کیا "اہلحدیث" کے علاوہ اہل هند و پاک کے علماء میری مدد فرمائینگے؟ موضوع اتنا حساس نهیں هے ۔ آپ کی مدد سے ایک گمراهی کا خاتمہ هو سکتا هے ۔ جہاد سے افضل عمل هے ۔ اللہ سب کو توفیق اور همت دے ۔
السلام علیکم ورحمہ اللہ ؛
محترم بھائی !
اس تھریڈ کی دوسری پوسٹ میں سنن دارمی کی جو حدیث ابن قدامہ بھائی نے نقل کی ہے ۔اس میں آپ کے سوال کا شافی جواب موجود ہے؛
اس حدیث میں ہے کہ:
خیر القرون کے دور کے کچھ لوگ۔۔ مسجد میں ۔۔جمع ہوکر ۔۔اجتماعی طور پر ۔۔بآوازبلند اللہ کا ذکر کر رہے تھے ۔۔
انہیں دیکھ کر ایک مشہور و معروف مجتہد اور مفسر صحابی ابن مسعودرضی اللہ نے ان کا رد کرتے ہوئے انہیں اس عمل کی بنا پر بدعتی قرار دیا ‘‘
یہ بہت واضح اور مستند دلیل ہے کہ خود ساختہ کیفیت میں اجتماعی ذکر اللہ بدعت ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ::
قال الشافعي رحمه الله : " وأختار للإمام والمأموم أن يذكر الله بعد الانصراف من الصلاة ، ويخفيان الذكر إلا أن يكون إماماً يجب أن يُتعلم منه فيجهر حتى يرى أنه قد تُعلم منه ، ثم يسر ؛ فإن الله عز وجل يقول ( ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها ) يعنى – والله تعالى أعلم - : الدعاء ، ( ولا تجهر ) ترفع ، ( ولا تخافت ) حتى لا تُسمع نفسك .
میرا مختار قول یہ ہے کہ :
نماز کے بعد امام اور مقتدی اللہ کا (مسنون ) ذکر کریں ،لیکن یہ ذکر مخفی ہونا چاہیئے (جہری نہیں )
ہاں اگر مقتدیوں کو سکھلانے کیلئے کچھ دن امام مسنون اذکار جہراً پڑھ سکتا ہے ،اور وہ دیکھے کہ اب مقتدی حضرات مسنون اذکار کے الفاظ سیکھ چکے تو پھر اسے بھی سراً یہ اذکار پڑھنا ہونگے ۔کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :(اے نبی مکرم ! اپنی دعاء میں آواز نہ بہت بلند کر اور نہ نہایت مخفی ، بلکہ ان دونوں کے درمیان کی آواز سے پڑھ ۔یعنی صرف اپنے آپ کو سنا ‘‘
اور امام شافعی رحمہ اللہ، مزید فرماتے ہیں ::
وأحسب ما روى ابن الزبير من تهليل النبي صلى الله عليه وسلم ، وما روى ابن عباس من تكبيره كما رويناه - قال الشافعي : وأحسبه إنما جهر قليلاً ليتعلم الناس منه ؛ وذلك لأن عامة الروايات التي كتبناها مع هذا وغيرها ليس يذكر فيها بعد التسليم تهليل ، ولا تكبير .
وقد يذكر أنه ذكر بعد الصلاة بما وصفت ويذكر انصرافه بلا ذكر .
وذكرتْ أم سلمة مكثه ولم تذكر جهراً ، وأحسبه لم يمكث إلا ليذكر ذكراً غير جهر " انتهى من "الأم" (1 /127)
.’’ میں سمجھتا ہوں کہ حدیث میں ابن الزبیر ؓ نے پیغبر اکرم ﷺ کا نماز کے جو بلند آواز سے انفراداً
«لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ» «صحیح مسلم » نقل کیا ہے ،اور ابن عباس ؓ جو بعد از نماز بلند « اللہ اکبر » کہنا بیان کیا ہے،امام شافعی فرماتے یہ بلند ذکر بھی تعلیم کی غرض سے قلیل عرصہ کیلئے تھا ،کیونکہ اکثر روایات میں سلام کے بعد اس جہری تہلیل اور تکبیر کا ذکر نہیں (بلکہ دیگر اذکار مروی ہیں )
اور سیدہ ام سلمہ ؓ نے بعد از سلام ذکر بتایا لیکن بالجہر کا ذکر نہیں کیا ۔
امام شافعی فرماتے اسی لئے میں سمجھتا کہ نمازی سلام کے کچھ دیر کیلئے آہستہ یعنی خفی ذکرلے ‘‘
(کتاب الام (1 /127)
آپ نے امام شافعی ؒ کا موقف دیکھا اس میں نماز کے بعداحادیث سے ثابت انفرادی ذکر بھی بالجہر پڑھنے سے روک رہے ہیں
اجتماعی تو سرے سے خود ساختہ عمل ہے ؛؛
آخر میں ایک اصول بتا دوں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں
ایک بدعت حقیقی ( وہ عمل یا عقیدہ جس کی اصل سرے سے ثابت ہی نہیں ،)
دوسری بدعت اضافی۔۔(جس کی اصل تو شرع سے ثابت ہو لیکن مروجہ کیفیت و مقدار خود ساختہ ہو ))
اب بعد از نماز اذکار پڑھنے تو ثابت ہیں ۔۔لیکن وہ بھی انفرادی صورت میں ۔۔اور آہستہ آواز سے ۔
ان اذکار کو اجتماعی شکل میں بآواز بلند پڑھنا یقیناً بدعت ہے ؛
مزید توضیح کیلئے حکم کا منتظر