بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی افضل الرسل والمبعوثین و علی آلہ واصحابہ واہل طاعتہ اجمعین ۔وبعد:
سامعین حضرات! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آج اگر میں اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات پر نظر ڈالوں تو مجھے سب سے قیمتی اور ارفع و اعلیٰ نعمت یہی دکھائی اور سجھائی دیتی ہے کہ اس ذات جل و علا نے ہمیں مسلک اہل حدیث عطا فرمایا ہے جو ایک سچا ، سُچا اور کھرا مسلک ہے جس کی صرف دو ہی بنیادیں ہیںایک کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول اللہ ۔ جس کے صرف دوہی اصول ہیں : {اطیعو اﷲ وأطیعوا الرسول}
حضرات!میں مسلک اہل حدیث کے سچا اور کھرا ہونے کی بات اس لئے نہیں کررہا کہ یہ میرا یا میرے اباء و اجداد یا میرے بزرگوں اور جماعتی دوستوں کا مسلک ہے۔ ہرگز نہیں! دین اسلام میں صداقت کی یہ بنیادیں قطعاً نہیں ہیں بلکہ دین نے تو ان بنیادوں کی بیخ کنی کی ہے۔
{ واذا قیل لہم اتبعوا ما أنزل اﷲ قالو ا بل نتبع ما الفینا علیہ آباء نا أولو کان آباء ہم لا یعقلون شیئاً ولا یہتدون}
{اتبعوا ما أنزل الیکم من ربکم ولا تتبعو من دونہ اولیاء…}
ان آیات کریمہ میں وحی الہی کے علاوہ پیروی کے ہر راستہ کی نہ صرف صریح نفی موجود ہے بلکہ اسے خلاف عقل و ہدایت قرار دیا گیا ہے۔توپھر اپنے اہل حدیث ہونے پر کیوں نہ فخر کروں کہ اس مسلک کی بنیاد وحی الہی ہے؟
اہل حدیث نام میری پہچان ہے۔
اہل حدیث نام میرے عقیدہ ، عمل ، خلق اور منہج کی صداقت کی ضمانت ہے امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
{أہل الحدیث في کل زمان کالصحابۃ فی زمانہم }
یعنی ہر دور میں اہل الحدیث کا وہی مقام و مرتبہ ہے جو صحابہ کرام کا اپنے دور میں مقام و مرتبہ تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
{اذا رأیت صاحب حدیث فکانی رأیت أحدامن أصحاب رسول اللہ ﷺ}
یعنی میں جب کسی اہل حدیث کو دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے کسی صحابی کو دیکھ رہا ہوں۔
ایک بہت بڑے محدث ابو بکر بن عیاش کا قول ہے۔
{أہل الحدیث فی کال زمان کأہل الاسلام مع أہل الادیان}
یعنی اہل حدیث کا ہر دور میں دیگر لوگوں سے وہی فرق ہے جو ہر دور میں اہل الاسلام کا دیگر ادیان والوں سے فرق ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا:
کسی شہر میں اہل حدیث ہو جسے صحیح وضعیف کی زیادہ معرفت بھی مستخصر نہ ہو اور ایک صاحب الرائے ہو تو مسئلہ کس سے پوچھا جائے؟
فرمایا:
{یسئال صاحب الحدیث ولایسئال صاحب الرائے}
اہل حدیث سے پوچھا جائے ۔ اہل الرائے سے نہ پوچھا جائے مزید فرمایا:
لا تری أحدا ینظر فی کتب الرائے غالباً إلا وفي قلبہ دخل}
جو شخص (حدیث کی بجائے) رائے پر مبنی کتب پڑھتا ہے اس کا دل مکروفساد سے لبریز ہے۔
امام احمد بن حنبل کا مذکورہ جواب قرآن پاک کی اس آیت سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے:
فاسئالوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
تمہیں جس مسئلہ کا علم نہ ہو اس کی بابت قرآن و حدیث والوں سے پوچھا
کرو۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اہل الحدیث کے مناقب و فضائل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
فرمان باری تعالیٰ (ترجمہ) اس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے…اہل حدیثوں کی اس سے بڑی کوئی فضیلت نہیں ہو سکتی (کیونکہ دنیا کے ہرگروہ نے اپنی مرضی سے اپنا کوئی امام بنا رکھا ہے)
اور اہل الحدیث کے امام تو صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ بعض علماء سلف سے منقول ہے:
اہل الحدیث کی منقبت و فضیلت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی اس دعا میں داخل و شامل ہیں:
{نضر اللہ امراء سمع مناحدیثا محففٰہ حتی یبلغہ غیرہ…}
اے اللہ! اس شخص کو رونق وتروتازگی عطا فرما جو ہماری کسی حدیث کو سن کر یاد کر لیتا ہے اور پھر دوسروں تک پہنچا بھی دیتا ہے۔
حافظ سفیان بن عینیہ فرمایا کرتے تھے:
{ لیس من أہل الحدیث أحد إلاوفي وجہہ نضرۃ لہذا الحدیث‘‘}
یعنی اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر اہل حدیث کے چہرہ میں رونق وتروتازگی و شگفتگی موجود ہے۔