• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی کتاب ۔
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں '' حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بھی حدیثیں لکھاکرتے تھے اور ایسا نظر آتا ہے کہ وہ خط وکتابت کے ذریعہ سے بھی درس دیاکرتے تھے ،جیسا کہ صحیح بخاری کے متعدد ابواب میں نظر آتا ہے (پیش لفظ ص ۳۹)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث کی کتاب :۔
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ نے بھی ایک کتاب تحریر فرمائی تھی حضرت امام حسن بصری کے پاس وہ کتاب تھی ۔
انمایحدث عن صحیفۃ سمرۃ رضی اللہ عنہ (ترمذی ۔ابواب البیوع)
اور وہ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی کتاب سے حدیث سنایاکرتے تھے
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں ''حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بھی حدیثیں جمع کیں جو ان کے بیٹے سلیمان بن سمرہ کووراثت میں ملیں ابن حجر نے لکھا ہے کہ سلیمان نے اپنے باپ کے حوالہ سے ایک بڑارسالہ (نسخہ کبیرۃ)روایت کیاہے نیز ابن سیرین کہتے ہیں کہ سمرۃ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے لے جو رسالہ لکھا تھاا س میں بہت علم (علم کثیر)پایاجاتا ہے (پیش لفظ صحیفہ ہمام ص ۳۹)
حضرت سعد بن عبادہ کی حدیث کی کتاب:
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ حضرت سعد کے بیٹے فرماتے ہیں:
وجدنا فی کتاب سعد ان النبی ﷺ قضی بالیمین مع الشاھد (ترمذی ابواب الاحکام)
یعنی ہم نے سعد کی کتاب میں دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی کتابیں:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کئی کتابیں لکھی تھیں، یہ کتابیں ان کی زندگی ہی میں شائع و ذائع تھیں، عکرمہ فرماتے ہیں:
ان نفراا قدموا علی ابن عباس رضی اللہ عنہما من اھل الطائف بکتاب من کتبہ فجعل یقرأ علیہم (ترمذی کتاب العلل)
یعنی طائف کے چند آدمی حضرت ابن عباس کے پاس ان کی کتابوں میں سے ایک کتاب لائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کتاب انکو پڑھ کر سنانے لگے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
قیدوا العلم بلکتاب (جامع بیان العلم جلد۱ صفحہ ۷۲)
اس علم کو لکھ کر محفوظ کر لو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں: یہ تواتر سے ثابت ہے کہ ان کی وفات ہوئی تو اتنی تالیفیں چھوڑیں کہ ایک اونٹ پر لادی جاتی تھیں (پیش لفظ صحیفہ ہمام صفحہ40)
ڈاکٹر صاحب اس کے آگے تحریر فرماتے ہیں:
جب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تو ان کے بیٹے علی بن عبداللہ اپنے باپ کی کتابوں کے وارث بنے اور اس طرح اس سرچشمہ علم کی فیض رسانی کا سلسلہ ان کے بعد بھی جاری رہا (پیش لفظ صحیفہ ہمام صفحہ 40)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا حدیث کی تعلیم کا اہتمام کرنا:
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس جو اِملا کرتے تھے اسے وہ لکھتے جاتے تھے (پیش لفظ صحیفہ ہمام صفحہ ۴۱)۔
قید ابن عباس عکرمۃ علی تعلیم القرآن و السنن و الفرائض (صحیح بخاری۔ کتاب فی الخصومات)
یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عکرمہ کو قرآن و حدیث اور فرائض سیکھنے کے لئے روک رکھا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کتاب:
سعید بن ہلال فرماتے ہیں:
کنا اذا اکثرنا علی انس بن مالک رضی اللہ عنہ فاخرج الینا محالا عندہ فقال ھذہ سمعتھا من النبی ﷺ فکتبتھا و عرضتھا علیہ (خالص اسلام صفحہ ۲۷ بحوالہ مستدرک حاکم)
یعنی ہم جب حضرت انس رضی اللہ عنہ سے زیادہ پوچھ گچھ کرتے تو وہ اپنے پاس سے ایک دفتر نکالتے اور فرماتے یہ ہیں وہ حدیثیں جو آنحضرت ﷺ سے میں نے سنی ہیں اور میں نے آپ ﷺ کی حیاتِ مقدسہ میں ان کو لکھا اور لکھ کر آپ پر پیش کیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ اور احادیث کی حفاظت کا اہتمام:
دارمی میں ہے۔ راوی کہتا ہے:
رأیت ابان یکتب عند انس رضی اللہ عنہ
یعنی میں نے دیکھا ابان حضرت انس رضی اللہ کے پاس بیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے تھے:
یا بنی قیدوا ھذا العلم (دارمی صفحہ ۶۸۔ و جامع بیان العلم جلد۱۔ صفحہ ۷۳ نحوہ)
انہ امرھما بکتابۃ الحدیث و الاسناد عن رسول اللہ ﷺ و تعلمھا (شرف اصحاب الحدیث للخطیب البغدادی صفحہ ۵۲)۔
انس رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں نضر اور موسیٰ کو حدیث اور سند لکھنے کا حکم دیا اور اس کے سیکھنے کا بھی حکم دیا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی کتاب:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک کتاب لکھی تھی۔ سلیمان تیمی کہتے ہیں:
ذھبوا الصحیفۃ جابر بن عبداللہ الی الحسن البصری فاخذھا (ترمذی ابواب البیوع)
یعنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی کتاب کو امام حسن بصری کے پاس لے گئے تو انہوں نے اس کو یاد کر لیا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حفاظت احادیث کا اہتمام:
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں: یہ بھی مشہور ہے کہ مسجد نبوی (مدینہ) میں ان کا ایک حلقہ درس تھا جس میں لوگ ان سے علم حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور تابعی مورخ وہب بن منبہ (ہمام بن منبہ کے بھائی) کو بھی انہوں نے حدیثیں املاء کرائی تھیں۔ امام بخاری کی روایت ہے کہ مشہور تابعی قتادہ کہا کرتے تھے کہ مجھے سورہ بقرہ کے مقابلہ میں صحیفہ جابر زیادہ حفظ ہے، ان کے ایک اور شاگرد سلیمان الیشکری کہتے تھے کہ انہوں نے بھی حضرت جابر کی روایت کردہ حدیثیں لکھی ہیں ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اور لوگوں نے بھی درس لیا ،اور ان کے صحیفہ کی روایت کی ہے (پیش لفظ صحیفہ ہمام بن منبہ ص ۳۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفاظت احادیث :
ان کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث کو جمع کیا تھا (پیش لفظ صحیفہ ہمام ص ۳۰)
عمرہ بنت عبدالرحمن اور قاسم بن محمد کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پرورش کی ،اور ان کو زیور علم سے آراستہ کیا ، عمرہ کی تمام احادیث کوحضرت عمر بن عبدالعزیز کے حکم سے تحریر کرلیاگیا ،اور وہ محفوظ ہوگئیں (پیش لفظ صحیفہ ہمام ص ۳۱۔۳۲ملخصاً)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حفاظت احادیث :
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں سلیمان بن موسی کی روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مولیٰ یعنی نافع کو دیکھا ، کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے املا کرا رہے تھے اور نافع لکھتے جارہے تھے ......حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فخر سے فرمایا کرتے تھے کہ نافع کاوجود ہم پر اللہ کاایک بڑا احسان ہے (پیش لفظ ص ۴۰)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی کتاب :
حضرت ابن مسعود نے بھی ایک کتاب لکھی تھی ، ان کے بیٹے عبدالرحمن ایک کتاب نکال کر لائے ۔اور قسم کھاکر کہا ، یہ خود ابن مسعود کی لکھی ہوئی ہے ۔عربی الفاظ یہ ہیں حلف لی انہ خط ابیہ بیدہ (جامع بیان العلم ج۱ ص ۷۲)
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب لکھتے ہیں '' حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جوحدیثیں جمع کی تھیں وہ ان کے بیٹے کے پا س پائی گئیں ۔(صحیفہ ہمام ص ۴۳)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور حفاظت حدیث کااہتمام :
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھ کر لوگ ان کی احادیث کو لکھا کرتے تھے ۔(دارمی ص ۶۹)
حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کی حدیث کی کتاب :
حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے بھی ایک کتاب لکھی تھی ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے ان کی کتاب کاتذکرہ کیاہے ۔.......................................(پیش لفظ صحیفہ ہمام ص ۴۲)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے صحیفے:
محمد بن اسحق ندیم نے کتاب الفہرست میں لکھا ہے کہ میں نے مدینہ کے کتب خانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھوائی ہوئی حدیث کی کتاب اور حضرت علی،حضرت حسن اور حضرت حسین وغیرہ صحابہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے صحیفے دیکھے تھے (توجیہ النظر ص ۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث کی کتاب :
نافع کہتے ہیں کہ مروان نے خطبہ دیااور ا س میں مکہ کے حرم ہونے کاذکر کیا توحضرت رافع بن خدیج نے ان کوپکار کر کہا کیابات ہے کہ مکہ کی حرمت کاتم نے ذکر کیا اور مدینہ کاذکر نہیں کیا۔پھر فرمایا
و قد حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مابین لابتیہا و ذلک عندنا فی ادیم اخولانی ان شئت اقرأتکہ وصحیح مسلم باب فضل المدینۃ ج۱ ص ۶۰۵مجموعدہ مصر)
بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سنگستانوں کے درمیانی علاقہ کوحرام قرار دیا ہے اوریہ حکم میرے پاس لکھا ہوا ہے اگر تم چاہو تو سناؤں ۔
حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کی کتاب :
توجیہ النظر میں ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک کتاب فرائض کے متعلق لکھی تھی (برق اسلام ص ۹۱)
صحابہ کی ایک کثیر تعداد احادیث قلمبند کیاکرتی تھی :
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
بینما نحن حول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکتب اذ سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ای المدینتین تفتح اولا قسطنطینۃ او رومیۃ الخ(دارمی ص ۶۸)
یعنی ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے تھے اسی اثناء میں آپ سے پوچھا گیا کونسا شہر پہلے فتح ہوگا قسطنطنیہ یارومیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرقل کاشہر ۔ یعنی قسطنطنیہ ۔
نتیجہ :
مندرجہ بالا بیان سے یہ ثابت ہوا کہ خلفائے راشدین نے حدیث کی حفاظت کااہتمام کیااور کتابیں لکھیں نیز دیگر متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کتابیں لکھیں ۔احادیث املا کرائیں ۔توپھر یہ کہنا کہ صحابہ کرام کے احادیث نہ جمع کرنے کی فلاںفلاں وجوہ تھیں خود بخود غلط ثابت ہوجاتا ہے
غلط فہمی :
برق صاحب نے آگے چل کر تحریر فرمایا ہے کہ :۔
صحابہ کرام کے احادیث جمع نہ کرنے کی بڑی بڑی دو وجوہ تھیں اول وہ قرآن کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہ سمجھتے تھے صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ جب رحلت سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنور نے فرمایا کہ '' لاؤ قلم دوات اور کاغذ میں تمہیں ایک چیز لکھ کردے جاؤں کہ میرے بعد تمہاری گمراہی کاکوئی امکان باقی نہ رہے توحضرت عمر بن الخطاب جھٹ بول اٹھے ہمیں کسی مزید تحریر کی ضرورت نہیں اس لئے کہ حسبنا کتاب اللہ ہمارے پاس کتاب الہی موجود ہے جس میں انسانی فلاح ونجات کے مکمل گر درج ہیں اوریہ کتاب ہمارے لئے کافی ہے ''(دو اسلام ص ۳۷۔۳۸)
ازالہ :
اس کاجواب کئی طرح سے ہے اول یہ کہ گذشتہ اوراق میں یہ ثابت کیاجاچکا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بلکہ خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے احادیث کی حفاظت کاانتظام کیاخو د تعلیم دی دوسروں کوتعلیم پرمامور فرمایا خود احادیث کو ضبط تحریر میں لائے دوسروں سے لکھوایا حتی کہ ان کے یہ نوشتے محدثین نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ان کواپنی کتابوں میں نقل کیا، اگر وہ صرف قرآن کاکافی سمجھتے تھے توحفاظت احادیث کایہ اہتمام بے سو د ہوتا حقیقت یہ ہے کہ وہ احادیث کوبھی ماخذ دین سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے قرآن مجید کے ساتھ اس کی تعلیم بھی دیاکرتے تھے اس کو بھی حفظ کرتے تھے اور تحریر کرتے تھے لہذا حدیث تحریر نہ کرنے کی یہ وجہ خود بخود باطل ہوجاتی ہے ۔
دوم ۔یہ جملہ حسبنا کتاب اللہ ۔یعنی کتاب الہی ہمارے لئے کافی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاقول ہے نہ کہ تمام صحابہ کااکثر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا بلکہ حدیث کے الفاظ ہیں '' الثروا اللغو والاختلاف'' یعنی صحابہ کرام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس کہنے پر خاموش نہیں ہوئے بلکہ بڑی گڑ بڑ ہوئی اور شدید اختلاف کیا(صحیح بخاری باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بعد کیاہوا حدیث کے الفاظ میں سنیئے '' ذھبوا یردون عنہ '' یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار پوچھتے رہے (صحیح بخاری )ظاہر ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود صحابہ نے آپ کو تحریر لکھوانا یاد دلایا ،اور بار بار یاد دلایا ہوگاتویہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ آپس میں اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ لکھنا ضروری ہے یاکم از کم اکثریت کافیصلہ ہی تھااور اقلیت نے خاموشی اختیار کرلی لہذا حسبنا کتاب اللہ کے نعرہ کی تردید خود صحابہ کرام نے کر دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوخاموش ہوناپڑا صحابہ کرام کے فیصلہ کے خلاف اب بھی اس نعرہ کودلیل بنانا صحیح نہیں ہے ۔
سوم ۔یہ جملہ حسبنا کتاب اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاقول ہے جہاں تک ہم سمجھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ حدیث قابل حجت نہیں اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ فرض کرلیا جائے تویہ ان کی ذاتی رائے تھی جس سے انہوں نے رجوع کرلیا اور حدیث کی حفاظت اور تعلیم کاانتظام کیا حدیث کی کتابیں لکھیں حدیث کی اشاعت کی ان تمام باتوں کاثبوت اوپر دیاجاچکا ہے ذیل میں چند روایات مزید پیش کی جارہی ہیں جن سے ثابت ہوگاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث کوحجت سمجھتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۱) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے اپنا حصہ طلب کیاتوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
لست تارکا شیئا کا ن یعمل بدالا عملت بہ فانی اخشی ان ترکت شیئا من امرہ ان ازیغ (صحیح بخاری کتاب الجہاد)
یعنی میں ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑونگا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے بلکہ اس ہی پر عمل کروں گا اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امر کے خلاف چلونگا توگمراہ ہوجاؤں گا ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ کوپڑھیئے اور بار بار پڑھئے شان صدیقی ملاحظہ فرمائیے سنت چھوڑنے سے صاف انکار ہے سنت چھوڑنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں گمراہی میں مبتلا نہ ہوجائیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس قول وفعل کوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں سنئے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی مقدمہ کے سلسلہ میں اپنی خلافت کے دور میں فرمایا تھا :
فعمل فیھا بما عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ یعلم انہ فیھا لصادق بادرشد تابع للحق و صحیح بخاری کتاب الجہاد ۔
میں بھی اسی طرح عمل کرونگا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا تھا اور جس طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمل کیاتھا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا ہوں نیک عمل کرنے والا ہوں ، ہدایت اور حق کاتابع ہوں ۔
اس جملہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا کہ اتباع حق اور نیکی ہی ہے کہ سنت رسول پر چلا جائے یہی سچائی ہے اور یہی ہدایت ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فریقین مقدمہ کومخاطب کرکے فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لانور ث ماترکتا صدقۃ (صحیح بخاری کتاب الجہاد)یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہم جوکچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ۔
ڈنکے کی چوٹ پر تمام صحابہ کی موجودگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث پڑھ دی جوبظاہر قرآن کے خلاف ہے اور اس کو علی الاعلان بطور حجت شرعیہ پیش کیا نہ فریق مقدمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی تردید کی نہ فریق ثانی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی تردید کی نہ صحابہ کے مجمع میں سے کوئی آواز اٹھی کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے قرآن کی روسے بلااستثنا ہر شخص کاورثہ تقسیم ہونا چاہیئے قرآن میں اس قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہے لہذا یہ حدیث حجت نہیں تمام صحابہ نہ یہ کہ صرف خاموش ہی رہے بلکہ اس حدیث کی صحت کو تسلیم کرتے ہیں
آہ :اس خلاف قرآن حدیث کو پیش کرنے والے وہی فاروق اعظم ہیں جن کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا تھا حسبنا کتاب اللہ یہ وہی فاروق اعظم ہیں کہ حدیث کو حجت میں پیش فرمارہے ہیں اور ایسی حالت میں پیش فرمارہے ہیں کہ بظاہر وہ قرآن کی آیت کے بھی خلاف ہے ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جملہ '' حسبنا کتاب اللہ '' کامطلب کچھ اور تھا یہ مطلب نہ تھا جوآج کل لیاجارہا ہے اسکے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :۔
فواللہ الذی باذنہ تقوم السماء و الارض لااقصی فیھا قضاء غیر ذلک (صحیح بخاری کتاب الجہاد) یعنی قسم اس ذات پاک کی جسکے حکم سے زمین وآسمان قائم ہیں میں اس فیصلہ کے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ میں قیامت تک اس فیصلہ کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ملاحظہ فرمائیے کس طرح قسم کھا کروہ اپنی پیش کردہ حدیث کے خلاف فیصلہ کرنے سے اپنے عجز کااظہار فرمارہے ہیں بلکہ وہ تو یہاں تک عقیدہ رکھتے ہیں کہ قیامت تک فیصلہ نبوی علی حالہ قائم رہنا ضروری ہے اسے کسی حالت میں بدلا نہیں جاسکتا اگر صرف قرآن کافی تھا تو وہ حدیث پرعمل کرنے کے لئے کیوں مجبور تھے کیوں اس کو ہدایت سمجھتے تھے غور کیجئے اور انصاف کیجئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حجر اسوس کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ :۔
واللہ انی لاعلم انک حجر لاتضر ولا تنفع ولولا انی رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استلمک استلمک فاستلمہ (صحیح بخاری )
یعنی اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی بوسہ نہ دیتا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بوسہ دیا۔
حجر اسود کوبوسہ دینابظاہر کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس معمولی سی سنت کوبھی چھوڑنا گوارا نہیں کرتے ۔
(۳)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمل کے متعلق فرمایا ہے :
فما لنا والرمل انما کنا رأینا بہ المشرکین وقد اھلکھم اللہ ثم قال شئی صنعہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلا تحب ان نترکہ (صحیح بخاری کتاب الحج با ب الرمل )
یعنی رمل کرنے کی اب ہمیں کیاضرورت ہے یہ توہم نے مشرکین پر اپنی قوت کے اظہار کے لئے کیاتھا اور اب مشرکین کواللہ تعالی نے ہلاک کردیاپھر فرمایا لیکن جس چیز کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے اس کو چھوڑنا ہم پسند نہیں کرتے ۔
دیکھا آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کس قدر سنت کے عاشق ہیں کہ اس سنت پربھی عمل کررہے ہیں جس کامقصد فوت ہوچکا ہے ۔
(۴) حج تمتع کے متعلق جب آپ سے پوچھا گیا ،توفرمایا :
ان ناخذ بکتاب اللہ فانہ یامرنا بالتمام و ان ناخذ بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحل حتی بلغ الھدی محلہ (صحیح بخاری کتاب الحج باب الذبح قبل الحلق)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتاب اللہ اور سنت رسول دونوں کوبطور حجت پیش کیااگر کتاب اللہ کو کافی سمجھتے توصرف کتاب اللہ کوپیش کردینا کافی تھا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیابلکہ سنت کوبھی حجت میں شامل کیا ان کے جواب سے پوری طرح واضح ہورہا ہے کہ اگر ان کوحج تمتع کے متعلق جواز کی حدیث معلوم ہوتی تووہ یقینا اس کوتسلیم کرتے اگرچہ وہ بظاہر قرآن کے خلاف ہی کیوں نہ ہوتی انہوں نے حج تمتع سے صرف اس لئے انکار کیا کہ ان کے علم میں سنت سے اس کاثبوت نہیں تھا اگر ثبوت مل جاتا تووہ کبھی انکار نہ کرتے جیساکہ دوسرے صحابہ نے جب حدیث ان کومل گئی توحج تمتع کوتسلیم کرلیاکسی صحابی نے یہ نہیں کہاکہ یہ تو قرآن کے خلاف ہے لہذا حجت نہیں اسی روایت سے ثابت ہوا کہ صحابہ حدیث کو بھی ماخذقانون سمجھتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۵) مانعین زکوۃ سے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قتال کاارادہ فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے اس کی مخالفت کی اور حجت میں حدیث پیش کی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، آپ کیسے ان سے لڑ سکتے ہیں حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الا الا اللہ فمن قال لا الہ الا اللہ عصم منی مالہ و نفسہ الا بحقہ و حسابہ علی اللہ ۔یعنی مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھیں پس جس نے لاالہ الا اللہ کہہ لیا تو اس نے مجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کو بچالیا مگر اس کے حق کے ساتھ اور اس کاحساب اللہ پر ہے ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی حدیث کے آخری حصہ الا بحقہ سے استدلال کیااورفرمایا :فان الزکوۃ حق المال ۔
لہذا حدیث ہی کی رو سے حق کے لئے لڑناجائز ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔کہ
فعرفت انہ الحق (بخاری و مسلم )پس میں سمجھ گیا کہ یہی حق ہے ۔
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے الا بحقہ سے استدلال کرنے کوصحیح مانا غرض یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اور حسبنا کتاب اللہ کہنے والے صاحب یعنی فاروق اعظم نے بھی حدیث کوحجت مانا اور اسی کے مطابق عمل کیا کیوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کو کافی سمجھ کر قرآن کی کوئی آیت نہ پڑھی کیوں نہ قتال کے خلاف آیت قرآنی کو پیش فرمایا صرف اس وجہ سے کہ وہ جانتے تھے کہ محض قرآن کافی نہیں اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حدیث بھی اسی طرح ماخذ قانون ہے جس طرح قرآن ، یہی وجہ ہے کہ وہ بے دھڑک حدیث کوبطور حجت کے پیش کردیاکرتے تھے اور ایسی حدیث کوپیش کردیاکرتے تھے جوبظاہر قرآن سے ٹکراتی تھی مثلا یہی حدیث سورہ توبہ کی ان آیات کے خلاف ہے جن میں کہ کفار سے جنگ بند کرنے کاحکم اس وقت ہے جب وہ ایمان لے آئیں نماز پڑھیں زکوۃ دیں ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث میں نماز اور زکوۃ کاکوئی ذکر نہیں لیکن پھر بھی وہ اس حدیث کو پیش کرنے میں تامل نہیں کرتے پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت پرملاحظہ فرمائیے وہ سورہ توبہ کی آیت پیش نہیں کرتے بلکہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور اسکو حجت شرعیہ کے طور پر پیش کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث ہی کی بناپر ایک رائے قائم کی اور پھر حدیث ہی کی بناپر اپنی ا س رائے کوغلط سمجھا اور اس سے رجوع کرلیا ۔
(۶) مطلقہ عورت کی رہائش اور نفقہ کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔
لانترک کتاب اللہ و سنۃ نبینا صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح مسلم جلد اول )
ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتے ۔
(۷) حضرت مسور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔
استشار عمر بن الخطاب فی املاص المراۃ فقال المغیرۃ بن شعبۃ شھدت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قضی فیہ بغرۃ عبد اوامۃ فقال عمر اتتنی بمن یشھد معک قال فشھد لہ محمد بن مسلمۃ (مسلم باب دیۃ الجنین )
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورت کے پیٹ کے بچہ کوگرادینے کی دیت کے سلسلہ میں مشورہ کیا حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری موجودگی میں بطور دیت ایک غلام یالونڈی مقرر کی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے ساتھ اور کون گواہ ہے پس حضرت محمد بن مسلمہ نے شہادت دی ۔
غرض یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث پر صرف عمل ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اسکی حفاظت اور توثیق کابھی خیال رکھتے تھے اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :۔
اللہ اکبر لولم اسمع بھذا القضینا بغیر ھذا (ابو داؤد کتاب الدیات)
اللہ اکبر اگر ہم یہ حدیث نہ سنتے تو اس کے خلاف فیصلہ کردیتے ۔
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ لاعلمی میں بھی حدیث کے خلاف فیصلہ کرنے کوبراسمجھتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۸) ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں فرمایا :۔
ان اللہ قد بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بالحق و انزل علیہ الکتاب فکان مما انزل علیہ ایۃ الرجم قرأنا ھا و عیناھا وعقلناھا فرجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل مامجد الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلھا اللہ و ان الرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنی اذا احصن (صحیح بخاری و صحیح مسلم باب رجم الثیب)
یعنی بے شک اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت نازل فرمائی اس میں رجم کاحکم بھی ہے ہم نے اس کو پڑھا ہے اور یاد کیاہے اور سمجھ لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی رجم کیاہےمیں ڈرتا ہوں کہ کہیں امتداد زمانہ کے باعث کوئی کہنے والا یہ نہ کہدے کہ اللہ کی کتاب میں رجم کاحکم نہیں ہے پس لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ فریضہ کو چھوڑ کرگمراہ ہوجائیں اور بے شک رجم کتاب اللہ میں ثابت ہے اس شخص کے لئے جو شادی شدہ ہوکر زنا کرے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حکم رجم کونازل شدہ مان رہے ہیں اور اس کتاب اللہ میں قائم اور ثابت سمجھ رہے ہیں حالانکہ رجم کاحکم قرآن میں نہیں ہے بلکہ حدیث میں ہے اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک قرآن ہی کتاب اللہ اور منزل من اللہ نہیں ہے بلکہ حدیث بھی کتاب اللہ اور منزل من اللہ ہے یہاں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کو حجت تسلیم کررہے ہیں جوبظاہر قرآن کے بالکل خلاف ہے بلکہ تمام صحابہ اس کوتسلیم کررہے ہیں کوئی ایک بھی اس کی حجت سے انکار نہیں کرتا اس اثر مذکورہ کی موجودگی میں اس بات کاقوی امکان ہے کہ حسبنا کتاب اللہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد قرآن اور حدیث دونوں تھی یعنی شریعت الہیہ جومنزل من اللہ ہے ۔
(۹) حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں حضرت عثمان تشریف لائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیر سے آنے کاسبب پوچھا کہنے لگے کہ میں نے اذان سنی اور فوراً وضو کرکے چلا آیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :۔
والوضوء ایضا اولم تسمعوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اذا انی احدکم الجمعۃ فلیغتسل (ابو داؤد ،کتاب الطہارت)
یعنی صرف وضو کرکے آنا بھی غلطی ہے کیاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جوشخص جمعہ کی نمازپڑھنے آئے توغسل کرکے آئے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث کوبطور حجت پیش فرمایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ نے اسے تسلیم کیاکسی ایک نے بھی یہ نہیں کہاکہ یہ حکم نبوی عارضی تھا اس کامقصد ختم ہوچکا اب نہانا ضروری نہیں پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ خود مرکز ملت تھے چاہتے تو خود حکم دے دیتے کہ نہاکر آیاکرولیکن نہیں وہ اپنے حکم کو حجت شرعیہ نہیں سمجھتے تھے لہذا اس چیز کوپیش کیا جو حقیقۃً حجت شرعیہ تھی فللہ الحمد ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۱۰) حارث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اگر عورت کے نحر کے دن طواف کرلے اور پھر اس کو حیض شروع ہوجائے توکیاکرے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آخری کام بیت اللہ کاطواف ہوناچاہیئے حارث نے کہا یہی فتوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاتھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :۔
اربت عن یدیک سألتنی عن شئی سالت عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکیما اخالف (ابوداؤ د کتاب الحج)
یعنی تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تونے ایسی بات پوچھی جس کے متعلق تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ چکا تھاکیامیں نے فیصلہ نبوی کے خلاف کہہ سکتا ہوں ۔
(۱۱)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ وہ خزانہ جوکعبہ کے اندر مدفون ہے نکال کرتقسیم کردیں ایک شخص نے کہا آپ ایسا نہیں کرسکتے کہنے لگے کیوں ؟ اس نے کہا :۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد رای مکانہ و ابوبکر و ھمااحوج منک الی المال فلم یخرجاہ ......فقام فخرج (ابوداؤد کتاب المناسک )
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اس کاعلم تھا اور ابوبکر کوبھی اور وہ آپ سے زیادہ ضرورت مند تھے لیکن انہوں نے اس کونہیں نکالا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور باہر نکل آئے ۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہاں بھی سنت نبوی کوحکم مانا اور اپنے ارادہ سے باز رہے ۔انہوں نے یہ نہیں کہاکہ اب میں مرکز ملت ہوں جوچاہوں کروں ۔
(۱۲) ایک عورت نے اپنے پوتے کی میراث میں سے حصہ لینے آئی حضرت ابوبکر نے فرمایا ۔
مالک فی کتاب اللہ من شئی وما علمت لک فی سنۃ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلمم شیئا۔
یعنی نہ کتاب اللہ میں تیرا کوئی حصہ مقرر ہے نہ میرے علم کے مطابق سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ۔
اس کے بعد فرمایا تم پھر آنا ۔میں لوگوں سے پوچھوں گاپس انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن مسیلمہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کوچھٹا حصہ دیاتھا پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو چھٹا حصہ دے دیا۔پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس متوفی کی نانی میراث مانگنے آئی حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا ۔
ما انا بزائدہ فی الفرائض ولکن ذلک السدس فان اجتمعتما فھو بینکما (ابوداؤد کتاب الفرائض)
میں مقررہ حصہ میں زیادتی نہیں کرسکتا دادی نانی کاچھٹا حصہ ہے اگر دونوں موجود ہوں تو چھٹا حصہ دونوں میں تقسیم ہوگا ۔
نانی یادادی کاحصہ قرآن میں نہیں ہے صرف حدیث میں ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس مقررہ حصہ میں زیادتی نہیں کرسکتا یعنی جوکچھ حدیث میں ہے وہی حجت ہے اسی پرعمل ہوگا مرکز ملت کوسنت رسول کے بدلنے یااس میں ترمیم وتنسیخ کرنے کا حق نہیں ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیث کوحجت شرعیہ سمجھتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۱۳) حضرت سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔
کان عمر بن الخطاب یقول الدیۃ العاقلۃ ولارث المراۃ من دیۃ زوجھا شیئا حتی قال لہ الضحاک بن سفیان کتب الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورث امراۃ اثیم الضبابی من دیۃ زوجہا فرجع عمر رضی اللہ عنہ (ابوداؤد کتاب الفرائض)
یعنی حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ دیت عاقلہ کو ملے گی اور بیوہ کواسمیں سے کچھ نہیں ملے گا یہاں تک کہ ضحاک رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکولکھ کربھیجا تھا کہ اشیم کی بیوی کو بھی دیت میں حصہ جائے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فتوی سے رجوع کر لیا۔
(۱۴) لم یکن عمر اخذ الجزیۃ من المجوس حتی شھد عبدالرحمن بن عوف ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخذھا من مجوس ھجر (ابوداؤد کتاب الخراج )
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجوس سے جزیہ نہیں لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے شہادت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوس سے جزیہ لیاتھا ۔
قرآن میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کاحکم ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پرعمل کرتے تھے مجوس سے جزیہ لینے کاحکم قرآن میں نہیں ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی جزیہ لیابظاہر یہ حدیث بھی قرآن کے خلاف تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی پس وپیش کے اس کوقبول کیا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک حدیث حجت شرعیہ ہے خواہ وہ قرآن کے موافق ہویابظاہر قرآن کے خلاف ہو :
(۱۵) ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں فرمایا:
یا ایھا الناس ان الرای انما کان من رسول اللہ ﷺ مصیبا لان اللہ کان یریہ وانما ھو منا الظن والتکلف ۔ (ابوداؤد کتاب القضاء )
'' یعنی اے لوگو! رائے تو بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے ہے آپ ہی کی رائے سچی ہوتی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھا دیتا تھا ہماری رائے تو محض ظن وتکلف ہے۔''
اس اثر سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عقیدہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فتوی من جانب اللہ ہوتے تھے۔ اس لیے وہ صحیح ہوتے تھے۔
 
Top