• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مقلدین کو کھلا چیلنج ہے (کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں)

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
دیکھئے بات کو غلط رخ دینااچھی بات نہیں ہے۔
میں نے آپ سے یہ پوچھاتھاکہ آپ کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے اوراتباع اورتقلید میں کیافرق ہے۔
آپ کیلئے ضروری ہے کہ آپ تقلید کی تعریف پیش کردیں۔ اس کی ضرورت اس لئے پڑی ہے کہ تقلید کے سمجھنے میں ہمارے اورآپ کے درمیان کسی نقطہ نظر کافرق تونہیں ہے؟کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ جس چیز کو ہم تقلید کہہ رہے ہوں اسی کوآپ "اتباع"سمجھ کر خوش ہورہے ہوں اوریہ محض لفظی نزاع ہو۔اگریہ بات واضح ہوگئی کہ آپ تقلید کس کو سمجھتے ہیں اوراتباع کس کو سمجھتے ہیں اورتقلید اوراتباع آپ کے نزدیک محض نزاع لفظی نہیں ہے اور واقعتادونوں میں گہرااختلاف ہے توپھر صحابہ کرام سے تقلید کا اثبات اورحکم پیش کرنا ہمارے لئے آسان ہوجائے گا۔
لیکن بجائے اس کے کہ آپ تقلید کی اپنی تعریف پیش کرتے ابن ہمام اورمحمودالحسن کی گردان شروع کردی۔ ان کا ذکر فی الحال چھوڑدیجئے۔ آپ صرف اپنی اوراپنے ہم مسلکوں کی بات کیجئے کہ

ان کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے؟

اوراتباع اورتقلید میں کیاجوہری فرق ہے؟

یہ کام کرلیجئے تاکہ بات آگے بڑھے
اگرنہیں توپھربات یہیں ختم کردیتے ہیں
آپ کابھی وقت بچے اورہمارابھی وقت بچے
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دیکھئے بات کو غلط رخ دینااچھی بات نہیں ہے۔
میں نے آپ سے یہ پوچھاتھاکہ آپ کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے اوراتباع اورتقلید میں کیافرق ہے۔

لیکن بجائے اس کے کہ آپ تقلید کی اپنی تعریف پیش کرتے ابن ہمام اورمحمودالحسن کی گردان شروع کردی۔ ان کا ذکر فی الحال چھوڑدیجئے۔ آپ صرف اپنی اوراپنے ہم مسلکوں کی بات کیجئے کہ

ان کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے؟

اوراتباع اورتقلید میں کیاجوہری فرق ہے؟

یہ کام کرلیجئے تاکہ بات آگے بڑھے
اگرنہیں توپھربات یہیں ختم کردیتے ہیں
آپ کابھی وقت بچے اورہمارابھی وقت بچے
والسلام
جمشید بھائی :

مجھے علماء احناف کی طرف سے پیش کی گئی تقلید کی تعرئف پر اعتراض نہیں کیوں کہ آپ مقلد ہو امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے جو تعریف آپ کے علما نے کی ہے اس ہی سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مجھے علماء احناف کی طرف سے پیش کی گئی تقلید کی تعرئف پر اعتراض نہیں کیوں کہ آپ مقلد ہو امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے جو تعریف آپ کے علما نے کی ہے اس ہی سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں
کبھی کسی سے تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق بھی ہواہے یاسیدھے یہیں فورم پرتشریف لائے ہیں؟
ذراجملہ لکھنے سے پہلے اس کا ربط بھی جان لیں
پہلاجملہ ہے
جھے علماء احناف کی طرف سے پیش کی گئی تقلید کی تعرئف پر اعتراض نہیں
دوسراجملہ ہے
آپ مقلد ہو امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے
تیسراجملہ ہے
جو تعریف آپ کے علما نے کی ہے اس ہی سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں
ان تینوں میں ربط کیاہے؟
اورمیں نے جوسوال کیاتھااس کااس سے کیاتعلق ہے۔

آپ نے چیلنج کیاتھاکہ کسی صحابی سے تقلید کا کوئی لفظ ثابت کردو وہ کام تلمیذ بھائی کرچکے ہیں!
پھرمیں نے کہاکہ
جب تقلید پر بات ہونی ہے توپھر تقلید کے تعلق سے اپنانظریہ بیان کردیں
اس پر آپ نے علماء احناف کے اقوال گرداننے شروع کردیئے۔
مجھے یہ سمجھنے میں توحیرت ضرور ہے کہ آپ کو تقلید کی اپنے علماء کی پیش کردہ تعریف پیش کرنے میں کیوں شرم آرہی ہے اوربار بار علماء احناف کے دامن میں چھپنے کی سعی کی جارہی ہے۔لیکن چونکہ آپ مدرسہ سے سیدھے یہیں تشریف لائے ہیں اس لئے نیم پختگی تحریر اورانداز تحریردونوں میں نمایاں ہے۔

میرے سوال کے جواب کہ تقلید کی تعریف کیجئے اورتقلید اوراتباع کے مابین کیافرق بیان کیجئے
اس سوال کے ایک حصے کا جواب توعلماء احناف کی گردن پر رکھ کر دے دیا۔
سوال یہ ہے کہ آپ کو علماء احناف کی صرف تقلید کی پیش کردہ تعریف قبول ہے یاپھر تقلید کاوہ جوحکم بیان کرتے ہیں وہ بھی قبول ہے۔
اگرتقلید کی پیش کردہ تعریف اورتقلید کابیان کردہ حکم دونوں قبول ہے توپھرتحریر کیجئے
اوراگرتقلید کی صرف تعریف قبول ہے تقلید کا حکم قبول نہیں ہے توایسی دورنگی کی ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے یانہیں اس کی وضاحت پیش کیجئے۔اوریہ بھی کہ آپ کو اس پر کیوں مجبورہوناپڑا۔

مزید یہ کہ آپ نے گزشتہ مراسلہ میں تقلید کی یہ تعریف پیش کی تھی
کتاب وسنت کے خلاف کسی کا قول مان لینا ۔
تقلید کہلاتا ہے ۔
اولاتویہ تعریف کتنی جامع ہے اس کے تعلق سے ماضی میں رفیق طاہر صاحب کے ساتھ تبادلہ خیال میں واضح کرچکاہوں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ رفیق طاہر صاحب کے خیال کی تقلید کرنے والے تقلید پر بات کرتے ہیں۔یاللعجب

سوال یہ ہے کہ ابن ہمام نے تقلید کی جوتعریف پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی غیر کے قول پر دلیل کے بغیر عمل کرلینا
اس تعریف سے یہ کیسے لازم آیاکہ کتاب وسنت کے خلاف کسی کا قول مان لینا
اس تلازم کو ثابت کرنابھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اسے ثابت کریں۔یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگرکوئی چیز نیلی نہیں ہوگی توپیلی ہی ہوگی لال بھی ہوسکتی ہے ہری بھی ہوسکتی ہے کچھ اوربھی ہوسکتی ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جمشید بھائی :

مجھے علماء احناف کی طرف سے پیش کی گئی تقلید کی تعرئف پر اعتراض نہیں کیوں کہ آپ مقلد ہو امام ابو حنیفہ رحم اللہ کے جو تعریف آپ کے علما نے کی ہے اس ہی سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں
دیکھئے بات کو غلط رخ دینااچھی بات نہیں ہے۔
میں نے آپ سے یہ پوچھاتھاکہ آپ کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے اوراتباع اورتقلید میں کیافرق ہے۔

لیکن بجائے اس کے کہ آپ تقلید کی اپنی تعریف پیش کرتے ابن ہمام اورمحمودالحسن کی گردان شروع کردی۔ ان کا ذکر فی الحال چھوڑدیجئے۔ آپ صرف اپنی اوراپنے ہم مسلکوں کی بات کیجئے کہ

ان کے نزدیک تقلید کی کیاتعریف ہے؟

اوراتباع اورتقلید میں کیاجوہری فرق ہے؟

یہ کام کرلیجئے تاکہ بات آگے بڑھے
اگرنہیں توپھربات یہیں ختم کردیتے ہیں
آپ کابھی وقت بچے اورہمارابھی وقت بچے
والسلام

جمشید بھائی نے کہا ہے
اوراتباع اورتقلید میں کیاجوہری فرق ہے؟

اس سے آپکو سمجھ آ جائے گا


تقليد اور دليل كى اتباع، اور كيا ابن حزم حنبلى تھے ؟


يہ كيسے ممكن ہے كہ آئمہ اربعہ ميں سے كسى ايك كى اتباع كرتے ہوئے مقلد نہ ہو ؟
ميں يہ سوال اس ليے كر رہا ہوں ميں نے ابن حزم كى سيرت پڑھى كہ وہ امام احمد كے مذہب كى اتباع كرتے تھے ليكن مقلد نہيں تھے، برائے مہربانى اس كى وضاحت فرمائيں ؟


الحمد للہ:
اول:

مذاہب كى اتباع كرنے والے ايك ہى درجہ پر برابر نہيں بلكہ ان ميں مجتھد بھى ہيں، اور مقلد بھى جو مذہب ميں كوئى مخالفت نہيں كرتا.

چنانچہ بويطى، اور مزنى اور نووى اور ابن حجر رحمہم اللہ يہ سب امام شافعى كى متبعين ميں سے ہيں ليكن يہ مجتھد ہيں اور جب ان كے پاس دليل ہو تو يہ اپنے امام كى مخالفت كرتے ہيں، اور اسى طرح ابن عبد البر مالكيہ ميں سے ہيں ليكن اگر صحيح چيز امام مالك كے علاوہ كسى اور كے پاس ہو تو وہ امام مالك رحمہ اللہ كى مخالفت كرتے ہيں.
احناف كے كبار آئمہ كے بارہ ميں بھى يہى ہے مثلا ابو يوسف اور امام محمد الشيبانى، اور اسى طرح حنابلہ كے آئمہ بھى مثلا ابن قدامہ اور ابن مفلح وغيرہ.
طالب علم كا كسى مسلك اور مذہب پر زانوے تلمذ طے كرنے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ اس مسلك سے نكل ہى نہيں سكتا، بلكہ جب اس كے ليے دليل واضح ہو جائے تو وہ اس دليل پر عمل كرے، دليل كو ديكھ كر بھى مسلك اور مذہب سے باہر وہى شخص نہيں جاتا جس كے دين كى حالت پتلى ہو، اور اس كى عقل ميں كمى ہو، اور وہ متعصبين ميں سے ہو.
كبار آئمہ كرام كى وصيت ہے كہ طالب علم كو بھى وہيں سے لينا اور اخذ كرنا چاہيے جہاں سے انہوں نے خود اخذ كيا اور ليا ہے، اور جب ان كا قول نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے خلاف ہو تو اسے ديوار پر پٹخ ديں.
ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ ميرى رائے ہے، اور جو كوئى بھى ميرى رائے سے اچھى اور بہتر رائے لائے ہم اسے قبول كرينگے "
اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں تو ايك بشر ہوں غلطى بھى كرتا ہوں اور صحيح بھى اس ليے ميرا قول كتاب و سنت پر پيش كرو "
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب حديث صحيح ہو تو ميرا قول ديوار پر پٹخ دو، اور دليل راہ ميں پڑى ہوئى ديكھو تو ميرا قول وہى ہے "
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك كى تقليد كرو، اور نہ شافعى اور ثورى كى، اور اس طرح تعليم حاصل كرو جس طرح ہم نے تعليم حاصل كى ہے "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" اپنے دين ميں تم آدميوں كى تقليد مت كرو، كيونكہ ان سے غلطى ہو سكتى ہے "
اس ليے كسى كے ليے بھى كسى معين امام كى تقليد كرنا صحيح نہيں جو اپنے اقوال سے باہر نہ جاتا ہو، بلكہ اس پر واجب ہے كہ اسے لے جو حق كے موافق ہو چاہے وہ اس كے امام سے ہو يا كسى اور سے ملے "
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لوگوں ميں سے كسى شخص پر كسى ايك شخص كى بعينہ تقليد كرنا صحيح نہيں كہ جو وہ حكم دے اور جس سے منع كرے اور جسے مستحب كہے اس كى مانى جائے، يہ حق صرف رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہے، اب تك مسلمان علماء كرام سے دريافت كرتے رہتے ہيں، كبھى اس كى اور كبھى اس كى بات مان ليتے اور تقليد كرتے ہيں.
جب مقلد كسى مسئلہ ميں تقليد كر رہا ہے اور وہ اسے اپنے دين ميں زيادہ صحيح ديكھتا، يا قول كو زيادہ راجح سمجھتا ہے تو يہ جمہور علماء كے اتفاق سے جائز ہے، اسے كسى نے بھى حرام نہيں كہا، نہ تو امام ابو حنيفہ، اور نہ ہى مالك اور شافعى اور احمد رحمہم اللہ نے"
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 382 ).
اور شيخ علامہ سليمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بلكہ مومن پر حتماً فرض ہے كہ جب اسے كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پہنچے اور اس كے معنى كا علم ہو جائے چاہے وہ كسى بھى چيز ميں ہو اس پر عمل كرے، چاہے وہ كسى كے بھى مخالف ہو، ہمارے پروردگا تبارك و تعالى اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہى حكم ديا ہے، اور سب علاقوں كے علماء اس پر متفق ہيں، صرف وہ جاہل قسم كے مقلدين اور خشك لوگ، اور اس طرح كے لوگ اہل علم ميں شامل نہيں ہوتے "
جيسا كہ اس پر ابو عمر بن عبد البر وغيرہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ يہ اہل علم ميں سے نہيں "
ديكھيں: تيسير العزيز الحميد ( 546 ).
اس بنا پر كوئى حرج نہيں كہ مسلمان شخص كسى معين مذہب اور مسلك كا تابع ہو، ليكن جب اس كے ليے اس كے مذہب كے خلاف حق واضح ہو جائے تو اس كے ليے حق كى اتباع كرنا واجب ہو گى.
دوم:
رہا ابن حزم رحمہ اللہ كا مسئلہ تو وہ امام اور مجتھد تھے اور وہ تقليد كو حرام قرار ديتے ہيںن اور وہ كسى ايك امام كے بھى تابع اور پيروكار نہ تھے، نہ تو امام احمد كے اور نہ ہى كسى دوسرے امام كے، بلكہ وہ اپنے دور اور اب تك كے اہل ظاہر كے امام تھے، ہو سكتا ہے ان كو امام احمد كى طرف منسوب كرنا ( اگر يہ صحيح ہو ) عقيدہ اور توحيد كے مسائل ميں ہے، اس پر كہ اس كے ہاں اسماء و صفات ميں بہت سارى مخالفات پائى جاتى ہيں.
ابن حزم كى سيرت كا مطالعہ كرنے كے ليے سير اعلام النبلاء ( 18 / 184 - 212 ) كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کبھی کسی سے تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق بھی ہواہے یاسیدھے یہیں فورم پرتشریف لائے ہیں؟
ذراجملہ لکھنے سے پہلے اس کا ربط بھی جان لیں
پہلاجملہ ہے

دوسراجملہ ہے

تیسراجملہ ہے

ان تینوں میں ربط کیاہے؟
اورمیں نے جوسوال کیاتھااس کااس سے کیاتعلق ہے۔

آپ نے چیلنج کیاتھاکہ کسی صحابی سے تقلید کا کوئی لفظ ثابت کردو وہ کام تلمیذ بھائی کرچکے ہیں!
پھرمیں نے کہاکہ
جب تقلید پر بات ہونی ہے توپھر تقلید کے تعلق سے اپنانظریہ بیان کردیں
اس پر آپ نے علماء احناف کے اقوال گرداننے شروع کردیئے۔
مجھے یہ سمجھنے میں توحیرت ضرور ہے کہ آپ کو تقلید کی اپنے علماء کی پیش کردہ تعریف پیش کرنے میں کیوں شرم آرہی ہے اوربار بار علماء احناف کے دامن میں چھپنے کی سعی کی جارہی ہے۔لیکن چونکہ آپ مدرسہ سے سیدھے یہیں تشریف لائے ہیں اس لئے نیم پختگی تحریر اورانداز تحریردونوں میں نمایاں ہے۔

میرے سوال کے جواب کہ تقلید کی تعریف کیجئے اورتقلید اوراتباع کے مابین کیافرق بیان کیجئے
اس سوال کے ایک حصے کا جواب توعلماء احناف کی گردن پر رکھ کر دے دیا۔
سوال یہ ہے کہ آپ کو علماء احناف کی صرف تقلید کی پیش کردہ تعریف قبول ہے یاپھر تقلید کاوہ جوحکم بیان کرتے ہیں وہ بھی قبول ہے۔
اگرتقلید کی پیش کردہ تعریف اورتقلید کابیان کردہ حکم دونوں قبول ہے توپھرتحریر کیجئے
اوراگرتقلید کی صرف تعریف قبول ہے تقلید کا حکم قبول نہیں ہے توایسی دورنگی کی ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے یانہیں اس کی وضاحت پیش کیجئے۔اوریہ بھی کہ آپ کو اس پر کیوں مجبورہوناپڑا۔

مزید یہ کہ آپ نے گزشتہ مراسلہ میں تقلید کی یہ تعریف پیش کی تھی

اولاتویہ تعریف کتنی جامع ہے اس کے تعلق سے ماضی میں رفیق طاہر صاحب کے ساتھ تبادلہ خیال میں واضح کرچکاہوں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ رفیق طاہر صاحب کے خیال کی تقلید کرنے والے تقلید پر بات کرتے ہیں۔یاللعجب

سوال یہ ہے کہ ابن ہمام نے تقلید کی جوتعریف پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی غیر کے قول پر دلیل کے بغیر عمل کرلینا
اس تعریف سے یہ کیسے لازم آیاکہ کتاب وسنت کے خلاف کسی کا قول مان لینا
اس تلازم کو ثابت کرنابھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اسے ثابت کریں۔یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگرکوئی چیز نیلی نہیں ہوگی توپیلی ہی ہوگی لال بھی ہوسکتی ہے ہری بھی ہوسکتی ہے کچھ اوربھی ہوسکتی ہے۔
جمشید بھائی نے کہا ہے
اوراتباع اورتقلید میں کیاجوہری فرق ہے؟

اس سے بھی آپکو سمجھ آ جائے گا -انشا اللہ

اتباع اور تقلید میں فرق
ابوالاسجدصدیق رضا۔کراچی

اس مضمون میں اتباع اور تقلید میں جوبنیادی فرق ہے وہ واضح کیا گیا ہے۔سردست اس مضمون کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالی کے مقرر کردہ آخری امام محمد رسول اللہﷺ کی اطاعت اور لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے اماموں کی تقلید میں کیا فرق ہے؟مضمون میں مختلف پہلو سے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔

پہلا فرق:اطاعت رسولﷺ کا حکم الہی

اللہ تعالی فرماتے ہیں
''واطيعوا الله واطيعوا الرسول واحذروا فان توليتم فاعلموا انما علي رسولنا البلغ المبين''( المائدہ:92)
اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو، اگر تم (ان کی اطاعت سے) روگردانی کروگے تو جان لو کہ ہمارے رسول ﷺ کی ذمہ داری تو بس صاف صاف پہنچادینا ہے۔

دوسرا فرق:اللہ تعالی کی محبت اور مغفرت کی ضمانت
اللہ تعالی فرماتے ہیں
''قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفرلكم ذنوبكم والله غفوررحيم''(آل عمران:31)
اے نبیﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا،بےشک اللہ تعالی معاف کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
کس قدر فضیلت ہے،اتباع رسولﷺ کی کہ آپ ﷺ کی اتباع کے بغیر اللہ تعالی کی محبت کا دعوی قابل قبول نہیں ۔اس دعویٰ کے صدق کےلیے جس دلیل کی ضرورت ہے وہ دلیل رسو ل اللہ ﷺ کی اتباع ہے۔

تیسرا فرق:اطاعت رسولﷺ اللہ تعالی کی اطاعت ہے
اللہ تعالی فرماتے ہیں
''من يطع الرسول فقد اطاع الله''(النساء:80)
جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی پس اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
یہ ایک عظیم فضیلت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو اپنی ہی اطاعت وفرمانبرداری قرار دیا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یا احادیث مبارکہ میں لوگوں کے مقرر کردہ امام کی تقلید کو اپنی اطاعت وفرمانبرداری نہیں کہا۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کا بس صرف ایک ہی ذریعہ ہے ،ایک ہی راستہ ہے،ایک ہی طریقہ ہے کہ رسولﷺ کی اطاعت کی جائے۔

چوتھا فرق:قبولیت عمل کی یقین دہانی
يايها اللذي امنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول ولا تبطلوا عمالكم (محمد33)
اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔
جو عمل اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کے مطابق نہ ہو وہ عمل باطل ہے،اس کی کوئی فضیلت ہے نہ کوئی ثواب ،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''من عمل عملاً ليس عليه امرنا فهو رد'' (صحیح مسلم)
جس کسی نے کوئی ایسا عمل یا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود ہے،یعنی نامقبول ہے اسے رد کر دیا جائے گا۔
پانچواں فرق:فیصلۂ رسول اللہﷺ کاحتمی و ابدی ہونا
''وما كان لمومن ولا مومنة اذا قضي الله ورسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ومن يعص الله ورسوله فقد ضل ضللا مبينا'' (الاحزاب36)
کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کےر سولﷺ کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ کسی مومن کے پاس اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ''فیصلے'' کے آجانے کے بعد کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اس کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ اسے صدق دل سے تسلیم کرلے،ورنہ وہ گمراہی میں مبتلا ہوجائے گا۔یہ شان ہے اللہ کے مقررک ردہ ''امام '' کی اور حق کی یہی شان ہوتی ہے۔اس کے برعکس ''خود ساختہ امام'' کے فیصلوں کی نہ تو یہ شان ہے نہ ہی اہمیت۔اور خود ان کے مقلدین کو بھی اس کا اعتراف ہے۔

چھٹا فرق:درد عذاب کی وعید
''فليحذر اللذين بخالفون عن امره ان تصيبهم فتنة او يصيبهم عذاب اليم'' (النور،63)
پس (رسول اللہﷺ) کے امر کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پردرد ناک عذاب نہ آجائے
اس آیت میں اللہ کے مقرر کردہ امام محمدﷺ کے امر یعنی حکم یا فعل کی مخالفت کرنے والے یا اس سے پہلو تہی کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔یہ شان صرف آپﷺ کے حکم یا فعل کی ہے ،لوگوں کے مقرر کردہ امام کی تقلید کی یہ شان نہیں بلکہ وہاں بلاخوف وخطران کے امرونواہی کی مخالفت نہ صرف کی جاسکتی ہے بلکہ اعلانیہ طور پر کی گئی ہے۔جس کی بہت سی مثالیں آپ فقہ کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

ساتواں فرق:ایمان کا دارومدار
اللہ تعالی فرماتے ہیں
''فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شخر بینہم ثم لایجدوا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما'' (النساء:65)
(اے رسولﷺ) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے (تمام) باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو بھی فیصلہ آپ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سربسرتسلیم کرلیں
یہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ہی خصوصیت ہ آپ کے علاوہ کسی اور شخص کی بات کا انکار کفر نہیں

آٹھواں فرق،شرعی حجت
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بار بار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واتباع یعنی فرمانبرداری وپیروی کا حکم دیا ۔گزشتہ پوسٹس میں اس کی کئی دلیلیں گزری ہیں ،کوئی مسلم اس سے انکار نہیں کرسکتا۔
نواں فرق: حکم اطاعت وفرمانبرداری
اللہ تعالی فرماتے ہیں
''وان هذا صراطي مستقيما فاتبعوه'' (الانعام)
(اے نبیﷺ) بےشک یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اس کی اتباع کرو
اس کے علاوہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر نبی کریمﷺ سے فرمایا گیا کہ آپ لوگوں کو اپنی اطاعت واتباع ،فرمانبرداری وپیروی کا حکم دیں۔اس سلسلے میں احادیث بھی کافی وارد ہوئی ہیں۔

دسواں فرق:مکمل اطاعت
اللہ تعالی فرماتے ہیں
''وما اتكم الرسول فخذوه وما نهكم عنه فانتهوا واتقواالله ان الله شديد العقاب'' (الحشر:7)
اور جو تمہیں رسولﷺ دیں اسے لے لو اور جس چیزز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو اور تم اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ کا حکم عام ہے کہ جو حکم بہی رسول اللہ ﷺ دیں اس پر عمل کرنا ہے اور جس چیز سے بھی منع فرمائیں اس سے رک جانا ہے۔اس تسلسل میں تقوی کا حکم دینا ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرنا اور آپ کی نافرمانی نہ کرنا تقوی کا لازمی تقاضا ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرنا ، آپ کے حکم کو قبول نہ کرنا اور آپﷺ کی نہی اور ممنوعہ امور کی خلاف ورزی کرنا اللہ رب العزت کے عذاب کا موجب ہے

گیارہواں فرق:ترک اطاعت ہلاک وبربادی
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا
''قد تركتكم علي البيضاء ليلها كنهارها لايزيغ عنها بعدي الا هالك''(سنن ابن ماجہ)
(لوگو) ! میں تمہیں ایسے دین پر چھوڑے جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے میرے بعد اس سے صرف وہ شخص گریز کرے گا جسے ہلاک ہونا ہے۔
یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسے دین پر چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں اس میں کہیں اندھیرا نہیں روشنی ہی روشنی ہے۔روشنی میں ہر چیز واضح نظر آتی ہے کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی کہ جس کا دیکھنا مشکل ہو اس طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کو جس دین پر چھوڑا اس دین کی ہر ہر بات انتہاہی روشن ہے واضح ہے، اس میں کہیں پیچیدگیاں،موشگافیاں اور الجھنیں نہیں ہیں،نہہی یہ بہت زیادہ مشکل اور کانٹوں بھری وادی ہے،جیساکہ بعض لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں

بارہواں فرق:اللہ تعالی کی خاص حفاظت
اللہ تعالی فرماتے ہیں
''ولو تقول علينا بعض الاقاويل لاخذنا منه ياليمين ثم لقطعنا منه الوتين فما منك من احد عنه حجزين'' (الحاقۃ،44 تا 47)
اور اگر (ہمارے نبیﷺ) بعض باتیں گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیتے ہیں تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے پھر ہم ان کی شہہ رگ کاٹ ڈالتے پھر تم میں سے کوئی ہمیں اس (کام) سے روکنے والا نہ ہوتا
آج کوئی کوتاہ فہم نادان یہ ہر گز نہ سمجھے کہ یہرب الکریم کی اپنے منتخب آخری رسولﷺ کو ڈانٹ ڈپٹ ہے (نعوبالله من سوء الفهم) ہرگز نہیں۔یہ ڈانٹ ڈپٹ نہیں یہ تو رب الکریم کی اپنےر سولﷺ کو حق وصدق کی نازل کردہ ٹھوس ،واضح اور مضبوط برہان ودلیل ہے آپ کے مخالفین کے الزام کا ایک دندان شکن جواب ہے ۔جو بدبخت آپ پر بہتان طرازی کرتے تھے کہ آپ ﷺ یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ لائےہیں،ان کی ناپاک زبانیں بند کرنے کےلیے ایک مسکت ولاجواب دلیل ہے۔جس کے سامنے وہ بالکل عاجز وبےبس ہوچکےہیں۔واللہ الحمد

تیرہواں فرق:خطا پر باقی رہنا
اللہ تعالی فرماتے ہیں
''وما ينطق عن الهوي ان هو الا وحي يوحي''(النجم،:3 و4)
اور یہ (بنیﷺ) اپنی طرف سےنہیں بولتے وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبیﷺ اپنی مرضی و خواہش سے نہیں بولتے بلکہ دین کے سلسلے میں آپ ﷺ نے صرف وہی تعلیمات ارشاد فرمائیں جن کا اللہ سبحانہ وتعالی نے آپﷺ کو بذریعہ وحی حکم دیا اور اگر زندگی میں چند ایک بار بتقاضائے بشریت ایسی کوئی بات سامنے آئی بھی تو اللہ رب العالمین نے فوراً وضاحت کلےیے وحی نازل فرمائی ۔

چودہواں فرق:ہر ہر بات حق
سیدنا عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جوبات سنا کرتا اسے ،یاد کرلینے کے ارادے سے لکھ لیا کرتا تھا۔قریش کے بعض لوگوں نے مجھے اس عمل سے روکا اور کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ سےسنی ہوئی ہر بات نہ لکھا کرو جبکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں (بتقاضائے بشریت) آپ کبھی خوشی میں ہوتے ہیں اور کبھی ناراضی یا غصے میں ۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں میں نے لکھنا چھوڑ دیا اوررسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اپنی بابرکت انگلی سے اپنے مبارک منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
''اكتب فواللذي نفسي بيده مايخرج منه الا حق'' (سنن ابودادؤ)
لکھو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے منہ سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا ہے۔


فَاهْرِبْ عَنِ التَّقْلِيْدِ فَهُوَ ضَلاَلَةٌ ........ اِنَّ الْمُقَلِّدَ فِيْ سَبِيْلِ الْهَالِكِ
تقلید سے دور بھاگو کیونکہ یہ گمراہی ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ مقلد ہلاکت کی راہ پر گامزن ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
سالم بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((لاتمنعوا نساء کم المساجد اذا استأذنتکم الیھا))
''اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو جب و ہ تم سے اجازت مانگیں تو بلال بن عبداﷲ رحمہ اﷲ نے کہا ۔(واﷲ لنمنعھن) ''اﷲ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے'' سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے انہیں بہت برا بھلا کہا اتنا کہ میں نے انہیں کبھی ایسا کہتے نہیں سنا تھا اور پھر کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ ہم روکیں گے؟''

بخاری ومسلم میں ہے کہ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں مار رہا تھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے سے منع کیا ہے یا اسے ناپسند کیاہے اس لیے کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ دشمن کو مارا جاسکتا ہے ۔سوائے اس کے کہ کسی کی آنکھ پھوڑی جائے یا دانت توڑ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو کنکریاں مارتے دیکھا تو
عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ وہ کنکریاں مارنے سے منع کرتے تھے یا ناپسند کرتے تھے اور تم پھر بھی کنکریاں مارہے ہو ۔میں تم سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں گا۔

ابوالسائب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ ہم ایک مرتبہ وکیع رحمہ اﷲ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مخاطب کرکے کہا (جو اہل الرائے میں سے تھا)کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعار کیا ہے(چھری یا کسی نوکدار چیز سے اونٹ یا قربانی کے جانور کو زخمی کرکے نشان لگانا کہ یہ بیت اﷲکے لئے وقف ہے)
اور ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلہ ہے ؟(مثلہ کہتے ہیں جنگ میں دشمن کے کسی آدمی کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک کاٹنا اس سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے) اس شخص نے جواب میں کہا کہ ابراہیم نخعی رحمہ ا ﷲ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں شعار مُثلہ ہے ۔ابوالسائب رحمہ اﷲ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وکیع رحمہ اﷲ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ نے کہا ہے ؟تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک تم اپنے اس قول سے رجوع نہ کرلو۔

(جامع الترمذی :۳/۲۵۰،والفقیہ والمتفقہ۱/۱۴۹)

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کبھی کسی سے تبادلہ خیال کرنے کا اتفاق بھی ہواہے یاسیدھے یہیں فورم پرتشریف لائے ہیں؟
ذراجملہ لکھنے سے پہلے اس کا ربط بھی جان لیں
پہلاجملہ ہے

دوسراجملہ ہے

تیسراجملہ ہے

ان تینوں میں ربط کیاہے؟
اورمیں نے جوسوال کیاتھااس کااس سے کیاتعلق ہے۔

آپ نے چیلنج کیاتھاکہ کسی صحابی سے تقلید کا کوئی لفظ ثابت کردو وہ کام تلمیذ بھائی کرچکے ہیں!
پھرمیں نے کہاکہ
جب تقلید پر بات ہونی ہے توپھر تقلید کے تعلق سے اپنانظریہ بیان کردیں
اس پر آپ نے علماء احناف کے اقوال گرداننے شروع کردیئے۔
مجھے یہ سمجھنے میں توحیرت ضرور ہے کہ آپ کو تقلید کی اپنے علماء کی پیش کردہ تعریف پیش کرنے میں کیوں شرم آرہی ہے اوربار بار علماء احناف کے دامن میں چھپنے کی سعی کی جارہی ہے۔لیکن چونکہ آپ مدرسہ سے سیدھے یہیں تشریف لائے ہیں اس لئے نیم پختگی تحریر اورانداز تحریردونوں میں نمایاں ہے۔

میرے سوال کے جواب کہ تقلید کی تعریف کیجئے اورتقلید اوراتباع کے مابین کیافرق بیان کیجئے
اس سوال کے ایک حصے کا جواب توعلماء احناف کی گردن پر رکھ کر دے دیا۔
سوال یہ ہے کہ آپ کو علماء احناف کی صرف تقلید کی پیش کردہ تعریف قبول ہے یاپھر تقلید کاوہ جوحکم بیان کرتے ہیں وہ بھی قبول ہے۔
اگرتقلید کی پیش کردہ تعریف اورتقلید کابیان کردہ حکم دونوں قبول ہے توپھرتحریر کیجئے
اوراگرتقلید کی صرف تعریف قبول ہے تقلید کا حکم قبول نہیں ہے توایسی دورنگی کی ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے یانہیں اس کی وضاحت پیش کیجئے۔اوریہ بھی کہ آپ کو اس پر کیوں مجبورہوناپڑا۔

مزید یہ کہ آپ نے گزشتہ مراسلہ میں تقلید کی یہ تعریف پیش کی تھی

اولاتویہ تعریف کتنی جامع ہے اس کے تعلق سے ماضی میں رفیق طاہر صاحب کے ساتھ تبادلہ خیال میں واضح کرچکاہوں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ رفیق طاہر صاحب کے خیال کی تقلید کرنے والے تقلید پر بات کرتے ہیں۔یاللعجب

سوال یہ ہے کہ ابن ہمام نے تقلید کی جوتعریف پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی غیر کے قول پر دلیل کے بغیر عمل کرلینا
اس تعریف سے یہ کیسے لازم آیاکہ کتاب وسنت کے خلاف کسی کا قول مان لینا
اس تلازم کو ثابت کرنابھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
اسے ثابت کریں۔یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگرکوئی چیز نیلی نہیں ہوگی توپیلی ہی ہوگی لال بھی ہوسکتی ہے ہری بھی ہوسکتی ہے کچھ اوربھی ہوسکتی ہے۔
جمشید بھائی نے کہا ہے
آپ نے چیلنج کیاتھاکہ کسی صحابی سے تقلید کا کوئی لفظ ثابت کردو وہ کام تلمیذ بھائی کرچکے ہیں!

جمشید بھائی آپ پوسٹ کو دوبارہ دیکھ لے میں دوبارہ پوسٹ کر دیتا ہو -

میرا سوال یہ تھا

تمام مقلدیں کو کھلا چیلنج ہے (کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں) پوسٹ پر بھی یہ ہے
1235124_517001541708441_593572868_n (1).jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ماسٹر امین اوکاڑوی کے مطابق شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب قرۃ العینین میں صحابہ کو دو گروہوں میں منقسم بتلایا ہے۔ مجتہد اور مقلد۔
اسی طرح امام غزالی الستصفی نامی کتاب جلد دوم سے یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ تقلید پر سب صحابہ کا اجماع ہے۔
اور اسی طرح عقد الجید ص 36 اور 39 کے حوالے سے بھی یہ بات ذکر کی ہے کہ دور صحابہ اور تابعین سے تقلید تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔
ان شبہات کا مدلل ازالہ فرما دیں۔
شکریہ

صحابہ کرام کو مقلد کہنا بہتان عظیم ہے
کیونکہ وہ وحی الہی کی پیروی کرتے تھے اور اسکی مخالفت سے ڈرتے تھے
جبکہ تقلید تو ہے ہی وحی الہی کی مخالفت کا نام
یعنی تقلید کی جامع و مانع تعریف کچھ یوں ہے :
قبول قول ینافی الکتاب والسنۃ
کتاب وسنت کے منافی قول کو ماننا
اور یہی بات ابن ہمام الحنفی نے کہی ہے لیکن ذرا بل ڈال کر
وہ لکھتے ہیں
التقليد العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة.
یعنی ایسے شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا جس کا قول حجج شرعیہ میں سے نہ ہو۔
اس تعریف پر غور کرنے سے نتیجۃ سابقہ تعریف ہی سامنے آتی ہے
کیونکہ جب ایسے شخص کی بات کو مانا جائے گا جسکی بات کتاب وسنت نہیں اور کتاب وسنت کی کوئی دلیل بھی اس کے قول پر موجود نہیں تو یقینا وہ قول کتاب وسنت کے مخالف ہی ہوگا کیونکہ اگر کتاب وسنت کے مطابق ہو تو کتاب وسنت کی کوئی دلیل اس پر ضرور ہوتی ہے
لہذا ثابت ہوا کہ تقلید کی جامع ومانع تعریف جو ابن ہمام الحنفی نے تحریر میں کی ہے اسکا خلاصہ یا سادہ لفظوں میں مفہوم یہی بنتا ہے کہ کتاب وسنت کےخلاف کسی کے قول پر عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے ۔
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسی ہستیوں کے بارہ میں ایسا ذہن رکھنا کس چیز کی غمازی کرتا ہے میں اسے بلا تبصرہ چھوڑتا ہوں کہ
عدل والے خود ہی لکھ لیں گے کہانی اس افسانے کی

http://www.urduvb.com/forum/archive/index.php/t-16460.html
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تقلید کی شروعات:

وھذاامرانما ظھر فی القرن الرابع فقط مع ظھور التقلید و انما ظھر القیاس التابعین علی سبیل الرای و الاحتیاط و الظن لا علی ایجاب حکم بہ و الا انہ حق مقطوع۔
(الاحکام فی اصول الاحکام ۔ ج:2، ص:38)
''قیاس اور تقلید کا ظھور چوتھی صدی میں ہوا تابعین کے دور میں مقلد صرف احتیاط کی بنا پر تھا نہ اس لئے کہ اس (قیاس) کو واجب العمل سمجھا جاتا تھا ۔ اسے حق کا درجہ حاصل نہیں تھا بلکہ وہ (قیاس) تو صرف ظن کی حد تک تھا۔

شیخ صالح العمری ان الفاظ میں تقلید کی تاریخ بیان کرتے ہیں
انما احدث بعد مائتی سنۃ من الھجرۃ و بعد فنا القرون التی اثنی علھیم الرسول صلی اللہ علیہ و سلم
(الایقاظ ھم اولی الابصار ، ص:75)
"تقلید کی بدعت ہجرت کے دوسوسال بعد معرض وجود میں آئی جبکہ خیرالقرون کا زمانہ گزر چکا تھا جس کی تعریف خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان مبارک سے فرمائی تھی "۔
 
Top