• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا رَ‌أَى الْقَمَرَ‌ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَ‌بِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَ‌بِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾
پھر جب چاند کو دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا۔
فَلَمَّا رَ‌أَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَ‌بِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ‌ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّمَّا تُشْرِ‌كُونَ ﴿٧٨﴾
پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ (١) یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں (٢)۔
٧٨۔١ شمس سورج عربی میں مونث ہے لیکن اسم اشارہ مذکر ہے مراد الطالع ہے یعنی طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے، کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کے سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں (اجرام فلکی) میں سورج سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن اور انسانی زندگی کی بقا وجود کے لئے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں اس لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بےحیثیتی کو واضح فرمایا۔
٧٨۔٢ یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے ہیں، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انھیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ باتیں کی ہیں اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٧٩﴾
میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں (١) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
٧٩۔١ رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود اللہ عزوجل ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِ‌كُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَ‌بِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَ‌بِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٨٠﴾
اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کر دی (١) آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایا ہے اور میں ان چیزوں سے جن کو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا ہاں اگر میرا پروردگار ہی ہرچیز کو اپنے علم میں گھیرے ہوئے ہے، کیا تم پھر بھی خیال نہیں کرتے۔
۸۰۔۱ جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کیے جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لیے کچھ نہ کچھ دلائل تراش رکھے تھے جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لیے ایسے سہارے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَ‌كْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَ‌كْتُم بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِ‌يقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨١﴾
اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالٰی نے کوئی دلیل نہیں فرمائی، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مسحق کون ہے (١) اگر تم خبر رکھتے ہو۔
٨١۔١ یعنی مومن اور مشرک میں سے؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی دلیل نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٨٢﴾
جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں (١)
٨٢۔١ آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام ظلم کا عام مطلب (کوتاہی اور غلطی، گناہ اور زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہنے لگے، ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اس ظلم سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے جس طرح حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا ( اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31۔لقمان:13) یقینا شرک ظلم عظیم ہے (صحیح بخاری)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَ‌اهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْ‌فَعُ دَرَ‌جَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَ‌بَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿٨٣﴾
اور ہماری حجت تھی وہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی (١) ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب بڑا حکمت والا بڑا علم والا ہے۔
٨٣۔١ یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم علیہ السلام کی قوم سے بن نہ پڑا۔ اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا (وکیف اخاف ما اشرکتم ولا تخافون انکم اشرکتم باللہ مالم ینزل بہ علیکم سلطنا فای الفریقین احق بالامن) اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ) 6۔ الانعام:82)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾
اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب (١) ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانے میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اولاد میں سے (٢) داؤد اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔
٨٤۔١ یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے نا امید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورہ ہود آیت ٧٢، ٧٣ میں ہے پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (علیہ السلام) ہوگا، جس کے معنی یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے یہ عقب (پیچھے سے) مشتق ہے۔
۸٤۔۲ ذریتہ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح علیہ السلام کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو اور بعض نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے کہ ساری گفتگو انہی کے ضمن میں ہو رہی ہے لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط علیہ السلام کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم علیہ السلام میں سے نہیں ہیں وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام لوط علیہ السلام کے باپ نہیں چچا ہیں لیکن بطور تغلیب انھیں بھی ذریت ابراہیم علیہ السلام میں شمار کر لیا گیا ہے اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اولاد یعقوب علیہ السلام کے آباء میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے دیکھیے سورہ بقرہ آیت ۱۳۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَزَكَرِ‌يَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٨٥﴾
اور (نیز) زکریا کو یحیٰی کو عیسیٰ (١) اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں شامل تھے۔
٨٥۔١ عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں اس لئے کہا گیا (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شامل ہوتی ہے۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا ان ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین (صحیح بخاری) ' (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٨٦﴾
اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی۔
وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّ‌يَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٨٧﴾
اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو (١) اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راہ راست کی ہدایت کی۔
٨٧۔١ آبا سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہے۔ یعنی ان اصولوں و فروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام ہدائیت سے نوازا آجتِیْبِآءُ کے معنی چن لینا اور اپنے خاص بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہ جَبِبْتُ المَآ ءَ فِی الحَوضِ (میں نے حوض میں پانی بھر لیا) سے مشتق ہے۔ پس اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔ اصطفاء تخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے جب کا مفعول مصطفی مجتبی مخلص اور مختار ہے (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ هُدَى اللَّـهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَ‌كُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٨٨﴾
اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے۔
٨٨۔١ اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کر کے اللہ تعالٰی فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہو جاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے فرمایا ' اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے، حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناک اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔
 
Top