• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید اور فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفطہ اللہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی ایک علمی اور مدلل گفتگو جو تقلید کا رد بھی کر رہی ہے اور سلف صالحین کا منھج بھی واضح کر رہی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی افضل الرسل والمبعوثین و علی آلہ واصحابہ واہل طاعتہ اجمعین ۔وبعد:
سامعین حضرات! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آج اگر میں اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات پر نظر ڈالوں تو مجھے سب سے قیمتی اور ارفع و اعلیٰ نعمت یہی دکھائی اور سجھائی دیتی ہے کہ اس ذات جل و علا نے ہمیں مسلک اہل حدیث عطا فرمایا ہے جو ایک سچا ، سُچا اور کھرا مسلک ہے جس کی صرف دو ہی بنیادیں ہیںایک کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول اللہ ۔ جس کے صرف دوہی اصول ہیں : {اطیعو اﷲ وأطیعوا الرسول}
حضرات!میں مسلک اہل حدیث کے سچا اور کھرا ہونے کی بات اس لئے نہیں کررہا کہ یہ میرا یا میرے اباء و اجداد یا میرے بزرگوں اور جماعتی دوستوں کا مسلک ہے۔ ہرگز نہیں! دین اسلام میں صداقت کی یہ بنیادیں قطعاً نہیں ہیں بلکہ دین نے تو ان بنیادوں کی بیخ کنی کی ہے۔
{ واذا قیل لہم اتبعوا ما أنزل اﷲ قالو ا بل نتبع ما الفینا علیہ آباء نا أولو کان آباء ہم لا یعقلون شیئاً ولا یہتدون}
{اتبعوا ما أنزل الیکم من ربکم ولا تتبعو من دونہ اولیاء…}
ان آیات کریمہ میں وحی الہی کے علاوہ پیروی کے ہر راستہ کی نہ صرف صریح نفی موجود ہے بلکہ اسے خلاف عقل و ہدایت قرار دیا گیا ہے۔توپھر اپنے اہل حدیث ہونے پر کیوں نہ فخر کروں کہ اس مسلک کی بنیاد وحی الہی ہے؟
اہل حدیث نام میری پہچان ہے۔
اہل حدیث نام میرے عقیدہ ، عمل ، خلق اور منہج کی صداقت کی ضمانت ہے امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
{أہل الحدیث في کل زمان کالصحابۃ فی زمانہم }
یعنی ہر دور میں اہل الحدیث کا وہی مقام و مرتبہ ہے جو صحابہ کرام کا اپنے دور میں مقام و مرتبہ تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
{اذا رأیت صاحب حدیث فکانی رأیت أحدامن أصحاب رسول اللہ ﷺ}
یعنی میں جب کسی اہل حدیث کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے کسی صحابی کو دیکھ رہا ہوں۔
ایک بہت بڑے محدث ابو بکر بن عیاش کا قول ہے۔
{أہل الحدیث فی کال زمان کأہل الاسلام مع أہل الادیان}
یعنی اہل حدیث کا ہر دور میں دیگر لوگوں سے وہی فرق ہے جو ہر دور میں اہل الاسلام کا دیگر ادیان والوں سے فرق ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا:
کسی شہر میں اہل حدیث ہو جسے صحیح وضعیف کی زیادہ معرفت بھی مستخصر نہ ہو اور ایک صاحب الرائے ہو تو مسئلہ کس سے پوچھا جائے؟
فرمایا:
{یسئال صاحب الحدیث ولایسئال صاحب الرائے}
اہل حدیث سے پوچھا جائے ۔ اہل الرائے سے نہ پوچھا جائے مزید فرمایا:
لا تری أحدا ینظر فی کتب الرائے غالباً إلا وفي قلبہ دخل}
جو شخص (حدیث کی بجائے) رائے پر مبنی کتب پڑھتا ہے اس کا دل مکروفساد سے لبریز ہے۔
امام احمد بن حنبل کا مذکورہ جواب قرآن پاک کی اس آیت سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے:
فاسئالوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
تمہیں جس مسئلہ کا علم نہ ہو اس کی بابت قرآن و حدیث والوں سے پوچھا
کرو۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اہل الحدیث کے مناقب و فضائل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
فرمان باری تعالیٰ (ترجمہ) اس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے…اہل حدیثوں کی اس سے بڑی کوئی فضیلت نہیں ہو سکتی (کیونکہ دنیا کے ہرگروہ نے اپنی مرضی سے اپنا کوئی امام بنا رکھا ہے)
اور اہل الحدیث کے امام تو صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ بعض علماء سلف سے منقول ہے:
اہل الحدیث کی منقبت و فضیلت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اس دعا میں داخل و شامل ہیں:
{نضر اللہ امراء سمع مناحدیثا محففٰہ حتی یبلغہ غیرہ…}
اے اللہ! اس شخص کو رونق وتروتازگی عطا فرما جو ہماری کسی حدیث کو سن کر یاد کر لیتا ہے اور پھر دوسروں تک پہنچا بھی دیتا ہے۔
حافظ سفیان بن عینیہ فرمایا کرتے تھے:
{ لیس من أہل الحدیث أحد إلاوفي وجہہ نضرۃ لہذا الحدیث‘‘}
یعنی اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر اہل حدیث کے چہرہ میں رونق وتروتازگی و شگفتگی موجود ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حضرات!یقینا اہل حدیث ایک مقدس وبرحق جماعت کا نام ہے یہ بات میں دل کی گہرائیوں سے پورے قطع و جزم اور یقین و بصیرت کی ساتھ کہہ رہا ہوں جبکہ مجھے یہ بات بھی پورے وثوق کے ساتھ معلوم ہے کہ کل قیامت کے دن اللہ رب العزت کے سامنے پیش ہونا ہے اور اس نے زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ اور
قلم سے لکھے ہوئے ایک ایک جملہ کا حساب لینا ہے۔
یوم حشر کی پیشی کے مدنظر ہے اوریہ بات کہہ رہا ہوں کہ جماعت حقہ صرف جماعتِ اہل حدیث ہے اگر مجھ میں کوئی خامی ہے تو وہ میری ذات کی خامی ہے میرا مسلک و منہج اس سے بری ہے وہ پاک اور سچا ہے۔ ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
حضرات گرامی! مسلک اہل حدیث کی حقانیت و صداقت کا سب سے بڑا اور عظیم الشان و گرانقدر نشان یہ ہے کہ اس میں تقلید جامد جیسی کراہت وقباحت کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔
فتنہ تقلید سے میری حفاظت و صیانت میری بہت بڑی سعادت ہے کیونکہ تقلید تو بہت بڑی بڑی اور بھیانک اخطاء کا مرقع و مجموعہ ہے ۔ پورے قرآن و حدیث کے ذخیرہ میں اس لفظ کا ذکر تک نہیں ملتا۔
میں آج کی مجلس میں تقلید کی دو بڑی بھیانک غلطیوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں یہ غلطیاں معمولی نہیں ہیں بلکہ انجا م کار کے لحاظ سے انتہائی تباہ کن ہیں ان بھیانک غلطیوں کے ارتکاب سے نہ تو انسان کا عقیدہ بچتا ہے اور نہ ہی اس کا عمل محفوظ رہتا ہے بلکہ اگر ناگوار خاطر نہ لگے تو ایمان سے محرومی کی سزا مقدر بن سکتی ہے۔
ان غلطیوں کا تعلق مسئلہ اختلاف امت سے ہے ۔ یعنی کسی بھی مسئلہ میں امت کے دو یا زیادہ افراد یا گروہوں میں اختلاف واقع ہو جائے یا کسی بھی مسئلہ میں ہم کسی سے اختلاف کر بیٹھیں تو اس کے حل کا طریقہ کیا ہے اس اختلاف کے ازالہ کی آخری عدالت یا فائنل اتھارٹی کیا ہے؟ بالفاظ دیگر اختلافی امور میں ہماری شریعت نے ہمیں کس حصار کے اندرمحصور کیا ہے؟ ہم پر کیا ذمہ داری عائد کی ہے؟ ہمیں کس چیز کا پابند بنایا ہے؟ یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے بہت ضروری اس لئے کہ یہ ہمارے ایمان، عقیدہ اور عمل کی صحت و سلامتی کی اساس ہے۔
اختلافی مسائل میں اہل تقلید کی روش اور طرز عمل یہی ہے کہ اپنے امام کے قول سے چمٹا رہا جائے چنانچہ اگر کوئی شخص حنفی ہے تو اختلافی مسائل میں اس کا مستند امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں اگر کوئی شافعی ہے تو امام شافعی رحمہ اللہ کے قول پر اکتفاء
کرکے بیٹھ جائے گا۔ مالکی اما م مالک رحمہ اللہ کے مذہب سے تمسک اختیار کرلے گا اور حنبلی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے فتوی سے جڑا رہے گا {کما لا نحفي علی من لہ ادنی اطلاع وممارسۃ علی مذاہب القوم وکتبہم وأصولہم }
لیکن یہ طرز عمل شریعت کے خلاف ہے شریعت نے دریں حالت اللہ تعالی، ایا اس کے رسول ، یا قرآن و حدیث کی طرف رجوع ہونے کا حکم دیا ہے ان حالات میں دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں اور جو کوئی دوسرا اختیار کرے گا وہ صریح ضلالت کا شکار ہوگیا۔
پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ اختلاف کا صدور تو معیوب نہیں ہے لیکن اختلاف کا بقاء بہت ہی معیوب ہے ۔ شریعت نے اختلاف و تنازعہ کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نقیض قرار دیا ہے:
{ وأطیعو اللہ ورسولہ ولا تنازعوا فتغشلوا …}
اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اختلاف ونزاع نہ کرو ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کا راستہ اطاعت کی ضد اور نقیض ہے اورجبکہ قرآن و حدیث موجود ہے تو پھر بقاء اختلاف چہ معنی دارد؟ اور جب تک تقلیدی مذاہب کا وجود ختم نہیں ہوتا تب تک اختلاف برقرار رہے گا ۔ اور بقاء اختلاف چونکہ اطاعت کے بالمقابل ایک راستہ قرار پاچکا ہے تو پھر یہ ایک ایسا مَہلک ہے جس سے امت کا فساد، انتشار، وافتراق بڑھتا رہے گا ۔ اس لئے پوری امت کی صلاح ، عافیت، اور دنیا و آخرت میں فلاح کی بنیاد قرآن و حدیث کی براہ راست اطاعت ہے، جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ مسلک اہل حدیث قبول کر لیا جائے۔
قرآن و حدیث نے جہاں بھی اختلاف کا ذکر کیا معرضِ شر میں کیا اورجہاں اختلاف کے حل اور مخرج کی بات کی وہاں اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹنے یا لوٹا دینے کی پابندی عائد کردی… تقلیدی مذاہب اس پابندی کو قبول کرنے کی بجائے اپنے اپنے اماموں کے فیصلوں پر اڑے رہ گئے، ایک دو یا چند بار نہیں بلکہ بار بار اور ہر بار نتیجۃً راہ صواب سے دور سے دور تر ہی ہوتے رہے اور ایمان وعمل کی سلامتی داؤ
پر لگا دی۔
قرآن وحدیث کے نورانی ارشادات ملاحظہ ہوں۔
{یاأیہا الذین آمنوا أطیعو اﷲ وأطیعواالرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فيشئ فردوہ إلی اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر ذلک خیر و أحسن تأؤیلا}
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول اللہﷺ کی اور اپنے اصحاب امر کی اور اگر کسی بھی مسئلہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ، اگر واقعی تم اللہ اور روز آخرت کے ساتھ ایمان رکھتے ہو یہی بھلا اور انجام کے لحاظ سے سب سے بہتر راستہ ہے۔
یہاں تمام مسائل میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم ہے۔ لیکن اختلاف اور تنازعہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے حکماً یہ پابندی عائد کر دی ہے کہ اس قسم کے مسائل اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اختلافی مسائل میں کسی چھوٹے بڑے کا فیصلہ نہیں چلے گا کسی نیک یا بد کا قول نہیں چلے گا بلکہ صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺکی بات چلے گی۔
اللہ تعالیٰ نے اس پابندی کے قبول کرنے کو ایمان باللہ اورایمان با الیوم الاخر کے ساتھ مربوط و منسلک بلکہ مشروط کر دیا ہے۔دنیا و آخرت کی تمام اچھائیوں اوربھلائیوں کا منبع قرار دیا ہے ۔ اس آیت کریمہ نے جہاں اختلافی مسائل کے حل کا ایک راستہ متعین کر دیا ہے وہاں حضرات مقلدین کی اس روش کی تردید و تفنید بھی کر ڈالی ہے جو وہ اختلافی امور میں اپنائے بیٹھے ہیں یعنی رجوع الی اللہ والرسول کی بجائے اپنے امام سے فیصلہ لے لینا اور بس!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہی وجہ ہے کہ حضرات مقلدین کو جب اس آیت کریمہ سے اپنے تمسک بقول امام کا راستہ بند ہوتا دکھائی دیا تو وہ اس آیت کریمہ میں تحریف و اضافہ پر مجبور ہوگئے چنانچہ ایضاح الأدلہ میں مولوی محمود الحسن دیو بندی نے اس آیت میں یوں
تحریف کر دی : {فردوہ الی اللہ والرسول وابی أولی الامر منکم}
نصوص میں تحریف کی جسارت ناپاک وہی کرتا ہے جو دلیل کے میدان میں تہی دست ہو انہیں یہ معلوم تھا کہ اختلافات میں قول امام کے ساتھ چمٹے رہنے کی باطل روش کہیں ثابت نہیں ہو سکتی ، ان حالات میں تو صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہی حاکم ہیں تو پھر ہمارا مذہب کہاں باقی رہے گا کیونکہ اختلاف تو ہر مسئلہ میں ہے اور ہر اختلافی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی طرف رجوع کا مطلب مسلک اہل حدیث کی ترویج ہوگا لہذا تحریف کے ذریعہ اس بگاڑ میں مزید اضافہ کر دیا کیا ۔ واللہ المستعان۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے اگلی آیات میں اختلافات و تنازعات کے حل کے لئے وحی الہی پر اکتفاء نہ کرنے والوں کے عمل کو تحاکم الی الطاغوت قرار دیا ہے بلکہ شیطانی اضلال و نفاق تک فرما دیا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حضرات سامعین! یہ بات متعین ہوچکی ہے کہ مسائل مختلف فیہا میں خاص طور پر اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کرانا فرض ہے۔
اللہ سے فیصلہ کرانے سے مراد رجوع الی القرآن اور رسول اللہﷺ سے فیصلہ کرانے سے مراد یہی ہے کہ آپکی زندگی میں آپ کی ذات شریفہ کی طرف رجوع کیا جائے اور انتقال فرما جانے کے بعد آپ کی حدیث شریف کو مد نظر رکھا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:
{ وما اختلفتم فیہ من شئ فحکمہ الی اﷲ }
یعنی جس چیز میں بھی تمہارا اختلاف ہو فیصلہ اللہ کی طرف سے ہے ۔گویا یہ حق نہ کسی صحابی کے پاس نے نہ تابعی کے پاس، نہ کسی امام یا مجدد یا مفتی ، یا محدث یا فقیہ کے پاس بلکہ اختلافات میں فیصلہ کا حق اللہ احکم الحاکمین کے پاس ہے۔مذکورہ دونوں آیات میں ’’شئ‘‘ کی تنکیر سے ایسا عموم و شمول واضح ہو رہا ہے کہ ہر اختلافی مسئلہ میں خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو رجوع الی اللہ والرسول ہی امر متعین ہے کسی مسئلہ کا استغناء درست نہیں ہے۔
سورئہ النحل کی آیت نمبر ۱۶ ملاحظہ ہو :
{ وما انزلنا علیک الکتاب الا لتبین لہم الذی اختلفوا فیہ…}
اس سے پھر واضح ہوا کہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ وحی الہی کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کے فصل و بیان پر موقوف و قائم ہے دوسری کوئی صورت نہیں۔
سورئہ نساء کی آیت نمبر ۲۵ تو بہت ہی قابل غور ہے:
{فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما}
پس تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو حاکم اورفیصل تسلیم نہ کرلیں ، اور پھر (عملی طور پر فیصلہ کروا کر) آپ کے فیصلہ سے اپنے سینوں میں کوئی تنگی اور خلجان بھی محسوس نہ کریں ، بلکہ اسے اچھی طرح سے تسلیم کرلیں۔
یہاںاللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان سے محروم ہونے کا اعلان فرما دیا ہے جو اپنے اختلافات میں رسول اللہﷺ سے فیصلہ لینے کی بجائے کہیں اور سے فیصلہ کرا لیتے ہیں ، بلکہ ان لوگوں کے ایمان کی بھی نفی کر دی ہے جو فیصلہ تو آپﷺ سے کرا لیتے ہیں ، قبول بھی کر لیتے ہیں لیکن اپنے دلوں میں کھٹک اور تنگی محسوس کرتے ہیں ۔ والعیاذباللہ
اس آیت کریمہ میں لایؤمنون اور سورئہ نساء سے پیش کی گئی گذشتہ آیت میں ان کنتم تومنون باللہ… الایۃ کے کے مقتضی پر خوب غور کیجئے کہ اللہ تعالی ان لوگوں کے ایمان کی کس طرح نفی فرما رہا ہے جو اختلافی مسائل میں قرآن و حدیث کو اپنانے اورچمٹے رہنے کی بجائے اپنے آئمہ و اصحاب کے اقوال و فتاویٰ سے تعلق و تمسک قائم کر لیتے ہیں ، اور ہمیشہ اس روش بد پر اڑے رہتے ہیں کبھی تو گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر سوچا جائے کہ اس غلط روی کی سزا کتنی بھیانک ہوگی۔ ہم بڑے درد دل اور اخلاص کے ساتھ ان لوگوں کو رجوع الی الکتاب و السنۃ یعنی اہل حدیث بننے کی دعوت
دیتے ہیں جو اختلافی مسائل و امور میں اپنے اپنے ائمہ و قائدین و بزرگان دین کے اقوال پر اکتفاء کئے بیٹھے ہیں۔
ورنہ تم سب کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام امور کا قیامت کے دن فیصلہ فر ما دینا ہے ، پھر کوئی سوچ یا ندامت کام نہیں آئے گی ۔ یومئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکری
وہ یوم الحساب ہے ، دارالعمل نہیں۔
فیصلہ بہر حال اللہ تعالیٰ کا ہی ہے چاہئے یہ حقیقت دنیا میں قبول کر لو اور اس میں فائدہ ہے ، اور چاہے یہاں اپنی من مانیاں کر لو اور روز محشر تما م اولین و آخرین کے سامنے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرلو۔
فرمایا: { ثم الی مرجعکم فأحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون }
دوسرے مقام پر فرمایا:
{ ثم الی ربکم مرجعکم فینبئکم بما کنتم فیہ تختلفون}
نیز فرمایا : { اﷲ یحکم بینکم یوم القیامۃ فیما کنتم فیہ تختلفون}
نیز فرمایا : { ان ربک یقضی بینہم یوم القیامۃ فیما کانوا فیہ یختلفون}
نیز فرمایا: { ان ربک ہو یفصل بینہم یوم القیامۃ فیما کانوا فیہ یختلفون}
نیز فرمایا: {أنت تحکم بین عبادک في ما کانوا فیہ یختلفون }
ان تمام آیات کا مطلب یہی ہے کہ تمام بندوں کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام تنازعات ، خصومات اور اختلافات کا فیصلہ فرمانا ہے اور پھر اپنے فیصلوں سے بندوں کو آگاہ کرنا ہے۔ جنہیں قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا ۔
تو کیوں نہ اس دن کے آنے سے قبل آج ہی اللہ تعالیٰ کی وحی کے ساتھ سچا تعلق جوڑ لیا جائے، آج یہ وحی ہی اللہ کے فیصلوں کا مجموعہ ہے، جسے فیصلہ کن دستاویزات قرار دیا گیا ہے۔
{ بانہ لقول فصل وما ہو بالہزل انہم یکیدون کیدا واکید کیدا…}
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لہذا اللہ کے بندو! آج تمام مختلف فیہ امور کو لے کر ادھر ادھر بھٹکنے کی بجائے خالق کائنات کی پناہ میں آجاؤ اس کی توفیق اور رحمت سے مسائل حل ہوں گے اضطرابات و افتراقات ختم ہوںگے … ورنہ یہ اختلافات کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔
{ ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک}
یعنی یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کا شکار رہیں گے اور بچیںگے صرف وہی جن پر اللہ کی رحمت ہوگی۔ اور یہ رحمت تعلق بالوحی کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
{ ورحمتی وسعت کل شئ فساکتبہا للذین یتقون والذین ہم بآیاتنا یؤمنون الذین یتبعون الرسول النبی الامی …}
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی تمام دستاویزات کو اختلاف کا مرقع قرار دیا ہے:
{ولو کان من عند غیراﷲ لوجد وافیہ اختلافا کثیرا}
اگر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میںبہت زیادہ اختلاف پاتے۔ لہذا اللہ کی وحی ہی وہ واحد طاقت ہے جو تمام اختلافات کا خاتمہ کر سکتی ہے اس لئے وحی سے فیصلہ نہ کرانے پر ایمان کی سلامتی مشکوک ہو جاتی ہے۔
اگر حنفی حنفی رہے گا، شافعی ،شافعی رہے گا، مالکی ،مالکی رہے گا، حنبلی ، حنبلی رہے گا تو اختلاف قائم ہی رہے گا ۔ اور اگر یہ سب لوگ تمام مختلف فیہ مسائل میں اپنے اماموں کے قول کی بجائے اللہ کی وحی کو تھام لیں تو سب اہل حدیث ہوجائیں گے، اختلافات ختم ہو جائیں گے، یہی خاتمہ اختلافات کی اساس ہے اور یہی اللہ کا امر ہے:
{واعتصموا بحبل ﷲ جمیعا ولاتفرقوا…}
سب مل اللہ کی رسی (قرآن و حدیث) کو تھام لو اور افتراق و اختلاف نہ کرو…… گویا خاتمہ اختلاف اعتصام بحبل اللہ پر موقوف ہے جو قرآن وحدیث کے سوا کچھ نہیں۔
اور اہل تقلید کی یہ بنیادی غلطی قائم ہی رہے گی ، کیونکہ تقلید کی تعریف ہی یہ ہے کہ بلا دلیل و حجت کسی کی بات کو لے لینا‘‘ ایسے میں قرآن و حدیث تک رسائی
کیسے ممکن ہو گی!
رسول اللہﷺ کی احادیث سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔چنانچہ مسند احمد، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں عیاض بن ساریہ کی مشہور حدیث موجود ہے جس میں پیغمبر اسلام ﷺ کے خطبہ بلیغہ کا ذکر ہے، جسے سن کر سب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگ گئے۔
کسی نے کہا: ہمیں تو یہ آپ کا آخری خطبہ معلوم ہوتا ہے کوئی جامع وصیت فرمادیجئے اس بڑے اہم اور نازک موقع پر رسول اللہﷺ نے چار وصیتیں فرمائیں جن میں سے ایک وصیت یہ تھی:
{ وانہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوابہا وعضوا علیہابالنواجز… الحدیث}
یعنی میرے بعد تم زندہ رہے تو بہت زیادہ اختلافات دیکھو گے اس وقت تم پر فرض ہوگا کہ (ہرچیز چھوڑ کر) میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کے ساتھ چمٹ جانا نہ صرف چمٹنا بلکہ مضبوط گرفت میں لے لینا (اور مضبوط گرفت بھی کافی نہیں) بلکہ میری سنت کو اپنی داڑھوں میں مضبوطی سے دبالینا … (تاکہ سنت کا دامن چھوٹنے نہ پائے اور میری سنت کی جگہ کوئی دوسری چیز اس کی جگہ نہ لے لے‘‘
اس لئے کہ{ لا ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہا کتاب اللہ و سنۃ رسولہ }
تمہارے بیچ دو ہی چیزیں میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک انہیں تھامے رہو گے گمراہی تمہارے قریب تک نہیں پھٹکے گی ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول اللہﷺ
صحابہ کرام ؓ ، اللہ کے نبی کی پاکیزہ اور مقدس جماعت ، زمین کی پشت پر چلتے پھرتے جنتی انسان اس منہج کے پیروکار رہے اور (رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ) کے
تمغے اپنے سینوں پر سجا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد اسامہ بن زید کے لشکر کی روانگی کے بارہ میں صحابہ کے درمیان موجود اختلاف کس چیز نے حل کیا حدیث رسول اللہﷺ نے۔مانعین زکاۃ سے قتال کے بارہ میں موجود اختلاف کیسے رفع ہوا؟ حدیث رسول اللہﷺ سے۔
بلکہ اس سے قبل رسول اللہﷺ کی تدفین کے بارہ میں اختلاف عظیم کیسے ٹلا؟ اللہ کے پیغمبر ﷺ کی حدیث سے۔
خلیفہ کے تعین کے مسئلہ میں درپیش اختلاف اور{منا امیر ومنکم امیر} جیسا خطرناک دعوی اورنعرہ کس چیز سے سرد ہوا؟ حدیث رسول اللہﷺ سے
جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب وادی کی میراث کا مسئلہ پیش آیا اور آپ نے وادی کی میراث نہ دینے کا فیصلہ صادر فرمایا تو ایک بڑھیا نے حدیث رسول اللہﷺ پیش کرکے خلیفۃ المسلمین اور تمام امتوں میں انبیاء کے بعد سب سے افضل انسان کی اصلاح فرمادی جسے انہوں نے قبول کیا اور کسی صحابی نے بڑھیا کے اس فعل کی نکیرنہیں فرمائی۔
بلکہ صد آفرین اس بڑھیا کیلئے جس کاعقیدہ ومنہج یہ تھا کہ دین کے معاملے میں ابوبکر صدیق جیسا انسان بھی پیروی کے لائق نہیں ہے بلکہ یہ حق رہتی دنیا تک محمد رسول اللہﷺ کے لئے مخصوص ہے جناب عمر رضی اللہ عنہ نے جب مغالاۃ مہور کے مسئلہ کے سنگینی دیکھی تو حق مہر کی تحدید کی کوشش کی بلکہ اعلان بھی فرما دیا ایک خانون نے { وآتیتم احداہن قنطارا} سے استدلال کرکے آدھی دینا کے فاتح ، سلطنت روما وفارس کو قدموں تلے کچلنے والے اس عظیم خلیفہ کی اصلاح کر دی، جسے اس عظیم القدر شخصیت نے یہ کہہ کر قبول کر لیا : اصابت امراۃ واخطاء عمر عورت درست کہہ رہی ہے عمر کو ٹھوکر لگ گئی سبحان اللہ!
اللہ تعالیٰ اس خاتون پر کروڑ بار رحمتیں نازل فرمائے ،جو اس امت کے تمام افراد کو یہ سبق پڑھا گئی کہ عمر جیسا فاتح اعظم اور علوم نبوت کے حامل و وارث بھی دین کے معاملے میں پیروی کے لائق نہیں بلکہ قیامت کی آخری دیواروں تک یہ حق محمد رسول اللہﷺ کے لئے مخصوص و مرقوم ہے اور جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے تقوی کی بھی داد دیجئے جنہوں نے بھری محفل میں اپنی غلطی تسلیم کر لی اور وحی الہی کو نافذ فرما دیا {ذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء}
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تقلید کے تعلق سے آج کی مجلس میں دوسری جس غلط روش کا تذکرہ مقصود ہے وہ انتہائی خطرناک اور ظالمانہ روش ہے جو یہ ہے کہ بعض مسائل میں اہل تقلید کو اپنے آئمہ و اصحاب کے قول کا غلط اور خلاف حق ہونا معلوم ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنے آئمہ یا علماء کے قول ہی کو ترجیح دیتے ہیں گویا جانتے بوجھتے حق کا انکار عمداً وقصداً ناحق کا تسلیم و تنفیذ۔
{وانہ علی ذلک لشہید}
بلکہ ہم نے توبعض ایسی مثالیں بھی دیکھی ہیں کہ نہ صرف یہ کہ حق کو پہچان لیا جاتا ہے بلکہ اقرار و اعتراف بھی کرلیا جاتا ہے کہ ہمارے امام کا قول خلاف حق ہے ، لیکن اس کے باوجود محض اتباع مذہب کی حجت کی بنا پر اس کو قبول کرنا ہے اور مخالف کا قول حق ہونے کے باوجود چھوڑ دینا ہے۔
تقریر ترمذی کے مؤلف نے مسئلہ خیار مجلس کے ضمن میں امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مابین اختلاف نقل کیا ہے اورا مام شافعی کے مسلک کو کئی احادیث سے درست ثابت کیا ہے، آخر میں اپنا فیصلہ یوں صادرفرماتے ہیں:
{ الحق والانصاف ان الترجیح للشافعی ولکن نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا}
اگر حق و انصاف کی بات پوچھو تو اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعی کو حاصل ہے (یعنی ان کا قول صحیح اور مطابق حدیث ہے) لیکن ہم پر تو اپنے امام کی تقلید واجب ہے ۔ (لہذا گو ہمارے امام کا قول خلاف حق ہے لیکن ہم تو اسے نہیں چھوڑیں گے)۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
جانتے بوجھتے حق کا انکار اور باطل کا تسلیم واقرار بربادی دین و دنیا کے سوا کچھ نہیں ، یہ ایک ایسا مہلک ہے جس کی نجات کی راہیں قطعی مسدود دکھائی دیتی ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کنزالدقائق کے شارح نے ایک مقام پر ایک مسئلہ اٹھایا ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ وہ کافر جو ہمارے علاقے میں ہماری پنا ہ اور ذمہ میں رہتا ہے جسے اصطلاحاً ذمی کہا جاتا ہے اورجس کی حفاظت ہم پر فرض ہے اگر وہ رسول اللہﷺ کو گالی دے دے تو کیا اب بھی اس کا ذمہ باقی ہے!
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ذمہ برقرار ہے اور گالی دینے کے باوجود نہیں ٹوٹا جبکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا ذمہ ٹوٹ جائے گاشارح اپنا فیصلہ یوں تحریر کرتے ہیں۔
{ وقلب المؤمن یمیل الی رأي المخالف ولکن اتباع المذہب واجب}
ایک مؤمن کا دل تو اس مسئلہ میں مخالف کی رائے پر ہی ٹکتا اور مطمئن ہوتا ہے لیکن اپنے مذہب کی اتباع بھی تو واجب ہے۔
یعنی اعتراف حق کے باوجود انکار حق اورقبول ناحق (العیاذ باللہ)یہ کتنا خطرناک اقدام ہے۔
صاحب اصول کرخی نے تو انتہا کر دی ، وہ اپنے مذہب کے اصول بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت، یا رسول اللہﷺ کی کوئی حدیث اگر ہمارے ائمہ کے قول کے خلاف آجائے تو قرآن یا حدیث کو تاویل کی کسوٹی پر کس کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں گے اگر کامیاب نہ ہو سکے تو آخری حل یہ ہے کہ قرآنی آیت یا رسول اللہﷺ کی حدیث کو منسوخ اوراپنے امام کے قول کو ناسخ قرار دے دیں گے ۔ (ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ)
حضرات سامعین ! بتلائیے اس قسم کے قواعد کس دین کی ترجمانی کر رہے ہیں ؟ یہاں بربادی اور ہلاکت کے سوا کوئی دوسری صورت دکھائی دیتی ہے؟
ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے قاضیوں اور مفتیوں کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا دو طرح کے قاضی جہنم میں جائیں گے جن میں ایک قاضی کا کردار یہ ہے:
{ وقاضٍ عرف الحق وجار فی الحکم}
جو حق کو پہچان لے لیکن فیصلہ خلاف حق کر دے۔
ایک اور حدیث میںرسول اللہﷺ نے اس شخص کو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہے جہنمی قرار دیا ، اور آخر میں تکبر کی تعریف یوں فرمائی:
{الکبر بطرالحق وغمط الناس}
یعنی حق واضح ہونے کے باوجود اس کا انکار کر دینا اور لوگوں کو حقیر جاننا تکبر ہے۔
واضح ہو کہ علماء یا آئمہ سے غلطی کا صدور گنا ہ شمار نہیں کیا گیا بلکہ شریعت نے تو غلطی کرنے کے باوجود انہیں ایک اجر کا حق دار قرار دیا ہے، لیکن ظلم و ستم تو وہ لوگ ڈھاتے ہیں جو اپنے آپ کو ان ائمہ کا پیروکار کہتے ہیں او ران کے غلط فتاریٰ کو غلط ماننے کے باوجود قبول کر لیتے ہیں۔
امیرالمؤمنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
{یہدم الاسلام ثلاثۃ زلۃ عالم وجدال المنافق بالقرآن وأئمۃ فضلون}
یعنی تین چیزیں عمارت اسلام کو ڈھادیتی ہیں (۱) عالم کی لغزش (۲) منافق کا قرآن کے ذریعہ جھگڑنا (۳) گمراہ کن ائمہ
عالم کی لغزش یا غلطی اس لئے اسلام کی عمارت مسمار کر دیتی ہے کہ اس عالم کے پیرو کار اس غلطی کی اتباع کرتے رہتے ہیں اور اپنے علماء کو غلط کہنے کی ہمت نہیں کرتے۔ یہ تقلید جامد کا شاخسانہ ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
{ ویل للأتباع من زلۃ العالم قیل وکیف ذلک ؟ قال : یقول العالم الشئ برایہ فیلقی من ہوا علم برسول اللہﷺ منہ فیخبرہ ویرحع ویقضي الأتباع بما حکم}
یعنی عالم کی غلطی کے باوجود اس کے پیروکار برباد ہو جائیں ان سے پوچھا گیا اس کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا
’’عالم اپنی رائے سے کوئی مسئلہ بیان کرتا ہے پھر وہ اپنے سے
کسی بڑے عالم سے ملتا ہے جو اسے حدیث رسول بتا کر اسکی اصلاح کر دیتا ہے اور وہ عالم رجوع بھی کر لیتا لیکن اس کے پیروکار اس کے پرانے فیصلے پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں۔‘‘
کیونکہ ان کا عقیدہ یہی ہے کہ ہمارے عالم سے غلطی نہیں ہو سکتی… مقلدین کی یہ روش مقتضائے شریعت سے یکسر مختلف ہے یہ روش دین کے اندر بہت سے بگاڑ کا سبب ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سامعین حضرات! اس مختصر سے خطبہ میں ہم نے تقلید کے دو انتہائی خطرناک نقصانات کا ذکر کیا ہے اول یہ کہ مقلدین مختلف فیہ مسائل میں اپنے ائمہ کیساتھ چمٹے رہتے ہیں اور کتاب و سنت کی طرف رجوع کی زحمت گوارا نہیں کرتے یہ بات مقاصد شریعت کے سراسر خلاف ہے۔ چنانچہ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں تو بالخصوص قرآن و حدیث کی طرف رجوع لازمی ہے ۔ دوسرا نقصان یہ بتا یا ہے کہ مقلدین حضرات بعض اوقات بعض مسائل میںاپنے آئمہ کے قول کا غلط ہونا جان بھی لیتے ہیںاور اس غلطی کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں لیکن پھر اسی غلط قول کو اپنانا ضروری سمجھتے ہیں اس کو تمام عمر پڑھتے پڑھاتے ہیں، اس کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ دونوں اقسام باطل ہیں بہت سی قباحتوں اور ضلالتوں کا پلندہ ہیں خیرالقرون کے تعامل سے قطعی مختلف۔
میں آخر میں خیر القرون کے تعامل سے کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں جن سے واضح ہو گا کہ ہمارے اسلاف کا عقیدہ و منہج کیا تھا؟ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جنت کی بشارتیں دے دیں ان کا معیار حق و صداقت کیا تھا تاکہ یہ بات خوب نکھر کر بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آجائے کہ جو چیز اس دور میں حق تھی وہ آج بھی حق ہے اور جو چیز اس دور میں باطل تھی وہ آج بھی باطل ہے۔
(۱) جناب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ متعہ کے جواز کے قائل ہیں تو آپ نے ارشاد فرمایا:
{اِن رسول اﷲ ﷺ نہی عنہا یوم خیبر (بخاری و مسلم)}
رسول اللہ ﷺ نے جنگ خیبر کے موقع پر اس سے منع فرما دیا تھا۔
ابو داؤد طیالسی کی روایت میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بذات خود فرمایا :
{انظر ماذا تفتي فاشہد أن رسول اللہ ﷺ نہی عن نکاح المتعۃ}
یعنی تم غور تو کرو کیا فتوی دے رہے ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے نکاح متعہ سے منع فرما دیا تھا۔
اور طبرانی اوسط کی روایت کے مطابق یہی بات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی ابن عباس ؓ سے فرمائی تھی۔
(۲) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ غسل جنابت کے موقع پر اپنے سر کے بالوں کی تمام میڈیاں کھولاکریں تو آپ نے فرمایا:
عبداللہ بن عمرو پر تعجب ہے!!… اس کا بس چلے تو عورتوں کو گنجا ہی کردے۔ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اور اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں کیا کہ اپنے سر پر تین دفعہ اچھی طرح پانی کے چلو ڈال لیتی تھی۔ (صحیح مسلم)
(۳) ایک مرتبہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بیان کی:
{ لا تمنعوا نسائکم المساجد اذا استاذنکم الیہا}
یعنی جب تمہاری عورتیں تم سے مسجد میں آنے کی اجازت طلب کریں تو انہیں مت روکا کرو تو ان کے بیٹے بلال نے کہا : ہم تو روکیں گے تو اس پر عبداللہ بن عمرؓ نے اسے اس قدر لعن طعن کی کہ اس طرح کی لعن طعن کرتے ہوئے انہیں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اور آپ بار بار فرماتے :
{أخبرک عن رسول اللہ ﷺ وتقول واﷲ لنمنعہن }
میں تمہیں نبی ﷺ کی حدیث سنا رہاہوں اور تم کہتے ہو ہم روکیں گے!!
(۴) عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو خذف کرتے ہوئے دیکھا (ایک مخصوص طریقے سے ہاتھ سے پتھر پھینکنا خذف کہلاتا ہے) تو فرمایا:
’’ ایسا مت کرو ، کیونکہ رسول اللہﷺ نے خذف سے روکا ہے اورفرمایا ہے : خذف سے نہ تو شکار ہو سکتا ہے نہ دشمن ہلاک ہو سکتا ہے البتہ کسی کا دانت ٹوٹ سکتا ہے یا آنکھ پھوٹ سکتی ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
کچھ عرصہ بعد عبداللہ بن مغفل نے دوبارہ اس شخص کو خذف کرتے ہوئے دیکھا،فرمایا :
میں نے تمہیں رسول اللہﷺ کی حدیث سنائی تھی تم پھر بھی باز نہیں آئے جاؤ میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔
(۵) ہذیل بن شرحبیل فرماتے ہیں:
ایک شخص ابو موسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور پوچھا کہ ایک شخص بیٹی، پوتی اور سگی بہن چھوڑ کر مر گیا ہے اس کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
ان دونوں نے جواب دیا :
آدھا بیٹی کو اور بقیہ آدھا بہن کو ملے گا جبکہ پوتی محروم رہے گی۔
پھر انہوں نے کہا :
تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ وہ بھی ہماری تائید کریں گے۔
وہ شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان دونوں کا فتویٰ بتایا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
اگر میں نے بھی یہی فتویٰ دے دیا تو گمراہ ہو جاؤں گا اور میرا شمار کبھی ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوگا میں تمہیں اس مسئلہ کی بابت رسول اللہﷺ کا فیصلہ سناتا ہوں:
بیٹی کو آدھا مال ، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ ان دونوں میں دو
تہائی کی تقسیم پوری ہو جائے اور باقی مال بہن کو دیا جائے گا ۔
وہ شخص دوبارہ ابو موسیٰ اشعری کے پاس آگیا اور انہیں ابن مسعود کے فتوی سے آگاہ کیا ، تو ابو موسیٰ نے فرمایا :
{لا تسئالونی ، مادام ہذا الحبر فیکم}
جب تک یہ عالم تمہارے اندر موجود ہے تب تک ہم سے سوال نہ کیا کرو (صحیح بخاری)
 
Top