• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقویۃ الایمان کی ایک عبارت اور حقیقی گستاخ

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
[JUSTIFY]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تقویۃ الایمان کی ایک عبارت اور حقیقی گستاخ

شاہ اسماعیل دہلوی اپنی مشہورکتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اور یہ یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔‘‘
[تقویۃ الایمان:ص۸ بحوالہ الحق المبین از قلم احمد سعید کاظمی بریلوی:ص۷۹]​
شاہ اسماعیل دہلوی کی یہ عبارت دیکھنے کے لیے ملاحظہ کریں مزید بریلوی کتب: مناظرہ جھنگ(ص۱۵۶)،عباراتِ اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ(حصہ اول: ص۱۰۳۔۱۰۴)۔
بریلوی اعتراض​
احمد سعید کاظمی بریلوی سمیت دوسرے بہت سے بریلوی علماء و اکابرین کا کہنا ہے کہ
’’ہر چھوٹی اور بڑی مخلوق کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کا ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب انہیں بارگاہِ خداوندی میں معاذ اللہ چوہڑے چمار سے زیادہ ذلیل کہنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
[الحق المبین:ص۸۰]​
اسی طرح غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے تقویہ الایمان کی عبارت پیش کرتے ہوئے کہا:
’’اس عبارت کے عموم کے اندر تمام فرشتے بھی داخل ہیں کیونکہ وہ بھی مخلوق میں شامل ہیں۔‘‘
[عباراتِ اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، حصہ دوم:ص۳۹۳]​
الجواب
تقویۃ الایمان کی اس عبارت میں شاہ صاحب نے ہرگز بھی توہین یا گستاخی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ جو لوگ چھوٹی یا بڑی مخلوق کے عمومی الفاظ کو انبیاء و اولیاء اور فرشتوں کے ساتھ خاص کرتے یا نسبت دیتے ہیں وہ گستاخی و توہین کے مرتکب ہیں۔ عمومی الفاظ کو خاص کر کے توہین کا مفہوم اخذ کرنا سخت نا انصافی اور باطل و مردود ہے۔
شاہ صاحب نے انبیاء و اولیاء و ملائکہ کی نسبت ذلیل لفظ کی طرف نہیں کی بلکہ عمومی طور پر ہر چھوٹی بڑی مخلوق کو اللہ کی شان کے سامنے ذلیل قرار دیا ہے۔ عمومی طور پر تمام مخلوق کو ذلیل کہنا الگ بات ہے اور خاص انبیاء یا اولیاء کی طرف (نعوذ باللہ) ذلت کو منسوب کرنا الگ بات ہے اور یہ اصول خود بریلوی علماء کو بھی تسلیم ہے۔

بریلویوں کا تسلیم شدہ اصول
چنانچہ مشہور بریلوی مناظر و عالم اشرف سیالوی نے کہا:
’’ایک ہے عمومی طورپر مخلوق کو ذلیل کہنا اور ہے ایک خاص طور پر کسی شخصیت کا نام لے کر اسے ذلیل کہنا تو عموم اور تخصیص کے اندر فرق واضح ہے۔‘‘
[مناظرہ جھنگ:ص۱۷۲]
انصاف شرط ہے کہ جب خود تسلیم ہے کہ عمومی طور پر مخلوق کو ذلیل کہنے میں اورخاص کسی شخصیت کو ذلیل کہنے میں فرق ہے تو پھر شاہ اسماعیل دہلوی کی عمومی عبارت کو انبیاء و اولیاء یا ملائکہ کی طرف خاص کرکے توہین اخذ کرناصریح دھوکہ دہی اور فریب نہیں تو کیا ہے۔۔۔؟
بریلوی علماء و اکابرین ،تقویۃ الایمان کی اس عمومی عبارت کو خاص کرتے ہوئے جس طرح ایک باطل مفہوم کے تحت گستاخانہ و توہین آمیز باور کرواتے آئے ہیں اس طریقے پر تو خود بریلوی علماء و اکابرین اپنی بہت سی باتوں اور عبارتوں کے سبب گستاخ قرار پاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

۱)بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے ایک آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:
’’بیشک تم اور جو کچھ اللہ کے سوا تم پوجتے ہوسب جہنم کے ایندھن ہو‘‘
[کنز الایمان،سورۃ الانبیاء:آیت ۹۸]
اس آیت کے بریلوی ترجمہ سے صاف ظاہر ہے کہ کفارو مشرکین کے ساتھ ساتھ جن جن کو وہ پوجتے اور عبادت کرتے ہیں وہ بھی جہنم کا ایندھن ہیں۔ یہ بات ثابت و مسلم ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہا السلام کو پوجتے ہوئے اپنا معبود بنا لیاجس پر خود قرآن گواہ ہے(دیکھئے سورۃ المائدہ:آیت ۱۱۶)۔
عمومی الفاظ کو خاص بنا کر گستاخانہ مطلب اخذ کرنا جیسا کہ تقویۃ الایمان کی عبارت میں بریلوی علماء و اکابرین کا وطیرہ ہے، اس کی بنیاد پر اس آیت کے ترجمہ کا مطلب یہ بنے گا کہ اللہ کے سوا جن جن کو پوجا جاتا ہے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ بھی شامل ہیں جہنم کا۔۔۔۔(نعوذ باللہ و من ذالک)۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمومی الفاظ کو انبیاء و اولیاء کی جانب منسوب کرنا خود سب سے بڑی گمراہی اور ان معزز ہستیوں کی شدید توہین ہے۔

۲)احمد رضا خان بریلوی نے کہا:
’’لوگ اللہ کے سوا جن جن کو پوجتے ہیں۔ وہ سب جھوٹے ہیں‘‘
[ملفوظات، حصہ اول:ص۸۲،اکبر بک سیلرز لاہور]
خان صاحب بریلوی کا یہ ملفوظ بھی تقویۃ الایمان کی طرز پر گستاخی قرار پاتا ہے۔ لوگ جن جن کو پوجتے ہیں ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہا السلام بھی شامل ہیں۔ چنانچہ اس ملفوظ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم علیہا السلام کو بھی جھوٹا قرار دے رکھا ہے(نعوذ باللہ) اور یہ ان کی شدید توہین اور گستاخی ہے۔
اگر احمد رضا خان بریلوی کے اس عمومی ملفوظ کو خاص کرتے ہوئے مندرجہ بالا گستاخانہ مفہوم نکالنا صحیح نہیں تو تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل کی عبارت کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیوں۔۔۔؟

۳)احمد رضا خان بریلوی نے ایک شعر یوں کہا:
واہ کیا مرتبہ اے غوث بالا ہے تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا​
[حدائق بخشش،حصہ اول:ص۸]
اس شعر میں احمد رضا خان بریلوی نے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے مراتب کو بیان کرتے ہوئے ان کے قدم کو اونچے اونچوں کے سروں سے بھی اعلیٰ قرار دیا ہے۔ ہرچھوٹی بڑی مخلوق کے عمومی الفاظ میں انبیاء و اولیاء کو شامل کر کے گستاخی اور توہین باور کروایا جاتا ہے تو اس شعر میں تو بات ہی اونچے اونچوں کی ہے۔ ہرچھوٹی بڑی مخلوق میں انبیاء و اولیا شامل ہیں تو اونچے اونچوں کے الفاظ تو دلالت ہی اونچے مرتبوں والے انبیاء و اولیاء اور بالخصوص امام الانبیاء نبی ﷺ پر کرتے ہیں۔کیا بریلوی منطق کے لحاظ سے یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ
’’اونچے اونچوں کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کا ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب شیخ عبدالقادر جیلانی کا قدم ان اونچے اونچوں کے سر وں سے بھی اعلیٰ کہنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
انصاف سے فیصلہ کیجیے کہ جو باطل مفہوم تقویۃ الایمان کی عبارت کابریلوی علماء و اکابرین پیش کرتے آئے ہیں کیا اسی طرح پھریہ شعر گستاخی و توہین کے اعتبار سے زیادہ سنگین نہیں؟

۴)بریلویوں کے تسلیم شدہ ولی وبزرگ سلطان المشائخ محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء نے فرمایا:
’’کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ ساری مخلوق کو اونٹ کی مینگنی جیسا (ہیچ) نہ سمجھے۔‘‘
[فوائد الفواد،جلد سوم آٹھویں مجلس:ص۲۵۱]
جس طرح شاہ صاحب کی عبارت میں چھوٹی بڑی مخلوق کے عمومی الفاظ موجود ہیں اسی طرح اس ملفوظ میں ساری مخلوق کے عمومی الفاظ موجود ہیں جن میں انبیاء و اولیا بھی شامل ہیں۔ یہاں بریلوی غزالیوں کی طرز پر یہ کہنا کیوں درست نہیں کہ
’’اس عبارت کے عموم کے اندر تمام فرشتے بھی داخل ہیں کیونکہ وہ بھی مخلوق میں شامل ہیں۔‘‘ اوراسی طرح ’’ساری مخلوق کے معنی رسل کرام اور اولیائے عظام کو شامل ہونا متعین ہو گیاہے۔۔۔۔اب انہیں اونٹ کی مینگنی جیساسمجھنا جس قسم کی شدید توہین ہے محتاجِ بیان نہیں۔‘‘
اگر اس کے جواب میں یہ تسلیم کیاجاتا ہے کہ ’’ایک ہے عمومی طورپر مخلوق کو ذلیل کہنا اور ہے ایک خاص طور پر کسی شخصیت کا نام لے کر اسے ذلیل کہنا تو عموم اور تخصیص کے اندر فرق واضح ہے۔‘‘ تو پھر آج تک بریلوی علماء و اکابرین تقویۃ الایمان کی عمومی عبارت کو انبیاء و اولیاء کی طرف منسوب کر کے کیوں گستاخانہ اور توہین آمیز مطلب پہناتے رہے ہیں؟ کیا بریلوی علماء و اکابرین کے اس طرزِ عمل کی روشنی میں سب سے پہلے خود احمد رضا خان بریلوی اور دوسرے تسلیم شدہ بریلوی بزرگ گستاخ قرار نہیں پاتے؟

۵)شیخ عبدالقادر جیلانی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’قدمی ھذاعلی رقبۃکل ولی اللہ(میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔ت)‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۲۸ص۳۶۳]
تقویۃ الایمان کی عبارت میں تو ’’ہر مخلوق چھوٹا ہو یا بڑا ‘‘کے عمومی الفاظ موجود ہیں جبکہ احمد رضا بریلوی کے تسلیم شدہ اس قول میں ’’ہر ولی اللہ‘‘ کے صریح الفاظ ہیں۔ ’’ہر ولی اللہ‘‘ کے الفاظ تمام صحابہ کرامؓ و تابعین عظامؒ بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام کو بھی شامل ہیں کیونکہ تمام انبیاء نبوت کے ساتھ ساتھ بالاولیٰ ولایت سے بھی سرفراز ہوتے ہیں بلکہ بریلویوں کے ہاں تو انبیاء کی ولایت ان کی نبوت سے بھی افضل مانی جاتی ہے۔ چنانچہ احمد رضا خان بریلوی نے کہا:
’’نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے۔۔۔۔‘‘
[ملفوظات،حصہ سوم:ص۲۹۳، فرید بک سٹال لاہور]
تنبیہ: یاد رہے کہ بریلویوں کے ہی تسلیم شدہ بزرگ و امام ربانی شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی کے نزدیک نبی کی ولایت کو اس کی نبوت سے افضل ماننے کا نظریہ بیہودہ (مکتوبات امام ربانی: دفتر اول مکتوب95) اور ایسا نظریہ رکھنے والا نبوت کے کمالات سے جاہل (مکتوبات امام ربانی: دفتر اول مکتوب251) ہے۔
ایک اور جگہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے لکھا:
’’اولیاء کا اطلاق ۔۔۔۔ہر محبوب خدا، تو انبیاء بلکہ ملائکہ کو بھی شامل‘‘
[فتاویٰ رضویہ: ج۱۰ص۸۱۰]
جب یہ تسلیم ہے کہ اولیاء کا اطلاق ہر محبوب خدا، انبیاء بلکہ ملائکہ پر بھی ہوتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ ’’میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘ بریلوی اصول پر کیوں گستاخی و توہین نہیں؟ ’’ہر مخلوق چھوٹا ہو یا بڑا‘‘ کے عمومی الفاظ میں بڑی مخلو ق کو صراحت بتانا، پھر گستاخی گستاخی کا شور مچانا اور ’’ہر ولی اللہ ‘‘ کے صریح الفاظ میں بلا دلیل مستثنیات ماننا، انتہا درجے کی نا انصافی اور ظلم نہیں تو کیا ہے؟ اپنی اس دوغلی پالیسی سے توبہ اور رجوع کرنے کی بجائے ڈھٹائی سے باطل تاویلات پر ڈٹے رہنا دوسروں کی بجائے خود کو ہی دھوکہ دینا ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب اس قول کی وضاحت و تاویل میں احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’اس لفظ(اولیاء) کا تیسرا اطلاق اخص اور ہے جس میں صحابہ بلکہ تابعین کو بھی شامل نہیں رکھتے کہ وہ اسمائے خاصہ سے ممتاز ہیں۔۔۔۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ: ج۱۰ص۸۱۱]
گویا احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کے قول ’’میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘ میں صحابہ و تابعین اس لیے شامل نہیں کہ یہ حضرات صحابہ و تابعین کے خاص ناموں سے ممتاز ہیں۔ اس رضا خانی اصول پرتو تقویہ الایمان کی عبارت بالاولیٰ گستاخی و توہین سے مبرا قرار پاتی ہے کیونکہ جب ہرولی کے اطلاق میں صحابہ و تابعین شامل نہ سمجھے گئے کہ یہ حضرات الگ خاص ناموں سے ممتاز ہیں تو ہر بڑی مخلوق کے اطلاق میں بھی انبیاء و اولیاء و ملائکہ شامل نہیں کہ یہ الگ خاص ناموں سے ممتاز ہیں، والحمد للہ۔
فائدہ :۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کے قدم سے متعلق بریلوی علماء و اکابرین نے کیسے کیسے کفریہ و گستاخانہ عقائد گھڑ رکھے ہیں، اس پر ایک ضمنی حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔ قرآن پاک (سورۃ القلم:آیت۴۲) میں کشف ساق کا ذکر ہے۔جس کی تشریح حدیث میں یوں آئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد و عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے۔۔۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ ن و القلم)
اس کے مقابلے میں ابوکلیم صدیق فانی بریلوی اپنے اعلیٰ حضرت کے ایک شعر کا مفہوم ان کی زبانی یوں بیان کرتے ہیں:
’’امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:اے غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ قیامت کے دن آپ کے قدم پاک کی تجلی کو دیکھ کر بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ تجلی الٰہی ہے سجدے میں گر پڑے اور دہشت زدہ ہوگئے حالانکہ یہ تجلی الٰہی نہ تھی بلکہ قدم غوث الثقلین(یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے قدم) کے نور کا کرشمہ تھا۔‘‘
[آئینہ اہلسنت:ص۳۰۱]
یہ کتاب ’’آئینہ اہلسنت‘‘ مشہور و معروف بریلوی عالم ڈاکٹر مفتی اشرف آصف جلالی کے ’’حسب الارشاد‘‘ لکھی گئی ہے۔
نعوذ باللہ و من ذالک، ایسے گندے اور گھٹیا ،صریح کفریہ و گستاخانہ عقائد و نظریات رکھنے والے لوگ کس منہ سے عمومی عبارات کو بنیاد بنا کر دوسروں کو گستاخ قرار دیتے ہیں۔

نتیجہ و حاصل​
اس ساری بحث و دلائل سے یہ بات بالکل واضح اور روشن ہے کہ عمومی الفاظ کوخصوصی معنی دے کر توہین و گستاخی کا مفہوم اخذ کرنا انتہائی مذموم اور باطل ہے بلکہ سوائے لوگوں کو دھوکہ دینے اور ان کے دینی جذبات سے کھیلنے کے کچھ بھی نہیں۔
مگر یہ بات طے شدہ اور مسلم ہے کہ اگر انبیاء کا نام لے کر یا خاص ان کی طرف ذلت کو منسوب کیا جائے تو یہ یقیناً ان کی شدیدگستاخی اور توہین ہے۔اب اس طے شدہ اور تسلیم شدہ بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خود فیصلہ کیجیے کہ حقیقی گستاخ کون ہے۔۔۔؟










[/JUSTIFY]
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
[JUSTIFY]
حقیقی گستاخ کون
۱)احمد رضا خان بریلوی، نبی کریم ﷺ کی شان میں فرماتے ہیں:
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود
عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام​
[حدائق بخشش،حصہ دوم:ص۳۶]
اس شعر میں بریلوں کے اعلیٰ حضرت نے شدید گستاخی اور توہین کا ارتکاب کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی جانب ذلت کو منسوب کیا ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کو قلت کے بعد کثرت حاصل ہوئی اسی طرح عزت بھی بعد ذلت کے ملی (نعوذ باللہ و من ذالک)۔ دوسروں کی عمومی عبارات کو گستاخی باور کروانے والے دیکھئے کس دیدہ دلیری سے امام الانبیاء ﷺ کی توہین کر رہے ہیں۔
i) بریلویوں کے پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی (سجادہ نشین، آستانۂ عالیہ غوثیہ مہریہ، گولڑہ شریف ) اس شعر کے متعلق لکھتے ہیں:
’’فاضل بریلوی ؒ جو میرے خیال میں آپ سے زیادہ فاضل اور عالم ِ با عمل اور ناموسِ مصطفی و اولیاء کے محافظ تھے، اس محولہ بالا شعر میں کس عزت اور ذلت کا ذکر فرما رہے ہیں۔ کیا ان کو شان ِ رسالت کا علم نہ تھا کہ انہوں نے ذلت کی نسبت آپ(ﷺ) کی ذات عالیہ کی طرف کر دی ۔۔۔۔‘‘ [لطمۃ الغیب :ص۴۲]
تنبیہ: بریلویوں کے معروف عالم کوکب نورانی اوکاڑوی ،دیوبندیوں کے قابل اعتراض اشعار پر تنقید و تبصرہ کے لیے اپنے والد شفیع اوکاڑوی کے ساتھ ساتھ اپنے انہیں پیرصاحب گولڑوی کی ایک کتاب کا مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کچھ اشعار کے بارے میں حضرت صاحبزادہ علامہ پیر سید غلام نصیر الدین نصیر گولڑوی کی کتاب ’’راہ و رسم منزل ہا‘‘۔۔۔۔ملاحظہ کر سکتے ہیں۔‘‘ [حقائق:ص۹۰]
عبدالحکیم شرف قادری لکھتے ہیں:
’’حضرت صاحبزادہ سید غلام نصیر الدین مد ظلہ(متولد ۱۹۴۹ء) عبقری صلاحیتوں کے مالک ہیں، وہ بیک وقت عالم دین ور بلند پایہ قاری ہیں۔ اردو، فارسی، عربی اور پوربی زبانوں میں مشقِ سخن فرماتے ہیں۔ ان کے کلام کی پختگی اور ندرتِ تخیل میں اساتذہ کا رنگ جھلکتا ہے۔‘‘ [تذکرہ اکابر اہلسنت:ص۳۵۱]
بریلویوں کے ہاں معتبرعالم دین و شاعر اور عبقری صلاحیتوں کے مالک حضرت صاحبزادہ علامہ پیر سید غلام نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی کی گواہی اپنے ہی فاضل بریلوی کے بارے میں یہ ہے کہ انہوں نے ذلت کی نسبت نبی ﷺ کی جانب کی ہے۔
ii) اسی طرح ایک اور بریلوی محقق العصر مفتی محمد خان قادری نے لکھا:
’’حبیب خدا ، وجہ تخلیق کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور۔۔۔۔ایک سچے عاشق رسول نے اپنے سلام ِ نیازمیں اس جامع صفات ہستی کے جن چند اوصاف و محاسن کا تذکرہ کیا ہے۔۔۔۔جیسے
مصطفی ،جان رحمت ، شمع بزمِ ہدایت۔۔۔۔انتہائے دوئی،ابتدائے یکی، جمع تفریق و کثرت،۔۔۔۔عزت بعد ذلت، رب اعلیٰ کی نعمت، حق تعالیٰ کی منت۔۔۔۔‘‘
[شرح سلام رضا:ص۳۔۴]
اس گواہی سے بھی بالکل واضح اور روشن ہے کہ احمد رضا خان بریلوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ہی اوصاف و محاسن بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہی ’’عزت بعد ذلت‘‘ کو منسوب کیا ہے اور یوں صریح گستاخی اور توہین کا ارتکاب کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ سلم کے لیے (نعوذ باللہ) ذلت کو ثابت کرنا چاہا ہے جو کہ آپ ﷺ کی شان میں شدید توہین اور گستاخی ہے۔اگر کوئی بریلوی اس شعر کے خلافِ حقیقت مفاہیم یا متضاد آراء پیش کرتا ہے تو وہ صرف دھوکہ و فریب ہے اور مزید اس بات کا ثبوت ہے کہ بریلوی حضرات اپنے بڑوں کے صریح گستاخانہ و توہین آمیز نظریات پر پردہ ڈالنے کے لیے دوغلے اور منافقانہ طرز عمل کا شکارہیں۔

۲) بریلویوں کے حضرت صاحبزادہ علامہ پیر سید غلام نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی نے اپنے علامہ و فاضل بریلوی کے اسی شعر کو بنیاد بناتے ہوئے خود بھی لکھا:
’’اے میرے آقا و مولیٰ ! آپ کی اس عزت پر لاکھوں سلام جو مکی دور کی تیرہ سالہ ذلت کے بعد آپ کو عطا کی گئی۔‘‘
[لطمۃ الغیب: ص۴۲]
دیکھئے کس قدربے ادبی اور بے حیائی کے ساتھ بریلویوں کے چھوٹے بڑے نبی مکرم ﷺ کی جانب ذلت کو منسوب کرتے چلے جا رہے ہیں اور اس سب کے باوجود توہین اور گستاخی کے فتوے صرف دوسروں کے لیئے ہیں۔

۳) بریلویوں کے سلطان العارفین برہان الواصلین سلطان باہو فرماتے ہیں:
’’جبکہ آدم علیہ السلام کی ذلت شہوت کی وجہ سے تھی۔‘‘
[اسرارِ قادری: ص۶۰]
ملاحظہ فرمائیں عمومی عبارات سے گستاخی نکالنے والوں کے بڑے کیسی کیسی صریح گستاخیوں کے مرتکب ہیں کہ تمام انبیاء و اولیا اور تمام انسانوں کے جد امجد سب سے پہلے نبی سیدنا آدم علیہ السلام کو ذلت میں مبتلا قرار دیا جا رہاہے (نعوذ باللہ )۔ نیز ذلت کے ساتھ ساتھ شہوت کو بھی سیدنا آدم علیہ السلام سے منسوب کر دیا۔
شہوت کے متعلق مشہور و معروف صوفی بزرگ علی ہجویری کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیں:
’’لیکن جو شہوت اور لوگوں میں عزت و منزلت کا خواہشمند ہے وہ حرص و طمع اور خواہشات کے چکروں میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ لوگوں کے لیے فتنہ ہے۔۔۔۔‘‘
[کشف المحجوب(مترجم):ص۲۵۰،اکبر بک سیلرز لاہور]
کس قدر سنگین گستاخی و توہین ہے کہ اس شہوت کے گندے اور ذلت والے مفہوم اور اس کی بدخصوصیات کو انبیاء کی جانب منسوب کیا جائے۔ مندرجہ بالا عبارت میں اس شہوت کی ایک بد اور گندی خصوصیت ’’حرص‘‘ کو بھی قرار دیا گیا ہے اور سلطان باہو نے جس طرح ’’شہوت‘‘ کو سیدنا آدم علیہ السلام کی جانب منسوب کر رکھا ہے اسی طرح اس’’حرص‘‘کے انتہائی غلیظ مفہوم کو بھی سیدنا آدم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے ہوئے شدید توہین و گستاخی کا ارتکاب کر رکھا ہے۔
چنانچہ بریلویوں کے اسی سلطان العارفین سلطان باہو نے لکھا:
’’جس دل پر اللہ کی رحمت نہ ہو وہ دل گمراہ ہو کر سیاہ ہو جاتا ہے۔وہ حسدحرص کبر سے بھر جاتا ہے۔چنانچہ حسدکی وجہ سے قابیل نے (اپنے بھائی ) ہابیل کو قتل کر ڈالااور حرص نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوا دیا (کہ شجر ممنوعہ کو چھو لیا) اور کبر نے ابلیس کو لعنت کے مقام پر پہنچا دیا۔‘‘
[عین الفقر:ص۱۷]​
نعوذ باللہ و من ذالک، اس پوری عبارت میں جس قدر شدید توہین آمیز انداز میں سیدنا آدم علیہ السلام کی کھلم کھلی گستاخی کی گئی ہے وہ ہرگز اس قابل نہیں کہ اپنے لفظوں میں بھی بیان کی جا سکے ۔صرف ابطال باطل کے پیشِ نظر ان اصلی گستاخوں کی حقیقت دکھانی مقصود ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کی جانب اس حرص کو منسوب کیا جارہا ہے کہ جو اللہ کی رحمت سے دوری کے سبب دل کے گمراہ اور سیاہ ہو جانے کے باعث پیدا ہوتی ہے، استغفراللہ ثم استغفراللہ۔
دوسروں کی عمومی عبارات تک پر گستاخی گستاخی ،توہین توہین کا شور مچا کر آسمان سر پہ اٹھا لینے والوں کو، اپنے بڑوں کی صریح گستاخانہ اور توہین آمیز باتوں پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مجال ہے کہ ایک لفظ بھی ایسی صریح گستاخیوں کی مذمت میں منہ سے نکلے بلکہ الٹا ان گستاخیوں کا من گھڑت تاویلات سے دفاع کیا جا تا ہے۔
اللہ ہمیں حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے فیصلہ کرنے اور صرف کتاب و سنت کو اپنا منہج بنانے کی توفیق دے اور ایسے تمام عناصر سے دور رکھے جو دن رات لوگوں کو قرآن و سنت کے واضح منہج سے دور رکھنے اوراپنے گستاخانہ کفریہ اور شرکیہ عقائد سے توبہ کرنے کی بجائے ان کے دفاع میں مشغول ہیں۔







[/JUSTIFY]
 

عمیر

تکنیکی ذمہ دار
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
703
پوائنٹ
199
جزاک اللہ بھائی۔۔۔
ماشاء اللہ بہت ہی کمال کی پوسٹ کی ہے۔ یہ دلائل پڑھ کر واقعی بہت اچھا لگا۔ امید ہے کہ آپ کے مزید مضامین بھی پڑھنے کو ملیں گے۔
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
بہت اچھے طالب بھائی!
ویسے ان بریلویوں کے نظریات واصول تو عجیب ہیں ہی کئی عقائد بھی صریح قرآن و سنت سے متصادم ہیں۔مجھے کچھ دن پہلے ایک کتاب ملی انہی حضرات کے مکتب فکر کی سنی بہشتی زیور نام کی۔
انشاءاللہ اس میں مذکور عقائد بھائیوں سے کل شیئر کروں گا۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم،
’’تقویۃ الایمان کی ایک عبارت اور حقیقی گستاخ‘‘ کے عنوان سے میرا یہی مضمون کچھ مفید حک و اضافہ کے بعد ماہنامہ ضربِ حق سرگودھا (دسمبر٢٠١١ء) میں شائع ہو گیا ہے۔والحمدللہ
یہاں پر ایک اور بات بھی ضرور بھائیوں کی خوشی کا باعث ہو گی کہ میرا ایک مضمون ’’تکفیر و تضلیلِ ابن عربی اور شبہاتِ حنیف قریشی‘‘ محترم شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی خصوصی شفقت سے ماہنامہ الحدیث حضرو (جنوری ٢٠١٢ء) میں شائع ہو گا، ان شاء اللہ۔ والسلام
 
Top