اس میں اور مذکورہ مسئلے میں فرق ہے۔ لنک والے مسئلے میں ولی یا غیر خود تاجر ہوتا ہے اور نفع میں حصہ رکھتا ہے یا نفع کسی اور کو دیتا ہے۔ جبکہ جرح والے مسئلے میں امام ابو یوسفؒ قاضی تھے، مال یتیم کا تھا، دیتے کسی اور کوتھے تجارت کے لیے اور نفع خود رکھتے تھے۔ یہ تو جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ میں نے مثالوں میں کہا کہ ہمیشہ بعینہ ویسا نہیں ہوتا جیسا بتایا جاتا ہے۔ ایک محدث صرف اسی پر بھروسہ کر کے حکم لگاتا ہے جو اس کے سامنے ہو اور ظاہر ہو۔ یہاں پر یزید بن ہاروں نے واضح نہیں کیا ہے کہ وہ کس طرح اور کس قسم کا نفع خود کے لئے رکھتے تھے۔
اس میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ابو یوسف خود مال کی تجارت کر کے نفع رکھتے تھے یا ظاہری طور پر ہی بس ان کے قاضی ہونے کا سوچ کر فیصلہ کر لیا کہ وہ ضرور کسی اور کو ہی تجارت کے لئے دیتے تھے۔ اور اگر ایسا تھا بھی تو تجارت کرنے اور تجارت کروانے میں زیادہ فرق نہیں ہے کیا اس فتوی میں ایسا ہے کہ خود تجارت کرے تو ہی نفع رکھ سکتا ہے یا کروا کر بھی رکھ سکتا ہے؟ کیونکہ دونوں صورتوں میں وہی فاعل ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ ایک فقہی بحث ہی ہے اور اس کا عدالت کے مجروح ہونے سے تعلق صرف تبھی ہوگا جب ابو یوسف اپنے اجتہاد کی بنا پر اسے شرعا حلال نہ سمجھتے ہوں اور اس کے باوجود وہ ایسا عمل کریں۔
کیا "کذاب" کی جرح مبہم ہے؟ اگر ہے تو کیوں؟ جرح مفسر وہ ہوتی ہے جس میں جرح کا سبب بیان کیا گیا ہو۔ اور اس میں سبب "جھوٹ بولنا" بیان کیا گیا ہے۔
اور اگر ہم اس قسم کے الفاظ کو بھی مبہم مانیں تو اکثر جروح مبہم ہو جائیں گی اور ان کے مقابلے میں مبہم تعدیل راجح ثابت ہوں گی۔ تو "کذاب" کا اعلی مرتبہ جرح ہی ختم ہو جائے گا۔ اس مسئلہ کا کیا حل ہوگا؟
کذاب کی جرح اس لحاظ سے مبہم ہے کہ اکثر اوقات اس سے مراد غلطی کرنا ہوتا ہے، یا کوئی بات غلط بیان کر دینے پر کہہ دیا جاتا ہے، یا کبھی فقہی اور علمی بحث کی بنیاد پر کہہ دیا جاتا ہے، مثلا امام ابو حنیفہ نے بھی انہیں کذاب کہا ہے جبکہ دوسرے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔ اسی طرح امام مالک اور محمد بن اسحاق کی مثال سامنے ہے، عکرمہ مولی ابن عباس کو بھی اسی طرح کذاب کہا گیا ہے۔ اب اگر ان سب کو کذاب مان لیا جائے تو کیا ہو گا؟
کذاب جرح مفسر یقینا ہے لیکن اس لحاظ سے کہ اس سے مراد واقعی وہی لیا جائے جو اس کا اصل معنی ہے۔ لہٰذا اگر یہ اپنے معنی میں یعنی قصدا جھوٹ بولنے کے معنی میں ثابت ہو جائے اور اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو تو یقینا یہ راوی کی عدالت کو ساقط کرنے کے لئے کافی ہے۔
اسی معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ کذاب اور فاسق وغیرہ جیسی جرحیں مبہم ہیں جو دیگر اکثر اقوال کی واضح خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اور اگر یہ اپنے اصل معنی میں مراد ہوں اور یہ بات ثابت ہو جائے تو یقینا یہ جرح ہی کافی ہوگی راوی کو ساقط کرنے کے لئے چاہے اس کے خلاف واضح توثیق ہی کیوں نہ ہو۔
واللہ اعلم۔