• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی حقیقت اور مقلدین کی اقسام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بعض صحابہ کرام مجہول ہیں۔۔۔حنفیہ کا موقف

16-قاعدہ:احناف کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مجہول صحابہ بھی ہیں جن کی روایت قبول نہیں کی جائے گی، مثال کے طور پر وابصہ بن معبد، معقل بن سنان اور فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہم۔( نورالانوار، ص184-185)
لیکن یہ قاعدہ بھی سراسر غلط اور اسلام کے خلاف ہے۔تمام اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ " الصحابة كلھم عدول فلا تضر جهالتھم"۔ کہ تمام صحابہ کرام صاحبِ عدالت ہیں۔ چاہے وہ مجہول ہی کیوں نہ ہوں۔ اسکے علاوہ یہ قاعدہ خود اصول کے خلاف ہے۔ اگر مقلدین کا خیال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر رد کیا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خود تو آپس میں ایک دورے پر کلام کر سکتے ہیں لیکن ہم اس طرح کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایتیں بالکل صحیح ہیں۔ ان کی روایتیں بخاری اور مسلم میں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح معقل بن سنان رضی اللہ عنہ کی روایتیں بھی صحیح ہیں۔ (مشکوۃ ج2ص277)۔
ہم مقلدین سے صرف اتنی التماس ہی کرسکتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے کےلیے بہانے تراشنے سے باز رہیں ورنہ یہ اقدام ان کے ایمان کی تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

عمل علی روایۃ الراوی لا برایہ۔۔۔۔اور حنفیہ کا موقف

17-قاعدہ: کسی صحابی رسول کا حدیث کے خلاف عمل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث ثابت نہیں ہے۔(نورالانوار،ص195)
مذکورہ قاعدہ کی طرح یہ قاعدہ بھی سراسر غلط ہے، کیونکہ راوی کے عمل کے مقابلے میں اس کی روایت زیادہ معتبر ہوتی ہے۔ ا س لیے کہ ترکِ عمل کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس وقت اس کو حدیث یاد نہ ہو۔ مصطلح الحدیث میں یہ قاعدہ ہے کہ جب استاد کے ذہن سے کوئی حدیث نکل جائے اور شاگرد کو یاد ہو تو یہ حدیث بھی صحیح اور قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی راوی اجتہادی طور پر دوسری روایت پر بھی عمل کر لیتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ احناف نے خود اس قاعدے کو توڑا ہے۔ مثال کے طور پر عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث بیان کرتی ہیں کہ : مسافر نماز کی قصر کرے گا۔ لیکن وہ خود سفر کی حالت میں پوری نماز پڑھتی تھی۔ یہاں پر احناف عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی روایت کو قبول کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن وحدیث میں تعارض ممکن نہیں

18-قاعدہ: " صحیح حدیث قرآن مجید سے معارض ہوسکتی ہے"۔ نورالانوار، ص189، خلاصۃ الافکار،ص180 اور مثال میں "لاصلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب"۔سورۃ الفاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔"قضاء بيمين وشاھد"۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قسم اور ایک گواہ کے ساتھ فیصلہ کیا۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت اور متن وغیرہ پیش کی ہے کہ یہ حدیثیں ہیں تو صحیح لیکن قرآن مجید سے متعارض ہیں۔
گذشتہ قاعدوں کی طرح یہ قاعدہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ حدیثِ صحیح نہ تو قرآن مجید سے متعارض ہوسکتی ہے اور نہ ہی دوسری صحیح حدیث سے۔ لیکن جو لوگ علم کی روشنی سے محروم ہوتے ہیں یا جن کے دلوں میں زیغ ہو ، ان کے نزدیک ایسا ممکن ہے۔
احناف اس قاعدے کے ذریعے اپنے مذہب کے دفاع کے لیے صحیح اور صریح حدیث کا قرآن سے تعارض پیدا کرتے ہیں۔ اگر اصل حقیقت دیکھی جائے تو یہ بالکل واضح ہے کہ مذکورہ احادیث کا قرآن سے کوئی تعارض نہیں ہے لیکن احناف نے صرف مذہب کے دفاع کے لیے ان کا باہمی تعارض پیدا کیا ہے۔

مدلّس راوی کی روایت قابل قبول۔۔۔حنفیہ کی رائے

19-قاعدہ: "اگر کسی راوی پر تدلیسی کلام کی جائے تو وہ کلام غیر مقبول ہے۔یعنی ہر مدلّس راوی کی روایت قبول کی جائے گی اگرچہ وہ روایت عنعنہ ہی کیوں نہ ہوں"۔ جب ہمارے مقلدین کے ہاں مرسل حدیث مقبول ہے تو مدلس بدرجہ اولٰی مقبول ہوگی۔ (نورالانوارص192)
لیکن یہ قاعدہ بھی تمام محدثین کے اصول کے خلاف ہے، کیونکہ محدثین مدلس راوی کی عنعنہ روایت کو قبول نہیں کرتے۔ جبکہ احناف مدلّس راوی کی ہر روایت کو قبول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ احناف کے ہاں رکض الدابۃ بھی طعن کا سبب نہیں بن سکتا۔ جس طرح کہ بعض لوگوں نے محمد بن حسن رحمہ اللہ کو رکض الدابۃ سے مطعون کیا ہے۔
محمد بن حسن۔۔۔ایک ضعیف راوی

لیکن ہمارے نزدیک محمد بن حسن رحمہ اللہ رکض الدابۃ کی وجہ سے مطعون نہیں ہے بلکہ لسان المیزان ج5ص121 کے مطابق:" ليّنه النسائی" یعنی امام نسائی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے: "قال محمد بن سعد الصرفي سمعت يحيی بن معين يرميه بالكذب وقال احوص بن الفضل العلائي عن ابيه: حسن اللولوي ومحمد بن الحسن ضعيفان، وكذا قال معاوية بن صالح عن ابن معين۔ وقال ابن ابی مريم عنه: ليس بشيء ولا يكتب حديثه، وقال عمرو بن علي: ضعيف، وذكره العقيلي فی الضعفاء: قال يحيی بن معين جھمي كذاب"
محمد بن سعد الصرفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : میں نےیحیی بن معین سے سنا ہے کہ وہ محمد بن حسن کو جھوٹا کہتے تھے۔ احوص بن الفضل العلائی رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حسن اللؤلؤی اور محمد بن الحسن دونوں کو ضعیف کہتے تھے۔
معاویہ بن صالح رحمہ اللہ بھی ابن معین رحمہ اللہ کا اسی طرح کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی مریم بھی ابن معین رحمہ اللہ کے واسطے سے کہتا ہے: " لیس بشيء" کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے اور اس کی حدیث لکھی نہیں جائے گی۔
عمرو بن علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : محمد بن الحسن ضعیف ہے۔
عُقیلی رحمہ اللہ اس کو ضعفاء میں شمار کرتے ہیں۔
اور یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جھمی کذاب۔ جہمی جھوٹا ہے۔
اس کے علاوہ بھی علماء نے امام محمد رحمہ اللہ پر تفصیلی کلام کیا ہے۔
امام محمد رحمہ اللہ پر جرح وتعدیل کی کتابوں میں اس زوردار جرح کے باوجود احناف کا اکثر مذہب ان کے اقوال پر مبنی ہے۔ جبکہ احناف کے اجتہادی اور غیر اجتہادی مسائل اور فقہ پر ہزاروں اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ تو ان مسائل کو کتاب وسنت کے مقابلے میں اور امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں پیش کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا سوائے گمراہی کے اور قیامت کے دن کی ندامت کے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اذا تعارضا تساقطا۔۔۔ايك غلط قاعده

20- قاعدہ: یہ قاعدہ "تعارض بين الآيتين"سے متعلق ہے جو کہ (نورالانوار ص197) پر موجود ہے کہ: جب دو آیتوں کا آپس میں باہمی تعارض پایا جائے تو "تساقطا" دونوں آیتیں گر جائیں گی۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ کیا قرآن میں بھی تعارض کا امکان ہے؟۔
کتاب اللہ میں کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ مقلدین کے کمزور ذہنوں میں جب تعارض پیدا ہوا تو آداب سے عاری ہو کر قرآن مجید کی دو آیتوں میں تعارض ظاہر کر کے ان کو قرآن مجید ہی سے نکالنے کی مذموم جسارت کی۔
قارئین محترم: کیا اس سے قرآن کے احترام کا تاثر ملتا ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ قرآن کی بے ادبی ہے لیکن احناف اس کو بے ادبی کہنے کے لیے تیار نہیں۔
احناف کے ہاں بے ادبی صرف یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مبنی بر رائے اقوال کو دلائل کے ساتھ رد کیا جائے یا کسی متاخر فقیہ کے اجتہاد کو قرآن و حدیث کی روشنی میں رد کیا جائے۔ احناف کے ہاں گستاخی کے لیے مذکورہ بالا ایک ہی معیار مقرر ہے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی قرآن میں تعارض پیدا کرے یا قرآن کی آیتوں اور احادیثِ رسول کو گرانے کی کوشش کرے تو اس کو احناف گستاخی اور بے ادبی کہنے میں نہ صرف حرج محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کو محقق اور فقیہ بھی کہتے ہیں۔
قارئین محترم: موضوع اور ضعیف حدیثوں کا قرآن مجید یا صحیح احادیث سے تعارض ممکن ہے۔ لیکن صحیح احادیث کا قران مجید یا دوسری صحیح احادیث سے تعارض ممکن نہیں ہے۔
اس باب میں احناف جتنی بھی مثالیں پیش کرتے ہیں یا تو وہ حدیثیں ضعیف اور موضوع ہوتی ہیں یا ان میں انکا اپنا خود ساختہ تعارض ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحابہ کرام کی تقلید واجب ہے۔۔۔۔حنفیہ کا عقیدہ

21-قاعدہ: صحابی کی تقلید واجب ہے۔ اس کی رائے کے مقابلے میں قیاس کو چھوڑا جائے گا۔ نورالانوار ص220
گذشتہ قاعدہ نمبر15 آپ ملاحظہ کر چکے ہیں کہ کسی غیر فقیہ صحابی کی روایت اگر قیاس کے خلاف ہو تو اس کی روایت کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ایک ہی کتاب میں ان دو بے جا اور متعارض قاعدوں سے کیا تاثر ملتا ہے؟ یہ مقلدین کی ذہنی پسماندگی اور غیر یقینی صورتِ حال میں مبتلا ہونے کی واضح دلیل ہے کہ وہ ایک قادعدہ بناتے ہیں تو دوسرے قاعدے کے ذریعے اس کو مسمار کرتے ہیں۔ یہ قاعدہ احناف نے وضع تو کردیا ہے لیکن اس کے بعد خود انہوں نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام کے اقوال پر قیاس کو ترجیح دی ہے۔ جس طرح کہ وہ "خيار في البيع" میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو نظر انداز کر کے قیاس کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی مقامات ہیں جہاں انہوں نے اپنے قواعد کی مخالفت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اجماع حجت ہے۔۔۔لیکن؟

22-قاعدہ: "مجتہدین کا کسی مسئلے پر اجماع اُمت کے لیے حجتِ قطعیہ ہے"۔
ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ اجماع حجت ہے لیکن بلا تحقیق ہر مسئلے میں اجماع کا دعوٰی صحیح نہیں بلکہ چند شروط کے تحت اجماع حجت ہے:
(1)۔ یقینی طور پر علماءِ اُمت کا اجماع ہو۔ لیکن یہ ایک مشکل کام ہے۔ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع یقینی طور پر حجت بن سکتا ہے کیونکہ ان کے اقوال منضبط ہیں۔ "وما ادراك لعلھم اختلفوا"۔ کیا معلوم علماء باہم اختلاف کا شکار ہوں۔
(2)- علم بالاجماع یا تو وجدان سے ممکن ہے یا عقل کے ذریعے۔ جبکہ وجدان اور عقل دونوں اس باب میں مفید نہیں ہیں۔ علم بالاجماع کے لیے ہر عالم کی معرفت ضروری ہے کیونکہ اُمت کے تمام علماء خاص طور پر قرونِ وسطی میں گزرے ہوئے علماء کی معرفت کی بابت حتمی فیصلہ ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "من ادعي الاجماع فھو كاذب" جو کسی بھی مسئلے سے متعلق اُمت کے اجماع کا دعوٰی کرے وہ جھوٹا ہے۔
(3)- اجماع یا تو متواتر منقول ہوتا ہے یا خبر واحد آحاد کے ذریعے۔ تواتر سے اجماع کی نقل عادتاََ محال ہے کیونکہ اہل التواتر کا اپنے طبقے کے ہر مجتہد سے مل کر اگلے طبقے یا آخر تک اجماع کی خبر دینا ناممکن ہے۔
خبر آحاد کے ذریعے اگر اجماع منقول ہو۔ تو احناف کے ہاں خبرِ آحاد ظنی ہے۔ جب اجماع کا ناقل ظنی ہوا تو اجماع یقینی کیسے؟۔
(4)۔ کتاب وسنت کی رو سے اجماع کے ماخذ کا مستند ہونا ضروری ہے۔ اگر اجماع نہ مستند ہو اور نہ اس کا ماخذ معتبر ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین میں امت کے لیے کمی یا زیادتی کا جواز باقی ہے۔ جب کہ ایسا عقیدہ باطل ہے۔ نیز اگر اجماع مستند نہ ہو تو وہ مردود ہے۔
اجماع سے متعلق تفصیل کےلیے دیکھیئے۔ ارشاد الفحول ص 131تا 144۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیاس حجت ہے۔۔لیکن کس کے لیے اور کیوں؟

23-قاعدہ: یہ قاعدہ قیاس سے متعلق ہے کہ " قیاس شریعت میں ایک خاص مقام پر نوع حجت ہے" لیکن حنفی فقہاء قیاس سے ہی پورا کام لیتے ہیں۔ اور اس کے مقابل حدیث کو چھوڑ کر اکثر فرضی اور غیر فرضی مسائل کو ثابت کرتے ہیں۔ بلکہ اکثر ایسے مقامات بھی ہیں جہاں احناف نے قیاس کو قرآن وسنت پر مقدم کیا ہے۔ اس طرح احناف اس باب میں پانچ غلطیوں کا شکار ہیں۔
(1)۔ قرآن وحدیث کو محیط بالاحکام والحوادث ماننے سے انکار۔
(2)۔ قیاس کو متعدد مقامات پر قرآن وحدیث پر مقدم کرنا۔
(3)۔ احکام شریعت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ خلاف القیاس ہیں۔
(4)۔اپنی طرف سے ایسی علتیں بنانا جو شارع نے نہیں بنائیں۔
(5)۔ اپنے ہی قیاس میں تناقض۔ اعلام الموقعین ج1ص249۔
اصل بات یہ ہے کہ (1) قیاس مجتہد کے لیے حجت ہے۔ (2)قیاس عبادات میں حجت نہیں بن سکتا ہے۔ کیونکہ عبادات کی مبنیٰ توقیف پر ہے۔ (3) قیاس عندالضرورۃ حجت ہے۔ قرآن وحدیث کی تائید کے لیے کسی بھی مسئلے میں قیاس کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ عقلی دلیل ہے اور صحیح عقل، صحیح نقل کے خلاف نہیں ہوسکتی۔لیکن قیاس کو ہر مسئلے میں باقاعدہ قانون کے طور پر استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔(4) قیاس اور اجتہاد منقطع نہیں ہوئے بلکہ یہ باقی رہیں گے۔ آج بھی قرآن وحدیث پر عبور رکھنے والے جید علماء کرام اجتہاد کرسکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ اجتہاد ختم ہوچکا ہے اپنی رائے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ (5) قیاس کے ذریعے نئے احکام نہیں بنائے جاسکتے۔ کیونکہ کتاب وسنت فروعی احکام پر محیط ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "والصواب وراء ما عليه الفرق الثلاث وھو ان النصوص محيطة باحكام الحوادث ولم يحلنا الله ولا رسوله على راي ولا قياس بل قد بين الاحكام كلھا، والنصوص كافية وافية بھا والقياس الصحيح حق مطابق للنصوص فھما دليلان للكتاب والميزان وقد تخفى دلالة النص او قد لا تبلغ العالم فيعدل الى القياس ثم قد يظھر موافقاََ للنص فيكون قياساََ صحيحاََ وقد يظھر مخالفاََ له فيكون فاسداََ ، وفي نفس الامر لابد من موافقته او مخالفته ولكن عند المجتھد قد تخفى موافقته او مخالفته الخ۔ (اعلام الموقعين ج1ص337)
فرماتے ہیں کہ: ہر روز نت نئے پیدا ہونے والے مسائل کا حل کتاب وسنت کے نصوص سے ممکن ہے۔ اللہ تعالی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی رائے اور قیاس کو دین میں بے جا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اللہ تعالی نے تمام احکامات کو واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ دین کے معاملے میں کتاب وسنت کے نصوص ہی مسلمان کے لیے کافی ہیں۔ صحیح قیاس قرآن وسنت کے موافق ہوتا ہے تو یہ دونوں کتاب اور میزان کے لیے دلائل ہوئے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نص پر عالم مطلع نہیں ہوتا یا اُس کو سمجھ نہیں پاتا تو ایسی صورت میں وہ قیاس کرتا ہے یہ قیاس یا توصحیح ہوتا ہے یعنی نص کے مطابق ہوتا ہے اور یا نص کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے غلط ٹھہرتا ہے۔ نفس الامر میں قیاس کی نصوص سے موافقت یا مخالفت ضرور ہوتی ہے لیکن کبھی یہ مجتہد سے پوشیدہ رہ جاتی ہے۔
تو مستقل طور پر قیاس کا دین میں باقاعدہ اہتمام کیساتھ استعمال بدعت ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دین نامکمل ہے جیسا کہ اکثر مقلدین کا یہ گمان ہے لیکن یہ گمان مضرومہلکِ ایمان ہے۔
 
Last edited by a moderator:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خاتمہ

قارئین محترم: اس کتاب کے لکھنے سے علماء کرام اور عوام الناس کو قرآن وحدیث کی طرف رجوع اور توجہ دلانا مقصود ہے، کہ امت مسلمہ کا ہر فرد قرآن وحدیث کے بحرِ علوم سے بہرور ہو کر کتاب وسنت پر عمل کا پابند ہو جائے۔ اور دین کو نامکمل ماننے سے باز رہے۔ تمام علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی تقلید کے قعرِ مذلت کی اتھاہ گہرائیوں سے محفوظ رہیں اور عوام الناس کو بھی بچائیں۔ کیونکہ صرف تقلید کی وجہ سے آج تک فساد کو فروغ ملتا رہا ہے اور لوگ قرآن وحدیث سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔
تفسیر اور حدیث کی جن محفلوں اور دوروں کا اہتمام کیا جاتا ہے یہ محفلیں بھی فقہ کی بالادستی پر برخاست ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد صرف تبرک اور دکھلاوا ہوتا ہے جہاں صرف حنفیہ کے مذہب کی خدمت اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید ہوتی ہے۔ طلباء اور عوام الناس کو احادیثِ رسول اور حق پرست اہلحدیث سے بدظن کر کے پرویزیت کی ہوا دی جاتی ہے اور یہ لوگ قرآن وحدیث پڑھنے کے باوجود قرآن کے مورد لعنت ٹھہرتے ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "رُبَّ قَارِیِِ یَقرَا القُرآن وَ ھُوَ یَلعَنُه"۔ کتنے ہی لوگ جو قرآن تو پڑھتے ہیں لیکن قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ ہم انہی طلباء اور عوام الناس سے دردمندانہ درخواست کرتے ہیں کہ قرآن وحدیث کو اپنا اصل مطمعِ نظر بنائیں، فقہاء اور مجتہدین کی باتوں کو مقصد اور ترازو بنانے سے باز رہیں، کتاب وسنت کو فقہاء اور مجتہدین کے اقوال کے لیے ترازو بنائیں۔
اہل حق کیساتھ ضد اور عناد کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اہل حق کے ساتھ ضد اور عناد کا یہی تسلسل جاری رہا تو ہمیں ڈر ہے کہ کہیں احناف میں یہود ونصاریٰ کی وہ صفات پیدا نہ ہوں جو ان کے لیے اللہ تعالی کی لعنت کا موجب بنی۔ (العیاذ باللہ)۔
حق کو فتنہ سے تعبیر کرنا ایمان کی تباہی کے لیے کافی ہے۔ ہماری دعوت کسی پارٹی یا تنظیم میں شمولیت کے لیے نہیں اور نہ ہی کسی عالم سے منسلک ہونے کے لیے ہے بلکہ ہم رجوع الی القرآن وحدیث کی صفا وشفاف دعوت دیتے ہیں کیونکہ یہ کامیابی کا راستہ بھی ہے اور عقیدہ و عمل کی اصلاح کے لیے بہترین رہنماء بھی ۔
مذکورہ بیان پڑھ کر بعض لوگ ہمیں بے ادبی، تشدد اور فتنہ بازی سے مطعون کریں گے لیکن۔۔۔مومن کا یہ شیوہ ہے کہ "ولا یخافون لومة لائم" کسی کی طعن و تشنیع سے ڈرنا مومن کا کام نہیں ہے۔ مومن کے ذہن میں صرف یہی خوف سوار ہوتا ہے کہ کہیں اللہ ناراض نہ ہوجائے۔ جیسا کہ آپ پیچھے ملاحظہ کر چکے کہ اس کتاب کی تالیف کا مقصد یہ نہیں کہ فقہ حنفی، فقہ شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری سے مطلقاََ کوئی فائدہ نہ اُٹھایا جائے۔ ان علماء کرام کا مقام واحترام اور ان کی کتابوں کے فوائد اپنی جگہ مسلّم ہیں ان سے فائدہ اُٹھانا چاہیے لیکن۔۔۔انکی غلطیوں اور ضعیف مسائل پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔ ان کے جو مسائل قرآن وحدیث سے متضاد ہیں ان کو رد کردیا جائے۔ متعدد محقق حنفی علماء نے بھی ایسا ہی کیا کہ فقہ حنفی کے ان اکثر مسائل کو جو قرآن وحدیث کے خلاف تھے رد کردیا ہے۔
آخر میں اتنا بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ اصولِ فقہ کے تمام قواعد پر ہم نے کلام نہیں کیا ہے بلکہ صرف چند کی نشاندہی کی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیگر علماء کرام کی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔
ہم اللہ رب العزت سے دست بدعا ہیں کہ اس کتاب کو شرفِ قبولیت بخشے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا دے اور جہاں جہاں مجھ سے بتقاضائے بشریت غلطی ہوئی ہے میں آج بھی اس سے براءت کا اظہار کرتا ہوں اور پسِ مرگ بھی اس سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو مجھے میری غلطیوں پر مطلع فرمائیں۔ بتوفیق اللہ تعالی وعونہ۔
مقدمہ ختم شد
 
Top