• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفصیلی جواب چاہیے۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
الجواب بعون الوھاب
از قلم عاطف صاحب،

الحمد اللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ
اما بعد،
کالے خٖضاب کے حوالے سے ہماری تحریر ایک تحقیقی اور علمی تحریر تھی جسکا مقصد کسی پر طعن و تشنیع کرنا نہ تھا بلکہ صرف مسئلہ کی وضاحت کرنا تھا۔ اس علمی تحریر کا ایک صاحب نے جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر وقت کی قلّت کا بہانہ کرکے تحریر کے صرف ایک حصّے پر بحث کرکے اپنے موّقف کو مسلط کرتے نظر آئے ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ان صاحب نے ہماری تحریر کا غائرانہ مطالعہ نہیں کیا بلکہ عجلت سے کام لیتے ہوئے بغیر کسی غور و فکر کے اپنے موقف کی تائید کی ہے اور انداز بھی اصلاحی نہیں ہے تھوڑا سا تنقیدی ہی لگ رہا ہے اسی لیے ہم نے بھی خودکو پابند کیا ہے کہ ہم بھی ان صاحب کے انداز میں ہی جواب تحریر کریں۔ لہذا انکے اعتراضات کا جواب من فضل اللہ ترتیب وار پیش کرتے ہیں۔
اولاً:
زوہیر بن حرب اور زہیر بن معاویہ کی وضاحت پر آپ کا بہت بہت شکریہ اس کے لیے اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ مگر یہ معاملا نکتہ چینی کرنے کا نہیں تھا جو آپ نے '' معترض صاحب کو یہ علم نہیں کہ سند میں زوہیرنامی راوی کون ہے''۔ جیسے چھبتے ہوئے الفاظ کا انتخاب فرمایا ہے جب کہ آپ کو خود بھی اعتراف ہے کہ؛ '' اتفاق سے دونوں کے نام بھی ایک جیسے ہیں اور کنیّت بھی ایک ہی یعنی ابوخثیمہ ہے''۔
تو ایسا تو ذھول بڑے بڑے محدثین اور علمائے کرام سے ہوا جو کسی بھی اعتبار سے تنقیدی نہیں بلکہ اصلاحی ہوتا ہے۔
ثانیًا؛
ابوالزبیر راوی حدیث سے جب زوہیر بن معاویہ نے اس حدیث کے حوالے سے پوچھا تو انھوں نے صاف انکار کردیا اس پر آں جناب نے اسے اپنی کم فہمی کی بناء پر ''من حدث و نسی '' کی قبیل سے سمجھتے ہوئے ابوزبیر یا زوہیربن معاویہ کا وہم قرار دیا اور اس پر دلیل دی کہ :
'' دیگر ثقات کا اسے ابوالزبیر عن جابر کی سند سےانہی الفاظ یعنی ''واجتنبوالسواد'' یا وجنبوہ السواد سمیت ذکر کرنا ہے''۔
لیکن جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ سنن نسائی حدیث نمبر 9295 میں یہی روایت عزرہ بن ثابت نے ابو زبیر سے ان الفاظ کی زیادتی کے بغیر نقل کی ہے۔


لہذا یہ زھیربن معاویہ کا وہم تو نہیں ہے البتہ ابو زبیر جو کہ مدلّس راوی ہیں۔ ان کی تدلیس ضرور ہے اور مّدلسین کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جب ان سے ان کی بیان کردہ روایت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں۔ اور بعض ان میں سے وضاحت بھی کردیتے ہیں کہ انھوں نے اسے کس سے سنا ہے دیکھئیے تدریب الراوی ص نمبر197
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جناب ابوالزبیر کے سماع کی صراحت پیش کرتے تاکہ ان کی بات میں کچھ وزن بھی ہوتا پر جناب چلے ہیں اپنے نمبر بڑھانے کہ فلاں فلاں ثقہ راویوں نے اسے انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے اور جن راویوں کے نام گنوائے ہیں ان میں صرف ''ایوب السختیانی '' ہی ثقہ ہیں:
۔ عبدالملک بن جریج مدلّس راوی ہیں (طبقات المدلسین 3/73) اور کسی صحیح سند میں ابن جریج نے ابوالزبیر سے سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔
۔ الاجلج بن عبداللہ ضعیف جدا ہے ۔ (تھذیب اتھذیب ترجمہ نمبر 353)
۔ لیث بن ابی سلیم منکرالحدیث ہے۔ (میزان اعتدال ترجمہ نمبر 7003)
۔ حیوۃ بن مسلم کا تعین مطلوب ہے۔
پھر ان میں سے کسی سے بھی ابو زبیر سے اس روایت کے بارے میں سوال کرنا بھی مذکور نہیں ہے زھیر بن معاویہ نے سوال کیا تو ابوالزبیر نے انکار کردیا لہذا اصولِ حدیث کے اصول زیاداتِ ثقات کے مطابق یہ ثقہ راوی کی زیادتی ہے جو مقبول ہے۔
بہرِ کیف یہ روایت '' واجتنبوالسواد'' کے الفاظ کے ساتھ ہو یا ان الفاظ کی زیادتی کے بغیر ابوالزبیر کی تدلیس کی بناء پر ضعیف ہے۔
جہاں تک الجامع لاخلاق الراوی حدیث نمبر 877 کی روایت ہے تو:
۔ اولاً اس کا راوی ابو سلیمان سے مراد اگر ایوب بن خالد الانصاری ہے تو وہ ضعیف ہے۔ (تھذیب التھذیب ترجمہ نمبر 741) ورنہ یہ راوی مجہول ہے۔
۔ دوئم دینار بن عمر ابو عمر البزار متھم بالرفض اور متروک ہے۔ (تھذیب التھذیب ترجمہ نمبر 2169)
۔سوئم علی بن احمد بن سریج السواق کے حالات مطلوب ہیں تاریخَ بغداد ترجمہ نمبر 6071 میں اسکے بارے میں کوئی توثیقی کلمات موجود نہیں ہے۔
المعجم الشیوخ لابن جمیع الصیداوی ترجمہ نمبر 187 کی روایت میں :
اولاً
طلحہ بن نافع ابو سفیان ضعیف الحدیث ہے۔ (تھذیب التھذیب ترجمہ نمبر 3528)
دوئم عبدالغفّار بن الحکم مجہول ہے۔
سوئم ابوالقاسم بشربن سعید مجہول ہے۔
معرفۃ الصحابۃ لاّبی نعیم حدیث نمبر 4913 میں وہی لیث بن ابی سلیم ہے جس پر ہم تبصرہ کرچکے ہیں اور سند میں ابو الزبیر ہی ہیں جو مدّلس ہیں۔
لہذا ایسی ضعیف اور منکرات بیان کرنے کا آخرفائدہ ہی کیا ہے؟؟
(مسند ابو یعلی کا جواب آگے آرہا ہے)۔
ثالثّا
آں جناب کا اس ضمن میں اعتراض کرنا بالکل بچکانہ کیفیت کا ہے موصوف نے ہماری عبارت کو پیش کرکے صرف ان الفاظ کو دانتوں سےپکڑلیا ہے جن سے انہیں اپنی بات میں وزن پیداکرنا تھا۔ ہم نے اپنی سابقہ تحقیق میں کہا تھا:
'' اس کاایک صحیح شاھد مسند احمد نمبر 12572 میں ہے لیکن اس حدیث میں کالے رنگ سے بچنے کے عام الفاظ نہیں ہیں بلکہ اس میں ہے کہ اس شخص کے بالوں کو بدل دو اور اسے کالے رنگ سے بچانا۔''
جناب کو چاہیئے کہ ان الفاظ کو غور سے پڑھیں اور پھر غور سے پڑھیں کہ ہم نے صحیح مسلم کی سند کا شاھد پیش کیا تھا نہ کہ اس کے متن کا ۔ متن کی بحث تو ہم نے خود واضح کی ہے۔ اور یہ کونسا اصول ہے کہ اگر کسی ضعیف روایت کا کوئی صحیح شاھد مل جائے تو اس ضعیف روایت کا اختلافی متن کو بھی صحیح تسلیم کرلیا جائے گا؟
علماء کا فیصلہ اسکے خلاف ہے مثلاً سنن ابو داود حدیث نمبر 2250

سنن ابوداود میں عجلانی کی روایت ہے اس میں طلاق کے بعد نافذ کرنے کے الفاظ ہیں اس روایت کو محدثین نے عیاض بن عبداللہ الفھری کی بناء پر ضعیف کہا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ اس روایت کا صحیح شاھد بخاری میں موجود ہے مگر اسمیں نافذ کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔
لہذا صحیح شاھد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ متن کے اختلاف کو بھی صحیح مان لیا جائے اس لیے آپ کا لفّاظی کرنا بے وقعت ہے۔
رابعاً
تخصیص کے حوالے سے جو گفتگو آں جناب نے کی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف کو نہ تو حدیث کا کچھ تفقہ ہی حاصل ہے اور نہ ہی اصول سے کوئی واقفیت ہے اس لیے تخصیص کے بارے میں دو مثالیں دے کر گمان کرنے لگے کہ '' میں نے بھی علمی گفتگو کرلی ہے''۔
لیکن جناب عالم صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ تخصیص صرف ظاہری الفاظ سے ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ تخصیص قرأئن سے بھی ثابت ہوتی ہے مثلاًْ؛
اولاً:
آپ ﷺ نے قلبا بدر میں قتل شدہ کفّار کو پکارا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نشاندہی پر ان کو جواب دیا کہ '' جو بات میں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو''۔ (بخاری نمبر 3976) ان عام الفاظ سے مردوں کا سننا ثابت ہوتا ہے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان الفاظ کو خاص کردیا ہے اور اس پر قرآن کی دلیل پیش کی (بخاری نمبر 3981،3980،3979)۔
دوم:
آپ ﷺ نے یومِ احزاب ایک جماعت کو حکم دیا کہ تم عصر کی نماز بنوقریظہ میں جاکر پڑھنا اس جماعت میں سے بعض نے عصر کی نماز کو راستے میں ہی ادا کرلیا اور دوسرے قرآئن کی بناء پر آپ ﷺ کے حکم کو بعض لوگوں کے لیے خاص کیا اور آپ ﷺ نے بھی ان پر کوئی طعن نہیں کیا۔ (صحیح بخاری نمبر 4119)۔
سوئم:
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کا غسل کرنا ہر بالغ پر فرض ہے (صحیح بخاری نمبر 879) یہ الفاظ عام ہیں جن میں ہر بالغ مسلمان شامل ہے۔
لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ عوالی سے جمعہ پڑھنے آئے تھے تو ان میں سے بُو آتی تھی تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ کاش کہ تم آج کے دن پاکیزگی حاصل کرتے(مسلم نمبر 847)۔
انہی قرآئن کی بناء پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس حکم کو خاص سمجھا اور جمعہ کے غسل کو استحباب پر محمول کیا۔ (صحیح بخاری نمبر 878)۔
خیر یہ تو تھی تخصیص کی بحث۔ اب کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ تم نے کس قرآئن کی بناء پر اس حکم کو خاص کیا ہے؟ تو اس پر ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جو کالے خضاب پر تحقیق لکھی تھی وہ نہایت جامع اور مختصر تھی جن میں تم نے صرف احادیث کی طرف اشارہ کیا تھا یہاں ہم ان کو واضح کرتے ہیں ۔ ہم نے جس روایت کو صحیح کہا تھا وہ مسند احمد حدیث نمبر 12572

یہ روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہے اور صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی حدیث ہے کہ

ترجمہ : '' حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کا سر جب طشت میں رکھ کر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا تو وہ ان کے حسن کی بارے میں کہنے لگا اس پر انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ان سب (اھل بیت) سے زیادہ آپ ﷺ سے مشابہ ہیں راوی حدیث نے کہا کہ حسین رضی اللہ عنہ نے وسمہ کا خضاب کیا ہوا تھا (وسمہ ایک بوٹی ہے جس سے کالا خضاب کیا جاتا ہے)۔ فتح الباری تحت الحدیث 3748)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کے کالا خضاب کرنےپر کوئی تنقید نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے اس حکم کو ابو قحافہ کے لیے ہی خاص سمجھا۔
2) اس روایت کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے محمد بن سیرین (تابعی) نے نقل کیا ہے (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 25404 میں ہے۔

'' کہ سوال کیا جاتا تھا محمد بن سیرین سے کالے خضاب کے بارے میں تو وہ کہتے تھے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی حرج ہے''
لہذا محمد بن سیرین نے بھی اس حکم کو ابو قحافہ کے لئے ہی خاص سمجھا بھر فقہ کا اصول ہے کہ ''راوی اپنی حدیث کو زیادہ جانتاہے''۔
خامساً
یہ تو تھی اصول کی بحث اب ہم آتے ہیں مسند ابو یعلی حدیث نمبر 2831 کی روایت پر

اس روایت کو نقل کرکے آن جناب لکھتے ہیں کہ: '' اور ہشام اگرچہ مدّلس ہیں لیکن امام علی بن مدینی نے صراحت کررکھی ہے کہ محمد بن سیرین سے ہشام کی روایت سماع پر محمول ہیں''۔ موصوف سے ہمارا یہ سوال ہے کہ : '' وہ کون سی روایت ہے اور کہاں ہے جس میں علی بن مدینی کے ھشام کے بارے میں یہ الفاظ ملتے ہیں؟
آج تک کسی عالم یا محدث نے ھشام بن حسان کی روایت کو محمد بن سیرین سے سماع پر محمول نہیں کیا ۔ ھشام بن حسان کے بارے میں محدثین نے صرف اتنی وضاحت کی ہے کہ : ''ھشام بن حسان محمد بن سیرین کے شاگردوں میں سب سے زیادہ اثبت ہیں اور ان کی روایت حسن بصری سے جو مروی ہیں اسکے بارے میں کلام ہے اسی بات کی وضاحت علی بن مدینی نے کی ہے ان کےالفاظ یہ ہیں: الجراح والتعدیل ۔ ابی حاتم رازی ۔ جلد09۔229میں ہے کہ

ترجمہ: ھشام کی احادیث محمد سے صحیح ہیں اور عام طورپر حسن سے جو انکی روایات ہیں انکا مدار حوشب ہے (الجرح والتعدیل ترجمہ نمبر 229)
اس روایت سے تو ھشام بن حسان کا مدّ لس ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ اس کے سماع کی وضاحت ہے محدثین نے ھشام بن حسان کی ان روایات کو جو محمد بن سیرین سے سماع کی صراحت کے بغیر ہیں ضعیف کہا ہے مثلاً:
السنن الکبریٰ البیہقی حدیث نمبر 8027 کی روایت ہے کہ:

اس کو بیان کرنے میں ھشام بن حسان اکیلے ہیں اس روایت کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس میں ضعف کی وجہ صرف اور صرف ھشام بن حسان کی تدلیس ہے۔جیسے کہ زبیر علیزئی نے سنن ابنِ ماجہ حدیث نمبر 1676 (صفحہ نمبر جلد 02-591) کی تحقیق میں اسکی وضاحت کی ہے۔ اسی طرح انھوں نے مصنف ابنِ شیبہ حدیث نمبر 5199 کی روایت کو ھشام بن حسان کی تدلیس کی بناپر ضعیف قرار دیا ہے۔
تحقیقی اور علمی مقالات جلد نمبر 03- ص 191 (زبیرعلیزئی)۔
لہذا ہم اپنی سابقہ تحقیق سے رجوع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کا شاھد جو مسند احمد حدیث نمبر 12572 میں ہے وہ ھشام بن حسان کی تدلیس کی بناء پر ضعیف ہے۔
سادساً
آخر میں آنجناب نے نہایت تشدد اور جرّات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا : '' اس ایک روایت کی صحت ثابت ہونے سے ہی مسئلہ ثابت ہو جاتا ہے کہ سیاہ رنگ کا خضاب حرام ہے''۔
ہم موصوف کی خدمت میں یہ عرض کرتے ہیں کہ بہ تقدیر صحت اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو بھی اس سے کالا خضاب لگاناحرام ثابت نہیں ہوتا فقہ کا اصول ہے کہ '' امر کے صیغے میں دہ احتمال ہوتے ہیں:
اول ۔ واجب
دوئم ۔ مستحب
قرائن دلالت کرتے ہیں کہ امر وجوب کا حامل ہے یا استحباب کا اس روایت کے الفاظ ''واجتنبوالسوادہ'' یا '' وجنبوہ السواد'' سے آپ نے کالا خضاب حرام مراد لیا ہے مگر اس روایت میں امر کے دو صیغے ہیں۔
اول۔ غیروھذالشیئ ! ان (سفید بالوں کو) بدل دو۔
دوئم۔ کالے رنگ سے بچو
اگر آپ واجتنبوالسواد سے کالے خضاب کے حرام ہونے پر دلیل لے رہے ہیں تو غیروھذاالشیئ سے آپ کو بال سفید رکھنے پر بھی حرام کاری کا فتوٰی دینا ہوگا۔ کیا خیال ہے؟ اس کا جواب ضرور دیجیئے گا۔
ہم یہاں کچھ نام گنواتے ہیں جنہوں نے کالا خضاب لگایا یا اسکے حرام نہ ہونے کا فتوی دیا:
1.حسین بن علی رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری نمبر 3748)
2. حسن بن علی رضی اللہ عنہ (طبرانی کبیر نمبر 2535)
3. عقبہ بن عامر (مصنف ابن ابی شیبہ نمبر 25409)
4. ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن (طبقات ابن سعدترجمہ نمبر 1518)
5. ابن شھاب الزیری (جامع معمربن راشد 11/155)
6. محمد بن سیرین (مصنف ابن ابی شیبہ نمبر 25404)
7.امام مالک (موطا امام مالک برروایتہ یحیی نمبر 3497)
8.امام طحاوی (شرح مشکل الاثار نمبر 3699)
9. ابن الجوزی نے کہا ہے کہ کسی ایک (اہل علم) نے سیاہ خضاب کے حرام ہونے پر فتوی نہیں دیا (الموضوعات نمبر 1455)
کیا خیال ہے ان سب کے بارے میں ؟؟
''خوب غوروفکر کرلیں''۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سياہ رنگ كے علاوہ بالوں كو كوئى اور رنگ كرنا

كيا بالوں كو سرخ يا نيلا رنگ كرنا جائز ہے، اور كيا يہ بھى مشابہت ہے ؟

الحمد للہ:

عورت كے ليے بالوں كو سياہ كى بجائے كوئى اور رنگ كرنا جائز ہے، جبكہ ايسا كرنے ميں كفار عورتوں سے مشابہت نہ ہو، مثلا يہ وہ كسى كافرہ عورت يا كافرہ عورتوں كى جماعت كا مخصوص رنگ اور بال رنگنے كا مخصوص طريقہ ہو، يا صرف ايك چٹيا كو رنگ كيا جائے تو اس وقت ان كفار عورتوں كے ساتھ مشابہت جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا بالوں كا كچھ حصہ مثلا بالوں كے كنارے يا صرف اوپر كا حصہ رنگنا جائز ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" اگر بالوں كو سياہ كيا جائے تو يہ جائز نہيں، كيونكہ اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے، اور سفيد بالوں كو رنگ كرنے اور سياہ كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" اس بڑھاپے ( سفيد بالوں ) كو تبديل كرو اور سياہ رنگ سے اجتناب كرو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 5476 ).

اور بالوں كو سياہ كرنے والے كے ليے وعيد بھى وارد ہے، جو كہ درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ميں پائى جاتى ہے:

" آخرى زمانے ميں كچھ لوگ ايسے ہونگے جو سياہ خضاب لگائينگے، جيسے كبوتر كى پوٹ ہوتى ہے، وہ جنت كى خوشبو تك حاصل نہيں كرينگے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4212 ) سنن نسائى ( 8 / 138 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 8153 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ حديث سفيد بالوں كو سياہ ميں تبديل كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، ليكن سياہ كے علاوہ باقى رنگ كے متعلق تو اصل جواز ہى ہے، ليكن اگر يہ كافرہ اور فاجرہ عورتوں كے طريقہ اور ا نكى اشكال و انواع ميں ہو تو پھر اس اعتبار سے يہ بھى حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 5 / 109 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے " انتہى.

ماخوذ از: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 11 / 120 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
Top