• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

محدثین کا یہ فرمان بالکل صحیح ہے کہ « الإسناد من الدين، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء» اسناد دین کا حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتیں تو جو چاہتا من چاہی بات کہہ دیتا ’‘

کیا اس بات کا یہاں بھی خیال رکھا گیا


یہاں بھی محدث میگزین میں یہی حوالہ دیا گیا اور ساتھ میں یہ کہا گیا -

اب خاص امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ ملاحطہ ہو جس کو شاہ محمد اسحاق دہلوی کے ایک شاگرد رشید، مولانا محمد بشیر الدین قنوجی متوفی 1296ھ نے فقہ کی ایک کتاب ''غرائب فی تحقیق المذاہب'' کے حوالہ سے لکھا ہے:
''رأی الإمام أبوحنیفة من یأتي القبور لأھل الصلاح فلیسلم و یخاطب و یتکلم و یقول یاأھل القبور ھل لکم من خبر وھل عندکم من أثر انی أتیتکم من شهور و ولیس سؤالي إلا الدعاء فھل دریتم أم غفلتم فسمع أبوحنیفة بقول یخاطب بھم فقال ھل أجابوالك؟ قال لا فقال له سحقا لك و تربت یداك کیف تکلم أجسادا لا یستطیعون جوابا ولا یملکون شیئا ولا یسمعون صوتا و قرأ ''وما أنت بمسمع من في القبور'' (تفہیم المسائل(8) مولانا بشیر الدین قنوجی)
''امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کرکے ان سے کہہ رہا ہے، ''اے قبر والو! کیا تمہیں کچھ خبر بھی ہے اور کیا تمہیں کچھ اثر بھی ہے، میں تمہارے پاس کئی مہینوں سے آرہا ہوں اور تمہیں پکار رہا ہوں۔ تم سے میرا سوال بجز دعاء کرانے کے اور کچھ نہیں۔ تم میرے حال کو جانتے ہو یا میرے حال سے بے خبر ہو؟'' امام ابوحنیفہ نے اس کی یہ بات سن کر اس سے پوچھا، ''کیا (ان قبر والوں نے) تیری بات کا جواب دیا؟'' وہ کہنے لگا ''نہیں'' آپ نے فرمایا ''تجھ پر پھٹکار ہو، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو ایسے (مُردہ) جسموں سے بات کرتا ہے جو نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں او رنہ کسی کی آواز (فریاد) ہی سن سکتے ہیں۔'' پھرامام صاحب نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ''وما انت بمسمع من فی القبور'' (سورة الفاطر) ''اے پیغمبرؐ! تو اُن کو نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں۔''

علامہ آلوسی حنفی بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
''إن الاستغاثة بمخلوق و جعله و سیلم بمعنیٰ طلب الدعاء منه لاشك في جوازه وإن کان المطلوب منه حیا ........ وأما إذا کان المطلوب منه میتا أوغائباً فلا یستریب عالم أنه غیر جائز وأنه من البدع التي لم یفعلها أحد من السلف'' 9
''کسی شخص سے درخواست کرنا او راس کو اس معنی میں وسیلہ بنانا کہ وہ اس کے حق میں دعاء کرے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے درخواست کی جائے وہ زندہ ہو.... لیکن اگر وہ شخص جس سے درخواست کی جائے مُردہ ہو یا غائب ، تو ایسے استغاثے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو شک نہیں، اور مردوں سے استغاثہ ان بدعات میں سے ہے جن کو سلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔''

اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ و تابعین، ائمہ کرام اور تمام اسلاف صالحین زندہ نیک لوگوں سے تو دعاء کرانے کے قائل تھے لیکن کسی مُردہ کو انہوں نے مدد کے لیے نہیں پکارا، ان سے استغاثہ نہیں کیا، حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ تک سے استغاثہ نہیں کیا۔ اب اپ کے بعد اور کون سی ہستی ایسی ہے جو آپؐ سے زیادہ فضیلت رکھتی ہو کہ اسے مدد کے لیے پکارا جائے او راس سے استعانت کی جائے۔ فہل من مدکر! .......


حوالہ جات میں یہ کہا گیا


شاہ محمد اسحاق دہلوی کے ردّ میں ایک کتاب تصحیح المسائل نامی مولوی فضل رسول بدایونی نے لکھی تھی، جس کا جواب مولانا بشیر الدین قنوجی نے تفہیم المسائل سے دیا تھا ، خوب مدلل کتاب ہے۔ 1200ھ میں پہلی دفعہ مطبع مطیع الرحمٰن جہاں آباد میں طبع ہوئی پھر دوسری دفعہ محمدی پریس لاہور میں چھپی، تاریخ طبع معلوم نہیں۔
 
Last edited:

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بسم الله، والحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله!
انبیاء کرام علیہم السلام تمام انسانوں کے افضل ہیں، جن کے سردار سیدنا نبی کریمﷺ ہیں۔ جو تمام بنی آدم کے سردار بھی ہیں اور سید الانبیاء والمرسلین بھی۔ آپﷺ تمام لوگوں میں اکمل ترین، افضل ترین اور سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز بھی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ
﴿ ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ [/ARB] کہ ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔‘‘
آئیں اس آیت مبارکہ پر غور کرتے ہیں جس سے اس تھریڈ میں اٹھائے گئے مسئلے کا حل نکل آئے گا ان شاء اللہ

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اللہ کے بندے اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ایسی طرح ایک دوسری آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انھیں مردہ گمان بھی نہ کرو
اب اگر دیکھا جائے تو جو بندہ اللہ کی راہ میں شہید ہوتا ہے وہ بندہ دو بنیادی اجزاء پر مشتمیل ہوتا ہے ایک اس کا دنیاوی جسم اور ایک روح موت صرف دنیاوی جسم کے لئے ہے اور اس آیت مبارکہ میں ایسی دنیاوی جسم کے قتل کی بات کی گئی ہے جبکہ روح مسلمان ہو یا کافر مومن ہویا وھابی سب کی زندہ ہی رہتی اس بحث میں شامل دونوں فریق اس نقطے پر متفق ہیں
یعنی اللہ فرمارہا ہے کہ جو دنیاوی جسم اللہ کی راہ میں قتل کردئے جائیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس بات کا شعور نہیں رکھتے

جب اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا ایک امتی کس طرح سے زندہ ہے ہماری عقلوں کی رسائی وہاں تک نہیں اور ہم اعتراض کررہیں ہیں امام انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات پر
اور یہ کہا جارہا کہ

تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی


جبکہ اللہ تعالیٰ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کے دنیاوی جسم کے قتل ہونے پر اس کے لئے فرمارہا ہے کہ ایسے مردہ گمان بھی نہ کرو
والسلام
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

کیا اس بات کا یہاں بھی خیال رکھا گیا


یہاں بھی محدث میگزین میں یہی حوالہ دیا گیا اور ساتھ میں یہ کہا گیا -

اب خاص امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ ملاحطہ ہو جس کو شاہ محمد اسحاق دہلوی کے ایک شاگرد رشید، مولانا محمد بشیر الدین قنوجی متوفی 1296ھ نے فقہ کی ایک کتاب ''غرائب فی تحقیق المذاہب'' کے حوالہ سے لکھا ہے:
''رأی الإمام أبوحنیفة من یأتي القبور لأھل الصلاح فلیسلم و یخاطب و یتکلم و یقول یاأھل القبور ھل لکم من خبر وھل عندکم من أثر انی أتیتکم من شهور و ولیس سؤالي إلا الدعاء فھل دریتم أم غفلتم فسمع أبوحنیفة بقول یخاطب بھم فقال ھل أجابوالك؟ قال لا فقال له سحقا لك و تربت یداك کیف تکلم أجسادا لا یستطیعون جوابا ولا یملکون شیئا ولا یسمعون صوتا و قرأ ''وما أنت بمسمع من في القبور'' (تفہیم المسائل(8) مولانا بشیر الدین قنوجی)
''امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کرکے ان سے کہہ رہا ہے، ''اے قبر والو! کیا تمہیں کچھ خبر بھی ہے اور کیا تمہیں کچھ اثر بھی ہے، میں تمہارے پاس کئی مہینوں سے آرہا ہوں اور تمہیں پکار رہا ہوں۔ تم سے میرا سوال بجز دعاء کرانے کے اور کچھ نہیں۔ تم میرے حال کو جانتے ہو یا میرے حال سے بے خبر ہو؟'' امام ابوحنیفہ نے اس کی یہ بات سن کر اس سے پوچھا، ''کیا (ان قبر والوں نے) تیری بات کا جواب دیا؟'' وہ کہنے لگا ''نہیں'' آپ نے فرمایا ''تجھ پر پھٹکار ہو، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو ایسے (مُردہ) جسموں سے بات کرتا ہے جو نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں او رنہ کسی کی آواز (فریاد) ہی سن سکتے ہیں۔'' پھرامام صاحب نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ''وما انت بمسمع من فی القبور'' (سورة الفاطر) ''اے پیغمبرؐ! تو اُن کو نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں۔''

علامہ آلوسی حنفی بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
''إن الاستغاثة بمخلوق و جعله و سیلم بمعنیٰ طلب الدعاء منه لاشك في جوازه وإن کان المطلوب منه حیا ........ وأما إذا کان المطلوب منه میتا أوغائباً فلا یستریب عالم أنه غیر جائز وأنه من البدع التي لم یفعلها أحد من السلف'' 9
''کسی شخص سے درخواست کرنا او راس کو اس معنی میں وسیلہ بنانا کہ وہ اس کے حق میں دعاء کرے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے درخواست کی جائے وہ زندہ ہو.... لیکن اگر وہ شخص جس سے درخواست کی جائے مُردہ ہو یا غائب ، تو ایسے استغاثے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو شک نہیں، اور مردوں سے استغاثہ ان بدعات میں سے ہے جن کو سلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔''

اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ و تابعین، ائمہ کرام اور تمام اسلاف صالحین زندہ نیک لوگوں سے تو دعاء کرانے کے قائل تھے لیکن کسی مُردہ کو انہوں نے مدد کے لیے نہیں پکارا، ان سے استغاثہ نہیں کیا، حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ تک سے استغاثہ نہیں کیا۔ اب اپ کے بعد اور کون سی ہستی ایسی ہے جو آپؐ سے زیادہ فضیلت رکھتی ہو کہ اسے مدد کے لیے پکارا جائے او راس سے استعانت کی جائے۔ فہل من مدکر! .......


حوالہ جات میں یہ کہا گیا


شاہ محمد اسحاق دہلوی کے ردّ میں ایک کتاب تصحیح المسائل نامی مولوی فضل رسول بدایونی نے لکھی تھی، جس کا جواب مولانا بشیر الدین قنوجی نے تفہیم المسائل سے دیا تھا ، خوب مدلل کتاب ہے۔ 1200ھ میں پہلی دفعہ مطبع مطیع الرحمٰن جہاں آباد میں طبع ہوئی پھر دوسری دفعہ محمدی پریس لاہور میں چھپی، تاریخ طبع معلوم نہیں۔
@اسحاق سلفی بھائی کیا اس بات کا یہاں بھی خیال رکھا گیا
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
شہدا کی زندگی کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ اس کا تعلق دنیوی جسم سے بھی ہے لیکن اس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ دنیوی یا اس کی مانند ہے ورنہ یہ کیوں فرمایا گیا کہ تم اسے سمجھ نہیں سکتے؛گویا وہ دنیوی نہیں تاہم اس زندگی کے آثار دنیوی جسم پر بھی مترتب ہوتے ہیں کیوں کہ عذاب و ثواب قبر روح اور جسم دونوں کے لیے ہے اہل سنت و جماعت کے نزدیک؛واللہ اعلم بالصواب
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
شہدا کی زندگی کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ اس کا تعلق دنیوی جسم سے بھی ہے لیکن اس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ دنیوی یا اس کی مانند ہے ورنہ یہ کیوں فرمایا گیا کہ تم اسے سمجھ نہیں سکتے؛گویا وہ دنیوی نہیں تاہم اس زندگی کے آثار دنیوی جسم پر بھی مترتب ہوتے ہیں کیوں کہ عذاب و ثواب قبر روح اور جسم دونوں کے لیے ہے اہل سنت و جماعت کے نزدیک؛واللہ اعلم بالصواب
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
سورہ بقر :154
معاف کیجئے گا اللہ تعالیٰ تو ان شہدا کی حیا ت کے بارے میں یہ فرمارہا ہے کہ تم ان کی حیات کو سمجھ نہیں سکتے لیکن آپ شاید یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کے برخلاف اس حیات کو آپ نےپوری طرح سمجھ لیا ہے اس لئے یہ فتویٰ صادر فرمادیا کہ" یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ وہ حیات دنیاوی یا اس کی مانند ہے"
اور پھر اگر اس حیات کو آپ کے گمان کے مطابق برزخی حیات ہی مان لیا جائے تو پھر برزخی حیات تو آپ کے عقیدے کے مطابق ہر کافر مشرک کو بھی حاصل ہے پھر اس سے اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کوکیا امتیاز حاصل ہوا ؟
زرا اس پر بھی روشنی ڈال دیں شکریہ

ایک دوسری آیت مبارکہ میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
سورہ آل عمران: 169
یعنی ان لوگوں کو رزق مل رہا ہے
اب میں ایک سوال یہاں پوچھنا چاہوں گا کہ
کیا انبیاء علیہم السلام اور شہداء کے علاوہ بھی کسی کو رزق ملتا ہے اس دنیا سے پردہ فرماجانے بعد اور روز قیامت سے پہلے ؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میں نے یہ نہیں کہا کہ ان کی زندگی کا ہمیں شعور ہے؛کیا دنیوی زندگی کی نفی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں اس کا شعور حاصل ہو گیا ہے؟؟تو پھر اسے دنیوی کہنے سے یہ لازم نہیں آئے گا؟؟؟
انبیا علیھم السلام اور شہدا کی زندگی عام فوت شدگان سے قطعی جدا ہے اور اس کی جس قدر تفصیل حدیث میں ہے اسے میں تسلیم کرتا ہوں جیسا کہ اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات انبیا و شہدا کو دنیوی زندگی سے تعبیر کیا ہے؟؟؟
میرا موقف بالکل واضح ہے؛ذرا غور فرمائیں اور جلدبازی میں خلط مبحث نہ کریں اور نہ ہی غیر مرعلق باتوں میں الجھیں اور الجھائیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
بسم الله الرحمن الرحيم

تخريج حديث : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون
الحديث رواه أبو يعلى ( 6 / 147 ) وغيره وهو حديث حسن وله شواهد لمعناه صحيحة .

قال ابن حجر :
وقد جمع البيهقي كتابا لطيفا في " حياة الأنبياء في قبورهم " أورد فيه حديث أنس " الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون " أخرجه من طريق يحيى بن أبي كثير وهو من رجال الصحيح عن المستلم بن سعيد وقد وثقه أحمد وابن حبان عن الحجاج الأسود وهو ابن أبي زياد البصري وقد وثقه أحمد وابن معين عن ثابت عنه ، وأخرجه أيضا أبو يعلى في مسنده من هذا الوجه ، وأخرجه البزار لكن وقع عنده عن حجاج الصواف وهو وهم والصواب الحجاج الأسود كما وقع التصريح به في رواية البيهقي ، وصححه البيهقي ، وأخرجه أيضا من طريق الحسن بن قتيبة عن المستلم ، وكذلك أخرجه البزار وابن عدي .

والحسن بن قتيبة ضعيف ، وأخرجه البيهقي أيضا من رواية محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى أحد فقهاء الكوفة عن ثابت بلفظ آخر قال " أن الأنبياء لا يتركون في قبورهم بعد أربعين ليلة ولكنهم يصلون بين يدي الله حتى ينفخ في الصور " ومحمد سيئ الحفظ ، وذكر الغزالي ثم الرافعي حديثا مرفوعا " أنا أكرم على ربي من أن يتركني في قبري بعد ثلاث ولا أصلي له " إلا إن أخذ من رواية بن أبي ليلى هذه وليس الأخذ بجيد لأن رواية بن أبي ليلى قابلة للتأويل ، قال البيهقي : إن صح فالمراد أنهم لا يتركون يصلون إلا هذا المقدار ثم يكونون مصلين بين يدي الله .

قال البيهقي : وشاهد الحديث الأول : ما ثبت في صحيح مسلم من رواية حماد بن سلمة عن ثابت عن أنس رفعه " مررت بموسى ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره " وأخرجه أيضا من وجه آخر عن أنس .

فإن قيل : هذا خاص بموسى ، قلنا : قد وجدنا له شاهدا من حديث أبي هريرة أخرجه مسلم أيضا من طريق عبد الله بن الفضل عن أبي سلمة عن أبي هريرة رفعه " لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي .. الحديث ، وفيه : وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلي فإذا رجل ضرب جعد كأنه وفيه وإذا عيسى بن مريم قائم يصلي أقرب الناس به شبها عروة بن مسعود وإذا إبراهيم قائم يصلي أشبه الناس به صاحبكم فحانت الصلاة فأممتهم " .

قال البيهقي : وفي حديث سعيد بن المسيب عن أبي هريرة " أنه لقيهم ببيت المقدس فحضرت الصلاة فأمهم نبينا صلى الله عليه وسلم ، ثم اجتمعوا في بيت المقدس " وفي حديث أبي ذر ومالك بن صعصعة في قصة الإسراء " أنه لقيهم بالسماوات " ، وطرق ذلك صحيحة فيحمل على أنه رأى موسى قائما يصلي في قبره ثم عرج به هو ومن ذكر من الأنبياء إلى السماوات فلقيهم النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم اجتمعوا في بيت المقدس فحضرت الصلاة فأمهم نبينا صلى الله عليه وسلم ، قال : وصلاتهم في أوقات مختلفة وفي أماكن مختلفة لا يرده العقل ، وقد ثبت به النقل فدل ذلك على حياتهم ... ( 6 / 487 ، 488 )

والحديث كان شيخنا الألباني رحمه الله يرى ضعفه برهة من الدهر – كما قال – ثم تبين له قوة إسناده فوضعه في سلسلته الصحيحة ( 621 ) ، وقال في معناه :

ثم اعلم أن الحياة التي أثبتها هذا الحديث للأنبياء عليهم الصلاة والسلام إنما هي حياة برزخية ، ليست من حياة الدنيا في شيء ، ولذلك وجب الإيمان بها دون ضرب الأمثال لها ، ومحاولة تكييفها وتشبيهها بما هو المعروف عندنا في حياة الدنيا .

هذا هو الموقف الذي يجب أن يتخذه المؤمن في هذا الصدد : الإيمان بما جاء في هذا الحديث دون الزيادة عليه بالأقيسة والآراء ، كما يفعل أهل البدع الذين وصل الأمر ببعضهم إلى ادعاء أن حياته صلى الله عليه وسلم في قبره حياة حقيقية ! قال : يأكل ويشرب ويجامع نساءه ! – في الهامش : راجع " مراقي الفلاح " - ، وإنما هي حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله سبحانه وتعالى .

ويشهد للحديث رؤيته صلى الله عليه وسلم ليلة الإسراء لموسى قائما في قبره يصلي ، وسيأتي إن شاء الله برقم ( 2627 ) .

انتهى

فائدة :
جاء في حديث سؤال الملكين قول المؤمن لهما في قبره : دعوني حتى أصلي ، فيقولان : إنك ستفعل . وهو صريح – كما قال شيخنا الألباني – في أن المؤمن أيضا يصلي في قبره … الخ " أحكام الجنائز " ( ص 272 ) .

والله أعلم

كتبه
إحسان بن محمد بن عايش العتيبي

http://www.saaid.net/Doat/ehsan/10.htm
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کے معروف شاگرد ۔۔الشیخ مشہور حسن ۔۔فرماتے ہیں :

هل يصلي الأنبياء في قبورهم؟ وكيف يكون ذلك؟!

الشيخ مشهور حسن سلمان

السؤال: قرأت في كتاب (أحكام الجنائز) لشيخنا رحمه الله، حديثاً عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم عن سؤال الملكين للمؤمن في قبره: "... فيقال له اجلس وقد دنت له الشمس وقد آذنت للغروب، فيقال له: أرأيت في هذا الذي كان فيكم ما تقول فيه؟ ماذا تشهد عليه؟ فيقول: دعوني حتى أصلي، فيقولان إنك ستفعل"، فقال الشيخ الألباني معلقاً على هذا الحديث: صريح في أن المؤمن يصلي في قبره، وذكر حديثاً: "أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون"، ما صفة هذه الصلاة، هل هي كصلاتنا أم ما هي صفتها؟
الإجابة: الله أكبر، المؤمن في قبره لما يأتيه الملكان عقله وقلبه متعلق بالصلاة، فيقول للملائكة: دعوني حتى أصلي، ثم اسألوني، وهكذا شأن المؤمن.

والكلام على دار البرزخ، ودار البرزخ قوانينها ليست كقوانين الدنيا، ولها قوانين خاصة، والروح والبرزخ أشياء لا تدرك بالعقل ولا يجوز أن تخضع للمألوف، فعالم البرزخ العقل يبحث فيه عن صحة النقل فقط، فإن كان صحيح نقول يصلي، وكيف يصلي؟ لا ندري، والأنبياء لهم حياة في قبورهم، وكيف هذه الحياة، لا نعرفها، فهذا خبر في عالم الغيب، ليس للعقل إلا أن يتلقى ويبحث عن الصحة، فإن صح الخبر نقول: سمعنا وأطعنا.

وبهذا نرد على المفوضة وعلى الذين ينكرون صفات الله فإذا كان الإنسان نفسه عندما ينتقل من دار لدار العقل يتوقف، فكيف نعطل صفات ربنا عز وجل بحجة أنها تشبه صفات الخلق؟ فنحن نثبت صلاة للأنبياء وللمؤمن في القبور، بل نثبت حجاً وعمرة للأنبياء، كما جاء في صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى يحج في المنام ورؤيا الأنبياء حق، فنثبت ما ورد فيه النص ونسكت ونعرف قدر أنفسنا ولا نزيد على ذلك، ولا يوجد أحد ذهب لعالم البرزخ فجاء فأخبرنا وفصل لنا والعقل لا يدرك والنص قاضٍ على العقل، والله أعلم.
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اس دنیا سے پردہ فرماجانے بعد اور روز قیامت سے پہلے ؟
یہ پردہ فرما جانا کیا ہوتا ہے؟؟
انبیا علیھم السلام پر بھی موت آئی ہے:

إنک میت و انھم میتون

لیکن جس طرح ان کی حیات مبارکہ دوسروں سے اعلیٰ و ارفع ہوتی ہے ان کی موت و وفات بھی ان کے مرتبۂ بلند کے مطابق ہوتی ہے:علیھم صلوات اللہ و سلامہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس دنیا سے پردہ فرماجانے بعد اور روز قیامت سے پہلے ؟
یہ پردہ فرما جانا کیا ہوتا ہے؟؟
انبیا علیھم السلام پر بھی موت آئی ہے:

إنک میت و انھم میتون

لیکن جس طرح ان کی حیات مبارکہ دوسروں سے اعلیٰ و ارفع ہوتی ہے ان کی موت و وفات بھی ان کے مرتبۂ بلند کے مطابق ہوتی ہے:علیھم صلوات اللہ و سلامہ
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
یعنی اللہ فرماتا ہے شہدا ء کی حیات کس طرح کی ہے یہ ہم عام انسان نہیں سمجھ سکتے اس لئے کہا جاتا انھوں نے ہم سے پردہ کرلیا ہے اور ہیں حیات یعنی زندہ ہی کیوں کہ اللہ فرماتا بَلْ أَحْيَاءٌبلکہ و زندہ ہیں
اگر اس سے زیادہ کوئی مناسب الفاظ ہوں جس سے بَلْ أَحْيَاءٌاور لَّا تَشْعُرُونَکا معنی واضح ہوسکے تو وہ ارشاد فرمادئے جائیں شکریہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top