیر میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں، جن میں منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے جسے بعض مسلمانوں نے سن لیا اور انہوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا، لیکن آپ کے استفسار پر مکر گئے بلکہ حلف تک اٹھا لیا کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی۔ جس پر یہ آیت اتری۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں رہ سکتا۔
٧٤۔٢ اس کی بابت بھی بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ مثلاً تبوک کی واپسی پر منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک سازش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے کہ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپ کے پیچھے لگ گئے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ پر حملہ کر کے آپ کا کام تمام کر دیں گے اس کی اطلاع وحی کے ذریعے سے آپ کو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کر لیا۔
٧٥۔٣ مسلمانوں کی ہجرت کے بعد، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ منافقین مدینہ کو بھی اس کا خوب فائدہ حاصل ہوا اللہ تعالٰی اس آیت میں یہی فرما رہا ہے کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضگی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دیا ہے، بلکہ ان کو تو اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّـهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴿٧٥﴾
ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور آپکی طرح نیکوکاروں میں ہوجائیں گے۔
فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٧٦﴾
لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا تو یہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑ لیا
اس آیت کو بعض مفسرین نے ایک صحابی حضر ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں قرار دیا ہے لیکن سندا یہ صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس میں بھی منافقین کا ایک اور کردار بیان کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّـهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿٧٧﴾
پس اس کی سزا میں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک، کیونکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کیا اور کیونکہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔
أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ سِرَّ‌هُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّـهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿٧٨﴾
کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی کو ان کے دل کا بھید اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور اللہ تعالٰی غیب کی تمام باتوں سے خبردار ہے (١)۔
٧٨۔١ اس میں منافقین کے لئے سخت وعید ہے جو اللہ تعالٰی سے وعدہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے گویا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ان کی مخفی باتوں اور بھیدوں کو نہیں جانتا۔ حالانکہ اللہ تعالٰی سب کچھ جانتا ہے، کیونکہ وہ تو علام الغیوب ہے۔ غیب کی تمام باتوں سے باخبر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُ‌ونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ‌ اللَّـهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٧٩﴾
جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں (١) اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے (٢) انہی کے لئے دردناک عذاب ہے۔
٧٩۔١مطّوعین کے معنی ہیں صدقات واجبہ کے علاوہ اپنی خوشی سے مزید اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے،"جہد"کے معنی محنت ومشقت کے ہیں یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی محنت و مشقت سے کمائے ہوئے تھوڑے مال میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ آیت میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں سے چندے کی اپیل فرماتے تو مسلمان آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت اس میں حصہ لیتے کسی کے پاس زیادہ مال ہوتا وہ زیادہ صدقہ دیتا جس کے پاس تھوڑا ہوتا، وہ تھوڑا دیتا، یہ منافقین دونوں قسم کے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے زیادہ دینے والوں کے بارے میں کہتے اس کا مقصد ریاکاری اور نمود و نمائش ہے اور تھوڑا دینے والوں کو کہتے کہ تیرے اس مال سے کیا بنے گا یا اللہ تعالٰی تیرے اس صدقے سے بےنیاز ہے (صحیح بخاری) یوں وہ منافقین مسلمانوں کا استہزاکرتے اور مذاق اڑاتے۔
٧٩۔٢ یعنی مومنین سے استہزا کا بدلہ انہیں اس طرح دیتا ہے کہ انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اس کا تعلق باب مشاکلت سے ہے جو علم بلاغت کا ایک اصول ہے یا یہ بددعا ہے اللہ تعالٰی ان سے بھی استہزا کا معاملہ کرے جس طرح یہ مسلمانوں کے ساتھ استہزا کرتے ہیں۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسْتَغْفِرْ‌ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ‌ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ‌ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّ‌ةً فَلَن يَغْفِرَ‌ اللَّـهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُ‌وا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿٨٠﴾
ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر۔ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا (١) یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے (٢) ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا۔(۳)
٨٠۔١ ستر کا عدد مبالغے اور تکثیر کے لئے ہے۔ یعنی تو کتنی ہی کثرت سے ان کے لئے استغفار کر لے اللہ تعالٰی انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے پر ان کو معافی مل جائے گی۔
٨٠۔٢ یہ عدم مغفرت کی علت بیان کر دی گئی ہے تاکہ لوگ کسی کی سفارش کی امید پر نہ رہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اگر یہ زاد آخرت کسی کے پاس نہیں ہوگا تو ایسے کافروں اور نافرمانوں کی کوئی شفاعت ہی نہیں کرے گا، اس لئے اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کے لئے شفاعت کی اجازت ہی نہیں دے گا۔
٨٠۔۳ اس ہدایت سے مراد وہ ہدایت ہے جو انسان کو مطلوب (ایمان) تک پہنچا دیتی ہے ورنہ ہدایت بمعنی رہنمائی یعنی راستے کی نشان دہی۔ اس کا اہتمام تو دنیا میں ہر مومن و کافر کے لیے کر دیا گیا ہے (اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا) 76۔ الدہر:3) (وھدینہ النجدین) (البلد) اور ہم نے اس کو (خیروشر کے) کے دونوں راستے دکھا دیئے ہیں۔
 
Top