• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت اور مقلدین کی اقسام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ساتواں شبہہ
بعض مقلدین تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں:
کسی امام کی بات پر بغیر دلیل کے عمل کیا جائے۔ دلیل اس لیے نہ مانگی جائے کہ وہ امام قرآن وحدیث کی بصیرت رکھتا ہے اور جو مسئلہ اس نے قرآن و حدیث سے اخذ کیا ہے قابل قبول ہے ۔ تو ایسی تقلید کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ( جس طرح کہ مقلدین کے مقلد نے لکھا ہے)۔
جواب : مذکورہ تقلید بھی چند وجوہات کی بنیاد پر قبیح اور غلط ہے:
1- پہلی وجہ یہ ہے کہ اس امام سے دلیل کیوں نہیں طلب کی جائے گی کیونکہ وہ نبی تو نہیں کہ اس کی بات بغیر چوں چراں کے مان لی جائے؟ اس سے تو مسلمانوں کو منع کی گیا ہے۔ کیونکہ یہ یہودیوں کی صفت تھی کہ وہ اپنے علماء اور پیروں سے دلیل نہیں طلب کرتے تھے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ) سورہ توبہ ۔۔کہ انہوں نے اپنے مولویوں اور پیروں کو رب بنا لیا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالی سورہ یوسف میں ارشاد فرماتے ہیں: (قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي )۔ کہہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہوں میں اور میرے پیروکار بصیرت پر ہیں۔
بصیرت دلائل کے ساتھ بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہتے ہیں۔ بغیر دلیل کے کسی بات کو مان لینا جہالت کہلاتا ہے کیونکہ تمام اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر مقلد جاہل ہوتا ہے (تفسیر قرطبی:ج2ص212)۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ مقلد کو کیسے معلوم ہوگا کہ اس کا امام تمام علماء سے زیادہ جانتا ہے۔ یہ تو اُس وقت ممکن ہے جب مقلد قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ اور ان کے دلائل سے اچھی طرح واقف اور باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں راجح و مرجوح، صحیح اور ضعیف کو بھی جانتا ہو۔ ایسی صورت میں کسی عالم یا امام کے بارے یہ خیال ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ جانتا ہے لیکن جب آدمی کے علم کی حالت یہ ہو تو اس کو تقلید کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ مقلدین خود کہتے ہیں کہ تقلید جاہل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ شرعی احکام میں اپنے آپ کو جاہل سمجھنے والے مقلدین علماء کی علمی قابلیت جانچنے کے لیے تو بڑے ماہر بن جاتے ہیں اور احکام شریعت کی سمجھ اورفہم سے اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ کیا صاحب بصیرت عالم سے غلطی ہوسکتی ہے یا نہیں؟ (ہو سکتی ہے کیونکہ یہ انسانیت اور بشریت کا تقاضہ ہے) تو امام ابوحنیفہ رحمہ کے بارے میں ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ممتاز عالم ہونے کیساتھ ساتھ احناف یہ مانتے ہیں کہ اُن سے خطاء ہو سکتی ہے کہ نہیں، احناف کی زبان سے جواب یہ کہ امام ابوحنیفہ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ احناف بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کا قول چھوڑ کر صاحبین کے قول پر فتوی دے چکے ہیں اگر فرصت ہو تو فقہ حنفی کا ذرا مطالعہ کیجئے تا کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ بہت سے مسائل میں لکھ چکے ہیں کہ "وَالفَتوی عَلی قَولِھِما"۔ مثلا مزارعہ وغیرہ میں۔
اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خود ایک متکلم فیہ راوی ہے، علماء اُمت نے اس کو ضعیف راوی کہا ہے۔ آئندہ صفحات پر اس کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اُمت کے بقیہ تمام علماء کے مقابلے میں سے زیادہ دینی بصیرت کا حامل قرار دینے والوں سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ جب تفاسیر قرآن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی تفسیر نہیں ہے، کتب احادیث میں ان کی کوئی کتاب نہیں ہے، شروحاتِ حدیث میں ایسی کوئی شرح نہیں ہے جسے ان کی طرف منسوب کیا جائے اور جب دنیا کی لائبریریوں کے ذخیرہ کتب میں ایسی کوئی کتاب نہیں ہے جس کو امام ابوحنیفہ کا علمی کارنامہ کہا جاسکے تو پھر تم کیسے برسرِ ممبر امام صاحب رحمہ اللہ کی دینی بصیرت کے لامنتہی دعوے کرتے ہو؟ کتاب وسنت سے تعلق رکھنے والا ہر مسلمان جب تعصب کو بالائے طاق رکھ کر دیگر مذاہب کے مقابلے میں حنفی مذہب کا تجزیہ کرے گا تو یہ حقیقت اس کے سامنے بالکل ظاہر ہو جائے گی کہ حنفی مذہب کے اکثر احکام ضعیف روایات، موقوفات اور مقطوعات پر مبنی ہیں اور صحیح حدیث پر عمل کرنا اس بدنصیب مسلک کی قسمت میں نہیں ہے۔ نصب الرایہ، اعلاء السنن وغیرہ ملاحظہ کیجئے)۔
(احناف کی کتابوں میں یہ اقرار موجود ہے: کہ احناف کے نزدیک موقوف حدیث بھی حجت ہے، مرسل بھی اور ضعیف بھی حجت ہے دیکھیں (حدیث اور اہل حدیث) خود ہدایہ وغیرہ کے بارے میں مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: "کہ ان معتبر کتابوں میں ساری حدیثیں موضوع ہیں"ترجمہ مقدمہ عمدۃ الرعایہ مطبع یوسفی ص12۔ مولانا یوسف لدھیانوی فرماتے ہیں: اہل علم جانتے ہیں کہ ہدایہ میں بہت سی روایات بالمعنی ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جن کا حدیث کی کتابوں میں کوئی وجود نہیں ہے۔ ماہنامہ بیّنات دسمبر:1981)
لیکن اس بات کو صرف وہی متجّر عالم سمجھ سکتا ہے جو تعصب سے مبرا ہو۔ ہر طالب علم اور ناقص مولوی اس کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آٹھواں شبہہ
عقل و دانش سے عاری کچھ مقلدین کہتے ہیں کہ دنیاوی نظام، تعلیمی نظام اور گھریلو نظام تقلید ہی کی بدولت بتدریج رواں دواں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر امیرِ لشکر ماتحت سپاہیوں کو کسی لڑائی سے متعلق ہدایت دیتا ہے اور سپاہی صف جنگاں میں صف دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو کر جاری لڑائی میں دلیل کا مطالبہ کرے تو یقینا یہ رویہ قریب الحصول فتح کو بھی شکست میں بدل دے گا۔ اسی طرح اگر بیوی شوہر کے حکم کی تعمیل کو دلیل سے مشروط کرے تو بیوی کا یہ اقدام گھریلو تسکین و راحت کا خاتمہ کردیگا۔ کہتے ہیں: کہ اس سے تقلید ثابت ہوگئی۔
جواب: حقیقت میں تقلید جہالت کی اصل ہے، یہی وجہ ہے کہ مقلدین ایسی بے بنیاد باتیں کرتے ہیں۔ معروفات میں امیر کی باتیں ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع کہلاتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ۔ اور جو تمہارے امیر ہوں اُن کی اتباع کرو۔
اور حدیث میں آتا ہے: من اطاع اميري فقد اطاعني جس نے میرے امیر کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی۔ اس حدیث میں امیر کی اطاعت مذکور ہے نہ کہ مجتہد کی۔ کیونکہ یہ کوئی جگہ نہیں کہ "من اطاع المجتھدين فقد اطاعني" جس نے مجتہدین کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ امیر اگر امور حسیّہ میں سے کسی کام کے کرنے کا حکم کرتا ہے تو اسکے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر وہ امورِ دین میں سے کسی کام کا حکم کرتا ہے تو اسکی تعمیل کو قرآن وحدیث کی دلیل سے مشروط کیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (انما الطاعة في المعروف)۔
(امیر کی اطاعت اچھے کاموں میں کی جائے گی نہ کہ سیئات میں) اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے : ( لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق) خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت حرام ہے۔ ( ابن ابی شیبہ وغیرہ)
ایسی بے جا باتوں سے احتراز ہی ایک مومن کے حق میں بہتر ہے۔
اسی طرح شوہر اگر اپنی بیوی کو شریعتِ محمدیہ کے موافق کسی کام کا حکم کرتا ہے تو بیوی پر اس کی اطاعت فرض ہے لیکن شریعت کی خلاف ورزی میں بیوی بھی شوہر کی نافرمانی کی مجاز ہے۔ جبکہ تقلید امام کی خطاء اور صواب کے ہر بات کو ماننے کا نام ہے۔ اسی طرح اسلام نے بیوی کو شوہر کی اطاعت اور خدمت کا مکلّف ٹھہرایا ہے۔
نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: (ولو امرھا ان تنقل الحجارة من جبل اسود الي جبل ابيض ومن ابيض الي احمر لكانت لھا ان تفعله)۔ مشكوة :ج1ص283۔ "شوہر اگر اپنی بیوی کو حکم کرے کہ وہ پتھر کو ایک پہاڑ سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر منتقل کرے تو اس پر عمل کرنا چاہیے" حالانکہ یہ عبث اور سعی لاحاصل ہے۔ پھر بھی شریعت نے اس کو اطاعت کرنے کی تاکید کی ہے۔
ہم مقلدین سے صرف اتنی گذارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مجتہدین کی بیویاں بننے کی بجائے قرآن و حدیث کے غلام بن جائیں تا کہ سراسر عزت پر فائز ہوجائیں۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نواں شبہہ
بعض مقلدین کا خیال ہے کہ ترکِ تقلید کے بہت سارے نقصانات ہیں۔ ان اعتراضات کو نمبر وار مع جوابات کے پیش کیا جاتا ہے۔
اعتراض نمبر1- سب سے پہلا نقصان تو یہ ہے کہ ترکِ تقلید سے فروعی اور غیرضروری مسائل ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ ترکِ تقلید فتنہ اور فساد کے برپا ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔
جواب: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دینی مسائل کو باعتبارِ فروعی و اصولی تقسیم کرنا بدعت ہےکیونکہ اس کے بارے میں کوئی قاعدہ منضبطہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دین میں غیر ضروری مسائل بھی نہیں ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے مسائل تو اللہ تعالی کے اسماء وصفات اور توحید کو پہچاننا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت طریقوں پرعمل کرنا ہیں ۔ علماء کی باتوں کو شریعت محمدیہ کے ترازو میں تولنا، شرک اور تقلید و بدعت سے اُمت کو بچانا ہے۔ اسی طرح ہم اللہ کو مستوی علی العرش مانتے ہیں جبکہ احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔ ہم قرآن کو اللہ تعالی کا کلام سمجھتے ہیں جبکہ احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔ ہم قرآن کو اللہ کا کلام سمجھتے ہیں جبکہ احناف قرآن کو اللہ تعالی کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہم ہر جگہ اللہ سبحانہ وتعالی کے علم کی موجودگی کے قائل ہیں جبکہ احناف ہر جگہ اللہ تعالی کی ذات کی موجودگی کے قائل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ غیر ضروری مسائل ہیں؟۔
مقلدین کا تو شیوہ یہ ہے کہ وہ فرضی مسائل، خرافات اور بدعات اپنی کتابوں میں لکھتے چلے جاتے ہیں۔ قاضی خان، شامی اور ہدایہ وغیرہ اسی قسم کی شاہکار ہیں۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کی اکثر کتابوں میں بدعات و خرافات کی تعفُّن آمیز بو پائی جاتی ہے۔
قارئین محترم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے نزدیک اپنے نبی کا ہر طریقہ محبوب ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کے مسائل بیان کرنے سے فساد پیدا نہیں ہوتا بلکہ حق کو نظر انداز کرنا فتنہ و فساد کا سبب بن جاتا ہے۔
اعتراض نمبر2- مقلدین ترکِ تقلید کا دوسرا نقصان یہ ذکر کرتے ہیں کہ تقلید چھوڑنے کی وجہ سے اُمت میں تجدد اور اباحت پسندی پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس سے ہر آدمی اپنی عقل سے قرآن کی تفسیر اور حدیث ک شرح کرنا شروع کرے گا۔ اور یہ کام اسلام کے لیے نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔
جواب: تقلید چھوڑنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت طریقوں سے محبت کرنا سیکھے اور تلاش حق کے لیے اتنا حریص ہوجائے کہ اس کے حصول کے لیے کبھی ایک عالم کے پاس جائے اور کبھی دوسرے عالم کے پاس جائے اور تلاش حق کی یہ جستجو زندگی کے آخری لمحات تک جاری رکھے۔ لیکن ایک مقلد کو نبی علیہ السلام کے سنت طریقوں کے مقابلے میں اپنے امام کی آراء اور عقلی دلائل کے ساتھ زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اگر صحیح حدیث اُس کے مذہب کے خلاف آتی ہے تو اُس کو مسترد کرنے کے لیے اگر ہزارہا جوابات وضع کرنے کی ضرورت پڑے تو بھی اس سے گریز نہیں کرتا۔ جبکہ ہم وہ تجدد اور اباحت پسندی کرتے ہیں جس کی اجازت اللہ تعالی اور نبی علیہ السلام نے دی ہے محض کسی رائے کی وجہ سے ہم حلال کو حرام نہیں سمجھتے۔
اس کے برعکس مقلدین صرف اُس چیز کو جائز قرار دیتے ہیں جس کی اجازت ان کے امام نے دی ہو۔ اور جو چیزان کے امام نے حرام قرار دی ہو اُس کو حرام ہی سمجھتے ہیں لیکن دلیل مانگنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ یہ چیز حرام کیوں ہے؟ یہ بعینہ وہی بیماری ہے جو یہود ونصاریٰ میں موجود تھی جس کی نشاندہی اللہ تعالی نے اس آیت میں کی ہے: (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ) کہ انہوں نے اپنے مولویوں اور پیروں کو رب بنا لیا تھا۔ ہم اپنی مرضی سے تجدّد اور اباحت پسندی کے قائل نہیں ہیں۔
یہ کام یعنی "رائے کو بغیر دلیل کے ماننا" تو مقلدین ہی کا امتیاز ہے کہ کبھی اپنی رائے زبردستی لوگوں سے منواتے ہیں جس طرح اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں: "وعندي كذا"۔ میرے نزدیک یوں ہے۔ اور کبھی دوسرے علماء کی باتیں لوگوں سے منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں: "وعند فلان كذا" فلاں کے نزدیک یوں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے مصفّٰی کردار کو داغدار کرنا فرض سمجھتے ہیں حالانکہ ہم تو قرآن وحدیث کے مقابلے میں آراء اور خیالات کو رد کرنے کی دعوت دیتے ہیں (رَمَتُنِيُ بِدَائِھَا ثُمَّ ولَّت)۔
اگر مقلدین کا اپنا دامن صاف ہوتا اور ہم ان کی نگاہوں میں معیوب ٹھہرتے تب تو کوئی پروا نہیں ہوتی لیکن ستم تو یہ ہے کہ مقلدین نے محض تقلید کی خاطر قرآن وحدیث میں تحریف کرنے اور متبعینِ کتاب و سنت پر کیچڑ اُچھالنے سے گریز نہیں کیا۔
3-حقیقت یہ ہے کہ اجماع کی خلاف ورزی سب سے پہلے خود حنفی مقلدین کرتے ہیں۔ کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(اجمع المسلمون على ان من استبانت له سنة رسول الله ﷺ لم يحل له ان يدعھا لقول احد) ۔ تعظيم السنة ص:۲۸، اعلام الموقعين: ج۲ص۲۸۲۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی مسلمان کو نبی ﷺ کی صحیح حدیث معلوم ہو جائے تو اس کے لیے یہ بات قطعاََ حرام ہے کہ وہ اس حدیث کی مخالفت میں کسی کی رائے کو قبول کرے ۔ اس کے برعکس مقلدین بغیر کسی استثناء کے اپنے امام کی تقلید کی خاطر نبی ﷺ کے سنت طریقوں سے اعراض کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مقلدین اجماع کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اجماع کس کو کہتے ہیں، اکثر مقلدین اجماع کو ذکر تو کرتے ہیں لیکن ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اجماع کی کون سے قسم حجت ہے اور کونسی حجت نہیں ہے؟
لیکن چونکہ یہ ایک تفصیل طلب مسئلہ ہے اور یہ مختصر رسالہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا لہذا بطور "مشت از خروارے" دو چار باتیں عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
اجماع کی دو قسمیں ہیں:
1- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کسی مسئلہ پر اجماع ہو۔
یہ اجماع اس وقت حجت ہے جب یقینِ واثق کے ساتھ معلوم ہو کہ تمام صحابہ کرام کا اس مسئلے میں باہم اتفاق ہے۔
بعض لوگ بلکہ تمام مقلدین جب کسی صحابی کا قول دیکھتے ہیں اور اس کا مخالف ان کو معلوم نہ ہو تو اس کو اجماع کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ زیادتی ہے کیونکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف ممالک میں پھیل گئے تھے کچھ شام گئے تو کسی نے عراق کا رُخ کیا اگر کوئی مصر اور خراسان پہنچا تو کسی نے فلسطین کے لیے رختِ سفر باندھا۔ انہیں ممالک سے صحابہ کرام فتوی تو دیا کرتے تھے لیکن دوسرے صحابہ کرام کے اقوال کے ادراک کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
یہ ایک علمی بات ہے اور مقلدین کے بے جا دعوؤں سے بچنے کے لیے اس کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ مقلدین کے بے محل دعوے اکثر بے چارے نادان لوگوں کی گمراہی کا باعث بن جاتے ہیں۔
2- یہ اجماع کی دوسری قسم ہے کہ اُمت کے تمام علماء کا کسی مسئلے پر اتفاق ہو لیکن یہ اس وقت اُمت کے لیے حجت ہوگا جب تمام علماء کے بارے میں علم ہو۔ اور یہ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ کسی مسئلے پر تمام علماء کے اجماع کا علم تو کجا۔۔۔آج اُمت یہ معلوم کرنے سے قاصرہے کہ تاریخ اسلام میں کتنے عالم گزرے ہیں اور وہ کون کون سے ہیں۔
اسی طرح اجماع کی خبر کا متواتر ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ بیان کرنے والا اگر ایک عالم ہو تو یہ خبر واحد ہوئی ( جو کہ حنفیہ کے نزدیک حجت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے) اس کے علاوہ اجماع کا ماخذ بھی ضروری ہے کیونکہ اُمت کے علماء کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک ایسا مسئلہ وضع کریں جس کی اساس قرآن و حدیث نہ ہو۔
ہم اجماع کا دعوی کرنے والوں کو یہ چیلنج کرتے ہیں کہ وہ علماء کا وضع کیا ہوا ایک ایسا صحیح مسئلہ پیش کریں جو قرآن وحدیث میں نہ ہو اور اجماع کی شرائط پر پورا اُترتا ہو لیکن ان کو مایوسی ہوگی کیونکہ اس قسم کا مسئلہ دین میں نہیں ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ تقلید کی وجہ سے جہالت و گمراہی کے بھنور میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اس قعرِ مذلت سے نکال کر کتاب و سنت کی شاہراہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ( اجماع سے متعلق بیس تحقیقی ابحاث ارشاد الفحول للشوکائی ص 131 پر ملاحظہ کیجئے)۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ جو مسلمان تقلید سے اعراض کر کے قرآن وحدیث کا تابعدار بن جاتا ہے اس سے کبھی اجماع کی خلاف ورزی سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔
ہماری دعاء ہے کہ اپنی عاقبت کی خاطر ہر مسلمان اوہام پرستی سے گریز کرے۔
اعتراض نمبر4- مقلدین ترکِ تقلید کا چوتھا نقصان یہ ذکر کرتے ہیں کہ تقلید نہ کرنے کی وجہ سے مسلمان بے ادب بن جاتا ہے۔ علماء اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا اعتماد باقی نہیں رہتا۔
جواب: یہ رسول اللہ ﷺ کے متبعین پر بہت بڑا بہتان ہے اور ہمیں ایسی بیماری میں مبتلا ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہے جو خود مقلدین کے رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے ہم علماء کرام کی مدح میں یوں نغمہ سرائی کرتے ہیں:
ورسوله فھو المطاع وقوله
المقبول اذ ھو صاحب البرھان
والامر منه الحتم لا تخيير فيه
عند ذي عقل وذي ايمان
من قال قولا غيره قمنا
على اقواله بالسير والميزان
ان وافقت قول الرسول وحكمه
فعلى الروس تشال كالتيجان
او خالفت ھذا رددناھا علي
من قالھا من كان من انسان
او اشكلت عنا توقفنا ولم
نجزم بلا علم ولا برھان
ھذا الذي ادى اليه علمنا
وبه ندين الله كل اوان

القصيدة النونية ص ۱۷۸ لابن القيم
اشعار کا خلاصہ: مذکورہ بالااشعار کا حاصل یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کی تابعداری کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ آپ کے احکامات کو ماننا واجب ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ نبی ﷺ کے جملہ احکامات کو انکار کرے یا اپنے مذہب کے موافق احکام مانے باقی سب چھوڑ دے۔امت کے علماء کے اقوال سنتِ نبوی ﷺ کے ترازو میں اگر شریعتِ نبویہ کے مطابق ہوئے تو اس کو مان لیا جائے اور اگر وہ شریعت محمدیہ سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو ان کو چھوڑ دیا جائے چاہے وہ قول کسی کا بھی ہو (کیونکہ نبی ﷺ کے فرمودات کے مقابلے میں کسی کی طرف دیکھنا بھی مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا) اور اگر کسی عالم کی بات مجمل ہو تو اس پر توقف کرنا چاہیے دلیل اور وضاحت کے بغیر اس کو نہیں اپنانا چاہیے۔
یہ دین محمدی پر کاربند رہنے کا طریقہ بھی ہے اور علم دینی کا تقاضہ بھی۔
اپنے چوتھے اعتراض میں مقلدین نے بے ادبی کو ترکِ تقلید کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک امام کے سارے اجتہادی اور غیر اجتہادی مسائل مان کر شریعتِ محمدیہ کے احکامات کو نظر انداز کرنے والے مقلدین زیادہ بے ادب ہیں یا سنتِ نبویہ ﷺ کے پیروکار۔۔؟
حقیقت یہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال حنفی مذہب کےخلاف آتے ہیں تو احناف کہتے ہیں کہ یہ تو صحابہ کی رائے ہے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ نہ ان کی تقلید جائز ہے۔ اس حوالے سے سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جو کہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
احناف صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کے علاوہ باقی اُمت کے تمام علماء کی تقلید کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اطاعت کے اس طرز کو تقلید شخصی نہیں تو اور کیا کہتے ہیں۔ اُمت کے تمام علماء کو نظر انداز کرنا، ان پر رد کرنا اور ایک ہی عالم کو اپنا امام بنانا ہی تقلید شخصی ہے۔ جس طرح کہ صاحب ہدایہ اور باقی تمام مقلد فقہاء نے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے اقوال کو ہر جگہ پر رد کر دیا ہے۔ کسی بھی مقام پر اُن کو رجح نہیں کہا۔ تو کیا یہ ائمہ کی بے ادبی نہیں ہے؟ محدثین کے اقوال کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایسے راوی کے اقوال ہیں جو اجتہاد سے ناواقف تھے۔
یہ محدثین کی بے ادبی نہیں تو کیا ہے؟۔
جبکہ ہمارا یہ موقف ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء کرام کے اقوال کتاب وسنت کے مواقف ہوں تو ہم ان کو دل و جان سے قبول کریں گے اور اگر کتاب سنت کے خلاف ہوں تو ہم کسی صورت بھی ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کو اجتہاد کا اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔ سوائے بے جا وہم کے ترکِ تقلید کے مذکورہ چوتھے نقصان کی بھی حقیقاََ کوئی وقعت نہیں ہے۔
مقلدین کا طریقہ ہے کہ وہ ایک مخصوص امام کی اچھی اور بری تمام باتوں کو قبول کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی شاعر کا کہنا ہے: ترجمہ
میں تو غزیہ کا تابعدار ہوں اگر وہ گمراہ ہوئی تو میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا اور اگر وہ راہ راست پر چلی تو میں بھی ہدایت پالوں گا۔
یہ حقیقت ہے کہ تقلید حق سے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اس کے باوجود مقلدین اپنے آپ کو بڑے فخر سے باادب کہتے ہیں۔ حالانکہ جتنی محبت و مودت اپنے امام کے لیے ان کے دلوں میں ہے اتنی محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے ان کے دلوں میں نہیں ہے۔
امام بوحنیفہ رحمہ اللہ تقلید ومحبت میں احناف کس قدر اندھے اور راہ راست سے ہٹ چکے ہیں اس کی معمولی سی جھلک مندرجہ ذیل شعر میں دیکھیئے!
عَذلُ الظواھر حول قلبي التائه
وابو حنيفة منه في سودائه

(تنظیم الاشتات)
" کہ اہل ظواہر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید پر مجھے جتنا بھی ملامت کرے مجھے اسکی کوئی پرواہ نہیں ہے یہ ملامت و تنقید میرے دل کے اطراف اربعہ گھوم تو سکتی ہے لیکن۔۔۔دل میں موجود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید اور محبت پر ضرب کاری نہیں کرسکتی"۔
مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن وحدیث کے پیروکار مجھے اس بات پر لاکھ ملامت کریں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید پر سنت طریقہ کیوں قربان کرتے ہو؟ تو ان کی یہ ملامت میرے دل پر کبھی اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ امام صاحب کی محبت میرے دل میں مکمل طور پر بھر چکی ہے اس میں اب کوئی ایسی جگہ خالی نہیں رہی جس میں کسی غیر کی محبت کا شائبہ تک پیدا ہو سکے چاہے وہ کتاب وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ سلم کی محبت ہی کیوں نہ ہو۔
قارئین محترم ! کسی مسلمان کے دل میں اگر ایمان کی معمولی سی بھی رمق موجود ہو تو سہ اس بات کو ضرور بُرا سمجھے گا اور یہ حقیقت بھی اُس پر طشت از بام ہوجائے گی کہ ائمہ دین کے بے ادب غیر مقلدین ہیں یا حنفی مقلدین۔
ہم تو کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اُمت کے عالم دین تھے۔ اپنی استطاعت کے مطابق دین کی بھر پور خدمت کی ہے لیکن امام الانبیاء سے ان کا رتبہ بڑا نہیں ہے۔ ان کے وہ تمام اقوال اور اجتہادی مسائل جو شریعت سے متضاد نہیں ہیں ہم بصدق دل قبول کرتے ہیں۔ لیکن وہ اقوال جو قرآن وحدیث سے متضاد ہیں ہم کسی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا احترام کرتے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دسواں شبہہ
مقلدین کا دسواں اعتراض ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور بانی فرقہ منکرینِ حدیث محمد عمر چکڑالوی غیر مقلد تھے اور یہ تقلید چھوڑنے کا نتیجہ تھا۔
جواب: ابو بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور خیرالقرون کے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور مجتہدین بھی تو غیر مقلد تھے وہ تو کتاب و سنت کے تابع تھے اور تقلید سے براءت کا اعلان کرتے تھے۔
غلام احمد قادیانی حنفی المذہب تھے کیونکہ ان کا بیٹا شبیر احمد قادیانی "سیرت مہدی: ج2ص29 میں لکھتا ہے کہ میرے والد صاحب نے کبھی اہل حدیث ہونے کا دعوی نہیں کیا"۔ اسی طرح " تحریک احمدیت " کا مصنف محمد علی مرزا لکھتا ہے " کہ حضرت مرزا صاحب ابتداء سے آخری زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب تھے"۔(تحریک احمدیت: ج1ص11، ضرب شدید:ص11۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک آدمی حق کو قبول کرتا ہے اور دوسرا نام میں یا کسی کام میں اس کے مشابہ ہو تو اس سے حق والے کی حقانیت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ یعنی موحدین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور دہریہ بھی غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے تو کیا اس سے موحدین کی توحید میں نقصان آتا ہے؟ نہیں۔
موحدین اپنی جگہ توحید پرست ہیں اور دہریہ اپنی جگہ الحاد اور دہریت کی دلدل میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی اور باتیں جو لغو اور عبث کے زمرے میں آتی ہیں مقلدین اپنی کتابوں میں لکھے چلے جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گیارھواں شبہہ
یہ اعتراض مقلدین نے اکثر اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ ، امام شوکانی رحمہ اللہ، صدیق حسن خان رحمہ اللہ، ثنا اللہ رحمہ اللہ اور وحید الزمان رحمہ اللہ تمہارے بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں اور غیر مقلد بھی تھے۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں بہت سارے غلط مسائل لکھے ہیں اور تم ان کی کتابوں سے بطور حجت حوالے بھی پیش کرتے ہوا س کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان کے مقلد ہو۔(الکلام المفید سرفراز صفدرص:172)
جواب: ہماری دعوت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر قیامت تک کے ہر انسان کی بات اگر قرآن وحدیث کے موافق ہو تو قبول کرنا چاہیئے اور اگر کسی صحابی یا کسی عالم کی بات کتاب وسنت کے منافی ہو تو اس کو رد کردیا جائے۔ ان کا ذاتی احترام اور اکرام تو اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن ان کی باتوں کو قرآن وحدیث کے ترازو میں ضرور تولا جائے گا جبکہ احناف کا طریقہ یہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ ، شیخ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء کی باتوں کو نہ صرف بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں بلکہ قبیح الفاظ سے ان کے کردار کو داغدار بھی کرتے ہیں۔ نہ ان کو علمائے دین مانتے ہیں اور نہ مجتہدین۔ مقلدین نے یہ سوچے بغیر کہ بتقاضائے بشریت ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ان کو اپنی تنقید کا تختہ مشق بنایا جبکہ علماء اہلحدیث کے خلاف بدزبانی حنفی مکتب فکر کا پسندیدہ موضوع ہے۔
تو یہ ہے ان اعتراضات کا معتبر جواب جو مقلدین اہلحدیث علماء کی کتابوں سے اخذ کرتے ہیں اور غلطی کر جاتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ مقلدین اکثر مسائل کو سمجھتے نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ان مسائل کو رد کر دیتے ہیں۔
بقول شاعر:
وكم من عائبِِ قولا صحيحاََ
وآفته من الفهم السقيم

قول صحیح میں عیب نکالنا پراگندہ سوچ کی علامت ہے۔
اصل میں یہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ حنفی مقلدین پر وارد ہوتا ہے جن کی فقہ کتاب وسنت کی مخالف سے پُر ہے جس میں شرم و حیاء کی حدوں کو پھلانگا گیا ہے۔ بجائے اس کے کہ احناف ان غلط مسائل کی تردید کریں اس کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ہر ذی شعور آدمی سمجھ سکتا ہے کہ احناف قرآن وحدیث کی تابعداری کا علی الاعلان جو دعویٰ کرتے ہیں اس پس منظر میں اس دعوے کا کیا مطلب اور کیا حقیقت ہے؟ زبانی دعووں اور عمل میں تضاد منافقت کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بارھواں شبہہ
اکثر مقلدین اپنی کتابوں میں قرآن وحدیث کی روشنی میں غیر مقلدین سے چند مسائل کا جواب طلب کرتے ہیں:
1- پہلا سوال یہ ہے کہ نماز میں "سبحانك اللھم"کی جگہ "التحيات لله"کو پڑھ لیا جائے تو نماز کو دہرایا جائے گا یا سجدہ سہو کیا جائے گا؟۔
جواب: مذکورہ سوالات مندرجہ ذیل چند وجوہات کی بنا پر قطعاََ غلط ہیں:
1-پہلی وجہ یہ ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کتاب وسنت میں نہ تو تمام دینی مسائل کے حل کے قائل ہیں اور نہ ہی شریعت محمدیہ کو مکمل ضابطہ حیات ماننے کے لیے تیار ہیں؟ ورنہ وہ ایسے احمقانہ سوالات نہ کرتے۔ یہ عقیدہ سراسر قرآن مجید کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ) کہ دین اسلام کو تکمیل واتمام کے ہر مرحلے سے بڑی کامیابی کے ساتھ رو بصحت گزرا گیا ہے۔ لیکن احناف اس کے باوجود اسلام کو ناقص تصور کرتے ہیں۔ ان کی بیمار سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ بعض مقلدین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ " نصوص سے (قرآن وحدیث کے دلائل سے) دین کا دسواں حصہ بھی ثابت نہیں ہوتا" ممکن ہے قرآن وحدیث کے بارے میں یہ خیال احناف کا بھی ہو کیونکہ ایک متعصب اور متشدد و مقلد کی حیثیت سے اُن سے ایسی باتیں ہونا بعید بھی نہیں ہے۔ قرآن وحدیث کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟ یہ سوال ہم احناف سے کرتے ہیں۔
2- دوسری وجہ یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث میں یہ مسائل نہیں ہیں تو مقلدین نے یہ مسائل کہاں سے ڈھونڈ نکالے۔
اگر ان کے علماء نے قرآن وحدث سے ہٹ کر اپنی طرف سے بنائے ہیں تو یہ بدعت ہوئی اور بدعت سے ہر مسلمان بے زاری کا اعلان کرتا ہے۔ اور اگر یہ مسائل خود ساختہ نہیں بلکہ کتاب و سنت سے مستنبط ہیں تو ہمیں اُن پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ قرآن وحدیث ہمارا منشور ہے اور ہم اس کے تابعدار ہیں۔
رزقنا الله ذلك۔ اللہ تعالی نے ہی ہمیں کتاب وسنت کا مزہ چکھایا ہے۔
علاوہ : ازیں ہم کہتے ہیں کہ مقلدین امام ابو حنیفہ سے یہ مسئلہ سند کے ساتھ ثابت کریں کہ اس نے کہا ہو کہ تکبیر افتتاح کے بعد "سبحانك اللھم"کہنا فرض ہے یا واجب ہے یا سنت ہے۔ ہم مقلدین کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ امام ابوحنیفہ سے دو رکعت نماز تو ثابت کریں۔ اگر وہ کہیں کہ فقہاء کی کتابوں میں ہے اور امام صاحب نے نہیں کہا۔ تو پھر یہ تو متاخرین کا کمال ہوا اور دعویٰ امام ابوحنیفہ کی تقلید کا ہے۔ ان دونوں میں کتنا فرق ہے۔ ذرا سوچا کرو!۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر ان سوالات کے جوابات مقلدین کو نہیں آتے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ کسی اور عالم کو بھی معلوم نہ ہوں۔
"بفضل الله تعالي" ہم ان مسائل کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں نکالنے کے اہل ہیں جن کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ ان کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔ "بتوفيق الله تعالى وعونه لاحول ولا قوة الا بالله، سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا انك انت العليم الحكيم" کوئی ہماری نیت پر خود نمائی کا شک نہ کرے۔
یہ بات محض اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم جیسا ادنیٰ طالب علم اس کو حل کر سکتا ہے تو بڑے علماء کرام تو بدرجہ اولٰی اس کو حل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
دین میں ایسے مسائل بھی ہیں جن کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس سے ہر مسلمان کو دست بردار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بڑی گمراہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ مسائل جن کے بارے میں عام طور پر تقلید کے حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ان کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔ ایسے چند مسائل کا حل کتاب وسنت سے پیشِ خدمت ہے۔
(1)۔ نماز میں "سبحانك اللھم" پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور یہی اس کا حکم بھی ہے کہ اس کو اپنی جگہ نماز میں پڑھا جائے۔ اس کی فرضیت اور وجوب کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ طریقہ نہیں تھا ( اور نہ اسلام نے ہمیں اس چیز کا مکلّف ٹھہرایا ہے) بلکہ وہ نبی علیہ السلام کے عمل کے بارے میں صرف اتنا پوچھتے تھے کہ آپ علیہ السلام نے یہ کام کیا ہے یا نہیں کیا ہے؟۔ اگر جواب ہاں میں ملتا تو عمل شروع کرتے اور اگر نفی میں جواب ملتا تو اس کو نہ صرف اپنانے سے گریز کرتے بلکہ اگر اپنایا ہوا ہوتا تو چھوڑ دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرض اور واجب کے چکر میں پڑ کر لوگ بے عمل ہو گئے۔ جس طرح کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے "الانصاف:ص3" پر اسکی طرف اشارہ کیا ہے:
ہمیں اللہ تعالی نے "سبحانك اللھم"کا حکم معلوم کرنے کا مکلّف نہیں ٹھہرایا ہے، ہمارے لیے تو یہی کافی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ لیکن مقلد کے لیے اتنا کافی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا جہالت زدہ ذہن کسی اور چیز کا مطالبہ کرتا ہے۔
(2)- دوسرا سوال یہ ہے کہ نماز میں اگر کوئی "سبحانك اللھم" کی جگہ "التحيات لله"پڑھ لے تو یہ نماز دہرائی جائی گی یا سجدہ سہو کیا جائے گا؟۔
جواب: اس کا آسان اور عام فہم جواب یہ ہے کہ سجدہ سہو کرنا چاہیے کیونکہ نبی علیہ السلام نے فرمایا : (فمن زاد او نقص فليسجد سجدتين) ۔ مسلم:ج1ص212۔
نماز میں ہر کمی اور زیادتی کے عوض دو سجدہ سہو کرنا ہے۔
(3)- امام " بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو سرَّاََ یعنی آہستہ پڑھے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہراََ نماز کو " الحمد للہ" سے شروع کرتے تھے۔ جس طرح کہ انس بن مالک رحمہ اللہ کی روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آتی ہے۔ دیکھئے مشکوۃ:ج1ص79۔
اور مقتدی بھی " بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھے گا کیونکہ سورۃ فاتحہ اس کے لیے بھی پڑھنا ضروری ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سورت کی شروع میں بسم اللہ پڑھتے تھے۔ دیکھئے مسلم:ج1ص172۔
(4)- جو مسلمان نماز میں رفع الدین نہ کرے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟۔
جواب: جس کو معلوم ہو کہ یہ عمل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس کے باوجود وہ اس سے نفرت کرتا ہے اور نماز میں نہیں کرتا اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اور سنت سے نفرت کی وجہ سے وہ مجرم قرار پائے گا اور کوئی نماز قبول نہیں ہو گی۔ لیکن جو شخص نبی علیہ السلام سے رفع الیدین کے ثبوت کو نہ جانتا ہو اور لا علمی کی وجہ سے اس کو ترک کرتا ہو اس کی نماز قابلِ قبول ہے۔ کیونکہ وہ اس کے حکم سے بے خبر ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام لا علمی میں کسی عمل کے ترک کرنے والے پر گرفت نہیں کرتے تھے۔
حدیث عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ اور حدیث ابی ذر رضی اللہ عنہ اس کی بیّن دلیل ہیں اور جس کو رفع الیدین معلوم ہو اس کو نبی علیہ السلام کی مستقل سنت بھی مانتا ہو اس کے باوجود اس کو ترک کرتا ہو تو وہ خلاف سنت عمل کرتا ہے اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ کیونکہ نبی علیہ السلام کی سنت کی دو قسمیں ہیں، 1-فعلی 2-قولی امری۔ قولی امری پر عمل کرنا ضروری ہے جبکہ فعلی پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے اس کو کرنا باعث ثواب اور بہتر ہے۔ اس پر دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے: فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ سورۃ النور۔
جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے۔ پس امر وجوب کے لیے ہے جبکہ فعل وجوب کا تقاضہ نہیں کرتا۔ اسی طرح مقلدین کے اور بھی کئی مسائل ہیں جن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حل قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا حل قرآن وحدیث میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔ مقلدین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ یہ مسائل ہمارے اماموں نے فقہی انداز سے حل کیے ہیں لہذا ان کی تقلید ہر ایک پر فرض ہے لیکن یہ مقلدین ہی کو مبارک ہو۔
مقلدین کے امام جس کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے تھے آج وہی کتاب وسنت ہمارے پاس بھی موجود ہے بلکہ احادیث رسول صلی اللہ علی وسلم ان کی بہ نسبت ہم تک زیادہ پہنچی ہیں۔ بہت سی ایسی حدیثین موجود ہیں جن سے وہ مطلع نہیں ہو سکے تھے۔ مثال کے طور پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ شوال کے چھ روزوں کو بدعت سمجھتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ ہمیں اس بارے کوئی حدیث نہیں ملی (موطا:206)
لیکن الحمد للہ ہم تک صحیح مسلم کی حدیث پہنچی ہے جس میں شوال کے چھ روزوں کے اجر کا ذکر ہے۔ (مسلم: ج1ص329، مشکوۃ: ج1ص179)
اسی طرح امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ امام" ربنا لك الحمد" پڑھے گا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں، امام " ربنا لك الحمد" نہیں پڑھے گا اور آگے فرماتے ہیں کہ: ہمیں اس بارے کوئی حدیث نہیں ملی۔ (مسند الامام اعظم ص21)
حالانکہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی علیہ السلام باجماعت نماز میں " ربنا لك الحمد" پڑھتے تھے۔ (مشکوۃ: ج1ص172:113)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء کو ساری حدیثیں نہیں ملی تھی بہت سی حدیثیں ان پر مخفی رہ گئی تھی۔ ان چند مثالوں کو نمونہ سمجھئے کیونکہ یہ ہم اپنے حافظے سے تحریر کر رہے ہیں۔ اگر ہم اس قسم کی مثالیں تلاش کرنا شروع کر دیں تو سینکڑوں مثالیں سامنے آجائیں گی۔ ان شاء اللہ!۔ ( اس کے لیے دیکھیں ہماری کتاب: "احناف اور خلفاء راشدیں" اور "تناقضات المقلدین")۔
قارئین محترم: قرآن وحدیث کو ناقص نہیں سمجھنا چاہیے اور تقلید کی بجائے ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے قرآن کریم کو پسِ پُشت ڈالنے والوں کی شکایت اگر نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے قیامت کے دن کر دی اور اللہ تعالی نے پوچھ لیا تو جواب کیا ہو گا؟۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیرھواں شبہہ
حنفیہ کا تیرھواں شبہہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی ہیں جن سے حدیثِ ثنائی مروی ہے۔ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو واسطے ہیں اور فقہ حنفی حدیثِ ثنائی پر مبنی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی سب سے بہتر اور معتبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔ (مقدمہ درس بخاری شریف للشیخ زکریا)
جواب: امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ تابعی ہیں لیکن "من حيث الروية لا من حيث الرواية" یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایسے تابعی ہیں جنہوں نے صغرِ سنی (بچپن) میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہے لیکن ان سے روایت نقل نہیں کر سکے ہیں۔ (کتب اسماء الرجال)
دوسری بات یہ ہے کہ تابعین اور بھی تو بہت سارے ہیں اویس قرنی رحمہ اللہ زبانِ رسالت سے "افضل التابعین" کا خطاب پا چکے ہیں۔ سعید بن المسیب "اعلم التابعین" کہلاتے ہیں، ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ فقہ حنفی حدیث ثنائی پر مبنی ہے تو اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ مقلدین ہمیشہ خیالات اور اوہام کی ایسی وادی میں مگن رہتے ہیں جس میں مقلد کے لیے حقائق کی تسکین آمیز مہک سے روح آفزائی کا تصور محال ہے۔ مقلد میں تحقیق کے مادے کا یکسر فقدان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بغیر سوچے سمجھے تسلیم کر لیتا ہے۔ اگر یقینا امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ سے حدیثِ ثنائی مروی ہے تو ہم حنفی مقلدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حدیث ثنائی ہمیں بھی دکھا دیں کیونکہ ہم بھی اس کو دیدہ اشتیاق سے دیکھنے کے خواہشمند ہیں لیکن۔۔۔حنفی مقلدین کو مایوسی ہو گی کیونکہ ذخیرہ کتب میں ایسی کسی حدیث کا وجود یکسر معدوم ہے۔
اگر احناف کہیں کہ امام صاحب احادیثِ ثنائیہ کو سینے میں چھپائے اس جہاں سے جا چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احناف کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے یا تو امام صاحب کے شاگرد ہیں (چونکہ امام صاحب کو فوت ہوئے ساڑھے بارہ سو سال کا لمبا زمانہ بیت گیا ہے اس لیے آج کے حنفی مقلدین کا امام صاحب کا شاگرد ہونا ممکن نہیں) یا عالم الغیب ہیں۔۔۔ اور کچھ نہیں تو اوہام پرست ضرور ہیں۔ حنفی مقلدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ امام صاحب کا کتب خانہ جلا دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ احناف اُس دین پر کاربند ہیں جس کو آج سے سینکڑوں سال پہلے جلایا جا چکا ہے۔ (واعجباََ)۔
کیا پُر از خرافات اور اخلاقیات کے منافی فقہ احادیثِ ثنائیہ پر مبنی ہے؟ کیا یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے؟ کہ جس کا ذکر بڑا ہو وہ جماعت کرانے کا حق رکھتا ہے۔ کیا یہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہبہ دیکر واپس لیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بھی حدیث ثنائی کا متن ہے؟ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تعصب اور سیلِ باطل کی رد میں مقلدین اس قدر بہہ چکے ہیں کہ اب ان کے دل میں نہ شرم خلق باقی رہی اور نہ خوفِ الٰہی۔
احناف نے دین کو اوہام کا تابع بنا کر رکھ دیا ہے، اور یہ انسان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب سے کوئی ثنائی روایت منقول نہیں ہے۔ اور جو (مسانید) کتابیں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اس میں ایسی کوئی حدیث نہیں کہ وہ صحیح، متصل اور ثنائی ہو۔
ہمارے پاس یہ مسانید موجود ہیں مطالعہ کے بعد ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں ملی کہ وہ صحیح و متصل ثنائی ہو۔ تو احناف کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ فقہ حنفی حدیثِ ثنائی پر مبنی ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ "حجۃ اللہ البالغۃ" میں باب طبقات کتب الحدیث میں مسند خوارزمی کو جو "مسند الامام الاعظم" کے نام سے مشہور ہے چوتھے طبقے میں کرتے ہیں۔ (ص 133) اور فرماتے ہیں:
"اما الطبقة الاولى والثانية فعليھما اعتماد المحدثين وحول حماھما مرتعھم ومسرحھم ثم قال: واما الرابعة فالاشتغال بحمعھا والاستنباط منھا نوع تعمق من المتاخرين وان شئت الحق فطوائف المبتدعين من الرافضة والمعتزلة وغيرھم يتمكنون بادنى عناية أن يلخصوا منھا شواھد مذاھبھم فالاقتصار بھا غير صحيح في معارك العلماءِ بالحديث۔
فرماتے ہیں:
کتبِ حدیث کے بھی متعدد طبقات ہیں۔ اول طبقے میں بخاری، مسلم اور موطا وغیرہ ہیں۔ پہلے اور دوسرے طبقے پر محدثین رحمہم اللہ کا اعتماد ہے۔ اسکے بعد فرماتے ہیں: کہ چوتھے طبقے پر مشغول ہونا اور اس سے استنباط کرنا متاخرین کا تعمق ہے۔ اکثر مبتدعین اس چوتھے طبقے سے اپنے غلط مذہب کے دفاع کے لیے دلائل کا اہتمام کرتے ہیں ۔ علماء بالحدیث کے معرکوں میں چوتھے طبقے کی کتب پر اکتفاء کرنا درست نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ چوتھے طبقے کی روایات اس وقت تک اکیلی دلیل نہیں بن سکتیں جب تک کتب صحیحہ سے اسکی تائید نہ ملے۔
شاہ ولی اللہ، امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب "كتاب الآثار" اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی "امالی" کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وان شئت الحق الصريح فقس كتاب الموطا بكتاب الآثار لمحمد والأمالي لابي يوسف تجد بينه وبينھما بعد المشرقين فھل سمعت احدا من المحدثين والفقھاء تعرض لھما واعتنى بھما" (حجة الله البالغة :۱۳۴)
فرماتے ہیں:
اگر صریح حق کے طالب ہو تو امام مالک رحمہ اللہ کی "موطاء" کے ساتھ امام محمد کی "کتاب الآثار" اور امام ابو یوسف کی "امالی" کا مقایسہ کر کے دیکھو ان کے باہمی تقابل سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان میں مشرق سے مغرب تک کی دوری پائی جاتی ہے۔ کیا کبھی تمہیں یہ سننے کا اتفاق بھی ہوا ہے کہ کسی محدث یا کسی عالم نے امالی اور کتاب الآثار کی طرف (-یہاں پر الفاظ ناقابل فہم ہیں-) یا ان کا اہتمام کیا ہو؟ اسی پس منظر میں سوچنا چاہیے کہ اس صورت حال کے باوجود فقہ حنفی حدیثِ ثنائی پر کیسے مبنی ہو سکتی ہے؟۔
اگر یہ بات حنفی طلباء کو بتائی جائے تو اس سے وہ بیچارے تو دھوکہ کھا سکتے ہیں لیکن اُمت کے علماء کو تو اس سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
امام محمد رحمہ اللہ کی "کتاب الآثار" کا ہم نے بفضل اللہ تعالی غور سے مطالعہ کیا ہے جس کی حالتِ زار یہ ہے کہ اسمیں کل 1067 روایات ہیں جن میں سے صرف 182روایات مرفوع ہیں۔ 33 روایات اس طرح ہیں (عن ابراھيم النخعي عن رسول الله۔۔)۔ 455 اس میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اقوال ہیں۔ کچھ حماد رحمہ اللہ کے اقوال ہیں۔ اور بعض روایات اسطرح ہیں (عن الحسن البصري عن رسول الله ۔۔۔) غرض کہ پوری کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس سے صحیح استدلال کیا جا سکے۔ اسی طرح امام ابو یوسف کی "امالی" کل 916 روایات پر مشتمل ہے جس میں اکثر روایات مقطوع، موقوف اور مرسل ہیں صرف چند روایات مرفوع ہیں۔ (اگر کسی کو شک ہو تو خود ملاحظہ کیجئے)۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ابوحنیفہ صاحب پر جرح
پھر دوسری بات یہ ہے کہ اصطلاحات المحدثین کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی روایات ضعیف ہیں کیونکہ محدثین نے ان پر جرح کی ہے۔
یہ جرح ہم یہاں نقل کررہے ہیں لیکن اپنی طرف سے نہیں بلکہ علماء جرح و تعدیل کی کتابوں سے۔
(1)۔ قال الامام البخاري في التاريخ الكبير (۸۱/۳) (سكتواعنه) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
علامہ ابن کثیر مختصر علوم الحدیث ص 118 پر فرماتے ہیں :اذا قال البخاري في الرجل : سكتوا عنه او فيه نظر، فانه في ادنى المنازل واردئھا عنده) جب امام بخاری رحمہ اللہ کسی کے بارے میں کہہ دیں کہ :"سكتوا عنه يا فيه نظر" تو وہ انکے نزدیک سب سے ادنیٰ راوی ہوتا ہے۔ الرفع والتكميل ص۱۸۲۔
یہ جرح مفسرہ ہے کیونکہ مسائل المروزی میں آتا ہے (قلت متى يترك حديث الرجل؟ قال: اذا كان الغالب عليه الخطاََ۔)
فرماتے ہیں: کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ راوی کی روایت کب ترک کی جائے گی؟ انہوں نے فرمایا: جب اس کی صحت پر خطاء غالب آجائے۔
(2)۔ وقال الامام مسلم في الكنى والاسماء ،ص(۳۱) مضطرب الحديث ليس له كبير حديث صحيح۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مضطرب الحدیث ہے اس کے پاس صحیح حدیث کا کوئی ذخیرہ نہیں ہے۔
(3)۔ امام نسائی فرماتے ہیں: "ليس بالقوي في الحديث وھو كثير الغلط على قلة روايته (كتاب الضعفاء والمتروكين: ۵۸)۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم حدیث میں قوی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے قلت روایت کے باوجود اکثر احادیث میں غلطیاں ہوئی ہیں۔
(4)۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "له أحاديث صالحة و عامة ما يرويه غلط و تصاحيف و زيادات في أسانيدها و متونها و تصاحيف في الرجال و عامة ما يرويه كذلك و لم يصح له في جميع ما يرويه إلا بضعة عشر حديثا و قد روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمائة حديث من مشاهير و غرائب و كله على هذه الصورة لأنه ليس هو من أهل الحديث و لا يحمل عمن يكون هذه صورته في الحديث" الكامل لابن عدي (ص 403 / ج2 )
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے صحیح احادیث بھی مروی ہیں لیکن عام طور پر آپ سے جو حدیثیں روایت کی جاتی ہیں وہ غلط ہیں ان کی سندوں اور متنوں میں تصاحیف (غلطیاں) اور زیادات ہیں۔ اس طرح ان کے رجال میں اور عام روایتوں میں بھی تصاحیف موجود ہیں۔ ان سے جتنی بھی روایتیں مروی ہیں ان میں سے چند (سترہ17) روایتوں کے علاوہ باقی تمام ضعیف ہیں۔ غالباََ ایک راجح قول کے مطابق آپ سے تقریباََ تین سو (300) حدیثیں مروی ہیں جن میں مشاہیر اور غرائب موجود ہیں۔ ان کی تقریباََ تمام روایتوں کی یہی حالت ہے کیونکہ وہ اہل الحدیث میں سے نہیں تھے اور جس کی ایسی حالت ہو اس سے حدیث نہیں لی جاتی۔
(5)۔ ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "كان ضعيفاََ في الحديث" ۔ الطبقات:ج6ص256۔ کہ امام ابوحنیفہ حدیث میں کمزور تھے۔
(6)۔ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ میں نے اپنے والد احمد رحمہ اللہ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث ضعیف ہے۔
(7)۔ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی صحیح سند کے ساتھ ابن مبارک رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے" كان ابوحنيفه مسكيناََ في الحديث" کہ امام ابوحنیفہ حدیث کی دولت سے محروم تھے۔
(8)۔ وقال الدارقطني في سننه ،ج1ص223۔ ولم يسنده عن موسى بن ابي عائشة غير ابي حنيفة والحسن بن عمارة وھما ضعيفان۔ اس کو موسیٰ بن ابی عائشہ رحمہ اللہ سے صرف ابوحنیفہ اور حسن بن عمارہ نے روایت کیا ہے جبکہ یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔
(9)۔ وذكره الحاكم في معرفة علوم الحديث ص256۔ ثم قال: فجميع من ذكرنا هم قوم قد اشتھروا بالرواية ولم يعدوا في طبقة المتقنين الحفاظ"
امام حاکم معرفۃ علوم الحدیث میں امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کے تذکرے کے بعد فرماتے ہیں: کہ جن کے بارے میں ہم نے بحث کی وہ اگرچہ روایت کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں لیکن ان کا شمار مضبوط حفاظ کے طبقے میں نہیں ہوتا۔
(10)۔ عبدلالحق اشبیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ولا يحتج بابي حنيفة لضعفه في الحديث۔ الاحكام الكبرى : ج2ص17۔
ضعف فی الحدیث کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث دلیل نہیں بن سکتی۔
(11)۔ وقال الذھبي في "الضعفاء" النعمان الامام رحمة الله عليه قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث كثير الغلط والخطاء على قلة روايته وقال ابن معين : لايكتب حديثه۔ السلسة:ج14ص465۔
امام ذہبی رحمہ اللہ "الضعفاء" میں فرماتے ہیں: کہ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نعمان بن ثابت رحمہ اللہ (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) کی روایتوں میں تصحیف، زیادات اور غلطیاں ہیں جبکہ چند روایات قدرے بہتر ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں غلطیاں کر گئے ہیں۔ ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ ان کی حدیث لکھی نہیں جائیگی۔
(12)۔ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اپنی "مصنف" میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر رد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: اس کتاب الردعلی ابی حنیفہ میں تردید کا مرکز امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے۔ (ص:148ج14)۔
اسی طرح ابو نعیم نے بھی ان پر رد کیا ہے۔ (الحلیۃ:ج3ص11،197)
عبداللہ بن امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ان پر رد کیا ہے۔ (کتاب السنۃ:ج1ص180)۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی رد کیا ہے۔ (تاریخ بغداد:ج13)
معلّمی نے بھی ان پر رد کیا ہے۔(التنکیل: ج1ص18)، عمدۃ الرعایہ:ص34۔
امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں : کہ امام ابوحنیفہ رحمہ کی رائے کا انکار بھی کیا گیا ہے۔ (کما فی التمھید)
ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی "تاويل مختلف الحدیث" میں ص37۔39 میں لکھا ہے۔
كان الامام الاوزاعي يقول: لاننقم على ابي حنيفة انه راى كلنا يرى ولكنا ننقم عليه انه يجيئه الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم فيخالفه الى غيره۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر اس لیے رد نہیں کرتے کہ وہ رائے سے کام لیتے ہیں کیونکہ رائے ہم بھی قائم کرتے ہیں بلکہ ہم ان پر اس لیے رد کرتے ہیں کہ جب ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آتی ہے تو ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
عمدۃ الرعایۃ میں شیخ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک قول کے مطابق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کل سترہ سو (1700) روایتیں ہیں۔
مذکورہ جرح کی روشنی میں اس قول کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔
مذکورہ بالا بحث کا ماحصل یہ ہے کہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ صادق بھی ہے اور فقیہ بھی۔
لیکن مذکورہ محدثین کے نزدیک احادیث کے اعتبار سے قوی نہیں ہیں۔ اور یہ کوئی بے ادبی بھی نہیں ہے کیونکہ بہت سے نیک اور صلاحیت اور صالحیت کے حامل راوی سیئ الحفظ اور کثیر الخطاء ہوتے ہیں۔ جیسا کہ جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر کی جانے والی جرح اکثر مقلدین پر گراں گزرتی ہے لیکن عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور غلو فی الصالحین سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ شرک کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مقلدین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فضیلت میں حدیثیں وضع کی ہیں جس طرح کہ فتاوی برہنہ :ج2ص184 میں لکھا ہوا ہے کہ نعمان بن ثابت کا تذکرہ تورات میں بھی ہے۔ معراض میں بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ موضوع بحث رہے تھے۔ اور نبی علیہ السلام نے امام صاحب کے بارے پیش گوئی بھی کی تھی۔
قارئین کرام! امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اُمت کے ایک عالم ہیں۔ دیگر علماء کے مقابلے میں اس کی عزت و عظمت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن ان کی عظمت کا محل اتنا بھی بلند نہیں کہ نبوت کے قصرِ رفیع سے بھی بالاتر نظر آئے۔ ترفیعِ شان کا یہ انداز کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا اور نہ ان کی شان میں گستاخی کا یہ انداز کسی مسلمان کے شایانِ شان ہے کہ وہ امام صاحب رحمہ اللہ سے بُری نسبتوں کا ناطہ جوڑے۔ جس طرح کہ بعض متشددین نے ان کی طرف کفروارتداد کی نسبت کی ناپاک اور مذموم جسارت کی ہے۔
تاریخ بغداد اور عقیلی کی "ضعفاء کبیر"اور عبداللہ بن احمد رحمہ الہ کی "کتاب السنۃ" میں یہ نسبتیں موجود ہیں۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ فقہ حنفی حدیث ثنائیہ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کے اکثر مسائل قرآن وحدیث کے مخالف ہیں باوجودیکہ اس میں بڑی تعداد میں مسائل کتاب وسنت کے موافق بھی ہیں۔ فقہ کے تمام مسائل کو پرکھنے کا واحد معیار اور ذریعہ کتاب وسنت ہے اس ترازو میں معیارِ صحت پر پورا اترنے والا ہر مسئلہ ہر مسلمان کے سر آنکھوں پر اسکے علاوہ ہر مسئلے کو ترک کردیا جائےگا۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چودھواں شبہہ
بعض مقلدین کہتے ہیں : قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿١٠﴾۔ سورة الملك
کاش ہم سنتے یا ہماری عقل ہوتی تو آج جہنم میں نہ ہوتے۔
اس سے مقلدین تقلید ثابت کرنا چاہتے ہیں"نَسْمَعُ" یعنی ہم مقلدین ہوتے"نعقل" یا مجتہدین ہوتے۔
جواب: قرآن مجید کا یہ مفہوم بیان کرنا قرآن مجید میں تحریف معنوی اور اللہ تعالی پر صریح جھوٹ ہے۔ یہ ہے تقلید کا وہ نقصان کہ مقلد قرآن مجید میں تحریف کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
جہنم میں تقلید کرنے کا افسوس ہوگا:
اہل جہنم کبھی بھی ایسی تمنا نہیں کریں گے، "لو كنا نسمع آراء الرجال وخيالاتھم" کاش ہم علماء اور اماموں کے خیالات سنتے۔ نعقل" یا خود مجتہد بن کر دین میں نئے مسائل ایجاد کرتے۔ اہل جہنم تو اپنے باپ دادا کی تقلید کرتے تھے ان کے طریقہ کار اور خیالات کےپابند تھے اور اپنی عقل کے غلام تھے اس لیے جہنم میں پہنچے۔ یہ آیت تقلید کے رد پر دلالت کرتی ہے۔
اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ جہنمی یہ افسوس کریں گے کہ کاش ہم کتاب وسنت کی باتیں سنتے یا اس پر سنجیدگی سے غور کرتے تو آج جہنم میں نہ ہوتے۔ اللہ تعالی نے دوسرے مقام پر جہنمیوں کا قول یوں بیان کیا ہے: وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿٦٧۔ سورة الأحزاب۔
جہنمی کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہنا مانا تو انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ مطلب یہ ہے کہ جہنم میں کسی کو تقلید نہ کرنے کا افسوس نہیں ہوگا بلکہ تقلید کرنے پر افسوس کریگا۔
مقلدین کو چاہیے کہ قرآن مجید کا غلط مطلب بیان کر کے اپنی عاقبت برباد نہ کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہھم اللہ، اور تبع تابعین رحمہھم اللہ بھی تو غیر مقلد تھے، تو کیا ان پر آپ نعوذ باللہ جہنمی ہونے کا فتوی لگانا پسند کریں گے؟ ایسی باتیں کرتے ہوئے مقلدین کو کم ازکم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا خوف ہونا چاہیے۔ جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین رحمہھم اللہ کو مقلد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین رحمہھم اللہ پر صریح بہتان لگانے کا ارتکاب کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام میں کوئی ایسا صحابی نہیں ہے کہ جس نے کسی ایک عالم کو اپنا امام فی الدین سمجھ لیا ہو۔ قرآن وحدیث میں تحریف کی ہو اور کسی امام کے مذہب کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہو۔ درحقیقت یہ طریقہ صرف آج کے مقلدین ہی کا خاصہ ہے کیونکہ یہ قرآن وحدیث میں تحریف معنوی و لفظی کر کے اپنے مذہب کا دفاع کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اس کو تقلید ممدوح کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ تقلید ہمیشہ شرک کے لیے پہلا زینہ ثابت ہوئی ہے۔ اس کے باوجود "اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" کے مصداق ہمیں ملحد اور بے دین کہتے ہیں۔ تقلید اور جہالت کے مارے ہوئے بدنصیب احناف ہمیں کتاب وسنت کا نافرمان تو کہتے ہیں، لیکن اپنی یہ حالتِ زار اُن کو نظر نہیں آتی کہ سنتِ نبویہ پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود کتاب وسنت پر جان نچھاور کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔
قارئین محترم: تقلیداسلام کی بیخ کنی کرتی ہے، تقلید قرآن وحدیث کی مخالف ہے تقلید علماء اُمت کے احترام کے منافی بھی ہے اور شرک وبدعت کے دلدل کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچانے والی بھی۔۔۔لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس سے اپنے آپ کو بچائے بلکہ اس کی مذمت بھی کرے اور تلاشِ حق میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔
علماء دین کی ذمہ داریاں
آج اگر علماء اُمت کے دلوں میں سنت نبویہ کا احترام موجود ہے تو وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گے کہ جہاں تقلید کو مسترد کرنا ان پر فرض ہے وہاں رداءِ تقلید میں لپٹے ہوئے مقلدین کو اس کی خوفناک گرفت سے آزاد کرنا بھی اُن پر فرض ہوچکا ہے۔ تقلید کے خاتمے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور اسی کا ایمان باللہ والرسول تقاضا بھی کرتا ہے کہ تمام علماء کی باتوں کو قرآن وحدیث پر پیش کیا جائے جو موافق ہوں اس کو قبول کیا جائے اور جو مخالف ہوں اُسے چھوڑ دیا جائے۔
اس مفہوم کو علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے انداز نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے:
ما ذا ترى فرضا عليك معينا
ان كنت ذا عقل و ذا ايمان
عرض الذي قالوا على اقواله
او عكس ذاك فذانك الامران
ھي مفرق الطرقات بين طريقنا
وطريق اھل الزيغ والعدوان

ان اشعار میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ مقلدین سے مخاطب ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ اگر تم ذی عقل اور ذی ایمان ہو تو امامانِ دین کی جن باتوں کو تم نے اپنے اوپر فرضِ عین سمجھ لیا ہے اُن کو احادیثِ رسول پر پیش کردو۔ لیکن اس کے برعکس اگر تم احادیثِ رسول کو اماموں کے اقوال پر پیش کرو گے تو یہ ہمارے اور اہل زیغ و ظلم کے درمیان باہمی فراق ہے۔ کیونکہ ہم احادیثِ رسول کے مقابلے میں کسی امام کے اقوال کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پندرھواں شبہہ
احناف کا پندرھواں شبہہ مندرجہ ذیل اعتراضات اور سوالات پر مشتمل ہے۔
مقلدین کے کچھ اعتراضات اور محققین کے جوابات:
(1)۔ حنفی مذہب تمام مذاہب سے بہتر ہے کیونکہ امام صاحب رحمہ اللہ تابعی تھے۔
جواب: لیکن ہم کہتے ہیں کہ حنفی مقلدین کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ حنفی مذہب تمام مذاہب سے بہتر ہے؟
کیونکہ مقلد بالاتفاق جاہل اور دین کے تمام مسائل کی سمجھ سے ناآشنا ہوتا ہے۔ اور تقلید بھی اس لیے کرتے ہیں کہ خود کو جاہل سمجھتے ہیں (اور حقیقت بھی ایسی ہے) تو پھر مقلد کس طرح یہ معلوم کرسکا کہ ہمارا مذہب سب سے بہتر ہے؟۔ مجتہدین کے اجتہاد کی صحت اور ضعف کو جانچنے کے لیے تو علم کا ہونا ضروری ہے۔
اسی طرح کسی مذہب کی صحت کا صحیح اندازہ بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ تمام مذہب کے دلائل کے علم اور اس میں راجح ومرجوح صحیح اور ضعیف کی تمیز کے فن پر مکمل عبور حاصل نہ ہو۔ رہے مقلدین تو وہ اس فن کی مہارت سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ ایسی صورت میں حنفی مقلدین کا اپنے مذہب کے اصح (صحیح ترین) ہونے کا دعویٰ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر احناف اپنے آپ کو عالم گردانتے ہیں تو پھر خود کو مقلد کہنے کا مطلب کیا ہوا؟۔ یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ کیا مجتہد اور عالم بھی تقلید کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟۔ حدیث کی مخالفت کی وجہ سے ہم حنفی مذہب کی صحت کے قائل نہیں ہیں۔ البتہ بذاتِ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمتِ مقام کے ضرور قائل ہیں کیونکہ آپ رحمہ اللہ تابعی تھے اور خیرالقرون سے آپ کا تعلق تھا اور چونکہ امام صاحب ہر ایک حدیث نقل نہیں کرتے تھے اس لیے اُن تک حدیثیں کم پہنچیں۔ کیونکہ اس باب میں آپ رحمہ اللہ متشدد تھے۔ محمد عمارہ رحمہ اللہ کی "ترغیب وترتیب مقدمہ ص13، نیز ابن قتیبہ کی "تایل مختلف الحدیث" ص37 کے مطابق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اہل الرائے میں سے تھے اس لیے احادیث میں تاویلیں کرتے تھے۔
ابن عبدالبر رحمہ کی "تمہید" اور ابونعیم کی " حلیۃ الاولیاء :ج 3ص11-197 دیکھیئے۔
قارئین محترم : مذہب کونسا بہتر اور کونسا باطل ہے۔ اس حقیقت کی نقاب کشائی صرف کتاب وسنت سے ممکن ہے۔لہذا ہر طالب حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعصب سے مبرّا ہو کر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر مذہب کی حقیقت پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ورنہ مذاہبِ علماء اور قرآن وحدیث کا تقابل کیے بغیر کسی مذہب کی بہتری اور صحت کا دعویٰ جہالت اور نادانی ہی کی عکاسی ہے۔
تلاش حق میں ناکامی کا بڑا سبب تعصب اور عناد ہے لہذا اس کو بالائے طاق رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر حنفی مقلدین کو تعصب پر اصرار ہے تو ہم اس بیماری کا کیا کریں جو ان کے کردار اور سیرت میں جزءِ لاینفک کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جہاں تک امام صاحب رحمہ اللہ کے تابعی ہونے کا تعلق ہے تو وہ تابعی ضرور ہیں۔ ليكن من حيث الرؤية تابعی ہیں نہ کہ من حيث الرواية ،ان کی فضیلت اپنی جگہ لیکن کسی کی فضیلت کا اس کے مسائل کی صحت اور ضعف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی فضیلت ان کے مذہب کی صحت کی ضمانت نہیں دے سکتی۔
 
Top