• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان -- سورہ فاتحہ

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
مفسرین

امام ابن کثیر ، فتح القدیر اور امام شوکانی رحمۃاللہ علیہم​
ترجمہ

مو لانا محمد جونا گڑھی​

  1. کتابت بذریعہ کمپیو ٹر اور (C D) حاجی بشیر احمد اختر ڈائر یکٹر ایڈمن STS (پرئیویٹ لمیٹڈ )
  2. تصحیح عربی آیات حافظ و قاری احسان الحق حقانی بی بلاک الفیصل ٹاون لاہور کینٹ
  3. تصحیح اردو ترجمہ اور تفسیر مسٹر محمد اقبال ( ڈیو ٹی سپر نٹنڈ نٹ ریٹائرڈ پا کستان رینجرز )
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
مقدمہ

عربی زبان سے نا واقف مسلمانوں کے لئے قرآن فہمی کی راہ ہموار کرنے کے لئے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآء ہونے کے لئے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، قرآن کریم کو ( میری جانب سے لوگوں تک پہنچائو خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو) بیان کی گئی ہے۔ جو قرآن کریم مع ترجمہ اور تفسیر خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبدا لعزیز آل سعود کی طرف سے بطور ہدیہ حجاج کرام کو پیش کیا جاتے ہیں مجھ گناہ گار کو بھی مارچ ۲۰۰۰؁ ء میں حج کرنے کا شرف حاصل ہوا اور اور مذکورہ قرآن مجید بطور ہدیہ ملا اور میں نے اس کا بغور مطالعہ کیا اور میں نے متعدد قرآن کریم مع ترجمہ اور تفسیر پڑھے لیکن اس قرآن کریم کی اس قدر جامع تفسیر مجھے کہیں نہیں ملی چنانچہ میں نے دن رات ۱۲ سے ۱۴ گھنٹے روزانہ کام کرنے کے بعد تقریباً دو سال کے عرصہ میں عربی آیات، ترجمہ اور تفسیر کی بعینہٖ نقل آسان اردو اور بڑے حروف میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی کمپیوٹر کے ذریعہ سے خود کتابت اور ( سی ڈی ) تیار کی ہے ۔ حاشیہ کا پرانا اور دشوار طریقہ ترک کر کے ہر آیت کے نیچے اس کا ترجمہ اور تفسیر کا انداز اختیار کیا گیا ہے تا کہ قا رئین کرام کو ہر آیت کے مفہوم کو سمجھنے میں مزید آ سانی ہو۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
ا

سُوْ رَ ۃُ الْفَا تِحَۃُ
یہ سورت مکی ہے اِس میں سات آ یا ت ہیں
بِسْمِ اللہ ا لرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔(۱)
ۃ۔۱ ا لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے (۱)جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے(۲)۔

۱۔۱ سُوْ رَ ۃُ الْفَا تِحَۃُ الْکِتَابَ سورۃ فاتحہ مکی ہے اِس میں سات آیتیں ہیں سورۃ فاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے , جس کی احادیث میں بڑی فضلیت آئی ہے ۔فاتحہ کے معنی آغاز اور ا بتدا کے ہیں اس لیئے اسے ُ الکِتَابَ کہاجاتا ہے ۔ اِس کا ایک اہم نام , الصلواۃُ بھی ہے جیسا کہ ایک احادیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( اَقْسَمْتُ الصلَاۃ)میں نے نمازکو اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصّہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا ء اور اُس کی رحمت و ربوبیت ا ورعدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات جو بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کرتا ہے اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا ضروری ہے چناچہ نبی ﷺ کے ارشادات میں سے اس کی خوب وضاحت کر دی گئی ہے فرمایا اُس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی ۔ سری نماز ہو یا جہری فرض نماز ہو یا نفل ہر نمازی کے لئے سورۃ فاتحہ کا پڑ ھنا ضروری ہے۔ ا س کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام بھی نبی ﷺ کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ ﷺ پر قرا ء ت بوجھل ہو گئی نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ ساتھ پڑھتے رہے ہو ؟ اُنہوں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم ایسا مت کیا کرو یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو البتہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ اسطرح ا بو ہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے ر وائت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے بغیر سورۃ فاتحہ کے نماز پڑھی اُس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ ﷺنے فرمایا ۔ ا بو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ سے عرض کیا گیا( اما م کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اُس وقت کیاکریں )؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ نے امام کے پیچھے جب قرآ ن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو جب ا مام قراء ت کرے تو خاموش رہو مطلب یہ ہے کہ( جہری نماز وں ) فجر،مغرب اور عشا ء میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قراء ت خاموشی سے سنیں ۔ ا مام کے ساتھ قر آ ن نہ پڑھیں ۔ یا ا ما م سورۃ فاتحہ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احا دیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یا اما م سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا وقفہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں ا س طرح آ یت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمدو للہ کوئی احتراز نہیں رہتا ۔دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔جبکہ سورۃ فاتحہ کی ممانت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ٹکرا ئو ہے اور دونوں میں کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں ۔ نَعُوْذُ بِا للہ مِنْ ھَذا سورۃ الا عرا ف آیت ۲۰۴ یہاں یہ بات بھی واضع رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک علماء کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی ا مام کی تمام قراٗت سُن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سُن رہا ہو تو پڑھے ۔

یہ سورۃ مکی ہے ۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (۳ ۱ نبوت ) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں , خواہ اُن کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس ، اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خوا ہ و ہ مدینہ یا اُس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا ا س سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اُس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں ۔
؎ بِسْمِ ا للّٰہِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے , یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے, اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے , جبکہ علما ء مدینہ , بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا ۔ سوائے سورۃ نمل کے کی آیت ۳۰ کے, کہ اس میں با لا تفاق بسم اللہ اس کا جز و ہے ۔ اس طرح ( جہری )نمازوں میں اس کے اُ و نچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے ۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری ( دھیمی )آواز سے اکثر علما نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے ۔

۱۔۱ بسم اللہ کو آغاز میں ہی الگ کیا گیاہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا , یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ چناچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے , ذبح, وضو اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھو ۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت ، بِسْمِ ا للّٰہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حَیْمِ، سے پہلے{ اَعُوْ ذُ با للّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰانِ الرَّ جِیْمِ } پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔

۲۔۱ ا لحمد میں ’ ال ‘ مخصوص کے لئے ہے یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں یا اس کے لئے خاص ہیں کیونکہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوا ر صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ کسی کے اندر کوئی خوبی , حسن با کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد( تعریف) کا مُستحق بھی وہ ہی ہے ۔ اللہ ْ یہ اللہ کا ذا تی نام ہے ، اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں لَا اِ لٰہَ افضل الذکر اور اَلْحَمْدُ لِلّہِ کو افضل دعا کہا گیا ہے۔ ( ترندی ، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روائت میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّہِ میزان کو بھر دیتا ہے اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔( صحیح مسلم)

۲۔۲ (رَبْ ) اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰے میں سے ہے،جس کا معنی ہر چیز کو پیدا کرکے ضروریات کو مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کے استعمال بغیر ا ضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں (عالمِیْن) عَالَمْ (جہان) جہان کی جمع ہے ۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعے کوعالم کہا جا تاہے ، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربو بیت کا ملہ کے اظہار کے لئے عا لم کی بھی جمع لائی گئی ہے, جس سے مرا د مخلوق کی الگ الگ جنسیں ہیں ۔ مثلاً عالم جن , عالم انس , عالم ملائکہ اور عالم و حوش و طیور وغیرہ ۔ ان تمام مخلوقات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعًا مختلف ہیں لیکن رَب ا لعالمِیْن سب کی ضروریات ، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیافرماتا ہے۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
ا لرَّ حْمٰنِ ا لرَّ حِیْمِِ

بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا(۱) ۔​


3.1.. یعنی اللہ تعا لیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی دیگر صفات اسی طرح دائمی ہے۔بعض علما کہتے ہیں رحمان میں رحیم نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمان الدنیاوالاکہا جاتا ہے۔دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور اخرت میں وہ صرف رحیم ہوگا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

بدلے کے دن( یعنی قیامت کا ) مالک ہے (۱)​


4.1... دنیا میں بھی ا گرچہ کیئے کی سزاکا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے ا عمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا ۔ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا , آج کس کی بادشاہی ہے ؟ پھر وہی جواب دے گاصرف ایک اللہ غالب کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معا ملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا, یہ ہوگا جزا کا دن۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں(۲)


5.1.. عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیرؒ شریعت میں کمال محبت , خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے ، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو‘ اس کی مافوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ہم تیری عبادت کرتے ہیںاور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنے کی کسی اور سے جائز ہے۔توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا مالک رازق اور مدبر صرف اللہ تعا لیٰ ہے اور اس تو حید کو تمام لوگ مانتے ہیں, حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں, جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا ا عتراف نقل کیا ۔مثلاً فرمایا ۔ اے پیغمبر ﷺ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے , یا ( تمہارے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندارسے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ ( اللہ )
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سچی اور سید ھی راہ دکھا


6.1... ہدایت کے کئی مفہوم ہیں , راستے کی طرف رہنمائی کرنا ,راستے پر چلا دینا , منزلِ مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق, الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے , یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما , اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما , تاکہ ہمیں تیری رضا ( منزلِ مقصود) حاصل ہو جائے..
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔ان کا نہیں جن پر غضب کیا گیااور نہ گمراہوں کا


7.1... یہ صراطِ مستقیم یہ وہ " الا سلام " ہے جسے نبی ﷺ نے دُنیاکے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن واحادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔صراط مُستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلنے، جن پر تیرا انعام ہوا ۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطا عت رسول ﷺ ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔
7.2... بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا) سے مراد یہودی اور( وَلا الضَّالِّينَ)گمراہوں سے مرا د نصاریٰ(عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و انصاریٰ دونوں کے گمراہوں سے بچ کر رہیں۔یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بھوجتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے , آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے , حضرت عزیز علیہ اسلام کو ابن اللہ کہتے , اپنے احبارو رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے ۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو ا بن ا للہ کہتے , حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام(اللہ کا بیٹا) اور تین خدامیں سے ایک قرار دیا۔سورہ کے آ خر میں آمین کہنے کی نبی ﷺ نے تاکید فرمائی اسلئے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے ۔اے اللہ ہماری دعا قبول فرما
 
Top