• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقوی اور سلف صالحین

شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75
تقوی اور سلف صالحین
قرآن اور احادیث میں تقوی کے جو فضائل اور فوائد وثمرات بیان کیے گیے ہیں یہ محض تھیوری اور دعوے کا نام نہیں بلکہ عملی زندگی میں اسے اتارنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کا نام ہے، اور اس امت مرحومہ پر اللہ کا بڑا کرم اور عنایت ہے کہ اس کے افراد نے اپنی زندگی اور معاشرے کو ان اسلامی تعلیمات کا نمونہ بنایا اور آئیڈیل بن کر زندگی گذاری، ذیل کے سطور میں ہم تقوی شعاروں کے ایسے ہی چند سبق آموز واقعات بیان کریں گے تاکہ اللہ والوں کے یہ واقعات سن کر ہمیں اپنی عاجزی اور کوتاہی کا ادراک ہوسکے، ہمارے سمند شوق کو تازیانہ لگے اور ہم بھی ان کے اسوہ حسنہ کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دے سکیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین۔
جب ہم تقوی کے باب میں اللہ والوں کی کتاب زندگی کے درخشاں صفحات الٹتے ہیں تو ان کی تقوی شعاری اور خوف الہی کے واقعات پڑھ کر دنگ رہ جاتے ہیں، بخدا اگر یہ واقعات صحیح سندوں کے ساتھ ہم تک نہ پہنچے ہوتے تو شاید آج ہم انہیں قصہ پارینہ تصور کرتے۔
متقیوں کے پیشوا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام تقوی کے اعلی صفات سے متصف تھے، اُن کی سب سے عظیم پہچان اور خصوصیت تھی تقوی، اُن کے نس نس میں آخرت کا خوف، مواخذہ اخروی کا احساس اور اس کی گرفت کا ڈر سمایا ہوا تھا، ان کے ذہن و دماغ میں برائی کے وساوس بھی نہیں کھٹکتے تھے، اگر کبھی کسی کے اندر شیطانی وسوسہ آیا بھی تو اُن کے تقوی نے انہیں رشدو ہدایت کی راہ پر گامزن کردیا۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ (سورہ الأعراف: 201)
“حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے “۔
یکایک اُن کی آنکھیں کھل جاتیں اور خدمت نبوی میں آکر حد کا مطالبہ کرتے کہ یا رسول اللہ ! ہمیں پاک کر دیجئے، حالاں کہ اگر توبہ کر لیے ہوتے تو وہ اللہ جو غفور رحیم ہے، بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، اُن کو اپنے دامن عفو میں ضرور جگہ دیتا، لیکن ان کے ذہن و دماغ میں تقوی کا حقیقی مفہوم رچ بس گیا تھا، انہوں نے جان لیا تھا کہ اللہ تعالی متقیوں کا دوست ہے اور اللہ تعالی متقیوں کو محبوب رکھتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں دنیا و آخرت کی خیر وبھلائی سے نوازا، انہیں اپنے کاموں میں تایید و توفیق حاصل ہوئی، دشمنوں پر غلبہ ملا، فتح و ظفراُن کی کنیز بنی، حتی کہ انہوں نے قیصر و کسری جیسی عظیم سلطنتوں کو زیر نگیں کیا، یہ سارے اعزازات جو انہیں حاصل ہوئے اُس تقوی کی بنیاد پر جس سے اس وقت بھی متصف رہے تھے جب کہ ان پر وحشیانہ ستم ڈھائے گئے تھے، مال و دولت کا سبز باغ دکھایا گیا تھا، دولت و ثروت سے محروم کیے گیے تھے، وطن عزیز سے دھکے دے کر نکالے گیے تھے، شعب ابی طالب کی خوفناک گھاٹی میں محصوری کے زمانے میں درختوں کی چھال اور سوکھے پتے حتی کہ حشرات الأرض تک کھا کر خون تھوکنے پر مجبور ہوئے تھے، ایسے روح فرساحالات میں بھی انہوں نےاللہ کا تقوی اختیار کیا اور دین پر ثابت قدم رہے۔
وہ ایسی قوم تھی کہ اگراُن سے معمولی گناہ بھی سرزد ہوجاتا تو سمجھتے کہ کوئی پہاڑ ہے جو اُن کے سروں پر گرا چاہتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ المؤمنَ يرى ذنوبَه كأنه قاعدٌ تحت جبلٍ يخاف أن يقعَ عليه، وإن الفاجرَ يرى ذنوبَه كذبابٍ مر على أنفه، فقال به هكذا ( صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 6308)
“جب مومن اپنے گناہوں کو دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ گویا وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور اندیشہ ہے کہ وہ اس کے اوپر گر جائے اور کافر وفاجر جب اپنے گناہوں کو دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ گویا کوئی مکھی تھی جو اس کے ناک سے گزری تو اس نے یوں اشارہ کیا پس وہ اڑگئی”۔
یہ نہایت عمدہ اور معنی خیز تمثیل ہے جس میں ایک مومن اور کافر و فاجر کے گناہ کے ارتکاب کے بعد کی دلی کیفیت بیان کی گئی ہے، کیوں کہ فاجر جس ذات کی نافرمانی کررہا ہے اُس کی عظمت و کبریائی سے ناواقف ہے جب کہ مومن کے دل میں ہمیشہ اللہ تعالی کی عظمت و جلال کا رعب طاری رہتا ہے، اگر کبھی شیطانی وساوس سے کسی گناہ کا صدور ہوا بھی تو فورا اُس کا ضمیر کچوکے لگاتا ہے، اللہ تعالی کی گرفت کے احساس سے اُس کا دل دہلنے لگتا اور آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، یہی حال اصحاب رسول کا تھا، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:

إنّكم لتعملون أعمالاً هي أدَقُّ في أعيُنِكُم من الشَّعْرِ، كُنَّا نَعُدُّها على عهد رسول الله، صلّى الله عليه وسلّم، من الموبقات (صحيح البخاري 6492)
“تم لوگ گناہوں کے ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نگاہوں میں بال سے بھی زیادہ معمولی ہوتے ہیں حالاں کہ ہم اسی کو عہد نبوی میں ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کرتے تھے” ۔
یہ وہی لوگ تھے جن کے بیچ میں جب حرمت شراب کی آیت نازل ہوئی اور مدینہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے جب اس کا اعلان کیا تو شراب کے دلدادوں نے اپنے اپنے مٹکوں کو اُٹھا کر پٹخ دیا، جن کے منہ میں جام شراب تھا اُسے اگل دیا یہاں تک کہ مدینہ کی گلیوں میں شراب کی نالیاں بہنے لگیں۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں شراب کا دور چل رہا تھا، اور میں ساقی بنا لوگوں کو جام شراب پیش کر رہا تھا کہ اُسی اثناء ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: کیا آپ لوگوں کو کوئی خبر ملی ؟ لوگوں نے گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا: وہ کیا؟ اُس آدمی نے کہا: شراب کی حرمت نازل ہو گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو اعلان کرنے کا حکم دے دیا ہے کہ آج سے شراب حرام کر دی گئی، یہ سننا تھا کہ لوگوں نے بیک زبان آواز لگایا اے انس! ان مٹکوں کو پھوڑ دو، اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے مٹکے پھوٹ گئے، پھر کسی نے وضو کیا، کسی نے غسل اور ام سلیم کے خوشبودان سے خوشبو لگایا اور افتاں و خیزاں مسجد کی طرف نکل بھاگے، ادھر مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی۔
ذرا تصور کریں کہ کس طرح چند لمحوں میں پورا مدینہ شراب کی حرمت پر متفق ہو جا رہا ہے، کوئی دیکھنے والا بھی نہیں تھا، نہ کوئی فوجی نگرانی تھی، نہ محکمہ سراغ رسانی، کسی نے یہ تک نہیں کہا کہ ایک زمانہ سے ہم اس کے رسیا ہیں، شراب ہماری گھٹی میں سمائی ہوئی ہے، اتنا جلد اس کا چھوٹنا مشکل ہے، جیسا کہ آج کل کے کچھ نام نہاد مسلمان کہتے ہیں، جانتے ہیں کیوں ؟ اس لیے کہ ان کے نس نس میں اللہ کا ڈر بیٹھا ہوا تھا، یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ اللہ کا کوئی حکم اُن کے پردہ سماعت سے ٹکرائے اور وہ مخالفت کی جرأت کر سکیں۔
وہ جنگوں اور معر کوں میں اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کامیابی متقیوں کے لیے ہے، اگر کوئی چیز اللہ تعالی کی مدد کو مؤخر کر سکتی ہے تو وہ ہے گناہ، اسی لیے اگر کسی قلعے، کسی شہر یا کسی ملک پر فتح پانے میں تاخیر ہوتی تو وہ فورا اپنے آپ کا جائزہ لیتے کہ ضرور کہیں ہمارے تقوی میں خلل ہے۔
امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فوج کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا جب کہ انہیں وقت کے سپرپاور طاقت کسری سے مقابلہ کے لیے بھیج رہے تھے:

يا سعد أوصيك ومن معك من الجند بتقوى الله -عز وجل-، فإن تقوى الله هي أعظم العدة على العدو، وإنما يُنصر المسلمون بتقواهم لله وبمعصية عدوهم له، فإذا استوينا نحن وهم في المعصية، كان لهم الفضل علينا في القوة
“اے سعد! میں تجھے اور تیرے ہمراہ جملہ لشکر کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ اللہ کا تقوی دشمن پر غلبہ کا سب سے عظیم اسلحہ ہے، اور مسلمان کو غلبہ اپنے تقوی اور اپنے دشمن کے گناہ کی بدولت حاصل ہوتا ہے، جب ہم اور وہ گناہ میں برابر ہو جائیں تو وہ قوت میں ہم پرغالب آجائیں گے”۔
جی ہاں ! انہوں نے تقوی کی حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیا تھا، اسی لیے وہ جماعت متقیوں کی جماعت بن گئی تھی، چنانچہ ایک وقت وہ تھا جب کہ وہ بے دست و پا اور تنگ دست تھے، گھر سے بے گھر کیے گیے تھے، نان شبینہ کے محتاج تھے، لیکن ان کے تقوی کی بنیاد پر ایک وقت وہ بھی آیا جس کے بارے میں عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

و إذا بنا اليوم ما منا إلا من هو أميرعلى مصر من الأمصار
“آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم میں کا ہر شخص کسی نہ کسی شہر کا امیر ہے”.
سچ فرمایا اللہ تعالی نے
:
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (سورہ آل عمران140)
یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ کبھی وہی مغلوب اور کمزور تھے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ کسی نہ کسی سلطنت کے امیر بن گئے۔ اور امیر بھی اس وقت تک رہے جب تک تقوی محفوظ رہا، اور جب تقوی کا دامن داغدار ہونے کا اندیشہ ہوا تو امارت سے سبک دوش ہوگئے۔
امام ابن عبدالبر نے الإستیعاب ( 1/374) میں ذکر کیا ہے کہ حسن بن علی رضی للہ عنہ جب امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے تو کوفہ کی مسجد میں آپ نے ایک تقریر کی، اُس میں دست برداری کے اسباب بتاتے ہوئے فرمایا:
ألا إن أکیس الکیس التقی وأعجز العجز الفجور
” سن لو ! سب سے زیادہ دانا وہ ہے جو متقی ہے اور سب سے زیادہ عاجز وہ ہے جو فاجر ہے”۔
سبحان اللہ! کیسے وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے نور سے دیکھا، اللہ کی ولایت اور محبت کے حقدار بنے، چنانچہ اللہ تعالی کی مدد کی اور وہ دنیا کے تاجدار بن گئے؎

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
اللہ آپ کو نیک بنائے بہت اچھی محنت ہے آپ کی
 
Top