جلال Salafi
رکن
- شمولیت
- اپریل 13، 2019
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 41
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
سورة مریم کا تعارف
مقام نزول :
سورة مریم مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔
آیات، کلمات اور حروف کی تعداد :
اس سورت میں 6 رکوع، 98 آیتیں، 780 کلمے اور 3700 حروف ہیں۔
” مریم “ نام رکھنے کی وجہ :
اس سورت میں حضرت مریم (رض) کی عظمت، آپ کے واقعات اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ” سورة مریم “ رکھا گیا ہے۔
مسلمانوں پر انتہا سے زیادہ ظلم اور سختیاں ہونے لگی تھیں جس وجہ سے وہ اپنا وطن چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی بڑا رحم دل اور معقول انسان تھا۔ اس لیے پہلے گیارہ مردوں چار عورتوں نے ہجرت کی۔ جلد ہی ہجرت کرنے والوں کی تعداد 83 مرد گیارہ عورتیں ہوگئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف 40 آدمی رہ گئے۔ تو اس پر کفار مکہ کو بڑی سخت پریشانی ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں کو وہاں پر تکالیف پہنچانے کے منصوبے بنائے جن میں سے ایک یہ تھا کہ کفار نے اپنے دو بندے عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن عاص (کو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے) کو بہت سے تحائف دے کر شاہ نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ تحائف دینے کے بعد اہل دربار اور بادشاہ نجاشی کو مسلمانوں سے متنفر کر کے حبشہ سے نکلوایا جاسکے۔ مگر نجاشی نے اہل دربار کو صبر سے کام لینے کو کہا اور مسلمانوں کو بلوایا سیدنا جعفر بن ابی طالب (رض) مسلمانوں کی طرف سے حاضر ہوئے۔ ان کو نجاشی نے پوچھا کہ آخر کیا دین ہے تمہارا کہ جس کی وجہ سے تم اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ؟ سیدنا جعفر (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام تعلیمات کے متعلق بتایا اور جو کچھ ظلم ان پر ڈھائے گئے یا ڈھائے جا رہے تھے سب کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم نے اس امید پر یہاں ہجرت کی ہے کہ یہاں دستور کے مطابق ہم پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ اس پر نجاشی نے کلام پاک سنانے کو کہا تو سیدنا جعفر (رض) نے سورة ٔمریم کا اول حصہ جس میں سیدنا یحییٰ اور سیدنا عیسیٰ (علیہما السلام) کا قصہ بیان کیا گیا تھا سنایا، نجاشی بڑا نرم دل انسان تھا۔ کلام سنتا رہا اور زاروقطار روتا رہا۔ جب کلام ختم ہوا تو اس نے کہا ” یقینا یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے دونوں ایک ہی جیسے کلام ہیں، اللہ کی قسم میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا۔ “ پھر دوبارہ دربار میں بلا کر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ کے بارے میں پوچھا۔ تو پھر سیدنا جعفر (علیہ السلام) بن ابی طالب (رض) نے جواب میں کہا کہ ” وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا۔ “ نجاشی نے اس پر کہا کہ یہ تو بالکل وہی پیغام ہے جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے دیا تھا۔ (یعنی نبی کریم کوئی نیا اور اجنبی دین لے کر نہیں آئے ہیں، بلکہ یہ وہی دین ہے جو تمام گزشتہ انبیائے کرام نے اپنی قوموں کے سامنے پیش کیا تھا، اور جس کا لب لباب یہ ہے کہ یہ زمین اللہ کی ہے اور اس نے تمام انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ وباللہ التوفیق )اور پھر کفار مکہ کے تمام تحائف واپس کردیے یہ کہہ کر کہ ” میں رشوت نہیں لیتا۔ “ اور مہاجرین سے کہا کہ ” تم بالکل اطمینان سے رہو۔ “
سورة مریم اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زاد راہ کے طور پر دی تاکہ عیسائیوں کو صاف صاف بتا دیں کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے نہیں تھے بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ پھر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر مسلمانوں سے یوں کیا گیا کہ گھبرائیں نہیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی انہی حالات میں ہجرت کی تھی اور سر بلند ہوئے اسی طرح تم بھی ہجرت کر کے تباہ نہ ہو گے بلکہ شاندار انجام تمہارے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔ اور پھر مزید وضاحت کی گئی کہ جو پیغام پہلے انبیاء (علیہم السلام) لے کر آئے تھے وہی پیغام سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں۔ اور مسلمانوں کو کامیابی کی خوشخبری بھی دی گئی۔
اس سورة کے مضامین پر غور کریں تو اس کا اجمالی خاکہ یوں ہے :
سیدنا زکریا ، یحییٰ ، عیسیٰ و مریم (علیہم السلام) کے واقعات مسلمانوں کو اظہار حق اور تعلیم حقیقت کے طور پر بتائے گئے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ سے اہل مکہ کو اشارۃً بتایا کہ تم اسی طرح کے گمراہ اور دین کے دشمن ہو جیسے تمہارے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم تھی۔ غور کرو کہ انجام کار ابراہیم (علیہ السلام) کو غلبہ اور تسلط ملا۔ یہی حال اس دور کا ہے کہ ملت ابراہیمی کے پیروکاروں یعنی مسلمانوں کو پھر غلبہ ، تسلط اور اقتدار ملے گا اور ان کے دشمنوں کے گلے میں ذلت کا طوق ہوگا۔ پھر مختلف انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کا ذکر کر کے بتایا کہ وہ سارے انہی تعلیمات کے امین بنائے گئے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کرتے ہیں۔ مگر ان کے کج فہم اور نااہل ورثاء نے ان کی تعلیمات مسخ کردیں اور دین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ سورة کے آخر میں اہل مکہ کی اعتقادی و نظریاتی گمراہی پر اصلاحی انداز اختیار کرتے ہوئے تنقید کی گئی اور اہل ایمان کو ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور ان کی طرح مرجع خلائق ہونے کی نویدسنائی گئی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔