• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توثیق قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
یہ ثابت کیسے ہوگی؟ مطلب یہ کہ کیا ہم احادیث کے طرق کا آپس میں موازنہ کریں گے یا جارحین کی عبارات کو دیکھیں گے؟ یا دونوں طریقے استعمال کریں گے؟
لگتا ہے آپ میرا امتحان لے رہے ہیں، ابتسامہ۔ حالانکہ میرا اس مسئلے میں کچھ بھی کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اس کے لئے ہم دیگر اقوال کا موازنہ کریں گے۔
جارح اور مجروح کے آپس میں معاصرت، اور باہمی اختلاف کو مد نظر رکھیں گے۔
جارح کی عادت کو دیکھیں گے، متعنت یا متشدد تو نہیں۔
واقعے کے سیاق کو دیکھیں گے وغیرہ وغیرہ۔
الغرض جہاں کہیں بھی احتمال کا شبہ آ جائے تو دیگر اقوال کے تحت فیصلہ ہو گا۔
باقی اہل علم زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں۔
میرے خیال سے اس طرح کے دیگر الفاظ جیسے یضع الحدیث، یا کذب کے ساتھ وضع کا بیان، یا اسی طرح دیگر الفاظ جیسے متہم، متروک کذاب، متروک وضاع، رافضی کذاب، کذاب خبیث اس جیسے شدید اور واضح الفاظ میں محض "کذاب" کی نسبت بہت کم احتمال ہوتا ہے۔ کیونکہ صرف کذاب غلطیوں اور آراء پر بھی بولا جاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لگتا ہے آپ میرا امتحان لے رہے ہیں، ابتسامہ۔ حالانکہ میرا اس مسئلے میں کچھ بھی کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ہر گز نہیں میرے بھائی. میں نے آپ بھائیوں سے بہت علم حاصل کیا ہے ہمیشہ. شاید یہی وجہ ہے کہ میں محدث فورم پر آنا کبھی ترک نہیں کرتا.
علم تو ہرجگہ سے حاصل کرنا چاہیے جہاں سے ملے. اور پھر آپ جیسے بھائیوں سے, جن کا وہ اختصاصی اور پسندیدہ موضوع ہو, تو ضرور استفادہ کرنا چاہیے.
مسلک کا اختلاف الگ چیز ہے لیکن اسے علم اور اعتدال کی راہوں کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہیے.
ویسے بھی میں تو ایک طالب علم ہوں لیکن بڑے بڑے علماء بھی مذاکرہ کرتے ہیں حالانکہ وہ خود مرجع خلائق اور حفاظ ہوتے ہیں. خصوصا علم حدیث میں تو مذاکرہ بہت عام ہے.


جارح اور مجروح کے آپس میں معاصرت، اور باہمی اختلاف کو مد نظر رکھیں گے۔
جارح کی عادت کو دیکھیں گے، متعنت یا متشدد تو نہیں۔
واقعے کے سیاق کو دیکھیں گے وغیرہ وغیرہ۔
الغرض جہاں کہیں بھی احتمال کا شبہ آ جائے تو دیگر اقوال کے تحت فیصلہ ہو گا۔
باقی اہل علم زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں۔
میرے خیال سے اس طرح کے دیگر الفاظ جیسے یضع الحدیث، یا کذب کے ساتھ وضع کا بیان، یا اسی طرح دیگر الفاظ جیسے متہم، متروک کذاب، متروک وضاع، رافضی کذاب، کذاب خبیث اس جیسے شدید اور واضح الفاظ میں محض "کذاب" کی نسبت بہت کم احتمال ہوتا ہے۔ کیونکہ صرف کذاب غلطیوں اور آراء پر بھی بولا جاتا ہے۔
جزاک اللہ خیرا.

ایک سوال امام احمد رح کے حوالے سے ہے لیکن میں ابھی موبائل سے آن لائن ہوں. کمپیوٹر سے دیکھ کر عرض کروں گا.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
محترم جناب @رضا میاں صاحب حفظہ اللہ!
آپ نے لکھا:
امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی ٢٥٩ ھ) فرماتے ہیں: "تركوه" یعنی محدثین نے اسے ترک کر دیا ہے۔
(التاریخ الکبیر 8/397)
یہاں محدثین سے مراد یحیی القطان، عبد الرحمن بن مہدی اور وکیع وغیرہ ہیں جیسا کہ ایک دوسری جگہ امام بخاری فرماتے ہیں: "تركه يحيي وعبد الرحمن ووكيع وغيرهم"
(الضعفاء الصغیر 225 وتحفۃ الاقویاء ص 122)
تبصرہ:
امام بخاری کی یہ جرح مفسر تعدیل کے سامنے غیر مفسر ہے اور مذکورہ بالا محدثین کا ابو یوسف کو ترک کردینے سے ان کی تضعیف لازم نہیں آتی۔
میں نے تو پڑھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اگر متروک کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ آخری درجے کی جرح ہے. پھر کیوں یہ غیر مفسر ہے؟؟؟
براہ کرم! اصلاح کریں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اگر متروک کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ آخری درجے کی جرح ہے.
ایک امام کا کہنا ہے :
إذا قالوا: "متروك الحديث" أو ذاهب الحديث، أو كذّاب، فهو ساقط الحديث، لا يكتب حديثه.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
ایک امام کا کہنا ہے :
إذا قالوا: "متروك الحديث" أو ذاهب الحديث، أو كذّاب، فهو ساقط الحديث، لا يكتب حديثه.
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ.

وہی بات سمجھ میں نہیں آئی. امام بخاری کے ساتھ ساتھ امام یحی وغیرہم بھی اس جرح میں شامل ہیں.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم جناب @رضا میاں صاحب حفظہ اللہ!
آپ نے لکھا:

میں نے تو پڑھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اگر متروک کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ آخری درجے کی جرح ہے. پھر کیوں یہ غیر مفسر ہے؟؟؟
براہ کرم! اصلاح کریں.
صحیح جواب تو رضا میاں بھائی ہی دیں گے. میرا خیال یہ ہے کہ یہ قول ان کے بارے میں ہے جن کے بارے میں دوسروں سے بھی مفسر جرح موجود ہو.
جہاں ہمیں علم ہے کہ انہیں فقہی اختلاف یا کسی اور وجہ سے ترک کیا گیا ہے وہاں "ترکوہ" یا "متروک" تو صرف ایک خبر ہے. ویسے بھی یہ مراد امام بخاری رح نے خود بیان نہیں کی بلکہ آئیندہ آنے والوں نے امام کے طرز کو دیکھ کر اخذ کی ہے. اس لیے اس کے خلاف ہونا ممکن ہے.
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
محترم جناب @رضا میاں صاحب حفظہ اللہ!
آپ نے لکھا:

میں نے تو پڑھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اگر متروک کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ آخری درجے کی جرح ہے. پھر کیوں یہ غیر مفسر ہے؟؟؟
براہ کرم! اصلاح کریں.
جی بھائی ویسے تو کذاب بھی آخری درجے کی جرح ہوتی ہے اس میں کس کو اختلاف ہے لیکن صرف جرح کے درجے کو ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ کہنے والے کو اور اس کے مقصد ومعنی کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
ابو یوسف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اہل الرائے میں سے ہیں اور صرف اسی کو بنیاد بنا کر اکثر نے انہیں ضعیف کہہ دیا ہے نہ کہ ان کی حدیث کو پرکھ کر۔ جیسے امام احمد نے تو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا:
"صدوق، ولكن من أصحاب أبي حنيفة، لا ينبغي أن يروي عنه شيء." اس سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر محدثین نے ان پر جرح ان کی رائے کی وجہ سے کی ہے۔ اسی لئے محقق الضعفاء الصغیر للبخاری نے امام بخاری کے قول کے تحت لکھا ہے: " والظاهر أن البخاري رحمه الله وغيره تكلموا فيه لأجل الرأي، لا لضعفه
ویسے تو یہ جرح اگر حدیث کو پرکھ کر کی جائے تو یقینا مفسر ہے۔ بلکہ ہر وہ جرح مفسر ہے جس میں راوی کی حدیث، تحمل روایت، یا اس کے حفظ وضبط پر جرح کی گئی ہو، لیکن جہاں کہیں بھی یہ شک ہو جائے کہ حدیث کے علاوہ کسی چیز کی وجہ سے اس پر جرح کی گئی ہے تو وہ جرح مفسر بھی مفسر نہیں رہتی خاص کر جب بات ان الفاظ کی ہو جو عموم پر بھی بولے جا سکتے ہیں جیسے کذاب، ضعیف، متروک۔ اس کے برعکس اگر "متروک الحدیث" ہوتا تو بات اور تھی۔ اور اس قول میں دیکھیں تو امام بخاری نے انہیں ترکوہ کہا ہے یعنی یحیی القطان، ابن مہدی، اور وکیع نے انہیں ترک کیا ہے۔ اور جب ہم ان کے قول دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ترک کیوں کیا ہے تو یحیی القطان یہ وجہ بتاتے ہیں کہ وہ مرجئی ہے یعنی یہ بھی مذہب کی وجہ سے جرح کی گئی ہے نہ کہ حدیث میں ضعف کی وجہ سے۔ اور ترک کرنے کی یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ اسی لئے ابو یوسف کے معاملے میں صحیح اور اعدل رائے وہی ہے جو ان کی حدیث کے مد نظر ان کے مخالفینِ مذہب تک نے دی ہیں اور اس سے بڑی انصاف کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے، برعکس اس رائے کہ جو ان کے مذہب اور رائے کو مدنظر رکھ کر دی گئی ہے اور اس بات کو وہ خود اپنی زبان سے کہتے نظر آتے ہیں۔ دونوں میں فرق واضح ترین ہے۔
واللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
وہ سوال کیا ہے؟
"صدوق، ولكن من أصحاب أبي حنيفة، لا ينبغي أن يروي عنه شيء."
سوال یہ ہے کہ امام احمد کی مسند حدیث کی کتابوں میں جمع حدیث کے حوالے سے اعلی ترین کتاب ہے. آپ نے یہ اسی لیے لکھی تھی کہ اگر کوئی روایت اس میں نہ ملے تو سمجھ لیا جائے کہ اس میں کوئی مسئلہ ہے. دوسرا امام احمد رح فقاہت و حدیث دونوں میں ماہر تھے. غلط کو صحیح سے جدا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے. تیسرا آپ نے ان روایات کو بھی نقل کیا ہے جو آپ کے مسلک کے خلاف تھیں.
چوتھا آپ نے ضعیف رواۃ سے بھی روایات نقل کی ہیں
تو پھر قاضی ابو یوسف رح کو ترک کرنے کی کیا وجہ ہے؟ جب کہ وہ خود ان کی توثیق کر رہے ہیں. صرف اس بات کو ناپسند کر رہے ہیں کہ وہ ابو حنیفہ کے ساتھی ہیں. اور صرف اس بنا پر ان کی روایات لینے اور کرنے سے رکنا تو خاکم بدہن امام ابو حنیفہ یا اصحاب الرائے سے تعصب کو ظاہر کرتا ہے. یا پھر کیا یہ بھی مسئلہ خلق قرآن کا کوئی نتیجہ تھا؟
جن محدثین نے عموما اصحاب الرائے کی روایات کو نہیں لیا ان پر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے کیوں نہیں لیا؟ اگر آج یہ کوئی وجہ نہیں ہے تو اس زمانے میں بھی نہیں تھی. لیکن ہم وہاں یہ توجیہ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اس خوف سے نہیں لیا ہوگا کہ غلط احادیث یعنی جن میں رائے کی آمیزش ہو گئی ہو وہ روایت نہ ہو جائیں (حالانکہ زہری رح کے ادراجات اور تطبیقات و جمع کو روایت کرنا اس توجیہ کو باطل کرتا ہے) لیکن امام احمد رح کے حوالے سے یہ توجیہ نہیں کی جا سکتی.
 
Top