• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۃ اخلاص از شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تماثل اجسام و جواہر منفردہ
جو لوگ کہتے ہیں کہ اجسام جواہر منفردہ سے مرکب ہیں، ان کا یہ قول مشہور ہے کہ جواہر متماثل ہیں۔ بلکہ مسلمانوں میں سے اکثر کہتے ہیں کہ اجسام بھی متماثل ہیں، کیونکہ وہ جوہر متماثلہ سے مرکب ہیں اور اگر ان میں اختلاف ہے تو وہ اختلاف اعراض کی وجہ سے ہے اور یہ صفات چونکہ عارض ہیں لازم نہیں ہیں، اس لئے وہ تماثل کی نفی نہیں کرسکتیں، تماثل کی تعریف یہ ہے کہ دوتماثل اشیاء میں سے کسی ایک کے متعلق جو بات جائز ہو وہ دوسری کے متعلق بھی جائز ہو، ایک کے لئے جو چیز واجب ہو، وہ دوسری کے لئے بھی واجب ہو۔ اورایک پر جو چیز ممتنع ہو وہ دوسری پر بھی ممتنع ہو۔ اب چونکہ اجسام جواہر سے بنے ہیں، اس لئے اگر ایک جسم کے لئے کوئی حکم ثابت ہو جائے تو لوگ تماثل کی بناء پر کہتے ہیں کہ یہ حکم جمیع اجسام کے لئے ثابت ہے۔
اکثر عقلاء اس سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بعض بلند پایہ اور بلند خصال اصحاب نے ان دلیلوں کا ابطال بھی کیا ہے جو تماثل کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ چنانچہ رازی اور آمدی وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی نسبت متعدد مقامات پر شرح و بسط کے ساتھ بحث کی جا چکی ہے۔
اشعری نے کتاب ''الابانہ '' میں تماثل اجسام کے قول کو معتزلہ اجسام کے قول کو معتزلہ کے ان اقوال میں شمار کیا ہے جوان کے نزدیک غلط ہیں۔ یہ لوگ جہمیہ با قدرہ کے اصول پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محض مشیئت سے دو متماثل اجسام میں سے ایک کو بعض اعراض سے مختص کرتا ہے اور دوسرے کو نہیں کرتا۔ جنسوں کا بدل جانا محال ہے۔ کوئی جسم عرضًا وجنسًا دوسری جنس میں منقلب نہیں ہو سکتا، اگر یہ کہیں کہ اجسام مخلوق ہیں اور مخلوق دوسری جنس سے منقلب ہوتی ہے تو جنسوں کا انقلاب لازم آتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچہ جو رحم سے پیدا ہوتا ہے، میوہ جو درخت سے حاصل ہوتا ہے، اور آگ جو چقماق سے نکلتی ہے، یہ سب چیزیں جواہر ہیں جو اس مادہ میں موجود تھے جن سے یہ چیزیں پیدا ہوئیں۔ اور یہ جواہر بعینہٖ باقی ہیں۔ صرف اجتماع، افتراق، حرکت اور سکون سے ان کی صفات میں تغیر پیدا ہو گیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اثبات صانع کے دلائل
چنانچہ ابو عبداللہ الرازی نے اثبات صانع کے دلائل بیان کرتے ہو ئے چار طریقے بیان کئے ہیں۔ ذاتوں کا حدوث، صفات کا امکان، اور صفات کا حدوث، پہلے تین طریقے ضعیف بلکہ باطل ہیں، کیونکہ جن ذاتوں کے حدوث یا امکان یا ان کے صفات کے امکان کا مجملاً ذکر کیا گیا ہے، ان میں خالق ومخلوق کی تمیز نہیں کی گئی۔
چوتھا طریق حدوث اشیاء معلومۃ الحدوث ہے اور یہ طریق صحیح ہے قرآن نے یہی طریق اختیار کیا ہے لیکن ان لوگوں نے اس طریق میں بھی بدرجہ غایت کوتاہی کی ہے۔ انھوں نے اپنے اصل (قدم عالم) کے مطابق حدوث ذات کی شہادت نہیں دی، بلکہ حدوث و صفات ہی پر اپنے سارے استدلال کی بنیاد رکھی ہے۔
اور قرآن کریم کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے مخلوق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا نشان ہے، قرآن کریم میں براہین وآیات موجود ہیں۔ فلاسفہ ومتکلمین ان کے ادراک سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ اور اگر کہیں حق و صواب نے ان کا ساتھ دیا بھی ہے تو وہ ان دلائل کا محض ایک جزو ہے جو قرآن کریم نے متعدد مقامات پر پیش کئے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کیفیت معاد
اس مقام پر ہمیں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان لوگوں کے نزدیک ابتدائے مخلوقات کی بنیاد جوہر فرد ہے تو معاد (محشر) کی بنیاد بھی لامحالہ یہی ہونی چا ہئے۔ چنانچہ اس مقام پران کی دو جماعتیں بن گئیں۔​
ایک جماعت کا قول ہے کہ جواہر معدوم ہو جاتے ہیں اور پھر دوبارہ پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ اجزاء متفرق ہو جاتے ہیں اور پھر ازسرنو ان کا اجتماع ہو تا ہے۔
اس قول پر یہ اعتراض وارد ہو تاہے کہ ایک انسان کو ایک حیوان کھالیتا ہے۔ اور پھر اس حیوان کو کوئی دوسرا انسان کھالیتا ہے، اگر اس انسان کے اجزاء دوبارہ پیدا ہو ں تو وہ اس کے اجزاء تو شمار نہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ انسان کے اجزاء ہمیشہ تحلیل ہوتے رہتے ہیں۔ پھر جو انسان دوبارہ پیدا ہوتا ہے، کیا اس کی شکل وہ ہوتی ہے جس سے وہ بوقت مرگ متشکل تھا؟ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو یہ لازم ہے کہ معاد ضعیف صورت پر ہوگا، حالانکہ نصوص اس کے خلاف ہیںا ور اگر نشور اس حالت میں نہ ہو بلکہ کسی اور حالت میں ہو تو پھر یہ اعتراض وارد ہو گا کہ بعض اجسام دیگر اجسام سے بہتر نہ ہوں گے۔
بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انسان میں بعض اجزاء ایسے ہوتے ہیں جن کی تحلیل نہیں ہوتی اور ان اجزاء میں اس حیوان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا جو دوسرے کا لقمہ تر بن گیا ہو۔ حالانکہ جمیع عقلاء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ انسان کا سارا بدن تحلیل ہوتا ہے اور اس کا کوئی حصہ عمل تحلیل سے مستثنیٰ نہیں رہتا۔ ان لوگوں نے حقیقت معاد کے باب میں جو کچھ کہا اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معا دابدان کے متعلق فلاسفہ کے شبہات کو اور بھی تقویت پہنچ گئی اور وہ انکار معاد کی طرف زیادہ مائل ہو گئے۔ متکلمین کی ایک جماعت پیدا ہوگئی جو یہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ دوسرا بدن پیدا کرتا ہے اور روح لوٹ کر اس نئے جسم میں آجاتی ہے اور مقصود بھی صرف روح کو عذاب دینا یا راحت پہنچا نا ہوتا ہے بدن یہ ہو یا کوئی اور، اس کا مضائقہ نہیں۔
یہ قول بھی ان نصوص صریحہ کے مخالف ہے جن میں اسی بدن کا اعادہ ہے۔ یہ عقیدہ رازی کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اور اس جیسے دوسرے مصنفین کی کتابوں میں اصول دین کے بڑے بڑے مسائل کے متعلق صحیح قول موجود نہیں ہے جو عقل و نقل کے موافق یعنی شریعت نبوی ﷺ اور عقائد سلف صالحین و آئمہ کرام کی بحثوں سے لبریز ہیں جنہوں نے خلق، بعث، مبدا اور کی مسائل میں جہمیہ وقدریہ کے اصول کی پیروی کی ہے، اور یہ دونوں طریقے فاسد ہیں کیونکہ ان کی بناء فاسد مقدمات پر ہے۔
سلف صالحین اور جمہور عقلاء کہتے ہیں کہ اجسام ایک حالت سے دوسری حالت میں منقلب ہوتے رہتے ہیں، وہ فلاسفہ اور اطباء سے بھی یہی منقول کرتے ہیں، اور سلف صالحین جمیع فقہا نے اس بات پر بحث کی ہے کہ تغیر حالت سے ناپاک نجاست پاک ہو جاتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ تعالیٰ منی کو رحم میں خون بستہ کی صورت میں اور اس کے بعد لوتھڑے کی صورت میں تبدیل کرتا ہے۔ درخت سے رطوبتیں خارج کرکے ہو ااور پانی وغیرہ مواد کو ملا کر اپنی مشیئت و قدر ت سے میوہ پیدا کرتا ہے۔ بیچ کے ایک دانے کو چیر کر اس سے مواد نکالتا ہے جن سے خوشہ اور درخت وغیرہ پیدا کرتا ہے۔ جب کبھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرتا ہے تو وہ اسی طرح پیدا کرتا ہے، آدم علیہ السلام کو کیچڑ سے پیدا کیا۔ کیچڑ کی اصلیت کو گوشت آنتوں وغیرہ اجزائے بدن کی صورت میں تبدیل کر دیا۔ لوتھڑے کی صورت بدل کر ہڈی اور اس کے علاوہ دیگر اجزائے بدن بنائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلْلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنًا الْعَلَقَۃَ مُضَغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃً عِظَامًا فَکَسَرْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ثُمَّ اِنَّکُمُ بَعَدَ ذٰ لِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تُبَعَثُوْنَ۔ (پارہ :18۔ع : 1)
پھر ہم نے اسے بنا کر ایک محفوظ مقام پر ٹھہرا دیا پھر نطفے کو خون بستہ کی صورت دی اور خون بستہ سے لوتھڑا بنایا پھر ہم ہی نے لوتھڑے سے ہڈیا ں بنائیں اور ان ہڈیوں کو گوشت کی پوشش عطا کی پھر ہم نے اسے ایک اور ہی مخلوق بنادیا۔ اللہ بڑا برکت والا ہے، جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔ اے لوگو اس کے بعد تمہیں مرنا ہے اور پھر قیامت کے دن اٹھنا ہے۔
چقماق کے بعض اجزاء آگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ ناَرًا۔ (پارہ: 23 ۔ع:4)
(اللہ) وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی۔
خود ان اجزاء سے جو شجر اخضر سے نکلے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آگ بنائی ہے۔ یہ نہیں کہ شجر اخضر میں دراصل آگ موجود تھی۔ درخت میں دراصل کوئی میوہ موجود نہ تھا اور نہ عورت کے پیٹ میں فی الحقیقت کسی بچے کا وجود تھا، بلکہ یہ وجود ایک اور مادہ سے پیدا ہوا جو پہلی حالت سے تبدیل ہو کر اور بعض دیگر مواد سے مل کر ایک نئی چیزبن گیا جب یہ سب وجود کہنہ و بوسیدہ ہو جائے گا اور صرف ریڑھ کی ہڈی کے آخری حصے میں رمق حیات باقی ہو گی تو اس کو اسی طرح ازسرنو پیدا کیا جائے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ سے حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ ابن آدم علیہ السلام کا سارا وجود کہنہ ہو جائے گا، لیکن ریڑھ کی ہڈی کا آخری حصہ (عجب الذنب) زندہ رہے گا۔ ابن آدم اسی سے پیدا ہو اور اسی سے اٹھایا جائے گا۔ انسان جب دوسری مرتبہ اٹھایا جائے گا، تو اس کی وہ نشانیہ اس زندگی کی طرح نہ ہو گی، کیونکہ یہ ہستی فاسد ہے اور وہ فاسد نہیں بلکہ باقی اور دائم ہو گی، اہل جنت سے فاسد فضلے بھی خارج نہیں ہوں گے۔
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اہل جنت نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ پھریں گے۔ نہ تھوکیں گے اور نہ ناک جھاڑیں گے۔ صرف یہ ہو گا کہ کستوری کی طرح کا فضلہ ان سے جھڑے گا۔
بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ برہنہ پاؤں عریاں اور بغیر ختنہ اٹھیں گے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔
کما بدانا اول خلق نعیدہ وعذابا علینا انا کنا فاعلین ۔(پارہ:1:ع :7)
جس طرح ہم نے پہلے مخلوقات کی ابتدا کی اسی طرح ہم اسے دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ وعدہ ہم نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے اوراس کو ہم ضرور پورا کریں گے۔
اس سے معلوم ہو ا کہ انسان دوبارہ پیدا ہونے کے وقت مغلوب اور عیر مختون ہونگے۔
حسن بصری اور مجاہد نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے کہ جس طرح دنیا میں پیدا ہونے کے قبل تم کچھ نہیں تھے اور پیدا کر دیے گئے تھے، اسی طرح قیامت کی دن تم زندہ لوٹائے جاؤ گے۔
قتادہ کا قول ہے کہ مٹی سے انسان کی ابتداء ہوئی ہے اور اسی کی طرف اس کولوٹنا ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیُْدُکُمْ وَ مِنْھَامُجْرُ حَکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی ۔(پارہ: 16:ع :12)
ہم نے اسی سے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو دوبارہ بھیجیں گے اور اسی سے ایک مرتبہ اور تمہیں نکالیں گے۔
نیز فرمایا:
فِیْھَا مَّحْیَوْنَ وَ فِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْھَا تُخْرِجُونْ۔ (پارہ:8۔ع:9)
اس میں زندہ رہو گے اوراس میں مروگے اور اسی سے نکالے جاؤگے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے لوگوں کی نشاۃ ثانیہ کو کئی مقامات پر زمین کے مردہ ہو کر دوبارہ زندہ ہو جانے سے تشبیہ دی ہے:
وَھُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰعَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحُمَتِہٖ حَتٰی اِذَااَقَلَّتْ سَحَابًا لِفَالًا سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْذَلْنَا بِہِ الْمَاَء فَاَخُرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الَثَمَرَاتِ کَذَالِکَ نُخْرِجُ الْمُوْتٰی لَعَّلَکُمْ تَذَکَرُوُنَ۔
اور وہ اللہ تعالیٰ جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری دینے کے لئے بھیجتا ہے حتی کہ وہ بوجھل بادل کو لے اڑتی ہیں اور ہم اسے کسی مردہ علاقے کی طرف روانہ کر دیتے ہیں اوراس میں سے اس علاقے پر پانی نازل کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر طرح کے میوہ جات پیدا ہوتے ہیں ہم مردوں کو بھی اسی طرح زندہ کریں گے۔ یہ تمثیلات اس لئے بیان کی جاتی ہیں کہ تم نصیحت حاصل کرو گے۔
وَالْاَرْضَ مَدَدَ نٰھَا وَاَلْقََیْنَا فِھَارَوَاسِیَ وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجٍ بَھِیْجٍ تَبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ وَّنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مآئً اقُبَاَرًکَا نَاَنْبَّلَّنَا جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْعَصِیْد وَالنَّخْلَ نَاسِقٰتِ لَّھَا طَلَعٌ نَّضِیْدُ رِّزْقًا لِلْعِبَادِ وَاَحْیَیْنَا بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذَالِکَ الْخَرُوْجَ۔ (پارہ:26۔ع:15)
اور ہم نے زمین کو پھیلادیا اور اس میں پہاڑڈال دیئے اور اس میں ہم نے ہر قسم کی اچھی روئیدگی اُگادی اس لئے کہ جو بندہ ہماری طرف رجوع کرنا چاہتا ہے اس کے لئے باتیں سامان بصیرت و تذکرہ بن سکیں ہم نے آسمان سے مبارک پانی نازل کیا اور اسکے ذریعہ باغ اگائے اناج پیدا کیا کھجور کے بلند قامت درخت پیداکیے جن کے گچھے خوب گھتے ہوئے ہوتے ہیں۔ بندوں کے لئے یہ سب چیزیں روزی کا باعث ہیںاور ہم نے اسی پانی کے ذریعے سے مردہ علاقے کوزندہ کردیا اور مردوں کا دوبارہ زندہ کرنابھی اسی طرح ہو گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَيْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ۰ۭ وَنُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَاءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ۰ وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَـيْــــًٔا۰ۭ وَتَرَى الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِيْجٍ۵
اے لوگو اگر تمہیں دوبارہ پیداہونے میں شک ہے تو اس بات کی طرف توجہ کرو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے نطفہ ،نطفہ سے خون بستہ اور خون بستہ سے پورا بنا ہو اور ادھورا بنا ہو ا لوتھڑا بنایاتا کہ ہم تمہارے سامنے اپنی قدرت کا ثبوت پیش کریں اور ایک معین مدت تک ہم رحموں میں جو کچھ چاہتے ہیں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں پھر یہاں تک تربیت کرتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے بعض معمولی عمر سے پہلے مر جاتے ہیںاور بعض نہایت نکمی عمر (بڑھاپے ) کی طرف لوٹا کر لائے جاتے ہیں کہ جاننے بوجھنے کے بعد پھر وقوف وشعور رخصت ہوجاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ زمین بے حس ہوتی ہے لیکن جب ہم اس پر پانی نازل کرتے ہیں ،تو وہ ابھرنے اور بڑھنے لگتی ہے اور سب باتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ برحق ہے ہو مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
اَﷲُ الَّذِیْ اَرْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُشِیْرُ سَحَابًا فَیُقْنَاہُ اِلٰیبَلَدٍ مَّبِّتٍ نَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَ رْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا کَذَالِکَ النُّّّّّشُوْرُ۔(پارہ:22۔ع:14)
اللہ تعالیٰ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے اور وہ بادل کو پھیلاتی ہیں اور ہم اسے ایک مردہ علاقے کی طرف روانہ کردیتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کردیتے ہیں انسانوں کا دوبارہ زندہ ہونا بھی ایسا ہی ہو گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ سبحانہ و تعالیٰ جہاں اس بات کی خبر دیتا ہے کہ وہ مخلوق کو دوبارہ پیدا کریگا اور بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا ،اور وہ ایک مرتبہ لوگوں کو زمین سے نکالے گا ،وہاں یہ بھی بتلاتا ہے کہ معاد ہی مبدا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
وَھُوَالَّذِیْ یَبْدَاُ لْخَلْقَ لُمَّ یُعِیْدُہٗ ۔(پارہ:21۔ع:6)
اور وہ اللہ تعالیٰ جو مخلوقات کی ابتداء کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرے گا۔
نیز وہ خبر دیتا ہے کہ معاذمبداکی طرح ہے :
وَقَالُوْائَ اِذَاکُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا اَئِنَّالِمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًااَوَلَمْ یَرَوْااَنَّ اﷲَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمُ وَجَعَلَ لَھُمْ اَجَاًا لَّارَیْبَ فِیْہِ۔(پارہ:15۔ع:11)
اور کہتے ہیں کہ آیا جب ہم ہڈیوں اورریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو پھر ازسرنو پیداہونگے ! کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ بزرگ برتر نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا وہ ان کی طرح کے انسان بھی پیدا کردینے پر قادر ہے اور اس نے انھیں دوبارہ پیداکرنے پر قادر ہے اور اس نے انھیں دوبارہ پیداکرنے کے لئے ایک میعاد بھی مقرر کردی ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ئَ اِذَاکُنَّاعِظَامًا وَّرُفَاتًااَئِنَّالَمَبْ عُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا،قُلْ کُوْنُوْاحِجَارَۃً اَوْحَدِیْدًا اَرْخَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِ کُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلِیْکَ رُؤُسْہُمُ وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ،قُلُ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا یَّوْمَ یَدُعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیُبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّاقَلِیْلًا ۔(پارہ:15۔ع:5)
کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائینگے تو اس صورت میں بھی ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے اے رسول اللہ ﷺ ان سے کہہ دو کہ خواہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا بن جاؤ یا ایسی ہی کوئی اور مخلوق بن جاؤ جو تمہارے خیال کے مطابق بھی بہت ہی سخت ہو اور اسے زندہ کرنا دشوار ہو تم زندہ ہو کر ہی رہو گے پھر کہیں گے کہ ایسی حالت میں ہمیں کون زندہ کرے گا ان سے کہہ دو کہ تمہیں وہ ذات دوبارہ پیدا کریگی جس نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا،ان سے کہنا کہ ممکن ہے کہ وہ قریب ہو یہ وہ دن ہو گا کہ اللہ تمہیں پکارے گا اور تم اس کی حمد بجالاتے ہوئے جواب دوگے اور تمہارا خیال ہو گا کہ قبر میں صرف تھوڑی دیر ہی ٹھہرے ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پھر سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلٰی وَھُوَالْخَلَّاقُ اْلعَلِیْمُ۔(پارہ:23۔ع:4)
کیا جس اللہ نے آسمان اور زمینیں بنالیں ،وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کی طرح کے انسان پیدا کردے ،ہاں ضرور قادر ہے اور وہ سب کو پیدا کرنے والا سب کے حالات جاننے والا ہے ۔
نیز فرمایا:
اَوَلَمْ یَرَوْااَنَّ اﷲَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیخَلَّقِھِنَّ بِقَاِرٍ عَلٰی اَنْ یُحْیِیَ اَلْمَوْتٰی بَلٰی اِنَّہُ عَلٰی کُلِّ شَئٍیْ قَدِیْرٌ۔
کیاوہ اس بات کو نہیں دیکھتیکہ جس اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا اور انہیں پیدا کرنے سے اسے کوئی تکان محسوس نہیں ہوتی اس بات پرقادر ہے کہ مردوںکو زندہ کردے بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
نیز فرمایا:
اَفَرَاَیْتُمْ مَّاتُمْنُوْنَ اَنْتُمْ تُخْلُقُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمُوْتَ وَمَانَحْنُ بِمَسْبُوْمَیْنَ عَلٰی اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلاَ تَذَکَّرُوْنَ۔

خیال تو کرو کہ عورتوں کے رحموں میں جومنی تم پہنچاتے ہو ،کیا وہ تم نے پیدا کی ہے ،یا ہم نے؟ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کردی ہے اور ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری صورتیں بدل ڈالیں اور تمہیں کسی اور صورت میں پیدا کردیں جسے تم جانتے ہی نہیں ہو ۔اول بار کا پیدا ہونا تو تمہیں معلوم ہی ہے ۔پھر اس سے کیوںنصیحت حاصل نہیں کرتے؟
ان کی مثل پیدا کرنے پر قادر ہونے سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَوَلَمْ یَرَوْااَنَّ اﷲَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلِقُھِنَّ لِھَّادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحِبِیَ اَلَمُوتٰی۔(پارہ:26۔ع:4)
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور ان کو پیدا کرنے سے تھکان بھی محسو س نہیں کی وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
لوگوں میں اس امرکے متعلق نزاع واختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا ہی میں دوسری مرتبہ ان کی امثال پیدا کرتا ہے ،کیونکہ یہ ایک امرمشاہدہ ہے ،اللہ تعالیٰ ایک قرن کے بعد دوسری قرن پیدا کرتا ہے۔والدین سے بچہ پیداکرتا ہے اور اس کو نشاۃاولیٰ کہا جاتا ہے ۔لوگ اس نشاۃ کو جانتے ہیں اوراس کی بنا ء پر اللہ تعالیٰ نے ان پر حجت قائم کی ہے کہ دوسری نشاۃ پر قادر ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشَاۃَالْاُوْلٰی فَلَوْلَا تَذَکَرُوْنَ۔(پارہ:27۔ع:15)
نشاۃ اولیٰ کو تو تم جانتے ہی ہو تو پھر اس سے نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟
پھر فرمایا:
یٰاَیُّھَاالنَّاسُ اِنْکُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّاخَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابِ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ یُمَّ مِنْ مًُّضْغَۃٍ خَلَّقَۃٍ وَغَیْرَ مُخَلَّقَۃٍِ لِنُبَیِّنَ لَکُمْ۔(پارہ:17۔ع:8)
اے لوگو!تمہیں دوبارہ اٹھنے کے متعلق شبہ ہے تو اس حقیقت کی طرف توجہ کرو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پھر پورے پیدا کیے ہوئے اور ادھورے پیداکیے ہوئے ،لوتھڑے سے بنایا ۔یہ مثال اس لئے بیان کی گئی ہے کہ ہم تمہارے سامنے دوبارہ اٹھنے کی حقیقب واضح کردیں۔
اور اسی لئے
''علیٰ بن نبدل امثالکم وننشکم فیمالاتعلمون''
؎ٰ فرمایا:
وَنُنْشِئَکُمْ فِیْمَا لَا تَعْلَمُوُنَ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی
تفسیر حسن بن فضل بجلی اس طرح کرتے ہیں ۔''ہم تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھانے کے لئے اس جگہ سے پیداکریں گے کہ تمہیں اس کا علم نہیں ہے اور جس طریق پر چاہینگے ،پیدا کریں گے نشاۃ اولٰی کا تو تمہیں علم ہے کہ وہ کیونکر ماؤں کے پیٹوں میں واقع ہوتی ہے ۔نشاۃ ثانیہ ایسی نہ ہوگی،نشات اولٰی کے متعلق توسب کو معلوم ہے کہ انسان اول اول نطفہ ہوتا ہے ۔پھر روح پھونکی جاتی ہے ۔یہ نطفہ مرداور عورت کی منی کا ہوتا ہے ۔اﷲتعالیٰ اسے حیض کے خون سے غذا دیتا ہے جس سے اس کی پرورش ہوتی ہے ۔اس پرورش کے ایام میں بچہ تین تاریکیوں میں بند رہتا ہے ۔ایک تاریکی وہ جھلی ہوتی ہے جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے ۔ دوسری تاریکی رحم کی ،اور تیسری ماں کے پیٹ کی ہوتی ہے ۔
 
Top