• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۚ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ ﴿٦٦﴾
اور آپ کی قوم اس کی تکذیب کرتی ہے حالانکہ وہ یقینی ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم پر تعینات نہیں کیا گیا ہوں (١)
٦ ٦ ۔۱ بہ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب فتح القدیر ٦٦۔١ یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکھف)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لِّكُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ‌ ۚ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٦٧﴾
ہر خبر (کے وقوع) کا ایک وقت ہے جلد ہی تم کو معلوم ہو جائے گا۔
وَإِذَا رَ‌أَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِ‌ضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ‌هِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَ‌ىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾
اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں (١)
٦٨۔١ آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالٰی کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورہ نساء آیت نمبر ١٤٠ میں بھی مضموں گزر چکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ یا عملا ان کا استخفاف کیا جارہا ہو یا اہل بدعت و اہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الہی کا باعث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَـٰكِن ذِكْرَ‌ىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿٦٩﴾
اور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا (١) اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کر دینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں (٢)۔
٦٩۔١ مِنْ حِسَابِھِمْ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزاد (جھٹلانے) کرنے والوں سے ہے۔ یعنی وہ لوگ جو ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے کہ اللہ کا جو گناہ استہزاد کرنے والوں کو ملے گا وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔
٦٩۔٢ یعنی اجتناب و علیحدگی کے باوجود وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدر ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَذَرِ‌ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّ‌تْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ‌ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَ‌ابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُ‌ونَ ﴿٧٠﴾
اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے اور دینوی زندگی نے انھیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے اور اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت بھی کرتے ہیں تاکہ کوئی شخص اپنے کردار میں (اس طرح) پھنس نہ جائے (١) کہ کوئی غیر اللہ اس کا نہ مددگار ہو اور نہ سفارشی اور یہ کیفیت ہو کہ اگر دنیا بھر کا معاوضہ بھی دے ڈالے تب بھی اس سے نہ لیا جائے (٢) ایسے ہی ہیں کہ اپنے کردار کے سبب پھنس گئے، ان کے لئے نہایت گرم پانی پینے کے لئے ہوگا اور دردناک سزا ہوگی اپنے کفر کے سبب۔
٧٠۔١ تُبْسَلَ، ای : لئلا تبسل بسل کے اصل معنی تو منع کے ہیں اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔۱: تُسَلَّمُ سونپ دیئے جائیں۔ ۲: تُفْضَحُ رسوا کردیا جا‏ئے۔۳: تُؤَاخَذُ مواخذہ کیا جائے۔ ٤: تُجَازی بدلہ دیا جائے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ہیں۔ خلاصہ (امام ابن کثیر (فرماتے ہیں کہ انھیں اس قرآن کے ذریعے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کما یا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کر دیا جائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے " پھنس نہ جائے "سے تعبیر کیا ہے۔
٧٠۔٢ دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی کی سفارش سے مالی معاوضہ دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے، وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انھیں اللہ کی گرفت سے بچا لے نہ کوئی سفارشی ہوگا جو عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ ہوگا اگر بالفرض محال ہو بھی تو قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے، یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّ‌نَا وَنُرَ‌دُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّـهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْ‌ضِ حَيْرَ‌انَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْ‌نَا لِنُسْلِمَ لِرَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿٧١﴾
آپ کہہ دیجئے کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ وہ نہ ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے کیا ہم الٹے پھر جائیں اسکے بعد کہ ہم کو اللہ تعالٰی نے ہدایت کر دی ہے، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطان نے کہیں جنگل میں بےراہ کر دیا ہو اور وہ بھٹکتا پھرتا ہو اس کے ساتھی بھی ہوں کہ ہمارے پاس آ(١)۔ آپ کہہ دیجئے کہ یقینی بات ہے کہ راہ راست وہ خاص اللہ ہی کی راہ ہے (٢) اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے مطیع ہوجائیں۔
٧١۔١ یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجع اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔
٧١۔٢ مطلب یہ کہ کفر اور شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہوگیا، وہ بھٹک ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالٰی نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقینا اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا۔ (فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ) 16۔ النحل:37) جس کو وہ گمراہ کر دے۔ اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالٰی نے اس کے لیے بنایا ہوا ہے یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جا چکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُ‌ونَ ﴿٧٢﴾
اور یہ کہ نماز کی پابندی کرو اور اس سے ڈرو (١) اور وہی ہے جس کے پاس تم جمع کئے جاؤ گے۔
٧٢۔١وَاَنْ اَقِیْمُوْا کا عطف لِنُسْلِمُ پر ہے۔ یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے مطیع ہوجائیں اور یہ کہ ہم نماز قائم کریں اور اس سے ڈریں تسلیم و انقیاد الٰہی کے بعد سب سے پہلا حکم اقامت صلات کا دیا گیا ہے جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے اور اس کے بعد تقویٰ اور خشوع کے بغیر ممکن نہیں۔ وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین (البقرہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ‌ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ‌ ﴿٧٣﴾
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا (١) اور (١) جس وقت اللہ تعالٰی اتنا کہہ دے گا تو ہوجا وہ ہو پڑے گا۔ اس کا کہنا حق اور با اثر ہے اور ساری حکومت خاص اس کی ہوگی جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی (٣) وہ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزوں کا اور ظاہر چیزوں کا اور وہی ہے بڑی حکمت والا پوری خبر رکھنے والا۔
٧٣۔١ حق کے ساتھ یا بافا‏ئدہ پیدا کیا یعنی ان کو عبث اور بےفائدہ کھیل کود کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ایک خاص مقصد کے لیے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔
٧٣۔١ یوم فعل محذوف واذکر یا واتقوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ کُن (ہوجا) سے وہ جو چاہے گا، ہو جائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے، لیکن کن کے لئے؟ ایمانداروں کے لئے۔ دوسروں کو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔
٧٣۔٢ صور سے مراد نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ' اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہی کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انھیں کہا جائے تو اس کے منہ میں پھونک مار دیں ' ابن کثیر ' ابو داؤد اور ترندی میں ہے۔ الصور قرن ینفخ فیہ (صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے نفخۃ الصعق جس سے تمام لوگ بےہوش ہوجائیں گے نفخۃ الفناء جس سے تمام لوگ فنا ہو جا‏ئیں گے نفخۃ الانشاء جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ‌ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَ‌اكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٧٤﴾
اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (١) سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بیشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔
٧٤۔١ مورخین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا، لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہذا یہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾
ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں سے ہوجائیں (١)۔
٧٥۔١ملکوت مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبۃ سے رغبوت اور رھبہ سے رھبوت اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو امور غیبی کا مشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَ‌أَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَـٰذَا رَ‌بِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ ﴿٧٦﴾
پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا (١)
٧٦۔١ یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہو سکتا۔
 
Top