ا
سُوْ رَ ۃُ الْفَا تِحَۃُ
یہ سورت مکی ہے اِس میں سات آ یا ت ہیں
بِسْمِ اللہ ا لرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔(۱)
ۃ۔۱ ا لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے (۱)جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے(۲)۔
۱۔۱ سُوْ رَ ۃُ
الْفَا تِحَۃُ الْکِتَابَ سورۃ فاتحہ مکی ہے اِس میں سات آیتیں ہیں سورۃ فاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے , جس کی احادیث میں بڑی فضلیت آئی ہے ۔فاتحہ کے معنی آغاز اور ا بتدا کے ہیں اس لیئے اسے
ُ الکِتَابَ کہاجاتا ہے ۔ اِس کا ایک اہم نام ,
الصلواۃُ بھی ہے جیسا کہ ایک احادیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (
اَقْسَمْتُ الصلَاۃ)میں نے نمازکو اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصّہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا ء اور اُس کی رحمت و ربوبیت ا ورعدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات جو بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کرتا ہے اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا ضروری ہے چناچہ نبی ﷺ کے ارشادات میں سے اس کی خوب وضاحت کر دی گئی ہے فرمایا اُس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی ۔ سری نماز ہو یا جہری فرض نماز ہو یا نفل ہر نمازی کے لئے سورۃ فاتحہ کا پڑ ھنا ضروری ہے۔ ا س کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام بھی نبی ﷺ کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ ﷺ پر قرا ء ت بوجھل ہو گئی نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ ساتھ پڑھتے رہے ہو ؟ اُنہوں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم ایسا مت کیا کرو یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو البتہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ اسطرح ا بو ہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے ر وائت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے بغیر سورۃ فاتحہ کے نماز پڑھی اُس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ ﷺنے فرمایا ۔ ا بو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ سے عرض کیا گیا( اما م کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اُس وقت کیاکریں )؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ نے امام کے پیچھے جب قرآ ن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو جب ا مام قراء ت کرے تو خاموش رہو مطلب یہ ہے کہ( جہری نماز وں ) فجر،مغرب اور عشا ء میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قراء ت خاموشی سے سنیں ۔ ا مام کے ساتھ قر آ ن نہ پڑھیں ۔ یا ا ما م سورۃ فاتحہ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احا دیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یا اما م سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا وقفہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں ا س طرح آ یت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمدو للہ کوئی احتراز نہیں رہتا ۔دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔جبکہ سورۃ فاتحہ کی ممانت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ٹکرا ئو ہے اور دونوں میں کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں ۔
نَعُوْذُ بِا للہ مِنْ ھَذا سورۃ الا عرا ف آیت ۲۰۴ یہاں یہ بات بھی واضع رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک علماء کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی ا مام کی تمام قراٗت سُن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سُن رہا ہو تو پڑھے ۔
یہ سورۃ مکی ہے ۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (۳ ۱ نبوت ) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں , خواہ اُن کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس ، اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خوا ہ و ہ مدینہ یا اُس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا ا س سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اُس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں ۔
؎
بِسْمِ ا للّٰہِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے , یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے, اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے , جبکہ علما ء مدینہ , بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا ۔ سوائے سورۃ نمل کے کی آیت ۳۰ کے, کہ اس میں با لا تفاق
بسم اللہ اس کا جز و ہے ۔ اس طرح ( جہری )نمازوں میں اس کے اُ و نچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے ۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری ( دھیمی )آواز سے اکثر علما نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے ۔
۱۔۱ بسم اللہ کو آغاز میں ہی الگ کیا گیاہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا , یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ چناچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے , ذبح, وضو اور جماع سے پہلے
بسم اللہ پڑھو ۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ،
بِسْمِ ا للّٰہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حَیْمِ، سے پہلے{
اَعُوْ ذُ با للّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰانِ الرَّ جِیْمِ } پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔
۲۔۱ ا لحمد میں ’
ال ‘ مخصوص کے لئے ہے یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں یا اس کے لئے خاص ہیں کیونکہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوا ر صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ کسی کے اندر کوئی خوبی , حسن با کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد( تعریف) کا مُستحق بھی وہ ہی ہے ۔ اللہ ْ یہ اللہ کا ذا تی نام ہے ، اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں
لَا اِ لٰہَ افضل الذکر اور
اَلْحَمْدُ لِلّہِ کو افضل دعا کہا گیا ہے۔ ( ترندی ، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روائت میں ہے
اَلْحَمْدُ لِلّہِ میزان کو بھر دیتا ہے اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔( صحیح مسلم)
۲۔۲ (
رَبْ ) اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰے میں سے ہے،جس کا معنی ہر چیز کو پیدا کرکے ضروریات کو مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کے استعمال بغیر ا ضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں (
عالمِیْن) عَالَمْ (جہان) جہان کی جمع ہے ۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعے کوعالم کہا جا تاہے ، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربو بیت کا ملہ کے اظہار کے لئے عا لم کی بھی جمع لائی گئی ہے, جس سے مرا د مخلوق کی الگ الگ جنسیں ہیں ۔ مثلاً عالم جن , عالم انس , عالم ملائکہ اور عالم و حوش و طیور وغیرہ ۔ ان تمام مخلوقات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعًا مختلف ہیں لیکن
رَب ا لعالمِیْن سب کی ضروریات ، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیافرماتا ہے۔