• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقلید کی شروعات

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234

وھذاامرانما ظھر فی القرن الرابع فقط مع ظھور التقلید و انما ظھر القیاس التابعین علی سبیل الرای و الاحتیاط و الظن لا علی ایجاب حکم بہ و الا انہ حق مقطوع۔
(الاحکام فی اصول الاحکام ۔ ج:2، ص:38)
’’قیاس اور تقلید کا ظھور چوتھی صدی میں ہوا تابعین کے دور میں مقلد صرف احتیاط کی بنا پر تھا نہ اس لئے کہ اس (قیاس) کو واجب العمل سمجھا جاتا تھا ۔ اسے حق کا درجہ حاصل نہیں تھا بلکہ وہ (قیاس) تو صرف ظن کی حد تک تھا۔
شیخ صالح العمری ان الفاظ میں تقلید کی تاریخ بیان کرتے ہیں
انما احدث بعد مائتی سنۃ من الھجرۃ و بعد فنا القرون التی اثنی علھیم الرسول صلی اللہ علیہ و سلم
(الایقاظ ھم اولی الابصار ، ص:75)
"تقلید کی بدعت ہجرت کے دوسوسال بعد معرض وجود میں آئی جبکہ خیرالقرون کا زمانہ گزر چکا تھا جس کی تعریف خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی تھی "۔
 
شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نام: عبدالرحیم رحمانی۔
تعلیم: عالم وفاضل (جامعہ رحمانیہ ، کاندیولی ، ممبئی ، انڈیا)۔
بی ایڈ اردو ۔
ڈپلوما عربی ۔
ڈپلوما ان کمپیوٹر۔
کفایت اللہ بھائی کے ذریعہ اس فورم کے بارے میں معلومات ملیں ، مجھے آپ حضرات کے بیچ آکر خوشی ہوئی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عبدالرحیم رحمانی
بھائی اپنی مشارکت کی نظر ثانی کریں ۔
عبد الرحیم بھائی اللہ آپ کا آنا مبارک کرے ۔۔۔۔۔
آپ کی پہلی پوسٹ میں املاء وغیرہ کی غلطیاں ہیں ان کو ٹھیک کر لیں ۔
مثلا آپ نے لکھا ہے کہ
تقلید کی ابتدا ہجرت کے دو سال بعد ہوئی ۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127

وھذاامرانما ظھر فی القرن الرابع فقط مع ظھور التقلید و انما ظھر القیاس التابعین علی سبیل الرای و الاحتیاط و الظن لا علی ایجاب حکم بہ و الا انہ حق مقطوع۔
(الاحکام فی اصول الاحکام ۔ ج:2، ص:38)
’’قیاس اور تقلید کا ظھور چوتھی صدی میں ہوا تابعین کے دور میں مقلد صرف احتیاط کی بنا پر تھا نہ اس لئے کہ اس (قیاس) کو واجب العمل سمجھا جاتا تھا ۔ اسے حق کا درجہ حاصل نہیں تھا بلکہ وہ (قیاس) تو صرف ظن کی حد تک تھا۔
شیخ صالح العمری ان الفاظ میں تقلید کی تاریخ بیان کرتے ہیں
انما احدث بعد مائتی سنۃ من الھجرۃ و بعد فنا القرون التی اثنی علھیم الرسول صلی اللہ علیہ و سلم
(الایقاظ ھم اولی الابصار ، ص:75)
"تقلید کی بدعت ہجرت کے دوسوسال بعد معرض وجود میں آئی جبکہ خیرالقرون کا زمانہ گزر چکا تھا جس کی تعریف خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی تھی "۔
آپ نے بجا کہا او ر حقیقت بھی یہی ہے کہ امت داخلی انتشار کا شکا ربھی اسی مسلہ تقلید کی بنا پرہوئی۔حالنکہ ائمہ اربعہ اس سے بری تھے انہوں نے کبھی نہیں کہاتھا کہ ہماری تقلید کرو دوسری بات یہ ہے کہ آج اگر امت کے اندر اجتہادی روح کا حقیقی معنی میں فقدان ہے تو اس کی وجہ بھی یہی تقلید ہے۔
 

mufti arzumand saad

مبتدی
شمولیت
مئی 11، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
24
پوائنٹ
18
إيقاظ همم أولي الأبصار للإقتداء بسيد المهاجرين والأنصار - (1 / 109)
لأن الناس لم يزالوا من زمان الصحابة الى أن ظهرت المذاهب الأربعة يقلدون من اتفق من العلماء من غير نكير من أحد يعتبر انكاره ولو كان ذلك باطلا لأنكروه
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
یہ عبارت شاید آپ کی نظر سے نہیں گزری جس میں صاف لکھا ہے کہ تقلید تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے ہی شروع ہے
بہت خوب۔ پھر پتہ نہیں کیوں آج احناف "صحابہ کرام رضی اللہ عنہم"کے زمانے سے شروع ہونے والی تقلید کی بجائے، چار صدیوں بعد شروع ہونے والی تقلید پر عمل پیرا ہیں۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ صحابہ نے تقلید کے لئے جس امام یا جن ائمہ کو چنا، ان ہی کو برقرار رکھا جاتا اور چار نئے ائمہ بنانے سے گریز کیا جاتا۔
 

mufti arzumand saad

مبتدی
شمولیت
مئی 11، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
24
پوائنٹ
18
عقد الجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد - (1 / 13)
باب تأكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة التشديد في تركها والخروج عنها
اعلم أن في الأخذ بهذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة وفي الإعراض عنها كلها مفسدة كبيرة ونحن نبين ذلك بوجوه
أحدها أن الأمة اجتمعت على أن يعتمدوا على السلف في معرفة الشريعة فالتابعون اعتمدوا في ذلك على الصحابة وتبع التابعين اعتمدوا على التابعين وهكذا في كل طبقة اعتمد العلماء على من قبلهم والعقل يدل على حسن ذلك لأن الشريعة لا تعرف إلا بالنقل والإستنباط والنقل لا يستقيم إلا بأن تأخذ كل طبقة عمن قبلها بالإتصال ولا بد في الإستنباط أن تعرف مذاهب المتقدمين لئلا يخرج عن أقوالهم فيخرق الإجماع ويبني عليها ويستعين في ذلك كل بمن سبقه لأن جميع الصناعات كالصرف والنحو والطب والشعر والحدادة والنجارة والصياغة لم تتيسر لأحد إلا بملازمة أهلها وغير ذلك نادر بعيد لم يقع وإن كان جائزا في العقل وإذا تعين الإعتماد على أقاويل السلف فلا بد من أن تكون أقوالهم التي يعتمد عليها مروية بالإسناد الصحيح أو مدونة في كتب مشهورة وأن تكون مخدومة بأن يبين الراجح من محتملاتها ويخصص عمومها في بعض المواضع ويقيد مطلقها في بعض المواضع ويجمع المختلف منها ويبين علل أحكامها وإلا لم يصح الاعتماد عليها وليس مذهب في هذه الأزمنة المتأخرة بهذه الصفة إلا هذه المذاهب الأربعة اللهم إلا مذهب الإمامية والزيدية وهم أهل البدعة لا يجوز الاعتماد على أقاويلهم
وثانيها قال رسول الله صلى الله عليه و سلم اتبعوا السواد الأعظم ولما اندرست المذاهب الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم
اس عبارت کو غور سے پڑھے آپ کو تسلی ہو جائے گی اگرترجمہ کی ضرورت ہو تو ترجمہ بھی کر لونگا
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی فقھاء کے مذاہب (خواہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہو یا بعد کے فقھاء)مدون طور پر نہیں ملتے صرف یہ چار مذاہب ہی اس وقت مدون طور پر موجود ہے لہذا اس وقت انہیں چار مذاہب کی پیروی کرنا سواد اعظم کی پیروی کرنا ہے
 
Top