- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
تقدیر سے گناہوں کے جواز پر استدلال
جس شخص کا یہ خیال ہے کہ تقدیر گناہ گاروں کے لیے حجت ہے تو وہ ان مشرکین کی جنس سے ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ ﴿١٤٨﴾الانعام
''مشرکین کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ایسا کرتے اور نہ ہم کسی حلال چیز کو حرام کرتے۔''
اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا:
كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا ۰ۭ قُلْ ہَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا ۰ۭ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ ۱۴۸ قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ ۰ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَہَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ۱۴۹الانعام
''اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں، جھٹلاتے رہے ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھا، اے پیغمبر! ان سے پوچھو کہ تمہارے پاس کوئی سند بھی ہے کہ اس کو ہمارے لیے نکالو۔ تم تو نرے وہموں پر چلتے اور نری اٹکلیں ہی دوڑاتے ہو۔ اے پیغمبر! ان سے کہو کہ اللہ کی حجت کامل ہے۔ وہ چاہتا تو تم سب کو رستہ دکھا دیتا۔''
اگر تقدیر کسی کے لیے حجت ہوسکتی تو اللہ تعالیٰ پیغمبروں کے جھٹلانے والوں کو عذاب نہ دیتا اور قومِ نوح، عاد، ثمود، قومِ لوط اور قومِ فرعون عذاب الٰہی سے ہلاک نہ ہوتیں اور زیادتی کرنے والوں پر حدیں قائم کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ تقدیر کو حجت وہی بنا سکتا ہے جو اپنی خواہش کا پیرو ہو اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی راہ سے منحرف ہو۔ جو شخص تقدیر کو گناہ گاروں کے لیے حجت سمجھتا ہے، وہ ان سے مذمت اور عذاب کو اٹھا دیتا ہے۔ اس کو چاہیے کہ جب اس پر کوئی شخص تعدی کرے تو وہ اس کی نہ مذمت کرے اور نہ اس کو تکلیف پہنچائے بلکہ اس کے نزدیک لذت دینے والی اور دُکھ پہنچانے والی چیز برابر ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ کوئی برائی کرے یا نیکی، اس کے نزدیک کوئی فرق نہیں اور یہ امر طبعاً، عقلاً اور شرعاً محال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۰ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ ۲۸
ص''کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو ان لوگوں کی طرح کر کے رکھیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں یا ہم متقین کو گناہ گاروں کی طرح قرار دیں گے۔''
پھر فرمایا:
أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ﴿٣٥﴾القلم
''کیا ہم مسلمین کو مجرمین کی طرح رکھیں گے۔''
نیز فرمایا:
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۰ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ ۰ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ ۲۱ۧالجاثیہ
''کیا جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں، ان کو ہم ان لوگوں جیسا کر کے رکھیں گے، جو ایمان بھی لائے اور کام بھی اچھے کرتے تھے۔ کیا ان دونوں جماعتوں کا جینا مرنا ایک برابر ہوگا؟ یہ لوگ کیا ہی برے حکم لگایا کرتے ہیں۔''
اور فرمایا:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ۱۱۵المومنون
''کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پید اکر دیا ہے اور کیا تم ہماری طرف نہ لوٹائے جائو گے۔''
اور فرمایا:
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى ۳۶ۭالقیامۃ
''کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا ۔''(یعنی مہمل ہے جو امرونہی کا مکلف نہ ہو۔)
صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں بحث ہوئی۔ اس طرح کہ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے آدم! آپ ابوالبشر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں روح پھونکی۔ اپنے فرشتوں سے آپ کے لیے سجدہ کرایا۔ اس کے باوجود آپ نے اپنے آپ کو اور ہم کو جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام نے جواب دیا۔ آپ وہ موسیٰ علیہ السلام ہیں، جنہیں اللہ نے صفت ِ کلیمی سے منتخب فرمایا، اپنے ہاتھ سے آپ کے لیے تورات لکھی۔ ذرا یہ تو فرمائیے کہ میری پیدائش سے کتنی مدت پہلے آپ نے یہ آیت لکھی ہوئی دیکھی
وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہ فَغَوٰیطہٰ
''آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی پس وہ بھٹک گیا۔''
موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ چالیس سال پہلے فرمایا تو پھر آپ مجھے ایک ایسی بات پر کیوں ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی۔ جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غالب آگئے
(بخاری، کتاب الانبیاء، باب وفات موسیٰ، رقم: ۳۴۰۹، مسلم ، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ، رقم: ۲۷۴۲، ابوداؤد، کتاب السنۃ، باب فی القدر، رقم: ۴۷۰۲۔)