• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توثیق قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
السلام علیکم
جزاک اللہ رضا میاں بھائی! یہ ایک عمدہ تحریر ہے۔ لیکن میں اس میں موجود چند اقوال کے حوالے سے کچھ سمجھنا چاہتا ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جی بندہ حاضر ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.
انکی مرویات دیکھنی ہو تو کس کتاب میں دیکھیں؟؟؟
جزاکم اللہ خیرا
والسلام
عام کتب حدیث میں مثلا طبرانی کی معاجم، صحیح ابن حبان، سنن الکبری للبیہقی، الام للشافعی، مسند ابی حنیفہ لابی نعیم، معجم ابن المقری وغیرہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جی بندہ حاضر ہے۔
عبد اللہ بن ادریس الکوفی فرماتے ہیں: "كان....وأبو يوسف فاسقا من الفاسقين" اور ابو یوسف فاسقوں میں سے ایک فاسق تھا۔ (الضعفاء للعقیلی 4/440 وسندہ صحیح)

یہ عدالت پر جرح نہیں ہے؟ اس میں تضعیف کیسے نہیں ہے اور یہ فقہ سے متعلق کیسے ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اسی طرح:
o امام یزید بن ہارون فرماتے ہیں: "لا يحل الرواية عنه، إنه كان يعطي أموال اليتامي مضاربة ويجعل الربح لنفسه" اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے، یہ (ابو یوسف) یتیموں کے مال بطورِ مضاربت (تجارت میں) لگاتا اور اس کا نفع خود کھا جاتا تھا۔
(الضعفاء للعقیلی 4/440 وسندہ صحیح، تاریخ بغداد 14/258 وسندہ صحیح)
تبصرہ:
اس قول میں بھی یزید بن ہارون کا ابو یوسف سے روایت نہ لینے کی تلقین محض فقہی بنیاد پر ہے۔

اس کا ترجمہ درست کریں تو یہ ہوگا: "وہ یتیموں کے مال مضاربت کے طور پر دیتا تھا"۔ ابو یوسف قاضی تھے اور بطور قاضی کے، وہ امراء کو یتیموں کے اموال مضاربت کے لیے دے سکتے تھے تاکہ وہ اموال بڑھتے رہیں۔
لیکن اس صورت میں نفع اپنے لیے رکھنا تو سراسر جرح ہے جو انسان کو فاسق ثابت کرتی ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
عبد اللہ بن ادریس الکوفی فرماتے ہیں: "كان....وأبو يوسف فاسقا من الفاسقين" اور ابو یوسف فاسقوں میں سے ایک فاسق تھا۔ (الضعفاء للعقیلی 4/440 وسندہ صحیح)

یہ عدالت پر جرح نہیں ہے؟ اس میں تضعیف کیسے نہیں ہے اور یہ فقہ سے متعلق کیسے ہے؟
اس کے درج ذیل جوابات ہیں:
1- فاسق کی جرح کذاب، یا مبتدع وغیرہ کی طرح مبہم ہے، اور واضح توثیق کے خلاف ناقابل قبول ہے۔
2- جب کوئی محدث کسی کی توثیق کرتا ہے تو اس میں ضبط اور عدالہ دونوں شامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ جرح ان تمام محدثین کے خلاف ہے۔
3- علماء و محدثین اکثر و بیشتر باہمی اختلاف کی وجہ سے بھی کذاب یا فاسق کی شدید جرح کر دیتے ہیں۔ مثلا امام مالک نے محمد بن اسحاق بن یسار کو اس لئے کذاب کہا کیونکہ انہوں نے امام مالک کے نسب کو بیان کرنے میں غلطی کی۔
4- اس قول میں واضح نہیں ہے کہ فسق کی وجہ کیا ہے، اور نہ ہی اس کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اور ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ فقہی اختلاف کی بنا کر کی گئی جرح ہے، کیونکہ ایک چیز اگر ایک کے نزدیک حرام ہو اور دوسرا اسے حلال سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائے تو محدثین بعض اوقات اس عمل پر اپنے حکم کی بنا پر ہی اس شخص کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص نبیذ پیتا ہے جو دوسرے محدث کے نزدیک حرام ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے، یا اگر کسی شخص کو باجماعت نماز پڑھتا نہ دیکھیں تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ نماز ہی نہیں پڑھتا (کیونکہ وہ اسے مسجد میں نہیں پاتے)۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ بلکہ امام ابو حنیفہ کے متعلق بھی ایک ایسی مثال ملتی ہے کہ ان سے پوچھا گیا اگر کوئی شخص اللہ کے تقرب کی غرض سے جوتے کی پوجا کرتا ہے تو کیا وہ مؤمن ہے تو انہوں نے کہا ہاں۔ یہ ان کے ایمان کی تعریف کے اختلاف کی وجہ سے انہوں نے اس شخص کی تکفیر سے منع کیا تو کسی دوسرے شخص یہ کہہ دیا کہ امام ابو حنیفہ جوتے کی پوجا کو جائز سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایسی مبہم چیزوں پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے جبکہ واضح توثیق اس کے خلاف ثابت ہو۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسی طرح:
o امام یزید بن ہارون فرماتے ہیں: "لا يحل الرواية عنه، إنه كان يعطي أموال اليتامي مضاربة ويجعل الربح لنفسه" اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے، یہ (ابو یوسف) یتیموں کے مال بطورِ مضاربت (تجارت میں) لگاتا اور اس کا نفع خود کھا جاتا تھا۔
(الضعفاء للعقیلی 4/440 وسندہ صحیح، تاریخ بغداد 14/258 وسندہ صحیح)
تبصرہ:
اس قول میں بھی یزید بن ہارون کا ابو یوسف سے روایت نہ لینے کی تلقین محض فقہی بنیاد پر ہے۔

اس کا ترجمہ درست کریں تو یہ ہوگا: "وہ یتیموں کے مال مضاربت کے طور پر دیتا تھا"۔ ابو یوسف قاضی تھے اور بطور قاضی کے، وہ امراء کو یتیموں کے اموال مضاربت کے لیے دے سکتے تھے تاکہ وہ اموال بڑھتے رہیں۔
لیکن اس صورت میں نفع اپنے لیے رکھنا تو سراسر جرح ہے جو انسان کو فاسق ثابت کرتی ہے۔
جی یہ بھی ایک فقہی اختلاف ہے۔ دیکھیں
https://islamqa.info/ar/227700
اور حنفی مذہب کے مطابق ہے۔
واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس کے درج ذیل جوابات ہیں:
1- فاسق کی جرح کذاب، یا مبتدع وغیرہ کی طرح مبہم ہے، اور واضح توثیق کے خلاف ناقابل قبول ہے۔
2- جب کوئی محدث کسی کی توثیق کرتا ہے تو اس میں ضبط اور عدالہ دونوں شامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ جرح ان تمام محدثین کے خلاف ہے۔
3- علماء و محدثین اکثر و بیشتر باہمی اختلاف کی وجہ سے بھی کذاب یا فاسق کی شدید جرح کر دیتے ہیں۔ مثلا امام مالک نے محمد بن اسحاق بن یسار کو اس لئے کذاب کہا کیونکہ انہوں نے امام مالک کے نسب کو بیان کرنے میں غلطی کی۔
4- اس قول میں واضح نہیں ہے کہ فسق کی وجہ کیا ہے، اور نہ ہی اس کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اور ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ فقہی اختلاف کی بنا کر کی گئی جرح ہے، کیونکہ ایک چیز اگر ایک کے نزدیک حرام ہو اور دوسرا اسے حلال سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائے تو محدثین بعض اوقات اس عمل پر اپنے حکم کی بنا پر ہی اس شخص کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص نبیذ پیتا ہے جو دوسرے محدث کے نزدیک حرام ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے، یا اگر کسی شخص کو باجماعت نماز پڑھتا نہ دیکھیں تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ نماز ہی نہیں پڑھتا (کیونکہ وہ اسے مسجد میں نہیں پاتے)۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ بلکہ امام ابو حنیفہ کے متعلق بھی ایک ایسی مثال ملتی ہے کہ ان سے پوچھا گیا اگر کوئی شخص اللہ کے تقرب کی غرض سے جوتے کی پوجا کرتا ہے تو کیا وہ مؤمن ہے تو انہوں نے کہا ہاں۔ یہ ان کے ایمان کی تعریف کے اختلاف کی وجہ سے انہوں نے اس شخص کی تکفیر سے منع کیا تو کسی دوسرے شخص یہ کہہ دیا کہ امام ابو حنیفہ جوتے کی پوجا کو جائز سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایسی مبہم چیزوں پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے جبکہ واضح توثیق اس کے خلاف ثابت ہو۔
جزاک اللہ احسن الجزاء۔ بارک اللہ فی علمک و عملک۔

جی یہ بھی ایک فقہی اختلاف ہے۔ دیکھیں
https://islamqa.info/ar/227700
اور حنفی مذہب کے مطابق ہے۔
واللہ اعلم
اس میں اور مذکورہ مسئلے میں فرق ہے۔ لنک والے مسئلے میں ولی یا غیر خود تاجر ہوتا ہے اور نفع میں حصہ رکھتا ہے یا نفع کسی اور کو دیتا ہے۔ جبکہ جرح والے مسئلے میں امام ابو یوسفؒ قاضی تھے، مال یتیم کا تھا، دیتے کسی اور کوتھے تجارت کے لیے اور نفع خود رکھتے تھے۔ یہ تو جائز نہیں ہے۔
لیکن بہرحال چونکہ یزید بن ہارون نے کوئی واضح صورت نہیں لکھی کہ انہوں نے یہ بات کہاں سے اخذ کی ہے اور وہ ہیں بھی معاصرین میں سے اس لیے میرے خیال میں یہ جرح قبول نہیں ہونی چاہیے۔ جزاک اللہ خیرا


o امام ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی ٣٨٥ ھ) ابو یوسف کے بارے میں فرماتے ہیں: "أعور بين عميان" اندھوں میں کانا۔
(تاریخ بغداد 14/260 وسندہ صحیح)
تبصرہ:
یہ قول بھی مبہم ہے اور قابل اعتبار نہیں! اور نہ ہی اس میں کہیں کوئی تضعیف کا صیغہ موجود ہے۔

اردو محاورہ میں اسے بولا جائے تو "اندھوں میں کانا راجا"۔ اور یہ "کانا ہونا" عیب بتانا ہوتا ہے۔ اس میں تضعیف کا صیغہ تو نہیں ہے لیکن معنی تضعیف کا ہی ہے۔
آپ مبہم ہونے سے کیا مراد لیتے ہیں؟ یہ "ضعیف" کے مرتبے میں ہوگا کم از کم۔ اس لیے کہ دارقطنیؒ ابو حنیفہؒ کو کافی ضعیف قرار دیتے تھے تو انہیں کم ضعیف قرار دیا۔ تو کیا اسے اس مرتبے میں رکھا جانا چاہیے؟
(یہ دارقطنیؒ کے تشدد سےقطع نظر کہہ رہا ہوں۔ ورنہ اگر قاضی ابو یوسفؒ کی توثیق کو ثابت مانیں تو دارقطنیؒ کے الفاظ بڑے عجیب ہیں۔)


ایک اور سوال آپ کے اس قول کی بابت کرنا چاہتا ہوں:
- فاسق کی جرح کذاب، یا مبتدع وغیرہ کی طرح مبہم ہے، اور واضح توثیق کے خلاف ناقابل قبول ہے۔
کیا "کذاب" کی جرح مبہم ہے؟ اگر ہے تو کیوں؟ جرح مفسر وہ ہوتی ہے جس میں جرح کا سبب بیان کیا گیا ہو۔ اور اس میں سبب "جھوٹ بولنا" بیان کیا گیا ہے۔
اور اگر ہم اس قسم کے الفاظ کو بھی مبہم مانیں تو اکثر جروح مبہم ہو جائیں گی اور ان کے مقابلے میں مبہم تعدیل راجح ثابت ہوں گی۔ تو "کذاب" کا اعلی مرتبہ جرح ہی ختم ہو جائے گا۔ اس مسئلہ کا کیا حل ہوگا؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اس میں اور مذکورہ مسئلے میں فرق ہے۔ لنک والے مسئلے میں ولی یا غیر خود تاجر ہوتا ہے اور نفع میں حصہ رکھتا ہے یا نفع کسی اور کو دیتا ہے۔ جبکہ جرح والے مسئلے میں امام ابو یوسفؒ قاضی تھے، مال یتیم کا تھا، دیتے کسی اور کوتھے تجارت کے لیے اور نفع خود رکھتے تھے۔ یہ تو جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ میں نے مثالوں میں کہا کہ ہمیشہ بعینہ ویسا نہیں ہوتا جیسا بتایا جاتا ہے۔ ایک محدث صرف اسی پر بھروسہ کر کے حکم لگاتا ہے جو اس کے سامنے ہو اور ظاہر ہو۔ یہاں پر یزید بن ہاروں نے واضح نہیں کیا ہے کہ وہ کس طرح اور کس قسم کا نفع خود کے لئے رکھتے تھے۔
اس میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ابو یوسف خود مال کی تجارت کر کے نفع رکھتے تھے یا ظاہری طور پر ہی بس ان کے قاضی ہونے کا سوچ کر فیصلہ کر لیا کہ وہ ضرور کسی اور کو ہی تجارت کے لئے دیتے تھے۔ اور اگر ایسا تھا بھی تو تجارت کرنے اور تجارت کروانے میں زیادہ فرق نہیں ہے کیا اس فتوی میں ایسا ہے کہ خود تجارت کرے تو ہی نفع رکھ سکتا ہے یا کروا کر بھی رکھ سکتا ہے؟ کیونکہ دونوں صورتوں میں وہی فاعل ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ ایک فقہی بحث ہی ہے اور اس کا عدالت کے مجروح ہونے سے تعلق صرف تبھی ہوگا جب ابو یوسف اپنے اجتہاد کی بنا پر اسے شرعا حلال نہ سمجھتے ہوں اور اس کے باوجود وہ ایسا عمل کریں۔

کیا "کذاب" کی جرح مبہم ہے؟ اگر ہے تو کیوں؟ جرح مفسر وہ ہوتی ہے جس میں جرح کا سبب بیان کیا گیا ہو۔ اور اس میں سبب "جھوٹ بولنا" بیان کیا گیا ہے۔
اور اگر ہم اس قسم کے الفاظ کو بھی مبہم مانیں تو اکثر جروح مبہم ہو جائیں گی اور ان کے مقابلے میں مبہم تعدیل راجح ثابت ہوں گی۔ تو "کذاب" کا اعلی مرتبہ جرح ہی ختم ہو جائے گا۔ اس مسئلہ کا کیا حل ہوگا؟
کذاب کی جرح اس لحاظ سے مبہم ہے کہ اکثر اوقات اس سے مراد غلطی کرنا ہوتا ہے، یا کوئی بات غلط بیان کر دینے پر کہہ دیا جاتا ہے، یا کبھی فقہی اور علمی بحث کی بنیاد پر کہہ دیا جاتا ہے، مثلا امام ابو حنیفہ نے بھی انہیں کذاب کہا ہے جبکہ دوسرے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔ اسی طرح امام مالک اور محمد بن اسحاق کی مثال سامنے ہے، عکرمہ مولی ابن عباس کو بھی اسی طرح کذاب کہا گیا ہے۔ اب اگر ان سب کو کذاب مان لیا جائے تو کیا ہو گا؟
کذاب جرح مفسر یقینا ہے لیکن اس لحاظ سے کہ اس سے مراد واقعی وہی لیا جائے جو اس کا اصل معنی ہے۔ لہٰذا اگر یہ اپنے معنی میں یعنی قصدا جھوٹ بولنے کے معنی میں ثابت ہو جائے اور اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو تو یقینا یہ راوی کی عدالت کو ساقط کرنے کے لئے کافی ہے۔
اسی معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ کذاب اور فاسق وغیرہ جیسی جرحیں مبہم ہیں جو دیگر اکثر اقوال کی واضح خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اور اگر یہ اپنے اصل معنی میں مراد ہوں اور یہ بات ثابت ہو جائے تو یقینا یہ جرح ہی کافی ہوگی راوی کو ساقط کرنے کے لئے چاہے اس کے خلاف واضح توثیق ہی کیوں نہ ہو۔

واللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اسی معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ کذاب اور فاسق وغیرہ جیسی جرحیں مبہم ہیں جو دیگر اکثر اقوال کی واضح خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اور اگر یہ اپنے اصل معنی میں مراد ہوں اور یہ بات ثابت ہو جائے تو یقینا یہ جرح ہی کافی ہوگی راوی کو ساقط کرنے کے لئے چاہے اس کے خلاف واضح توثیق ہی کیوں نہ ہو۔
بہت عمدہ
جزاک اللہ خیرا.

یہ ثابت کیسے ہوگی؟ مطلب یہ کہ کیا ہم احادیث کے طرق کا آپس میں موازنہ کریں گے یا جارحین کی عبارات کو دیکھیں گے؟ یا دونوں طریقے استعمال کریں گے؟
 
Top