• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقریظ۔ جمہوریت دین دجدید-3۔ ابو ناصر الدین محمد عمران سلفی مدرس جامعہ دارالحدیث محمدیہ جلا لپور پیر

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تقریظ​

الحمد للہ المنقذ من الضلال، المرشد الی الحق، الھادی من یشآء الی صراط المستقیم۔
والصلاۃ والسلام علی نبیہ ورسولہ محمد و الہ واصحابہ اجمعین:

سب تعریفیں اللہ رب العالمین کی ذات با برکات کیلئے اور درود وسلام ہادی برحق خاتم النبین والمرسلین جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر:
سوشلزم اور کمیونزم کا مقابلہ امت مسلمہ نے بہت صحیح اور بر وقت کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف روس پسپا ہوا بلکہ اس کے حصے تک بکھر گئے۔روس کے بعد ملت کفر کی سرداری امریکہ بہادر کے ہاتھ میں آئی اور اس نے پوری دنیا میں اپنی حکمرانی کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔عالم اسلام کو اپنا ھدف قرار دے کر کھلے اور چھپے ہر انداز سے امت اسلام کا شیرازہ بکھیرنے اور اپنے ناکام منصوبے کی تکمیل کیلئے از سر نو جت گیا۔جس میں کچھ صدی بھر کا تعطل آگیا تھا۔ اپنے ناکام منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سب سے پہلے اس کے شیطانی ذہن نے یہ سوچا کہ اب امت اسلام میں خلافت کا امکان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہونا چاہئے کیونکہ خلافت کا نظام یورپ کی نگاہوں میں ایک ڈرائونے خواب کی حیثیت سے کم نہیں جس نے ان کی نیندیں اڑا دیں ہیں۔

اس امت اسلام کو برباد کرنے میں صرف یورپ اور بے دین قوتوں کا کام نہیں ہے اسلام اور اسلامی تہذیب کا خاتمہ مغرب اور رفقائے مغرب کے بس کی بات نہیں ہے۔ اللہ نے جو ہمیں دین دیا ہے ایسا دین نہیں جو دوسرے ختم کر ڈالیں۔ یہ اس وقت ختم ہو گا جب دین والے اسے ختم کریں گے،اس بات پر رسول اللہ ﷺ کی احادیث شاہد ہیں (اس کے لئے دیکھیں: اشراط الساعۃ فی احوال الساعۃ)

آج اگر ہم اپنے زوال کے اسباب پر غور کریں تو چند باتیںہمارے سامنے آتی ہیں۔

۱۔امت مسلم کاجہاد جیسے عظیم فریضہ کو ترک کرکے حکمتوں کے بھینٹ چڑھا دینا۔

۲۔ایسے باطل علماء کا وجود میں آنا جو کفر بالطاغوت کا اعلان کرنے کی بجائے طاغوت کی گودمیں کھیلنے کو ہی اسلام کی خدمت گردانیں۔
۳۔مسلم امہ کا آرام پرست اور عیش پرست ہونا۔

پہلی اور تیسری قسم کو چھوڑ کر صرف دوسری پر غور کرتے ہیں کہ انہوں نے کفر بالطاغوت کے حوالے سے امت کی کیا خدمت کی ہے؟رسول اللہ ﷺ نے علماء کو اس امت میں انبیاء کا وارث قرار دیا ہے،کیا علماء نے وراثت کا حق ادا کیا ہے یا نہیں ؟

آج علمائے امت میں سے اکثریت اسلام کے مقابل باطل کے بنائے گئے نظام ''جمہوریت'' کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتی ہے۔ الا ما رحم ربی

ذیل میں جمہوریت اور اس کے لازمی متعلقات کے حوالے سے جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ جس نے امت مسلمہ کی فکر میں بہت بڑی دیوار کھڑی کر دی ہے۔ رب العالمین ہماری اصلاح فرمائے۔آمین۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جمہوریت کیا ہے؟
لفظ جمہوریت کی تعریف بہت سے مستشرقین نے اپنے اپنے انداز میں کی ہے ان تعریفات میں سب سے زیادہ وزنی اور جسے قبول کیا گیا ہے وہ''لنکن'' نامی شخص نے 1863ء کے لگ بھگ ان الفاط میں کی''لوگوں کی حکومت لوگوں کے لئے اور لوگوں کے ذریعے''۔

جمہوریت کی تعریف جب ہم پڑھتے ہیں تو ان میں ایک سقراط نامی شخص کا ہمیں تعارف ملتا ہے، یہ شخص جمہوریت کا نہایت شدت کے ساتھ حامی بھی تھا اور مخالف بھی ۔

حامی کیسا تھا؟ایک موقع پر لوگوں کی اکثریت نے اس کے بارے میں فیصلہ کر دیا کہ تو نے زہر کا پیالہ پینا ہے۔چنانچہ اس نے زہر کے پیالے کو منہ سے لگایا اور مر گیا ۔

مخالف کیسا تھا؟یہی شخص اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے کہ''جمہوریت کی مثال ایک بحری جہاز کی مانند ہے جس کا کپتان' عوام' جہاز رانی ،موسم اور ستاروں کے علوم سے محروم ہے۔اس لئے وہ کسی بھی وقت جہاز کو اپنی نا عاقبت اندیشی سے تباہ و برباد کر سکتا ہے۔''

اب میں دعوت فکر دیتا ہوں آج کے جمہوری حضرات کو کہ واقعتاً تم ایسے ہی جمہوریت کو تسلیم کرتے ہو جیسے 'سقراط ' نے کہا ہے؟کیا حکمرانوں میں سے کوئی حکمران یا کوئی رعایا میں سے ایسا ہے جو اپنے دعویٰ میں سچا ہو؟ظلم تو یہ ہے کہ آج صاحب جبہ و دستار نے صحابہ کرام کے دور کو جمہوری دور کہہ دیا،حتیٰ کہ یہ بھی کہنے سے دریغ نہ کیا کہ اہل مغرب نے جمہوریت اسلام سے چرائی ہے'۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جمہوریت کیا ہے؟
لفظ جمہوریت کی تعریف بہت سے مستشرقین نے اپنے اپنے انداز میں کی ہے ان تعریفات میں سب سے زیادہ وزنی اور جسے قبول کیا گیا ہے وہ''لنکن'' نامی شخص نے 1863ء کے لگ بھگ ان الفاط میں کی''لوگوں کی حکومت لوگوں کے لئے اور لوگوں کے ذریعے''۔

جمہوریت کی تعریف جب ہم پڑھتے ہیں تو ان میں ایک سقراط نامی شخص کا ہمیں تعارف ملتا ہے، یہ شخص جمہوریت کا نہایت شدت کے ساتھ حامی بھی تھا اور مخالف بھی ۔

حامی کیسا تھا؟ایک موقع پر لوگوں کی اکثریت نے اس کے بارے میں فیصلہ کر دیا کہ تو نے زہر کا پیالہ پینا ہے۔چنانچہ اس نے زہر کے پیالے کو منہ سے لگایا اور مر گیا ۔

مخالف کیسا تھا؟یہی شخص اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے کہ''جمہوریت کی مثال ایک بحری جہاز کی مانند ہے جس کا کپتان' عوام' جہاز رانی ،موسم اور ستاروں کے علوم سے محروم ہے۔اس لئے وہ کسی بھی وقت جہاز کو اپنی نا عاقبت اندیشی سے تباہ و برباد کر سکتا ہے۔''

اب میں دعوت فکر دیتا ہوں آج کے جمہوری حضرات کو کہ واقعتاً تم ایسے ہی جمہوریت کو تسلیم کرتے ہو جیسے 'سقراط ' نے کہا ہے؟کیا حکمرانوں میں سے کوئی حکمران یا کوئی رعایا میں سے ایسا ہے جو اپنے دعویٰ میں سچا ہو؟ظلم تو یہ ہے کہ آج صاحب جبہ و دستار نے صحابہ کرام کے دور کو جمہوری دور کہہ دیا،حتیٰ کہ یہ بھی کہنے سے دریغ نہ کیا کہ اہل مغرب نے جمہوریت اسلام سے چرائی ہے'۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
کیا مشورہ ووٹ ہی کا دوسرا نام ہے؟
صد حیف کہ آج مسلم امہ نے مشورہ جیسی عظیم قرآنی نص کو ووٹ جیسے غلیظ لفظ سے تشبیہ دے دی۔مشورہ کے بارے میں قرآن مقدس کے دو فرمان ہیں۔

وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳۸ۚ (سورۃ الشوریٰ :38)

وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ(آل عمران:159)

اللہ رب العالمین نے رسول اکرم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ معاملات میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیجیے رسول اکرمﷺ کی زندگی مبارک سے ایک نہیں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔بعد میں صحابہ کرام نے اس قرآنی حکم اور سنت نبوی ﷺ کوآگے بڑھانے کیلئے عملی کردار کا مظاہرہ کر کے امت کے اخلاف پر حجت قائم کر دی۔

رسول اللہ ﷺ کے دور میں مشورہ سازی کیسے ہوتی تھی؟ اسلام نے جو مشورہ سازی کا تصور پیش کیا ہے اس میں یہ بات ملحوظ خاطر رکھی گئی ہے کہ مشورہ دینے والادیندار ،عقل منداور صاحب رائے ہونا چاہئے۔اس لئے بعض اوقات رسول اکرم ﷺ نے ایک فرد کے مشورہ کو سینکڑوںافرادکے مشورہ پر وزنی تصور کیا،جبکہ جمہوریت میں ان صفات جلیلہ سے بالکل بہرہ شخص کی وہی اہمیت ہے جو صاحب صفات کی ہے۔رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ لیا ہے لیکن اس کی بات کو قبول کیا ہے جسکی بات دوسروں کی نسبت زیادہ وزنی اور اسلام کے مفاد میں ہوتی ۔جیسا کہ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ اب مشرکین اپنے پورے ہتھکنڈوں کے ساتھ امت اسلام پر حملہ کرنے کیلئے جمع ہو چکے ہیں دفاع کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔سب نے مختلف انداز میں اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے صرف سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کو حکم دیا کہ خندقیں کھودیں۔اب ذرا تاریخ کی معتبر کتب کی طرف رجوع کریں اور اس واقعہ کو عقل سلیم کے ساتھ سوچیں کہ نبی برحق نے اس موقع پر سیدنا ابو بکر صدیق و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھما امت کے بہترین افراد کی رائے کو قبول نہ کیا صرف سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر عمل کر کے تسخیر عالم کا ایک نیا نقشہ قائم کیا۔ سوچنے والا یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ اتنی کثیر تعداد صحابہ کرام کی تھی کیا وہ دین دار نہ تھے؟عقل مند نہ تھے؟ صاحب رائے نہ تھے؟یقیناً سب صحابہ کرام صاحب فضیلت تھے مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کی رائے کو زیادہ فضیلت دی جسکی رائے دوسروں کی نسبت اسلام اور اہل اسلام کیلئے زیادہ مفید تھی۔یہاں رسول اللہﷺ کے اس عمل واضح نے جمہوریت کے صنم کدہ کو پاش پاش کرکے امت کے ان صاحب فکر لوگوں کو جمہوریت کی بجائے مشورہ سازی پر اکسایا۔ فافہم وتدبر فی ھذہ المسئلہ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحابہ کرام کے اندر مشورہ سازی کیسے ہوتی تھی؟
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی تو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن مین ایک اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ رسول اکرم ﷺ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لشکر کو جہاد کے لئے تیار کیا لیکن روانہ نہ کر سکے، اس بارے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کیا مشورہ میں بنیادی طور پر تین اہم اقسام کی آراء سامنے آئیں۔

۱۔حالات ٹھیک نہیں اس کو ختم کر دیا جائے۔

۲۔فی الحال ختم کر دیا جائے جب حالات درست ہو جائینگے پھر روانہ کر دیا جائے ۔

۳۔حالات جیسے بھی ہیں روانہ کیا جائے۔

پہلی اور دوسری رائے میں صحابہ کرام کی اکثریت عشرہ مبشرہ کے تقریباً سب اصحاب شامل تھے سوائے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے۔

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا شمار تیسری رائے میں تھا۔اب جب مشورہ مکمل ہو گیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ پڑھا،''اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یقین ہو کہ درندے آکر مجھے اٹھا لے جائیں تو بھی اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں گاجیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے حکم دیا تھا اور اگر ان آبادیوں میں میرے سوا کوئی شخص بھی باقی نہ رہے تو تب بھی لشکر روانہ کروں گا''۔(تاریخ طبری ،بسند جید)

اس کے علاوہ خلافت صدیقی میں ایک اور اہم مسئلہ پیش آیا جسے محدثین کرا م نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے کہ جب لوگوں نے زکوٰۃ جیسے اہم فریضہ سے انکار کردیا تو صدیق اکبر نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب کیا ہر صحابی نے اپنے ذہن کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سب صحابہ کی سننے کے بعد صدیق اکبر نے اپنا فیصلہ سنایا کہ ان کے خلاف جہاد ہو گا ۔جب صحابہ نے صدیق اکبر کی یہ بات سنی تو بنیادی طور پر سیدنا عمر وعلی رضی اللہ عنہما نے منع کیا کہ یہ کام نہ کریں تو صدیق اکبر نے عمررضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا''کفر کی حالت میں دلیر اور اسلام کی حالت میں بزدل''۔

اس کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نہایت فصیح و بلیغ خطبہ دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ''میں ہر اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا یہاں تک کہ میری روح اللہ سے جا ملے گی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا''اللہ کی قسم اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابو بکر صدیق کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ ان کی رائے حق ہے۔'' (صحیح بخاری )

اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ خود اپنی سواری پر نکلے اور جہاد کے لئے اپنے عزم مصمم کا اظہار کیا۔ کتب احادیث میں معتبر اسناد سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ نے ابو بکر کو روکا بعد میں سیدنا صدیق اکبر نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر بنا کر ان کے خلاف جہاد کیلئے روانہ کیا۔

شریعت اسلام کے شیدائیوں کو اب دعوت فکر ہے کہ ان دونوں واقعات کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ کیا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جمہورکی رائے کو تسلیم کیا ہے؟

صدیق اکبر کا یہ طرز عمل ہمیں بتاتا ہے کہ امت اسلام کا فیصلہ عقل و خرد اور سابقہ فی الدین والے حضرات ہی حل کریں گے ۔نہ کہ ان کی کثرت کو دیکھا جائے گا ۔جب یہ دونوں لشکر فتح یاب ہو کر مدینہ طیبہ واپس لوٹے تو سب صحابہ کرام نے اعتراف کیا کہ واقعی اکیلے خلیفہ کی رائے ہی امر بالحق تھی
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عورت کی حکمرانی جائز ہے ؟
جمہوریت نے ایک تحفہ ہمیں اور بھی دیا ہے کہ اگر عوام کی اکثرت نے کسی عورت کو منتخب کر دیا ہے تو وہ ہماری حکمران بن سکتی ہے دلیل کے طور پر ایک جمہوری عالم دین نے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جنگ جمل کے واقعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی حکمرانی جائز ہے کیونکہ یہ قافلہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی معیت میں آیا تھا ۔اے جہالت تیرا ستیاناس ! ۔شریعت نے عورت کو دین اور عقل کا ناقص کہا ہے اور اس کی ذمہ داریوں کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا گیا ہے ۔حکومتوں کو چلانا عورت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھی ۔ جنگ جمل میں جب سیدہ عائشہ مدینہ رضی اللہ عنہاسے قاتلین عثمان کے قصاص کا مطالبہ لے کر چلیں تو سوائے مصالحت کے اور کوئی چیز مد نظر نہ تھی ۔منافقین اور بے دین قوتوں کی شرارت کی وجہ سے لڑائی واقع ہوئی۔ اس موقع پر ایک صحابی سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث سنائی کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس کی قیادت عورت کرے ۔یہ حدیث سننے کے بعد سیدہ عائشہ نہایت پریشان و غمزدہ ہو گئیں اور اپنے فعل پر نادم ہوئیں ۔تفصیل کے لیے دیکھیے (مصنف ابن ابی شیبہ جلد نمبر ۲۲ کتاب الجمل جدید نسخہ)۔

مذکو رہ گفتگو سے ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکو اس سے قبل نبی ﷺ کی اس حدیث کا پتا نہیں تھا جب حدیث کا پتا چلا تو اپنے فعل سے رجوع کر لیا اور یہی اہل ایمان کی صفت ہے کہ حق آنے کے بعد اپنے فعل سے رجوع کر لیا جائے ۔اب اس حقیقت کے معلوم ہونے کے بعد بھی کوئی جنگ جمل سے عورت کی حکمرانی کا جواز ثابت کرے تو اسے شریعت کے فہم سے عاری ہی کہیں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حزب اختلاف کا تصور
رسول اللہ ﷺ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد خود صحابہ تجہیز و تکفین میں مگن تھے اور کچھ نہایت غم و الم کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے تھے اور کچھ صحابہ معاملات کو امت میں صحیح انداز سے چلانے کے معاملہ میں فکر مند تھے آخر الذکر انصاری لوگ ثقیفہ بنی ساعدۃ میں اکٹھے ہوئے انصار کے دو مشہور قبیلے اوس اور خزرج میں سے یہ ثقیفہ (ڈیرہ ) بنو خزرج کی ایک شاخ بنو ساعدہ کے عظیم سپوت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا تھا ۔ خوشی اور غمی کے موقع پر لوگ ایسے مقامات پر اکٹھے ہوجاتے ہیں یہ ثقیفہ مسجد نبوی سے آج کے حساب کے مطابق 500 میٹر کے فاصلہ پر تھا یہاں اکٹھے ہونے والے لوگ زیادہ تر بنو ساعدہ سے تعلق رکھتے تھے مہاجرین میں سے صرف دو اشخاص کے بارے میں صحیح روایت ملتی ہے کہ وہ بھی یہاں موجود تھے ۔بنو ساعدہ نے سوچا کہ ہم نے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی اپنی بساط سے بڑھ کر نصرت کی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہمارا تعلق بھی مثالی رہا لہٰذا خلافت کے ہم دوسروں کی نسبت زیادہ حق دار ہیں ۔یہ گفتگو جاری تھی کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو لے کر ثقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے ۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بھی ساتھ گئے وہاں پہنچے تھوڑی دیر بعد ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور فرمانے لگے ہم اللہ کے دین کے مدد گار اور اسلام کی فوج ہیں اور اے مہاجرین کی جماعت تم تھوڑی سی جماعت ہو ...... سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہاری فضیلت اور برتری برحق ہے مگر خلافت سوائے قریش اور کسی کے لئے نہیں ہو سکتی اے سعد تم خوب جانتے ہوکہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں موقع پرجہاں تم بھی موجود تھے فرمایا تھا قریش امر خلافت کے والی ہیں ۔سعد رضی اللہ عنہ نے اقرار کیا اس کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ عمر اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما بیٹھے ہیں جس کی چاہتے ہو بیعت کر لو لیکن لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ذات پر مجتمع ہوئے اور خلافت منعقد ہو گئی اس کے بعد مسجد نبوی میں باقی لوگوں نے بیعت کر لی سوائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے (بخاری )

یہ وہ واقعہ ہے جسے جمہوری لوگوں نے حزب اختلاف کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے پیش کیا سقیفہ بنی ساعدہ اس وقت کا پارلیمنٹ ہائوس قرار دیا اور لوگوں کی بیعت کو جمہوری ووٹوں سے تشبیہ دی اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قائد حزب اختلاف کے طور پر پیش کیا ۔

رب العالمین کی طرف سے دین کا فہم انسانیت کے لیے دیگر انعا مات کی طرح بہت بڑا انعام ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک فرمان میں اللہ کا ارادہ فرمایا ہے۔ من یرداللہ بہ خیراً یفقہ في الدین۔ محدیثین کرام رحمہم اللہ جن کی زندگیاں اسلام کی خدمت میں گزری ہیں انہوں ہمیں قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے چند اصول بتلائے ہیں ان اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ قرآن و سنت کو امت کے اسلاف (صحابہ تابعین ،محدثین ،مفسرین ) کے فہم کو مد نظر رکھ کر امت میں پھیلانا ہے ۔امام اہل السنۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے کہ جو شریعت کو سلف صالحین کے فہم سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے گمراہی اس کے قدم چومتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
آپ سے سوال ہے کہ کیا انعقاد خلافت کے وقت ارض اسلام کے سب مسلمانوں نے شرکت کی تھی یا چند نے ؟کیا ارض اسلام پر پھیلے ہوئے گورنر حضرات انعقاد خلافت کے وقت موجود تھے ؟کیا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کردار ادا کیا جو آج کا قائد حزب اختلاف کرتا ہے۔ (حالانکہ صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ تین ماہ بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہنے بھی بیعت کر لی تھی)۔ اسلام نے انسانیت کے سروں کی گنتی نہیں کی بلکہ صاحب فضیلت لوگوں کا انتخاب کیا ہے۔ اگرچہ منتخب کرنے والے چند گنتی کے افراد ہی کیوں نہ ہوں۔ افسوس صد افسوس ! آج امت نے اس نبوی منہج کو بازیچہ اطفال بنا کر اغیار کو اتنی لمبی زبان عطا کردی کہ آج نہ قرآن محفوظ نہ سنت کا تحفظ نہ حرمت رسول ﷺ کا تقدس نہ مسلم سرزمینوں کے حقوق کی پاسداری ۔

رب العالمین نے قرآن مقدس میں ہمیں سب امتوں میں سے بہترین امت قرار دیا ہے۔ اللہ نے ہمیں چنا ہی اس کام کے لیے ہے جس کا حصول ایک مسلسل عمل ہے ۔اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے مبشرات پر ہمارا ایمان ہے ۔حق کا غلبہ حق ہے ،یہود نصاری اورمشرکین کا قائم کردہ عالمی جبر کا ڈھانچہ پوری دنیا سے مٹ جائے گا ۔یہ سب گرتی ہوئی دیواریں ہیں جن کا فکری اور عملی سہارالینا ،ان سے مکالمہ کرنا، چاہے یہ مکالمہ بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پر ہو یا بقائے باہمی کے سفید پر چم تلے ،دراصل جاہلی اقدار کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہے ۔باطل افکار کے انسانوں کا انجام بھی ان دیواروں کے ساتھ منسلک ہے ۔جاہلیت نے بر سر محفل رسول اللہ ﷺ کو کہہ دیا کہ اگر آپ ہمارے معبودوں کو قبول کریں تو ہم بھی آپ کے اللہ کی عبادت کریں گے۔ یہ جاہلیت کا قدیم مطالبہ تھا اور آج بھی وہی ہے فرق صرف جدت کا ہے ۔اس کی چاہت ہے کہ اس کی برتری کو قبول کیا جائے ۔اسلام کی بجائے جمہوریت ہماری اساس ہو ۔شریعت کی بجائے سرمایہ داری ہمارا طریق زندگی ہو ۔ قرآن کی بجائے انسانی دستور ہمارا لائحہ عمل ہو ۔اور بیت کعبہ کی بجائے بیت ابیض (وائٹ ہائو س ) ہمارا نظریاتی اور عملی قبلہ بن جائے۔ اس ساری جاہلیت کے مقابلے میں ہمارا بحیثیت ایک مسلمان وہی جواب ہونا چاہیے جو فاران کی چوٹیوں پر کھڑے ہوکر محمد عربی ﷺنے دیا:

قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝۶ۧ(سورۃ الکافرون )
قابل صد احترام ڈاکٹر سید شفیق الرحمن صاحب حفظہ اللہ ایک سچے سُچے مذہبی اورمنہجی انسان ہیں۔ قبول حق میں ذرا برابر بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور ہٹیں ہی کیوں کہ انہیں حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے آہنی ہاتھ جو لگے ۔اُن کی یہ کاوش ـالمسمی ''جمہوریت دین جدید'' ایک علمی اور فکری کاوش ہے۔ رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں دست بدعا ہوں کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو کفر کے بنائے ہوئے طاغوتی نظام سے چھٹکارا دلائے اور ان کے لیے اور استفادہ کرنے والے قارئین کے لیے باعث نجات بنائے ۔آمین یا رب العالمین ۔

ابو ناصر الدین محمد عمران سلفی
مدرس جامعہ دارالحدیث محمدیہ
جلا لپور پیروالہ ملتان
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
آپ سے سوال ہے کہ کیا انعقاد خلافت کے وقت ارض اسلام کے سب مسلمانوں نے شرکت کی تھی یا چند نے ؟کیا ارض اسلام پر پھیلے ہوئے گورنر حضرات انعقاد خلافت کے وقت موجود تھے ؟کیا سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کردار ادا کیا جو آج کا قائد حزب اختلاف کرتا ہے۔ (حالانکہ صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ تین ماہ بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہنے بھی بیعت کر لی تھی)۔ اسلام نے انسانیت کے سروں کی گنتی نہیں کی بلکہ صاحب فضیلت لوگوں کا انتخاب کیا ہے۔ اگرچہ منتخب کرنے والے چند گنتی کے افراد ہی کیوں نہ ہوں۔ افسوس صد افسوس ! آج امت نے اس نبوی منہج کو بازیچہ اطفال بنا کر اغیار کو اتنی لمبی زبان عطا کردی کہ آج نہ قرآن محفوظ نہ سنت کا تحفظ نہ حرمت رسول ﷺ کا تقدس نہ مسلم سرزمینوں کے حقوق کی پاسداری ۔

رب العالمین نے قرآن مقدس میں ہمیں سب امتوں میں سے بہترین امت قرار دیا ہے۔ اللہ نے ہمیں چنا ہی اس کام کے لیے ہے جس کا حصول ایک مسلسل عمل ہے ۔اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے مبشرات پر ہمارا ایمان ہے ۔حق کا غلبہ حق ہے ،یہود نصاری اورمشرکین کا قائم کردہ عالمی جبر کا ڈھانچہ پوری دنیا سے مٹ جائے گا ۔یہ سب گرتی ہوئی دیواریں ہیں جن کا فکری اور عملی سہارالینا ،ان سے مکالمہ کرنا، چاہے یہ مکالمہ بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پر ہو یا بقائے باہمی کے سفید پر چم تلے ،دراصل جاہلی اقدار کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہے ۔باطل افکار کے انسانوں کا انجام بھی ان دیواروں کے ساتھ منسلک ہے ۔جاہلیت نے بر سر محفل رسول اللہ ﷺ کو کہہ دیا کہ اگر آپ ہمارے معبودوں کو قبول کریں تو ہم بھی آپ کے اللہ کی عبادت کریں گے۔ یہ جاہلیت کا قدیم مطالبہ تھا اور آج بھی وہی ہے فرق صرف جدت کا ہے ۔اس کی چاہت ہے کہ اس کی برتری کو قبول کیا جائے ۔اسلام کی بجائے جمہوریت ہماری اساس ہو ۔شریعت کی بجائے سرمایہ داری ہمارا طریق زندگی ہو ۔ قرآن کی بجائے انسانی دستور ہمارا لائحہ عمل ہو ۔اور بیت کعبہ کی بجائے بیت ابیض (وائٹ ہائو س ) ہمارا نظریاتی اور عملی قبلہ بن جائے۔ اس ساری جاہلیت کے مقابلے میں ہمارا بحیثیت ایک مسلمان وہی جواب ہونا چاہیے جو فاران کی چوٹیوں پر کھڑے ہوکر محمد عربی ﷺنے دیا:

قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۝۶ۧ(سورۃ الکافرون )
قابل صد احترام ڈاکٹر سید شفیق الرحمن صاحب حفظہ اللہ ایک سچے سُچے مذہبی اورمنہجی انسان ہیں۔ قبول حق میں ذرا برابر بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور ہٹیں ہی کیوں کہ انہیں حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے آہنی ہاتھ جو لگے ۔اُن کی یہ کاوش ـالمسمی ''جمہوریت دین جدید'' ایک علمی اور فکری کاوش ہے۔ رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں دست بدعا ہوں کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو کفر کے بنائے ہوئے طاغوتی نظام سے چھٹکارا دلائے اور ان کے لیے اور استفادہ کرنے والے قارئین کے لیے باعث نجات بنائے ۔آمین یا رب العالمین ۔

ابو ناصر الدین محمد عمران سلفی
مدرس جامعہ دارالحدیث محمدیہ
جلا لپور پیروالہ ملتان
 
Top