• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تواتر کا مفہوم اور ثبوتِ قرآن کا ضابطہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ضابطہ
امام سیوطی رحمہ اللہ کے بقول جس شخص نے اس سلسلہ میں سب سے خوبصورت اور عمدہ تحقیق پیش کی ہے وہ امام القراء علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’ہر وہ قراء ات جو لغت عربی کی وجہ کے ساتھ موافق ہو، مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو(اوروہ موافقت خواہ حقیقی ہو یا تقدیری)نیزاس کی سند صحیح ہو تو یہ قراء ۃ صحیح ہے(وہ بذریعہ تواتر منقول ہو تویہ قراء ۃ متواتر اورقطعی ہے)اس کا انکار جائز نہیں ،بلکہ یہ حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا تھا۔لوگوں پر اس کوقبول کرنا واجب ہے …اور جب کسی قراء ۃ میں مذکورہ تین اَرکان میں سے کوئی ایک رکن بھی مفقود ہوگا تواس قراء ۃ پر ضعیفہ ،شاذہ یا باطلہ کا اطلاق ہو گا۔یہی مذہب سلف وخلف اَئمہ تحقیق کے نزدیک صحیح ہے۔اسی کی وضاحت امام دانی رحمہ اللہ ،مکی بن ابی طالب قیسی رحمہ اللہ،ابن عمار مہدوی رحمہ اللہ اورابوشامہ رحمہ اللہ نے کی ہے اوریہی سلف صالحین کا مذہب ہے ان میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف مروی نہیں ہے۔‘‘(منجد المقرئین:ص۱۵،النشر:۱؍۹)
یہ وہ معیار اورکسوٹی ہے جو اَئمہ قراء نے صحیح اورشاذ قراء ات میں امتیاز کرنے کے لئے قائم کی ہے کہ جس قراء ۃ میں مذکورہ تین اَرکان میں سے کوئی ایک بھی ناپید ہوگا، اسے قراء ت شاذہ قرار دیا جائے گا۔اس ضابطے کے اَرکان حسب ذیل ہیں:
(١) مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے ساتھ موافقت
(٢) عربی وجہ کے ساتھ موافقت
(٣) صحت سند
اب مذکورہ اَرکان ثلاثہ کی انتہائی مختصر تشریح ذیل کی سطور میں پیش کی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رکن اوّل
مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے ساتھ موافقت ہویعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف نقل کرکے مختلف علاقوں میں قراء صحابہ رضی اللہ عنہم کی معیت میں بھیجے تھے، کسی قراء ت کے صحیح ہونے کے لئے یہ معیار ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کے رسم کے مطابق ہو اور یہ مطابقت حقیقی طور پر بھی ہو سکتی ہے اوراحتمالی وتقدیری طورپر بھی ہوسکتی ہے۔
موافقت حقیقی کی مثال سورۃ توبہ میں ابن کثیررحمہ اللہ کی قراء ۃ’’جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ‘‘’من‘ کے اضافہ کے ساتھ ہے اور یہ اس مصحف میں ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مکہ کی طرف بھیجا تھا۔
موافقت تقدیری کی مثال سورۃ فاتحہ کی آیت’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘کے لفظ’ملک‘ میں دو قراء تیں ہیں الف کے ساتھ یعنی’مالک‘ اورالف کے بغیر یعنی’مَلِکِ‘ لیکن یہ لفظ تمام مصاحف عثمانیہ میں الف کے بغیر’مَلِکِ‘ لکھا ہوا ہے اب اس میں’مَلِکِ‘ کی قراء ت تورسم عثمانی کے ساتھ واضح اورحقیقی طورپر موافق ہے جبکہ’مٰلِکِ‘ کی قراء ۃ تقدیری طورپر موافق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رکن ثانی
عربی وجہ کے ساتھ موافقت ہو، مطلب یہ ہے کہ قراء ۃ ان قواعد عربیہ کے موافق ہو جو فصیح عربی کلام سے مشتق ہو اور ان ماہر ین علم نحو کی آراء سے مطابقت رکھتی ہو جو اپنے فن میں درجہ امامت پر فائزہیں۔ مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ نے مطلقاً موافقتِ عربی کواس سلسلہ میں معیار قراردیاہے جبکہ علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے’ولو بوجہ‘کی قید لگائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی لفظ یا جملے میں نحوی قواعد کے اعتبار سے متعدد وجوہ ہوں توقراء ت ان میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہونی چاہیے خواہ وہ وجہ درجہ فصاحت میں کم ہو یا اعلی یاوہ قواعد نحاۃ کے نزدیک متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ۔مثلاً امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ۃ’’وَاتَّقُوا اﷲَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہِ وَالأَرْحَام‘‘میں’الأرحام‘ جری حالت میں ہے اوریہ کوفیوں کے مذہب کے مطابق ’بہ‘ کی ضمیر مجرور پر عطف ہے یا بصریوں کے مذہب کے مطابق حرف جار کو دوبارہ لوٹایا گیا ہے، لیکن معلوم ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے یا’أرحام‘ کی تعظیم اورصلہ رحمی کی ترغیب دینے کے لئے قسم کی بنا پر زیر دی گئی ہے۔ تو یہاں امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ۃ میں دونوں وجہیں لغت کے اعتبار سے درست ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ کسی قراء ت کا تواتر(قطعیت) کی موجودگی میں عربی لغت کا کوئی قاعدہ اورقانون کسی قراء ت کو رد نہیں کرسکتا۔چنانچہ امام ابوعمرو بصری دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اَئمہ قراء حروفِ قرآن کے سلسلہ میں اس بات پر اعتماد نہیں کرتے کہ وہ لفظ لغوی لحاظ سے عام مستعمل ہے یاعربی قاعدہ کے زیادہ مطابق ہے بلکہ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ حرف نقل وروایت کے اعتبار سے صحیح ترین اورثبوت کے اعلی معیار پر ہو، کیونکہ قراء ۃ میں رسول اللہﷺسے اَئمہ تک کے سلسلہ تواتر(قطعیت)کی اتباع کی جائے گی اور اس کی طرف لوٹنا اور اسے قبول کرنا ضروری ہے۔‘‘(جامع البیان فی القراء ات السبع :ض؍۱۷۷/ب،بحوالہقراء ت شاذہ:۱۰۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن جزری رحمہ اللہ نے اس حقیقت کی صراحت ان الفاظ میں کی ہے کہ
’’تواتر(قطعیت)ہی درحقیقت قراء ۃ کی بہت بڑی بنیاد اورایک عظیم رکن ہے۔ لغت عربی کے ساتھ موافقت کے سلسلے میں محققین آئمہ کے نزدیک یہی مذہب مختار ہے ۔متعدد قراء ات ایسی ہیں جن کا بعض یا اکثر نحویوں نے انکار کیا ہے، لیکن ان کے اس انکار کا اعتبار نہیں کیاگیا ،بلکہ آئمہ سلف نے بالاتفاق ان قراء ات کوقبول کیا ہے۔‘‘ (النشر:۱؍۱۰)
اس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ وجۂ عربی کے ساتھ مطابقت کی شرط صحت سندیا تواتر (قطعیت) کی طرح ایسا رکن نہیں ہے کہ اس کو معیار قرار دیا جائے بلکہ یہ شرط تومزید حزم واحتیاط کے لئے لگائی گئی ہے تاکہ قراء اتِ شاذہ کی قراء ات متواتر ہ کے ساتھ آمیزش کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بندہوجائے ۔البتہ اس لحاظ سے اسے ایک ضابطہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ جو قراء ت تواترقطعیت)سے ثابت ہو وہ لازماً کسی نہ کسی عربی وجہ کے بھی مطابق ہو گی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رکن ثالث
کسی قراء ت کے صحیح ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ اس کی سند نہ صرف صحیح، متصل ہو بلکہ وہ تواتر(یعنی قطعی الثبوت خبر اور خبر واحدمحتف بالقرائن)سے ثابت ہواور ساتھ اس کو اَئمہ فن کے نزدیک قبولیت عامہ بھی حاصل ہویہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن خبر واحدمحتف بالقرائن سے بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ قوت استدلال میں خبر متواتر کے مترادف ہی ہوتی ہے ،اور علم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہے ،اس لحاظ سے قرآن کے ثبوت اورصحیحین کے ثبوت میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ دونوں علم قطعی والی خبر سے حاصل ہوتے ہیں۔چنانچہ اَئمہ فن ثبوت قراء ت کے لئے جب بھی تواتر کا لفظ بولتے ہیں تواس سے مراد یہی ہے کہ وہ قطعی الثبوت خبر سے یا خبر واحد محتف بالقرائن سے منقول ہو،کیونکہ اگر اس تواتر سے تواتر عددی مراد لیا جائے تو پھر پورے قرآن کوثابت کرنا اور بعید از امکان ہو جائے گا۔
اسی وجہ سے علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے بھی منجد المقرئین میں تواتر کی اصل تعداد رواۃ کی بجائے حصولِ علم کو قرار دیا ہے۔پس علماء قرآن کومتواتر کہتے ہیں تو ان کی تواتر سے مراد تعداد رواۃ نہیں ہوتی بلکہ علم یقینی کا حصول ہوتا ہے۔ امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جان لو!کتاب اللہ سے مراد وہ قرآن ہے جو کہ اللہ کے رسول1پر نازل کیا گیا ہے مصاحف کے گتوں کے درمیان لکھاگیاہے اورہم تک معروف احرف سبعہ کے ساتھ تواتر سے منقول ہے۔‘‘(أصول السرخسی:۲۷۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’کتاب اللہ کی تعریف یہ ہے کہ جومصحف کے دوگتوں کے درمیان معروف أحرف سبعہ کے ساتھ ہم تک متواتر منقول ہے۔‘‘ (المستصفی:۱؍۸۱)
ان دونوں جلیل المرتبت فقہاء نے قرآن کی تعریف میں قراء ات متواترہ کو بھی شامل کیا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قراء ات متواترہ کا تواتر،تعداد رواۃ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ایسی سند کی بنیاد پر ہے جو یقینی وقطعی طور پر ثابت ہے۔
اسی طرح تواتر کی طرف امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ،امام الحرمین رحمہ اللہ،اورامام ابن الاثیررحمہ اللہ وغیر ہ اہل علم نے’’ما أفاد القطع‘‘کے ساتھ اِشارہ کیا ہے۔
ثبوت قراء ات کے سلسلہ میِں ایک تواتر وہ ہے جو کہ عام طور پر نہیں پایا جاتا اس لیے عام اہل الحدیث اس سے واقف بھی نہیں۔ اسے اہل قراء ات کی اصطلاحات میں تواتر طبقہ کا نام دیا جاتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن کریم متعبد بالتلاوۃ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خواص میں پڑھا پڑھایا جاتا رہا ، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ کے رسولﷺنے قرآن پڑھایا توصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہر شخص کا تعلق قرآن سے تعلق رہا ، یہی حال تابعین وتبع تابعین میں رہا حتی کہ آج تک امت میں سے ہر آدمی قرآن کو پڑھتا ہے جبکہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے عام لوگوں کا علم حدیث سے صرف اتنا تعلق رہا کہ اہل علم سے مسائل پوچھتے رہے اورحدیث کے باقی علم کو اہل الحدیث کے سپرد کر کے اپنے دنیاوی امور میں مشغال ہو رہے ۔ اس اعتبار سے اگر جائزہ لیا جائے توقرآن کریم صحابہ ، تابعین وتبع تابعین سے لے کر آج تک ہر دور میں پڑھا جارہا ہے اورمختلف ممالک میں ہمیشہ سے مختلف قراء ات رائج رہی ہیں چنانچہ وہ لوگ جو مدارس میں قراء ات ِ قرآنیہ کے محافظین ہیں اگر وہ ہر دور میں ہزاروں میں رہے ہیں تو معاشرہ میں انہی قراء ات کو پڑھنے والے عوم الناس ہر زمانہ میں لاکھوں، کروڑوںرہے ہیں۔ اب مثلاً مدارس میں روایت حفص سینکڑوں لوگ اسانید سے اخذ کر کے آگے نقل کر رہے ہیں جبکہ صرف پاکستانی معاشرہ میں سولہ کروڑ عوام بھی اسی روایت پر اختلاف اتفاقی تعامل سے عمل پیدا ہے یہ مدارس میں پڑھائی جانے والی روایت حفص کا انتہائی قرینہ کہ اس بنیاد پر خبر واحد کو وہی تقویت مل جاتی ہے جو تلقی بالقبول کے ذریعے سے قراء ات کو ملی ہے آج اگر امت میں ساری قراء تیں متداول نہیں ہیں تو بھی اسی قسم کا تواتر بڑا فائدہ دہے کیونکہ قراء عشرتک تو اہل فن کے ہاں بھی تواتر اسنادی موجود ہے معاملہ اس کے بعد کا ہے اور قراء عشر کے دور میں تمام سبعہ احرف عوام وخواص میں متداول تھے چنانچہ آئمہ عشر تا رسول اللہﷺتواتر طبقہ موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غرض یہ کہ قراء ات کی صحت کے لئے اس کی سند کا اتصال اور نقل ہونا تمام اَئمہ ،قراء اورفقہاء کے نزدیک ایک مسلمہ رکن اور بنیادی عنصر ہے البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ قراء ات کے لئے صرف صحت سند ہی کافی ہے یا تواتر ضروری ہے ۔ اس کے متعلق ابن جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بعض متاخرین نے اس میں تواتر کی شرط لگائی ہے سند کی صحت کو کافی نہیں سمجھا ان کا خیال یہ ہے کہ قرآن تواتر ہی سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘(النشر :۱؍۱۳)
لیکن ابن جزری رحمہ اللہ نے متاخرین کی اس رائے کو ناپسند کیا ہے لکھتے ہیں:
’’اس میں جو خرابی ہے وہ ظاہر ہے، کیونکہ جب کوئی قراء ت تواتر سے ثابت ہو جائے توپھر باقی دو اَرکان یعنی موافقت رسم مصحف اورعربی قاعدہ کی موافقت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس لیے کہ جواختلافی وجوہ نبی کریمﷺسے بطریق تواتر ثابت ہیں ان کا قبول کرناواجب اور ان کی قرآنیت کا پختہ یقین کرنا لازمی ہے خواہ وہ رسم کے موافق ہو یامخالف اورجب تمام وجوہ میں تواتر کی شرط لگا دیں گے تو بہت سی وہ اختلافی وجوہ ختم ہو جائیں گی جوقراء سبعہ سے ثابت ہیں۔‘‘(حول القراء ات الشاذۃ:۳)
واضح رہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ نے حقیقت تواتر یا تصور تواتر کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو قراء ا ت کے ثبوت کے لئے تواترِعددی یاتواتر اسنادی کی شرط لگاتے ہیں۔پہلے وہ خود بھی اس موقف کے قائل تھے مگر بعد میں جب اس کی خرابی ظاہر ہوئی توانہوں نے اَئمہ سلف کے موقف کو اپنا لیا ۔اس لحاظ سے انہوں نے ان تمام قراء ات کے تواتر کومحفوظ کر دیا ہے جو خبر واحدمحتف بالقرائن سے ثابت ہیں اورعلم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ر ہے کہ ثبوت قراء ات کا ایک چوتھا ذریعہ بھی ہے جو تواتر کی ایک مخصوص قسم ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کا ایک ایک کلمہ، ایک ایک آیت او رایک ایک سورت کو بھی تواتر حاصل ہے۔ لیکن یہ تواتر سند وعدد والا تواتر نہیں بلکہ وہ تواتر ہے جسے محدثین ’تواتر‘ کے مطلق نام کے مصداق کے طور پر پہنچانتے وبیان کرتے ہیں۔ تواتر اسنادی کے بارے میں تو پیچھے واضح ہو چکا ہے کہ محدثین اس کے انکاری ہیں ، انہوں نے زیادہ سے زیادہ اس کی اگر کوئی مثال پیش کی بھی ہے تو وہ صرف ایک حدیث ’’ من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار ‘‘ ہے ۔ بلکہ صحیح بات یہہے کہ یہ حدیث بھی تواتر اسنادی کی تعریف پر پورا نہیں اترتی ، کیونکہ دیگر روایات کی طرح اس روایت کے بھی ہر طبقہ میں کثرت عدد موجود نہیں ۔ بلکہ متعدد اخبار آحاد میں اس حدیث کے مذکورہ الفاظ مشترک طور پر وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت ان مشترکہ الفاظ کے اتفاق کے ساتھ درجہ یقین کو پہنچتی ہے۔ اس وضاحت کی رو سے یہ روایت بھی تواتر اسنادی کے بجائے تواتر اشتراکی ہی ہے ۔بعض لوگوں نے مکمل روایت میں الفاظ کے اشتراک کی بنا پر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر لفظی اور روایات میں قدر اشتراک کی بناپر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر معنوی کا نام دیا ہے۔ بعض لوگوں نے مذکورہ تصور کی بنا پر اخبار آحاد کی رو سے ثابت ہونے والی پانچ دیگر روایات کو بھی تواتر لفظی قرار دیا ہے جن میں ایک روایت ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ (صحیح بخاری:۴۹۹۱) بھی ہے۔ ان روایات کی تفصیل کے لئے الوجیز فی اصول الفقہ ازڈاکٹر عبد الکریم زیدان کے اردو ترجمہ جامع الاصول از ڈاکٹر احمد حسن، میں بحث سنت کا مطالعہ فرمائیں۔ اسی طرح متعدد طرق میں مشترکہ طور پر’’ إنما الأعمال بالنیات‘‘ (صحیح البخاری:۱) کے الفاظ موجود ہیں اگرچہ یہ روایت اپنی اصل کے اعتبار سے خبر غریب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی اشتراکِ الفاظ کے بنا پر بعض حضرات نے اس روایت کو بھی ’’ من کذب علی متعمداً‘‘ کی طرح متواتر لفظی بنایا ہے اور بعض لوگ اس روایت کو متواتر معنوی شمار کرتے ہیں،کیونکہ اس روایت میں وارد’’ نیت‘‘ کا مضمون مختلف روایات میں آیا ہے جن میں الفاظ کے اختلاف سے قطع نظر نیت کی فرضیت مشترک ہے۔ بعض محدثین تواتر اشتراکی کو تواتر معنوی بھی کہتے ہیں۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ قدر مشترک کا معاملہ کسی مضمون میں بھی ہو سکتا ہے اور متعدد روایات میں ثابت الفاظ میں بھی۔ اس تناظر میں اگر ہم قراء ات عشرہ متواترہ صغریٰ وکبریٰ کا جائزہ لیں تو یہ تمام آیاتِ قرآنیہ تواتر الاشتراک فی الفاظ امر الاشتراک فی الآیات کے اعتبار سے متواتر ہیں۔ مثال سے یہ بات یوں سمجھیں کہ قرآن کے کسی لفظ کو اہل قراء ات کے ہاں چھ سے زائد اندازوں سے نہیں پڑھاگیا۔ جبکہ قراء ات قرآنیہ متواترہ اس طرق کے ساتھ مروی ہیں۔ گویا قرآن کریم آج امت کے پاس سبعہ احرف سمیت اسی اسانید کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی مجموعہ قراء ات اس طرق سے ثابت ہیں تو ۹۵ فیصد متفق علیہ اسی روایات میں مشترک الفاظ کے اتفاق کے ساتھ متواتر لفظی بنے۔ علی ہذا القیاس ،جو کلمہ چھ اندازوں سے پڑھا گیا ہے تو وہ تقریباً تیرہ تیرہ اخبار آحاد میں موجود مشترک الفاظ کی بنا پر متواتر لفظی میں شامل ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یاد رہے کہ چھ اندازوں سے جن کلمات کو پڑھاگیا ہے وہ ایک دو ہیں۔جنہیں پانچ طرح سے پڑھاگیا ہے وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں۔ چار طرح سے پڑھے جانے والے کلمات مزید کچھ زیادہ ہیں۔ اکثر کلمات میں دو یا تین طرح ہی سے پڑھنے کا اختلاف مروی ہے۔ الغرض اسی اعتبار سے دیکھیں تو مروجہ قراء ات قرآنیہ عشرہ متواترہ میں موجود تمام آیات، کلمات اور سؤر متواتراً ثابت ہیں اور محدثین کے ہاں تواتر سے بالعموم تواتر الإشتراک ہی مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ محدثین کے معیار تواتر پر قرآن بہر حال ثابت ہے۔ المختصر قر آن کریم کے ثبوت میں پانچ طرح کے تواتر او رقطعیت کے ذرائع موجود ہیں۔
 
Top