• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورت الانعام آیت نمبر رہ 109 تا 110۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَهُوَ الَّـذِىٓ اَنْشَاَ جَنَّاتٍ مَّعْـرُوْشَاتٍ وَّغَيْـرَ مَعْـرُوْشَاتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُـهٝ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِـهًا وَّغَيْـرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٓ ٖ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٝ يَوْمَ حَصَادِهٖ ۖ وَلَا تُسْـرِفُـوْا ۚ اِنَّهٝ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرَ (141)
ترجمہ ۔
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور جو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہ بھی ہیں اور جدا جدا بھی، ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کرو، اور بے جا خرچ نہ کرو، بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا○۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَـمُوْلَـةً وَّفَرْشًا ۚ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّـٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ اِنَّهٝ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْن○
سورت الانعام آیت نمبرٌ (142)
ترجمہ ۔
اور (پیدا کیے) بوجھ اٹھانے والے مویشی بھی اور زمین سے لگے ہوئے بھی، اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، وہ تمہارا صریح دشمن ہے○
تشریح و تفسیر۔
عنوانعشر کے مسائل ۔
خالق کل اللہ تعالی ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں ۔
درخت تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے درخت ہیں جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں ۔
دیکھنے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ ۔
انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاو مزی اٹھاو لطف پاو ۔
اس کا اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوتہ جو اس میں مقرر ہو ادا کر دو ۔
پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا ۔
چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان صادر فرمایا تھا کہ جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تا کہ مسکین کھا لیں((مسند احمد 3/360۔ابو داود کتاب زکوتہ باب فی حقوق المال۔
شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ابن خزیمہ رح نے بھی))
یہ بھی مراد ہے کہ زکوتہ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو۔
مثلا پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموما مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ دے دیا کرو ۔
بالیں پک گئی ہوں، پھل گدرا گئے ہوں اور کوئی محتاج شخص نکل آئے تو خاطر تواضع کرو۔
جس روز کاٹو کچھ چھوڑ دو تا کہ مسکینوں کے کام آئے ان کے جانوروں کا چارہ ہو زکوتہ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ دیتے رہا کرو ۔
پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوتہ کی فرضیت کے بعد بطور نقل رہ گیا ۔
زکوتہ میں عشر یا نصف عشر مقرر کر دی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے ۔
پہلے کچھ دینا ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کر دی گئی زکوتہ کی مقدار سن 2 ہجری میں مقرر ہوئی ۔۔واللہ اعلم ۔
کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالی نے مذمت بیان فرمائی ہے سورت قلم میں ان کا قصہ بیان فرمایا کہ ان باغ والوں نے قسمیں کھا کر کہا صبح ہوتے ہی آج کے پھل ہم اتار لیں گے اس پر انہوں نے ان شاءاللہ بھی نہ کہا ۔
یہ ابھی رات کو بے خبری کی نیند میں تھے وہاں آفت ناگہانی آ گئی اور سارا باغ ایسا ہو گیا کہ پھل گویا توڑ لیا گیا ہے بلکہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے ۔
یہ صبح کو اٹھ کر ایک دوسرے کو جگا کر پوشیدہ طور پر چپ چاپ چلے کہ ایسا نہ ہو حسب عادت فقیر و مساکین جمع ہو جائیں اور انہیں کچھ دینا پڑے یہ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہوئے کہ پھل ابھی توڑ لائیں گے بڑے اہتمام کے ساتھ صبح سویرے وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا باغ تو وہ خاک بنا ہوا ہے اولا تو کہنے لگے بھئی ہم راستہ بھول گئے کسی اور جگہ آ گئے ہمارا باغ تو شام تک لہلہا رہا تھا پھر کہنے لگے نہیں باغ تو وہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی ہم محروم ہو گئے ۔
اس وقت ان میں سے جو با خبر شخص تھا کہنے لگا دیکھو میں تمہیں کہتا نہ تھا کہ اللہ کا شکر کرو اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔
اب تو سب کے سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے یقینا ہم نے ظلم کیا ہے پھر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ افسوس ہماری بد بختی کہ ہم سرکش حد سے گزر جانے والے بن گئے ۔
ہمیں اب بھی اپنے پرودگار سے امید ہے کہ ہمیں بہتر عطا فرمائے ہم اب صرف اپنے اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے ہم اب صرف اپنے اللہ سے رغبت رکھتے ہیں ۔
نا شکری کرنے والے اور تنہا خوری کرنے والوں پر اسی طرح ہمارے عذاب آیا کرتے ہیں اور آخرت کے اور بھی بڑے عذاب باقی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ اور علم و عقل سے کام لیتے نہیں لیتے ۔
یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں ۔
اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر اور ریاکاری کے لیے اپنا مال برباد نہ کر ۔
حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کر لیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام تک ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ تھی ۔
اس پر یہ فرمان اترا ۔
ہر چیز میں اسراف منع ہے ۔
اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو۔
اپنا سارا مال لوٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے ۔اور منع ہے۔
یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نا فرمان بن جاو یہ بھی اسراف ہے گو یہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بہ ظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچتا ہے ۔
قرآن کریم کی اور آیت میں ہے((کلوا واشربوا ولا تسرافوا))((سورت الاعراف 31))
کھاو پیو اور اسراف نہ کرو ۔صحیح بخاری شریف میں ہے کہ کھاو پیو پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور تکبر سے بچو واللہ اعلم ۔
((صحیح بخاری تعلیقا کتاب اللباس ))اسی اللہ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ ۔
انہیں فرش اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمیں سے ملے رہتے ہیں ۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمولہ سے مراد سواری کے جانور اور فرشا سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں ۔
یہ قول حضرت سدی رح کا ہے۔
اور بہت ہی مناسب ہے خود قرآن کی سورہ یاسین میں موجود ہے کہ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی؟
کہ ہم نے ان کے لیے چوپائے پیدا کر دئیے ہیں جو ہمارے ہی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اب یہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں ہم نے ہی انہیں انکے بس میں کر دیا ہے کہ بعض پر یہ سواریاں کر رکھ ہیں اور بعض کو یہ کھانے کے کام میں لاتے ہیں ۔
اور آیت میں ہے((وان لکم فی الانعام لعبرتہ))((سورہ النخل))
الخ،مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں ان چوپاوں کا دودھ پلاتے ہیں اور ان کے بال اون وغیرہ سے تمہارے اوڑھنے بچھانے اور طرح طرح کے فائدے اٹھانے کی چیزیں بناتے ہیں اور جگہ ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے جانور پیدا کئے تا کہ تم ان پر سواریاں کرو انہیں کھاو اور بھی فائدے اٹھاو ان پر اپنے سفر طے کر کے اپنے کام پورے کرو اسی نے تمہاری سواری کے لیے کشتیاں بنائیں وہ تمہیں اپنی بے شمار نشانیاں دکھا رہا ہے بتاو تو کس کس نشانی کا انکار کرو گے؟ ؟
پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی روزی کھاو پھل اناج گوشت وغیرہ ۔
شیطانی راہ پر نہ چلو اس کی تابعداری نہ کرو جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال کی تقسیم کر دی تم نے بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اسے دوست نہ سمجھو۔
وہ تو اپنے ساتھ تمہیں بھی اللہ کے عذابوں میں پھنسانا چاہتا ہے ۔
دیکھو کہیں اس کے بہکاوے میں نہ آ جانا اسی نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو جنت سے باہر نکلوا دیا ۔
اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھنا ۔
اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو ۔
یاد رکھو ظالموں کو برابر بدلہ ملے گا۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
ثَمَانِيَةَ اَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّاْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ ءٰٓالـذَّكَـرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُوْنِىْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (143)
ترجمہ ۔
(اللہ نے پیدا کیے ہیں) آٹھ جوڑے، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، تو پوچھ کہ دونوں نر اللہ نے حرام کیے ہیں یا دونوں مادہ یا وہ بچہ جو دونوں مادہ کے رحم میں ہے، مجھے اس کی سند بتلاؤ اگر سچے ہو○۔
وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ ءٰٓالـذَّكَـرَيْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَيَيْنِ ۖ اَمْ كُنْتُـمْ شُهَدَآءَ اِذْ وَصَّاكُمُ اللّـٰهُ بِـهٰذَا ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَـرٰى عَلَى اللّـٰهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْـرِ عِلْمٍ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (144)
ترجمہ ۔
اور (پیدا کیں) اونٹ اور گائے سے دو دو قسمیں، تو پوچھ کہ دونوں نر حرام کیے ہیں یا دونوں مادہ یا وہ بچہ جو دونوں مادہ کے رحم میں ہے، کیا تم موجود تھے جس وقت اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا تھا، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے تاکہ لوگوں کو بلا تحقیق گمراہ کرے، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا○۔
تشریح و تفسیر۔
عنوانجاہلیت کا ایک خود ساختہ نمونہ حلال و حرام ۔
اسلام سے پہلے عربوں کی جہالت بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے چوپائے جانوروں میں تقسیم کر کے اپنے طور پر بہت حلال بنائے تھے اور بہت سے حرام کر لئے تھے جیسے بحیرہ، سائبہ ،وصیلہ، حام وغیرہ ۔
اسی طرح کھیت اور باغات میں بھی تقسیم کر رکھی تھی ۔
فرمان باری تعالی ہے کہ سب کا خالق اللہ ہے،کھیت ہوں باغات ہوں، چوپائے ہوں پھر ان چوپاوں کی قسمیں بیان فرمائیں ۔
بھیڑ، مینڈھا،بکری،بکرا،اونٹ،اونٹنی،
گائے،بیل۔
اللہ نے یہ سب چیزیں تمہارے کھانے کے پینے سواریاں لینے اور دوسری قسم کے فائدوں کے لیے پیدا کی ہیں ۔
جیسے فرمان ہے سورہ الزمر((و انزل لکم من الانعام ثمانیتہ ازواج))اس نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے مویشیوں کو پیدا کیا ہے "بچوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ان میں بھی کبھی وہ مردوں کے لیے مخصوص کر کے عورتوں پر حرام کر دیتے تھے پھر ان سے ہی سوال ہوتا ہے کہ آخر اس حرمت کی کوئی وجہ کوئی دلیل کوئی کفیت تو پیش کرو۔
چار قسم کے جانور اور مادہ اور نر ملا کر آٹھ قسم کے ہو گئے ان سب کو اللہ نے حلال کیا ہے ۔
کیا تم اپنی ہی دیکھی سنی کر رہے ہو؟
اس فرمان الہی کے وقت تم موجود تھے؟
کیوں جھوٹ کہہ کر افترا پردازی کر کے بغیر علم کے باتیں بنا کر اللہ کی مخلوق کی گمراہی کا بوجھ اپنے اوپر لاد کر سب سے بڑھ کر ظالم بن رہے ہو؟
اگر یہی حال رہا تو دستور الہی کے ماتحت ہدایت الہی سے محروم ہو جاو گے ۔
سب سے پہلے یہ ناپاک رسم عمرو بن لحی بن قمعہ خبیث نے نکالی تھی اسی نے انبیاء کرام علیھم السلام کے دین کو سب سے پہلے بدلا اور غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑے ۔جیسے پچھلی آیات میں بیان گزر چکا ہے ۔
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِىْ مَآ اُوْحِىَ اِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٝٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُـوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْـمَ خِنزِيْرٍ فَاِنَّهٝ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْـرِ اللّـٰهِ بِهٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْـرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْـم○
سورت الانعام آیت نمبرٌ (145)
ترجمہ ۔
کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے یا وہ ناجائز ذبیحہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، پھر جو بھوک سے بے اختیار ہوجائے ایسی حالت میں کہ نہ بغاوت کرنے والا اور نہ حد سے گزرنے والا ہو تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے○
تشریح و تفسیر۔
عنوان حرام کھانے کی اشیاء ۔
اللہ تعالی اپنے بندے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں سے جو اللہ کے حلال کو اپنی طرف سے حرام کرتے ہیں فرما دیں کہ وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو حرام صرف ان چیزوں کو کیا گیا ہے جو میں تمہیں سناتا ہوں اس میں وہ چیزیں حرمت والی نہیں جن کی حرمت کو تم رائج کر رہے ہو ۔
کسی کھانے پر حیوانوں میں سے سوا ان جانوروں کے جو بیان ہوئے ہیں کوئی بھی حرام نہیں "اس آیت کے مفہوم کا رفع کرنے والی سورت مائدہ کی آئندہ آیتیں اور دوسری حدیثیں ہیں جن میں حرمت کا بیان ہے وہ بیان کی جائیں گی ۔
بعض لوگ اسے نسخ کہتے ہیں اور اکثر متاخرین اسے نسخ نہیں کہتے ۔
کیوں کہ اس میں تو اصلی مباح کو اٹھا دینا ہے ۔واللہ اعلم ۔
خون وہ حرام ہے جو بوقت ذبح بہہ جاتا ہے رگوں میں اور گوشت میں جو خون مخلوط ہو وہ حرام نہیں ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ گدھوں اور درندوں کا گوشت ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آ جائے، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں ۔
عمرو بن دینار حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر پختونخواہ کے موقع پر پالتو گدھوں کا کھانا حرام کر دیا تھا ۔
آپ نے فرمایا ہاں حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ سے یہی روایت کرتے ہیں لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اد کا انکار کرتے ہیں اور ایت((قل لا اجد))الخ،تلاوت کرتے ہیں1️⃣ ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اہل جاہلیت والے بعض چیزیں کھاتے تھے بعض طبعی کراہیت کے چھوڑ دیتے تھے ۔
اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اپنی کتاب اتاری حلال و حرام کی تفصیل بتا دی پس جسے حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کر دیا وہ حرام ہے اور بعض جس سے خاموشرہے وہ معاف ہے۔
پھر آپ نے اسی آیت((قل لا اجد))الخ کی تلاوت کی 2️⃣
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ کی بکری مر گئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ ؟
جواب دیا کہ کیا مردہ بکری کی کھال اتار لینیجائز ہے؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرما کر فرمایا کہ اس کا کھانا حرام ہے لیکن تم اسے دباغت دے کر نفع حاصل کر سکتے ہو۔
چنانچہ انہوں نے آدمی بھیج کر کھال اتروا لی اور اس کی مشک بنوائی جو ان کے پاس مدتوں رہی اور کام آئی((بخاری وغیرہ ))3️⃣
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسے قنفد((یعنی خار پشت جسے اردو میں ساہی بھی کہتے ہیں ))کے کھانے کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی اس پر ایک بزرگ نے فرمایا میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ خبیثوں میں سے ایک خبیث ہے اسے سن کر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو وہ یقینا ویسی ہی ہے جیسے آپ نے ارشاد فرمایا4️⃣((ابو داؤد وغیرہ)
پھر فرمایا جو شخص ان حرام چیزوں کو کھانے پر مجبور ہو جائے لیکن وہ باغی اور حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اسے اس کا کھا لینا جائز ہے اللہ اسے معاف کر دے گا کیوں کہ وہ غفور الرحیم ہے۔
اس کی تفصیل سے سورت بقرہ میں گزر چکی ہے یہاں تو بس مشرکوں کے فعل کی تردید منظور ہے جو انہوںنے اللہ کے حلال کو حرام کر دیا تھا اب بتا دیا گیا ہے کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں اور کوئی چیز حرام نہیں ۔
اگر اللہ کی طرف سے بھی وہ حرام ہوتیں تو ان کا ذکر بھی آ جاتا ۔
پھر تم اپنی طرف سے حلال کیوں مقرر کرتے ہو؟
اس بنا پر پھر اور چیزوں کی حرمت باقی نہیں رہتی جیسے کہ گھروں کے پالتو گدھوں کی ممانت اور درندوں کے گوشت کی اور جنگل کے پرندوں کی جیسے علماء کرام کا مشہور مزہب ہے((یہ یاد رہے کہ ان کی حرمت قطعی ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور قرآن نے حدیث کا ماننا بھی فرض ہے کیا ہے((مترجم))
حوالہ جات
((صحیح بخاری کتاب التفسیر ۔مسلم کتاب الجنتہ))
1️⃣صحیح بخاری: کتاب الذبائح ۔
2️⃣صحیح ابو داؤد کتاب الاطعمہ۔ مستدرک حاکم ۔شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے۔
3️⃣ صحیح بخاری کتاب الایمان والنذور ۔مسند احمد1/327۔بیھقی فی السنن الکبری 1/18۔
4️⃣ضعیف ابو داؤد کتاب الاطعمتہ۔باب فی اکل حشرات الارض ۔امام بھیقی نے اس کی سند کو غیر قوی کہا ہے ۔شیخ البانی رح نے اسے ضعیف الاسناد کہا ہے
اس کی سند میں عیسی بن نمیلہ عن ابیہ راویمجہول ہے۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَعَلَى الَّـذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِىْ ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَـمِ حَرَّمْنَا عَلَيْـهِـمْ شُحُومَهُمَآ اِلَّا مَا حَـمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَوَايَـآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُـمْ بِبَغْيِـهِـمْ ۖ وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (146)
ترجمہ ۔
یہود پر ہم نے ہر ناخنوں (پنجوں) والا جانور حرام کیا تھا، اور گائے اور بکری میں ان دونوں کی چربی حرام کی تھی مگر جو پشت پر یا انتڑیوں پر لگی ہوئی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہوئی ہو، ہم نے ان کی شرارت کے باعث انہیں یہ سزا دی تھی، اور بے شک ہم سچے ہیں○۔
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْـمَةٍ وَّاسِعَةٍۚ وَّلَا يُرَدُّ بَاْسُهٝ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (147)
ترجمہ ۔
پھر اگر تجھے جھٹلائیں تو کہہ دو کہ تمہارا رب بہت وسیع رحمت والا ہے، اور اس کا عذاب نہیں ٹلے گا گناہگار لوگوں سے○۔
تشریح و تفسیر۔
عنوانحلال و حرام کی مزید کچھ تفصیل:
ناخن دار جانور چوپاوں اور پرندوں اور پرندوں میں سے وہ ہیں، جن کی انگلیاں کھلی ہوئی نہ ہوں، جیسے اونٹ، شتر مرغ، بطخ،وغیرہ، سعید بن جبیر کاقول ہے کہ جو کھلی انگلیوں والا نہ ہو "ایک روایت میں ان سے مروی ہے کہ "ہر ایک جدا انگلیوں والا اور انہیں میں سے شتر مرغ ہے۔
قتادہ رح کا قول ہے جیسے اونٹ شتر مرغ اور بہت سے پرندے مچھلیاں بطخ اور اس جیسے جانور جن کی انگلیاں الگ الگ نہیں ہے ۔
ان کا کھانا یہود پر حرام تھا ۔
اس طرح گائے بکری کی چربی بھی ان پر حرام تھی یہود کا مقولا تھا کہ اسرائیل نے اسے حرام کر لیا تھا اس لئے ہم بھی اسے حرام کہتے ہیں جو چربی پیٹھ کے ساتھ لگی ہوئی ہو انتڑیوں کے ساتھ اوجھڑی کے ساتھ ہڈی کے ساتھ وہ ان پر حلال تھی ۔
یہ بھی ان کے ظلم و ستم اور راہ حق سے روک کی وجہ سے ہم نے ان پر بعض پاکیزہ چیزیں بھی حرام کردہ از دی تھیں اور اس جزا میں ہم عادل ہی تھے اور جیسی خبر ہم نے تجھے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیہے وہی سچ اور وہی حق ہے ۔
یہودیوں کا کہنا یہ ہے کہ "حضرت اسرائیل نے اسے حرام کیا تھا اس لئے ہم نے اسے اپنے آپ پر بھی حرام کرتے ہیں "حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ سمرہ نے شراب فروشی کی ہے تو آپ نے فرمایا اللہ اسے غارت کرے کیا یہ نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت کی کہ جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلاکر بیچنا شروع کر دیا 1️⃣حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہمانے فتح مکہ والےسال فرمایا کہ اللہ تعالی نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خریدو فروخت حرام فرمائی ہے "آپ سے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ؟اس سے چمڑے رنگے جاتے ہیں اور کشتیوں پر چڑھایا جاتا ہے اور چراغ جلایا جاتا ہے آپ نے فرمایا وہ بھی حرام ہے ۔
پھر اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی یہودیوں کو غارت کرے جب ان پر چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر بیچ کر اس کی قیمت کھانا شروع کر دی۔2️⃣(بخاری و مسلم ))
ایک مرتبہ آپ خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم کو کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف نظراٹھائی اور تین مرتبہ یہودیوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا اللہ نے ان پر چربی حرام کی ہوئی تو انہوں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت کھائی اللہ تعالی جن پر جو چیز حرام کرتا ہے ان پر اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے ۔
ایک مرتبہ آپ مسجد الحرام میں حطیم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے ہوئے تھے آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسے اور یہی فرمایا 3️⃣(ابو داؤد ابن ماجہ مسند احمد ))
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے زمانے میں آپ کی عیادت کے لئے گئے اس وقت آپ عدن کی چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے آپ نے چہرہ سے چادر ہٹا کر فرمایا اللہ یہود و نصاری پر لعنت کرے کہ بکری کی چربی کو حرام مانتے ہیں اس کی کھاتے ہیں ۔4️⃣ابو داود میں ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مرفوع روایت ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام فرما دیتا ہے5️⃣
عنوان توبہ سے شرک بھی معاف
اب بھی اگر تیرے مخالف یہودی اور مشرک وغیرہ تجھے جھوٹا بتائیں تو بھی تو انہیں میری رحمت سے مایوس نہ کر بلکہ انہیں رب کی رحمت کی وسعت یاد دلاتا کہ انہیں اللہ کی رضا جوئی کی تبلیغ ہو جائے
ساتھ ہی انہیں اللہ کے اٹل عذابوں سے بچنے کی طرف متوجہ کر۔
پس رغبت رہبت امید ڈر دونوں ایک ساتھ سنا دے ایک ساتھ سنا دے قرآن کریم میں امید کے ساتھ خوف اکثر بیان ہوتا ہے ۔
اسی سورت کے آخر میں فرمایا تیرا رب جلد عذاب کرنے والا ہے اور غفور الرحیم بھی ہے اور آیت میں ہے((و ان ربک لذو مغفرتہ للناس علی ظلمھم))الخ سورت الرعد))
تیرا رب لوگوں کے گناہوں پر انہیں بخشنے والا بھی ہے اور سخت ترین عذاب کرنے والا بھی ہے ایک آیت میں ارشاد ہے میرے بندوں کو میرے غفورورحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے بڑے ہی درد ناک ہونے کی خبر پہنچا دو اور جگہ ہے وہ گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے نیز کئی آیات میں ہے تیرے رب کی پکڑ بڑی بھاری اور نہایت سخت ہے ۔
وہی ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا وہ غفور ہے،ودود ہے،بخشش کرنے والا، مہربان اور محبت کرنے والا ہے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
سَيَقُوْلُ الَّـذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّـٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَىْءٍ ۚ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ حَتّـٰى ذَاقُـوْا بَاْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا ۖ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُـمْ اِلَّا تَخْرُصُونَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (148)
ترجمہ ۔
اب مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے، اسی طرح ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ہمارا عذاب چکھا، کہہ دو کہ تمہارے ہاں کوئی ثبوت ہے تو اسے ہمارے سامنے لاؤ، تم فقط خیالی باتوں پر چلتے ہو اور صرف تخمینہ ہی کرتے ہو○۔
قُلْ فَلِلّـٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَآءَ لَـهَدَاكُمْ اَجْـمَعِيْن ○َ
سورت الانعام آیت نمبر (149)
ترجمہ ۔
کہہ دو پس اللہ کی حجت پوری ہو چکی، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کر دیتا۔
قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمُ الَّـذِيْنَ يَشْهَدُوْنَ اَنَّ اللّـٰهَ حَرَّمَ هٰذَا ۖ فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُـمْ ۚ وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَ الَّـذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا وَالَّـذِيْنَ لَا يُؤْمِنُـوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَهُـمْ بِرَبِّـهِـمْ يَعْدِلُوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر(150)
ترجمہ ۔
ان سے کہہ دو کہ اپنے گواہ لاؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے، پھر اگر وہ ایسی گواہی دیں تو تم ان کا اعتبار نہ کرنا، اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرنا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور وہ اوروں کو اپنے رب کے برابر کرتے ہیں○۔
تشریح و تفسیر ۔
اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے ۔
مشرکوں لوگ دلیل پیش کیا کرتے تھے کہ ہمارے شرک کا،حلال کو حرام کرنے کا حال تو اللہ ہی کو معلوم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس کے بدلنے پر بھی قادر ہے ۔
اس طرح کہ ہمارے دل میں ایمان ڈال دے۔
یا کفر کے کاموں کے کی ہمیں قدرت ہی نہ دے پھر بھی اگر وہ ہماری اس روش کو نہیں بدلتا تو ظاہر ہے کہ وہ ہمارے ان کاموں سے خوش ہے اگر وہ چاہتا تو ہم کیا ہمارے بزرگ بھی شرک نہ کرتے جیسے ان کا یہی قول سورہ الزخرف کی آیت((لو شاءالرحمن))میں اور سورت النخل میں ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے اسی شبہ نے ان کی پہلی قوموں کو تباہ کر دیا اگر یہ بات سچ ہوتی تو ان سے پہلے باپ دادا پر ہمارے عذاب کیوں آتے؟
رسولوں کی نافرمانی اور شرک و کفر پر مصر رہنے کی وجہ سے وہ روئے زمین سے ذلت کے ساتھ کیوں ہٹا دئیے جاتے؟
اچھا تمہارے پاس اللہ کی رضا مندی کا کوئی سرٹیفکیٹ ہو تو پیش کرو۔
ہم تو دیکھتے ہیں کہ تم وہم پرست ہو فاسد ہو عقائد پر جمے ہوئے ہو اور اٹکھلیاں کرتے ہو مذاق باتیں اللہ کے زمے گھڑ لیتے ہو وہ بھی یہی کہتے تھے تم بھی یہی کہتے ہو کہ ہم ان معبودوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے ملا دیں۔
حالانکہ وہ نہ ملانے والے ہیں نہ اس کی انہیں قدرت ہے ان سے تو اللہ نے سمجھ بوجھ چھین رکھی ہے ۔
ہدایت و گمراہی کی تقسیم بھی اللہ کی حکمت اور اس کی حجت ہے ۔
سب کام اس کے ارادے سے ہو رہے ہیں وہ مومنوں کو پسند فرماتا ہے اور کافروں سے ناخوش ہے فرمان ہے سورت الانعام((و لو شاءاللہ لجمعھم علی الھدی))اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو راہ حق پر جمع کر دیتا اور آیت میں ہے اگر تیرے رب کی چاہت ہوتی تو دنیا کے سب لوگ مومن بن جاتے ۔
اور جگہ ہے اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دیتا ۔
یہ تو اختلاف سے نہیں ہٹے گے سوائے ان لوگوں کے جن پر تیرا رب رحم کرے بلکہ انہیں اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔
تیرے رب کی یہ بات حق ہے کہ میں جنات اور انسان سے جہنم کو پر کر دوں گا ۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ نا فرمانوں کی کوئی حجت اللہ کے زمے نہیں بلکہ اللہ کی حجت بندوں پر ہے۔
یہ جو تم نے خواہ مخواہ اپنی طرف سے جانوروں کو حرام کر رکھا ہے ان کی حرمت پر کسی کی شہادت تو پیش کر دو۔
اگر یہ ایسی شہادت والے لائیں تو تو ان جھوٹے لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانا ۔
ان منکرین قیامت، منکرین کلام اللہ شریف مشرکین کامل کے جھانسے میں کہیں تم بھی نہ آ جانا ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا ۖ وَّبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُـمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْـهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِىْ حَرَّمَ اللّـٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (151)
ترجمہ ۔
کہہ دو آؤ میں تمہیں سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے، یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور تنگدستی کے سبب اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں اور انہیں رزق دیں گے، اور بے حیائی کے ظاہر اور پوشیدہ کاموں کے قریب نہ جاؤ، اور ناحق کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے، (اللہ) تمہیں یہ حکم دیتا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ○۔
تشریح و تفسیر ۔
عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "سورت الانعام میں محکم آیات ہیں پھر یہی آیت تلاوت فرمائیں "
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیم اجمعین سے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ہے جو میرے ہاتھ پر ان تین باتوں کی بیعت کرے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا جو اسے پورا کرے گا، وہ اللہ سے اجر پائے گا اور جو ان میں سے کسی بات کو پورا نہ کرے گا تو دنیا میں ہی اسے شرعی سزا دی جائے گی اور اگر سزا نہ دی گئی تو پھر اس کا معاملہ قیامت پر ہے اگر چاہے تو اسے بخش دے چاہے تو سزا دے۔1️⃣((مسند ،حاکم ))بخاری و مسلم شریف میں ہے کہ تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی 2️⃣
اس آیت میں اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین کو جو اللہ کی اولاد کے قائل ہیں اللہ کے رزق میں سے بعض کو اپنی طرف سے حلال اور بعض کو حرام کہتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہیں کہہ دیجئے کہ سچ مچ جو چیزیں اللہ کی حرام کردہ ہیں انہیں مجھ سے سن لو جو میں بذریعہ وحی الہی بیان کرتا ہوں تمہاری طرح خواہش نفس، توہم پرستی اور اٹکل و گمان کی بنا پر نہیں کہتا ۔
سب سے پہلی بات تو یہ بے کہ جس کی وہ تمہیں وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ۔
یہ کلام عرب میں ہوتا ہے کہ ایک جملہ کو حذف کر دیا پھر دوسرا جملہ ایسا کہہ دیا جس سے حذف شدہ جملہ معلوم ہو جائے اس آیت کے آخری جملے((ذلکم وصاکم))((سورت انعام ))سے((الا تشرکوا))سے پہلے کے محذوف جملے((اوصاکم))پر دلالت ہو گئی ۔
میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے یہ جوش خبری سنائی کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے وہ داخل جنت ہو گا تو میں نے کہا گو اس نے زنا کیا ہو گو اس نے چوری کی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں گو اس نے زنا اور چوری کی ہو میں نے پھر یہی سوال کیا مجھے پھر یہی جواب ملا پھر بھی میں نے یہ بات پوچھی اب کے جواب دیا کہ گو شراب نوشی بھی کی ہو((صحیح بخاری کتاب الرقاق صحیح مسلم کتاب الزکوتہ ))3️⃣بعض روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موحد کے جنت میں داخل ہونے کا سن کر ابو ذر رضی اللہ عنہ نے یہ سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا تھا اور آخری مرتبہ فرمایا تھا اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کی ناک خاک آلود ہو،چنانچہ راوی حدیث جب اسے بیان فرماتے تو یہی لفظ دوہراتے((صحیح بخاری کتاب اللباس ۔صحیح مسلم کتاب الایمان )) 4️⃣
سنن میں مروی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے اے ابن آدم علیہ السلام تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور میری ذات سے امید رکھے گا میں بھی تیری خطاوں کو معاف کرتا رہوں گا خواہ وہ کیسی ہی ہوں کوئی پروا نہ کروں گا تو اگر میرے پاس زمین بھر کر خطائیں لائے گا تو میں تیرے پاس اتنی ہی مغفرت اور بخشش لے کر آوں گا بشرطیکہ تونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تونے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا ((حسن لغیرہ مسند احمد شیخ البانی رح نے اسے حسن کہا ہے))5️⃣۔
اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت اتری سورت النساء((ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء))
یعنی مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے چاہے بخش دے ۔صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے((صحیح مسلم کتاب الایمان))۔
اس آیت کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں ۔
ابن مردویہ میں ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں یا تمہیں سولی چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے ۔
اس آیت میں توحید کا حکم دے
۔
اس آیت میں توحید کا حکم دے کر پھر ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہوا بعض کی قرات((و وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ و بالوالدین احسانا))((الاسراء ))بھی ہے ۔
قرآن کریم میں اکثر یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ بیان ہوئے ہیں جیسے((ان اشکرلی ولوالدیک))((سورت لقمان))الخ،
میں مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی بقدر ضرورت احسان کرنے کا حکم ہوا ہے ۔
اور((و اذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل ))((البقرہ))الخ،
میں دونوں حکم ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں اور بھی بہت سی اس مفہوم کی آیتیں ہیں ۔
بخاری و مسلم میں ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز وقت پر پڑھنا میں نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے پوچھا پھر؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔
میں اگر اور بھی دریافت کرتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بتا دیتے ۔
باپ دادووں کی وصیت کر کے اولاد اور اولاد کی اولاد کی بابت وصیت فرمائی کہ انہیں قتل نہ کرو جیسے کہ شیاطین نے اس کام کو تمہیں سکھا رکھا ہے لڑکیوں کو تو بوجہ عار کے مار ڈالتے تھے اور بعض لڑکوں کو بھی بوجہ اس کے کہ ان کے کھانے کا سامان کہاں سے لائیں گے مار ڈالتے تھے ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ہے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے پیدا کیا ہے ۔
پوچھا پھر کون سا گناہ ہے؟فرمایا اپمی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ یہ میرے ساتھ کھائے گی۔
پوچھا پھر کون سا ہے؟ ؟فرمایا اپنی پڑوسن کی عورت سے بدکاری کرنا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت((و ان الذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر))الخ، کی تلاوت فرمائی) (صحیح بخاری کتاب التوحید۔صحیح مسلم کتاب الایمان ))
اور آیت میں ہے((لا تقتلوا اولادکم خشیتہ املاق))((سورت الاسراء ))۔اپنی اولاد کو فقیری کے خوف سے قتل نہ کرو ۔اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہم انہیں روزی دیتے ہیں اور تمہاری روزی بھی ہمارے ذمہ ہیں ۔
یہاں چونکہ فرمایا تھا کہ فقیری کی وجہ سے اولاد کا گلا نہ گھونٹو تو ساتھ ہی فرمایا تمہیں روزی ہم دیں گے اور انہیں بھی ہم ہی دے رہے ہیں ۔
پھر فرمایا کسی ظاہر پوشیدہ برائی کے پاس بھی نہ جاو ۔
جیسے اور آیت میں ہے((قل انما حرم ربی الفواحش ما ظہر منھا و ما بطن))((سورت اعراف ))الخ،
یعنی تمام ظاہری باطنی برائیاں ظلم و زیادتی شرک و کفر اور جھوٹ بہتان سب کچھ اللہ نے حرام کر دیا ہے ۔
صحیحین میں ہے اللہ تعالی سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں اسی وجہ سے تمام بے حیائیاں اللہ نے حرام کر دی ہیں خواہ وہ ظاہر ہوں یا پشو ہوں((صحیح بخاری کتاب التفسیر ۔صحیح مسلم کتاب التوبہ))۔
سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں ایک ہی وار میں فیصلہ کر دوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کا یہ قول پہنچا تو فرمایا کیا تم نے سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت پر تعجب کر رہے ہو؟ ؟
واللہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔
اسی وجہ سے تمام فحش کام ظاہر پوشیدہ اس نے حرام کر دئیے ہیں((بخاری و مسلم ))
اس کے بعد کسی ناحق قتل کی حرمت کو بیان فرمایا گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ کر کے بیان فرمایا ۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ جو مسلمان اللہ کی توحید اور میری رسالت کا اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز ان تین باتوں کے جائز نہیں ہے یا تو شادی شدہ ہو کر زنا کرے یا کسی کو قتل کرے یا دین چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے ۔
حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آ جائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت وعید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعا حرام ہے ۔
بخاری شریف میں ہے معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے ہی جنت کی خوشبو پہنچتی ہے۔
پھر فرماتا ہے یہ اللہ کی وصیتیں ہیں اور اس کے احکامات تا کہ تم دین حق کو اس کے احکام کو اور اس کی منع کردہ باتوں کو سمجھ لو۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْـمِ اِلَّا بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّـٰى يَبْلُـغَ اَشُدَّهٝ ۖ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَاِذَا قُلْتُـمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۖ وَبِعَهْدِ اللّـٰهِ اَوْفُوْا ۚ ذٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْن○
سورت الانعام آیت نمبر َ (152)
ترجمہ ۔
اور سوائے کسی بہتر طریقہ کے یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے، اور ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب بات کہو تو انصاف سے کہو اگرچہ رشتہ داری ہو، اور اللہ کا عہد پورا کرو، (اللہ نے) تمہیں یہ حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو○۔
وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْـمِ اِلَّا بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّـٰى يَبْلُـغَ اَشُدَّهٝ ۖ وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَاِذَا قُلْتُـمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى ۖ وَبِعَهْدِ اللّـٰهِ اَوْفُوْا ۚ ذٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (153)۔
ترجمہ ۔
اور سوائے کسی بہتر طریقہ کے یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچے، اور ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، اور جب بات کہو تو انصاف سے کہو اگرچہ رشتہ داری ہو، اور اللہ کا عہد پورا کرو، (اللہ نے) تمہیں یہ حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔○
تشریح و تفسیر ۔
عنوان یتیموں کے ساتھ حسن سلوک ۔
ابو داود وغیرہ میں ہے کہ جب آیت((و لا تقربوا))اور آیت((ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما))((سورت انعام) )
نازل ہوئی تو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کا کھانا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کر دیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہو جائے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر ہوا تو آیت((و یسئلونک عن الیتامی))((سورت بقرہ))الخ،نازل ہوئی ۔
کہ ان کے لیے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ تمہارے بھائی ہیں اسے پڑھ کر سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے کھانے اپنے ساتھ ملا لئے۔
یہ حکم ان کے سن بلوغت تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں واللہ اعلم ۔
پھر حکم فرمایا کہ لین دین میں ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو((حسن داود کتاب الوصایا)) ۔
ان کے لیے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں ۔
ان امتوں کو اللہ نے غارت کر دیا جن میں یہ خصلت تھی۔
پھر فرماتا ہے کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کر لی دوسرے کا حق دے دیا اپنے حق سے زیادہ نہ لیا، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے آیت کے دونوں جملے تلاوت کر کے فرمایا کہ جس نے صحیح نیت سے وزن کیا تولا پھر بھی نہیں واقع میں کمی زیادتی بھول چوک سے ہوئی تو مواخذہ نہیں ہو گا ۔یہ حدیث مرسل ہے اور غریب ہے۔
پھر فرماتا ہے بات انصاف کی کہا کرو گو قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے جیسے فرمان ہے((یا ایھالذین امنوا کونوا قوامین بالقسط))((سورت مائدہ))
اور سورت النساء میں بھی یہی درس دیا گیا ہے کہ ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہیں چھوڑنا چاہئے ۔
جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہیے اللہ کے عہد کو پورا کرو اس کے احکامات بجا لاو اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو، اس کی کتاب اس کی سنت پر چلتے رہو یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے انہیں چیزوں کے بارے میں اللہ کا تاکیدی حکم ہے ۔
یہی فرمان تمہارے واعظ و نصیحت کا ذریعہ ہے تا کہ تم جو اس سے پہلے برے کاموں میں تھے ان سے الگ ہو جاو۔
بعض کی قرات میں((تذکرون))بھی آیا ہے ۔
تشریح و تفسیر آیت 153
عنوان صراط مستقیم کے علاوہ تمام راستے شیطانی ۔
یہ اور ان جیسی دوسری آیات کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول تو یہ بے کہ اللہ تعالی مومنوں کو باہم اعتماد کا حکم دیتا ہے اور اختلاف و فرقہ بندی سے روکتا ہے اس لئے کہ اگلے لوگ اللہ کے دین میں پھوٹ ڈالنے ہی سے تباہ ہوئے تھے مسند احمد میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا اللہ کی راہ سیدھی راہ یہی ہے پھر اس کے دائیں بائیں اور لکیریں کھینچ کر فرمایا ان تمام راہوں پر شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا((حسن مسند احمد ))۔
اسی حدیث کی شاہد وہ حدیث ہے جو مسند وغیرہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا یہ شیطانی راہیں ہیں اور بیچ کی لکیر پر انگلی رکھ کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ابن ماجہ میں اور بزاز میں بھی یہ حدیث ہے((صحیح ابن ماجہ مقدمہ باب اتباع سنتہ رسول اللہ ۔شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراط مستقیم کی مثال بیان فرمائی ۔
اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں بہت سے دروازے ہیں اور سب چوپٹ کھلے ہیں اور ان پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اس سیدھی راہ کے سرے پر ایک پکارنے والا پکارتا رہتا ہے کہ لوگو تم سب صراط مستقیم پر آ جاو راستے میں بکھر نہ جانا، بیچ راہ کے بھی ایک شخص ہے،جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولو،کھولو گے تو سیدھی راہ سے نکل جاو گے ۔
پس سیدھی راہ اسلام ہے دونوں دیواریں اللہ کی حدود ہیں کھلے ہوئے دروازے اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں نمایاں شخص اللہ کی کتاب ہے اوپر سے پکارنے والا اللہ کی طرف نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مومن کے دل میں ہے۔((ترمذی کتاب الامثال۔شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے ))
اس نکتے کو نہ بھولنا چاہیے کہ اپنی راہ کے لیے سبیل واحد کا لفظ بولا گیا ہے اور گمراہی کی راہوں کے لیے سبل جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے کہ راہ حق ایک ہی ہوتی ہے اور ناحق کے بہت سے طریقے ہوا کرتے ہیں جیسے آیت((اللہ ولی الذین امنوا ))((سورت بقرہ))الخ،میں ظلمات کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
ثُـمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّـذِىٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَىْءٍ وَّهُدًى وَرَحْـمَةً لَّـعَلَّـهُـمْ بِلِقَـآءِ رَبِّـهِـمْ يُؤْمِنُـوْن○
سورت الانعام آیت نمبر َ (154)
ترجمہ ۔
پھر ہم نے نیکوں پر نعمت پوری کرنے کے لیے موسیٰ کو کتاب دی جس میں ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں○۔
وَهٰذَا كِتَابٌ اَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَـمُوْنَ○
سورت الانعام آیت نمبر (155)
ترجمہ ۔
یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری ہے سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے○
تشریح و تفسیر ۔
عنواننزول قرآن کا مقصد اس کی پیروی کرنا ہے ۔
امام ابن جریر رح نے تو لفظ((ثم))کو ترتیب کے لیے مانا ہے یعنی ان سے یہ بھی کہہ دے اور ہماری طرف سے یہ خبر بھی پہنچا دے لیکن میں کہتا ہوں((ثم))کو ترتیب کے لیے مان کر خبر کا خبر پر عطف کریں دیں تو کیا حرج ہے؟ ؟
ایسا ہوتا ہے اور شعروں میں موجود ہے،چونکہ قرآن کریم کی مدح((ان ھذا صراطی مسقیم)) میں گزری تھی اس لئے اس پر عطف ڈال کر تورات کی مدح بیان کر دی۔
جیسے کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے۔
چنانچہ سورت الاحقاف میں بیان ہے((و من قبلہ کتاب موسی اماما و رحمتہ و ھذا کتاب مصدق لسانا عربیا))۔یعنی اس سے پہلے تورات امام و رحمت تھی اور اب یہ قرآن عربی تصدیق کرنے والا ہے ۔
اسی سورت کے اول میں((قل من انزل الکتاب الذی))((سورت الانعام))الخ،
اس آیت میں بھی تورات کے بیان کے بعد اس قرآن کا بیان ہوا ہے ۔
کافروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے(فلما جاءھم الحق من عندک))((سورت القصص))الخ،
جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے کہ اس جیسا کیوں نہ ملا جو موسی علیہ السلام کو ملا تھا جس کے جواب میں فرمایا گیا کیا انہوں نے موسی علیہ السلام کی کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا تھا؟ ؟
کیا صاف طور پر نہیں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور ہم تو ہر ایک کے منکر ہیں ۔
جنوں کا قول بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ہم نے وہ کتاب سنی ہے جو موسی علیہ السلام کے بعد اتری جو اپنے سے اگلی کتابوں کو سچا کہتی ہے اور راہ حق کی ہدایت کرتی ہے ۔
وہ کتاب جامع اور کامل تھی ۔
شریعت کی جن باتوں کی اس وقت ضرورت تھی سب اس میں موجود تھیں یہ احسان تھا نیک کاروں کی نیکیوں کے بدلے کا ۔
جیسے فرمان ہے احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جیسے فرمان ہے کہ بنی اسرائیلیوں کو ہم نے ان کا امام بنا دیا جب کہ انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیتوں پر یقین رکھا ۔
غرض یہ بھی اللہ کا فضل تھا اور نیکوں کو نیکیوں کا صلہ ۔
احسان کرنے والوں پڑ اللہ بھی احسان پورا کرتا ہے یہاں اور وہاں بھی ۔
امام ابن جریر رح((الذی ))کو مصدر مانتے ہیں جیسے((و خفتم کالذی خاضوا))((سورت توبہ))
میں ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا شعر ہے ۔
ترجمہ ۔
اللہ تیری اچھائیاں بڑھائے اور اگلے نبیوں کی طرح تیری بھی مدد فرمائے ۔
بعض کہتے ہیں یہاں((الذی )) معنی ہے((الذین ))کے ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات((تماما علی الذین احسنوا))ہے۔
پس مومنوں اور نیک لوگوں پر اللہ کا پورا پورا احسان ہے ۔
بغوی کہتے ہیں مراد اس انبیاء کرام اور عام مومن ہیں۔
یعنی ان سب پر ہم نے اس کی فضیلت ظاہر کی ۔جیسے سورت اعراف میں فرمان ہے((یا موسی انی اصطفیتک))الخ،
یعنی اے موسی علیہ السلام میں نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے لوگوں پر بزرگی دی ۔
ہاں حضرت موسی علیہ السلام کی اس بزرگی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں مستثنی ہیں بہ سبب ان دلائل کے جو وارد ہو چکے ہیں ۔
یحی بن یعمر رح) (احسن ھو))کو مخذوف مان کر((احسن)) پڑھتے تھے ہو سکتا ہے؟ امام ابن جریر رح فرماتے ہیں کہ میں اس قرات کو جائز نہیں رکھتا اگرچہ عربیت کی بنا پر احسان رب کو تمام کرنے کے لیے یہ اللہ کی کتاب ان پر نازل ہوئی ۔
ان دونوں کے مطلب میں کوئی تفاوت نہیں ۔
پھر تورات کی تعریف بیان فرمائی کہ اس میں ہر حکم بہ تفصیل ہے اور وہ ہدایت و رحمت ہے تا کہ لوگ قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لیں ۔
پھر قرآن کریم کی اتباع کی رغبت دلاتا ہے اس میں غورو فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیتا ہے برکت سے اس کا وصف بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس پر کار بند ہو جائے وہ دونوں جہاں کی برکتیں حاصل کرے گا اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف کی مضبوط رسی ہے۔
و ما علینا الا البلاغ المبین
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
اَنْ تَقُوْلُـوٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتَابُ عَلٰى طَـآئِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَاۖ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِـهِـمْ لَغَافِلِيْنَ ○
سورت الانعام آیت (156)
ترجمہ ۔
تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہم سے پہلے دو فرقوں (یہود و نصارٰی) پر کتاب نازل ہوئی تھی، اور ہم تو ان کے پڑھنے پڑھانے سے بے خبر تھے○۔
اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّـآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّـآ اَهْدٰى مِنْـهُـمْ ۚ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَيِّنَـةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْـمَةٌ ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ وَصَدَفَ عَنْـهَا ۗ سَنَجْزِى الَّـذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيَاتِنَا سُوٓءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُـوْا يَصْدِفُوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (157)
ترجمہ ۔
یا یہ کہو کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی جاتی تو ہم ان سے بہتر راہ پر چلتے، سو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح کتاب اور ہدایت اور رحمت آ چکی ہے، اب اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے، جو لوگ ہماری آیتوں سے منہ موڑتے ہیں ہم انہیں ان کے منہ موڑنے کے باعث برے عذاب کی سزا دیں گے○۔
تشریح و تفسیر ۔
عنوان بد ترین لوگ جو دوسروں کو نیکی سے روکیں ۔
فرمان ہے کہ اس آخری کتاب نے تمہارے تمام عذر ختم کر دئیے ہیں جیسے فرمان ہے سورت القصص میں((و لولا ان تصیبھم مصیبتہ))الخ،
یعنی اگر ان کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ تونے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے فرمان کو مانتے ۔
اگلی دو جماعتوں سے مراد یہود و نصاری ہیں۔
اگر یہ عربی زبان کا قرآن نہ اترتا تو یہ عذر کر دیتے کہ ہم پر تو ہماری زبان میں کوئی کتاب نہیں اتری ہم اللہ کے فرمان سے بالکل غافل رہے پھر ہمیں سزا کیوں ہو؟؟؟؟
یہ عذر باقی نہ رہا یہ کہ اگر ہم پر آسمانی کتاب اترتی تو ہم اگلوں سے آگے نکل جاتے اور خوب نیکیاں کماتے ۔
جیسے فرمان ہے سورت فاطر میں((و اقسموا باللہ جھد ایمانھم))الخ،
یعنی موکد قسم کھا کھا کر لاف زنی کرتے تھے کہ یہ ہم میں اگر کوئی نبی آ جائے تو ہم ہدایت کو مان لیں گے اللہ تعالی فرماتا ہے اب تو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ہدایت و رحمت بھرا قرآن مجید بزبان رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم آ چکا ہے جس میں حرام و حلال کا بخوبی بیان ہے ۔
اب تم ہی بتاو کہ جس کے پاس اللہ کی آیات آ جائیں اور وہ انہیں جھٹلائے ان سے فائدہ نہ اٹھائے نہ عمل کرے نہ یقین لائے نہ نیکی کرے نہ بدی چھوڑے نہ خود مانے نہ اوروں کو ماننے دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ ؟؟
اسی سورت کے شروع میں فرمایا ہے((و ھم ینھون عنہ و ینئون عنہ))(سورت الانعام ))
خود اس کے مخالف اور اوروں کو بھی اسے ماننے سے روکتے ہیں اصل میں یہ لوگ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں جیسے کہ سوت النخل میں((ان الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ ))الخ،
یعنی جو لوگ خود کفر کرتے ہیں اور وہ راہ الہی سے روکتے ہیں انہیں ہم عذاب بڑھاتے رہیں گے ۔
پس یہ لوگ ہیں جو نہ مانتے تھے نہ فرمانبردار ہوتے تھے ۔
جیسے سورت القیامہ میں((فلا صدق و لا صلی○ولکن کذب و تولی))
یعنی نہ تو مانا نہ نماز پڑھی بلکہ نہ مان کر منہ پھیر لیا ۔
ان دونوں آیات میں پہلی کی تفسیر بہت اچھی ہے یعنی خود بھی انکار کیا اور دوسروں کو بھی انکار پر آمادہ کیا ۔
و ما علینا الا البلاغ المبین ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَـهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ اَوْ يَاْتِىَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِىَ بَعْضُ اٰيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَاْتِىْ بَعْضُ اٰيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُـهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِىٓ اِيْمَانِـهَا خَيْـرًا ۗ قُلِ انْتَظِرُوٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ○
سورت الانعام آیت (158)
ترجمہ ۔
یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا رب آئے یا تیرے رب کی کوئی نشانی آئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی تو کسی ایسے شخص کا ایمان کام نہ آئے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے ایمان لانے کے بعد کوئی نیک کام نہ کیا ہو، کہہ دو کہ انتظار کرو ہم بھی انتظار کرنے والے ہیں۔○
ترجمہ و تفسیر ۔
عنوان قیامت کی بڑی علامتوں کا ظہور اور توبہ کا انقطاع
اللہ تعالی کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کو جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے ؟؟؟
جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی۔
یا انہیں قیامت کی بڑی بڑی نشانیوں کے ظاہر ہونے کا انتظار ہے؟
وہ بھی وقت ہو گا جب ایمان بھی بے سود ہو گا اور توبہ بے کار ۔
بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہیں نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت ایمان محض بے سود ہے ۔
پھر آپ نے یہی آیت پڑھی((صحیح بخاری کتاب التفسیر ))
اور حدیث میں ہے جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بے ایمان کو ان کا ایمان لانا خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہو گا ۔
سورج کا مغرب سے نکلنا، دجال کا آنا، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا((صحیح مسلم 158۔ترمذی کتاب التفسیر القرآن ۔تفسیر ابن جریر ))
ایک حدیث میں اور روایت ہے اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے((صحیح مسلم ))۔
اور حدیث میں ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اسکی توبہ مقبول ہے((صحیح مسلم ۔مسند احمد ))
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جانتے ہو یہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے جواب دیا کہ نہیں فرمایا عرش کے قریب جا کر سجدہ میں گر جاتا ہے اور ٹھہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اجازت ملے اور کہا جائے لوٹ جا قریب ہے کہ ایک دن اس سے کہہ دیا جائے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا یہی وقت ہو گا کہ ایمان لانا بے سود ہو جائے گا ۔((صحیح بخاری کتاب بدء الخلق ۔صحیح مسلم کتاب الایمان ۔ترمذی کتاب الفتن))
ایک مرتبہ لوگ قیامت کی نشانیوں کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور فرمانے لگے قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو گے ۔
سورج کا مغرب سے نکلنا، دھواں، دابتہ الارض، یاجوج ماجوج کا آنا حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کا آنا اور دجال کا نکلنا، مشرق، مغرب، اور جزیرہ عرب میں تین جگہ زمین کا دھنس جانا اور عدن کے درمیان سے ایک زبردست آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانک لے جائے گی رات دن ان کے پیچھے ہی پیچھے رہے گی۔((صحیح مسلم ))
ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت کے اس جملے کو تلاوت فرما کر اس کی تفسیر میں سورج کا مغرب سے نکلنا بھی فرمایا ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے مغرب کی طرف ایک بڑا دروازہ کھول رکھا ہے جس کا عرض ستر سال کا ہے یہ توبہ کا دروازہ ہے یہ بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے((حسن ترمذی شیخ البانی رح نے اسے حسن کہا ہے))
ایک اور روایت میں ہے تین مسلمان شخص مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مروان ان سے کہہ رہے تھے کہ سب سے پہلی نشانی دجال ہے دجال کا خروج یہ سن کر لوگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے پاس گئے اور بیان کیا آپ نے فرمایا اس نے کچھ نہیں کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان محفوظ ہے کہ سب سے پہلے پہلی نشانی سورج کا مغرب سے نکلنا ہے اور دابتہ الارض کا دن چڑھے ظاہر ہونا ہے۔
ان دونوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو اسی کے بعد دوسری ظاہر ہو گی حضرت عبداللہ کتاب پڑھتے جاتے تھے فرمایا میرا خیال ہے کہ پہلے سورج کا نشان ظاہر ہو گا وہ غروب ہوتے ہی عرش تلے چلا جاتا ہے اور سجدہ طلب کر کے اجازت مانگتا ہے اجازت مل جاتی جب معشیت ایزدی سے مغرب سے ہی نکلنا ہوا تو اس بار بار کی اجازت طلبی پر جواب نہ ملے گا رات کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو گا اور یہ سمجھ لے گا کہ اب اگر اجازت ملی بھی تو مشرق میں نہیں پہنچ سکتا تو کہے گا کہ یا اللہ دنیا کو سخت تکلیف ہو گی تو اس سے کہا جائے گا یہیں سے
طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے ہی نکل آئے گا ۔
پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی) (صحیح مسند ۔صحیح مسلم کتاب الفتن ۔ابن ماجہ کتاب الفتن ۔ابو داؤد کتاب الملاحم))۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہجرت منقطع نہیں ہو گی جب تک دشمن برسرپیکار رہے۔
ہجرت کی دو اقسام ہیں ایک تو گناہوں کو چھوڑنا دوسرے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ترک وطن کر کے جانا یہ بھی باقی رہے گی جب تک کہ توبہ قبول ہوتی ہے اور توبہ قبول ہوتی رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے ۔
سورج کے مغرب سے نکلتے ہی پھر جو کچھ جس کے دل میں ہے اسی پر مہر لگ جائے گی اور اعمال بے سود ہو جائیں گے) (حسن مسند احمد ۔شیخ البانی رح نے اسے حسن کہا ہے؟؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں قیامت کی پہلی نشانی کے ساتھ ہی اعمال کا خاتمہ ہے اس دن کسی کافر کا مسلمان ہونا بے سود ہو گا۔
ہاں مومن جو اس سے پہلے نیک اعمال والا ہو گا وہ بہتری میں رہے گا اور جو نیک اعمال بھی اس نشان عظیم کو دیکھ لینے کے بعد کام نہ آئیں گے ۔
پھر کافروں کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اچھا تم انتظار میں ہی رہو تا آنکہ توبہ کے اور ایمان کے قبول نہ ہونے کا وقت آ جائے ۔
اور قیامت کے زبردست آثار ظاہر ہو جائیں جیسے سورت محمد کی آیت میں ہے((فھل ینظرون الا الساعتہ))الخ،
قیامت کے اچانک آ جانے کا ہی انتظار ہےاس کی بھی علامات ظاہر ہو چکی ہیں اس کے آ چکنے کے بعد نصیحت کا وقت کہاں؟ ؟
اور سورت غافر کی آیت میں ہے((فلما راوا باسنا))
ہمارے عذابوں کا مشاہدہ کر لینے کے بعد کا ایمان اور شرک سے انکار بے سود ہے ۔

اللہ تعالی ہم سب کا خاتمہ ایمان کی حالت میں کرے اور ہم سے راضی ہوجائے آمین ۔
و ما علینا الا البلاغ المبین
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
اِنَّ الَّـذِيْنَ فَرَّقُـوْا دِيْنَـهُـمْ وَكَانُـوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْـهُـمْ فِىْ شَىْءٍ ۚ اِنَّمَآ اَمْرُهُـمْ اِلَى اللّـٰهِ ثُـمَّ يُنَبِّئُهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَفْعَلُوْنَ ○
سورت الانعام آیت نمبر (159)
ترجمہ ۔
جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی جماعتیں بن گئے تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہی انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کرتے تھے○۔
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَـةِ فَلَـهٝ عَشْـرُ اَمْثَالِـهَا ۖ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَـةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَـهَا وَهُـمْ لَا يُظْلَمُوْنَ○ (160)
جو کوئی ایک نیکی کرے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی کرے گا سو اسے اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا○۔
تشریح و تفسیر ۔
عنوان تفرقہ ڈالنے والے گمراہ لوگ ۔
کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود و نصاری کے بارے اتری ہے ۔
یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے سخت اختلافات میں تھے جن کی خبر یہاں دی جا رہی ہے((تفسیر ابن جریر الطبری))
ایک حدیث میں ہے((شئی ء))تک اس آیت کی تلاوت فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تجھ سے کوئی میل نہیں رکھتے ۔
یہ اس امت کے اہل بدعت شک و شبہ والے اور گمراہی والے ہیں((تفسیر ابن جریر الطبری))
اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے ۔
یعنی ممکن ہے کہ یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہو۔
ابو امامہ رح فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں((الدر المنثور للسیوطی۔تفسیر ابن حاتم۔اس میں ابو غالب ضعیف ہے ۔))
یہ ایک عام آیت ہے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مخالفت کرے اور اس میں پھوٹ افتراق پیدا کرے گمراہی اور خواہش پرستی کی پیروی کرے نیا دین اختیار کرے نیا مذہب قبول کرے وہی وعید میں داخل ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس حق کو لے کر آئے ہیں وہ ایک ہی ہے کئی ایک نہیں ۔
اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرقہ بندی سے بچایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اس لعنت سے محفوظ رکھا ہے ۔
اسی مضمون کی دوسری آیت((شرع لکم من الدین))سورہ الشوری))الخ، ہے۔
ایک حدیث میں بھی ہے کہ ہم جماعت انبیاء علاتی بھائی ہیں ۔
ہم سب کا دین ایک ہی ہے((صحیح بخاری کتاب الاحادیث الانبیاء۔صحیح مسلم کتاب الفضائل ))
پس صراط مستقیم اور دین پسندیدہ اللہ کی توحید اور رسولوں کی اتباع ہے اس کے خلاف جو ہو ضلالت جہالت رائے خواہش اور بد دینی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیزار ہیں ان کا معاملہ سپرد اللہ ہے وہی انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کرے گا جیسے آیات میں ہے کہ مومنوں یہودیوں صابیوں نصرانیوں مجوسیوں اور مشرکوں میں اللہ خود قیامت کے دن فیصلے کر دے گا((سورہ الحج))۔
اس کے بعد اپنے احسان حکم اور عدل کا بیان فرماتا ہے ۔
عنواننیکی کا بدلہ دس گناہ ۔
ایک اور آیت میں مجملا یہ آیا ہے کہ((فلہ خیر منھا))جو نیکی لائے اس کے لیے اس سے بہتر بدلہ ہے ۔
اسی آیت کے مطابق بہت سی حدیثیں وارد ہوتی ہیں ایک میں تمہارا رب عز وجل بہت بڑا رحیم ہے نیکی کے صرف قصد پر نیکی کے کرنے کا ثواب عطا فرما دیتا ہے اور ایک نیکی کے کرنے پر دس سے ساٹھ تک بڑھا دیتا ہے اور بھی بہت زیادہ اور بہت زیادہ ۔
اور اگر برائی کا قصد ہوا پھر نہ کر سکا تو بھی نیکی ملتی ہے اور اگر اس برائی کو کر لے تو ایک ہی برائی لکھی جائے جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ اللہ معاف ہی فرما دے اور بالکل ہی مٹا دے سچ تو یہ بے کہ ہلاکت والے ہی اللہ کے ہاں ہلاک ہوتے ہیں((صحیح بخاری کتاب الرقاق۔صحیح مسلم کتاب الایمان ))
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ نیکی کرنے والے کو دس گناہ ثواب ہے اور پھر بھی میں زیادہ کر دیتا ہوں اور برائی کرنے والے کو اکہرا عذاب ہے اور میں معاف بھی کر دیتا ہوں زمین بھر کر جو شخص خطائیں لے آئے اگر اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا تو میں اتنی ہی رحمت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۔
جو میری طرف بالشت بھر کر آئے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو میری طرف ایک ہاتھ آئے میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو میری طرف چلتا ہوا آئے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا جاتا ہوں ۔((صحیح مسلم کتاب الدعوات۔ابن ماجہ ۔مسند احمد ))
اس سے پہلے گزری ہوئی حدیث کی طرح ایک اور حدیث بھی ہے اس میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ برائی کا ارادہ کر کے پھر اسے چھوڑ دینے والے کو بھی نیکی ملتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے چنانچہ بعض روایات میں تشریح آ بھی چکی ہے ۔
دوسری صورت چھوڑ دینے کی یہ ہے کہ اسے یاد ہی نہ رہے بھول بسر جائے تو اسے نہ تو ثواب ہے نہ عذاب کیوں اس نے اللہ سے ڈر کر نیک نیتی سے اسے ترک نہیں کیا اور اگر بد نیتی سے اس نے کوشش بھی کی اسے پوری طرح کرنا بھی چاہا لیکن عاجز ہو گیا کر نہ سکا،
موقعہ ہی نہ ملا اسباب ہی نہ بنے تھک کر بیٹھ گیا۔ تو اس شخص کو اس کی برائی کرنے کے برابر گناہ ہوتا ہے ۔
چنانچہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے سے جنگ کریں تو جو مار ڈالے اور جو مارا جائے دونوں جہنمی ہیں لوگوں نے کہا مار ڈالنے والا تو خیر لیکن جو مارا گیا وہ جہنم میں کیوں جائے گا؟ ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں کہ وہ بھی دوسرے کو مارنے کا آرزو مند تھا((صحیح بخاری کتاب الایمان ۔صحیح مسلم کتاب الفتن ۔مسند احمد ۔نسائی کتاب تحریم الدم ))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ چار قسم ہیں اور اعمال کی چھ قسمیں ہیں ۔
بعض لوگ تو وہ ہیں جنہیں دنیا میں آخرت میں وسعت کشادگی دی جاتی ہے بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں کشادگی ہوتی ہے اور آخرت میں تنگی بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں تنگی رہتی ہے اور آخرت میں انہیں کشادگی ہوتی ہے اور بعض وہ ہیں جنہیں دونوں جہاں میں بد بخت رہتے ہیں یہاں بھی اور وہاں بھی بے آبرو رہتے ہیں ۔
اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں دو قسمیں تو ثواب واجب کر دینے والی ہیں ایک برابر کا،ایک دس گناہ اور ایک سات سو گنا واجب کر دینے والی،دو چیزیں وہ ہیں جو شخص اسلام و ایمان پر مرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو اس کے لیے جنت واجب ہے اور کفر پر مرے اس کے لیے جہنم واجب ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرے گو کی نہ ہو اسے ایک نیکی ملتی ہے اس لئے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل نے اسے سمجھا اس کی حرص کی اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اس کے ذمہ گناہ نہیں لکھا جاتا اور جو گزر گزرے اسے ایک ہی گناہ ہوتا ہے اور وہ بڑھتا نہیں ہے اور جو نیکی کا کرے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو راہ اللہ عز وجل میں خرچ کرے اسے سات سو گنا ملتا ہے((مسند احمد ))((ترمذی ))فرمان ہے کہ جمعہ میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں ایک وہ جو وہاں لغو کرتا ہے اس کے حصے میں تو لغو ہے۔
ایک دعا کرتا ہے اسے اللہ اگر چاہے دے چاہے نہ دے ۔
تیسرا وہ شخص ہے جو سکوت اور خاموشی کے ساتھ خطبہ میں بیٹھا ہے کسی مسلمان کی گردن پھلانگ کر مسجد میں آگے نہیں بڑھتا، نہ کسی کو ایذا دیتا ہے اس کا جمعہ اگلے جمعہ تک کفارہ ہوتا ہے اس کے گناہوں کا بلکہ اور تین دن تک کے مسلسل گناہوں کا بھی اس لئے کہ وعدہ الہی میں ہے((من جاء بالحسنتہ فلہ عشر امثالھا))جو نیکی کرے اسے دس گناہ اجر ملتا ہے((حسن ابو داؤد کتاب الصلوۃ ۔شیخ البانی رح نے اسے حسن کہا ہے))
ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور سلف کی ایک جماعت سے بھی منقول ہے کہ اس آیت میں حسنہ سے مراد کلمہ توحید ہے اور سیہ سے مراد شرک ہے ۔((صحیح ترمذی ))۔ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے لیکن اس کی کوی صحیح سند نہیں ملی مجھے ۔
ایک حدیث میں ہے جو شخص مہینے میں تین روزے رکھے اسے سال بھر کے روزوں کا یعنی تمام عمر سارا زمانہ روزے سے رہنے کا ثواب ملتا ہے ۔
اس کی تصدیق کتاب اللہ میں موجود ہے کہ ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابر ایک دن کے روزے کا ثواب دس روزوں کا ملتا ہے((صحیح ترمذی ۔کتاب الصوم ۔نسائی کتاب الصیام شیخ البانی رح نے اسے صحیح کہا ہے ۔صحیح ابن ماجہ شیخ عبد الرزاق مہدی نے بھی اسے صحیح کہا ہے ۔
و ما علینا الا البلاغ المبین ۔
 
Top