• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت اور مقلدین کی اقسام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(2)۔ حنفی مذہب کو چالیس رکنی کمیٹی نے باہمی مشورے اور اتفاق سے ترتیب دیا ہے۔ اس لیے یہ بہتر ہے۔
جواب: مقلدین کا یہ دعوی کہ فقہ حنفی کو چالیس رکنی کمیٹی نے باہمی مشورے اور اتفاق سے ترتیب دیا ہے بالکل غلط اور بے جا ہے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین رحمہا اللہ کا آپس میں جزئیات، اصول اور قواعد میں اختلاف اس دعویٰ کے بطلان پر دلالت ہے۔
صاحبین یعنی امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور محمد رحمہ اللہ کا آپس میں اختلاف۔ امام زفر رحمہ اللہ اور حسن بن زیاد رحمہ اللہ کا ایک ہی مسئلے کے بارے میں متضاد بیانی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ فقہ جو احناف کے نزدیک "متفق علیہ " مشہور ہے اس کے بانیان اور مرتبین آپس میں اختلاف کے شکار ہیں۔ اس کے باوجود فقہ کو متفق علیہ قرار دینے کا مطلب یا تو ہمیں دھوکہ دینے کی ناکام کوشش ہے یا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو خود اپنی فقہی کتابیں پڑھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ چالیس رکنی کمیٹی کن افراد پر مشتمل ہے؟ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ سیرت نعمان ص 39 میں لکھتے ہیں کہ افسوس ہمیں اس کمیٹی کے صرف چند ارکان کے نام مل سکے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس چالیس رکنی کمیٹی میں سے جن ارکان کا تعلق ہوا ہے ان ہی میں سے کچھ مجہول، (غیر معلوم الحال افراد) ہیں کچھ جھوٹے ہیں اور کچھ امام صاحب رحمہ اللہ کے مخالف ہیں(داستان ضعیفہ ص37)۔
چوتھی بات یہ ہے کہ کتاب وسنت کی مخالفت میں اگر کوئی بات باہم مشورے طے پاتی ہے تو کیا اس کو دین کا درجہ دیا جائے گا؟ کبھی نہیں۔ اکثر مقامات پر فقہ حنفی کا احادیثِ رسول سے اختلاف ہے۔ ان مقامات کو ردکرنا ہر مسلمان پر فرض ہےبعض حنفی محققین نے اُن مسائل کو رد بھی کیا ہے جن میں احادیثِ رسول سے اختلاف پایا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(3)-حنفیہ کا تیسرا اعتراض یہ کہ ہے امام صاحب رحمہ اللہ کے مذہب میں کونسا مسئلہ ہے جو قرآن وحدیث کے مخالف ہے؟۔
جواب: ہمارا خیال ہے کہ اگر حنفی مذہب کو سامنے رکھ کر قرآن وحدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ فقہ حنفی کی تدوین میں شریعتِ اسلامیہ سے یکسر اغماض برتا گیا ہے۔( کتاب ہذا کے ص نمبر۔۔) پر فقہ حنفی کے ایک سو تیس ایسے مسائل ملاحظہ کیجئے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہیں۔ بعض مقلدین ان سوالات کے جوابات دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر انہیں ہزاروں سال زندگی دی جائے تب بھی ان سوالات کے خاطر خواہ جوابات نہیں دے پائیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے مدّعا کے ثبوت کے لیے صریح قرآن وحدیث پیش کیا ہے جس کا جواب احناف کو اگر عمرِ نوح بھی دی جائے تب بھی پیش نہ کرسکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنفی مذہب میں احادیث کا اتنا فقدان ہے جتنا آٹے میں نمک کا بھی نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر ہمار ا موقف ہے کہ ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے اور اپنے موقف کو قرآن وحدیث کے دلائل سے ثابت کرتے ہیں۔ جبکہ احناف اس موقف کے بطلان کے ٹھوس دلائل دینے سے یکسر قاصر ہیں۔ مخض اختلافِ لفظی کی رٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ اختلافِ لفظی ہے اصل میں ایمان میں کمی اور زیادتی نہیں ہوتی۔ لیکن ان کا یہ موقف بھی باطل ہے کیونکہ یہ نہ صرف وجدان کے خلاف ہے بلکہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔
قرآن مجید کی آیت " ولكن ليطمئن قلبي" میں اعمال مراد نہیں ہیں بلکہ ایمان کی اصل تصدیق مراد ہے۔ اسی طرح شفاعت کی حدیث میں بھی ذرے کے برابر اور دینار کے برابر ایمان کا تذکرہ آیا ہے۔
جواب دلائل سے مزین ہوا کرتا ہے نہ کہ خالی ورق سیاہ کیے جائیں۔ ہماری طرف سے کیے گئے اعتراضات کے جوابات حنفیہ نے بعینہ وہی اعتراضات دُہرادیئے ہیں۔ یعنی دلیل نہ پا کر سوال کو جواب کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر وضوء احناف کے نزدیک نہ عبادتِ مقصودہ ہے اور نہ اس میں نیت فرض ہے۔ حالانکہ یہ موقف حدیث کے بالکل خلاف ہے ( جیسا کہ قرآن مجید کی آیت" وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ " کے بموجب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث " انما الاعمال بالنيات" کے مطابق ہر عمل میں نیت فرض ہے لیکن احناف کے نزدیک وضوء میں نیت فرض نہیں ہے کیونکہ وہ وضوء کو عبادت نہیں سمجھتے۔
میں کہتا ہوں کہ وضوء ایک مستقل عبادت ہے کیونکہ وضوء مومن کی صفت ہے " ولا يحافظ على الوضوء الا مؤمن" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ وضوء کی حفاظت صرف مومن کرتا ہے۔
نیز وضوء عبادت مقصودہ ہو یا غیر مقصودہ اس میں نیت فرض ہے۔ کیونکہ طہارت کو نصف ایمان کہا گیا ہے جو ایک مستقل عبادت ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ جب کپڑے دھونے میں نیت ضروری نہیں ہے تو وضوء میں بھی ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایک عبادت ہوتا ہے اور ایک ترک، دونوں میں فرق ہے،پس عبادت میں نیت فرض ہے نہ کہ ترک میں یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے ہماری کتاب " الحق الصریح شرح مشکوۃ المصابیح" کو رجوع فرمائیں۔
نیز عبادت میں قیاس کو روا رکھنا درست نہیں ہے۔
اس کے علاوہ اہلحدیث علماء نے ثابت کیا ہے کہ پیشانی پر مسح نہیں ہے۔ تو بعض احناف نے قطری بن الفجائۃ کی روایت پیش کی ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
جمعہ کی نماز ہر جگہ ہوتی ہے۔ اپنے موقف کو ہم نے کھل کر حدیث سے ثابت کیا ہے جملہ احادیث میں سے ایک حدیث عمر رضی اللہ عنہ کی یہ ہے کہ " جمعوا حيث ما كنتم"۔ تم جہاں بھی ہو جمعہ کی نماز قائم کرو۔ بعض مقلدین نے اعتراض کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے "اجمعوا" نہیں فرمایا بلکہ "جمعوا" فرمایا ہے۔
جہالت کے مارے ہوئے بدنصیب مقلد سے ہم کیا گلہ کریں جو قوس اور طریقہ کتابت تک نہیں جانتے اور بے جا اعتراضات کرتے چلے جاتے ہیں۔ حق اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو دشمنی اور تعصب وعناد پر قربان کر دیتے ہیں۔ انہیں صرف نبی علیہ السلام کی احادیث کو اپنے مسلکی میزان میں تولنا آتا ہے۔ حالانکہ نبی علیہ السلام کی احادیث مولویوں کی باتوں سے کہیں زیادہ واضح اور بے غبار ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، علماء کرام سے زیادہ اُمت کے خیرخواہ ہیں۔ آپ علیہ السلام کی احادیث سنداََ صحیح منقول اور ثابت ہیں۔ جبکہ مقلدین کے اماموں سے ہر مسئلہ اور ہربات سنداََ صحیح منقول نہیں ہے۔ "فأين تذھبون عن الحق"حق کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہو۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نظم کے انداز میں فرماتے ہیں۔
فالرب رب واحد وكتابه ... حق وفهم الحق منه دان
ورسوله قد أوضح الحق المبين ... بغاية الإيضاح والتبيان
ما ثم منه فوق كل نصيحة ... يحتاج سامعها الى تبيان
والنصح منه فوق كل نصيحة ... والعلم مأخوذ عن الرحمن
فلأي شيء يعدل الباغي الهدى ... عن قوله لولا عمى الخذلان
فالنقل عنه مصدق والقول من ... ذي عصمة ما عندنا قولان
والعكس عند سواه في الأمرين يا ... من يهتدي هل يستوي النقلان

ترجمہ: رب تو صرف ایک ہی رب ہے جس کی کتاب برحق ہے اور اس حق کو سمجھنا ہی سراسر عقلمندی ہے۔
اللہ کے رسول نے حقِ مبین کو واضح سے واضح تر اور بیّن سے بیّن تر بنا دیا ہے۔
عبادتِ حق کو ایسا واضح کر دیا ہے کہ سننے والے کو مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اُس کی خیر خواہی تمام تر خیر خواہیوں سے بالا تر ہے۔ اور اس کا علم رحمٰن سے ماخوذ ہے۔
تو باغی ہدایت سے اعراض کر کے اس قولِ حق سے کیوں منہ موڑتا ہے اگر وہ اندھا بن کر ذلیل نہیں ہوا ہے؟۔
اُس سے منقول ہر بات تصدیق شدہ اور تائید یافتہ ہے۔ اس کی کسی بات میں خطاء کا احتمال نہیں ہے اور ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسری بات نہیں ہے۔
تو اے ہدایت یافتہ! کیا حق اور حق کا متضاد دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟۔
ہم اگر فقہ حنفی پر کوئی اعتراض کرتے ہیں تو الحمدللہ تعصب اور عناد کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ دینی بصیرت کے پیش نظر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسکا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ ہم اس بات کو طول دینا نہیں چاہتے اگر کسی کو جواب دینے کا شوق ہو تو بلا تحمل دے سکتا ہے۔ انصاف پسند علماء سے اس کی حقیقت پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ ہمیشہ حق کے ساتھ باطل کی دعوت بھی مقبول عام ہوئی ہے۔ اللہ تعالی سے سلامتی اور بہتری کی دعا کرتے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(4)- جہاں تک حنفیوں کی اس بات کا تعلق ہے کہ ہمارا مذہب ایک ایسی نہر ہے جس سے پورا کام لیا جاسکتا ہے تو اس کی موجودگی میں دریا کے پاس وضوء کے لیے جانے کی آخر کیا ضرورت ہے۔
یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ اس نہر کے ساتھ آراء، قیاس اور فضول فرضی مسائل کی گندگی بھی مل گئی ہیں جس کی وجہ سے یہ پانی گندہ ہوچکا ہے۔ لہذا صرف اس پر اکتفاء کرنا مناسب اور درست نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دین کے معاملے میں بھی یہ مثال درست نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً"۔ اے ایمان والو! دین میں مکمل طور پر داخل ہوجاؤ۔۔
دینی مسائل کی مثال لباس کی طرح ہے جس کو پورا پہننا پڑتا ہے یہ نہیں کہ قمیص کی صرف ایک آستین پہن لے باقی قمیص کو نہ پہنیں ورنہ ایسا آدمی پاگل اور دیوانہ سمجھا جائے گا۔
قارئین محترم: جب پورا دین فقہ حنفی میں منحصر نہیں ہے تو کیوں لوگوں کو بحرِ علوم سے پھیر کر ایسی باتوں کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(5)- جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ غیر مقلدین کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ تو دعویٰ بھی بغیر دلیل کے ہے۔ کیونکہ ہمارا مذہب قرآن وحدیث ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور صحیح مذہب روئے زمین پر نہیں ہے۔ دیگر مذاہب میں غلط مسائل کی بہتات ہے لیکن کتاب وسنت کے مذہب میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہمارا مذہب عقلِ سلیم اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی دین تھا وہ کسی فقہ یا خاص امام کے تابع نہ تھے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ہم مقلدین کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ قرآن وحدیث میں کوئی غلط مسئلہ ہو تو دکھائیں؟۔
مقلدین کا یہ دعویٰ ہے کہ کتاب وسنت نامکمل دین ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلاں مسئلہ کے بارے میں اگر قرآن وحدیث کا حکم ہو تو دکھاؤ۔
حنفیہ کے کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث میں ان مسائل کا وجود ہی نہیں ہے۔ حالانکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ یہ مکمل دین ہے۔
قارئین محترم: قرآن و حدیث کو ناقص سمجھنے والے یا تو گمراہ ہیں یا کافر ہیں۔
لہذا اپنے آپ کو اس موجب کفر وضلالت عقیدے سے بچائیں۔ کیونکہ قرآن وحدیث ایک مکمل ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور جہاں تک اجتہاد کا سوال ہے تو وہ قیامت تک باقی رہے گا۔ لیکن بعض مقلدین کا خیال ہے کہ اجتہاد چوتھی صدی ہجری میں ائمہ اربعہ کے ساتھ ختم ہوگیا ہے۔ یہ عقیدہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ (دیکھیئے فتاوی الدین الخالص:ج2ص27-24)۔
اسی طرح دیکھیئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب" کتاب الرد علی من اخلد الی الارض وجھل ان الاجتھاد فی کل عصر فرض"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(6)- ہمارے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ ہم نے دین کو دولت کے عوض فروخت کر لیا ہے۔ سراسر بہتان اور الزام تراشی ہے۔
یہی الزام مشرکینِ عرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لگاتے تھے۔ آج کے مشرک بھی مشرکین عرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موحدین پر ایسے الزام لگاتے ہیں۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے کچھ موحد بھائی جہالت اور عناد کی وجہ سے ہمیں ایسا ہی موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ تم نے پیسوں کی خاطر دین کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک بندہ حق کو قبول کر کے باطل تقلید کو چھوڑتا ہے اور کوئی اس کو کچھ مال بھی دیتا ہے تو اس میں کیا نقصان ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے دینار و درہم کے لیے مذہب کو چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ یہ بہتان ہے کیونکہ اس نے مذہب کو نہیں بلکہ تقلید نامی جہالت و بدعت کو چھوڑا ہے جس میں سراسر کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تحریف کی جاتی ہے اور اقوالِ غیر سے اس کا مقابلہ کرایا جاتا ہے۔ خصوصاََ آج جو تقلید مروج ہے وہ سراسر گمراہی، دین میں تحریف اور قرآن وحدیث کا کھلم کھلا مقابلہ ہے۔ اس کو دینی بصیرت کے حامل اور فقہی کتابوں کا مطالعہ رکھنے والے علماء بخوبی جانتے ہیں۔ دراصل اس حقیقت سے وہی لوگ واقف ہیں جو مقلدین کی کتابوں اور شروحات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
ہدایہ، تنظیم الاشتات شرح مشکوۃ، بذل المجھود، خزائن الاسرار، آثارالسنن، عرف الشذی، اعلاء السنن، فتاوی دیوبند، احسن الفتاوی، شامی، ردالمختار اور درسِ ترمذی وغیرہ۔ ان کتابوں کے ایک ایک ورق پر ہر مسئلے میں قرآن وحدیث کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ اگر تعصب اور عناد سے کنارہ کش ہوکر ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو احناف کا یہ رُخ ہر عام و خاص کو نظر آئےگا۔
ہمارے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ان کتابوں میں مذکورہ تمام مسائل غلط ہیں۔ ان میں بہت سے مسائل صحیح بھی ہیں اور ان سے فائدہ اُٹھانا چاہیے لیکن ان کی بے شمار خطاء اور غلط تاویلات سے بچنا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(7)- یہ کہنا کہ "تقلید کے بغیر کتاب وسنت پر عمل ممکن نہیں ہے" غلط ہے۔ اگر بالفرض یہ بات صحیح ہو تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور امام صاحب رحمہ اللہ اور اس کے مذہب سے ناآشنا ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے۔ کیا وہ مسلمان اور جنتی ہیں یا نہیں؟۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان اور جنتی نہیں ہے تو یہ بات سراسر غلط ہے احناف بھی اس کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان بھی ہیں اور جنتی بھی تو معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے تقلید ضروری نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کی نہ تو کوئی تفسیر ہے اور نہ ہی حدیث کی کوئی شرح ہے تو آپ امام صاحب رحمہ اللہ کی تقلید کو عمل بالقرآن والسنہ سے کیسے تعبیر کر سکتے ہیں؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(8)۔ احناف کا کہنا ہے کہ "اکثر ممالک فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں" لیکن ہمارا خیال ہے کہ دین میں اکثریت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ دین میں اصل اعتبار دلیل کا ہونا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:" وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ"۔الانعام
اللہ تعالی اپنے نبی سے مخاطب ہیں کہ اگر آپ نے بھی اکثریت کی تابعداری کی تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے ہٹا دیگی۔
باطل پرستوں کے ایسے ہی دلائل ہوتے ہیں، 1-اکثریت کی اتباع، 2-ظن کی اتباع، 3-ذہنی توہمات اور اٹکل کی اتباع، 4-باپ دادا کی اتباع۔ اور تقریباََ یہ عام دلائل مقلدین کے بھی ہیں۔ اکثر مقلدین کو یہ کہتے ہوئے سُنا گیا ہے کہ " ہم اتنے زیادہ ہیں جبکہ غیر مقلدین تو گنتی کے چند افراد ہیں"۔ کہتے ہیں: ہمارا مذہب سب سے بہتر ہے لیکن جب کوئی حدیث ان کے مذہب کے خلاف آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ منسوخ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ توہّمات پرست ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں: کیا بڑے ان مسائل کو نہیں سمجھتے تھے جو تم آکے آج ان مسائل کی بات کرتے ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اکثر ممالک احناف نہیں بلکہ عرب ممالک ، افریقی ممالک ، الجزائر، مصر اور عراق وغیرہم یہ سارے ممالک اہلحدیث ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں بھی اہلحدیثوں کی کمی نہیں ہے۔ اللہ کے فضل سے دن بدن ان میں اضافہ ہو رہا ہے اور احناف کی بھیڑ بکریاں ان کے ریوڑ سے ان شاء اللہ اب نکل بھاگی ہیں اور تقلید کے فساد کا قلع قمع ہونے والا ہے۔ ان شاء اللہ تعالی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(9)- احناف کا یہ دعویٰ بھی کہ " تمام بڑے بڑے علماء حنفی تھے" غلط ہے۔ لیکن اگر تھے بھی تو اتنے متعصب اور جامد نہیں تھے جیساکہ آج کے مقلدین ہیں۔ علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے اکثر مقامات پر حنفیت کی تردید کی ہے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ بھی ایسے جامد مقلد نہیں تھے کہ قرآن وحدیث میں تحریف کرتے جیسا کہ آج کے مقلدین کرتے ہیں۔ آج کی تقلید اور پہلے علماء کی تقلید میں بہت فرق ہے آج کے مقلدین متعصب بھی ہیں، دینی بصیرت سے عاری بھی ہیں اور تحقیق کی حلاوت سے بھی ناآشنا ہیں لیکن پہلے مقلد علماء ایسے نہیں تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ : ابو بکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہم اللہ، تبع تابعین رحمہم اللہ، ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ بھی غیر مقلد تھے۔ تو کیا متاخرین علماء بہتر اور بڑے ہیں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہم اللہ، تبع تابعین رحمہم اللہ بڑے ہیں؟۔
تیسری بات یہ ہے کہ : قیامت کے دن اللہ تعالی ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ ہم نے فلاں عالم کو کیوں نہیں مانا۔ بلکہ پوچھے گا کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کس حد تک کی ہے۔ یہی سوال فرعون نے بھی کیا تھا" قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ"۔ گذشتہ نسلوں کا کیا بنے گا؟۔ موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا "عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ"۔ ان کے بارے میرا رب جانتا ہے۔ ہم بھی ان مقلدین علماء کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے بارے ہمارا رب بہتر جانتا ہے۔ ہماری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے دین کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔ اور دین کی حفاظت صرف قرآن وحدیث کی اتباع سے ممکن ہے نہ کہ تقلید سے۔ کیونکہ کتاب وسنت میں ہر قسم کی بھلائی اور خیر کی ہر بات موجود ہے اس کے لیے تقلید کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن مقلدین کا خیال ہے کہ تقلید کے بغیر دین پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ تو جن کی پریشانی قرآن وحدیث دور نہ کرسکے ان کی تسلی اور تشفی کسی چیز سے ممکن نہیں ہے۔ ان کی بے قراری ہر آن موجود رہے گی:
من لم يكن يكفيه ذان فلا كفا ... هُـ الله شر حوادث الأزمان
من لم يكن يشفيه ذان فلا شفا ... هُـ الله في قلب ولا أبدان
من لم يكن يغنيه ذان رما ...هُـ الله العرش بالإعدام والحرمان
من لم يكن يهديه ذان فلا هدا ... هُـ الله سبل الحق والإيمان

قصیدہ نونیہ​
ترجمہ: جو شخص قرآن وحدیث کو کافی نہیں سمجھتا تو اللہ تعالی اس کو گردشِ دوراں کے حوادث کے شر کی نظر کردے۔
جس شخص کی تشفی کتاب وسنت سے نہیں ہوتی اللہ تعالی اس کے قلب وجسم کو شفاء نہ دے۔
جو شخص قرآن وحدیث کے ذریعے دیگر اشیاء سے بے پرواہ نہیں ہوتا اللہ تعالی اعدام اور حرمان نصیبی اس کا مقدر بنا دے۔
جس کو قرآن وحدیث ہدایت نہ دے اللہ تعالی اس کو حق اور ایمان کی دولت سے محروم کردے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(10)- جہاں تک مقلدین کی اس بات کا تعلق ہے کہ ہم امام بخاری رحمہ اللہ کے مقلدین ہیں ، تو یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ہم امام بخاری رحمہ اللہ کے مقلد نہیں ہیں۔ بلکہ امام بخاری کی پیش کردہ احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع ہیں۔ ایک امام بخاری کی رائے ہے اور ایک ان کی روایت ہے۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ہم امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت کو قبول کرتے ہیں نہ کہ ان کی رائے کو۔ اور چونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ روایات منقول نہیں ہیں اس لیے احناف کا ان کی آراء پر عمل کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس بات کو محسوس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تعصب اور بغض سے تھوڑی دیر کے لیے دور رہ کر سوچا جائے۔

(11)-احناف کا خیال ہے کہ ہم صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر رد کرتے ہیں۔ آخر ان سے ہمیں کیا دشمنی ہے؟۔
جواب: ہمارے نزدیک امام صاحب رحمہ اللہ قابلِ قدر عالم دین ہیں۔ ہم ان کی صدقِ دل سے عزت کرتے ہیں۔ دشمنی ہمیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے نہیں بلکہ ان کی اندھی تقلید سے ہے۔ تقلید چاہے کسی شیخ الحدیث کی ہو یا شیخ القرآن کی، ہمیں اس سے ضرور نفرت ہے اور اس پر رد کرتے رہیں گے۔ ہم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید پر زیادہ تر رد اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کےماننے والے حنفی مقلدین پاکستان اور افغانستان میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔(لیکن اب اس میں الحمدللہ دن بدن کمی ہورہی ہے) دوسری اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فقہ حنبلی، شافعی اور مالکی کی بنسبت فقہ حنفی حدیث سے زیادہ دور ہے۔ اس بات پر کسی کو تعصب یا بعض کا شک نہ گزرے کیونکہ یہ بات ہم اپنی دینی بصیرت اور خیرخواہی سے کہہ رہے ہیں۔ اور مقصودِ نظر یہ ہے کہ ہمارے احناف بھائی دیگر مذاہب کے علوم وفنون سے استفادہ کرنے کیساتھ قرآن وحدیث کے صاف اور شفاف مذہب میں پوری طرح داخل ہوجائیں۔ کیونکہ یہ صرف حنفیت کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(12)- احناف ہم سے سوال کرتے ہیں کہ امام صاحب رحمہ اللہ کی تشریح مانیں یا پھر آپ کی تشریح مانیں؟۔
جواب: ہم کہتے ہیں کہ ہم تمہیں امام صاحب رحمہ اللہ کی تشریحات اور فقہ ماننے سے منع نہیں کرتے لیکن ساتھ ساتھ دوسرے علماء سے بھی فائدہ حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ کہ آخر کیا ایک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی تمہیں نظر آئے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کی وہ کونسی تفسیر یا شرح ہے جس کے ماننے کی احناف بات کرتے ہیں؟۔ ہمیں تو آج تک ایسی کوئی شرح نظر نہیں آئی جو امام صاحب رحمہ اللہ نے کی ہو۔
تیسری بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی وضاحت کو امام صاحب رحمہ اللہ کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی قرآن وحدیث بخوبی سمجھ آسکتے ہیں۔
(13)- احناف کا یہ سوال کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آتا ہے کہ ان کو یمن بھیجا گیا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ "میں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنا اجتہاد کروں گا اور اس کے مطابق فیصلہ کروں گا"۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد جائز ہے ورنہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اجتہاد کیوں کرتے؟۔
جواب: ہم نے کبھی بھی اجتہاد سے انکار نہیں کیا ہے بلکہ تقلید کیا انکار کیا ہے۔ اور ان دونوں میں فرق ہے۔ اجتہاد جائز ہے اور تقلید باطل۔
معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا انکار خود مقلدین کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ ائمہ اربعہ کے بعد بند ہوچکا ہے۔ لیکن ہمارا موقف ہے کہ اجتہاد قیامت تک باقی رہے گا۔
دراصل یہ ایک احسان ہے جو اللہ تعالی نے علماء کو اجتہاد کی اجازت دے کر اُمت پر کیا ہے۔ لیکن مقلدین حضرات کہتے ہیں کہ اجتہاد کا دائرہ چوتھی صدی ہجری میں ائمہ اربعہ تک محدود ہے۔(شامی ج1ص396)، مزید تفصیل کے لیے دیکھیئے: فتاوی الدین الخالص، ج2ص24،27) تصحیح العقائد تلیق شرح العقائد)۔
(14)- مقلدین کا خیال ہے کہ ہر مسئلہ قرآن وحدیث میں نہیں ہے اس لیے ہم تقلید کرتے ہیں۔ جیسا کہ نانی سے نکاح کی حرمت کہیں بھی قرآن وحدیث میں نہیں ملتی وغیرہ۔
یہ بات باکل غلط ہے کہ قرآن وحدیث میں ہر مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ" کہ دین اسلام کو میں نے تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے۔ قرآن وحدیث میں قواعد کلیہ موجود ہیں۔ جو بھی مسائل درپیش ہوتے ہیں ان سب کا حل قواعد کلیہ کے تحت نکل آتا ہے۔ اور یہ قواعد صرف مجتہدین کے لیے خاص نہیں بلکہ ہر جید عالم اس کو سمجھ سکتا ہے۔ لہذا علوم اور فنون پر دسترس رکھنے والا ہر عالم اجتہاد کرسکتا ہے۔
بعض لوگوں نے اجتہاد کو عنقاء بنا کر پیش کر دیا ہے(عنقاء ایک ایسا پرندہ ہے جس کو آج تک کسی نے دیکھا نہیں ہے) جبکہ بعض اس کو کالعدم سمجھنے لگے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن وحدیث ایک جامع دین ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے تقلید کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن وحدیث کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام علوم و فنون سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے لیکن ان کو مقصد سمجھ کر قرآن وحدیث میں تاویل کرنا درست نہیں ہے۔
(15)۔ احناف کا یہ کہنا کہ "اہل سنت تقلید پر متفق ہیں سوائے گنتی کے چند غیر مقلدین کے جو تقلید کو معتبر نہیں سمجھتے" سراسر غلط ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث کی طرف دعوت دینے والے اہلحدیث گنتی کے چند نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں عرب و عجم میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ مجتہدین، ائمہ اربعہ اور محدثین تمام اہل حدیث تھے جبکہ مقلدین کا خیرالقرون میں نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ شرالقرون کی پیداوار ہے اور نہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ چاروں مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی تقلید ضروری ہے۔ دیکھیئے ( مجموعۃ الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ: 20'209-210)۔
ملا علی القاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " ولا يجب علی احد من ھذه الامة ان يكون حنفيا او شافعيا او مالكيا او حنبليا"۔ (معیار حق ص:75)۔اس اُمت کے کسی بھی فرد پر حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی بننا واجب نہیں ہے۔
علامہ ابوالفتح بن برہان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لا يجب علي العامى تقليد مذھب معين"۔ کسی خاص مذہب کی تقلید امی کے لیے ضروری نہیں ہے۔ (شذرات الذہب ص12ج4) (تفصیل کے لیے دیکھیئے : التنقید السدید للعلامہ بدیع الدین الراشدی ص:300، مطبوعہ ادارہ تراث اہل سنت )۔
اس کے علاوہ اور بھی اعتراضات مقلدین کی طرف سے وارد ہوتے ہیں۔ ان کا جواب دیتے ہوئے ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مقلدین جن آیات یا احادیث سے تقلید کے اثبات پر استدلال کرتے ہیں، اگر غور کیا جائے تو درحقیقت اسی آیت یا حدیث میں اس کا رد موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ مثالوں میں آپ نے ملاحظہ کیا۔ یہ ایک قانون ہے کہ مبتدع اپنی بدعت کے جواز کے لیے جو بھی دلیل پیش کرتا ہے اگر علمی نقطہ سے اس پر غور کیا جائے تو درحقیقت وہی دلیل اس کے موقف اور مدعی پر رد ہوتی ہے۔
ہر مسلمان سے ہماری یہی درخواست ہے کہ تقلید باطل پرست علماء کی ایجاد ہے جو پیش نظر مقصدِ قرآن وحدیث کو رد کرنا ہے۔ لہذا اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ کیونکہ اس سے بچنا ہر مسلمان کے دینی مفاد میں شامل ہے اور اس میں گرفتاری ہلاکتِ دینی کی موجب ہے۔ ہم نے صرف دعوت ونصیحت کو دینی فریضہ سمجھتے ہوئے یہ کتاب تالیف کی ہے۔ یعنی صرف دعوت و نصیحت ہی اس کتاب کی تالیف کا محرک بنی ہے۔ اسکی تالیف میں بغض وعناد کو کوئی دخل نہیں ہے۔ صرف دعوتِ دینی کا فریضہ ہم نے ادا کر دیا ہے۔ اب اس کو قبول کرنا یا نہ کرنا یہ مقلدین پر منحصر ہے۔ قیامت کے دن ان شاء اللہ رب العالمین کے دربار میں کھڑے ہو کر یہ گواہی تو دے سکیں گے کہ ہم نے لوگوں تک کتاب وسنت کی دعوت پہنچائی تھی۔ مقلدین نے لوگوں کو کس چیز کی دعوت دی اور کس چیز کی بڑائی لوگوں کے دلوں میں بٹھائی۔ یا ہماری دعوت کو کس حد تک قبول کیا اس کا جواب مقلدین دیں گے ہر مسلمان کو چاہیئے کہ اپنی کامیابی کی فکر کرے۔
اللھم اجعلنا من الفائزين برحمتك۔ آمين۔
اللہ اپنی رحمت سے ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں سرفرازی اور سرخروئی عطا فرمائے۔
 
Last edited by a moderator:
Top