• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقليد شخصي كے نقصانات !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تقليد شخصي كے نقصانات !!!


فرمان باري:

{اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهاً وَاحِداً لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ } سورة التوبة: 31

ترجمه: ان (نصارى)لوگوں نے الله كو چھوڑ كر اپنے عالموں اور درويشوں كو رب بنا يا هے۔ اور مريم كے بيٹے مسيح كو حالانكه انھيں صرف ايك اكيلے الله هي كي عبادت كا حكم ديا گيا تھا۔ جس كے سوا كوئي معبود نهيں۔ وه پاك هے ان كے شريك مقرر كرنے سے۔


تفسير نبوي:

( ... فقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية: )اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله)) قال : فقلت : إنهم لم يعبدوهم . فقال : بلى ، إنهم حرموا عليهم الحلال ، وأحلوا لهم الحرام ، فاتبعوهم ، فذلك عبادتهم إياهم )

ترجمه:

حضرت عدي بن حاتم رضي الله عنه سے روايت هے كه انھوں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے يه آيت سن كر عرض كيا كه يهود ونصارى نے تو اپنے علما كي كبھي عبادت نهيں كي۔ پھر يه كيوں كها گياكه انھوں نے ان كو رب بنا ليا؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا : يه ٹھيك هے كه انھوں نے ان كي عبادت نهيں كي۔ ليكن يه بات تو هے نا كه ان كے علما نے جس كو حلال قرار دے ديا, اس كو انھوں نے حلال, اور جس چيز كو حرام كر ديا, اس كو حرام هي سمجھا۔ يهي ان كي عبادت كرنا هے۔

كيوں كه حرام وحلال كرنے كا اختيار صرف الله تعالے كو هے۔يهي حق اگر كوئي شخص كسي اور كے اندر تسليم كرتا هے۔ تو اس كا مطلب يه هے كه اس نے اس كو اپنا رب بنا لياهے۔ اس آيت ميں ان لوگوں كے لئے بڑي تنبيه هے۔ جنھوں نے اپنے اپنے اماموں اور پيشواؤں كو يه منصب دے ركھا هے۔ اور ان كے اقوال كے مقابلے ميں وه نصوص قرآن وحديث كو بھي اهميت دينے كے لئے تيار نهيں هوتے۔

تخريج الحديث:

روىالإمام أحمد،والترمذي،وابن جريرمن طرق ، عنعدي بن حاتمرضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم.


درجة الحديث:

اس حديث كي سند صحيح هے۔ شيخ الباني رحمه الله نے اسے صحيح قرار ديا هے۔ صحيح سنن الترمذي برقم 2471

تفسير صحابه:


حضرت حذيفة بن اليمان اور حضرت عبد الله بن عباس رضي الله عنهم نے بھي اس آيت كي يهي تفسير كي هے: "إنهم اتبعوهم فيما حللوا وحرموا "تفسير طبري, تفسير قرطبي, تفسير ابن كثير.

ترجمه:

انھوں نے حلال وحرام (شريعت )ميں اپنے علما كي اتباع كي۔ديگر مفسرين كي تفسير:ابو البختري اور السدي رحمهما الله نے كها: "استنصحوا الرجال وتركوا كتاب الله وراء ظهورهم" تفسير طبري, تفسير قرطبي, تفسير ابن كثير.

ترجمه: انھوں نے رجال پر بھروسه كر ليا۔ اور الله كي كتاب كو پس پشت ڈال ديا۔

يعني اپنے اماموں اور وليوں پر بھروسه كر ليا۔ اور الله كي كتاب كي جانب مراجعه نهيں كيا۔ نتيجة ان كے اماموں كي غلطياں بھي دين هي قرار پا گئی ۔ يه تفسيريں اور حديث هميں بتاتي هيں كه اماموں اور اولياء پر بھروسه كر كے جس نے دين كو حاصل كيا۔ اور الله كي كتاب (قرآن اور حديث ) كي جانب رجوع اور تحقيق نهيں كيا۔ گويا اس نے اپنے امام اور اپنے ولي كو رب بنا ليا۔

كتني پرفكٹ مثال هے۔اس امت كي ايك بڑي تعداد 100% اس حديث كي تصديق كرتي هوئي نظر آتي هے۔ جس ميں نبي صلى الله عليه وسلم نے قدم قدم پر يهود ونصارى كي اتباع كي پيش گوئي كي هے۔ وهي دو افراد امام اور ولي, وهي بھروسه اور خوش فهمي, وهي عدم تاكد وتحقق اور عدم مراجعت كتاب الله۔

امام كرخي رحمه الله جو حنفيت كے سب سے بڑے اصولي وكيل مانے گئے هيں۔ فرما تے هيں:

«كل آية تخالف ما عليه أصحابنا فهي مؤولة أو منسوخة، وكل حديث كذلك فهو مؤول أو منسوخ»! (الأصل للكرخي 152)

ترجمه:

يعني قرآن كي هر وه آيت جو همارے مذهب كے خلاف هو جائے, هم يا تو اس كي تاويل كريں گے۔ يا اسے منسوخ قرار ديں گے۔ اسي طرح هر وه حديث جو همارے مذهب كے خلاف هو, هم اسے يا تو منسوخ مانيں گے يا مؤول۔

خود بدلتے نهيں قرآں كو بدل ديتے هيں
هوئے كس درجه فقيهان حرم بے توفيق

تقليد جامد كي يه خباثت هے۔ الميه يه هے كه اس غلاظت كے ڈھير كو بجائے گٹر ميں پھينكنے كے بهت سے لوگ اسےسينے سے چھپانے كي كوشش كرتے هيں۔ اللهم تعالےاس قوم كو بصيرت سے نواز دے۔

(نص الحديث)

((عَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ الله عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إنَّ اللهَ زَوَىلِيَ الأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ مُلْك أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَإِنِّي أُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الأَحْمَرَ وَالأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يهْلَكُوا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَلَا يُسَلّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ: (يَا مُحَمَّد إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّه لَا يُرَدُّ وَإِنّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوْ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ منْ بَيْنِ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُون بَعْضُهُمْيُفْنِي بَعْضًا). وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الأَئِمَّةُ المُضِلِّينَ وَإِذَا وُضِعَ فِي أُمَّتِي السَّيْف لَمْ يُرْفَعْ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ وَلَا تَقُومُ السَّاعَة حَتَّى تَلْحَق قَبَائِل مِنْأُمَّتِي بِالمُشْرِكِينَ حَتَّى تَعْبُد قَبَائِل مِنْ أُمَّتِي الأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِيكَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيوَلَا تَزَالُطَائِفَةُ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الحَقِّ ظَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِي أَمْرُ اللهِ))
(تخريج الحديث)

أخرجه أحمد (5/278 ، رقم 22448) ،ومسلم (4/2215 ، رقم 2889) ، وأبو داود (4/97 ،رقم 4252) ، والترمذي (4/472 ، رقم 2176) وقال : حسن صحيح . وابن ماجه (2/1304 ،رقم 3952) ، وأبو عوانة (4/508 ، رقم 7509) ، وابن حبان (16/220 ، رقم 7238(وأخرجه أيضًا : ابن أبى شيبة (6/311 ، رقم 31694(

(مفردات الحديث)

(زوى لى الأرض) زمين كوسميٹ ديا

(الأحمر والأبيض) سونا اور چاندي۔ بعض نے ملك روم اور ملك فارس كها هے۔ يعني ان دونوں ملكوں كے خزانے

(بسنة عامة) ايسا قحط جس ميں سبھي لوگ متاثر هوں گے

(أقطارها) زميں كے خطے

(فيستبيح) استحصال كو مباح سمجھےگا

(بيضتهم) ان كے ٹھكانوں اور جمع هونے كي جگهوں كو۔ كها جاتا هے

(بيضة الدار) يعني درمياني حصه

(الأئمة المضلين) منكر بدعت اور فسق وفجور كي طرف بلانے والے۔


(مستفاد من الحديث)

امام احمد رحمه الله نے اس حديث سے استدلال كيا هے, كه مسائل ميں اجتهاد اور رفض تقليد اعمى اس امت ميں قيامت تك باقي رهےگا۔ گرچه يه امت اس طرح كي مصيبتوں ميں مبتلا كي جائےگي۔ لهذا جمود اور ائمه اربعه رحمهم الله كے منع كرنے كے با وجود ان كے مذاهب كي تقليد اعمى اور صريح آيتوں اور صحيح سنتوں كو رد كرنےكا فتنه بهت قديم زمانے سے چلا آ رها هے۔ان اماموں نے علم وفضل ميں بهت بڑا درجه حاصل كرنے كے با وجودنه تو خود كسي كي تقليد كي۔ نه هي كسي مسلمان كے لئے اسے جائز كها هے۔كيوں كه انھيں معلوم تھا كه بشر بشر هوتا هے۔ اور اس سے غلطي كا امكان بهر حال باقي هے۔ ليكن كچھ لوگ كتاب وسنت كي پرواه كئے بغير , ان اماموں كے كلام كو بھي بلائے طاق ركھ كر مذاهب اربعه ميں سے كسي ايك كي تقليد پر مصر هيں۔ حتى كه اپنے امام كے قول كو صريح كتاب اور صحيح سنت سے خطا هونا جان بھي ليں, تو وه بجائے قول امام كے كتاب وسنت كو رد كر ديتے هيں۔ ليكن امت كي ايك جماعت هميشه سے قائم هے۔ اور قيامت تك رهے گي۔ جو ايسے نظريات كے سامنے گھٹنے ٹيكنے كے بجائے كتاب وسنت كي بالا دستي كے لئے جد وجهد كرتي رهےگي۔ انبياء ومرسلين كي طرح انھيں بھي برے القاب ديئے جائيں گے۔ مشق ستم بنائيں گے۔ كبھي كبھي ان پر زميں تنگ كر ديں گے۔ مگر يه جماعت اپنے مشن كے ساتھ قائم هي رهےگي۔

شيخ محمد ناصر الدين ألبانيرحمه الله نے "صفة صلاة النبي" ميں بعض اقوال كا ذكر كيا هے۔

أولا- امام أبو حنيفه رحمه الله :

آپ نے فرمايا:"جو حديث صحيح ثابت هو جائے وهي ميرا مذهب هے"

(ابن عابدين في " الحاشية " 1 / 63)

نيز فرمايا :"كسي كے لئے بھي هماري باتوں كو لينا اس وقت تك حلال نهيں هے, جب تك همارے مرجع وماخذ كو نه جان لے"

(ابن عابدين في " حاشيته على البحر الرائق " 6 / 293

اور ايك روايت كے مطابق فرمايا: "جسے ميري دليل كا پته نه هو اس كے لئے ميرے قول پر فتوى دينا حرام هے"

نيز فرمايا: "جب ميرا كلام الله كي كتاب اور رسول صلى الله عليه وسلم كي خبر كے خلاف هو جائے, تو ميرے قول كو چھوڑ دو"

(الفلاني في الإيقاظ ص 50)

ثانيا- امام مالك بن أنس رحمه الله:

آپ نے فرمايا: "ميں بشر كے سوا كچھ نهيں هوں۔ مجھ سے خطا بھي سرزد هوتي هے اور صواب بھي۔ تو تم لوگ ميري رائے كو ديكھ ليا كرو۔ جو كتاب وسنت كے موافق هو جائے, اسے لے لو۔ اور جو كتاب وسنت كے موافق نه هو اسے ترك كر دو"

(ابن عبدالبر في الجامع 2 / 32)

نيز فرمايا: "نبي صلى الله عليه وسلم كے بعد جو كوئي بھي هے۔ اس كي (صحيح) باتيں لي بھي جائيں گي۔ اور اس كي (مخالف كتاب وسنت باتيں) ترك بھي كر دي جائيں گي۔ سوائےنبي صلى الله عليه وسلم كے۔ كيوں كه ان كي ساري باتيں ليي جائيں گي"

(ابن عبد البر في الجامع 2 / 91)

ثالثا-امام شافعي رحمه الله:

آپ نے فرمايا: "هر شخص سے نبي صلى الله عليه وسلم كي كچھ باتيں چھوٹ جاتي هيں۔ كچھ علم ميں نهيں هوتي هيں۔ اس لئے ميں نے جو كچھ كها هے۔ يا كسي اصل كو مستدل بنايا هے۔ اورميري بات نبي صلى الله عليه وسلم كےخلاف هو گئي هو۔ تو ميرا قول نبي صلى الله عليه وسلم هي كے قول كو مانا جائے"

(تاريخ دمشق لابن عساكر 15 / 1 / 3)

نيز فرمايا: "مسلمانوں كا اس بات پر اجماع هے كه جس پر نبي صلى الله عليه وسلم كي كوئي سنت ثابت هوگئي۔ تو كسي كے بھي قول كے سبب اس سنت كا ترك كرنا حلال نهيں هے"
(الفلاني ص 68)

اور فرمايا: "جب تم كو ميري كتاب ميں كوئي ايسي بات ملے جو نبي صلى الله عليه وسلم كي سنت كے خلاف هو۔ نبي صلى الله عليه وسلم كي سنت كو لے لو اور ميرے كلام كو چھوڑ دو" ايك روايت ميں هے: "اس سنت كي اتباع كرو اور كسي اور كے قول كي جانب متوجه نه هو"

(المجموع للنووي 1 / 63)

يه بھي فرمايا كه: "ميرے خلاف هر وه مسئله جو اهل نقل سے نبي صلى الله عليه وسلم كي خبر صحيح ثابت هو جائے۔تو ميں اپنے قول سے رجوع كا اعلان كرتا هوں۔ ا[ني زندگي ميں بھي اور ميري موت كے بعد بھي"

(أبو نعيم في الحلية 9/ 107)

رابعا-امام أحمد رحمه الله:

آپ نے فرمايا: "نه ميري تقليد كرو اور نه مالك شافعي اوزاعي اور ثوري كي تقليد كرو۔ تم بھي مسائل وهيں سے لو جهاں سے ان لوگوں نے ليا "

(ابن القيم في إعلام الموقعين 2 / 302)

اور ايك روايت ميں هے: "ان ميں سے كسي كي بھي تقليد كےطور پر اپنے دين كو نه لو۔ جو نبي صلى الله عليه وسلم اور آپ كے اصحاب سے ثابت هو جائے اسے لے لو۔پھر تابعين هيں اور ان كے بعد تمهيں اختيار هے"

اور فرمايا: "ميرے نزديك اوزاعي مالك ابوحنيفه وغيرهم كي رائے محض رائے هے۔ ليكن دليل اور حجت تو صرف حيث هے"

(ابن عبد البر في الجامع 2 / 149)

نيز فرمايا: "جس نے كسي كے قول كي وجه سے نبي صلى الله عليه وسلم كي حديث كو رد كر ديا۔ وه بالكل هلاكت كے دهانےپر هے"

(ابن الجوزي في المناقب ص 182)

اس كے بعد بھي اگر كوئي شخص يه كهے: كه ميرا اس حديث پر عمل اس لئے نهيں هے كه ميں فلاں امام كا مقلد هوں۔ يا ميں فلاں مذهب پر چلنے والا هوں۔ تو يه بات اسلامي تعليمات كے عين مخالف هے۔

اللهم ارنا الحق حقاً وارزقنااتباعه وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه تقبل منا يا رب العالمين

عبد الله الكافي بن غريب الله المحمدي
داعيه ومترجم شعبۂ دعوه وتوعيۂجاليات
محافظه تيماء منطقه تبوك سعودي عرب
08/ 11/ 1432ھ جمعرات 10.30 شب

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تقليد کي تعريف ہے

قبول قول ينافي الکتاب والسنۃ
کتاب وسنت کے خلاف کسي کي بات کو ماننا


اور اجتہاد کتاب وسنت سے احکامات کي بحث وتلاش کو کہتے ہيں

تو جب ايک شخص کسي بھي عالم دين سے کوئي مسئلہ کتاب وسنت کي روشني ميں پوچھے تو وہ عالم دين کتاب وسنت کي دليل ذکر کيے بغير مسئلہ بتا دے تو سائل اس صورت ميں بھي مجتہد ہي ہو گا کيونکہ اس نے کتاب وسنت سے مسئلہ کو تلاش کيا ہے

جبکہ مقلد تو کتاب وسنت سے مسئلہ نہيں دريافت کرتا بلکہ وہ تو امام کے قول کو مانتا ہے جو کتاب وسنت کے خلاف ہواسکي مثال يہاں ملاحظہ فرمائيں ۔

مقلد کے لئے حق اپنانا واجب نہيں بلکہ امام کي تقليد کرنا واجب ہے۔


مولانا محمو د الحسن سابقہ شيخ الحديث ديوبند لکھتے ہيں:-

”حق و انصاف يہ ہے کہ امام شافعي رحمتہ اللہ عليہ کے مذہب کو اس مسئلہ (بيع خيار) ميں ترجيح خاص ہے ليکن ہم مقلد ہيں اس لئے ہم پر اپنے امام ابو حنيفہ رحمتہ اللہ عليہ کي تقليد واجب ہے “
(تقرير ترمذي ، جلد 1، صفحہ 49)


يعني مقلد کے لئے حق اپنانا واجب نہيں بلکہ امام کي تقليد کرنا واجب ہے۔

جب کہ امام ابو حنيفہ رحمتہ اللہ عليہ نے کہيں بھي اپني تقليد کرنے کا حکم نہيں ديا
اور ياد رہے کہ ہر ذي شعور انسان مجتہد ہي ہوتا ہے إلا کہ وہ تقليد کا پٹہ خود اپنے گلے ميں ڈال لے

اور علماء سے سوال کرنے کا حکم تو اللہ نے ديا ہے :

فاسئلوا اہل الذکر إن کنتم لا تعلمون
اگر تم نہيں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھ لو
 
Top