• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقدیر پر ایمان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
تقدیر پر ایمان

"قدر" یعنی تقدیر سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنے علم اور حکمت کے مطابق ساری کائنات کا ان کے وجود سے پہلے اندازہ اور فیصلہ کرنا ہے۔تقدیر پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے:
(1)اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ ازل سے ابد تک ہر چیز سے اجمالا اور تفصیلا واقف ہے،چاہے اس کا تعلق خود اپنے اعمال سے ہو،یا اپنے بندوں کے افعال سے۔
(2)اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ لوح محفوظ ،یعنی نوشتہ تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔انہی دو امور کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ ۗ إِنَّ ذَٰلِكَ فِى كِتَٰبٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ ﴿70﴾
ترجمہ: کیا تجھے معلوم نہیں کہ الله جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے یہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے یہ الله پر آسان ہے (سورۃ الحج،آیت 70)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ.
"اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لکھ دی تھیں اور اس کا عرش پانی پر ہے ۔"(صحیح مسلم،القدر،باب حجاج آدم و موسی علیھما السلام ،حدیث:2653)
(3) اس بات پر ایمان کہ تمام کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی سے وقوع پزیر ہے،خواہ اس کا تعلق خود باری تعالیٰ کے اپنے عمل سے ہو یا مخلوقات کے افعال و اعمال سے۔اللہ تعالیٰ اپنے عمل کے بارے میں فرماتا ہے:
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُ ۗ
ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے (سورۃ القصص،آیت 68)
ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا:
وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ ﴿27﴾
ترجمہ: الله جوچاہتا ہے کرتا ہے (سورۃ ابراھیم،آیت 27)
ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ
ترجمہ: "وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں جس طرح چاہتا ہے ،تمہاری شکل و صورت بناتا ہے۔"(سورۃ آل عمران،آیت 6)
اور مخلوقات کے افعال و اعمال کے متعلق فرماتا ہے:
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَٰتَلُوكُمْ ۚ
ترجمہ: اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر غالب کردیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے (سورۃ النساء،آیت 90)
ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوا:
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ﴿137﴾
ترجمہ: اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو ان کو اور جو یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں(سورۃ الانعام،آیت 137)
(4)اس بات پر ایمان کہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ٱللَّهُ خَٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍۢ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ وَكِيلٌۭ ﴿62﴾
ترجمہ: الله ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے (سورۃ الزمر،آیت 62)
ایک مقام پر الفاظ یوں ہیں:
وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۢ فَقَدَّرَهُۥ تَقْدِيرًۭا ﴿2﴾
ترجمہ: اور اس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اندازہ پر قائم کر دیا (سورۃ الفرقان،آیت 2)
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بابت فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا:
وَٱللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴿96﴾
ترجمہ: حالانکہ الله ہی نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم بناتے ہو (سورۃ الصافات،آیت 96)
قبل ازیں ہم نے "تقدیر پر ایمان" کا جو وصف بیان کیا ہے وہ بندوں کے اختیاری افعال پر ان کو حاصل شدہ قدرت اور مشیت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ شریعت اور امر واقع دونوں ہی اس کے لیے اس کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں۔

شریعت سے ثبوت
مشیت،یعنی اپنی مرضی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَمَن شَآءَ ٱتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِۦ مَابًا ﴿39﴾
ترجمہ: پس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانہ بنا ئے (سورۃ النباء،آیت 39)
ایک جگہ ارشاد الہی ہے:
فَأْتُوا۟ حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ
ترجمہ: پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ (سورۃ البقرہ،آیت 223)
اور مخلوق کی قدرت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ وَٱسْمَعُوا۟ وَأَطِيعُوا۟
ترجمہ: پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو اور (اس کے احکام کو) سنو اور (اس کے) فرمانبردار رہو (سورۃ التغابن،آیت 16)
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْ ۗ
ترجمہ: الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی (سورۃ البقرہ،آیت 286)
امر واقع سے ثبوت
ہر انسان جانتا ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ قدرت اور اختیار ضرور حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کا مختار ہے اور وہ کسی فعل کے "ارادی" مثلا چلنے اور "غیر ارادی" مثلا کانپنے ،میں فرق کرتا ہے،لیکن کسی بندے کی مشیت اور قدرت ،اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور قدرت کے تابع ہوتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِمَن شَآءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ ﴿28﴾وَمَا تَشَآءُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿29﴾
ترجمہ: (یعنی) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے (سورۃ التکویر،آیت 28-29)
چونکہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ۔اس لیے اس کے دائرہ ملکیت میں کوئی بھی چیز اس کے علم اور مشیت کے بغیر رونما نہیں ہو سکتی۔
"تقدیر پر ایمان" کی جو تعریف ہم نے بیان کی ہے وہ کسی فرد کے لیے فرائض سے غفلت برتنے یا نافرمانی کے ارتکاب کی اجازت کی دلیل نہیں بن سکتی،چنانچہ اس سے دلیل پکڑنا کئی اعتبار سے باطل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سَيَقُولُ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكْنَا وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَىْءٍۢ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا۟ بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍۢ فَتُخْرِجُوهُ لَنَآ ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ﴿148﴾
ترجمہ: جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک کرتے) اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ کر رہے کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے (اگر ہے) تو اسے ہمارے سامنے نکالو تم محض خیال کے پیچھے چلتے اور اٹکل کی تیر چلاتے ہو (سورۃ الانعام،آیت 148)
اگر "نوشتہ تقدیر" ان کے لیے حجت بن سکتا تو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ کفار اور مشرکین کو اپنے عذاب کا مزہ نہ چکھاتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
رُّسُلًۭا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللَّهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ ٱلرُّسُلِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًۭا﴿165﴾
ترجمہ: (سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے (سورۃ النساء،آیت 165)
اسی طرح اگر مخالفین کے لیے "نوشتہ تقدیر" دلیل بن سکتا تو رسولوں کو بھیج کر ان کی "حجت" کو باطل نہ ٹھہرایا جاتا کیونکہ پیغمبروں کو بھیجنے کے بعد اگر کوئی مخالفت ہوتی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردی تقدیر ہی سے واقع ہوتی ہے۔
امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(ما منكم من أحد إلا قد كتب مقعده من النار أو من الجنة). فقال رجل من القوم: ألا نتكل يا رسول الله؟ قال: (لا، اعملوا فكل ميسَّر. ثم قرأ: {فأما من أعطى واتقى}. الآية)
"تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ اللہ نے جنت یا جہنم میں لکھ دیا ہے ۔یہ سن کر جماعت صحابہ میں سے ایک شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ ! کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں۔آپ (ﷺ) نے فرمایا : نہیں،عمل کرو کیونکہ ہر ایک کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (فأما من أعطى واتقى)(ترجمہ: تو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرتا رہا۔۔۔۔الایۃ"(صحیح بخاری ،القدر،باب وکان امر اللہ قدر ا مقدورا،حدیث :6605)
متذکرہ بالا الفاظ صحیح بخاری کے ہیں ،اور صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:
فکل میسر لما خلق لہ
"ہر ایک کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔"(صحیح مسلم ،القدر ،باب کیفیۃ خلق الآدمی،فی بطن امہ۔۔۔۔۔،حدیث :2647)
پس معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور عمل کو چھوڑ کر صرف تقدیر ہی پر بھروسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے بندے کو اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا "مکلف" نہیں ٹھہرایا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ
ترجمہ: پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو (سورۃ التغابن،آیت 16)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ
ترجمہ: الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا (سورۃ البقرہ،آیت 286)
اگر بندہ کسی فعل کی انجام دہی پر مجبور ہوتا تو وہ ہر اس فعل کو انجام دینے پر بھی مجبور ہو جاتا جس سے چھٹکارا پانے کی اس میں استطاعت ہے۔لیکن یہ چیز باطل ہے،لہذا اگر کسی سے جہالت،نسیان (بھول) اور اکراہ (زبردستی) کے سبب کوئی مصیبت کا کام سر زد ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہ ہو گا،کیونکہ وہ معذور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے "نوشتہ تقدیر" کو انتہائی پوشیدہ اور صیغہ راز میں رکھا ہے،چنانچہ جس چیز کا پہلے سےاندازہ ٹھہرایا جا چکا ہے،اس کے رونما ہونے والے بعد ہی اس کا علم ہوتا ہے۔لیکن جب بنہ کوئی کام کرتا ہے تو وہ پہلے سے جانتا ہے کہ وہ کس کام کا ارادہ رکھتا ہے،پس اس کے فعل کا ارادہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اس کے علم پر مبنی نہیں ہوتا۔یہ چیز نافرمانی کے کاموں پر تقدیر سے استدلال کی نفی کرتی ہے،کیونکہ جس چیز کا علم ہی نہ ہو وہ کسی امر کے لیے دلیل کیسے بن سکتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیاوی معاملات میں ہر پسند اور نفع بخش چیز کا حریص ہوتا ہے ،اور جب تک اسے پا نہ لے اس کا متمنی و متلاشی رہتا ہے ۔جبکہ نا پسندیدہ اور غیر نفع بخش چیزوں کی طرف ہر گز توجہ نہیں دیتا،اور اپنی اس توجہ پر "تقدیر" سے دلیل پکڑتا ہے تو امور دین میں اس کے لیے جو چیزیں نفع بخش ہو سکتی ہیں ان کو چھوڑ کر تکلیف دہ چیزوں کی طرف اس کا پلٹنا اور پھر اس پر "نوشتہ تقدیر" سے استدلال کرنا کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟کیا ان دونوں (دینی اور دنیاوی ) امور کا معاملہ یکساں نہیں ہے؟
اس چیز کی مزید وضاحت کے لیے ہم یہاں دو مثالیں پیش کرتے ہیں:
(1)اگر ایک انسان کے سامنے دو راستے ہوں ۔ایک راستہ کسی ایسے شہر کی طرف بکلتا ہو جہاں بد نظمی ،قتل و غارت ،لوٹ مار،عصمت دری،خوف و ہراس اور بھوک کا راج ہو،اور دوسرا راستہ کسی ایسے شہر کی طرف جا کر ختم ہوتا ہو جہاں ہر طرف امن و امان،خوش انتظامی ،عیش و آرام ،آسودہ حالی،احترام آدمیت،عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ ہو،تو وہ کون سا راستہ اختیار کرے گا؟
ظاہر ہے کہ وہ دوسرا راستہ ہی اختیار کرے گا جو ایک ایسے منظم فلاحی شہر پر جا کر ختم ہوتا ہے جہاں چاروں طرف امن و امان ہے۔جب کوئی عقل مند آدمی "نوشتہ تقدیر"کو حجت بنا کر بد نظمی،خوف و ہراس اور لوٹ مار والے شہر کی راہ نہیں لہتا تو جو شخص جنت کا راستہ چھوڑ کر جہنم کا راستہ اختیار کرے وہ "نوشتہ تقدیر" کا سہارا کس طرح لے سکتا ہے؟
(2)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ڈاکٹر کسی مریض کو دوا پینے کی تاکید کرتا ہے تو وہ اسے نہ چاہنے کے با وجود پی لیتا ہے،اسی طرح جب وہ کسی غذا کے کھانے سے منع کرتا ہے تو مریض رغبت کے باوجود وہ غذا چھوڑ دیتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ مریض اپنی سلامتی اور شفا ہی کےلیے کرتا ہے ،"نوتشہ تقدیر" کو دلیل بنا کر ایسا ہرگز نہیں کرتا کہ نا پسندیدہ دوا پینے سے انکار کرے اور وہ ممنوعہ غذائیں کھاتا رہے جو اس کے لیے مضر ہیں۔پس یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو چھوڑ کر وہ چیزیں اپنائے جن سے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے منع فرمایا ہے ،اور پھر اس پر "نوشتہ تقدیر" سے دلیلیں لیتا پھرے۔
"نوشتہ تقدیر" کو دلیل بنا کر واجبات کو چھوڑنے ،یا معصیت کے کام کرنے والے شخص پر اگر کوئی شخص ظلم و زیادتی کرے ،اس کا مال و اسباب چھین لے،یا اس کی عزت پامال کرے،اور پھر "تقدیر" سے دلیل پکڑتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے ملامت مت کرو کیونکہ میرا ظلم و زیادتی تو محض اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے ،تو وہ یہ دلیل ہرگز قبل نہیں کرے گا۔پس جب وہ "تقدیر" کی دلیل کو اپنے اوپر کیے جانے والے کسی دوسرے شخص کے ظلم و ستم کے لیے قبول نہیں کرتا،تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق و فرائض میں اپنی کوتاہی پر اسے کس طرح دلیل بناتا ہے؟
اس سلسلے میں لگے ہاتھوں ایک واقعہ سن لیجیے۔امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک طور کا مقدمہ پیش ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم جاری فرمایا۔اس نے عرض کی "اے امیر المومنین!نرمی کیجیےکیونکہ میں نے یہ چوری صرف اللہ تعالیٰ کی "قضا و قدر" سے کی تھی ۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہم بھی تو تیرا ہاتھ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قضا و قدر سے کاٹ رہے ہیں۔"

اسلام کے بنیادی عقائد از محمد صالح العثیمین​
 
Last edited:
Top